بعض حضرات کی طرف سے نئے اوقاف قوانین کے حوالہ سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ یہ قوانین عالمی معاشی دباؤ کی وجہ سے حکومت کو مجبورًا نافذ کرنا پڑ رہے ہیں اور یہ ایک طرح سے قومی ضرورت بن چکے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ عالمی سطح پر یہ مفروضہ قائم کر لیا گیا ہے کہ مبینہ دہشت گردی کے فروغ میں زیادہ کردار دینی تعلیم اور دینی مدارس کا ہے اس لیے بین الاقوامی ادارے یہ اطمینان چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دینی مدارس، مساجد اور اوقاف کے وسیع ترین نیٹ ورک میں وقف کا کوئی ادارہ اور اس کے وسائل دہشت گردی کے کسی معاملہ میں استعمال نہ ہونے پائیں۔ اس لیے وہ کوشاں ہیں کہ مساجد و مدارس اور رفاہی معاملات پرائیویٹ سیکٹر سے نکل کر سرکاری کنٹرول میں آجائیں تاکہ ریاستی ادارے بین الاقوامی اداروں کی نگرانی اور ہدایات کے مطابق ان کو کنٹرول کر سکیں، اور اس طرح مسجد و مدرسہ اور رفاہی اوقاف کے وسائل کا دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کا امکان روکا جا سکے۔
حال ہی میں ملک بھر میں ہر سطح پر نافذ کیے جانے والے نئے اوقاف میں اسی کو بنیاد بنایا گیا ہے چنانچہ مساجد و مدارس اور وقف املاک و اداروں کی پہلے سے چلی آنے والی ہر قسم کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی ہے تاکہ ہر مسجد و مدرسہ اور ہر وقف ادارے کو ازسرنو رجسٹریشن کے ذریعے اس دائرے میں لایا جائے جو محکمہ اوقاف کے کنٹرول اور فیٹف (FATF) کی نگرانی میں ہو گا، حتٰی کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ کی نگرانی کو خفیہ رکھنے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا اور نئی رجسٹریشن کے لیے جو فارم محکمہ اوقاف کی طرف سے ملک کے مختلف حصوں میں تقسیم کیے گئے ہیں ان میں فیٹف کی ہدایات کا واضح طور پر ذکر موجود ہے۔
اس سلسلہ میں پہلی بات یہ ہے کہ جس دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام سے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے اس کی اپنی تعریف اور حدود طے نہیں ہیں، کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ تو پوری قوت کے ساتھ لڑی جا رہی ہے مگر دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟ کون سے ادارے اور افراد اس کے دائرے میں آتے ہیں؟ اور کسی کو دہشت گرد قرار دینے کی مسلمہ اتھارٹی کون سی ہے؟ یہ سب سوالات مسلسل ابہام کا شکار ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی طاقت و قوت کا حامل ادارہ جس کو چاہے دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تمام فریقوں کو اس کا بہرحال ساتھ دینا ہوتا ، بلکہ اس بارے میں امریکہ کے سابق صدر بش کا یہ اعلان فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے کہ ’’تم اگر ہمارے ساتھ نہیں ہو تو ہمارے دشمن ہو‘‘۔ یعنی کسی کے لیے غیرجانبدار رہنے کا کوئی امکان نہیں چھوڑا گیا۔ اس کا عالمی منظر ہمارے سامنے ہے کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے دور میں اقوام و ممالک کا ایک غیرجانبدار فورم بھی موجود و متحرک تھا جو اب کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ گویا دنیا کے ہر ملک کو امریکہ کا ہر حال میں ساتھ دینا ہے اور اگر کوئی ملک اس مخمصہ میں نہیں پڑنا چاہتا اور غیر جانبداری کا راستہ اختیار کرنے کا خواہشمند ہے تو اس کا شمار امریکہ کے دشمنوں میں ہو گا۔ چنانچہ یہ سارا کچھ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ کا ساتھ نہ دینے والوں کو ہر حالت میں اس کی جھولی میں ڈالنے کی مہم بن گئی ہے جس میں ہم بھی شریک ہیں اور ماتھے پر کوئی شکن ڈالے بغیر ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔
دوسری بات یہ توجہ طلب ہے کہ دہشت گردی کے فروغ میں مسجد و مدرسہ کو ذمہ دار قرار دیتے چلے جانے میں زمینی حقائق اور پروپیگنڈا کا توازن کیا ہے، اس کی طرف کوئی توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان کے حوالہ سے ہماری وزارت داخلہ بار بار سروے کر کے لاکھوں مدارس و مکاتب میں سے صرف چند سو مدارس کو اس جرم کا مرتکب قرار دے کر مدارس و مساجد کی غالب اکثریت کو اس عمل سے مستثنیٰ قرار دے چکی ہے، البتہ ان چند سو کی فہرست پیش کرنے کے لیے بھی کوئی ادارہ تیار نہیں ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ جس طرح پولیس کے تھانوں میں کسی عمومی مسئلہ پر ایف آئی آر درج کرتے وقت چند افراد کے نام درج کر کے ان کے علاوہ بہت سے دیگر افراد کا جملہ درج کر دیا جاتا ہے تاکہ جس کو بھی پکڑنا ہو دیگر افراد کے دائرے میں اس کا نام درج کر کے اسے قابو کیا جا سکے، یہی تکنیک دہشت گردی کے حوالہ سے ملک بھر کے دینی مدارس کے بارے میں مسلسل استعمال کی جا رہی ہے کہ جو چند سو مدارس ’’دہشت گردی‘‘ میں ملوث پائے گئے ہیں ان کی کوئی فہرست طے نہیں ہے، مگر ملک کے جس مدرسہ کو زد میں لانا ہوتا ہے چند سو میں اس کا نام شامل کر کے اس پر چڑھائی کر دی جاتی ہے۔
اس صورتحال میں یہ کہا جا رہا ہے کہ نئے اوقاف قوانین حکومت کا نفاذ کی بین الاقوامی مجبوری ہے اور پاکستان کے مفاد میں ہمیں اس معاملہ میں حکومت سے تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم قومی طور پر کسی نئی الجھن کا شکار نہ ہو جائیں، جبکہ اس کے ساتھ ہی انتہائی بھولپن کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں میں دین و ملک سے محبت کرنے والے حضرات کی کمی نہیں ہے ان کے ہوتے ہوئے ان قوانین کا ایسا استعمال نہیں ہو گا جس سے مسجد و مدرسہ کے نظام کو کوئی نقصان پہنچ سکے۔
گویا ان دوستوں کی تجویز یہ ہے کہ ہم چند افراد کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے خود کو اس سسٹم کی جکڑبندی کے حوالے کر دیں جو مسجد و مدرسہ کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے مسلسل جتن کر رہا ہے اور اب تک کے تمام حربے ناکام ہونے کے بعد اب اس کے ہاتھ میں ایک ایسا بہانہ آ گیا ہے جسے دینی حلقوں کے بعض دوست بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے قومی مجبوری قرار دے رہے ہیں اور دھیمے لہجے میں ان کی مجالس میں اس قسم کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ ایسے دوستوں سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بھائی! بات افراد کی نہیں سسٹم کی ہے، اس کا طوق گلے میں ڈال کر یہ سمجھ لینا کہ جس کے ہاتھ میں رسی ہے وہ ہمارا ہمدرد ہے، کم از کم الفاظ میں اسے سادگی اور بھولپن سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے جس کی توقع مجھے اپنی دینی قیادت سے ہرگز نہیں ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمودؒ وفاق المدارس العربیہ کے بانیوں میں سے تھے اور ۱۹۷۲ء کے دوران جب وہ صوبہ سرحد (کے پی کے) کے وزیر اعلیٰ بنے تو اس وقت بھی وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ تھے۔ ان سے بہت سے بزرگ علماء نے تقاضا کیا کہ وہ دینی مدارس کو سرکاری امداد و سرپرستی کے دائرہ میں لائیں تو انہوں نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ میری وزارت اعلیٰ آج ہے کل نہیں ہو گی، مگر جو کام میں کر جاؤں گا وہ بعد والوں کے لیے ہمیشہ کے لیے دلیل بن جائے گا اس لیے میں اپنی وزارت اعلیٰ کی خوشی فہمی میں دینی مدارس کو موجودہ ریاستی نظام اور محکموں کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا، ہمارا خیال ہے کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا یہ دانشمندانہ فیصلہ اور موقف آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔