(جناب محمد ظفر اقبال کی تصنیف کے دوسرے ایڈیشن کے لیے لکھا گیا۔)
نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
ضرورت کے مطابق علم اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو مرحمت فرمایا ہے لیکن علم میں وسعت، ارتقاء اور اس سے زیادہ سے زیادہ نفع اٹھانے کی صلاحیت انسان کو ودیعت ہوئی ہے جو نسل انسانی کا اختصاص ہے۔ اور بعض مفسرین کرام کے مطابق یہی خصوصیت وعلم آدم الاسماء کلھا کے حوالہ سے فرشتوں پر انسان کی برتری کا ذریعہ بنی تھی۔ اپنے محدود وقت اور ضرورت کے مطابق علم چیونٹی کو بھی حاصل ہے کہ اسے زندگی گزارنے اور اپنے اردگرد کے ماحول سے استفادہ کرنے اور نمٹنے کے لیے ضروری علم اس کی پیدائش کے ساتھ ہی ودیعت کر دیا جاتا ہے۔ اور وہ اس کی روشنی میں ایسی منظم اور مربوط زندگی گزارتی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اسی طرح باقی تمام جانوروں کو بھی پیدا ہوتے ہی ان کی زندگی کے بارے میں بنیادی معلومات میسر ہوتی ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ ان میں اتنا ہی اضافہ ہو پاتا ہے جو ان کی زندگی کے لیے ضروری ہوتا ہے جبکہ اس سے ہٹ کر انہیں کسی اور بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اسے ’’فطرت نوعیہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں کہ جانوروں کی ہر نوع کو زندگی گزارنے کے لیے ضروری معلومات قدرتی طور پر ودیعت ہوتی ہیں اور یہ سب کچھ وہبی ہوتا ہے کسبی نہیں۔ مشاہدہ و تجربہ سے اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ تو ہو جاتا ہے لیکن خود اس علم یا معلومات کی بنیاد کسی کسب اور محنت پر نہیں ہوتی۔ یہی حال حضرت انسان کا بھی ہے کہ اپنے نوعی اختصاص کے مطابق پیدائش کے ساتھ ہی اسے بنیادی باتوں کا شعور ہوتا ہے جس کا اندازہ دو چھوٹی سی مثالوں سے کیا جا سکتا ہے۔
ماں کے پیٹ میں بچے کے جسم کو خوراک ملنے کا ذریعہ ناف کی نالی ہوتی ہے جو اس کے پیدا ہو جانے کے بعد کاٹ دی جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی بھوک لگنے کی صورت میں بچہ ناف کو حرکت دینے کی بجائے منہ کو حرکت دینے لگتا ہے اور ماں کے سینے سے چمٹ کر ہونٹ ہلانے لگ جاتا ہے کہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب مجھے خوراک اس راستے سے ملے گی اور ماں کے سینے سے ملے گی۔ یہ اسے کسی نے دنیا میں آنے کے بعد بتایا نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس حوالہ سے اس سے قبل کسی تجربہ و مشاہدہ سے گزرا ہے لیکن اس کے اندر کی کوئی چیز اسے یہ کچھ کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اسی طرح کی دوسری مثال یہ ہے کہ معصوم اور گود کے بچے کو جب آنکھ میں خارش ہوتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا علاج کھجلانا ہے۔ وہ اپنا ہاتھ آنکھوں تک لے جاتا ہے اور کھجلاتا بھی انگلیوں سے نہیں بلکہ ہاتھ کی پشت سے ہے کیونکہ اس کے شعور میں یہ بات شامل ہے کہ انگلیوں اور ناخنوں کے ساتھ کھجلانے سے آنکھ کو نقصان پہنچے گا، اس لیے وہ مٹھی بند کرتا ہے اور اس کی پشت سے آنکھ کھجلاتا ہے۔
اسے آپ فطرت نوعیہ سے تعبیر کریں، نوعی شعور کہہ لیں یا وجدان کا نام دیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے حصول میں اس کے کسی کسب اور محنت کا دخل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خارجی تعلیم و تربیت اس کے اس وجدان و شعور کا باعث بنی ہے بلکہ یہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہبی طور پر دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ نسل انسانی کی رسمی تعلیم کا آغاز بھی قرآن کریم نے وعلم آدم الاسمآء کلھا الخ کی صورت میں وہبی ہی بیان فرمایا ہے۔ اس لیے یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ انسانی علم و شعور کی بنیاد کسب پر نہیں بلکہ وہب و عطیہ پر ہے۔ البتہ اس میں ترقی و وسعت اور اسے زیادہ سے زیادہ نفع بخش بنانے میں انسان کا کسب، محنت اور صلاحیت ذریعہ بنتی ہے۔ اور چونکہ انسان کی زندگی صرف دنیا تک محدود نہیں ہے اور اس کی تگ و دو کا دائرہ بھی صرف زمین کا کرہ نہیں ہے اس لیے اس کی علمی استعداد، توانائیاں، مواقع، اور سعی و محنت دنیا اور زمین کی حدود کی پابند نہیں ہے۔ بلکہ اسے اس تگ و دو کے لیے ایک وسیع دائرہ دیا گیا ہے جس کی طرف قرآن کریم کی دو آیات کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔
(۱) سنریھم اٰیاتنا فی الاٰفاق و فی انفسھم حتیٰ یتبین لھم انہ الحق۔ (سورۃ فصلت ۴۱ ۔ آیت ۵۳)
’’عن قریب ہم اپنی نشانیاں انہیں دنیا میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہی حق ہے۔‘‘
(۲) یعلمون ظاھرًا من الحیاۃ الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون۔ (سورۃ الروم ۳۰ ۔ آیت ۷)
’’دنیا کی زندگی کی ظاہر باتیں جانتے ہیں اور وہ آخرت سے غافل ہی ہیں۔‘‘
چنانچہ انسان کے ذمہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ دنیا کی چند روزہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے آسائش تلاش کرے، اسباب فراہم کرے، اور ان کے بہتر سے بہتر استعمال کے طریقے دریافت کرتا رہے۔ بلکہ یہ بھی اس کی نوعی ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ کائنات کو وجود میں لانے والے خالق و مالک کی مرضی معلوم کرے اورا س کی مرضی و منشاء کی تکمیل کے لیے متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کی زندگی کے لیے، جو اصلی اور دائمی حیات ہے، فکرمند ہو اور اسے بہتر بنانے کو زندگی کا مقصد قرار دے۔
انسان کا المیہ یہ ہے کہ اس نے اسی دنیا کی زندگی کو اپنا واحد مقصد بنا لیا ہے اور اس کی تمام تر تگ و دو اسی کے گرد گھومنے لگی ہے۔ اسی طرح اس کی فکرمندی ’’دنیا میں آگیا ہوں تو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے‘‘ کے دائرے میں محصور ہے۔ جبکہ ’’کیوں آیا ہوں؟ کس نے بھیجا ہے؟ آگے کہاں جانا ہے؟‘‘ کے بنیادی سوالات اس کی نظروں سے اوجھل ہو کر رہ گئے ہیں جسے قرآن کریم نے یعلمون ظاھرًا من الحیاۃ الدنیا سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کا اندازہ اس مثال سے کر لیجیے کہ میڈیکل سائنس بلاشبہ ایک وسیع، وقیع اور مفید علم ہے جس کا موضوع انسانی جسم ہے۔ یہ علم و فن انسانی جسم کے بارے میں ہزاروں سال سے تحقیق و تجزیہ کی محنت کر رہا ہے اور اس حوالہ سے انسانی معاشرے کی بڑی خدمت کر رہا ہے۔ لیکن اس کی بنیاد صرف ان سوالات پر ہے کہ انسانی باڈی کے اجزائے ترکیب کیا ہیں؟ اس کا نیٹ ورک اور میکنزم کیا ہے؟ یہ کیسے صحیح کام کرتا ہے؟ اور خرابی پیدا ہو جائے تو اسے کیسے صحیح کرنا ہے؟
لیکن انسانی جسم کا مقصد تخلیق کیا ہے؟ اور اسے تخلیق کس نے کیا ہے؟ کے دو اہم ترین سوال سرے سے میڈیکل سائنس کے موضوع سے خارج ہیں۔ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ میں اس وقت جس قلم کے ساتھ لکھ رہا ہوں اس کے بارے میں تو مجھے معلوم ہے کہ اس کا مقصد وجود کیا ہے اور یہ کس فرم نے بنایا ہے۔ لیکن خود اپنے بارے میں یہ جاننا مجھے ضروری نہیں محسوس ہوتا ہے کہ میرا خالق کون ہے اور اس نے مجھے کس مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے؟
اسی طرح کائنات کی وسعتوں پر غور اور محنت کرنے والی سائنس نے بھی خود کو صرف اس سوال میں مقید کر رکھا ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہے اور ہم اس سے فائدہ کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ لیکن اسے یہ معلوم کرنے کی فرصت نہیں ہے کہ یہ سب کچھ کس نے بنایا ہے اور کیوں بنایا ہے؟ جبکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے ما خلقنا السماوات والارض وما بینھما لاعبین کہ ہم نے زمین و آسمان اور ان کے اردگرد کائنات کو کھیل تماشے کے لیے نہیں بنایا اور ما خلقنا ھما الا بالحق ہم نے یہ سب کچھ بامقصد پیدا کیا ہے۔ لیکن ہماری سائنس اس سب کچھ سے بے نیاز ہو کر اپنی تمام تر محنت اس نکتہ پر مرکوز رکھے ہوئے ہے کہ ہمارے اردگرد کائنات کی وسعتوں میں جو کچھ موجود ہے اسے دریافت کیسے کرنا ہے؟ استعمال میں کیسے لانا ہے؟ اس سے فائدہ کیسے اٹھانا ہے؟ اور اسے اپنے دشمن کے خلاف استعمال کیسے کرنا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں سائنس کے ان دونوں دائروں کا ذکر کیا ہے اور ان کی مقصدیت اس طرح واضح فرمائی ہے کہ
سنریھم اٰیاتنا فی الاٰفاق وفی انفسھم حتیٰ یتبین لھم انہ الحق، اولم یکف بربک انہ علیٰ کل شئی قدیر O الآ انھم فی مریۃ من لقآ ربھم الآ انہ بکل شئی محیط۔ (سورۃ فصلت ۴۱ ۔ آیات ۵۳ و ۵۴)
’’عن قریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہی حق ہے۔ کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے؟ (۵۳) خبردار! انہیں اپنے رب کے پاس حاضر ہونے میں شک ہے، خبردار! بے شک وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ (۵۴)‘‘
قرآن کریم نے انفس و آفاق کی نشانیوں کے مشاہدہ و تجربات کی مقصدیت کو کتنے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے۔ مگر ہماری سائنس کے یہ دونوں دائرے اس مقصدیت سے آنکھیں بند کر کے سائنس کے صرف دنیاوی نفع و نقصان کے گرد کولہو کے بیل کی طرح مسلسل گھوم رہے ہیں بلکہ انسان اور کائنات کی مقصدیت اور آخرت کی حقیقی اور دائمی زندگی کے بارے میں انکار و تمسخر کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
انسان کو علم کے جو ذرائع میسر ہیں انہیں عام طور پر محسوسات، مشاہدات اور معقولات کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے اور بلاشبہ یہ علم کے مؤثر ذرائع ہیں۔ لیکن کیا انسان کے پاس ان کے علاوہ علم کے حصول کا اور کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے؟ یہ بات خاص طور پر غور طلب ہے اس لیے کہ ہمارے بہت سے علمی و فکری مسائل و مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو بات محسوسات و معقولات کے دائرہ میں نہیں ہے اس سے عام طور پر انکار کر دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا محسوسات، مشاہدات اور معقولات کے دائرے سے باہر کائنات میں کوئی چیز موجود نہیں ہے؟ اس کا جواب شاید ہی کوئی باشعور شخص اثبات میں دے سکے، اس لیے کہ خود سائنس جوں جوں ترقی کر رہی ہے مسلسل ایسی چیزیں دریافت ہوتی جا رہی ہیں بلکہ استعمال میں آرہی ہیں جو اس سے قبل نہ محسوسات میں شمار ہوتی تھیں اور نہ ہی معقولات کا دامن انہیں اپنے اندر سمیٹنے کی پوزیشن میں تھا۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ اگر ہمارے اردگرد فرشتے اور جن موجود و متحرک ہیں تو نظر کیوں نہیں آتے اور محسوس کیوں نہیں ہوتے؟ میں نے کہا کہ ہمارے اردگرد فضا کی جو لہریں ہماری آواز اور تصویر کو لمحہ بھر میں دنیا کے ہر کونے تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہم انہیں پوری طرح استعمال بھی کر رہے ہیں، یہ ہمیں فضا میں دکھائی کیوں نہیں دیتیں اور محسوس کیوں نہیں ہوتیں۔ اگر یہ لہریں مشاہدات و محسوسات کے دائرہ میں آئے بغیر پوری کائنات میں موجود و متحرک ہیں تو فرشتوں کے وجود اور نظام کار سے اس بنیاد پر انکار کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے کہ وہ نظر نہیں آتے یا محسوس نہیں ہوتے۔ بلکہ محسوس نہ ہونے کی بات بجائے خود محل نظر ہے، اس لیے کہ فرشتوں کی برکات اور ان کی موجودگی کے ثمرات اہل دل کو تو ہر وقت محسوس ہوتے ہیں، عام لوگوں کو بھی بسا اوقات محسوس ہو جاتے ہیں جس کے شواہد ہمارے اردگرد بکھرے پڑے ہیں۔
یہ بات اب سائنسی طور پر بھی تسلیم کرنا پڑ رہی ہے کہ کائنات میں محسوسات اور مشاہدات کی دنیا محدود ہے اور مغیبات کا دائرہ ان سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا ہے جو وقتاً فوقتاً دریافت ہوتے رہتے ہیں اور قیامت تک اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بلکہ میری طالب علمانہ رائے میں یؤمنون بالغیب کی یہ تعبیر شاید سب سے زیادہ قرین قیاس ہے کہ اہل ایمان صرف محسوسات و مشاہدات پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ مغیبات اور عالم غیب کو بھی مانتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔
آج کی انسانی فکر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس نے معقولات کو علم کا آخری درجہ اور حتمی ذریعہ قرار دے رکھا ہے اور صرف دنیا کو اپنا مقصد حیات قرار دینے کے باعث محسوسات، مشاہدات اور معقولات کی سرحدوں سے باہر جھانکنے کا اسے حوصلہ نہیں ہو رہا۔ جبکہ اس وقت تعجب اپنی انتہاء کو پہنچ جاتا ہے جب محسوسات سے بھی پہلے کے درجہ یعنی وجدانیات کی کوئی توجیہ کرنا آج کی فکر و دانش کی نظر میں ایک معمہ سا بن کر رہ گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی الہ دہلویؒ نے تو اسے ’’فطرت نوعیہ‘‘ کا نام دے کر واضح کر دیا ہے کہ یہ نوع انسانی کے لیے علم کی وہ اساس ہے جو اسے قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی ہے تاکہ وہ اس کی بنیاد پر اپنے علم و معلومات کا دائرہ وسیع تر کرتا چلا جائے، اس سے استفادہ کرے اور اسے با مقصد بنانے کی سعی کرے۔ وجدان کا حس، مشاہدہ اور عقل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ ان تینوں سے پہلے کا مرحلہ ہے جو ماں کی گود کے معصوم بچے کو بھی حاصل ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ آج کی دانش کا ایک دائرہ اسے وحی کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
عقل انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کے استعمال کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی ہمہ نوع افادیت و ضرورت کو تسلیم کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ لیکن اس کی ماہیت کیا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عقل انسان کی اس خداداد صلاحیت و استعداد کا نام ہے جو محسوسات و مشاہدات اور میسر معلومات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرتی ہے اور اسے انسان کے مستقبل کی صورت گری کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔ لیکن اس کے تجزیہ و استنباط کی بنیاد وہی معلومات ہوتی ہیں جو یہ عمل سر انجام دیتے وقت اسے میسر ہوتی ہیں۔ ان محسوسات و مشاہدات اور معلومات کا دائرہ بدل جائے تو عقل کا قائم کردہ نتیجہ بھی بدل جاتا ہے۔ وہ اس کمپیوٹر کی طرح ہے جو اپنی طرف سے کچھ نہیں دیتا بلکہ جو پروگرام اس کے اندر فیڈ ہوتا ہے اس کے مطابق نتیجہ دے دیتا ہے۔ اس پروگرام کا دائرہ بدل جائے یا اس میں وسعت پیدا ہو جائے تو کمپیوٹر کا دیا ہوا نتیجہ بھی اس کے ساتھ ہی بدل جاتا ہے۔ یہی حال عقل کا بھی ہے کہ اسے جو مشاہدات و تجربات اور معلومات میسر ہوں گے ان کے مطابق وہ نتیجہ دے گی اور اگر معلومات میں اضافہ ہوگا تو نتیجہ بھی متغیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ جبکہ انسانی مشاہدات، تجربات اور معلومات کو کسی جگہ قرار نہیں ہے، وہ ہر دم وسعت پذیر رہتے ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے کسی بھی مسئلہ میں عقل سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حتمی نتیجہ دے گی اور دوٹوک بات کرے گی، محض خام خیالی ہے بلکہ ناممکنات میں سے ہے ۔ عقل کی آخری انتہا ظن غالب ہے، اس سے آگے اس کے پَر جلتے ہیں اور وہ کسی پرواز کے قابل نہیں رہتی۔ اس حقیقت کو قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:
ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس، ولقد جآء ھم من ربھم الہدیٰ۔ (سورۃ النجم ۵۳ ۔ آیت ۲۳)
’’وہ محض وہم اور اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کے ہاں سے ہدایت آچکی ہے۔‘‘
چنانچہ علم میں یقین کا درجہ حاصل کرنے کے لیے وجدانیات، محسوسات، مشاہدات اور معقولات کے بعد پھر ہمیں کسی ایسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے جو ان سب سے بالا ہو اور یقین کی منزل سے ہمکنار کرتی ہو۔ ظاہر بات ہے کہ وہ وحی الٰہی ہی ہو سکتی ہے جو علم کے ان ذرائع سے بالاتر ہے، ان کی نگران ہے، اور ان سب پر فائنل اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ آخر یہ ممکن بھی کیسے ہے کہ اتنی وسیع و عریض کائنات کے خالق نے یہ سب کچھ بنا کر اور انسان کو اس میں تصرف اور استفادے کے مواقع فراہم کر کے اسے کسی علم کے بغیر کھلا چھوڑ دیا ہو کہ جا اپنی مرضی کر، ہمارا اس کام سے اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ ایک فرم چھوٹی سی مشین بنا کر اسے استعمال کے لیے مارکیٹ کے سپرد کرتی ہے تو اس کے ساتھ بنیادی معلومات کا کتابچہ فراہم کرتی ہے تاکہ اسے صحیح طریقہ سے استعمال کیا جا سکے۔ خدا جانے کائنات کے خالق و مالک کے بارے میں یہ تصور کہاں سے آگیا ہے کہ اس نے سارا نظام وضع کر کے اسے کسی ہدایت اور نگرانی کے بغیر آزاد چھوڑ رکھا ہے۔
حضرت انسان کے پاس علم کے بنیادی ذرائع چار ہیں:
(۱) وجدانیات (۲) محسوسات و مشاہدات (۳) معقولات (۴) وحی الٰہی
ان چاروں مراحل سے گزرے بغیر انسان کا علم مکمل نہیں ہو سکتا اور ان میں حتمی اور یقینی ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ اس لیے کہ اس سے قبل کے کسبی ذرائع انسان کو ظن غالب تک پہنچا کر وہیں رک جاتے ہیں اور یقین کے حصول کے لیے اسے کسی ایسے ذریعہ کی ضرورت پڑتی ہے جس کا اپنا علم یقینی اور حتمی ہو۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ وہی ان سب چیزوں کا خالق و منتظم و مدبر ہے۔
آج انسانی سوسائٹی میں فکر و فلسفہ اور علم و معلومات کے حوالہ سے جو بحث جاری ہے اور انسانی ذہنوں میں اس کے پیدا کردہ کنفیوژن اور پیچیدگیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ ہماری طالب علمانہ رائے میں یہ ہے کہ:
- دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ قرار دے لیا گیا ہے اور آخرت کی حقیقی زندگی نگاہوں سے اوجھل ہو کر رہ گئی ہے۔
- معقولات کو علم و یقین کی آخری اتھارٹی سمجھ لیا گیا ہے اور وحی الٰہی کو علم کا ذریعہ نہیں تسلیم کیا جا رہا۔
- سائنس نے انسانی جسم کے اسرار و رموز اور کائنات کے وسائل کی دریافت و استعمال کو صرف دنیا کی وقتی ضروریات تک محدود رکھا ہوا ہے۔
- انسانی وجود اور کائنات کی مقصدیت تلاش کرنے اور ان کے خالق کی منشا معلوم کرنے کی بجائے ’’ایڈہاک ازم‘‘ کی بنیاد پر وقتی نفع و نقصان کو ہی آخری منزل قرار دے لیا گیا ہے۔
اس تناظر میں مغرب نے جس علمی و تہذیبی سفر کا آغاز اب سے تین صدیاں قبل کیا تھا وہ اپنی منطقی انتہا کو پہنچ کر اب واپسی کے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ اور مغرب کی دانش گاہوں میں وجدانیات کی اہمیت و ضرورت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ روح کے اطمینان، زندگی کی مقصدیت، سائنس کے حقیقی اہداف، خاندانی نظام کی بحالی، اور انسانی سوسائٹی کے بہتر مستقبل کے لیے آسمانی تعلیمات سے استفادہ کے موضوعات اب بحث و مباحثہ کی ترجیحات کا حصہ بن رہے ہیں۔ لیکن مسلم دنیا کی صورت حال اس سے مختلف ہے، جس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دینے پر مغرب خود کو مجبور پا رہا ہے، ہماری ’’جدید دانش‘‘ اسی پتھر کو چومنے اور اٹھانے کے لیے بے چین دکھائی دے رہی ہے اور عالم اسلام میں ایسے فکری علمی مباحثوں کی ہاہاکار مچی ہوئی ہے جو ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ ہوتے جا رہے ہیں۔
عقل اور وحی کے مباحث کا مغرب کی دنیا میں اس وقت حال یہ ہے کہ چند ماہ قبل امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے بعض علماء کرام کے ساتھ گفتگو کے مرحلہ میں راقم الحروف کے پاس گوجرانوالہ تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ ہم مغرب میں عقل اور آسمانی تعلیمات کے باہمی تعلق کے بارے میں مسلم متکلمین کے افکار پر کام کر رہے ہیں اور وہ خود ان میں سے امام ابو منصور ماتریدیؒ کو اس لیے موضوع بحث بنائے ہوئے ہیں کہ ان کے ہاں عقل اور وحی کے درمیان توازن انہیں زیادہ بہتر دکھائی دیتا ہے۔
عقل کو علم کا یقینی درجہ دینے اور انسانی مسائل و مشکلات کے حل کی آخری اتھارٹی سمجھ لینے کے مغالطہ نے ہی انسانی سوسائٹی کو اس کنفیوژن سے دوچار کر رکھا ہے کہ فرد کی عقل تو ناقص ہو سکتی ہے لیکن سوسائٹی کی اجتماعی عقل (کامن سینس) ناقص اور کمزور نہیں ہوتی، اس لیے وہ تمام امور میں حَکَم اور اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر یہ بات مسلسل نظر انداز کی جا رہی ہے کہ اس ’’عقل عام‘‘ کا ماخذ اور سرچشمہ کیا ہے؟ اس نے بھی تو میسر معلومات و مشاہدات اور ظاہری محسوسات سے ہی نتائج اخذ کرنے ہیں، جبکہ کسی چیز کے بارے میں یقینی، مکمل اور آخری معلومات کا احاطہ کر لینا فرد کی طرح سوسائٹی کی اجتماعی عقل کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔
پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ عقل عام کو امریکی معاشرے سے حاصل ہونے والے محسوسات و مشاہدات و تجربات وہی ہوں جو اسے افریقی معاشرے میں میسر ہیں۔ اور یورپ کا معاشرہ بھی وہی تجربات و محسوسات مہیا کرتا ہو جو مڈل ایسٹ کی معاشرت میں جنم لیتے ہیں۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو جنوبی امریکہ کی کامن سینس شمالی امریکہ سے اور مشرق وسطیٰ کی کامن سینس وسطی ایشیا سے مختلف ہوگی، جبکہ مشرق بعید کی کامن سینس ان سب سے مختلف تجربات سے دوچار ہوگی۔ چنانچہ گلوبل انسانی معاشرے کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی سوسائٹی کو پھر کسی اور معیار کی ضرورت پیش آئے گی جو ان سب کے معاملات طے کرنے کی پوزیشن میں ہو۔
مغرب چونکہ بین الاقوامیت اور گلوبل سوسائٹی کے ماحول میں نووارد ہے اس لیے اسے یہ الجھنیں پریشان کر رہی ہیں۔ جبکہ اسلام نے چودہ سو سال قبل یا ایھا الناس کے خطاب سے اس عالمیت اور گلوبلائزیشن کو اپنا دائرہ کار بنا لیا تھا بلکہ وہ دنیا کے مختلف علاقوں اور براعظموں پر محیط ادوار حکومت میں ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک ان تجربات و مشاہدات سے گزر چکا ہے۔ اس لیے اسے اس معاملہ میں کسی کنفیوژن کا سامنا نہیں ہے اور وہ بالکل کلیئر ہے کہ انسانی سوسائٹی خود اپنے تمام معاملات نمٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اسے بہرحال خارجی راہ نمائی اور نگرانی کی ضرورت ہے جو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہی ہو سکتی ہیں۔ مغرب کی دانش دھیرے دھیرے اس رخ پر آرہی ہے مگر اسے پریشانی یہ ہے کہ وحی الٰہی کا مستند و محفوظ ذخیرہ اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا معتمد ریکارڈ اسلام کے سوا کسی اور کے پاس موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس رخ پر واپس آنے کے لیے مغرب کو ’’اسلام‘‘ سے استفادہ کرنے کے سوا دوسر کوئی آپشن میسر نہیں ہے۔
چنانچہ تاریخ اور سماج کے میرے جیسے طالب علم آج پھر اس دل چسپ منظر کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اہل کتاب اپنی کتابوں میں موجود پیش گوئیوں کی وجہ سے نبی آخر الزمانؐ کے منتظر تھے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان بھی لیا تھا لیکن قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ
حسدًا من عند انفسھم من بعد ما تبین لھم الحق۔ (سورۃ البقرہ ۲ ۔ آیت ۱۰۹)
’’انہوں نے حق واضح ہو جانے کے باوجود اپنے حسد کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا۔‘‘
یہ حسد اس بات پر تھا کہ آخری نبوت اور وحی کا یہ اعزاز بنی اسرائیل کی بجائے بنو اسماعیل کو کیوں حاصل ہوگیا ہے۔ اس کی جھلک قیصر روم ہرقل اور قریش کے سردار حضرت ابوسفیانؓ کے درمیان ہونے والے اس تاریخی مکالمہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جو بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ اور جس میں قیصر روم نے نبی اکرمؐ کی نبوت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ آخری پیغمبرؐ کا مجھے بھی انتظار ہے اور یہ وہی لگتے ہیں لیکن ’’مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ پیغمبر تم عرب بدوؤں میں پیدا ہو جائے گا۔‘‘
علم و دانش کا آج کا عالمی منظر بھی اس سے مختلف نہیں ہے اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کی ضرورت محسوس کرنے کے باوجود عالمی دانش کا ’’قبضہ گروپ‘‘ اسے قبول کرنے سے صرف اس لیے گریزاں ہے بلکہ اس میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے کہ آسمانی تعلیمات کا مستند اور محفوظ ذخیرہ اسلام کے سوا کسی اور کے پاس موجود نہیں ہے۔ مگر اس سے زیادہ تعجب کا مرحلہ یہ ہے کہ عالمی دانش تو عقل کی کوتاہی کا عملی تجربہ کرتے ہوئے آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کے راستے تلاش کر رہی ہے لیکن عالم اسلام کی جدید کہلانے والی دانش ابھی تک اس مغربی فکر و دانش کی جگالی کرنے میں مصروف ہے جس سے پیچھا چھڑانا خود مغرب کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔عالم اسلام کی جدید نما دانش جن مباحث میں الجھی ہوئی ہے وہ ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ ہو چکے ہیں، ان کی میعاد ختم ہو گئی ہے اور آج کی سب سے بڑی علمی و فکری ضرورت یہ سامنے آرہی ہے کہ مغربی فکر و فلسفہ کی ناکامی کے اسباب واضح کرتے ہوئے قرآن و سنت کے معارف اور احکام شریعت کی حکمت و ضرورت کو آج کے اسلوب میں اور دور حاضر کی نفسیاتی ضروریات کے مطابق پیش کیا جائے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اسی کو قرآن کریم کے اعجاز کا ایک بڑا پہلو اور جدید دور کی اہم ضرورت قراردیا تھا، اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے بھی اسلام کی تجدید اور فقہ و شریعت کی تشکیل نو کا ہدف یہی بیان کیا ہے۔ مگر ہماری جدید دانش مروجہ فکر و فلسفہ کا رخ اسلام کی طرف موڑنے کی کوشش کرنے کی بجائے اسلام کو اس تھکے ماندہ فکر و فلسفہ کے بوسیدہ سانچے میں فٹ کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنے میں مصروف ہے۔ اس تناظر میں وہ ارباب فکر و دانش ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں جو مسلم دانش کو اس دلدل سے نجات دلانے اور قرآن و سنت کی حقیقی شاہراہ کی طرف واپس لانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ اور یقیناًمستقبل میں انہی اصحاب فکر و دانش کی یہ مبارک مساعی فکری و علمی معاملات کو صحیح رخ پر گامزن کرنے کی جدوجہد کا نقش اول قرار پائیں گی۔
ہمارے فاضل دوست جناب محمد ظفر اقبال دانش وروں کے اسی قافلہ کے فرد ہیں جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری دانش و اسلوب اور مستقبل کی فکری و علمی ضروریات کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘ میں اس حوالہ سے بعض مسلم مفکرین کے افکار کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے عصر حاضر کے فکری و تہذیبی الجھاؤ کی بعض گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ میں نے کتاب کی سرسری ورق گردانی کی ہے، اگرچہ میرے خیال میں یہ مباحث اب پرانے ہو چکے ہیں، لیکن محمد ظفر اقبال صاحب کی یہ علمی و تحقیقی کاوش نئی نسل کو ان معاملات میں صحیح سمت دکھانے کے لیے مفید ثابت ہوگی اور تحقیق و جستجو کا ذوق رکھنے والوں کی راہ نمائی کا ذریعہ بنے گی۔
دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت موصوف کی اس سعی و محنت کو اپنی بارگاہ میں قبولیت سے نوازیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔