اس مختصر نوٹ میں فقہائے کرام و مکتب فراہی کے تصور قطعی الدلالۃ کا موازنہ کیا جائے گا جس سے معلوم ہوگا کہ فراہی و اصلاحی صاحبان کا نظریہ قطعی الدلالۃ نہ صرف مبہم ہے بلکہ ظنی کی ایک قسم ہونے کے ساتھ ساتھ سبجیکٹو (subjective) بھی ہے۔
قطعی الدلالۃ کے معنی میں ابہام
فقہاء کا ماننا یہ ہے کہ قرآن مجید کی تمام آیات کے معنی ایک ہی درجے میں واضح نہیں بلکہ معنی کا وضوح مختلف درجوں میں ہوتا ہے۔ آیات کے معنی واضح ہونے کے اعتبار سے فقہاء انہیں دو عمومی قسموں میں بانٹتے کرتے ہیں:
(ا) واضح الدلالۃ (جس کی دلالت، سمجھنے کے لیے واضح و آسان ہے)
(2) خفی الدلالۃ (جس کی دلالت چھپی ہوئی ہے)
پھر ہر تقسیم کے تحت فقہاء چار چار ذیلی تقسیمات لاتے ہیں۔ چنانچہ خفی الدلالۃ کے تحت چار ذیلی تقسیمات یہ ہیں:
"متشابہ" (جس میں خفا سب سے زیادہ ہوتا ہے اور خود شارع نے بھی اس کی وضاحت نہیں کی ہوتی)۔
"مجمل" (اس کا خفا متشابہ سے کم ہوتا ہے اور اسے دور کرنے کے لئے شارع کے کلام کی طرف رجوع لازم ہوتا ہے، یہ گویا دینی اصطلاح ہوتی ہے جس کی تعریف شارع مقرر کرتا ہے)۔
پھر "مشکل" اور "خفی" (ان کا خفا لغوی تحقیق سے ختم کیا جاسکتا ہے)۔
اسی طرح واضح الدلالت کی چار اقسام یہ ہیں:
"ظاہر" (اس میں وضوح سب سے کم ہوتا ہے)، اس سے زیادہ واضح کو "نص" کہتے ہیں اس سے کچھ زیادہ کو "مفسر" کہا جاتا ہے اور سب سے زیادہ واضح آیات کو "محکم" کہا جاتا ہے۔
فقہاء جن آیات کو "مفسر" اور بالخصوص "محکم" کہتے ہیں، ان کے بارے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ ان میں تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر ایسی آیات میں کوئی شخص تاویل سے کام لے کر کوئی دوسرا معنی اخذ کرتا ہے تو وہ گمراہ کہلائے گا۔ دوسرے لفظوں میں ان آخری دو اقسام کی نصوص کو فقہاء "قطعی الدلالۃ" کہتے ہیں اور جن آیات کو وہ قطعی الدلالۃ کہتے ہیں، ان کے مفہوم میں نہ صرف یہ کہ تاویل کی گنجائش کے قائل نہیں ہوتے بلکہ اس سے ثابت ہونے والے حکم کے منکر پر شدید شرعی حکم بھی لگاتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ فقہاء کے نظریہ قطعی الدلالۃ پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ فقہاء جسے "قطعی الدلالۃ" کہتے ہیں، اس کا معنی "واقعی" قطعی الدلالۃ (definite in meaning) ہی ہوتا ہے، یعنی اس قدر واضح کہ تاویل کی گنجائش قابل قبول نہیں۔
اس کے مقابلے میں مولانا فراہی و اصلاحی رحمہما اللہ اور ان کے شاگرد غامدی صاحب کے یہاں قطعی الدلالۃ کے مفہوم ہی میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ان کے یہاں قطعی الدلالۃ کا یہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک ہی معین معنی ہے، لیکن یہ حضرات یہ واضح نہیں کرتے کہ ہر آیت کا ایک معنی واضح الدلالۃ کے کس مفہوم میں مراد لیا جارہا ہے۔ قرآن کے قطعی الدلالۃ ہونے کو جس شدومد سے یہ حضرات پیش کرتے ہیں، اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر ہر آیت کو "مفسر" و "محکم" کے درجے میں قطعی مانتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر انہیں اس پوزیشن کے ساتھ جڑے اس منطقی نتیجے کو بھی ماننا چاہئے کہ جو شخص قرآن کی کسی بھی آیت کے ان کے بیان کردہ معنی کے علاوہ کوئی دوسرا معنی مراد لیتا ہے تو وہ گمراہ ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حضرات ایسا نہیں کرتے بلکہ خود ایک دوسرے سے بھی اختلاف کرتے ہیں۔ اور اگر قطعی الدلالۃ سے اس سے کم تر درجے میں کوئی وضوح مراد لیتے ہیں تو ان معنی میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ بات تو فقہاء ہمیشہ سے ہی کہتے آئے ہیں کہ "میری رائے درست ہے اس احتمال کے ساتھ کہ غلط ہو اور مخالف کی رائے اس کے برعکس"۔ تو ان معنی میں قطعی الدلالۃ پر اس قدر اصرار کیسا؟قطعی الدلالۃ کی اصطلاح میں ان کے یہاں جس طرح لفط "قطعی" کے معنی میں ابہام پایا جاتا ہے، اسی طرح یہ حضرات یہ بھی واضح نہیں کرتے کہ "قطعی الدلالۃ" کی اس اصطلاح میں جسے "دلالت" کہا جارہا ہے، اس میں دلالت کی کون کون سی اقسام شامل ہیں اور کون سی نہیں؟ یعنی یہ قطعیت کیا صرف عبارۃ النص تک ہی محدود ہے یا اس قطعیت کا دائرہ اشارۃ النص، دلالۃ النص و اقتضاء النص تک بھی پھیلا ہوا ہے؟ ہر دو جواب کی صورت میں وجہ ترجیح کیا ہے؟
ان بنیادی نوعیت کے ابہامات کو دور کیے بنا قطعی الدلالۃ کی اصطلاح پر زور دیتے رہنے سے بات واضح نہیں ہوگی۔ مولانا فراہی کے مکتبہ فکر کے یہاں قطعی الدلالۃ کے مسئلے پر جس قدر نظریاتی زور دیا جاتا ہے، اس قدر شرح و بسط کے ساتھ اس کی تفصیلات نہیں ملتیں۔ اس کے مقابلے میں فقہاء کی تقسیمات بامعنی بھی ہیں اور احکامات اخذ کرنے میں مددگار بھی۔
قطعی الدلالۃ یا ظنی الدلالۃ؟
فراہی و اصلاحی صاحبان کے نظریہ قطعی الدلالۃ کی ایک یہ تشریح بھی کی جاتی ہے کہ 'اس سے مراد کسی مفسر کے نزدیک اپنے تئیں کلام کا ایک معنی مرادلینا لازم ہے اگرچہ یہ ممکن ہے کہ دو مختلف لوگوں کے لئے یہ معنی مختلف ہوں'۔ قطعی الدلالۃ کی یہ تعبیر درحقیقت خود قطعی ہی کو ظنی بنا دینے کے مترادف ہے۔ بھلا یہ قطعیت بھی کیسی قطعیت جو زید و عمر کے لئے الگ الگ ہے۔ نیز زید کی قطعیت کسی بھی درجے میں عمر کے حق میں اور اس کے خلاف حجت نہیں؟ گویا فقہاء جسے مؤول (ظنی کی قسم) کہتے ہیں، یہ احباب اسے بھی قطعی قرار دے رہے ہیں۔ قطعی الدلالۃ کی اس تعبیر سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ یہ تصور قطعی ایک "سبجیکٹو" (subjective) تصور ہے جو ہر ہر فرد (subject) کے لئے مختلف ہے۔
اس کے مقابلے میں فقہاء قطعیت کو سبجیکٹ (مفسر) کے بجائے حدالامکان "کلام کی صفت" میں محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کی بنیاد پر "سب پر" یکساں حکم لگایا جاسکے۔ فقہاء ایسا اس لئے کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس ساری بحث کو قانونی نکتہ نظر سے دیکھا۔ قانون کا مقصد ہی حکم اخذ کرنا ہوتا ہے اور حکم اخذ کرنے کے لئے جس بنیاد پر حکم اخذ کیا جارہا ہے، وہ جس قدر معروضی ("ابجیکٹو")ہوگی، حکم بھی اسی قدر عمومی و مستحکم ہوتا ہے۔ لہذا فقہاء "سب کے حق میں یکساں" قطعی حکم اخذ کرنے کے لئے ایسی قطعیت کی تلاش میں رہے جو سب پر حجت بن سکے۔ اس کے برعکس فراہی و اصلاحی صاحبان نے اس پوری بحث کو کلامی و فلسفیانہ نکتہ نگاہ سے دیکھا۔ ان کے سامنے اپنے دور کے فلسفیوں کا قائم کردہ یہ سوال تھا کہ دنیا کے ہر کلام کا معنی ماحول و معاشرے کا مرہون منت ہوتا ہے، لہٰذا زبان و کلام بذات خود کبھی قطعی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کا کوئی ایک معنی ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے یہ نظریہ اختیار کیا کہ کلام اللہ کا ایک ہی معنی ہے اور اگر متکلم قدرت رکھتا ہو تو اپنی بات مکمل طور پر ادا کرسکتا ہے۔ وہ اس مسئلے کو ایک فلسفیانہ معاملے کے طور پر لے کر چلے۔ ان کا مطمع نظر یہ ثابت کرنا رہا کہ کلام اللہ کا ایک معنی متعین کرنا ممکن ہے اور اس کے لئے انہیں اپنے قائم کردہ نظم کا پہلو کارآمد لگا۔ لیکن اس ساری بحث کے دوران اس مسئلے کا قانونی (حکم اخذ کرنے کا) پہلو ان سے اوجھل رہا۔ انہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ اس پوزیشن کے قانونی مضمرات کیا نکلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب اس پوزیشن پر علمی سوالات اٹھتے ہیں تو نتیجتاً قطعی الدلالۃ کے اس نظریے کے حامی خود کو اس کی ایسی توجیہات پیش کرنے پر مجبور پاتے ہیں جن کے بعد قطعی خود ظنی و سبجیکٹو شے بن جاتا ہے۔
قطعی الدلالۃ: دعوے اور دلیل میں ابہام
مکتب فراہی کے منتسبین عام طور پر قطعی الدلالۃ کی یہ تعبیر اختیار کرتے ہیں:
- قطعی الدلالۃ کا مطلب یہ ماننا ہے کہ عند اللہ کلام سے ایک ہی مراد ہے۔ اگر مفسر اسے پانے میں ناکام رہے، تب بھی اسے کلام کا ابہام کہہ کر کلام کی طرف نہیں پھیرا جائے گا کیونکہ ایسا کہنا کلام کا عیب ہوگا بلکہ اسے انسان کے فہم کا مسئلہ کہا جانا چاہیے کہ مفسر نہیں سمجھ پایا
- قطعی الدلالۃ کے نظریے کو ثابت کرنے کے لئے ان حضرات کی طرف سے ان آیات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں قرآن کو "میزان" و "فرقان" کہا گیا ہے۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ اگر قرآن قطعی الدلالۃ نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی قضیے میں قرآن کو حتمی طور پر میزان و فرقان بنانا ممکن نہ ہوگا، لہٰذا لازم ہے کہ قرآن کی ہرہر آیت کو قطعی الدلالۃ مانا جائے۔
- کلام اللہ اگرچہ قطعی ہے مگر اس کا یہ معنی نہیں کہ مفسر جو معنی سمجھ رہا ہے وہ معنی بھی قطعی ہے، چنانچہ ان معنی میں اختلاف جائز ہے۔
یہ تعبیر نہ صرف یہ کہ تصور قطعی الدلالۃ کی معنویت ہی کو مسخ کردیتی ہے بلکہ اس کے دعوے اور دلیل میں بھی کوئی مناسبت نہیں۔ اس تعبیر کا حاصل یہ ہے کہ کلام عنداللہ قطعی ہے، رہا معاملہ عندالناس کا تو اس میں قطعیت کا دعویٰ نہیں کیا جارہا۔
پہلی بات تو یہ کہ جو کوئی بھی کلام کو ظنی کہتا ہے تو وہ "عندالناس" ہی ظنی کہتا ہے، سو اس اعتبار سے آپ کی پوزیشن بعینہہ انہی کی طرح ہے، اس میں ایسی کوئی خصوصیت نہیں۔
دوسری بات یہ کہ یہ نظریہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا کہ آیا عندالناس سارا کلام ظنی ہے یا اس میں بھی قطعیت کا کوئی دائرہ ہے؟ اگر ہے تو اس کے اصول کیا ہیں؟ فقہاء جب معنی کے وضوح کے درجات کرتے ہیں تو اس کا مقصد عندالناس قطعیت کا ایک ایسا دائرہ تلاش کرنا ہوتا ہے جو سب کے حق میں اور سب کے خلاف حجت ہو، جبکہ اس مکتب فکر کے نظریے میں اس حوالے سے شدید ابہام ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مفسر کے سمجھے ھوئے معنی کو ہم قطعی نہیں کہتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کلام کے معنی سبجیکٹو ہیں، لہٰذا کسی کے فہم پر کوئی حکم لگانا ممکن نہیں، گویا عندالناس قطعیت کا کوئی دائرہ موجود نہیں۔
تیسری بات یہ کہ قرآن کا فرقان و میزان ہونا کس کے اعتبار اور کس کے لئے ہے؟ خدا کے لئے یا بندوں کے لئے؟ ظاہر ہے قرآن کو عندالناس معاملات کے لئے ہی فرقان و میزان کہا گیا ہے، مگر اس تعبیر کی رو سے تو قرآن عنداللہ قطعی ہے، تو جو آیات عندالناس کے لحاظ سے نازل ہوئیں، اس نظریے کے حق میں ان سے استدلال کا کیا مطلب؟ یہ تعبیر تو بتا رہی ہے کہ عندالناس قرآن فرقان و میزان نہیں کیونکہ اس تعبیر کی رو سے عندالناس مراد معنی کو تو آپ قطعی مانتے ہی نہیں، تو پھر فرقان و میزان ہونے کا کیا مطلب؟
الغرض قطعی الدلالۃ کی اس تعبیر سے جو مقصد حاصل کرنا مقصود تھا کہ قرآن کو عندالناس فرقان مانا جائے، یہ تعبیر اس مقصد ہی کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔واللہ اعلم