مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک کلپ سنا جس میں انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے درس نظامی پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یونیورسٹی اور حکومت نے وہ پروگرام واپس لے لیاتھا۔ مفتی صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ پروگرام بدستور چل رہا ہے، بلکہ حال ہی میں اسے اپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے۔ میں نے یونیورسٹی اتھارٹی سے کہا ہے کہ وہ اب تک کا سارا ڈیٹا سوشل میڈیا پر وائرل کر دیں تاکہ فقہی تقاضے کے مطابق مفتیان کرام موجود سماجی حالات سے آگاہ ہوں۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے درس نظامی پروگرام کی تاریخ یہ ہے کہ (میں اب یونیورسٹی میں نہیں ہوں لیکن یونیورسٹی ریکارڈ سے ان تمام مندرجات کی تصدیق کی جا سکتی ہے) مجھے اپنے مطالعے کی بنا پر شروع سے یہ احساس تھا کہ پاکستان بر صغیر میں اسلام کی بقا کے باعث وجود میں آیا ۔انگریزی انتداب کے بعد جس طبقے نے اسے اسپین ہونے سے بچایا، حقیقتا وہی لوگ اس ملک کے خالق ہیں اور اس کا نظم چلانے کے اولیں مستحق بھی۔(میں نے اپنے تحقیقی مطالعے کے دوران اندلس کی پوری تاریخ کا دقت نظر سے بالاستیعاب نہ صرف مطالعہ کیا تھا بلکہ اندلس کی علمی تاریخ پر میری ایک کتاب بھی ہے جو پاکستان میں اعلیٰ درجات میں زیر تدریس ہے) ۔ لیکن تاریخی ارتقا کے نتیجے میں ملکی نظم و نسق چلانے کے لیے کچھ مخصوص مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ مدارس کا ایک طبقہ تقسیم ملک کے بعد بھی اس ذہنی کیفیت سے نہیں نکل سکا جو غیر ملکی تسلط کے باعث پیدا ہوئی تھی اور ایک حد تک فطری اور نا گزیر تھی۔ دوسرا طبقہ کنجے گرفت و ترس خدا را بہانہ ساخت کا پیکر ہو گیا ۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ دینی طبقات کو ملکی نظام چلانے کی اہلیتوں کے حصول کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔
اتفاق سے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تھا اور اوپن یونیورسٹی اصلا ان لوگوں کے لیے بنائی گئی تھی جو کسی بھی وجہ سے باقاعدہ کالجز یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھےتاکہ اس یونیورسٹی کے ذریعے ان کے لیے تکمیلی تکنیکی فنی اور دیگر انواع کی تعلیم کا فاصلاتی طریق پر انتظام کیا جائے ۔ میں نے سوچا کہ دینی مدارس کے طلبہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے باعث رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف ہماری جامعات معمولی درجہ میں تفسیر حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم دے کر ایم اے کی اسناد دیتی ہیں تو کیوں نہیں یہ کیا جائے کہ دینی مدارس کے نصاب کو یونیورسٹی میں درجاتی کریڈٹ دیا جائے۔ مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی ٹیوٹر مقرر کیا جائے اور دینی مدارس کے بعض متروک مضامین (مثلا ریاضی، زبانیں، سیاسیات، اقتصادیات، تاریخ اور دیگر سماجی علوم)، جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروری ہیں، فاصلاتی طریقہ سے پڑھا دیے جائیں اور یونیورسٹی امتحان لے کر میٹرک سے پی ایچ ڈی تک ڈگری دیا کرے ۔ مدارس کے نظم کو محفوظ رکھنے اور ان کا مالی تعاون کرنے کے لیے یہ بھی سوچا کہ طلبہ کے داخلے مدارس کے توسط سے کیے جائیں (جو میری غلطی تھی لیکن نیک نیتی پر مبنی) اور مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی کا ٹیوٹر لگا کر ان کی آمدنی میں اضافے کی راہ نکالی جائے ۔
یونیورسٹی اتھارٹیز اس پروگرام کے خلاف تھیں ۔ایسے میں مجھے باہر سےصرف مرحوم ڈاکٹر محمود غازی اور ڈاکٹر ایس ایم زمان کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔آخر بہت مشکل سے اتھارٹیز کو رضامند کرنے کے بعد میں نے مختلف وفاقوں اور مدارس سے رابطے کرنا شروع کیے ۔مجھے بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ وفاقوں کی طرف سے بھر پور یقین دہانی کرائی گئی ۔لیکن دیوبندی وفاق کو اس کی افادیت باور کروانے میں مجھے بہت وقت محنت اور وسائل خرچ کرنا پڑے۔ ایک سے زائد مرتبہ وفاق کے اجلاسوں میں بھی پروگروام پیش کیا ۔بارہا اسلام آباد میں مقتدر علماء وفاق کی میٹنگز بلائیں، ایک بار مری میں جہاں وفاق کا مرکزی اجلاس ہو رہا تھا، اس میں حاضر ہو کر تفصیلی بریفنگ دی۔ اس اجلاس میں مولانا رفیع عثمانی اور مفتی تقی عثمانی دونوں شریک تھے اور انہوں نے بھی پروگرام کے طریق کار کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کیں۔ کئی بار صدر وفاق سے اسلام آباد میں میٹنگ ہوئی۔ ایک بار کراچی جاکر بھی مولانا سلیم اللہ خان سے ملاقات کی اور باقاعدہ ایک معاہدہ طے ہوا ۔
اس کے مطابق مجھے 8--9 ماہ کےبعد یہ پروگرام لانچ کر دینا تھا ۔لیکن ایک دن اچانک میرے آفس میں وفاق المدارس کے ایک نمائندہ وفد کے ارکان یکے بعد دیگرے آنا شروع ہو گئے جس میں ملتان، لاہور، فیصل آباد اور اکوڑہ خٹک سے وفاق کے نمائندے شامل تھے۔ جب سب تشریف لا چکے تو میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ہم اس لیے آئے ہیں کہ جو پروگرام ہمارے درمیان طے ہوا، اس پر فورا اور اسی سمسٹر سے عمل در آمد کیا جائے ۔۔میں نے اپنی مشکلات اور یونیورسٹی کا طریق کار سب کچھ عرض کیا، لیکن وفد میں موجود استاذ گرامی قدر مولا نا نذیر احمد صاحب ؒ کی وجہ سے میں نے ہامی بھر لی اور قہر درویش بر جان خویش کے مصداق دن رات کام کر کے پروگرام شروع کر دیا ۔اس پروگرام میں مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے صاحبزادے ڈاکٹر محمد میاں صدیقی میرے معاون خصوصی تھے۔ پروگرام لانچ کر دیا گیا لیکن جب میرے پاس داخلوں کی تفصیل آئی تو معلوم ہوا کہ دیوبندی وفاق سے کوئی طالب علم داخل نہیں ہوا ۔ یعنی، مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے۔
حیرت ہوئی۔مولانا محمد زاہد صاحب سے، جو اپنے والد مرحوم مولانا نذیر احمد کی معیت میں تقریباً تمام میٹنگز میں شریک رہے، معلوم کیا تو انہوں نے صرف یہ کہا کہ "علماء کرام نے رجوع کرلیا "۔ بعد میں دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ مولانا سلیم اللہ خان نے تمام مدارس کو ایک سرکلر جاری کر دیا تھا کہ طفیل ہاشمی کا پروگرام مدارس کے خلاف حکومت کی سازش ہے ، اس میں کوئی طالب علم داخل نہ کروایا جائے۔ اگرچہ میرے پاس ثبوت کوئی نہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یونیورسٹی کی جس میٹنگ میں یہ پروگرام منظور کیا گیا تھا، اس وقت کے وفاقی سکریٹری ایجوکیشن بھی اس کے ممبر تھے ۔میٹنگ کے بعد انہوں نے تنہائی میں مجھے کہا : یہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ مدرسوں کے مولوی اگر ڈگری لے کر سی ایس ایس کر کے بیورو کریسی میں آجائیں گے تو ہمارے بچے کہاں جائیں گے ؟
میں نے انہیں جواب دیا کہ کہاں سی ایس ایس؟ بیچارے تعلیمی اداروں میں چلے جائیں تو بھی بسا غنیمت لیکن وہ بہت منجھے ہوئے اور سینئر بیورو کریٹ تھے اور مستقبل کو دور تک دیکھ سکتے تھے۔ مجھے شبہ ہوتا ہے کہ مولانا سلیم اللہ خان تک سازش تھیور ی انہوں نے نہ پہنچائی ہو اور دیوبندی علماء سازش کے خوف کا بآسانی شکار ہو جاتے ہیں ۔ اس حادثے کے نتیجے میں مختلف اہل علم اور اہل اللہ کے تقوی، دانش، کردار کی بلندی اور بے شمار خوبیوں سے متعارف ہو کر ایک نظریہ نہ بنانا میرے بس میں نہیں تھا ۔
درمیانی عرصے میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت آئی تو میں نے مولانا حنیف جالندھری سے بار بار کہا کہ آپ کچھ بڑے مدارس کے لیے سرحد حکومت سے یونیورسٹی چارٹر لے لیں تاکہ اپنی اسناد کے معادلہ کے چکر سے نکل جائیں لیکن انہوں نے دلچسپی نہیں لی۔ شاید اس وجہ سے کہ یونیورسٹیز کو سالانہ آڈٹ کروانا ہوتا ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت نے وہ ایم اے پروگرام جن کے ساتھ شہادۃ عالمیہ کا معادلہ تھا، کلیۃ بند کر دیا ہے۔ گویا آئندہ ایم اے نام کی کوئی سند نہیں ہو گی۔ اس کی جگہ بی ایس نے لے لی ہے۔ کیا موجودہ وفاقوں کا ایچ ای سی سے کوئی نیا معاہدہ ہوا ہے کہ شہادۃ عالمیہ اب بی ایس کے برابر ہو گی؟ اگر نہیں تو ایک نیا مرحلہ جد وجہد درپیش ہوگا۔ نیز حکومت نے اب پرائیویٹ تعلیمی سلسلہ ختم کر دیا ہے۔ البتہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے درس نظامی کے رواں پروگرام کو جو پہلے میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے، ایم فل کے ناموں سے چل رہا تھا، جدید اسکیم سے ہم آہنگ کرتے ہوئے بی ایس اور ایم ایس درس نظامی کے ناموں سے مشتہر کر دیا ہے۔ الغرض
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا