مطیع سید: حرام وحلال نکاح کے درمیان فرق صرف دف اور آواز کا ہے ۔(کتاب النکاح، باب ما جاء فی اعلان النکاح، حدیث نمبر ۱٠۸۸) کیا اس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شادی بیاہ پر آج کل کا بینڈ باجا بھی درست ہے؟
عمار ناصر: فقہا کا جو عمومی رجحان ہے، وہ تو آپ دیکھیں گے کہ آج کل دف کی بھی اجازت نہیں دیتے۔کہتےہیں کہ مقصد اعلان ہے جو دوسرے طریقوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔موسیقی کے حوالے سے فقہاکا عمومی رویہ ناپسندیدگی کا ہے ۔
مطیع سید: گویا وہ اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ کام دف سے آگے نہ بڑھ جائے ؟
عمار ناصر: جی، بات بڑھ نہ جائے اور یہ بھی کہ مثلا آپ دف بجا رہے ہیں توآواز سن کر لوگ تو یہی کہیں گے کہ ڈھول بج رہا ہے ۔ (البتہ بعض علماء مثلا مولانا بدر عالم میرٹھیؒ نے فقہاء کو متوجہ کیا ہے کہ جتنی اجازت حدیث میں موجود ہے، اس سے لوگوں کو نہ روکیں، ورنہ لوگ پھر حدود کو بالکل توڑ دیں گے)۔
مطیع سید: فقہا توسختی کرتے ہیں، محدثین کا اس بارے میں موقف ہے؟
عمار ناصر: امام ترمذی نے اس روایت پر کوئی منفی تبصرہ تو نہیں کیا ؟
مطیع سید: نہیں، وہ بس یہ روایت لائے ہیں ۔
عمار ناصر: تو پھر یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ حدیث کے مطابق اس کے جواز کے قائل ہیں۔
مطیع سید: اگر شادیوں پر ڈھول بجتاہے ،بینڈز بجتے ہیں ،شور مچتا ہے اور لوگوں کااس کے ساتھ رزق بھی وابستہ ہے تو ہم کیا اس روایت سے اس کے جواز کی بنیاد فراہم کر سکتے ہیں؟ آخر شادی ہی تو ہو رہی ہے ؟
عمار ناصر: فقہا یہ کہتے ہیں کہ یہ آلا تِ لہو اور مزامیر ، اصل میں ممنوع اور لہو کے تحت آتے ہیں ۔ گنجائش آپ کو اتنی ہی ملےگی جتنی نص میں یا حدیث میں آئی ہے اور وہ بھی کچھ شرائط کے ساتھ ۔ اگر اس زاویہ نظر کو درست مانیں تو پھر تو گنجائش نہیں نکلے گی۔لیکن اگر آپ کا زوایہ نظر وہ ہے جو ہمارے بعض لوگوں کا رہا ہے کہ اصل میں یہ لہو یعنی دل بہلانے کا ایک طریقہ ہے ،لہو تو اور بھی کئی چیزیں ہیں جو فی نفسہ ممنوع نہیں ہیں تو پھر گنجائش نکلے گی۔یعنی کسی چیز کا محض لہو ہونا اس کو ممنوع نہیں بناتا۔لہو کے ساتھ کچھ اور ایسی چیزیں بھی شامل ہو گئی ہوں جن میں کوئی خرابی ہو تو پھر ممنوع ہوگا۔
مطیع سید: یہ ولی کے بغیر نکاح کو غیر منعقد قرار دینے والی روایت ،صحیح روایت ہے ۔ (کتاب النکاح، باب ما جاء لا نکاح الا بولی، حدیث نمبر ۱۱٠۱ ، ۱۱٠۲) بظاہر تو صاف الفا ظ ہیں کہ نکاح نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب کیا ہے اور احناف کیوں کہتے ہیں کہ ولی کے بغیر بھی نکا ح ہو سکتا ہے؟فقہا کے پاس، اس کی Logic کیا ہے ؟
عمار ناصر: احناف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ روایت کو اور خاص طورپر اس طرح کی اخبار احاد کو اصل مان کر، جو باقی دلائل و قرائن ہیں، ان کو نظر انداز نہیں کر دیتے ۔ یہ ان کا ایک عمومی منہج ہے ۔ان کا زاویہ نظر یہ ہے کہ سارے پہلو دیکھے جائیں ،نکا ح کے مقاصد کیا ہیں ،اس میں قرآن کی آیات میں کیا رجحان ملتاہے اور رائے اور قیاس سے کیا مدد ملتی ہے،اس کے تحت وہ دیکھیں گے کہ اس روایت کو ہم کہاں رکھیں۔اس لحاظ سے و ہ کہتے ہیں کہ نکا ح تو عورت کا حق ہے جب وہ بالغ ہو گئی ہے ۔یہ کہنا کہ کسی بھی حال میں ولی کے بغیر اس کو حق حاصل نہیں ہے ، اصل میں یہ کہنا ہے کہ اس کا اپنا حق ہے ہی نہیں ۔اس لیے اس کا دائرہ متعین کر نا پڑے گاکہ کس حالت میں یا کس خاص صورت میں وہ ولی کے بغیر نکا ح کر سکتی ہے اور کس صورت میں نہیں۔اس کے لیے انہوں نے کچھ شرائط قیاس سے لگادی ہیں۔مثلا اگر وہ بالغ ہے اور ایسی جگہ نکاح کر رہی ہے جہاں نکاح کرنے میں اعتراض ہونا نہیں چاہیے، یعنی کفومیں اور اپنے ہم پلہ لوگوں میں کر رہی ہے ، تو اس کا مطلب ہے کہ ولی اگر اس پر اعتراض کر رہاہے تو خواہ مخواہ رکاوٹ ڈال رہا ہے یا یہ چاہ رہا ہے کہ وہ اس کی مرضی سے کہیں نکاح کرے ۔ تو ایسی صورت میں ہم بالغ لڑکی کے خود کیے ہوئے نکاح کو منعقد مانیں گے ۔ہاں، وہ اگر ایسی جگہ نکاح کر رہی ہے جہاں پر اس کے ولی یا اس کے خاندان کے لوگو ں کی ناراضی کی کوئی حقیقی وجہ ہے ،تو پھر وہ اعتراض اٹھا سکتے ہیں اور ان کے اعتراض پر قاضی نکاح کو فسخ کر سکتا ہے۔اصل میں روایت کی Placement یعنی اس کا محل طے کرنا بہت اہم ہوتا ہے ۔احناف کا اصل استدلال تو یہی ہے۔ پھر اس کی سند میں بھی کچھ مسائل ہیں جن کا امام ترمذی نے ذکر کیا ہے۔ احناف ان کا بھی حوالہ دیتے ہیں، لیکن وہ ثانوی اور ضمنی نوعیت کے استدلالات ہیں۔
مطیع سید: یہ کیسے معلوم ہو تا ہے کہ یہ خبر آحاد ہے ؟
عمار ناصر: احادیث بنیادی طور پر اخبار آحاد ہی ہیں ۔ کسی روایت کے طر ق یا اتنی سندیں جمع ہو جائیں کہ وہ خبر واحد کی تعریف سے نکل جائے ،ایسا تو بہت نادر ہے۔ اکثر روایات ایسی ہی ہیں ، خاص طور پر پہلے دور میں جب ذخیرہ حدیث مرتب و مدون نہیں ہو ا تھا ۔
مطیع سید: گویا یہ بعد کے دور میں ہواکہ ایک روایت کی کئی اسناد یا طرق مل گئے؟
عمار ناصر: جی، اور اس سے پہلے کا دور، یہ بڑا اہم دور تھا ۔ دوسری صدی میں،اور شاید تیسری میں بھی ، محدثین جس کام میں لگے ہوئے تھے،ان کا علم اوران کا دائرہ معلومات حدیث کی جمع و تدوین ہی تھا ۔ جو فقہا ہیں، ان کا اصل اعتنا حدیث سے اس طرح نہیں تھا۔ وہ اپنے اساتذہ یااپنے علمی حلقوں میں جن روایات کا ذکر ہوتا تھا، ان پر یا عمومی طورپر معروف احادیث پر ہی انحصار کرتے ہوئے فقہی مسائل میں استدلال کرتے تھے۔
مطیع سید: بعد میں ایسی کوئی شخصیت نہیں آئی جس نے ان دونوں دھاروں کے درمیان پل کاکام کیا ہو ؟
عمار ناصر: نہیں، جب یہ مکاتب فکر بن گئے اور عصبیتیں پیداہوگئیں تو پھر یہ کام بڑا مشکل ہو گیا۔ البتہ یہ آپ کو نظر آئے گا کہ تدوین ِ حدیث کے بعد اس کے اثرات بہر حال ہر فقہی مکتب فکر پر پڑے ہیں ۔ فقہائے احناف پر بھی پڑے ہیں ۔بعد کے لوگوں کے رویے اور طرز استدلال پر بھی اس کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔آخری دور میں شاہ ولی اللہ نے باقاعدہ تجویز کیا اور اپنی حد تک کوشش بھی کی کہ حنفی اور شافعی فقہ میں اقرب الی السنۃ ہونے کی بنیاد پر تطبیق پیدا کر دی جائے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات اس طرح سے چلی نہیں ۔ دیوبندی اہل علم میں سے علامہ انور شاہ صاحب کے ہاں البتہ یہ رجحان کافی نمایاں ہے کہ وہ اختلافی مسائل میں تطبیق کی ایسی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے کم سے کم صحیح احادیث میں سے کسی کو ترک نہ کرنا پڑے۔
مطیع سید: ایک عورت کے مہر سے متعلق آپ ﷺ نے ایک صحابی کو فرمایا کہ قرآن کی کوئی سورت اسے یاد کروا دو،یہی مہر ہے ۔(کتاب النکاح، باب ما جاء فی مہور النساء، حدیث نمبر ۱۱۱۴) فقہا پھر کم سے کم مہر کیوں مقرر کر تے ہیں؟ روایت سے تو معلوم ہوتاہے کہ اس طر ح بھی مہر دیا جاسکتاہے ۔
عمار ناصر: مہر کی کم سے کم مقدار طے ہونے کے علاوہ احناف کا کہنا یہ بھی ہے کہ مہر کو مال ہونا چاہیے۔
مطیع سید: جی وہی، لیکن یہاں تو مال نہیں ہے، صرف سورتیں یاد کروائی گئی ہیں۔
عمار ناصر: قانونی پہلو سے آپ دیکھیں تو احناف کی بات ٹھیک ہے ۔قرآن بھی اموالکم ہی کہتا ہے ۔مہر بنیادی طورپر مال ہی ہوگا۔لیکن بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں عام اصول پر عمل مشکل ہوتا ہے۔ مثلا اگر اس بندے کے پاس مہر کے طور پر دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تو اس طرح کی صورتحال کا کوئی حل نکالنا پڑتا ہے۔ اعتدال کی بات یہ ہے کہ آپ عمومی قانون وہ رکھیں جو احناف کہتے ہیں اور استثنائی صورتوں کی گنجائش مان لیں ۔یہ بھی ٹھیک نہیں کہ آپ اس روایت کی بنیاد پر یہ کہیں کہ ہر حالت میں مطلقا اس طرح مہر دیا جا سکتا ہے۔
مطیع سید: وضع حمل تک لونڈی سے مباشرت سے منع فرمایا گیا، (کتاب النکاح، باب ما جاء فی الرجل یشتری الجاریۃ وہی حامل، حدیث نمبر ۱۱۳۱) حالانکہ حمل ٹھہر جائے تو اس کے بعد مباشرت سے بچے کے نسب پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔پھر اس سے منع کرنے کی علت کیا ہے ؟
عمار ناصر: ایسے معاملات کو اسلام ایک خشک قانونی زاویے سے نہیں دیکھتا، بلکہ حکمت کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ مسلمان معاشرے میں نسب کی حفاظت سے متعلق حساسیت پختہ رہے، اس کے لیے یہ زیادہ مناسب ہے کہ جب تک ایک حمل سے عورت کا پیٹ فارغ نہ ہو جائے، دوسرا آدمی ہم بستری سے دور رہے۔
مطیع سید: یہ جو نبی ﷺ کے داماد ابو العاص تھے ،یہ جب مسلمان ہوئے تو کیا آپ ﷺ نے اپنی بیٹی سیدہ زینب کا ان کے ساتھ نکا ح دوبارہ پڑھایا یا سابقہ نکاح کو ہی جاری رکھا ؟
عمار ناصر: دو روایتیں ملتی ہیں ۔ایک میں ہے کہ نیا نکاح کیا اور دوسری میں ہے کہ اسی کو جاری رکھا ۔ جیسا کہ امام ترمذی نے واضح کیا ہے، دونوں کی سندوں میں ضعف ہے ۔ (کتاب النکاح، باب ما جاء فی الزوجین المشرکین یسلم احدہما، حدیث نمبر ۱۱۴۲، ۱۱۴۳)
مطیع سید: عمومی طورپر کس بات کو لیا جاتا ہے ؟
عمار ناصر: فقہاکا اس میں اختلاف ہے ۔احناف کہتے ہیں کہ عدت کے اندر اگر شوہر نے ایمان قبول کرلیا تو ٹھیک ہے، لیکن جب عدت پوری ہوگئی تو سابقہ نکاح ختم ہو گیا ۔ پھر اسلام قبول کرنے پر دونوں کا نیا نکاح ہوگا۔
مطیع سید: یعنی فقہا ان دونوں روایتوں پر بنیاد نہیں رکھتے؟ یا اگر سند میں ضعف ہے تو قرآن کی روشنی میں روایت کو ترجیح دیتے ہیں؟
عمار ناصر: یہ طے کرنا بعض اوقات مشکل ہوتا ہے کہ فقیہ اصلا قیاس کی بنیاد پر رائے پیش کر رہا ہے اور روایت کو تائیدا پیش کر رہاہے یا اس کی رائے اصل میں روایت کی وجہ سے بنی ہے اور وہ قیاس کو تائید کے طورپر پیش کر رہا ہے۔
مطیع سید: رضاعت کے بارےمیں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پہلے قرآن میں حرمت ثابت ہونے کا معیار دس دفعہ دودھ پینے کو مقرر کیا گیا، پھر اس کو منسوخ کر کے پانچ دفعہ دودھ پینے کو معیار مقرر کر دیا گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اسی حکم پر عمل جاری تھا۔ (کتاب الرضاع، باب ما جاء لا تحرم المصۃ ولا المصتان، حدیث نمبر ۱۱۵٠) اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ یہ دوسرا حکم تو اب قرآن میں موجود نہیں ہے؟
عمار ناصر: کافی محل اشکا ل روایت ہے۔ خاص طور پر یہ کہ روایت کے بعض طرق میں سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو یہ آیت قرآن میں پڑھی جاتی تھی۔ فقہا اور محدثین اس کو دو طرح سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک تو یہ کہ اس پر درایتا سوال اٹھا دیے جائیں کہ یہ بات ٹھیک ہی نہیں ہو سکتی کہ آیت قرآن میں نازل ہوئی تھی، لیکن مصحف میں لکھے جانے سے رہ گئی۔احناف عموما یہی اعتراض کرتے ہیں کہ اگر یہ آیت قرآن کا حصہ تھی تو سیدہ عائشہ نے اسے مصحف میں کیوں شامل نہیں کروایا؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔محدثین اور شوافع عموما یوں تاویل کر لیتے ہیں کہ ان کی مراد یہ ہے کہ بالکل آخر وقت تک مسلمان پڑھ رہے تھے، لیکن بالکل آخری زمانے میں اس کو منسوخ کر دیا گیا جس کی وجہ سے مصحف میں اسے نہیں لکھا گیا۔ میرے خیال میں امام ترمذی نے روایت کے جو الفاظ نقل کیے ہیں، ان سے ایک اور امکان بھی نکلتا ہے۔ اس کے مطابق سیدہ عائشہ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اسی پر معاملہ جاری تھا۔ یہ الفاظ اس میں صریح نہیں ہیں کہ دوسرا حکم بھی قرآن میں اترا تھا۔ ممکن ہے، اسی کو بعد میں راویوں نے اس طرح تعبیر کر دیا ہو کہ یہ آیت قرآن میں پڑھی جا رہی تھی۔
مطیع سید: فاطمہ بنت قیس نے اپنا معاملہ بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ تین طلاقوں کے بعد عدت میں نان ونفقہ کی ذمہ داری شوہر پر نہیں ہے ۔لیکن حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ میں کتاب للہ پر فیصلہ کروں گا نہ کہ ایک عورت کی بات پر ۔ (کتاب الطلاق، باب ما جاء فی المطلقۃ ثلاثا لا سکنی لہا ولا نفقۃ، حدیث نمبر ۱۱۸٠)
عمار ناصر: بہت سے صحابہ اور تابعین کا یہی رجحان رہا ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی روایت قابل اعتماد نہیں ہے۔ حضرت عمر نے اس بنیاد پر اسے رد کر دیا کہ یہ قرآن کے خلاف ہے۔ اب قرآن میں بظا ہر تو ایسی کوئی تصریح نہیں ہے جو یہ کہہ رہی ہو کہ تین طلاقوں کے بعد بھی نفقہ شوہر کے ذمے ہے، لیکن قرآن کا جو اسلوب ہے اس حکم کو بیان کرنے کا، وہ عموم کاہے ۔وہ اصل میں عموم سے استدلال کررہے ہیں اور فاطمہ کی روایت کو وزن نہیں دے رہے۔
مطیع سید: کیا یہ اس عورت کے لیے کوئی خصوصی حکم ہو سکتا ہے؟
عمار ناصر: اس کے دو پہلو ہیں۔ایک یہ کہ کیا اس کو نفقہ ملنا چاہیے یا نہیں ۔دوسرا یہ کہ کیا اس پر خاوندکے گھر میں رہنا ،اور خاوند پر اسے رہائش مہیا کرنا لازم ہے یا نہیں ۔یہ جودوسرا پہلو ہے، اس میں تو روایت کے اندر ایسے قرائن موجود ہیں کہ فاطمہ کا خاص معاملہ ہو سکتا ہے ، یعنی بعض خاص اسباب سے اسے شوہر کے گھر میں رہائش کا حق نہیں دیا گیا۔لیکن یہ جو نفقے کا حق ہے، اس سے محروم کرنے کی کوئی تاویل بظاہر سمجھ میں نہیں آتی ۔اس لیے بعض فقہا قائل ہیں کہ طلاق ِ ثلاثہ کے بعد عدت میں بیوی کا نان و نفقہ شوہر کے ذمے نہیں۔لیکن قیاسا یہی بات ٹھیک لگتی ہے کہ طلاقیں تواس کو تین ہو گئی ہیں، لیکن وہ ہے تو اسی شوہر کی عد ت میں ۔ نہ کہیں جا سکتی ہے، نہ نیا نکاح کر سکتی ہے تو اس کا خرچ شوہر ہی کے ذمے ہونا چاہیے۔
مطیع سید: حضرت عمر نے بھی اس کے بر عکس فیصلہ فرمایا ؟
عمار ناصر: جی، انہوں نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ اسے نان و نفقہ ملے گا ۔
مطیع سید: نکا ح و طلاق ہنسی مذاق میں بھی ہو جاتی ہے ۔ (کتاب الطلاق، باب ما جاء فی الجد والہزل فی الطلاق، حدیث نمبر ۱۱۸۴) ایسا کیوں ہے، جبکہ کامن سینس یہ کہتی ہے کہ نیت ضروری ہونی چاہیے؟
عمار ناصر: نکاح و طلاق کے بار ے میں شریعت کا جو مزاج ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات میں لوگوں کو تھوڑا Sensitive (حساس)بنانا چاہتی ہے کہ اس کو کھیل نہ بنا لیں ۔ دیکھیں، اگر کسی نے بیوی کے ساتھ ظہار کیا تو قرآن اس پر کتنا سخت مواخذہ کرتا ہے کہ شوہر نے اسے ماں یا بہن آخر کہا کیوں ہے۔ اس لحاظ سے میرے خیال میں اس روایت کا مدعا یہ سمجھ میں آتا ہے کہ لوگوں کو تھوڑا Sensitize (حساس)کیا جائےکہ ان معاملات میں ایسے کریں گے تو نتیجہ مرتب ہو جائے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے سدِ ذریعہ کے طور پر یعنی زجر وتوبیخ کے لیے یہ کہا ہو، کوئی قانونی ضابطہ بیان کرنا اصلا پیش نظر نہ ہو ۔ ممکن ہے، کچھ ایسے مقدمات سامنے آئے ہوں کہ شوہر نے طلاق تو سوچ سمجھ کر دے دی تھی، لیکن پھر اس سے مکرنے کے لیے یا ذمہ داری سے فرار ہونے کے لیے کہہ رہا ہو کہ میں نے تو بس ایسے ہی مذاق میں کہا تھا ۔ یہ سب امکانات ہو سکتے ہیں۔
مطیع سید: تو کیا اس بنیاد پر قانونا ایسی طلاق نافذ ہو جاتی ہے؟
عمار ناصر: فقہا نے تو اس کو بالکل اسی طر ح لیا ہے کہ یہ لازما واقع ہوجاتی ہے ۔میرے خیال میں اگر اس کو اس زاویے سے دیکھاجائے کہ اس سے اصل میں لوگوں کو Sensitizeکرنا مقصود ہے تو پھر اس سے اتنا سخت قسم کا قانونی ضابطہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
مطیع سید: یعنی قاضی پابند نہیں کہ ہر طرح کی صورت حال میں یہی فیصلہ کرے؟
عمار ناصر: جی بالکل، میری رائے تو یہی ہے۔
مطیع سید: روایت میں ہے کہ خلع والی عورت کی عد ت ایک حیض ہے۔ (کتاب الطلاق، باب ما جاء فی الخلع، حدیث نمبر ۱۱۸۵) جبکہ احناف کہتے ہیں کہ تین حیض ہے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم خبر واحد کو قرآن کے مقابلے میں قبول نہیں کریں گے ۔
عمار ناصر: اس خاص روایت کے متعلق احناف کا استدلال اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے ، لیکن احناف اپنے اصول کے لحاظ سے کئی روایتیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ا س طرح کی روایتوں کے بارے میں بعض جگہ امام ابو حنیفہ کا یا امام محمد وغیرہ کا تبصرہ مل جاتاہے ۔وہ روایت پر درایتا سوال اٹھا کر اور ان کے خیال میں جو دوسرے زیادہ قوی دلائل ہیں، ان کی روشنی میں اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔بہت سی مثالیں ایسی بھی ہیں کہ روایت اس طرح قوت ِ سند کے ساتھ اور اس طرح قا بل اعتماد طریقے کے ساتھ ان کے سامنے نہیں آئی تھی ۔یعنی یاتو روایت ان کے سامنے نہیں ہے یا اس طرح قابلِ وثوق طریقے سے نہیں پہنچی کہ وہ اس پر اپنی بات کی بنیاد رکھتے۔ تاہم احناف کا اصولی موقف یہ ہے کہ اگر روایت آجاتی ہے تو اس کے مقابلے میں وہ قیاس کوچھوڑ دیتے ہیں۔میں نے اپنی کتاب میں اس کی بہت سی مثالیں بھی جمع کی ہیں ۔
مطیع سید: خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں ۔بلاجہ جو عورت خلع لے گی، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گی۔(کتاب الطلاق، باب ما جاء فی المختلعات، حدیث نمبر ۱۱۸۶، ۱۱۸۷) امام ترمذی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی اسناد قوی نہیں ہیں ۔
عمار ناصر: سند کے لحاظ سے کچھ کمزوری ہو سکتی ہے، لیکن معنا یہ بات سمجھ میں آتی ہے ۔میاں بیوی کارشتہ جب قائم ہوگیا ہے تو شریعت یہ چاہتی ہے کہ یہ قائم ہی رہے ۔
مطیع سید: اگر عورت اس وجہ سے خلع لے کہ مجھے بس اس کا چہرہ پسندنہیں ۔یہ تو کوئی بہت بڑی وجہ نہیں نظرآتی۔
عمار ناصر: نہیں، یہ تو ایک وجہ بنتی ہے۔بے وجہ کا مطلب ہے کہ شوہر کے ساتھ رہنے میں کوئی نفسی ،مالی یا کوئی اس طرح کا مسئلہ نہیں ہے ۔ مثلا ایسے ہی کسی کے دل میں خیال آ جائےکہ کہیں اور بھی تجربہ کر کے دیکھتے ہیں ۔ میرے خیال میں یہ رجحان ہے جس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ بعض دیگر احادیث میں اس مزاج کو ذواقین اور ذواقات سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی نئے نئے مزے چکھنے کےلیے رشتہ نکاح کو توڑنا اور نئے رشتے بنانا۔
مطیع سید: ایک انصاری نے اپنے غلام کو اپنی وفات کے بعد آزاد قرار دے دیا ۔ پھر اس کا انتقال ہو گیا تو آپ ﷺ نے اس کے غلام کو فروخت کر دیا ۔ (کتاب البیوع، باب ما جاء فی المدبر، حدیث نمبر ۱۲۱۹) مدبر کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ آقا کی وفات کے بعد خودبخود آزاد ہو جاتا ہے ،تو پھر آپ ﷺ نے اسے کیوں فروخت کیا؟
عمار ناصر: یہ گویاآپ ﷺ نے اس انصاری کے، غلام کو آزاد کرنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا ،کیوں کہ اس طرح کے فیصلے میں کئی چیزیں دیکھنی پڑتی ہیں ۔روایت میں ہے کہ اس غلام کے علاوہ اس کا کوئی اور مال نہیں تھا۔ اب ممکن ہے، اس کے ذمے قرض ہو جسے ادا کرنے کے لیے کوئی اور ذریعہ نہ ہو، یا جو وارث تھے ان کا حق بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ تو نبی ﷺ نے اس کےفیصلے کو اس لیے ختم کیا کہ اس سے دوسرے حق داروں کے حق مجروح ہو رہے تھے ۔
مطیع سید: کسی بیع میں دو شرطیں جائز نہیں ہیں ۔ (کتاب البیوع، باب ما جاء فی کراہیۃ بیع ما لیس عندک، حدیث نمبر ۱۲۳۴) اس سے کیا مراد ہے ؟کیا کسی بیع میں ایک سے زیادہ شرائط نہیں رکھی جا سکتیں؟
عمار ناصر: فقہا اس کی مختلف طریقے سے تشریح کرتے ہیں لیکن آپ اگر مختلف طرق کو جمع کریں تو اس سے معلوم ہوتاہے کہ دو شرطوں سے مراد یہ ہے کہ سودا دو شکلوں کاہو سکتا ہے ،اس طرح کا بھی ہو سکتا ہے اور اُس طرح کا بھی ،اور آپ اس کو طے کرنے کی بجائے اس میں دونوں Options رکھ دیتے ہیں ۔ اس سے بعد میں کئی نزاع پیدا ہو جاتے ہیں ، اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ آپ نے کسی معاملے میں ایک شرط رکھی ہو تو اس پر مزید ایک اور شرط نہیں رکھ سکتے۔
مطیع سید: کوئی چیز کسی کو ہبہ کر دی جائے تو صرف باپ اولاد سے واپس لے سکتا ہے، اور کوئی نہیں۔ (کتاب البیوع، باب ما جاء فی الرجوع فی الہبۃ، حدیث نمبر ۱۲۹۸) ہمارے ہاں پاکستا ن میں یہ قانون ہے کہ باپ بھی واپس نہیں لے سکتا ۔
عمار ناصر: دیکھیں، والد کے رشتے کی نوعیت مختلف ہے ۔ اصل تو یہ ہے کہ آپ نے ہبہ کر دیا ہے تو آپ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔لیکن باپ کو تو ویسے ہی اپنے بیٹے کے مال میں سے اپنی ضرورت کے لحاظ سے لے لینے کا حق ہے۔ تو رشتے کی نوعیت کے لحاظ سے اس کو یہ بھی حق ہے کہ اس نے اولاد کو ہبہ دیا ہو تو اس کو واپس بھی لے سکتا ہے۔
مطیع سید: مسجد میں تجارت کے حوالے سے ایک روایت ہے کہ ایسا کرنے والے کو بددعا دی جائے کہ تمھیں تجارت میں فائدہ نہ ہو۔ (کتاب البیوع، باب النہی عن البیع فی المساجد، حدیث نمبر ۱۳۲۱)
عمار ناصر: مطلب یہ ہے کہ مسجد کا ایک اپنا ادب ہے ، اسے خرید وفروخت کی جگہ نہ بنایا جائے۔ یہ مراد نہیں ہےکہ کسی موقع پر اتفاقی طور پر آپ کوئی معاملہ کر لیں تو وہ بھی ناجائز ہے۔ مقصود یہ ہے کہ مسجد کو اس مقصد کے لیے استعمال نہ کریں ۔یہ مسجد کے آداب کے خلاف ہے ۔
مطیع سید: اجتہاد سے متعلق حضرت معاذ بن جبل کی جو مشہور روایت ہے، اس کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس کی سند متصل نہیں ہے ۔(کتاب الاحکام، باب ما جاء فی القاضی کیف یقضی، حدیث نمبر ۱۳۲۸) کیا اس روایت کی مضبوطی کسی اور سند سے ہو جاتی ہے ؟
عمار ناصر: نہیں، اس کی سند متصل نہیں ہے ۔ لیکن اس کی شہرت اتنی ہے کہ فقہا اور محدثین عام طور پر اسے قبول کر تے ہیں ۔یعنی یہ اپنے مضمون میں بھی اتنی معقول ہے اور اہل علم کے مابین بھی اس قدر معروف ہے کہ سند کا انقطاع اس کے ثبوت پر اثراندازنہیں ہوتا۔
مطیع سید: یہ اتنی اہم روایت ہے اور اجتہاد کی بنیاد ہی اس پر کھڑی کی جاتی ہے، لیکن اس کی سند متصل نہیں ہے۔
عمار ناصر: نہیں، ان معنوں میں یہ کوئی بنیادی اہمیت رکھنے والی روایت نہیں ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو ہم بالکل اندھیرے میں جا کھڑے ہوں گے۔ یہ بس ہمارے ہاں ایک سوچنے کا انداز ہے ۔ اس روایت میں ایسی کوئی نئی بات نہیں ہے کہ اگر یہ روایت نہ ہوتی تو وہ معلوم نہ ہو سکتی۔
مطیع سید: میں دیکھتا ہو ں کہ جتنی بھی اجتہاد کی بحثیں ہیں، وہاں اس روایت کا سب سے پہلے حوالہ دیا جاتا ہے ۔
عمار ناصر: وہ اصل میں حوالے کے لیے سہولت دیتی ہے ، کیونکہ اس میں ایک بات تصریحا بیان ہو گئی ہے ۔ورنہ اگر یہ روایت نہ ہو تی تو ایسا نہیں کہ دین میں اجتہاد کا جواز یا اہمیت ہمیں معلوم نہ ہو سکتی۔ آنحضرت ﷺاور صحابہ کا جتنا طریقہ تعلیم ہے ،وہ سارا یہی ہے ۔یہ تو کامن سینس کی بات ہے کہ پہلے آ پ دیکھیں گے کہ اللہ تعالی ٰ نے کیا کہا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے کیا کہا ہے اور پھر آپ اپنی رائے استعمال کریں گے ۔البتہ جو چیز لفظا کہیں بیان نہ ہوئی ہو جس کا حوالہ دیا جا سکے تو آپ کو کئی چیزوں سے اخذ کر کے اس کو واضح کرنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ روایت حوالے میں ایک سہولت پیداکر دیتی ہے۔ اس میں متعین طریقے سے وہ بات لفظوں میں بیان ہوگئی ہے ،ورنہ معنوی لحاظ سے یہ کوئی بنیادی ماخذ کا درجہ رکھنے والی روایت نہیں ہے ۔
(جاری)