برادرم حسن الیاس (ڈائریکٹر غامدی سنٹر آف اسلامک لرننگ، ڈیلس، امریکا) کا کافی عرصے سے حکم تھا کہ کچھ دن کے لیے ڈیلس میں غامدی سنٹر کا مہمان بنا جائے۔ احادیث نبویہ کی شرح ووضاحت پر مبنی ایک مجموعے کی تیاری میں مشاورت کے حوالے سے نومبر کے دوسرے ہفتے میں اس سفر کی ترتیب بن گئی اور میں اس وقت تقریباً تین ہفتے سے ڈیلس میں ہوں۔
۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۹ء کے عرصے میں، جب میں المورد کے ساتھ بطور تحقیق کار وابستہ تھا اور ہفتہ وار علمی نشستوں میں غامدی صاحب کی کتاب میزان اور تفسیر البیان زیر مطالعہ رہتی تھی، تو حدیث کی شرح وتحقیق کا کام بنیادی طور پر المورد کے مختلف اسکالرز کے سپرد تھا۔ طالب محسن صاحب، رفیع مفتی صاحب اور معز امجد صاحب مختلف شکلوں میں احادیث کی شرح ووضاحت کا کام کر رہے تھے۔ غامدی صاحب کی اصولی راہنمائی ان سب اہل علم کو حاصل تھی، لیکن وہ بذات خود میزان اور البیان کی تکمیل میں مصروف تھے۔ میزان تو اسی عرصے میں مکمل ہو چکی تھی، جبکہ البیان کی تکمیل ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۹ء کے عرصے میں ہوئی جب وہ ملائشیا میں مقیم تھے۔ البتہ ان کا یہ ارادہ ضرور تھا کہ البیان مکمل ہونے کے بعد وہ حدیث کی شرح ووضاحت پر بھی خود کام کریں گے۔
اسی دورانیے میں برادرم حسن الیاس ان کے پاس ملائشیا چلے گئے تھے اور وہاں انھوں نے اور مولانا ڈاکٹر عامر گزدر (فاضل جامعہ علوم اسلامیہ، بنوری ٹاون) نے ۲۰۱۷ء میں غامدی صاحب کی نگرانی میں حدیث پراجیکٹ کی باقاعدہ ابتدا کی۔ اس میں احادیث کے متن کی تحقیق وتخریج اور متن کا ترجمہ وحواشی لکھنے کا کام یہ دونوں فاضلین کرتے ہیں۔ غامدی صاحب کی نظرثانی کے بعد جب روایت کا بہترین نمائندہ متن منتخب کر لیا جاتا ہے تو پھر اس کے اہم پہلووں پر غامدی صاحب خود اپنے قلم سے تشریحی حواشی لکھتے ہیں۔
اس تحقیقی کام کا پہلا مجموعہ ’’علم النبی“ کے عنوان سے اشاعت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ میں اس کے متفرق اجزا تو اشراق میں دیکھتا رہا، تاہم کچھ ماہ قبل حسن الیاس صاحب نے جناب جاوید احمد غامدی کی یہ تجویز مجھ تک پہنچائی کہ شائع ہونے سے قبل اگر ایک دفعہ میں بھی اس پورے مواد کو دیکھ کر اپنی تجاویز اور مشورے عرض کر دوں تو مناسب ہوگا۔ میں نے تعمیل ارشاد میں کچھ منتخب حصوں سے متعلق اپنی بساط اور سمجھ کے مطابق تجاویز یا ترامیم پیش کر دیں۔ بہت سے سوالات بھی سامنے آتے رہے جن پر غامدی صاحب سے براہ راست استفادہ کی ضرورت تھی۔ یوں موجودہ سفر کا ایک تقاضا بنتا چلا گیا جس کا خاص مقصد اسی مجموعے کی نظرثانی اور بہتری کے عمل میں شریک ہونا اور اہم سوالات سے متعلق غامدی صاحب سے استفادہ کرنا ہے۔
ٹیکساس کی طرف پہلی دفعہ آنا ہوا۔ اس سے پہلے تین اسفار میں زیادہ تر نیو یارک، واشنگٹن، ورجینیا اور نارتھ کیرولائنا کی طرف رخ رہا۔ گزشتہ سفر میں انڈیانا اور شکاگو کے علاقے دیکھے تھے۔ اس سفر میں زیادہ تر قیام ڈیلس میں رہا جو ٹیکساس کے بڑے اور متمول شہروں میں سے ایک بتایا جاتا ہے۔ سابق امریکی صدور جارج بش سینئر وجونیئر کا تعلق بھی یہیں سے ہے۔ بتایا گیا کہ یہاں معاشرتی طور پر مذہبی رجحان بہت نمایاں ہے جس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ ڈیلس میں گھومتے ہوئے ہر روڈ پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چرچ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا تعلق مختلف مسیحی فرقوں سے ہے اور یہ آباد چرچ ہیں۔
مسلمان، خاص طور پر پاکستانی اور ہندوستانی مسلمان بھی یہاں کافی تعداد میں ہیں اور اکثریت پروفیشنل طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ غامدی سنٹر میں ہفتہ وار آن لائن درس قرآن میں جو پندرہ بیس حاضرین وحاضرات جسمانی طور پر موجود تھے، ان میں سے زیادہ تر ڈاکٹر تھے۔ پتہ چلا کہ امریکا کے کئی نمایاں مسلم اہل علم ومبلغین مثلاً شیخ یاسر قاضی، عمر سلیمان اور نعمان علی خان بھی اسی علاقے میں ہیں۔ یہاں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا مرکز منہاج القرآن سنٹر بھی ہے اور غامدی صاحب نے بتایا کہ وہ نماز جمعہ معمولاً وہیں ادا کرتے ہیں۔ قلم کے نام سے جامعہ بنوریہ عالمیہ کے بعض دیوبندی فضلا نے یہاں ایک دینی مدرسہ بھی قائم کیا ہے جہاں درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس سارے تنوع میں اب غامدی سنٹر کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔
جنوبی ایشیا کی بعد از استعمار سیاسی تاریخ اور مذہبی فکر کے ایک طالب علم کے طور پر یہ سوال غور وفکر اور تجزیے کا موضوع رہتا ہے کہ بدلے ہوئے تاریخی حالات میں ہمارے اہل فکر اور سیاسی اشرافیہ کے ہاں مسلم معاشرے کی تعمیرنو کے خطوط کیا رہے ہیں اور اس حوالے سے کون سی قابل توجہ کوششیں اب تک سامنے آئی ہیں۔ اس ضمن میں اگر بڑی سطح کی، جامعیت رکھنے والی اور عملاً قابل لحاظ اثرات مرتب کرنے والی کوششیں شمار کی جائیں تو وہ ہمارے خیال میں اب تک تین ہی بنتی ہیں:
۱۔ سرسید احمد خانؒ کی دینی وسیاسی فکر
۲۔ دیوبندی تحریک ، اور
۳۔ مولانا مودودیؒ کی فکر۔
ان تینوں نے پچھلی ڈیڑھ صدی میں ہماری تاریخ اور معاشرے پر خاص اثرات مرتب کیے ہیں، لیکن تاریخ کے عام اصول کے مطابق ہر فکری تحریک کی کچھ محدودیتیں ہوتی ہیں جن سے تاریخ پر اثراندازی کا ایک saturation point وجود میں آتا ہے۔ یہ تینوں فکری دھارے اس نقطے تک پہنچ کر داخلی اضمحلال اور انتشار کا شکار ہیں جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ کوئی نیا فکری دھارا جو مسلم معاشرے اور اس کے مسائل کو بحیثیت کل کے موضوع بناتا ہو، اپنا کردار ادا کرے اور متقدم فکری دھارے، اپنے تاریخی بوجھ اور محدودیت کی وجہ سے، جس تاریخی صورت حال کو سمجھنے، اس پر توجہ دینے اور اس کو ایڈریس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس پر ایک بیانیہ پیش کرے۔
میری طالب علمانہ رائے میں جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر، گزشتہ تین دہائیوں کے نضج اور ارتقاء کے بعد، اب ان ضروری شرائط کو پورا کرتی ہے جو کسی فکر کو یہ کردار سونپے جانے کے قابل بناتی ہیں۔ تاہم میرا یہ بھی احساس ہے کہ ان کو اس وقت جو ایک وسیع پذیرائی اور عصبیت میسر ہے، شاید اس پر بھی اس فکر کا یہ potential اتنا واضح نہیں۔ اس تناظر میں، دینی فکر کی تاریخ کے ایک طالب علم اور غامدی صاحب کی فکر کی ایک ہمدردانہ تفہیم رکھنے والے مبصر کے طور پر یہ ارادہ ہے کہ اس حوالے سے کچھ اہم معروضات، دینی امانت سمجھ کر، وقتاً فوقتاً اس حلقے کی خدمت میں پیش کی جائیں۔
غامدی سنٹر میں ہفتہ اور اتوار کو آن لائن درس قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں کچھ حضرات وخواتین بالمشافہہ بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ درس کے بعد غیر رسمی نشست میں حاضرین عمومی موضوعات پر تبادلہ خیال یا سوال وجواب کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک نشست میں حاضرین کے مابین فلسطین کے مسئلے پر گرما گرم بحث سننے کو ملی جس میں دونوں انتہاؤں کی نمائندگی ہو رہی تھی۔ ایک نقطہ نظر یہ تھا کہ سارے اسرائیلی شہری مقاتل ہیں اور ان کو نشانہ بنانا جائز ہے۔ دوسرا یہ تھا کہ غزہ کے لوگ حماس کے حامی اور موید ہونے کی وجہ سے خود موجودہ صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ غامدی صاحب بیچ بیچ میں کوشش کر رہے تھے کہ اعتدال کا نقطہ واضح ہو۔
ایک اہم بات انھوں نے یہ کہی جو گزشتہ دنوں میں نے بھی عرض کی تھی کہ صہیونی تحریک نے حقیقت میں یہودیوں کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ ان کی مصیبت کو بڑھا دیا ہے۔ غامدی صاحب نے اس کا یہ پہلو واضح کیا کہ دراصل صہیونی قائدین نے تاریخ میں رونما ہونے والی تبدیلی کو نہیں سمجھا اور اس کے علی الرغم ایک اقدام کر ڈالا۔ یورپ میں تاریخ اس سمت میں بڑھ رہی تھی کہ وطنی قومیت کی بنیاد پر ریاستیں بنیں جن میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں، لیکن صہیونیوں نے وطنی قومیت کے عہد میں ایک نسلی ریاست قائم کر ڈالی۔ نتیجہ یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کی تمام قومی ریاستوں میں یہودی بالکل محفوظ ہیں اور یہودی مسئلہ ختم ہو چکا ہے (بلکہ اتنا تحفظ حاصل ہے کہ ہولوکاسٹ کا انکار ایک جرم سمجھا جاتا ہے) جبکہ خود نسلی یہودی ریاست میں ان کو بعینہ اس صورتحال کا سامنا ہے جس سے نجات پانے کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا تھا۔ یوں صہیونیت نے، ظاہری اسباب کے دائرے میں، یہودی مسئلے کو حل کرنے میں نہیں بلکہ اس کو مزید طول دینے میں کردار ادا کیا ہے۔
میرے خیال میں اسی وجہ سے یورپ اور امریکا میں خود یہودیوں میں بھی اسرائیل کی مخالفت کرنے والا ایک بڑا طبقہ پایا جاتا ہے۔ جو کچھ صہیونی کر رہے ہیں، اس پر مجموعی حیثیت میں سارے یہودیوں کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ صہیونی نظریہ اگرچہ بظاہر ایک سیکولر نظریہ تھا، لیکن اس نے مسئلے کے حل کے لیے یہودیوں کے مذہبی تصورات کو بنیاد بنایا اور آج اسرائیل میں متشدد مذہبی وسیاسی بیانیے غالب ہو چکے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر بقا کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ عالمی سیاست کی سطح پر اسرائیل خالصتا" استعماری کردار ہے جس کی خطے کے ساتھ کوئی فطری اور مثبت نسبت نہیں پائی جاتی۔ یہ پہلو عالمی سیاسی ڈسکورس میں نمایاں کرنے کی ضرورت ہے اور امریکا میں موجود اہل قلم واہل دانش اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز پراجیکٹ کے بانی پروفیسر ابراہیم موسی صاحب کو میری آمد کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے امریکن اکیڈمی آف ریلیجن کے سالانہ اجتماع میں شرکت کا انتظام کر لیا جو اتفاق سے نومبر میں سین اینٹونیو، ٹیکساس میں ہی منعقد ہو رہا تھا۔ امیرکن اکیڈمی آف ریلیجن امریکا میں مذہبی مطالعات سے وابستہ اسکالرز کی ایک بڑی تنظیم ہے جو دیگر سرگرمیوں کے علاوہ محققین کے ایک سالانہ اجتماع کا اہتمام کرتی ہے۔ اس سال یہ اجتماع سین اینٹونیو، ٹیکساس میں منعقد ہوا جس میں پورے امریکا سے دس ہزار کے لگ بھگ اسکالرز شریک ہوئے۔ بتایا گیا کہ کووڈ کی وباسے پہلے یہ تعداد بیس سے پچیس ہزار تک ہوا کرتی تھی جس میں اب کافی تخفیف ہو گئی ہے۔
یہ اجتماع ۱۷ سے ۲۱ نومبر تک جاری رہا۔ صبح سات سے رات نو بجے تک درجنوں موضوعات پر اسکالرز، مختلف سیسشنز میں باہمی افادہ واستفادہ میں مصروف رہے۔ اجتماع کا انتظام ایک بڑے کنونشن سنٹر میں کیا گیا تھا جس کے مختلف ہالز میں مقررہ اوقات میں سیشنز جاری رہے۔ یہ ایک بہت بڑا اور اہم علمی اجتماع سمجھا جاتا ہے جس میں مذہبی مطالعات کے اسکالرز شرکت کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے تمام سیشنز کے موضوعات اور وقت ومقام انعقاد کی تفصیل کے لیے سوا چار سو صفحات کی ایک کتاب شائع کی گئی ہے اور ایک ایپ بھی اسی مقصد کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔
اجتماع میں جن مختلف سیشنز میں شرکت ہوئی، ان میں سے ایک پروفیسر جوناتھن لارنس کی کتاب Coping with Defeat پر ایک مذاکرہ تھا جس میں مصنف کے علاوہ، پروفیسر ابراہیم موسیٰ سمیت دوسرے اسکالرز بھی تبصرے کے لیے موجود ہیں۔
اسی طرح اسلامی معاشیات اور امریکہ میں مسلمانوں کی خیراتی تنظیموں سے متعلق ایک پینل ڈسکشن میں بطور سامع شرکت ہوئی جس میں ڈاکٹر صہیب خان بھی ایک پینلسٹ تھے۔ ڈاکٹر صہیب خان کی فراغت جامعہ اشرفیہ لاہور سے ہے اور اسلامی بینکنگ میں اختصاص حاصل کرنے کے بعد اب یہیں امریکا میں تدریسی وتحقیقی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ اسلامی بینکنگ کے مروجہ ڈھانچے اور اس کے نظری و عملی مسائل پر ان سے وقتاً فوقتاً سیکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ ایک خاص نکتہ انھوں نے یہ بیان کیا کہ اسلامی بینکنگ کے مروج بیانیے نے کیپٹلزم کی تنقید کے اس بیانیے کو کافی حد تک دبا دیا ہے جو ابتدا میں اسلامی معاشیات کا ایک بنیادی موضوع تھا۔
ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر شیر علی ترین نے حال ہی میں برطانوی عہد میں ہندو مسلم تعلقات کے حوالے سے اہم مذہبی بحثوں پر ایک کتاب شائع کی ہے۔ ایک سیشن اس کتاب پر بھی تھا جس میں مختلف اسکالرز نے ڈاکٹر ترین کے نتائج بحث پر سوالات اٹھائے اور ڈاکٹر ترین نے ان کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کیں۔
ایک شام کو مولانا امین بھٹی صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے اور عشائیہ کے لیے ایک ریستوران میں لے گئے۔ وہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے فاضل اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے علوم حدیث کے متخصص ہیں۔ انھوں نے مولانا معین الدین لکھوی ؒاور مولانا قاضی اسلم سیف ؒکے حوالے سے اپنی یادیں بیان کیں اور غامدی صاحب کے ساتھ تعارف اور تاثر کی داستان بھی سنائی۔ سین اینٹونیو میں ایک اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں اور خطبہ جمعہ بھی دیتے ہیں۔
اور بھی کئی اسکالرز سے ملاقات ہوئی۔ برطانیہ سے مولانا ہارون سیدات پہلے دن سے ہمارے ساتھ تھے۔ انھوں نے برطانیہ کے علاوہ دیوبند، ندوہ اور سہارنپور میں دینی تعلیم مکمل کی ہے اور یورپ میں دینی مدارس کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے۔ پاکستان سے ڈاکٹر نعمان فیضی بھی یہاں موجود تھے جو LUMS میں پڑھاتے ہیں اور ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ علامہ اقبال کی ری کنسٹرکشن پر ہے۔
ڈاکٹر علی الطاف میاں بھی پاکستان سے ہیں اور انھوں نے پروفیسر ابراہیم موسیٰ کی نگرانی میں مولانا اشرف علی تھانوی[ کی دینی فکر پر کام کیا ہے۔ آج کل یونیورسٹی آف فلوریڈا میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر علی میاں نے مذکورہ سب احباب کو عشائیے پر جمع کیا اور مختلف علمی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔
ایک اور سیشن جس میں شرکت ہوئی، اس کا عنوان Constructive Muslim Theology تھا جس میں پروفیسر ابراہیم موسی بھی پینلسٹ تھے۔ غیر متوقع طور پر یہاں ڈاکٹر شعیب ملک سے ملاقات ہو گئی جو ان دنوں امریکا میں ہیں اور اسلام اور سائنس کے موضوع پر مسلمان نوجوانوں کے ساتھ اہم سوالات پر گفتگو کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سات امریکی ریاستوں میں انھوں نے اجتماعات کیے ہیں اور اس موضوع پر نوجوانوں میں کافی علمی طلب پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر شعیب ملک نے اسلام اور نظریہ ارتقا پر اپنی کتاب کا اردو ترجمہ مکمل ہونے کی بھی اطلاع دی جو پاکستان میں مولانا یونس قاسمی کے ادارہ، افکار کے زیر اہتمام شائع ہوگی۔
۲۴ نومبر کو غامدی صاحب اور برادرم حسن الیاس کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مقامی منہاج القرآن سنٹر جانا ہوا۔ غامدی صاحب اصولاً حنفی فقہاء کے قدیم موقف کو درست سمجھتے ہیں جن کے نزدیک، عہد نبوی وعہد صحابہ کے تعامل کی روشنی میں، نماز جمعہ کی امامت حکمران یا اس کے مقرر کردہ عمال کا حق ہے۔ علماء ازخود کہیں بھی جمعہ کی امامت نہیں کر سکتے۔
احناف اس کی دلیل اجتماعی مصلحت سے بھی دیتے ہیں کہ جمعے کا منبر اسلامی ریاست کا ایک اجتماعی اور پبلک پلیٹ فارم ہے اور اس کو انفرادی صوابدید کے سپرد کرنے سے منافست اور مقابلہ بازی پیدا ہوگی جس سے معاشرے میں انتشار پھیلے گا۔ یہ اسلامی اجتماعیت کے حوالے سے بہت اہم بات تھی جس کا ثبوت آج ہمارے سامنے یوں ہے کہ خود علماء کے لیے بھی اس کا راستہ کھول دینے کے بعد اب منبر ومحراب کو اصول وآداب کا پابند رکھنا اور غیر ذمہ دار عناصر کا محاسبہ ومواخذہ ناممکن ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس جن مسلم ممالک میں جمعہ کی امامت نظم اجتماعی کے اختیار میں ہے، وہاں آج بھی مذہبی اجتماعیت کی صورت حال بہت بہتر ہے۔
خیر، یہ غامدی صاحب کا نظری اور اصولی موقف ہے۔ عملاً وہ پاکستان میں بھی مسلمانوں کے عام معمول کے مطابق نماز جمعہ ادا کرتے تھے اور یہاں امریکا میں بھی یہی معمول ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ کسی اجتماعی معاملے میں مسلمان جو فیصلہ کر لیں، اس سے اختلاف رکھتے ہوئے بھی عملاً اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں غیر مسلم ممالک کا حکم اصولاً بھی مختلف ہونا چاہیے، کیونکہ جمعہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی ایک اظہار ہے جس کی ضرورت غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو زیادہ ہے اور ظاہر ہے، یہاں کوئی مسلمان حکمران نہیں ہے جس کے لیے امامت کا استحقاق مانا جائے۔
قلم کے نام سے ایک دینی ادارے کا ذکر ہوا تھا جو جامعہ بنوریہ عالمیہ کے فارغ التحصیل مولانا شیخ ناصر جھانگڑا کے زیر انتظام ڈیلس میں کام کر رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ آج کل عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ یہ بھی علم میں آیا کہ اس ادارے کا الحاق بھی جامعہ بنوریہ عالمیہ سے ہی ہے اور اسی کی سرپرستی میں کام کی ترتیب بنائی گئی ہے۔
یہاں متعدد دفعہ نماز مغرب ادا کرنے کے لیے جانا ہوا۔ ایک بات تو فوراً یہ نوٹس میں آتی ہے کہ مسجد کے بڑے ہال کا پچھلا حصہ خواتین کے لیے مخصوص ہے اور درمیان میں کوئی آڑ یا پردہ وغیرہ نہیں ہے۔ خواتین کو نماز ادا کرتے، قرآن پڑھتے اور حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جیسا کہ عہد نبوی میں مسجد نبوی کا منظر ہوتا تھا۔ خواتین کے سر ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن نقاب کی پابندی نظر نہیں آتی۔ مغرب کی نماز میں بھی کافی خواتین تھیں اور معلوم ہوا کہ یہاں عموماً بھی ان کا ادارے کی طرف کافی رجوع ہے۔
ایک دوسرے موقع پر نماز مغرب کے لیے گئے تو ایک اور چیز دیکھی۔ نماز کی امامت کے لیے ایک ایسے دوست کھڑے ہوئے جو غالباً عرب تھے اور ڈاڑھی قبضے سے بہت کم کتری ہوئی تھی۔ انھوں نے خوب صورت قراءت کے ساتھ نماز پڑھائی۔ پھر دیکھا کہ کچھ دوست جو جماعت میں شامل نہیں ہو سکے تھے، بعد میں ایک چھوٹی سی الگ جماعت کرنے لگے اور ان کے امام بھی ایک مقطوع اللحیہ نوجوان تھے۔
ایک دیوبندی ادارے میں یہ ساری چیزیں بظاہر عام معروف سے ہٹ کر ہیں، لیکن معروف کا تعلق ماحول اور کلچر سے ہوتا ہے۔ فقہی مسائل اس میں ضمنی کردار ادا کرتے ہیں۔ خواتین کے، مردوں کے ساتھ ایک ہی ہال میں اکٹھے نماز ادا کرنے اور قبضے سے کم ڈاڑھی والے کی امامت کی دینی وفقہی گنجائش ہر جگہ ایک جیسی ہی ہے۔ اس میں حنفی فقہ انڈیا اور پاکستان اور امریکا کے لیے مختلف نہیں ہے۔ لیکن کلچر اور دینی راہ نماؤں کا ذہنی رویہ مختلف ہے۔ غیر مسلم ممالک میں دینی راہ نماؤں پر دعوتی انداز نظر غالب ہوتا ہے اور کمیونٹی کو، خصوصاً نوجوان نسل کو جوڑنا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے فقہی ترجیحات ثانوی ہو جاتی ہیں اور دعوتی مصلحت اور شرعی وسعت اصل اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔
اس کے برخلاف اکثریتی مسلم معاشروں میں دعوتی سے زیادہ ثقافتی اور مسلکی شناخت اہم مانی جاتی ہے اور ائمہ وخطبا اور مفتیان کرام کو عموماً اپنی دینی اتھارٹی کو منوانے سے زیادہ سروکار ہوتا ہے۔ بہرحال، آنے والے وقتوں میں جو دینی حلقے نوجوان نسل کے ساتھ اسی طرح کا تعامل سیکھ لیں گے جیسا اقلیتی مسلم معاشروں میں ہوتا ہے، وہی دین اور معاشرے کے ربط باہمی میں زیادہ موثر کردار ادا کر سکیں گے۔