دینی مدارس کے نصاب میں اعلی ٰ ثانوی سطح تک عصری تعلیم کے مضامین کی شمولیت کے حوالے سے حکومت اور مدارس کے وفاقوں کے مابین ایک معاہدے کی اطلاعات کچھ عرصے سے گردش میں ہیں۔ مدارس کی رجسٹریشن اور مالی معاملات کی نگرانی کے حوالے سے بھی کئی اہم امور پر گفت وشنید چل رہی ہے، جبکہ وقف شدہ اداروں سے متعلق انتظامی وقانونی اختیارات سرکاری افسران کو منتقل کرنے کے حوالے سے بھی ایک متنازعہ قانون سازی پچھلے چند ماہ سے حکومت اور دینی قیادت کے مابین کشاکش کا عنوان ہے۔ اس پس منظر میں اور اسی تسلسل میں گذشتہ فروری میں دینی مدارس کے کچھ نئے بورڈز قائم ہوئے جنھیں ریاستی توثیق دی گئی ہے۔ زیرنظر سطور میں اس ساری صورت حال کے تاریخی پس منظر پر عموما اور حالیہ پیش رفت کی نوعیت پر خصوصا کچھ گذارشات پیش کرنا مقصود ہے۔
مدارس کے نئے بورڈ باقی مکاتب فکر میں بھی قائم ہوئے ہیں، لیکن دیوبندی مدارس کا ایک نیا بورڈ مجمع العلوم الاسلامیہ بوجوہ زیادہ زیربحث ہے۔ اس پر گفتگو تین مختلف سطحوں پر ہو رہی ہے جن کی اپنی اپنی اہمیت ہے:
پہلی سطح کا تعلق دیوبندی مدارس کی داخلی پالیٹکس سے ہے اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر یہ بحث اسی سطح پر کی جا رہی ہے۔ ایک بہت بڑا طبقہ وفاق المدارس کی مرکزیت کو قائم رکھنے کا حامی ہے، جبکہ ایک خاصا بڑا طبقہ مختلف اسباب، تجربات اور شکایات کی بنیاد پر ایک متبادل انتظامی بندوبست کو ضروری سمجھتا ہے۔ دونوں کا موقف اور دلائل تفصیل سے سامنے آ چکے ہیں۔ ہمیں اس پہلو سے زیادہ دلچسپی نہیں، اور ویسے بھی یہ دیوبندی حلقے کا ایک داخلی معاملہ ہے۔
دوسری سطح پر بحث اس حوالے سے ہو رہی ہے، اگرچہ اس کا تناسب بہت کم ہے، کہ مدارس کے طلبہ اور فضلاء کو دینی اسناد کی توثیق وغیرہ کے حوالے سے جن مشکلات کا سامنا ہے، نئے انتظامی اقدامات سے وہ کس حد تک حل ہو رہے ہیں یا ہو سکتے ہیں یا نہیں ہو سکتے۔ ڈاکٹر سید عزیز الرحمن صاحب نے اس پہلو سے تفصیلا اظہار خیال فرمایا ہے۔
تیسری سطح تعلیم اور جدید ریاست کے باہمی ربط اور اسلامی تاریخ کے روایتی مدرسے اور جدید دور کے مدارس کے باہمی تقابل سے متعلق ہے۔ اس سطح پر گفتگو بالکل ہی نادر ہے اور غالبا محمد دین جوہر صاحب کی ایک تحریر کے علاوہ گفتگو اور تجزیے کا یہ پہلو موجودہ سیاق میں نظروں سے بالکل اوجھل ہے، اگرچہ اس سے پہلے وقتا فوقتا اس پر مختلف جوانب سے کچھ بات کی جاتی رہی ہے۔
جو مختصر معروضات پیش کرنا مقصود ہے، وہ بنیادی طور پر اسی دوسری اور تیسری سطح سے متعلق ہیں۔ مسئلے کی دوسری اور تیسری جہت دراصل ایک ہی بات کے دو پہلو ہیں، لیکن ہمارے ہاں اس کے صرف ایک پہلو پر بات ہوتی ہے، یعنی مدارس کی دینی اسناد کی ریاستی توثیق کی ضرورت، جبکہ مدرسے کے تاریخی کردار اور نوعیت میں رونما ہونے والی تبدیلی کہیں زیربحث نہیں آتی۔ سو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آج کے مدرسے کے لیے اسناد کی ریاستی توثیق کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے روایتی مدرسے میں یہ سوال موجود نہیں تھا، کیونکہ مدرسے کا تصور ہی یہ نہیں تھا۔
اسلامی تہذیب میں دینی علم اور اس کے تسلسل کی اہمیت مسلم تھی اور یہ ذمہ داری فطری طور پر علماء کے سپرد تھی۔ اسلامی تاریخ کی ابتدا سے ہی علماء یہ ذمہ داری اپنے شخصی علمی مقام کی بنیاد پر انجام دیتے آ رہے تھے۔ جو عالم جس علم میں کمال پیدا کر لیتا تھا، اس علم کے طلبہ اس کے گرد جمع ہو جاتے اور کسب فیض کرتے رہتے تھے۔ بعد کے ادوار میں حکومتی انتظام یا وقف کی سماجی روایت کے تحت باقاعدہ مدرسے بھی قائم ہونے لگے، لیکن اس انتظام کی نوعیت ایک اجتماعی ضرورت کی تکمیل میں علماء کو سہولت پہنچانے کی تھی۔ علماء کو اپنے علم کے مستند ہونے یا اپنے طلبہ کو استناد منتقل کرنے کے لیے کسی ریاستی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
استعماری دور میں اس بندوبست کے بڑی حد تک معطل ہو جانے اور سرکاری وغیر سرکاری انتظام میں جدید تعلیم کی عمومی ترویج کی مساعی کے تناظر میں مدرسے کے ادارے نے ایک بدلی ہوئی صورت حال میں اپنی ہیئت اور کردار ازسرنو متعین کیا۔ ان میں سب سے اہم تبدیلی یہ تھی کہ مدرسے کے اہداف میں دینی علوم کی روایت کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم وثقافت کے اثرات کی مزاحمت کو بھی شامل کیا گیا جس کا ایک لازمی تقاضا یہ تھا کہ، ماضی کے برعکس، مدارس بڑے پیمانے پر اور کثرت سے ملک کے طول وعرض میں قائم کیے جائیں اور ان میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کے داخلے کی گنجائش پیدا کی جائے جو یہاں سے ایک دینی تربیت لے کر معاشرے میں واپس جائیں اور عوام الناس کے دینی تشخص اور دینی وابستگی کو محفوظ رکھنے کے لیے ائمہ، خطباء اور مبلغین ودعاۃ کی صورت میں کردار ادا کریں۔ وقف کا سیٹ اپ ختم ہو جانے کی وجہ سے اخراجات کے لیے عوامی چندے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا جس کے اپنے گہرے اور دور رس اثرات ہیں۔ ذرائع آمدن عوامی صدقات وخیرات پر مبنی ہونے کی مناسبت سے جلد ہی معاشرے کے بے سہارا اور یتیم بچوں کی کفالت بھی مدارس کے دائرہ کار میں شامل ہو گئی اور یوں تعلیم وتبلیغ کے ساتھ ساتھ ایک رفاہی اور خیراتی ادارہ ہونے کا پہلو بھی مدرسے کے تشخص کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔
اہداف کی تبدیلی، ترجیحات کی تبدیلی کو مستلزم ہوتی ہے اور ترجیحات ایک زنجیر کی صورت میں ہوتی ہیں جو یکے بعد دیگرے تبدیل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ تاریخی مدرسے کا ہدف محدود تعداد میں عالی استعداد کے حامل علماء اور اساتذہ پیدا کرنا تھا۔ جدید مدرسے نے اپنا ہدف بڑی تعداد میں ’’فضلائے مدارس“کی تیاری متعین کیا تو اس کے کچھ عملی نتائج نکلنا ناگزیر تھا۔ مدارس کے نصاب ونظام سے متعلق پچھلی ایک صدی کا سارا بحث ومباحثہ انھی نتائج کی عکاسی کرتا ہے۔ ان میں سے دو نتائج سب سے نمایاں ہیں۔
ایک، نصاب کی تسہیل وترمیم اور داخلے اور حصول سند کے لیے مطلوب علمی استعداد کے معیار میں مسلسل تخفیف
دوسرا، اتنی بڑی تعداد میں فضلاء کی معاشرے میں کھپت کا مسئلہ
بدقسمتی سے مدارس کے حلقوں میں اس تاریخی تبدیلی کا شعوری ادراک نہ ہونے کی وجہ سے جو اس نئے مرحلے پر پیدا ہوئی تھی، ان دونوں نتائج کے حوالے سے سخت ذہنی ابہامات، تضاد فکر اور بعض صورتوں میں ایک حالت انکار کی فضا غالب رہی ہے۔ چونکہ یہ شعوری ’’اعتراف “ موجود نہیں تھا کہ مدرسے کا ہدف اب صرف اعلی سطح کے چنیدہ علماء پیدا کرنا نہیں، بلکہ بڑی تعداد میں مبلغین تیار کرنا ہے، اس لیے کئی دہائیوں تک یہ کشمکش چلتی رہی کہ نصاب کی تسہیل کی جائے یا نہ کی جائے۔ یہ کام عملا ناگزیر تھا، اس لیے ہوا، لیکن ایک لمبی تدریج کے ساتھ اور بہت ہی غیر محسوس طریقے سے ہوا تاکہ مخالف عناصر زیادہ اضطراب کا شکار نہ ہوں۔
اسی طرح فضلاء کی کھپت کے سوال سے بھی عرصہ دراز تک اغماض برتا جاتا رہا اور مدرسے کے طلبہ کو یہ بات ایک دینی فریضے کے طور پر باور کرائی جاتی رہی کہ ان کو دینی تعلیم کے لیے منتخب کر لیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دنیا وآخرت بس دینی تعلیم سے وابستہ رہے اور وہ دائیں بائیں کسی اور طرف متوجہ نہ ہوں۔ چنانچہ ایک طرف عصری تعلیم کے مضامین کو سنجیدگی کے ساتھ اور مطلوبہ ضرورت کے مطابق مدارس کے نصاب میں جگہ دینے سے پہلو تہی کی گئی اور دوسری طرف اپنے طور پر عصری تعلیم کے امتحانات پاس کرنے والے طلبہ کی شدید حوصلہ شکنی بلکہ مدرسے سے خارج تک کر دینے کا رویہ اختیار کیا گیا اور یہ ماحول دس بیس سال پہلے تک مدارس میں موجود رہا ہے۔
دینی اسناد کی ریاستی توثیق کا سوال بنیادی طور پر ایک تو فضلائے مدارس کی کھپت کے مسئلے سے پیدا ہوتا ہے، اور اس کی دوسری اہم جہت تعلیم اور جدید ریاست کے باہمی تعلق کی ہے۔ تعلیم عامہ کا کوئی بھی ایسا نظم جو ایک خاص طرح کی گروہی شناخت پیدا کرتا ہو، جدید قومی ریاست کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں رہ سکتا، کیونکہ تشکیل شناخت کا سوال جدید ریاست کے لیے ایک وجودی سوال ہے، یعنی ریاست کی بقا اس سے وابستہ اور اس پر منحصر ہے۔ دینی مدارس کی قیادت نے انتہائی سادہ فکری یا خوش فہمی سے ان دونوں پہلووں کی اہمیت سے مسلسل صرف نظر کیا اور اس ادراک سے بالکل قاصر رہی کہ اتنے بڑے پیمانے پر قائم دینی تعلیم کے نظام کو ریاستی توثیق اور ریاستی دائرہ اختیار سے الگ رکھنا ہمیشہ کے لیے ممکن نہیں ہے۔
مدارس کی قیادت تارکان دنیا اور ابلہان مسجد پر مشتمل نہیں تھی، بلکہ مذہبی سیاست کے میدان میں ریاست اور ریاستی نظام طاقت کے ساتھ مسلسل تعامل کر رہی تھی اور ریاستی اشرافیہ کے انداز فکر نیز مختلف اور متنوع عالمی حرکیات سے بھی پوری طرح واقف تھی۔ اس کے باوجود، مناسب اور سازگار حالات میں، جبکہ ابھی ریاستی نظام عبوری تشکیلی مراحل میں تھا اور مدارس اپنی شرائط پر ریاست کے ساتھ معاملہ کرنے کی پوزیشن میں تھے، دینی تعلیم اور ریاستی نظام کے مابین ایک مثبت، متوازن اور مبنی بر اعتماد تعلق وجود میں لانے سے گریز کیا گیا، بلکہ اس کے برعکس مدارس کو ریاستی توثیق کے نظام سے الگ رکھنے کو مدارس کی آزادی اور خود مختاری کا عنوان دے کر بنیادی طور پر مذہبی سیاست کے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
مزید حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں خود فضلائے مدارس کی اپنی نمایاں ہوتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر، دینی اسناد کی ریاستی توثیق کے حوالے سے سلسلہ جنبانی شروع کیا گیا، لیکن خوش فہمی سے باہر نکلنے اور یہ سمجھنے کی ضرورت پھر بھی محسوس نہیں کی گئی کہ ابتدائی مراحل پر بعض سیاسی اسباب سے ریاست کا رویہ مبنی بر رعایت ہو سکتا ہے، لیکن جلد یا بدیر ریاست اس توثیق کو لامحالہ اپنی شرائط سے مشروط کرے گی۔
فضلائے مدارس کی کھپت کے مسئلے اور تعلیم عامہ کے کسی بھی نظام کے ساتھ جدید ریاست کے لازمی تعلق کے ان دو بنیادی عوامل کے ساتھ دو اور عوامل شامل ہوئے جنھوں نے اس مرحلے کی طرف پیش قدمی کی راہ ہموار کی جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔ یہ عرض کیا گیا کہ جدید ریاست اپنے حدود میں تشکیل شناخت کے سوال پر کمپرومائز نہیں کر سکتی اور خاص طور پر اگر کسی شناخت کے ساتھ نقض امن اور ریاست مخالف بیانیے کا پہلو شامل ہو جائے تو پھر تو کوئی کمزور سے کمزور ریاست بھی اس سے صرف نظر کا تحمل نہیں کر سکتی۔
دینی مدارس جس طرح کی گروہی شناخت تشکیل دیتے ہیں، اس میں فرقہ واریت اور (بالخصوص دیوبندی مدارس کے تناظر میں) سیاسی مفہوم میں اسلام کے عالمی احیاء کی خواہش، نہایت توانا فکری عناصر کے طور پر شامل ہیں۔ یہ دونوں عناصر جس حد تک ریاستی مفاد کے تابع اور ریاستی طاقت کے لیے مددگار رہے ہیں، ریاست ان کی باقاعدہ سرپرستی کرتی رہی ہے اور حسب ضرورت اب بھی کرتی ہے، لیکن ہمارے ہاں یہ فکری عناصر ریاست کی طے کردہ حدود سے متجاوز ہو کر خود ریاست کے لیے اور ریاست کی بین الاقوامی پالیسیوں کے لیے مسائل پیدا کرنے کا موجب بن گئے۔
ظاہر ہے، اس میں ریاستی کردار کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن اس کا عملی نتیجہ یہ نکلا کہ دینی تعلیم کے نظام کو ریاستی نظم وضبط کے دائرے میں لانے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر دباو بڑھنا شروع ہو گیا اور پچھلی دو دہائیوں میں مدارس کی طرف سے پہلے سخت، پھر نسبتا لچک دار اور آخر میں کمزور مزاحمت کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد، آج ریاست اس پوزیشن میں بھی ہے اور اس کے لیے پرعزم بھی کہ دینی اسناد کی توثیق اب مدارس کی شرائط اور ترجیحات پر نہیں، بلکہ ریاست کی شرائط اور ترجیحات پر کی جائے گی۔ (وہ شرائط اور ترجیحات کیا ہیں اور کتنی حکمت وفراست پر مبنی ہیں، یہ ایک الگ بحث ہے)۔ دوسری طرف مدارس کے ایک بہت بڑے حلقے میں بھی اس حقیقت کا ادراک کر لیا گیا ہے کہ اس محاذ پر مزاحمت کی پوزیشن کو برقرار رکھنا فضلائے مدارس کی سماجی ضروریات کے لحاظ سے بھی ممکن نہیں، اور ریاست کے عزم مصمم کو بھی مزید کسی دباو سے پسپا نہیں کیا جا سکتا۔ مختلف نئے بورڈز کی تشکیل اور مختلف انفرادی دینی اداروں کی اسناد کے لیے ریاستی توثیق کے حصول کی حالیہ پیش رفت اسی ادراک حقائق کا نتیجہ ہے۔
اس تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ دینی تعلیم کی ریاستی توثیق کے مسئلے کو ہمارے ہاں معروضی حقائق کے تناظر میں اور دینی اداروں، معاشرہ اور ریاست کے مابین ایک مجموعی انسجام کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا گیا، بلکہ بنیادی طور پر مذہبی سیاست کے ایک ایشو کے طور پر برتا گیا ہے۔ ایک زاویے سے دیکھا جائے تو درست سمت میں پیش قدمی نہ ہونے کی ذمہ داری ریاست پر عائد کی جا سکتی ہے، لیکن ہمارے نزدیک معروضی حالات کے لحاظ سے اس ناکامی کی زیادہ تر ذمہ داری دینی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ باقی مسلم ممالک میں، جہاں اس مسئلے کو زیادہ درست اور حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا گیا ہے، دینی تعلیم کی ریاستی توثیق کا نسبتا بہت بہتر بندوبست نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے مصر، ترکی اور انڈونیشیا وغیرہ کے علاوہ جنوبی ایشیا میں ہی بھارت اور بنگلہ دیش میں بنائے گئے نظام کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ صورت حال میں بھی، اگرچہ قدرے درست سمت میں پیش رفت ہو رہی ہے، دینی قیادت کا ذہنی الجھاو اور غیر حقیقت پسندانہ رویہ بدستور برقرار ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مدارس کی اجتماعی قیادت صورت حال کا معروضی جائزہ لے کر ریاست کے سامنے دینی اسناد کی توثیق کے ایک ایسے بندوبست کا متفقہ اور اجتماعی مطالبہ رکھتی جسے حکومتی معاہدوں یا نوٹیفکیشنز کی ضمانت کے بجائے باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہو (یعنی اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے) اور اس میں واضح اور متعین معیارات طے کیے جائیں جن کے تحت کسی بھی دینی ادارے کے لیے انفرادی طور پر یا اداروں کے کسی گروپ کے لیے تعلیمی بورڈ کے طور پر ریاستی توثیق کے حصول کا موقع موجود ہو۔
لیکن چونکہ اس سارے مسئلے کو اب تک مدارس کی خود مختاری بمقابلہ ریاستی مداخلت کے فریم ورک میں دیکھا اور دکھایا جاتا رہا ہے جس میں دینی اداروں اور فضلاء کے ’’تحفظ “ کے لیے کسی جری اور بااثر سیاسی ’’قیادت “ کی ضرورت ہے، اس لیے کوئی ایسا انتظام قبول کرنے کے لیے ذہن آمادہ نہیں جس میں جمہوری انداز میں ایک صحت مند تعلیمی مقابلے کا ماحول ہو اور مختلف ومتنوع ترجیحات کے ساتھ دینی ادارے معاشرے کی دینی وتعلیمی ضرورتوں کو اپنی محنت اور توجہ کا مرکز بنا سکیں۔ حکومتی حلقوں کے ساتھ تعلقات اور سیاسی اثر ورسوخ کی بنیاد پر پہلے بھی کچھ انفرادی اداروں اور بورڈز کو توثیق دی گئی تھی، اب بھی اسی بنیاد پر توثیق کے دائرے کی توسیع کر دی گئی ہے۔ یہ طریقہ ریاستی زاویہ نظر سے اور دینی اداروں کی نمائندگی کرنے والی اشرافیہ کے نقطہ نظر سے قابل فہم ہو سکتا ہے، لیکن دینی اداروں کے مجموعی پوٹینشل، ممکنہ کردار اور افادیت کے حوالے سے انتہائی محل نظر بندوبست ہے۔
آخر میں اس نکتے پر بھی اظہار خیال ضروری ہے کہ اس سارے معاملے میں ’’روایتی مدرسہ“ اور اس کے تاریخی کردار کی جگہ کہاں ہے اور وہ ضرورت کیسے پوری ہوگی؟ ہماری مراد اعلی سطح کے علماء ومتخصصین پیدا کرنے اور دینی علوم کی روایت کو معاصر ضروریات کے مطابق آگے بڑھانے سے ہے۔ جیسا کہ واضح کیا گیا، مدرسے کو تعلیم عامہ کا ادارہ بنانے کے نتیجے میں پورا نظام اس ایک ہدف کے گرد مرکوز نہیں رہ سکتا، تاہم اعلی استعداد کے حامل منتخب اہل علم تیار کرنے کا کام ایک اہم جزو کے طور پر اس میں شامل رہ سکتا ہے۔ اس وقت بھی بڑی تعداد میں مدارس کی طرف رجوع کرنے والے افراد میں سے ایک منتخب تعداد ایسے ذی استعداد فضلاء کی نکل آتی ہے جو اعلی سطحی علوم کے ساتھ طبعی مناسبت بھی رکھتے ہیں اور اس ذوق کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں اب بھی روایتی دینی علوم میں اچھا درک رکھنے والے اساتذہ اور محققین مدارس سے پیدا ہو رہے ہیں۔
البتہ ’’روایتی مدرسے“ کے کردار کا یہ پہلو کہ اس کا ہم عصر عقلی وعلمی روایت کے ساتھ بھی ایک زندہ تعلق قائم ہو اور دینی مدرسہ ان علوم ونظریات کی تنقیح وتنقید کا ایک پلیٹ فارم مہیا کرے، بدقسمتی سے تاریخی تغیرات کے نتیجے میں، جدید مدرسے کے لیے اس کردار کی ادائیگی بے حد مشکل ہو گئی ہے اور بتدریج مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ عقلی ونظری علوم کے ساتھ مطلوبہ تعامل، خاص طور پر جدید مغربی تہذیب کے پیدا کردہ علوم، اس ذہنی سانچے میں ممکن ہی نہیں جو مدارس کے ماحول میں بنانے پر ساری توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ یہاں جدید معاشی وسیاسی نظریات کی تفہیم بھی وہی ’’معتبر “ ہے جو دینی اکابر، مثلا مولانا تقی عثمانی صاحب نے ’’اسلام اور جدید معیشت وتجارت“ اور ’’اسلام اور سیاسی نظریات“ میں بیان فرمائی ہو۔ مغربی علوم کا مقدمہ براہ راست اور خود ان کی زبانی سمجھنا اور پھر اس کی ایسی تحلیل وتنقید جو ان علوم کے ساتھ مکالمے میں پیش کی جا سکے، اس سانچے میں ناممکن ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم موسی اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ امام غزالی کو مدارس کے نظام ونصاب میں کوئی اہمیت کیوں نہیں دی جاتی۔ ہمارے نزدیک اس کا ایک جواب یہ ہے کہ امام غزالی عقلی ونظری مباحث میں تقلید سے شدید باغی ہیں اور ’’المنقذ من الضلال“ میں انھوں نے اپنے ذہنی سفر کی یہ داستان تفصیل سے بیان کی ہے۔ مدارس کا ماحول، جو ’’عقلیات“ میں بھی اکابر کے ’’منقولات “ کی پابندی کو ایمان وعقیدہ کی حفاظت کی شرط اولین کے طور پر ذہنوں میں راسخ کرتا ہے، اس انداز فکر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ہمیں پوری حقیقت پسندی کے ساتھ اس کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ جدید مدرسے نے اپنے اور اس کردار کے درمیان بہت وسیع فاصلہ پیدا کر لیا ہے۔ موجودہ صورت میں، ’’امید خلاف امید“ کے طور پر تو اس توقع کو برقرار رکھا جا سکتا ہے کہ کسی دن مدرسے کا یہ کردار بحال ہو جائے گا، لیکن بظاہر اس کے دور یا نزدیک کوئی آثار نہیں ہیں۔ اس اعتراف سے ہی اس ضرورت کی تکمیل کے کچھ متبادل وسائل اور امکانات (مثلا عقلیات کا ذوق رکھنے والے منتخب ذی استعداد علماء کے لیے مدارس کے نظم سے باہر مختلف حلقہ ہائے مطالعہ کا قیام) پر سنجیدگی سے توجہ دی جا سکے گی۔
ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم