مطالعہ سنن النسائی (۳)

سوالات: ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات: ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: زبیر بن عدی سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حجر اسود کے چومنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود کو چومتے اور چھوتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا کہ اگر لوگ مجھ پر ہجوم کریں اور میں مغلوب ہو جاؤں تو پھر بھی ضرور اس کو چوموں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ اگر مگر تم یمن میں رکھ کر آؤ1۔ سوال یہ ہے کہ پوچھنے والے کی بات تو معقول تھی کہ اگر بہت زیادہ رش ہو تو میں کیا کروں؟ اور دوسری بات یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل موجود ہے جو دور سے استلام کر لیتے تھے۔

عمار ناصر: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا ایک خاص مزاج تھا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی چیزوں میں بھی اتباع کرتے تھے، اور یہ تو حج کے مناسک میں سے ایک ہے۔ تو اس موقع پر جو کسی کا ذوق ہے، وہ نمایاں ہوتا ہے۔ دور سے استلام کرنا تو رخصت ہے، لیکن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حج تو مشقت ہی کا نام ہے تو مشقت میں یہ بھی شامل ہے کہ یہ کام کرو۔ اگر ہجوم ہے تو بھی یہ کام کرو، کیونکہ جو باقی لوگ ہجوم میں موجود ہیں، وہ بھی تو اسی مشقت سے گزر کر یہ کام کر رہے ہیں۔

مطیع سید: مجھے لگتا ہے کہ ہم لوگ بسا اوقات اہل حدیث کے منہج کو عجیب سا محسوس کرتے ہیں اور ایک الجھن سی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن کئی صحابہ کے مزاج اس طرح کے نظر آتے ہیں کہ وہ ظاہر پر عمل کرتے ہیں۔

عمار ناصر: ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ ظاہر میں آپ کو دونوں ایک لگتے ہیں لیکن ان میں بہت فرق ہے۔ صحابہ کے ہاں وہ چیز ایک دینی مزاج اور دینی ذوق سے پیدا ہوئی ہے، یہاں وہ چیز حرفیت پسندی Literal Understanding سے پیدا ہوئی ہے۔ صحابہ کے ہاں یہ Literalismنہیں تھا، وہ ان کے اندر سے پیدا ہوئی ایک چیز ہے جو بری نہیں لگتی۔ اس کی ایک اساس موجود ہے اور ایک ذوق اس میں جھلکتا ہے ، اور آپ دیکھیں گے کہ صحابہ کی پوری شخصیت میں وہ مزاج اور ذوق نظر آئے گا۔ خدا خوفی، لوگوں کے ساتھ معاملات، حسن سلوک، تقویٰ ان کی پوری شخصیت کا حصہ نظر آتا ہے۔ یہ جو Literal Understanding ہے، اس میں آپ کو نظر آئے گا کہ باقی چیزوں میں تو کوئی دینی ذوق دکھائی نہیں دیتا، لیکن یہ بات بہت اہم بن جاتی ہے کہ حدیث میں اگر کوئی بات آگئی ہے تو اس پر لفظ بلفظ عمل کیا جائے۔ تو یہ بالکل الگ چیز ہے۔

مطیع سید: وہ جو مشہور روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم عصر کی نماز بنو قریظہ جا کر پڑھنا، اس میں بھی یہی چیز ہے؟

عمار ناصر: وہاں ذوق کا اتنا مسئلہ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا کیا ہے، اس کو سمجھنے کا مسئلہ ہے۔ کچھ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ منشا نہیں ہے کہ ہم نماز قضا کردیں، مقصد یہ ہے کہ جلدی پہنچیں، لیکن اگر نہیں پہنچ سکے تو نماز تو وقت پر پڑھنی ہے۔ جو دوسرے تھے، انہوں نے یہ سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم دیا ہے، اسی کو پورا کرنا ہے۔ اگر نماز قضا بھی ہو رہی ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہی ہو رہی ہے۔

مطیع سید: کیا یہ بات کہیں آئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو پسند کیا جنہوں نے نماز پڑھ لی تھی؟

عمار ناصر: میرے ذہن میں نہیں ہے۔ بخاری کی روایت میں اتنا ہی ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی پر بھی تنقید نہیں کی۔

مطیع سید: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ پہنچ گئے۔ حضرت ابوبکر نے پوچھا کہ تم امیر ہو کر آئے ہو یا کوئی پیغام لے کر آئے ہو2؟ میرا سوال یہ ہے کہ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان براءت کے لیے خاص طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کیا اس لیے بھیجا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات کو لوگ اہمیت نہیں دیں گے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات کو میری قربت کی وجہ سے اہمیت دیں گے؟جبکہ خلافت جو اس سے بڑی ذمہ داری تھی، اس کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا گیا، اس کی کیا وجہ ہے؟

عمار ناصر: اس میں یہ وجہ نہیں تھی کہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات کو نہیں مانیں گے یا ان کی بات کی تصدیق نہیں کریں گے۔ ان کو امیر بنا کر بھیجا گیا ہے تو ظاہر ہے کہ لوگ ان کی بات مانیں گے۔ یہ اصل میں معاہدے توڑنے کا اعلان کرنا تھا، اس کی خاص حساسیت اور نوعیت ہے۔ مشرکین سے آپ نے معاہدے کیے تھے اور اللہ کے پیغمبر کے طور پر کیے تھے، اب ان معاہدوں کو توڑنا ہے تو یہ ایک بڑا حساس کام تھا۔ اس موقع پر جو عربوں کے ہاں حساسیت تھی، اس چیز کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لحاظ کیا کہ میری طرف سے معاہدے ٹوٹنے ہیں تو میرے اپنے خاندان کا اور میرے اپنے گھر کا کوئی فرد جا کر اعلان کرے تاکہ وہ میری طرف سے ہی سمجھا جائے۔ تو یہ حساسیت پیش نظر تھی، یہ مسئلہ نہیں تھا کہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بات پر اعتماد نہیں کریں گے یا نہیں مانیں گے۔ معاملے کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو بھیجا کہ جس کو آپ کا ذاتی نمائندہ سمجھا جائے۔

مطیع سید: ایک سوال یہ ذہن میں آرہا تھا کہ اگر احادیث، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا تاریخی ریکارڈ ہے تو اس کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ وہی ہے جو امام احمد بن حنبل نے اپنایا کہ صحابہ کی ترتیب سے روایتیں اکٹھی کی جائیں۔ جب محدثین نے فقہی ابواب کے تحت احادیث اکٹھی کر دی تو میرے خیال میں اس سے پیغمبر کی شخصیت کا قانونی پہلو ہی نمایاں رہ گیا ہے، اورجو بہت سی لطیف چیزیں تھیں اور قانون سے ہٹ کر جو قیمتی باتیں تھیں، ان کو اس ابواب بندی سے نقصان پہنچا ہے۔ آپ اس کو کیسے دیکھتے ہیں؟

عمار ناصر: محدثین جو کام کر رہے تھے، بنیادی طور پر ان کے پیش نظر یہ نہیں تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو کسی خاص انداز سے پیش کریں۔ وہ کسی دعوتی پہلو سے یا نبی علیہ السلام کی شخصیت کو خاص انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے پہلو سے تو کام کر ہی نہیں رہے تھے۔ ان کا کام تو بالکل علمی کام ہے کہ جو مواد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں موجود ہے، اس میں ضروری چھان پھٹک کے بعد اسے محفوظ کرنا ہے۔ اسے محفوظ کرنے کے جو مختلف انداز ہیں، ان کی اپنی اپنی افادیت ہے۔ کسی ایک صحابی کی مرویات کیا ہیں؟ اس کی اپنی ایک افادیت ہے، اور جو فقہی ترتیب سے مرتب کر رہے ہیں، وہ دراصل علماء اور اسکالرز کی سہولت کے لیے کر رہے ہیں۔ وہ عام لوگوں کو بتا ہی نہیں رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ایسے دیکھو۔ وہ تو اہل علم کے لیے سہولت پیدا کر رہے ہیں کہ ان کو جب ضرورت پڑے تو وہ اس کی طرف رجوع کریں اور دیکھ لیں۔

مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی شخصیت کے متعلق معلومات سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں؟

عمار ناصر: لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو کیسے دیکھیں اور آپ کی شخصیت کیسی تھی؟ یہ چیز آپ کو شمائل کی کتابوں میں ملے گی۔ جب صحابہ زندہ تھے تو لوگ ان کے پاس جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں سنتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے کیسے دیکھا اور فلاں موقع پر کیا کیا، فلاں موقع پر کیا ہوا۔ پھر جب صحابہ گزر گئے تو بعد والے لوگ ان معلومات کو آگے بیان کرتے تھے۔ لوگوں نے اسے محفوظ کرنا شروع کر دیا اور سیرت نگاروں نے سیرت لکھنا شروع کر دی۔

مطیع سید: آپ نے اپنی کتاب جہاد میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے اقتدار کا وعدہ متعین جغرافیائی حدود کے اندر تھا، اور یہی وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے بھی تھا۔ ترکوں اور اہل حبشہ کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی روایت بھی امام نسائی نے نقل کی ہے3 لیکن اس کے ساتھ غزوہ ہند کی روایت بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک متعین حدود میں اقدامات کی ہدایت فرمائی تھی، لیکن پھر آپ ﷺہند کی طرف بھی اشارہ فرما رہے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایک طرف غزوہ ہند کی روایت ہے اور دوسری طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہند کی طرف پیش قدمی پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ۔ تو کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے غزوہ ہند کی روایت نہیں تھی؟ اگر تھی تو وہ اس کو کس طرح دیکھتے تھے؟

عمار ناصر: جو جغرافیائی تعین کی بات ہے، وہ بشارت کے حوالے سے ہے کہ یہ سرزمین تو میری امت کو اللہ نے دے دی ہے۔ یہ اصل میں فتح کی بشارت ہے کہ یہ امت کو مل جائیں گی۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کے بھی علاوہ جنگیں، لڑائیاں اور حملے ہوئے، یہ واقعات تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ بشارت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے علاوہ کوئی جنگیں نہیں ہوں گی یا کسی اور طرف ان کو جانے کی اجازت نہیں۔ آپ نے قسطنطنیہ کا ذکر کیا تو آپ دیکھیں کہ اس کا ذکر ان فتوحات کے سیاق میں نہیں کیا جو آپ کی امت آپ کے فوراً‌ بعد حاصل ہونی تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس پر بھی میری امت حملہ کرے گی اور کسی وقت میں یہ شہر فتح بھی ہو جائے گا۔ اسی طریقے سے ہند پر حملے کا بھی ذکر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ قریب کے علاقوں پر حملہ کرنے سے آپ صحابہ کو کسی مصلحت کے تحت منع بھی کر رہے ہیں۔ تو یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق امت کو کون کون سے علاقے مل جائیں گے۔ اور دوسری یہ کہ لڑائی کی ضرورت اور جگہوں پر بھی پیش آئے گی، اور مقامات پر بھی جنگیں ہوں گی۔ کچھ جگہ پر کامیابی ملے گی،کچھ جگہ پر نہیں ملے گی۔ کچھ علاقوں کی طرف ان کو بڑھنا چاہیے، کچھ کی طرف نہیں بڑھنا چاہیے۔ تو یہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔

مطیع سید: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس فرق کواچھے طریقے سے سمجھ گئے تھے؟

عمار ناصر: حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو فارس کو بھی مکمل فتح نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ وہ دونوں باتوں کا فرق سمجھ رہے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ہمیں بشارت تو ہے، لیکن ہمیں کب آگے بڑھنا ہے، اس کا فیصلہ ہمیں اپنی تدبیر کے لحاظ سے کرنا ہے۔ ہمارے لیے کب آگے بڑھنا مناسب ہے اور کب نہیں، یہ ہمارے کرنے کا فیصلہ ہے۔

مطیع سید: ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حسب نسب والی عورت ہے لیکن اس سے اولاد نہیں ہوگی۔ آپ نے اس کے ساتھ نکاح سے منع فرما دیا۔ وہ پھر آیا اور آپ نے پھر منع فرما دیا۔ پھر تیسری بار منع فرمانے کے بعد فرمایا کہ ایسی عورت سے نکاح کرو جس کی اولاد ہو، میں اپنی امت کی تعداد دوسری امتوں سے زیادہ دیکھنا چاہتا ہوں4۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا شادی کی غرض صرف اولاد ہے؟ کیا اور اغراض نہیں ہیں؟

عمار ناصر: اس حدیث میں یہ مسئلہ اصولی سطح پر زیربحث نہیں کہ کس عورت سے نکاح کرنا چاہیے اور کس سے نہیں کرنا چاہیے ۔ ایک آدمی آپ سے ذاتی مشورہ لینے آیا ہے اور آپ اس کو مشورہ دے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ ﷺنے نکاح کے مقاصد میں سے ایک بڑا بنیادی مقصد بھی نمایاں کیا ہے کہ نکاح کرو تو اس میں ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے، اس کو ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بانجھ عورتیں ہیں ان سے نکاح ہی کوئی نہ کرے، ظاہر ہے کہ یہ مقصود نہیں ہے۔ ان کے ساتھ بھی کوئی نکاح کر لے گا، لیکن اگر کسی نے ایک ہی نکاح کرنا ہے اور وہ کسی بانجھ عورت سے اس کے حسن یا حسب نسب کی وجہ سے کرنا چاہتا ہے تو آپﷺ نے اس کو اس سے گریز کا مشورہ دیا۔ آپ اس میں یہ بات مضمر سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایک ہی سے کرنا ہے تو کسی بچے جننے والی عورت سے کرو۔

مطیع سید: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میری ایک عورت ہے ، مجھے اس سے بہت محبت ہے، لیکن اس میں ایک عیب ہے کہ اگر اس کو کوئی ہاتھ لگائے تو وہ اس کو منع نہیں کرتی۔آپ نے فرمایا کہ اس کو طلاق دے دو۔ اس شخص نے کہا کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، آپ نے فرمایا کہ پھر اپنا کام نکال لیا کرو5۔ پیغمبر علیہ السلام کا یہ مشورہ مجھے بڑا عجیب سا لگا، کیونکہ ہاتھ لگانے سے مقصد صرف ہاتھ لگانا نہیں ہے اور امام نسائی نے جو باب باندھا ہے، اس سے بھی یہ بات واضح ہو رہی ہے، لیکن آپ اسے مشورہ دے رہے ہیں کہ اپنا کام نکال لو۔ وہ شخص اپنی بیوی کے بارے میں آ کر بتا رہا ہے کہ وہ اس طرح کے کام میں ملوث ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو لعان وغیرہ کی طرف کیوں نہیں لے کر گئے؟ بلکہ فرمایا کہ اپنا کام نکال لیا کرو، اس کی کیا وجہ ہے؟

عمار ناصر: اس میں ایک بات تو یہ ہے کہ حدیث میں جو الفاظ آتے ہیں "لا ترد يد لامس" وہ کسی چھونے والے کا ہاتھ پیچھے نہیں ہٹاتی، امام نسائی نے اس کو زنا سے کنایہ سمجھا ہے۔ کچھ دیگر شارحین نے بھی اس کو زنا سے کنایہ سمجھا ہے، لیکن بعض دوسرے شارحین نے یہ مطلب سمجھا ہے کہ کوئی اس سے چھیڑ چھاڑ کرے تو وہ اس سے منع نہیں کرتی۔ تو یہ باقاعدہ کوئی زنا کا صریح الزام نہیں ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ چھیڑ چھاڑ کرنے کا یہ مطلب بھی درست نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اگر آ کر اس کے گھر سے کوئی چیز اٹھا لیں تو وہ چیزیں سنبھالتی نہیں ، بلکہ جو کوئی مانگے اسے دے دیتی ہے، یعنی گھر کے اسباب کی حفاظت نہیں کرتی۔ تو امام احمد اس کو اس طرح دیکھتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر شارحین یہ معنی لیتے ہیں کہ جو ایک ذمہ دار اور محتاط خاتون ہوتی ہے، اس طرح وہ نہیں ہے اور لوگ آ کر چھیڑ چھاڑ کر لیں تو وہ روکتی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ چھوڑ دو، تو اس شخص نے کہا کہ نہیں پھر میرا دل اس کے پیچھے جائے گا، میں اس کے بغیر رہ نہیں سکوں گا، تو آپ نے فرمایا کہ پھر اس کو رکھو۔ اس مشورے میں یہ بات اہم ہے کہ ہر معاملہ فقہی اور قانونی نہیں ہوتا۔ یہ بھی اہم ہوتا ہے کہ بندے میں خود کتنی غیرت ہے، اور بات بتاتے ہوئے اور مشورہ دیتے ہوئے یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ جس کو بات بتائی جا رہی ہے، خود اس کے اندر کتنی غیرت موجود ہے۔ دراصل وہ بندہ بھی تسلی لینے کے لیے ہی آیا تھا کہ اگر میں کام چلاتا رہوں تو کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟ ورنہ تو وہ خود ہی اسے چھوڑ دیتا۔ وہ اپنے لیے گنجائش ہی معلوم کرنے آیا تھا۔

مطیع سید: یہ روایت ہے کہ "من بدل دينه فاقتلوه6" جو اپنا دین بدل دے اسے قتل کر دو۔ کیا یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عام مسلم کمیونٹی کے تناظر میں تھی؟ کیونکہ کمیونٹی بہت تھوڑی ہے اور اگر دین کو چھوڑ کر واپس جانے کا دروازہ کھول دیا جائے ، تو اس سے ایک ناقابل تلافی نقصان ہو سکتاتھا ۔ تو کیا یہ حدیث اس تناظر میں ہے؟ یا یہ عمومی طور پر بیان کی گئی ہے؟

عمار ناصر: اصل میں اس میں بہت سے احتمالات ہیں۔ حدیث کے الفاظ میں اس کا کوئی دائرہ یا پس منظر تو بیان نہیں ہوا، بس حکم بیان ہوا ہے۔ اب اس کو کس اصول کے تحت سمجھا جائے یا اس کے پیچھے کیا مقصد پیش نظر تھا؟ یہ ایک استنباطی چیز ہے۔ فقہاء یہی مختلف امکانات بیان کرتے ہیں۔ اس میں بنیادی دو تین رجحانات ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب میں بھی بیان کیا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد نظر یہ ہے کہ جو لوگ مجھے خوب پرکھ کر اور میری جانچ پڑتال کر کے مجھ پر ایمان لائے ہیں، اور اس کے بعد اپنا دین بدل رہے ہیں تو یہ ناقابل معافی ہے۔ اس کو فقہاء یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ اصل میں اتمام حجت کے بعد ، یعنی حق واضح ہو جانے کے بعد دین تبدیل کرنے کی سزا ہے۔ کچھ دوسرے فقہاء یہ کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ارتداد کا راستہ روکنے کے لیے ہے کہ اگر یہ دروازہ کھول دیا جائے تو فتنے تو ہر وقت رہتے ہی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر آسانی سے یہ داعیہ پیدا نہ ہو کہ وہ دین کو بدل دیں، اور جب جس کا جی چاہے دن چھوڑ کر چلا جائے۔ اس زاویے سے بھی فقہا دیکھتے ہیں۔

مطیع سید: روایت ہے کہ مسلمان سے لڑنا کفر ہے7۔ دوسری روایت میں ہے کہ میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو8۔تو صحابہ کے ہاں جو لڑائیاں ہوئی ہیں، ان میں بڑے لوگ قتل ہوئے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان سے لڑنا تو کفر ہے۔ اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

عمار ناصر: اس حدیث کا سیاق تو یہ ہے کہ انفرادی سطح پر مسلمانوں کے درمیان جو کھٹ پٹ ہوتی ہے، یہ کھٹ پٹ اس سطح پر نہیں پہنچنی چاہیے کہ آپس میں لوگ لڑنے لگیں۔ یعنی معاشرتی اخلاقیات کے حوالے سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی مسلمان کے ساتھ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، کوئی عام سماجی جھگڑا ہے اور اس وجہ سے ایک مسلمان دوسرے سے لڑ پڑا ہے تو اس صورت حال میں گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے کی شناعت بیان کی جا رہی ہے۔ اگر کسی نے واقعتاً زیادتی کی ہے اور دوسرا اس کا دفاع کر رہا ہے تو یہ صورت حال، ظاہر ہے کہ یہاں زیر بحث نہیں ہے۔اسی طرح مسلمانوں کے مابین اگر سیاسی جھگڑے اور جنگیں ہوں تو ان کے پیچھے بھی ایک تاویل ہوتی ہے، وہ ایک اختلاف ہوتا ہے، اس میں حق اور باطل پر بھی لوگ ہو سکتے ہیں، بعض دفعہ اجتہادی خطا بھی ہو سکتی ہے، بعض دفعہ اور اسباب ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پسندیدہ صورت تو یہ بھی نہیں ہے، لیکن قتال المومن کفر کی حدیث دراصل سماجی اخلاقیات کے حوالے سے ہے اور حدیث کا دوسرا ٹکڑا "سبابہ فسوق" بھی اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

مطیع سید: حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپ نے غزوہ حنین کا مال بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں بنو ہاشم کی فضیلت کو تو ہم مانتے ہیں، لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ ﷺنے بنو مطلب کو دیا جو ہمارے بھائی ہیں لیکن ہمیں کچھ نہیں دیا، حالانکہ ہم بھی آپ سے وہی قرابت رکھتے ہیں جو وہ رکھتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ بنوہاشم اوربنو مطلب تو ایک ہی ہیں اور جاہلیت اور اسلام میں کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوئے۔9 یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کس طرف اشارہ ہے؟

عمار ناصر: یہ دونوں قریبی خاندان تھے اور نبوت کے بعد ان دونوں کی نصرت وتائید آپﷺ کو حاصل رہی ہے۔ بنو مطلب چاہے ایمان بعد میں لائے ہوں، لیکن آپﷺ کی تائید میں وہ ہمیشہ کھڑے رہے ہیں۔ آپﷺ یہاں یہی بات بیان فرما رہے ہیں۔

مطیع سید: ایک بیع کے اندر دوسری بیع کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے10۔ کیا ہمارے ہاں جو قسطوں پر چیز فروخت کی جاتی ہے، کیا وہ اس کے تحت آتی ہے؟ مثلاً‌ ایک شخص کہتا ہے کہ یہ چیز میں تمہارے ہاتھ فروخت کرتا ہوں، اگر تم نقد دو گے تو ایک سوروپے کی ہے اور اگر تم ادھار کرو گے تو دو سوروپے کی ہے۔

عمار ناصر: اس حدیث میں ممانعت اس چیز کی نہیں ہے کہ قسطوں پر کوئی چیز نہیں بیچنی۔ اصل ممانعت اس چیز کی ہے کہ معاملے کی جو صورت ہے، اس کو متعین کیے بغیر مبہم چھوڑ دیا جائے کہ اگر یوں کر لیا تو یوں ہو جائے گا اور یوں کر لیا تو یوں ہو جائے گا، لیکن اس کو طے نہ کیا جائے۔ اس طرح صفقة فی صفقتین کی اور بھی شکلیں آتی ہیں۔ کیونکہ ایک معاملہ ایک نوعیت کا ہوتا ہے، اس کی شرائط کچھ اور ہوتی ہیں، اور ایک دوسرا معاملہ دوسری نوعیت کا ہوتا ہے تو اس کی شرائط کچھ اور ہوتی ہیں، تو آپ اگر ان دونوں کو گڈمڈ کر دیں تو اس سے ابہام بھی پیدا ہو جاتا ہے اور آگے چل کر وہ معاملہ پیچیدہ ہو جائے گا یا جھگڑے تک پہنچے گا۔تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک معاملے کے اندر دونوں آپشنز اس طرح کھلے رکھنا کہ کل کو ایک فریق کہے کہ میری انڈرسٹینڈنگ تو یہ تھی اور دوسرا کہے کہ میں تو یہ سمجھ رہا تھا، یہ درست نہیں تاکہ اس صورت میں نزاع پیدا نہ ہو اور آگے چل کر ابہام کی صورت نہ بنے۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے۔ اگر نوعیت معاملہ کو طے کر لیا جائے، مثلاً‌ خریدار کہے کہ میں ادھار لوں گا اور اتنی رقم اتنی مدت میں دے دوں گا، تو اب اس معاملے میں ابہام باقی نہیں رہا، اس لیے یہ بیعة فی بیعتین کے تحت نہیں رہتی۔ البتہ کسی دوسری أصول پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ معاملہ درست نہیں۔ مثلاً‌ بعض اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ اس میں قسطوں کی وجہ سے جو رقم زائد وصول کی جاتی ہے، وہ ربا کا مصداق ہے۔

مطیع سید: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اور شیطان کے درمیان انگور کے درخت پر جھگڑا ہوا، وہ کہنے لگا کہ یہ میرا ہے۔ آخر میں صلح اس بات پر ہوئی کہ دو حصے شیطان کے اور ایک حصہ نوح علیہ السلام کا ہے11۔

عمار ناصر: یہ ایک تمثیل ہے کہ دنیا میں جتنا انگور ہے، اس کے دو تہائی کی شراب بنے گی اور ایک تہائی کا سرکہ بن جائے گا۔ جو مذہبی کلام اور انبیاء کا کلام ہے، تمثیل اس کا باقاعدہ حصہ ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے ہاں تو تمثیلیں بہت ہیں، اور خاص طور پر جو غیبی حقائق ہیں جن کی کیفیت اور دنیا بالکل اور ہے اور وہ ہماری گرفت میں نہیں آ سکتے، ان کو سمجھانے کے لیے حسی دنیا سے کوئی مثال بیان کرنا، یہ تو معروف ہے اور احادیث میں بہت عام ہے۔ جیسے سورج کے بارے میں ہے کہ جب ڈوبتا ہے تو عرش کے نیچے جا کر اجازت مانگتا ہے، پھر جب اس کو اجازت ملتی ہے تو اگلے دن نکلتا ہے، اصل میں یہ بتانے کے لیے ایک تمثیل ہے کہ سورج کی جو ایک ایک حرکت ہے، وہ اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ جب اللہ کہے گا تو وہ پلٹ کر واپس آ جائے گا۔ تو بات کو سمجھانے کے لیے یہ ایک اچھی تمثیل ہے۔

مطیع سید: آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس دور میں ہیں، اس دور میں بہت سی اساطیر بھی عام تھیں اور آج بھی ہیں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات سمجھانے کے لیے ان اساطیر کا بھی حوالہ دے دیں؟

عمار ناصر: شاہ ولی اللہؒ کا کہنا ہےکہ احادیث میں بعض دفعہ ایسے واقعات یا کہانیوں کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے جو عام لوگوں میں معروف تھیں۔ شاہ صاحب کے خیال میں ام زرع والی روایت جس میں گیارہ عورتیں اپنے اپنے شوہروں کا أحوال سناتی ہیں اور خرافۃ کا واقعہ جس میں خرافہ نام کے شخص کو جنات اٹھا کر لے جاتے ہیں، اسی نوعیت کے ہیں۔ تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کون سی بات آپ نے بطور تمثیل کہی ہے اور کہاں کسی معروف داستان کا ذکر کر دیا ہے۔

مطیع سید: اس حدیث میں ایک خاص پیغمبر کا نام لیا گیا ہے اور پورا ایک مکالمہ نقل کیا گیا ہے، اس سے کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ شاید یہ واقعہ حقیقت میں ہوا ہو۔

عمار ناصر: ممکن ہے کہ شیطان سے اس نوعیت کی بحث ہوئی ہو، جیسے حضرت آدم اور ابلیس کی ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ طوفان کے بعد جب حضرت نوح علیہ السلام نے دوبارہ اپنی أولاد کو آباد کیا ہو اور انگور کی بیلیں چڑھائی ہوں تو حسی طور پر شیطان ان کے پاس آگیا ہو۔ انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ بھی شیطان کا مکالمہ منقول ہے اور روایات میں سیدنا اسماعیل کی قربانی کے موقع پر بھی حضرت ابراہیم کے ساتھ شیطان کا مباحثہ نقل ہوا ہے۔



حواشی

  1. کتاب الحج،باب العلۃ التی من اجلھاسعی النبیﷺ بالبیت،رقم:2951
  2. کتاب الحج، باب الخطبۃ قبل الترویۃ،رقم:2998
  3. کتاب الجہاد، باب غزوۃ الہند +باب غزوۃ ترک و حبشۃ۔ رقم:3178
  4. کتاب النکاح،باب کراھیۃ تزویج العقیم،رقم:3232
  5. کتاب النکاح ، باب تزويج الزانيۃ،رقم:3233
  6. کتاب المحاربۃ ،باب الحکم فی المرتد،رقم:4071
  7. کتاب المحاربۃ، باب قتال المسلم،رقم:4110
  8. کتاب المحاربۃ، باب تحریم القتل،رقم:4137
  9. کتاب كسب الفیئ ،رقم:4142
  10. کتاب البیوع، رقم:4638
  11. کتاب الاشربۃ،باب مایجوز شربہ من الطلاء وما لایجوز، رقم:5732

(مکمل)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(دسمبر ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter