مشرقِِ وسطیٰ نئے بحران کی زد میں ہے۔ نئی صف بندی ہورہی ہے۔طاقت کا نیا کھیل شروع ہو چکا اور مفادات کا تصادم ایک نئے منظرنامے کی صورت گری کر رہا ہے۔کہنے کو یہ سب کچھ ’نیا’ہے لیکن دراصل بہت پرا نا ہے۔نئے صرف’ اداکار‘ ہیں،تھیٹر نہیں۔ابنِ آ دم جن جبلی تقاضوں کے ہاتھوں مغلوب رہا ہے، ان میں ایک طاقت کی بے پایاں خواہش بھی ہے۔اسی خواہش کے لیے وہ دلائل تراشتا اوراسی کے زیرِ اثر اقدام کرتا ہے۔سیاست ازل سے طاقت کا ایک کھیل ہے ۔اس آتش کدے کوروشن رکھنے کے لیے مذہب، نسلی عصبیت،ترقی کا خواب،مفاد، آزاد ی کی نیلم پری،ہر شے کو ایندھن بنا یا جا تا رہا ہے۔یہ کام اب بھی ہونے جارہا ہے۔پاکستان کو دیکھنا ہے کہ اس نے اپنے مفاد کا تحفظ کیسے کر نا ہے۔
سعودی عرب، ایران،اسرائیل، ترکی اورداعش ،اصل کر دار یہی ہیں۔یہ چاروں اپنی طاقت کو کسی سرحد تک محدود نہیں رکھنا چاہتے۔وہ اس دائرے کو بڑھانا چاہتے ہیں۔یہ ڈور اس طرح الجھ گئی ہے کہ اس کا سرا ملنا مشکل ہو رہا ہے۔داعش بیک وقت ایران اور سعودی عرب کے لیے خطرہ ہے۔داعش شیعہ مخالف قوت ہے اور اہلِ تشیع کی سیاسی قوت کا مرکز ایران ہے۔یوں ایران کے لیے داعش براہ راست خطرہ ہے۔ یہ بات سعودی عرب کے حق میں ہے کہ خطے میں اثر ورسوخ کے حوالے سے وہ سعودی عرب کا حریف ہے۔دوسری طرف داعش سعودی عرب کے لیے بھی خطرہ ہے کیونکہ وہ عالمی خلافت کی علم بردارہے اوربادشاہت کو نہیں مانتی۔ایران کے باب میں سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل ایک صفحے پر ہیں۔شاہ سلمان سے پہلے سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین ایک خاموش مفاہمت مو جود تھی۔اس کا ظہور مصر کے معاملے میں ہوا جب سعودی عرب نے اپنا سارا وزن اخوان کے خلاف جنرل سیسی کے پلڑے میں ڈال دیا۔سعودی عرب کے لیے مشکل یہ ہے کہ ایران کی کامیابی اس کے حق میں ہے نہ داعش کی۔
ایران کے لیے بھی انتخاب آسان نہیں ہے۔وہ شیعہ شناخت کے ساتھ اس خطے میں اپنا اثر بڑھا نا چاہتا ہے۔بحرین کی اکثریت شیعہ ہے۔سعودی عرب کے سرحدی علاقے میں شیعہ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔پڑوس میں یمن ہے جہاں ان دنوں شیعہ قبیلہ اقتدار پر قبضہ کر چکا ہے۔حزب اللہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔شام کے علوی بشار الاسد بھی ایران کے اتحادی ہیں۔علویت بھی اہلِ تشیع ہی کی توسیع ہے۔ایرانی اثر و رسوخ کی اساس خالصتاً مسلکی بلکہ فرقہ وارانہ ہے اور وہ اسے ہی بطور سیاسی قوت استعمال کر رہا ہے۔سعودی عرب اس کے مقابلے میں،کیا سنی عصبیت کو استعمال کر سکتا ہے؟کیا اس باب میں ترکی اور مصر اس کے معاون ہوں گے جو سنی اکثریت کے حامل ہیں؟کیا یہ امکان مو جود ہے کہ بالآخر مشرقِ وسطیٰ کی سیاست واضح مفہوم میں شیعہ اور سنی بلاک میں تقسیم ہو جا ئے؟
اب ایک نظر امریکی کانگرس سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی غیر معمولی تقریر پر ڈال لیجیے۔اس تقریر کا مرکزی خیال ایران کا ایٹمی پروگرام اور اس باب میں صدر اوباما کی پالیسی پر تنقید تھا۔اس سے پہلے خود امریکی کانگرس میں کسی غیر ملکی سربراہِ حکومت نے امریکی صدر کے بارے میں اس لب و لہجے میں کلام نہیں کیا۔کانگرس میں جس طرح سے اسرائیلی وزیر اعظم کی پزیرائی ہوئی، وہ بھی غیر معمولی تھی۔یہ اس عالمی دباؤ کا اظہار تھا ،ایران کا آج جس کا سامنا ہے۔ ایران کے معاشی حالات اپنی جگہ نا گفتہ بہ ہیں۔تیل کی قیمتوں میں کمی نے اسے بہت نقصان پہنچا یا ہے۔سعودی قیادت کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں اسی طرح کم رہیں تو ایران کیے لیے اپنی معیشت کو سنبھالا دینا مشکل ہوگا۔ ایران کا بجٹ اس تخمینے پر کھڑا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ۱۲۱ڈالر فی بیرل ہو۔یہ قیمت اِس وقت کم و بیش پچاس ڈالر فی بیرل ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اس معیشت کے ساتھ کیا اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی آب یا ری کر سکے گا؟اس کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے: مذہب کاسیاسی استعمال۔شیعہ عصبیت کی بنیاد پر علاقائی سیاست کو آگے بڑھا نا۔سعودی عرب اور دوسری قوتوں کے پاس اس کا توڑ کیا ہو سکتاہے؟سنی عصبیت کا سیاسی استعمال۔توکیا نئی فرقہ وارانہ صف بندی کا آغاز ہو نے والا ہے؟
وزیر اعظم پاکستان سمیت، سنی سربراہان حکومت کے دورہ سعودی عرب کو اس زاویے سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا معاشی استحکام بڑی حد تک سعودی عرب پرمنحصر ہے۔مزید یہ کہ شریف خاندان سعودی فرمارواؤں کا زیرِ احسان ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ کی نئی صف بندی میں پاکستان و کوئی متحرک کردار ادا کرنے کے لیے کہا جا تا ہے توکیا ہماری مو جودہ قیادت اس کی مزاحمت کر پائے گی؟اس سے متصل سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہو تا ہے تو کیا پاکستان کوفرقہ واریت کی نئی لہر کا سامنا نہیں کر نا پڑے گا؟ہم سب جانتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی قوتوں نے یہاں نظری اور عملی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔نظری سطح پر لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کے لیے پورا سامان مو جود ہے اورسیاسی مہم جوئی کے لیے معاشی وسائل کی بھی کمی نہیں۔ کیا ہمیں ایسے امکانا ت کا ادراک ہے؟
یہ سوال صرف ریاستی سطح پر ہی نہیں،سماجی سطح پر بھی زیرِ بحث آ نا چاہیے۔یہ محض خارجہ پالیسی کا نہیں،ہمارے لیے سماج کا بھی ایک مسئلہ ہے۔اس ملک میں صرف شیعہ سنی تقسیم نہیں ہے، وزیر داخلہ کے بیانات کے باوجود،داعش کا ہم نوا ایک موثر گروہ بھی مو جود ہے۔یہ گروہ اس وقت مسلمانوں کی عالمی خلافت کا پرچار کر رہا ہے۔اس کے لیے مذہبی کتابوں سے حوالے دیے جارہے ہیں اور عالمی خلافت کے قیام کو ایک دینی فریضہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس نظریے کی عملاً علم بردار کوئی قوت اگر ہے تو وہ داعش ہے۔نظری سطح پر اس مقدمے کو مضبوط کرنے کا مطلب داعش کو فکری توانائی فراہم کر نا ہے۔پاکستان میں یہ کام اعلانیہ ہو رہا ہے۔اس کے لیے کالم لکھے جارہے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر ایک گروہ شدومد کے ساتھ اسے پیش کر رہا ہے۔مجھے حیرت ہے کہ ان حالات میں بھی لوگ قیامِ خلافت کی بحث کو بے وقت کی راگنی سمجھتے ہیں۔مجھے خدشہ ہے کہ یہ معاملہ اگر مزید آگے بڑھتا ہے تویہ مسلمانوں کے پہلے دور کی طرف مراجعت ہو گی جب امت تین فرقوں میں بٹ گئی تھی: سنی، شیعہ اور خوارج۔اس وقت بھی اس تقسیم کے اسباب سیاسی تھے اور آج بھی سیاسی ہیں۔ اُس وقت بھی سیاسی مقاصد کیے لیے مذہب کو استعمال کیا گیا، آج بھی کیا جا ئے گا۔
ہمارے لیے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کوفرقہ واریت کی اس نئی لہرسے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟ اس کا پہلا مرحلہ تو مسئلے کا ادراک ہے۔جب تک ہم اس کی شدت کو محسوس نہیں کریں گے،ہم کسی حل کے لیے سنجیدہ نہیں ہو گے۔ نظامِ صلوۃ کاا علان یہ بتا رہا ہے کہ ہماری حکومت اس معاملے کو کس سطحی انداز میں دیکھ رہی ہے۔پاکستان کو مذہب کے نام پر کسی نئے فساد سے بچا نے کے لیے یک سوئی کی ضرورت ہے۔اس کے لیے ریاست کے ساتھ سماج کو بھی متحرک ہو نا ہو گا۔یہ یک سوئی پہلے فکری سطح پر پیدا ہوگی اور پھر کسی حکمت عملی میں ڈھلے گی۔
یوحنا آباد۔ایک علامت
خاموشی کے ساتھ زندہ جل جانے والوں نے زندوں کو جلا دیا۔یہ تبدیلی اچانک نہیں آئی۔یہ وہ فصل ہے جو برسوں کی محنت سے تیار ہوئی اورہم اب جسے کاٹنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ چند برس میں، مجھے اقلیتوں کی نفسیات کو سمجھنے کا براہ راست مو قع ملا۔گوجرانوالہ، لاہور اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بسنے والے مسیحیوں سے مکالمہ ہوا۔اگر میں اُن کی آبادیوں میں نہ جاتا توکبھی نہ جان سکتا کہ وہ کس حال میں رہتے ہیں۔مجھے اس نوعیت کا پہلا تجربہ اُس وقت ہواجب میں اسلام آباد کی کچی آبادیوں میں گیا۔اس شہر کے عالی شان محلوں کے پہلو میں زندگی اس طرح سسک سسک کر سانس لیتی ہے کہ لوگوں کی سخت جانی پر حیرت ہو تی ہے۔گندے پانی کے نالے کی دیواریں جنہیں کاٹ کر کانس بنا یا گیا ہے۔ان پر برتن رکھے ہیں اور نیچے انسان بستے ہیں۔ جب میں گوجرانوالہ گیاتو معلوم ہو کہ یہ المیہ اسلام آباد تک محدود نہیں،اس کا دائرہ تو دوسرے علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔
اسی دوران میں، میرایوحنا آباد جانا ہوا۔یہ ۲۰۱۴ء کا واقعہ ہے۔فیروز پور کے دامن میں آباد اس بستی کے حالات اسلام آباد کی کچی آبادیوں سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔میں جس دن گیا،کچھ دیر پہلے ہی بارش ہوئی تھی۔یہ واقعہ ہے کہ ان گلیوں میں پیدل چلنا ممکن نہیں تھا۔مجھے یہ جان کر مزید حیرت ہوئی کہ یہ شہباز شریف صاحب کا حلقہ انتخاب ہے۔ایک وزیر اعلیٰ کے اپنے حلقے میں لوگ اس حال میں رہ رہے ہیں اور وہ بھی لاہور شہر میں،سچ یہ ہے کہ میرے لیے باور کرنا مشکل تھا،اگر میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا۔میں نے انہی دنوں اپنے اس تاثر کا اظہار اپنے کالم میں بھی کیا تھا۔ ۱۵؍ مارچ کے حادثے سے معلوم ہوا کہ اربابِ اقتدار کی بے نیازی میں کوئی فرق نہیں آیا۔اس بستی کے لوگ آج بھی اُسی طرح بے امان ہیں جیسے پہلے تھے۔
بنیادی سہولتوں سے محرومی اس المیے کا ایک پہلو ہے جس میں مذہبی امتیاز سے ماوراکروڑوں شہری مبتلا ہیں۔یہ اقلیتوں کے ساتھ خاص نہیں۔یہ محرومی شایدگوارا کر لی جائے اگرذہنی آزادی میسر ہو۔مجھے اقلیتی آبادی سے مل کر یہ معلوم ہواکہ خوف اور عدم تحفظ کا گہرا احساس ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔توہین مذہب کے باب میں ہونے والے واقعات کے باعث،وہ اس خوف سے نجات نہیں پا رہے کہ کب کوئی ان سے ناراض ہو جائے اور ایک بے رحم انبوہ اُن پرٹوٹ پڑے۔الزام کسی ایک پر ہو اور ان کی پوری بستی اجاڑ دی جائے۔اس طرح کی شکایت پر جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایسے واقعات تو مسلمانوں کے خلاف بھی ہورہے ہیں تو ان کا جواب بڑا سادہ ہو تا ہے:اگر الزام کسی مسلمان پر ہو تو خوف پورے گروہ میں نہیں پھیلتا،ایک فرد یا خاندان تک محدود رہتا ہے۔معاملہ کسی غیر مسلم کا ہو تو اس کی پوری بستی کو اجاڑ دیاجاتا ہے۔
یوحنا آباد کے واقعے پر مسیحی نوجوانوں کا ردِ عمل بتا رہا ہے کہ ان کا خوف اپنی آ خری حدوں کو چھونے لگا ہے۔دو بے گناہ ان کے ردِ عمل کا نشانہ بن گئے۔ ایک ظلم نے دوسرے ظلم کو جنم دیا۔ظلم بھی غلطی کی طرح بانجھ نہیں ہوتا۔اگر جوزف کالونی، پشاور اور کوٹ رادھا کشن جیسے واقعات پر ریاست اور سماج اپنی ذمہ داری ادا کرتے توممکن تھا کہ اقلیتوں میں موجود احساسِ عدم تحفظ کم ہوتا، ایسا نہیں ہوا۔ میرے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ تشدد کا یہ رجحان اگر پھیلتا ہے تواقلیتیں خسارے میں رہیں گی اور ظاہر ہے کہ یہ سماج اور ملک بھی۔ضرورت ہے کہ اسے محض ایک واقعہ نہ سمجھا جائے۔یہ سلسلۂ واقعات کی ایک کڑی ہے۔یہ مسئلہ متاثرین کو چند لاکھ روپے ادا کرنے سے حل ہو نے والا نہیں۔افسوس کہ حکومتیں ہر حادثے کو ایک منفرد واقعہ ہی سمجھتی ہیں۔سماج کا معاملہ تو زیادہ افسوس ناک ہے۔اس کا کوئی وارث ہی نہیں۔
ایک پہلو اور بھی ایسا ہے جو قابل غور ہے۔اس سماج میں زخموں کا کاروبار کر نے والے بھی کم نہیں۔یہاں ہر حادثے کے سوداگر مو جود ہیں۔افغانستان، عراق،کشمیراور فلسطین کے ساتھ ،یہاں انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق،معلوم نہیں کس کس نام پر کاروبار ہوتا ہے۔اس کی بھی شدید ضرورت ہے کہ ان المیوں کو کاروبار بنانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ہمیں اسے ایک قومی مسئلہ جان کر اس کا حل تلاش کر نا چاہیے۔جب ہم اپنے معاملات حل نہیں کر پاتے تو پھر دوسروں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ مداخلت کریں۔اس کو روکنے کا ایک ہی ذریعہ ہے: خود احتسابی۔
سب سے پہلے تو ہمیں اس غلط فہمی سے نکلنا چاہیے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔عام طور پر لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے عمومی رویے کو زیادہ اصلاح کی ضرورت نہیں۔یہ چند این جی اوز کا پھیلا یا ہوا پروپیگنڈا ہے۔یہ تو چند افراد ہیں۔ واقعات کا تسلسل بتا رہا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ایک حادثے پر خون دینا ایک قابل ستائش عمل ہے لیکن ہماری اجتماعی نفسیات میں مسلم برتری کا احساس اس طرح سرایت کر گیا ہے کہ ہم قومی ریاست کے تناظر میں سوچ نہیں سکتے جو ہر شہری کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔ہم شعوری طور پر غیر مسلموں کو ذمی ہی سمجھتے ہیں اور اس شعور کی تشکیل اس مذہبی لٹریچر اوردینی فہم کا نتیجہ ہے جوہمارے ہاں رائج ہے۔ جب ہم خود کو اسلامی ریاست کہتے ہیں تو اس مقدمے میں یہ شامل ہے کہ جو شہری ریاست کے نظریے کو قبول نہیں کرتا، وہ دوسرے درجے کا شہری ہے۔
ہمارے ہاں اس ضمن میں جو گفتگو ہوتی ہے،وہ اسی شعور کے تحت ہوتی ہے۔اب مسلمان حقوق دینے والے ہیں اور غیر مسلم لینے والے۔یہ ممکن ہو ہے کہ ہم انہیں سب حقوق دے رہے ہوں لیکن جب تک یہ نفسیات باقی ہے کہ ’’ہم ‘‘ دینے والے ہیں،ریاست کے تمام شہری برابر نہیں ہو سکتے۔کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو وہ ’’اسلامی ریاست ‘‘ کے نام سے لکھی جانے والی ،مو لا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور مو لاناامین احسن اصلاحی کی کتب پڑھ لے۔باقی سب کچھ تو ان ہی کی خوشہ چینی ہے۔آئین بڑی حد تک بنیادی حقوق کی ضمانت دیتاہے لیکن آئین خود ناطق نہیں ہوتا۔وہ شہریوں کے رویوں میں بولتا ہے۔یہ رویے جب تک نہیں بدلیں گے ، آئین حقوق کا ضامن نہیں بن سکتا۔
اقلیتوں کو بھی سوچنا ہے کہ تشدد کا راستہ کبھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔انہیں اکثریت کو ہم نوا بنا نا ہے۔انہیں آئین کی بات کرنی ہے۔اقلیتوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ خودکو اپنے مذہبی خول میں بند نہ ہو نے دیں۔اکثریت کو اس باب میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔آج ضرورت ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ ملے۔یہ ہم آہنگی رسمی اجتماعات تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔اس کے لیے مذہبی گروہوں،سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اورمیڈیاکو سنجیدگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کر نا ہوگا۔میرا اصرار ہے کہ ان مسئلے کی جڑیں سماجی رویے میں ہیں۔اخبارات کے صفحات سے لے کر محراب و ممبر تک،ٹی وی سکرین سے لے کرسیاسی اجتماعات تک، ہمیں مل کر ایک قوم کے تصور کو آگے بڑھا نا ہے۔کسی گروہ میں عدم تحفظ کا احساس ،وہ مذہبی ہو ،علاقائی ہو یا لسانی،قومی وجود کو مجتمع رکھنے میں مانع رہے گا۔
ظلم کا شکارکوئی شہری بھی بن سکتاہے۔لیکن اس میں، اگریہ احساس پیدا ہو جائے کہ اس پر ہونے والے ظلم کا سبب کسی خاص قبیلے یا گروہ کے ساتھ اس کا تعلق ہے،تو یہ احساس ظلم کو ایک نیا رنگ دے دیتا ہے جو انتشار کے بیج بو دیتا ہے۔آج وحدت کا ایک ہی راستہ ہے:تما م شہریوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ ان میں کسی حوالے سے کوئی امتیاز نہیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)