درسِ نظامی کی بعض کتب کے ناموں اور نسبتوں کی تحقیق

مولانا احمد شہزاد قصوری

بحیثیتِ فن کسی بھی کتاب کے مطالعہ سے پہلے اُس کا درست اور مکمل نام معلوم ہونا ضروری ہے کہ اس سے ایک تو مؤلف کے وضع کردہ اصل نام کا پتا چل جاتا ہے اور دوسرا یہ چیز اُس کتاب کے ا بتدائی تعارُف،کتاب کے مو ضوع اورمنہجِ مؤلف کو سمجھنے میں ممد ومُعاوِن ثابت ہوتی ہے۔ درسِ نظامی کی کتب میں سے بخاری، مسلم، ترمذی،شمائلِ ترمذی، نَسائی، طحاوی،بیضاوی،سِراجی،حُسامی،قُطبی اورقدوری وغیرہ کے اصل اور درست ناموں سے متعلق  ذیل میں بعض تفصیلات  ذکر کی جاتی ہیں۔

 صحیح بخاری:

یہ امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری(متوفی ۶۵۲ھ) رحمہ اللہ کی مایہ نازتصنیف ہے،جس کااصل نام ”الجامعُ المُسنَدُ الصحیحُ المختصَرُ من أُمُور رسول اللہ ﷺ وسُننِہ وأیَّامِہ“ہے، جیساکہ ابن خیرالاِشبیلی (متوفی۵۷۵ھ)رحمہ اللہ، حافظ ابن الصلاح(متوفی۳۴۶ھ)رحمہ اللہ،امام نووی(متوفی۶۷۶ھ)رحمہ اللہ اورعلامہ بدر الدین عینی(متوفی ۵۵۸ھ)رحمہ اللہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے، چنانچہ ”فِہرِسَۃُ ابن خیر الإشبیلی“ میں ہے:

”مُصنَّفُ الإمامِ أبی عبد اللہ محمد بن إسماعیل البُخاریِّ، وہو: ”الجامعُ المسنَدُ الصحیحُ المُخْتصَرُ من أُمورِ رسولِ اللہ ﷺ وسُنَنِہ وأیامہ“(۱).

اسی طرح حافظ ابن الصلاح(متوفی۳۴۶ھ)رحمہ اللہ اپنی کتاب”معرفۃُ أنواعِ علم الحدیث“میں تحریر فرماتے ہیں:

”کتاب البخاریِّ....اسمُہ الذی سمَّاہ بہ، وہو: ”الجامعُ المُسنَدُ الصحیحُ المُختصَرُ من أمور رسول اللہ ﷺ وسننہ وأیامہ“(۲).

اسی طرح امام نووی(متوفی۶۷۶ھ)رحمہ اللہ اپنی کتاب ”تہذیب الأسماء واللغات“میں رقم فرماتے ہیں:

”أما اسمُہ: سمَّاہ مؤَلِّفُہ البخاریُّ رحمہ اللہ، وہو:”الجامعُ المسندُ الصحیحُ المُختصَرُ من أمور رسولِ اللہ ﷺ وسننِہ وأیامہ“(۳).

اسی طرح علامہ عینی(متوفی۵۵۸ھ)رحمہ اللہ ”عُمدۃ القاری بشرح صحیح البخاری“میں رقم طراز ہیں:

”سمَّی البخاریُّ رحمہ اللہ  کتابَہ ب”الجامع المسنَد الصحیح المُختصَر من أمورِ رسولِ اللہ ﷺ وسننِہ وأیامہ“(۴).

صحیح بخاری کے اس مکمل نام میں گویا چار قیود ات آئی ہیں:  (۱) ”الجامعُ“.  (۲) ”المُسنَدُ“. (۳) ”الصحیحُ“.   (۴) ”المُختصَرُ من أمورِ رسولِ اللہ ﷺ وسننِہ وأیامہ“.

یہ تمام قیودات کتاب کے مضمون اوراس کے مو ادکی نوعیت کی نشان دہی کررہی ہیں،اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ''صحیح بخاری''کی شرائط ومنہج کوپرکھنے میں حضراتِ محدثین کے ہا ں اس کے مکمل نام کو بہت بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔

صحیح مسلم:

یہ امام ابو الحسین مسلم بن حجاج قُشیری(متوفی ۱۶۲ھ)رحمہ اللہ کی مایہ ناز کتاب ہے،جس کا اصل نام”المُسنَدُ الصحیحُ المُختصَرُ من السُّننِ بِنَقْلِ العَدْل عن العدْل عن رسولِ اللہﷺ“ ہے، چنانچہ ابن خیرالاِشبیلی (متوفی۵۷۵ھ)رحمہ اللہ اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

”مُصَنَّف الإمام أبی الحسین مُسلم بن الحجَّاج بن مُسلم القُشیرِیِّ النَّیْسَابوریِّ، وہو: ”المسندُ الصَّحیحُ المُخْتَصرُ من السّنَن بِنَقْل العدْل عن العدْل عن رسولِ اللہ ﷺ“ (۵).

اسی طرح قاضی عیاض(متوفی۴۴۵ھ)رحمہ اللہ اوردیگرعلماء ِکرام نے بھی''صحیح مسلم''کے اصل اورمکمل نام کی تصریح فرمائی ہے، البتہ! قاضی عیاض رحمہ اللہ نے''صحیح مسلم'' کااصل نام ذکر کرتے ہوئے ”المُخْتَصر“ کے بعد”من السُّنَن“کے الفاظ ذکرنہیں فرمائے،جبکہ وہ اس کا لازمی حصہ ہیں، زمانہ قریب کے مشہورمحقِّق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ (متوفی۷۱۴۱ھ)رحمہ اللہ نے ا پنی کتاب”تحقیقُ اسمَیِ الصحِیحَین واسمِ جامع التِّرمَذی“ میں قاضی عیاض رحمہ اللہ کے اس صنیع پرتبصرہ کرتے ہوئے فرمایاہے کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ کی عبارت میں اختصارہے اوراصل نام میں ”من السّنَن“ کے الفاظ موجود ہیں،چنانچہ وہ رقم طراز ہیں:

”وسمَّی الإمامُ القاضی عیاض رحمہ اللہ ”صحیح مسلم“  فی کتابِہ ”مشارق الأنوار علی صِحاح الآثار“، و”الغُنیَۃ“: ”المسندُ الصَّحیحُ المُخْتَصرُ بِنَقْل العدْل عن العدْل عن رسولِ اللہ ﷺ“، وفی ہذا العُنوان اختصارٌ أیضًا، وہو لفظُ”من السنن“(۶).

شیخ عبدالفتاح ابو غُدہ رحمہ اللہ کی تاکید:

شیخ عبدالفتاح ابوغُدہ(متوفی۷۱۴۱ھ)رحمہ اللہ نے”تحقیقُ اسمَیِ الصحِیحَین“میں مزیدتحریرفرمایا ہے کہ ''صحیح بخاری''اور''جامع ترمذی''کی طرح''صحیح مسلم''کی طبعات بھی اصل نام سے خالی ہیں،جبکہ یہ بہت بڑا عیب اور نقص ہے ا وریہ بات کتاب کی حقیقت کوسمجھنے میں ایک بڑی رُکاوٹ ہوتی ہے،لہذااس کی کمی کاازالہ ہوجاناچاہیے اور آئندہ کی طبعات میں کتاب کااصل اوردرست نام ٹائیٹل پرچسپاں کرنا چاہیے،چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”تعدَّدتْ طبعاتُ ”صحیح مُسلم“ تعدُّدًا کثیرًا فی بِلاد مصرَ، والشّام، والہند، وترکیا، والمغرب وغیرِها، ولم یُثبَتْ علی طبعةٍ منہا اسمُہ العَلَمِیُّ، الذی سمَّاہ بہ مؤلِّفُہ الإمامُ مسلمُ بنُ حجاج القُشَیریُّ النَّیسابُوریُّ شأنَ ”صحیح البخاری“، وشأنَ”جامع التِّرمَذی“.
”وہذا خلَلٌ شدیدٌ ونقْصٌ ظاہرٌ فی تشْخِیصِ الکتاب، والتعریف بمضْمُونہ وما بُنِی علیہ، فیَنبغِی تدارُکُہ فی طبعاتہ اللاحقة“(۷).

 جامع ترمذی:

یہ امام ابوعیسی محمد بن عیسی ترمذی(متوفی۹۷۲ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف کردہ احکامِ فقہیہ پرمشتمل بہت ہی اہم کتاب ہے،جس کااصل نام ”الجامعُ المختصَرُ من السننِ عن رسول اللہ ﷺ، ومعرفةُ الصحیحِ والمَعلُولِ، وما علیہ العمَل“ ہے، جوکہ کتاب کے مضمون کی بخوبی وضاحت کررہا ہے، چنانچہ ابن خیر الاِشبیلی(متوفی۷۵۷ھ)رحمہ اللہ اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

”مُصنَّفُ الإمامِ أبی عیسی محمد بن عیسی بن سَورۃ التِّرمذیِّ الحافظ، وہو: ”الجامعُ المُختصَرُ مِن السُّنن عن رسولِ اللہ ﷺ، ومعرفةُ الصحیح، والمعلول، وما علیہ العمل“(۸).

اب دیکھیے''صحیح بخاری'' کی طرح ''صحیح مسلم''اور''جامع ترمذی'' کا اصل نام بھی کتاب کے مضمون اور مواد کی نوعیت کی بھر پور وضاحت کر رہا ہے، جس سے اس اصل نام سے واقفیت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

جامع ترمذی کے اصل نام سے واقفیت کی اہمیت وضرورت:

شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ ”تحقیقُ اسمَیِ الصحِیحَین“میں ''جامع ترمذی'' کااصل نام ذکر کرنے بعدکے خاص اس کے متعلق تحریرفرماتے ہیں کہ''جامع ترمذی'' کااصل نام اس کے ٹائیٹل پر درج کرنا''صحیح بخاری'' اور''صحیح مسلم''کے اصل ناموں کی بنسبت زیادہ ضروری ہے؛کیونکہ ''صحیحین''تو احادیثِ صحیحہ پرہی مشتمل ہیں،جبکہ ''جامع ترمذی''میں صحیح ومعلول ہرطرح کی احادیث درج ہیں،جس کی صراحت کتاب کے نام میں موجود ہے، اس لیے ''صحیحین''کے اصل ناموں کو کتاب کے ٹائیٹل پر ذکر نہ کرنا اتنا خطرناک نہیں ہے،جتنا''جامع ترمذی''کے اصل نام کو ترک کرنانقصان دہ ہے(۹)۔

پھر فرماتے ہیں:  ہمارے یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ بہت سے کبارمشایخ اورمحققین حضرات نے''جامع ترمذی''پرخدمات سرانجام دی ہیں، لیکن افسوس کہ ان حضرات میں سے کسی نے بھی''جامع ترمذی'' کادرست اور اصل نام ذکر نہیں کیا،گویا ان حضرات نے اصل نام کی تصحیح کی طرف توجہ ہی نہیں کی، حالانکہ کتاب کے نام کی تصحیح تو سب سے مقدم چیز ہے(۱۰)۔

شمائلِ محمدیہ:

ہمارے ہا ں شمائلِ ترمذی کے نا م سے جو کتاب مشہورہے،اس میں امام ترمذ ی رحمہ اللہ کے شمائل نہیں،بلکہ حضورِ اقدس  ﷺکے اوصاف وشمائل مذکور ہیں اوراس مشہورترکیب میں لفظِ”شمائل“کی ”ترمذی“کی طرف نسبت ہی خلافِ ظاہرہے،یہ کتاب بھی امام ابوعیسی محمدبن عیسیٰ ترمذی(متوفی ۹۷۲ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف ہے،اس کا اصل اوردرست نام”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّةُ والخصائلُ المُصْطَفَوِیةَّ“ہے،جیساکہ مشہورمُفہرِس حاجی خلیفہ(متوفی ۷۶۰۱ھ)رحمہ اللہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے،چنانچہ وہ اپنی مشہورِ زمانہ کتاب”کشْف الظُّنُون عن أسامی الکتُب والفُنون“میں تحریرفرماتے ہیں:

”شَمائلُ النبی ﷺ: ”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّةُ والخَصائلُ المُصْطَفَوِیَّة“ لأبی عیسی محمد بن سَورۃ، الإمام، التِّرمَذیِّ“(۱۱).

اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی(متوفی۱۱۹ھ)رحمہ اللہ نے اپنی کتاب”زہْرُ الخَمائل علی الشَّمائل“میں اس کے اصل نام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

”أما الأصل فہو ”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّةُ“ للإمام أبی عیسیٰ محمد بن سَورۃ التِّرمَذیِّ“(۱۲).

اسی طرح معاصرمحقِّق سیدابنِ عباس جلیمی نے''شمائل محمدیہ''کے مقدمہ تحقیق میں آپ  ﷺکی سیرت وصفات کے مصادرکا ذکر کرتے ہو ئے اس کے اصل نام کی تصریح فرمائی ہے، چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”المُؤلَّفات فی الشَّمائل: لقد أُلِّف، وصُنِّف فی ہذا البابِ العدیدُ من الکُتُب ما بینَ مَطبُوعٍ، ومَخْطُوطٍ، ومفْقُودٍ، نذْکُرمنہا: ”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّةُ والخَصائلُ المُصْطَفَوِیَّة“، وہو المعروفُ ب”شمائل التِّرمذی“(۱۳).

اسی طرح معاصرمحقق شیخ محمدعجاج الخطیب نے اپنی کتاب”لمحات فی المکتبۃِ والبحْثِ والمصادر“میں اس کے اصل نام کی تصریح فرمائی ہے، چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّةُ والخصائلُ المُصْطَفَوِیَّة“ لأبی عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سَورۃ التِّرمذیِّ مِن أجمَعِ ما صُنِّفَ فی صِفاتِہ ﷺ، وہَدْیِہ“(۱۴).

سننِ نَسائی:

یہ امام ابو عبدالرحمن احمد بن شُعیب نَسائی(متوفی ۳۰۳ھ)رحمہ اللہ کی کتاب ہے،جس کااصل نام”المُجْتبی“ ہے،اس کو ”السُّنن الصُغریٰ“ بھی کہا جاتا ہے، جوکہ دراصل مؤ لف رحمہ اللہ کی دوسری کتاب ”السنن الکبریٰ“کا اختصارہے،اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ امام نَسائی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ”السنن الکبریٰ“تصنیف فرمائی اوراسے امیررملہ کے سامنے پیش کیا،توامیررملہ نے پوچھاکہ کیا اس میں موجودتمام احادیث صحیح ہیں؟،امام نَسائی رحمہ اللہ نے جو اب میں فرمایا کہ''نہیں ''،تواس پرامیررملہ نے ”السنن الکبریٰ“کے اختصارکامطالبہ کیا،چنانچہ امام نسائی رحمہ اللہ نے ”السنن الکبریٰ“ کااختصار کرکے صرف صحیح احادیث کوباقی رکھا اوراپنی اس مختصرکتاب کا نام انہوں نے ”المُجْتبیٰ“ تجویزفرمایا،گویا اپنی معنویت کے اعتبارسے یہ”المُجْتبی“ من ”السُّنن الکُبریٰ“ہے،چنانچہ اس کے متعلق ”فِہرِسَۃُ ابن خیر الإشبیلی“ میں درج ہے:

”المجتبیٰ...فی السنن المسندۃ لأبی عبد الرحمن النَسائی، اختَصَرَہ من کتابہ الکبیر المصنف، وذلک أن بعضَ الأُمَراء سألہ عن کتابہ فی السنن، أکُلُّہ صحیحٌ؟ فقال: لا، قال: فاکْتُب لنا الصحیحَ منہ مجرَّدًا، فصَنَعَ ”المجتبی“(۱۵).

اسی طرح حافظ ابن الاثیر جزری(متوفی ۶۰۶ھ)رحمہ اللہ”جامع الأصول فی أحادیث الرسولﷺ“کے مقدمہ میں اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

”وسأل بعضُ الأمراء أبا عبد الرحمن عن کتابہ ”السُّنن“، أکُلُّہ صحیحٌ؟ فقال: لا، قال: فَاکْتُب لنا الصَّحیحَ منہ مُجرَّدًا، فصَنَعَ ”المُجْتَبیٰ“، فہو: ”المُجتبیٰ من السنن“، ترَک کلَّ حدیثٍ أوردہ فی ”السنن“ مِمَّا تُکُلِّم فی إسنادہ بالتعلیل“(۱۶).

اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی(متوفی۱۱۹ھ)رحمہ اللہ نے''سننِ نسائی'' کی شرح”زہْرُ الرُّبی علی المُجتبیٰ“کے مقدمہ میں اس حوالے سے تحریر فرمایاہے:

”قال محمدُ بنُ معاویةَ الأحمر الراوی عن النَّسائی، قال النَّسائیُّ: کتابُ ”السُّنن“ کلُّہ صحیحٌ، وبعضُہ معلُولٌ إلا أنہ لمْ یُبیِّن عِلّتَہ، والمُنتخَب المُسَمَّی ب”المُجْتَبیٰ“ صَحیحٌ کلُّہ“.
وذکَر بعضُہم: أن النَّسائیَّ لما صَنَّف  ”السنن الکُبریٰ“، أہداہ إلی أمیر الرملة، فقال لہ الأمیرُ: أَکُلُّ ما فی ہذا صحیحٌ؟، قال: لا، قال: فجَرِّد الصحیحَ منہ، فصَنَّف ”المُجْتبیٰ“(۱۷).

نوٹ:  راوی کتاب کی طرف نسبت کرتے ہوئے''سنن کبریٰ'' کو ''روایتِ ابن الاحمر'' اور''سنن صغریٰ'' (یعنی ”المُجْتبیٰ“)کو ''روایتِ ابنُ السُنی'' بھی کہاجاتاہے،” سننِ نَسائی“ کے مشہور شارح شیخ محمد بن علی بن آدم الاِثیوبی (متوفی۲۴۴۱ھ)رحمہ اللہ نے”ذخِیرۃالعُقبیٰ فی شرح المُجتبیٰ“   کے مقدمہ میں تاج الدین سُبکی(متوفی۱۷۷ھ)رحمہ اللہ کا یہ قول نقل فرمایاہے کہ ان دونوں میں سے کتبِ ستہ میں ”سنن نَسائی صُغریٰ“ (یعنی ”المُجْتبیٰ“) د اخل ہے، نہ کہ” سننِ نسائی کُبریٰ“، چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”وقال القاضی تاج الدین السُبْکی: ”سُنن النَّسائی“ التی هی إحْدَی الکتب الستة، هی ”الصُغْریٰ“، لا ”الکُبْریٰ“(۱۸).

حضراتِ محدثین جب مطلقًا ''سُننِ نَسائی'' کہتے ہیں،تواس سے”المُجتبیٰ“ اور ”السُّنن الصُّغْریٰ“ہی مراد ہوتی ہے،جوکہ ہمارے ہاں مشہور  ومعروف ہے اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب میں داخل  ہے۔

شرح معانی الٓاثار:

یہ امام ابو جعفراحمدبن محمدبن سلامہ الطحاوی(متوفی۱۲۳ھ)رحمہ اللہ کی کتاب ہے،جوکہ احکامِ فقہ سے متعلق متعارض احادیث کے حل پرمشتمل ہے،اس کامکمل نام”شرْح معانی الآثار المُختلفةِ المرویةِ عن رسول اللہ ﷺ فی الأحکام“ہے اوریہ اصل نام کتاب کے مضمون اورمندرجات کی طرف مشعرہے،یہ مکمل نام خود مصنفِ کتاب رحمہ اللہ کی عبارت میں بھی موجود ہے،چنانچہ وہ”شرح معانی الآثار“میں ”کتاب الحجۃ فی فتح رسول اللہ ﷺ مکۃَ عَنْوۃً“کے تحت تحریرفرماتے ہیں:

”وقد ذکرْنا فی ہذا الباب الآثارَ التی رواہا کلُّ فریقٍ مِمَّن ذہَب إلی ما ذہَبَ إلیہ أبو حنیفةَ، وأبو یوسفَ رحمہما اللہ فی کتاب البیوع من”شرْح معانی الآثار المُخْتلِفَة المرْوِیة عن رسولِ اللہ ﷺ فی الأحکام“(۱۹).

شیخ عبدالفتاح ابوغُدہ(متوفی۷۱۴۱ھ)رحمہ اللہ نے”ظفَر الأمانی“کے حاشیہ میں ”شرح معانی الآثار“کے اصل نام کے حوا لے سے مفصل کلام فرمایا ہے اوراس بات کی پُرزورتاکیدکی ہے کہ جدیدطباعت میں مکمل نام ٹائیٹل پر چسپاں کرنا چاہیے،چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”ہکذا شاع اسمُ ہذا الکتاب للإمام الطحاویِّ رحمہ اللہ ”شرح معانی الآثار“، وہو الاسمُ المُثبَتُ علی النُّسْخةِ المطبوعةِ بالہِندِ، ثم بمِصرَ عنہا، وفیہ اختصارٌ غَیَّبَ ذکْرَ مزیَّةِ ہذا الکتابِ فی مضمُونہ، ومُحتواہ، وقد رأیتُ اسمَہ تامًّا مشکولًا ہکذا:”شرْحُ معانی الآثار المُخْتلِفَةِ المأثُورۃِ“،رأیتُہ عامَ ۳۸۳۱ھ فی الجزء الثانی من النسخة ذات الجزأین، المحفوظة فی المکتبة المحمودیة بالمدینة المنورۃ، ورَقْمُہا فیہا۳۱۴۱... والنسخةُ المَخطوطةُ المذکورۃُ قرَأَہا طائفةٌ من العُلماء الأجِلَّة، مِنہم: أبو حامد أحمد بن الضیاء الحنَفِیُّ المکِّیُّ...
وہی نُسْخةٌ نظِیفةُ الخَطِّ، واضِحةُ الضَّبْطِ لَعلَّہا کُتِبتْ فی القرْن السادِسِ أو قبْلَہ.وقد أفادَت فائدۃً جُلیَّ، وہی تحْدیدُ مَوضوعِ ہذا الکتاب من اسمِہِ وعُنوانِہ، فإنَّ اسمَہ المُثبَتَ علی طبعة الہِند، وما بعدَہا من الطبعات لا یُشَخِّصُ مضمُونَہ، ولا یَدُّل علی مزِیَّتِہ الغالیَةِ، أمَّا الاسمُ المذکورُ فہو کاشِفٌ لِما أُلِّف الکتابُ من أجلِہ، فیُستفادُ ذلک ویُنشَر، وجاء اسمُ الکتابِ فی داخلِہ... فی ”کتاب الحجة فی فتح رسول اللہ ﷺ مکةَ عَنوۃً“: ہکذا من کلامِ مُؤلِّفِہ: ”شرحُ معانی الآثار المُختَلِفِةِ المَروِیَّة عن رسول اللہ ﷺ فی الأحکام“، وہو أتمُّ، ففیہ زیادۃٌ ”فی الأحکام“ فیَنبَغِی إثباتُہ علی وجْہِ الکتاب عند طبْعِہ مِن جدید“(۲۱).

واضح رہے کہ مختصرنام کے طور پران کتب کو صحیح بخاری،صحیح مسلم،سننِ نَسائی،جامع ترمذی،شمائلِ محمدیہ اور شرح معانی الآثار،یا شرح طحاوی کہنا چاہیے اوران کو بغیر تاویل کے بخاری،مسلم،نَسائی،ترمذی اورطحاوی وغیرہ کہناایسے ہے،جیسے کوئی ملتان میں رہنے والاشخص کتاب تصنیف کرے اوراس کی کتاب کو ملتانی کہا جانے لگے،جبکہ ملتانی شخص (مؤلفِ کتاب) کی نسبت ہے، کتاب کا نام نہیں ہے۔

اسی طرح ہمارے ہاں درسِ نظامی کے عُرف میں بیضاوی،جلالین، سِراجی،حُسامی،قُطبی،جامی،شاشی اورقدوری وغیرہ کے عُنوان سے بھی کتابیں مشہور ہیں، جبکہ یہ مؤلفین کی نسبتیں ہیں،کتابوں کے نام نہیں۔

 تفسیر بیضاوی:

اس کااصل نام”أنوار التنزیل وأسرار التأویل“ہے(۲۲)،جوکہ علامہ ناصرالدین ابوسعید عبداللہ بن عمر البَیضاوی(متوفی۵۸۶ھ) رحمہ اللہ کی تصنیف ہے،مصنف رحمہ اللہ کی نسبت(البَیضاوی) کی وجہ سے کسی نے اسے''بیضاوی'' کہہ دیا،تویہ مشہور ہوگیا،جوکہ اپنی اصل کے اعتبار سے بغیر تاویل کے درست نہیں،مختصر نام کے طور پر اسے''تفسیرِ بَیضاوی'' کہنا چاہیے، نہ کہ صرف''بیضاوی''،جوکہ ملکِ فارس کے شہر''بَیضاء'' کی طرف مؤلف  رحمہ اللہ کی نسبت ہے، کتاب کا نام نہیں۔

جلالین کی درست تعبیر:

اسی طرح درجہ سادسہ میں تفسیر کے موضوع پر داخلِ نصاب کتاب کو ''تفسیرِجلالَین'' کہنا چاہیے، نہ کہ صرف ''جلالَین''، جو کہ اس کے دو مصنفین (جلال الدین محلی متوفی۴۶۸ھ رحمہ اللہ اور جلال الدین سیوطی متوفی ۱۱۹ھ رحمہ اللہ) کے لقب (جلال الدین) کا مُخفف اور اختصار ہے،کتاب کا نام نہیں۔

سِراجی:

درسِ نظامی میں میراث کے موضوع پرداخلِ  نصاب کتاب کا درست نام”المُخْتصَر فی الفرائض“ہے(۲۳)، جوکہ سراج الدین محمدبن عبدالرشید السجاوندی(متوفی۰۰۶ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف ہے،مصنف رحمہ اللہ کے لقب(سراج الدین)کی وجہ سے کسی نے اسے''سراجی'' کہہ دیا، تویہ روایت چل پڑی،حتی کہ طابعین نے بھی اس کے اصل نام کی تحقیق کی زحمت نہیں اٹھائی اور اسے ”السراجی فی المیراث“ کے نام سے شائع کرنا شروع کردیا، جبکہ تحقیق کی رُو سے یہ درست نہیں ہے،بلکہ اسے اصل نام سے ہی شائع کرنا چاہیے۔

حُسامی:

اس کادرست نام”المُنتَخَب فی أُصول المَذہب“ہے(۲۴)،یہ حسام الدین محمد بن محمد بن عمر الاخسیکثی (متوفی۴۴۶ھ) رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، اسے بھی کسی نے مصنف رحمہ اللہ کے لقب(حسام الدین) کی وجہ سے''حسامی''کہہ دیا،تو یہ روایت چل پڑی، جبکہ اس کادرست نام یہ نہیں ہے،بلکہ اس کادرست نام وہی ہے، جو اوپرذکر کیا گیا ہے۔

 قُطبی:

یہ علمِ منطق کی مشہورکتاب”الرسالۃ الشمسیۃ“کی شرح ہے اوراس کا اصل نام ”تحْریرُ القواعد المَنطقِیَّة فی شرح الرسالة الشمسیة“، جیسا کہ خود مصنفِ کتاب شیخ قُطب الدین محمود بن محمد الرازی (متوفی۶۷۵ھ)رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب کے مقدمہ میں اس کی تصریح فرمائی ہے(۲۵)۔

اس کتاب کوبھی مصنف رحمہ اللہ کے لقب(قطب الدین) کی وجہ سے کسی نے''قطبی''کہہ دیا،تو یہ مشہور ہوگیا،جبکہ یہ اس کااصل نام نہیں ہے۔

شرح مُلاجامی:

اس کادرست نام”الفوائدُ الضِّیائِیةُ علی متن الکافیة“ہے(۲۶)،جوکہ مشہورنحوی ابن الحاجب (متوفی۶۴۶ھ)رحمہ اللہ کی کتاب ”الکافیۃ“کی شرح ہے اوریہ شرح مُلا نورالدین عبدالرحمن بن احمدالجامی(متوفی ۸۹۸ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف کردہ ہے، اس کتاب کومصنف رحمہ اللہ کی نسبت (الجامی) کی وجہ سے''جامی'' کہہ دیا جاتا ہے،مگر یہ درست نہیں ہے،البتہ! اس کتاب کو مختصر نام کے طورپر''شرح مُلا جامی'' کہا جا سکتا ہے۔

اصولِ شاشی:

اس کااصل نام”الخمْسین فی أصول الفقہ“ہے(۲۷) اور یہ نظام الدین الشاشی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے جوکہ غالب رجحان کے مطابق چھٹی یا  ساتویں صدی ہجری کے علماء میں سے تھے، بالتعیین ان کی تاریخِ وفات معلوم نہیں ہوسکی، باقی ان کی وفات کے بارے میں ۳۴۴ھ کا مشہور قول اس وجہ سے درست نہیں ہے کہ اس کتاب میں ایسے علماء کے حوالہ جات موجود ہیں کہ جو ۳۴۴ھ سے بعد کے ہیں اوراس کتاب کے مذکورہ نام رکھنے کی وجہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ مصنف رحمہ اللہ نے اس میں پچاس اُصولِ فقْہ درج فرمائے ہیں،یا مصنف رحمہ اللہ نے پچاس سال کی عمر میں یہ کتاب تصنیف فرمائی تھی،اسے مختصر نام کے طور پر''اُصولِ شاشی''کہنا چاہیے،اسے ''شاشی'' کہنا درست نہیں۔

مختصرالقدوری:

یہ ابوالحسین احمدبن محمدالقدوری(متوفی۴۲۸ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف ہے،مشہورمفہرس حاجی خلیفہ(متوفی ۱۰۶۷)رحمہ اللہ نے اپنی کتاب”کشْف الظُّنُون عن أسامی الکتُب والفُنون“ میں اس کا نام”المُختصر فی فروع الحنفیة“لکھا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

”المُختصر فی فروع الحنفیة“ للإمام أبی الحسین أحمد بن محمد القدوری، البغدادی، الحنفی“(۲۸).

شیخ علاء الدین محمدبن احمدسمرقندی(متوفی۵۴۰ھ)رحمہ اللہ نے اپنی کتاب”تحفۃ الفقہاء“میں اورشیخ برہان الدین علی بن ابی بکرالمرغینانی(متوفی ۳۹۵ھ)رحمہ اللہ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ”الہِدایۃ فی شرح بِدایۃ المُبتدی“ میں اس کا نام صرف”المُختصر“ذکر فرمایا ہے(۲۹)۔

نیزامام قدوری رحمہ اللہ کی”المُختصر“چونکہ اُمہات المسائل پرمشتمل ہے،اس وجہ سے یہ اہلِ علم کے ہاں ”الکتاب“کے نام سے بھی مشہور ہے، چنانچہ شیخ ابوسعدالیزدی(متوفی۵۹۱ھ)رحمہ اللہ اورشیخ عبدالغنی المیدانی(متوفی ۱۲۹۸ھ)رحمہ اللہ نے اسی اعتبار سے''مختصر القدوری''پراپنی شرح کا نام ”اللُّبَاب فی شرْحِ الکتاب“ رکھاہے اور بعض مرتبہ اسے”المُختصَر فی الفقہ الحنفی“ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔

مختصر نام کے طور پراسے''مختصر القدوری''کہنا چاہیے، نہ کہ صرف''قدوری''کہ اس سے مؤلف کی ذات مراد ہے۔

اسی طرح درسِ نظامی کی بعض کتب کی نسبت میں بھی تسامح پایاجاتا ہے کہ ان کے متعلق طلبہ درسِ نظامی کے عمومی حلقوں میں حقیقت سے ہٹ کرتاثر قائم ہے، چنانچہ:

     ۱)    درجہ سابعہ کی نصابی کتب کے حوالے سے یہ بات تواتر کی حد تک مشہور ہے کہ اس کلاس میں اُصولِ حدیث کے مو ضوع پر”نُخْبَۃ الفِکَر“داخلِ نصاب ہے،حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ درجہ سابعہ میں اُصولِ حدیث کو موضوع پر داخلِ نصاب کتاب کا نام”نُزْہَۃ النَّظَر“ہے،جوکہ”نُخْبَۃ الفِکَر“کی شرح ہے ا ور”نُخْبَۃ الفِکَر“خودتو دو تین اوراق پر مشتمل ایک مختصر سا متن ہے۔

درجہ سابعہ میں داخلِ نصاب اس کتاب کا پورا نام ”نُزْہَۃ النَّظَرِ فی تَوضِیحِ نُخْبَۃ الفِکَر فی مُصْطلَحِ أہْل الأثَر“ہے،اسے''نخبۃُ الفکر'' یا ''نخبہ'' کہنا درست نہیں ہے، ہاں البتہ!   مختصر نام کے طور پر اگراسے ”شرْحُ النُّخبۃ“  کہاجائے،تو یہ کسی حد تک درست ہے۔

     ۲)    اسی طرح درجہ سادسہ میں حدیث کے موضوع پر داخلِ نصاب کتاب ''مسندِ امام اعظم ''کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ اسے امام اعظم ابوحنیفہ (متوفی ۱۵۰ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف سمجھا جاتا ہے،جبکہ یہ تاثر درست نہیں؛ اس لیے کہ''مسندِ امامِ اعظم ''نہ توخودامامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اپنی تصنیف نہیں ہے اور نہ ہی بطورِ روایت آپ کے کسی شاگرد کی مرتب کردہ کتاب ہے،بلکہ یہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی وفات سے بہت بعد میں حافظ عبداللہ حارثی (متوفی۳۴۰ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف کردہ''مسندِ اَبی حنیفہ''کے اختصار کی فقہی تبویب ہے کہ حافظ عبداللہ حارثی رحمہ اللہ کی ''مسندِاَبی حنیفہ'' کا قاضی صدرالدین حصکفی (متوفی۶۵۰ھ)رحمہ اللہ نے تقریبًاایک ثلث حَجْم میں اختصارلکھا،جسے تیرھویں صدی ہجری کے مشہورمحدث اورحنفی فقیہ مُلامحمدعابدسندھی (متوفی۱۲۵۷ھ) رحمہ اللہ نے فقہی ابواب پرمرتب کیاتھا اورآج یہی فقہی تبویب''درسِ نظامی'' میں داخلِ نصاب ہے اور ہمارے ہاں تمام مدارسِ دینیہ میں پڑھائی جاتی ہے۔

    ۳)    اسی طرح اُصول فقْہ کے موضوع پرمنتہی در جے کی کتاب''توضیح تلویح''ہے کہ اس نام کے مشہور سیاق سے تاثر ملتاہے کہ شاید یہ کتاب ''تلویح'' کی توضیح اور اس کی شرح ہے اور''تلویح'' اس کا متن ہے، حالانکہ ایسا نہیں اور کتاب کی تسمیہ کا یہ سیاق اپنی اصل کے اعتبار سے درست نہیں ہے۔

اس کی درست تسمیہ کا قصہ یہ ہے کہ مشہورحنفی فقیہ صدرالشریعہ الاَصغر(متوفی۷۴۷ھ)رحمہ اللہ نے اولًا ”تَنْقِیحُ الأصول“(۰۳)نامی کتاب تصنیف فرمائی،جس کی پھر خود ہی انہوں نے ”التَّوضِیحُ فی حلِّ غوامِض التَّنْقِیح“(۳۱)کے نا م سے شرح لکھی،پھراس شرح پرعلامہ سعدالدین تفتازانی (متوفی۷۹۳ھ)رحمہ اللہ نے”التَّلْوِیحُ إلی کَشْفِ حَقائقِ التنقیح“(۳۲)کے نام سے حاشیہ لکھااورمقاصدِ کتاب کوخوب منقح کرکے پیش کیا۔

اسے مختصر نام کے طور پر''التلویح علی التوضیح'' یا حرفِ جار کو حذف کر کے''تلویح توضیح'' کہا جاسکتاہے.......واللہ تعالی أعلم بالصواب



حوالہ جات

(۱) ”الفِہرِسَۃُ“ لأبی بکر محمد بن خیر الإشبیلی، ص: ۲۸، ت: محمد فؤاد منصور، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۲) ”معرفۃُ أنواع علم الحدیث“، معرفۃُ الصحیح من الحدیث، ص: ۴۹، ت: ماہر یاسین الفحل، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۳) ”تہذیب الأسماء واللغات“ للنَّوَوِیِّ: ۱/۳۷، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۴) ”عمدۃ القاری بشرح صحیح البخاری“ لبدر الدین العَینِیِّ: ۱/۵، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان.

(۵) ”فِہرِسَۃُ ابن خیر الإشبیلی“، ص: ۵۸، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۶) ”تحقیقُ اسمَیِ الصحِیحَین واسمِ جامع التِّرمَذی“ للشیخ عبد الفتاح أبو غدۃ، ص: ۸۳، ط: مَکتب المطبوعات الإسلامیۃ، حلب، شام.

(۷)  ”تحقیقُ اسمَیِ الصحِیحَین واسمِ جامع التِّرمَذی“ للشیخ عبد الفتاح أبو غدۃ، ص: ۳۳، ط: مَکتب المطبوعات الإسلامیۃ، حلب.

(۸) ”فِہرِسَۃُ ابن خیر الإشبیلی“، ص: ۸۹، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۹) دیکھیے: ”تحقیق اسمَیِ الصحِیحَین واسمِ جامع التِّرمَذی“، ص:۳۵، ط: مَکتب المطبوعات الإسلامیۃ، حلب، شام.

(۱۰) دیکھیے: ”تحقیق اسمَیِ الصحِیحَین واسمِ جامع التِّرمَذی“، ص: ۸۵، ط: مَکتب المطبوعات الإسلامیۃ، حلب.

(۱۱) ”کشْف الظُّنون عن أسامی الکتُب والفُنون“ لحاجی خلیفۃ: ۲/۹۶۰۱، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان.

(۱۲) ”زہْرُ الخَمائل علی الشمائل“ لجلال الدین السُّیُوطیِّ، ص:4، ط: مکتبۃ القرآن، بیروت، لبنان.

(۱۳) ”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّۃُ والخَصائلُ المُصْطَفَوِیَّۃ“، مقدمۃ التحقیق لابن عباس الجلیمی، ص: ۹، ط: مکتبۃ التجاریۃ، مکۃ المکرمۃ.

(۱۴) ”لمحات فی المکتبۃ والبحث والمصادر“ للدکتور محمد عجّاج الخطیب، ص: ۹۲۲، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان.

(۱۵) ”فِہرِسَۃُ ابن خیر الإشبیلی“، ص:۷۹، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۱۶) ”جامع الأصول فی أحادیث الرسولﷺ“ لابن الأثیر الجزری: ۱/۷۹۱، ت: عبد القادر الأرنؤوط، ط: دار الفکر، بیروت، لبنان.

(۱۷) ”زہْرُ الربی علی المجتبی“ للسیوطی: ۱/۵، ط: دار الفکر، بیروت، لبنان.

(۱۸) ”ذخِیرۃ العُقبیٰ فی شرْح المُجتبیٰ“ لمحمد بن آدم الإثیوبی: ۱/۷۲، ط: دار المعراج الدولیۃ للنشر، الریاض، السعودیۃ.

(۱۹) ”شرح معانی الآثار المُختلِفۃ المرویۃ عن رسول اللہ ﷺ فی الأحکام“ للطحاوی: ۳/۸۱۳، ت: یوسف المرعشلی، ط: عالم الکتب.

(۲۰) ”ظفر الأمانی بشرح مختصَر السید الشریف الجُرجانی“ للکنوی، ص: ۵۲، ت: عبد الفتاح أبو غدۃ، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیۃ.

(۲۱) خُطبۃ المؤلِّف: ۱/۶، ت: محمد صحیی حسن حلَّاق، ط: دار الرشید، بیروت، و”کشْف الظُّنون عن أسامی الکتُب والفُنون“ لحاجی خلیفۃ: ۱/۱۶۸، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان.

(۲۲) ”الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیۃ“ لمحیی الدین عبد القادر القرشی: ۲/۹۱۱، ط: میر محمد کتب خانہ، کراتشی، و”طبقات الحنفیۃ“ لعلی الحنائی، ص: ۶۶۱، ط: مرکز العلماء للدراسات وتقنیۃ المعلومات.

(۲۳) ”مُعجَم المؤلفین“ لعمر رضا کَحالۃ الدِمَشقی: ۴/۸۲، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، و”المدخل إلی الفقہ الإسلامی وأصولہ“ للدکتور صلاح محمد أبو الحاج، ص: ۵۷۳، ط: جامعۃ آل البیت.

(۲۴) ”تحْریرُ القواعِدِ المَنطقِیَّۃِ فی شرح الرسالۃ الشمسیۃ“ لقطب الدین الرازی، ص: ۱۲، ط: البشری، کراتشی.

(۲۵) ”کشْف الظُّنون عن أسامی الکتُب والفُنون“ لحاجی خلیفۃ: ۲/۰۷۳۱، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان.

(۲۶) ”المدخل إلی دراسۃ المذاہب الفقہیۃ“ لعلی جعمۃ محمد عبد الوہاب، ص: ۴۱۱، ط: دار السلام، القاہرۃ.

(۲۷) ”کشْف الظُّنون عن أسامی الکتُب والفُنون“ لحاجی خلیفۃ: ۲/۱۳۶۱ ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان.

(۲۸) ”تحفۃ الفقہاء“ للسمرقندی: ۱/۵، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، و”الہِدایۃ فی شرح البدایۃ“ للمرغینانی: ۱/۵۵، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت.

(۲۹) ”التوضیح مع التلویح“، ص: ۶، ط: قدیمی کتب خانہ، کراتشی، باکستان.

(۳۰) ”التوضیح مع التلویح“، ص: ۸، ط: قدیمی کتب خانہ، کراتشی، باکستان.

(۳۱) ”التوضیح مع التلویح“، ص: ۳۱، ط: قدیمی کتب خانہ، کراتشی، باکستان.


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(دسمبر ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter