مئی ۲۰۱۴ء میں وطن عزیزکے مؤقر جریدے ماہنامہ الشریعہ [گوجرانوالہ] میں راقم کا ایک مضمون ’’مادی ترقی کا لازمہ ۔ واہمہ یا حقیقت؟‘‘ شائع ہوا۔ ۱ یہ مضمون کسی تحکمانہ جذبے کے زیر اثر نہیں لکھا گیا تھا، بلکہ اس کا واحد مقصد عصر حاضر میں مادی ترقی کے حوالے سے ہم ایسے طالب العلموں کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات و اشکالات کے جوابات کی جستجو تھی۔ راقم نے جو کچھ تھوڑا بہت مطالعہ کیا تھا، اس کے مطابق جو سوالات اور اشکالات قابل جواب معلوم ہوئے وہ اہل علم کی خدمت میں اس خیال سے پیش کردیئے تھے کہ ان کے گراں قدر افکار اس مبحث کو آگے بڑھانے اور خلجان کی رفع کرنے میں ممد و معاون ہوں گے۔ مضمون کی اشاعت کے بعد دو ماہ تک جب اس سلسلے میں کوئی بحث و گفتگو سامنے نہ آئی تو راقم کو یہ احساس ہوا کہ شاید مضمون میں کوئی ایسی بات ہی نہ ہوگی جو عصر حاضر کے سنجیدہ علمی و فکری اذہان کو اس موضوع پر گفتگو کے لیے آمادہ وتیار کرسکے۔ تآنکہ اگست ۲۰۱۴ء میں راقم کے مضمون پر جناب حافظ کاظم عثمان صاحب کا ایک تبصرہ شائع ہوا ۔ ۲ یہ امر انتہائی خوش کن ہے کہ حافظ صاحب نے اس مبحث کو آگے بڑھانے میں اپنی معلومات و مطالعے کی حد تک حصہ لیا ۔
حافظ صاحب نے ابتداً ہی اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اسے ’’قابل ستائش‘‘ کی سند سے نوازا اور مغربی عقائد و نظریات کے متعلق راقم کے مؤقف کی ’’مضبوطی‘‘ کا بھی اعتراف فرمایا ۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راقم نے حافظ صاحب کا مضمون بغور پڑھا۔ حافظ صاحب نے راقم کے پیش کردہ مؤقف پر تو کوئی تنقید نہیں فرمائی البتہ بعض عبارات اور تجزیوں پر اپنا نقطۂ نظر بیان فرمایا ہے۔ ان ہی عبارات کی توضیح اور تجزیوں کی تحلیل میں یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں۔
مسلمانوں کا مادی زوال: اصل مسئلہ
راقم نے اپنے مضمون کی ابتدا ہی میں لکھا تھا کہ ’’امر واقعہ ہے کہ مسلمان آج مادی ترقی میں بہت پیچھے ہیں‘‘۔۴ حافظ صاحب نے اصولی طور پر تو مسلمانوں کی ’’مغلوبیت اور پسپائی ‘‘ کو تسلیم کر لیا ۵ مغلوبیت اور پسپائی بالعموم دنیاوی شکست اور مادی زوال ہی کو کہا جاتا ہے آگے چل کر حافظ صاحب نے یہ مؤقف اختیار فرمایا ہے کہ مادی ترقی میں پیچھے ہونا کوئی پریشان کن مسئلہ نہیں ہے حافظ صاحب کا یہ تجزیہ فی الاصل راقم کے سابقہ مضمون کے آخری حصے میں پیش کیے گئے سوالات کے جوابات کی اپنی سی ایک کوشش ہے جو اختلاف کے باوصف قابل قدر ہے۔
اسی بحث میں حافظ صاحب نے طبقہ اشرافیہ [upper class] کے حوالے سے C. Wright Mills کا جو اقتباس درج فرمایا ہے، وہ اسلامی تاریخ کے ضمن میں بالکل ایک اجنبی حوالہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں شرف و فضیلت کی بنیاد ’’تقویٰ‘‘ ہے نہ کہ مال و اسباب کی کثرت۔ بلکہ اٹھارویں صدی سے قبل تک قدیم معاشروں میں بھی بڑے لوگ سادگی، فقرو تنگی کو حکمت کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔
مسلمان: چار ادوار میں بیک وقت تقسیم: مخمصے کی اصل وجہ
راقم نے مسلمانوں کی بہ یک وقت چار ادوار میں تقسیم پر ایک تجزیہ پیش کیا تھا۔ حافظ صاحب نے اس پر تحریر فرمایا کہ ’’ان چار ادوار کی نشان دہی محترم جناب ڈاکٹر عبد الوہاب سوری صاحب نے اپنے ایک مضمون میں فرمائی ہے ۔۔۔ حیرت ہے کہ اس مضمون کا حوالہ شامل نہیں کیا گیا‘‘۔ ۶ حوالہ تو اس وقت درج کیا جاتا جب یہ تقسیم ڈاکٹر عبدالوہاب سوری صاحب کے مضمون سے نقل کی گئی ہوتی۔ اگر توارد اور سرقے میں فرق ملحوظ رہے تو یہ مغالطہ پیش نہیں آسکتا۔ حافظ صاحب کی نشان دہی کے بعد راقم نے ڈاکٹر سوری کا مقالہ پڑھا۔ راقم کے لیے یہ امر انتہائی مسرت و ابتہاج کا باعث ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑے سیکولر علمی ادارے کے شعبہ فلسفہ کے سابق رئیس او ر مغربی افکار و اقدارپر گہری اور بصیرت افروز نظر رکھنے والے بالغ نظر محقق اور استاذ کا تجزیہ بھی وہی تھا ۷ جو ایک بوریہ نشین حقیر طالب العلم کا ہے۔۸ حافظ صاحب کی کرم فرمائی سے راقم کی ڈاکٹر سوری کے ایک انتہائی قیمتی مقالے تک رسائی ہوئی۔ اب راقم کے لیے یہ امر زیادہ موجب اطمینان و امتنان ہوگا کہ وہ امت مسلمہ کی بہ یک وقت چار ادوار میں تقسیم کو بہ جائے اپنے تجزیے کے ڈاکٹر سوری صاحب کی سند سے بیان کرے، اس سے بات زیادہ مؤکداور مستحکم ہوجائے گی۔ اگر راقم کا یہ مضمون کہیں کتابی مجموعے میں شامل ہوا تو یہ تجزیہ، ان شاء اللہ، ڈاکٹر سوری کی سند پر بیان کیا جائے گا اگر حافظ صاحب ڈاکٹر عبد الوہاب سوری کے فاضلانہ مقالے کی روشنی میں اپنے مضمون کا از سر نو جائزہ لیں تو ان کے بہت سے واہمے دور ہوجائیں گے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں: ’’کیا بیک وقت چار ادوار میں زندہ رہنا صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے؟‘‘ ۹ ’’صرف‘‘ مسلمانوں کا مسئلہ ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کے لیے مسئلہ ضرور ہے۔ مسلمان روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے آخری دین اور اس کی بنیاد پر اس مذہب، معاشرے اور تہذیب کے علم بردار ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرما کر اس کی تکمیل کا اعلان فرمایا ۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کے آخری پیغام کے حامل اور عالم گیر دین کے داعی ہیں۔ یہ بات اس دین اور اس کے زیر اثر پروان چڑھنے والی تہذیب و معاشرت میں بہ طور جوہر داخل ہے کہ یہ زمانے کی اتباع سے عبارت نہیں بلکہ زمانے کو بدل کر اپنے ساتھ چلادینے کا خوگر ہے اسلام اور امت مسلمہ کے مقابل حافظ صاحب نے جن تہذیبوں کے نشان دہی فرمائی ہے وہ بہ طور دین کسی آخری پیغام کی حامل ہیں اور نہ وہ اپنے اطلاق و نفاذ کے لیے کسی حاکمیت و ریاست کی طالب ہیں۔ جب کہ اسلام شریعت کی تکمیل اورتنفیذ کے لیے لازماً ریاست کا طالب ہے۔
ہندی، چینی و جاپانی تہذیبیں: نظام سرمایہ داری کے ہاتھوں مفتوح
ہندوستانی، چینی اور جاپانی اقوام و تہذیبیں اپنے علامتی وجود کے باوصف مغر ب کے سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔ ان تہذیبوں کے پیروکاروں کی عملی زندگی میں ان کے داعیان کے تعلیمات مذہبی اعمال اور رسومات کی حد تک تو باقی ہیں لیکن معاشرتی، سیاسی، سماجی، عمرانی اور معاشی زندگی سے ان کی تعلیمات ناپید ہوچکی ہیں تنویری علمیت [Enlightened Epistemology] نے اسلام کے سوا دنیا کے ہر مذہب کو علمیاتی بنیادوں پر اکھاڑ پھینکا۔ عیسائیت نوفلاطونیت [Neo-Platonism]، کانٹ کے ریشنلزم [Rationalism]اور ہیوم کی تجربیت [Empiricism] کا شکار ہوگئی۔ بدھ علمیت، چینی روایات اور رومی قدامت پرستی کسی کو ہیگل اور مارکس کے تصورات [Dialectical Idealism, Historical Materialism] نے مسخر کرلیا قدیم ہندو اور یہودی فکر کو نیطشے اور دیگر وجودی مفکرین [Existentialism] کے فلسفے نے برباد کرڈالا۔ وہ قوم پرستی اور سوشل ڈیموکریسی کا شکار ہوگئیں۔ ۱۰
حافظ صاحب نے چین کی مثال خصوصیت کے ساتھ پیش فرمائی ہے۔ عہد حاضر میں اشتراکی ملک ہونے کے باوجود چین کی وابستگی عملاً سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہے۔۱۱ سرمایہ دارانہ نظم کو اختیار کرلینے کے بعدہی چین نے محیر العقول مادی ترقی ممکن ہوسکی ہے۔ اس ترقی میں عملاً ریاست دخیل نہیں ہے۔۱۲
مسلمان: مغربی تہذیب و افکار سے تاثر: ایک تجزیہ
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو حافظ صاحب نے خود ارشاد فرمادیا کہ مسلمانوں کا معاشرتی ڈھانچہ دین کی بدولت ’’پوری طرح‘‘ جاہلیت جدیدہ کا شکار نہیں ہوا۔ ۱۳ گویا ’’جاہلیت جدیدہ‘‘ سے ’’جزوی‘‘ تاثر قبول کرلینے کو حافظ صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہی جزوی تاثر آگے چل کر کلی تبدیلی و تغیر میں ڈھل جاتا ہے۔ مغرب کو بھی یہاں تک پہنچتے، خدا کی موت کا اعلان کرتے اور انسان کو حاکم مطلق گردانتے ۳۰۰سال کا عرصہ لگا۔ تبدیلی کا عمل نجماً نجماً اور جزواً جزواً ہی ہوتا ہے جس کے باعث معاشروں میں پیدا ہونے والی تبدیلی اور مذہب پر رونما ہونے والے تغیر کا احساس نہیں ہوتا مسلمان کس حد تک اس تغیر کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے میں جنوبی ایشیا کی تاریخ کے ماہر محقق و مستشرق فرانسس روبنسن کا ایک اقتبا س سابقہ مضمون سے دوبارہ پڑھنا ناگزیر ہے:
For the hundred years Preceding the Muslim revival of the late twentieth century, the Islamic World seemed to be following a path of secularization similar to that on which the Western Christian world embarked some centuries before. Law derived from revelation had been increasingly removed from public life; religious knowledge had steadily lost ground in education; more and more Muslims who were Islamic by Culture but made 'rational' calculations about their lives -- in much the same way as Christians formed in the secular West might to do -- had come forward.۱۴
مسلمان: تین طبقات کی حتمی تقسیم : ایک الزام
راقم نے عصر حاضر میں مادی ترقی کی بحث میں حصہ لینے والے اہل قلم کو تقریب سخن کے لیے تین طبقات میں تقسیم کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’زوال سے دوبارہ کمال کی بازیافت کے لیے حکمت عملی اور لائحہ عمل کے حوالے سے مسلم اہل فکر و قلم بالعموم تین نقاط نظر کے حامی معلوم ہوتے ہیں‘‘۔ ۱۵
یہ عبارات بتا رہی ہیں کہ یہ تقسیم حتمی نہیں ہے اس میں اضافہ اور کمی ممکن ہے لیکن حافظ صاحب نے عاجلانہ نتائج تک جست لگاتے ہوئے راقم کے ذمے وہ بات لگادی جو کہی ہی نہیں گئی۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں:
’’جب ہم کسی شے کی زمرہ بندی کرتے ہیں اور اس کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ جو ہے یہی ہے تو اس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں‘‘۔ ۱۶
راقم کی کسی ایک عبارت سے بھی ایسا مترشح نہیں ہوتا کہ راقم کی پیش کردہ ’’زمرہ بندی‘‘ حتمی، قطعی، یقینی اور ناقابل نظر ثانی ہے تنقید کے وقت اس بات کا تو خیال رکھنا چاہیے کہ مخاطب پر اس ’’جرم ‘‘ کے ارتکاب کی ’’سزا‘‘ جاری نہ کی جائے جو اس نے کیا ہی نہیں۔
مادی ترقی: اہل سنت و جماعت کا نقطہ نظر
حافظ صاحب کا خیال ہے کہ ’’مغرب سے نبرد آزما ہونے کا واحد راستہ مغرب سے کلیۃً بے اعتنا ہوجانا ہے‘‘ ۱۷ کفر اور جاہلیت سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لیے اس کی اصلیت اور حقیقت سے واقفیت خود دین کی رو سے کس قدر ضروری ہے ، یہ ایک الگ بحث ہے۔ تاہم حافظ صاحب کی مغرب سے کلیۃً بے اعتنائی کی بات اسی وقت ٹھیک ہوگی جب کل امت مغربی افکار و اقدار کی اتباع و تقلید اور اس کی Islamizationکو ترک کر کے بے اعتنائی اختیار کرے۔ صرف چند ایک طبقات کی جزوی بے اعتنائی اسے امت کا اجماعی عمل نہیں بننے دیتی۔حافظ صاحب نے اس زمرے بندی میں تبلیغی جماعت کے عدم ذکر پر بھی شکوہ فرمایا ہے بلا شبہہ تبلیغی جماعت بہت سارے معاملات میں سے کچھ کی جانب ہماری رہ نمائی کرتی ہے جو قابل ستائش اور لائق تقلید ہونے کے باوجود کلی رہ نمائی نہیں ہے۔ جہاں تک حضرات علمائے دیوبند، علمائے بریلوی اور علمائے اہل حدیث کا تعلق ہے تو یہ تینوں طبقات فکر علمی اور فکر ی طور پر منہج اہل سنت سے وابستہ ہیں۔ اصولی و نظری سطح پر یہ تینوں مکاتیب مغرب کے ساتھ خذ ماصفا ودع ما کدر کے اصول کا اطلاق نہیں کرسکتے کیوں کہ اسلام اور مغرب میں وجودیاتی، علمیاتی اور مابعد الطبیعیاتی سطح کا اختلاف ہے امت کا سواد اعظم اہل سنت و جماعت ہی ہے جس کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔۱۸
صرف مغربی زبان کی تحصیل مادی ترقی کی کلید نہیں
چوتھے نکتے میں حافظ صاحب نے زبان کے حوالے سے راقم کی اس عبارت پر اعتراض فرمایا ہے:
’’مادی ترقی کے حصول کے لیے صرف مغربی زبان اور سائنسی علوم و فنون کی تحصیل و تعلیم کافی نہیں ہے۔ زبان تو علوم کے ابلاغ، اظہار و تفہیم کا محض ایک ذریعہ ہے۔ وہ فکری سرمایہ اور خرد افروزی امر دیگر ہے جو مادی ترقی کا لازمہ ہے۔۱۹
حافظ صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ زبان محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی تہذیب کی نفسیات، جمالیات اور احساسات کی بھی عکاس ہوتی ہے۔ حافظ صاحب کا بیان راقم کے مؤقف کی تغلیط نہیں، اس پر استدراک و اضافہ ہے۔ زبان کی تحصیل بالعموم علوم عقلیہ کے حصول کے لیے کی جاتی ہے [اسلامی معاشروں میں عربی و فارسی زبان کی تحصیل اس سے مستثنیٰ ہے]، گھروں میں گفتگو کے لیے یہ زبانیں نہیں سیکھی جاتیں۔ یہ عہد حاضر کا جبر ہے کہ مغربی علوم اور اس کے زیر اثر مادی ترقی محض زبان کے سیکھنے پر منحصر نہیں ہے اس کے لیے مغرب کے تین بنیادی عقائد آزادی [freedom]، مساوات[equality] اور ترقی[progress] پر ایمان اور ا س کے مطابق اعمال بجا لانے لازم ہیں۔ ان تین عقائد پر ایمان اورعمل کے بغیر محض مغربی زبان پر عبور مادی ترقی کے لیے نافع نہیں ہوسکتی۔
زبان کی جمالیات اور احساسات کا انعکاس: ایک غلط مثال کا انتخاب
حافظ صاحب نے ’’زبان‘‘ کے مسئلے پر اپنے بیان کو مؤکد بنانے کے لیے ہائیڈگر کا حوالہ پیش فرمایا ہے، قطع نظر اس کے کہ یہ حوالہ معلومات میں اضافے کا سبب بن سکا یہ نہیں اور اس پر کس قدر اضافے اور بحث کی گنجائش موجود ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خودحافظ صاحب پر اس بیان کی تفہیم پوری طرح نہ ہوسکی۔ موصوف نے اس بحث کی تسہیل کی جو مثال دی ہے وہ بہت عجیب ہے۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں:
’’اردو میں مخاطب حاضر کے کئی صیغے ہیں، احترام کے رشتوں میں ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، بے تکلف احباب کو ’’تم‘‘ یا ’’تو‘‘کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، جب کہ انگریزی میں مخاطب کرنے کے لیے صرف ایک ہی لفظ "You"ہے۔ تو کیا جب انگریز اپنے والد اور احباب کو "You" کہہ کر مخاطب کرتا ہوگا تو ان کی نفسیاتی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہوگی؟ کیا یہ دونوں زبانیں بولنے والے اپنے بڑوں کا ایک جیسا احترام کرتے ہوں گے؟‘‘۔۲۰
محض لفظ "You"کی مثال سے کسی تہذیب میں فرق مراتب اور ادب آداب کو جانچنے کا حتمی معیار قرار دے دینے کا یہ رویہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ حافظ صاحب کا یہ سارابیان لسانیاتی فلسفے سے عدم واقفیت کا غماز ہے۔۲۱ اس سلسلے میں مغربی فلاسفہ کے اقوال سے استناد کی بجائے اگر قرآن مجید ہی سے فیصلہ لے لیا جائے تو سب سے بہتر ہوگا۔ عربی زبان کی تفہیم کے لیے لغت عرب میں قرآن مجید سے برتر و محکم کتاب کوئی اور نہیں ہے۔ قرآن حکیم ہی سے ایک ہی صیغے سے دو متضاد شخصیات سے تخاطب کی مثال دیکھیے، قرآن مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ [۶۸:۴]
اور اسی قرآن پاک میں ابلیس کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ [۱۵:۳۴]
اگر کوئی مستشرق پلٹ کر حافظ صاحب والا سوال جزوی تبدیلی کے ساتھ یوں داغ دے کہ جب ایک مسلمان مخاطبت کے لیے ایک ہی صیغے [انک] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابلیس رجیم دونوں کے لیے پڑھتا ہوگا تو کیا یہاں بھی وہی مسئلہ نہیں پیش آسکتاجو "You" کہہ کر کبھی اس سے باپ اور کبھی بے تکلف دوست مراد لینے والوں کو پیش آتا ہوگا؟ الزامی جواب سے ہٹ خود یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اردو میں ہمیشہ احترام کے رشتوں میں ’’آپ‘‘ ہی کہا جائے۔ اردو بولنے والے مسلمان بالعموم اپنی مناجات اور دعاؤں میں اپنے رب کو ’’تو‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ماں باپ سے محبت کے اظہار میں بھی ’’تو‘‘ کا لفظ عام مستعمل ہے ، اقبال کا اپنی والدۂ مرحومہ کی یاد میں مشہور شعر ہے:
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا، تو چل بسی
مضمون کے اختتام میں ’’ایک گزارش ‘‘کے عنوان سے حافظ صاحب نے جس تندی اور عتاب کا اظہار فرمایا ہے، چوں کہ عصر حاضرمیں یہی اسلوب گفتگو اور انداز تحریر مروج ہے لہٰذا راقم اس سلسلے میں حافظ صاحب کو ایک حد تک معذور خیال کرتا ہے لیکن ایک بات حیران کن ہے اور وہ یہ کہ حافظ صاحب نے راقم کے مضمون پرسکوت اختیار کرنے کے حوالے سے جو اعتراض وارد کیا اور نصیحت فرمائی تھی کہ : ’’اگر ہم خاموش ہوجائیں تو کئی آوازوں سے زیادہ مؤثر ہوجائیں‘‘ ۲۲ قطع نظر اس سے کہ یہ اعتراض صحیح بھی ہے یا نہیں، حافظ صاحب نے راقم کے مضمون کی تردید کے لیے وہی طریق اختیار کیا جو طریق خود ان کی نظر میں قابل اعتراض ہے حافظ صاحب کے بہ قول یہ تحریریں عصر حاضر میں لوگوں کے ذہنوں کو مفلوج بنا نے میں مغرب کے ساتھ برابر کی شریک ہیں۔ ۲۳ راقم کی تحریر سے کسی کاذہن ملفوج ہوا ہو تو ہوا ہو، حافظ صاحب نے خود اپنی ہی نصیحت کے برعکس سکوت اختیار نہ کر کے ملفوج لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہی فرمایا ہوگا نہ کہ کمی۔
آخر میں ایک سوال یہ ہے کہ پاکستان کے جرائد میں راقم کا ان موضوعات کے حوالے سے شاید یہ پہلا مضمون ہے۔ اس کے باوجود راقم پر یہ تہمت ’’ کہ اس طرح تابڑ توڑ لکھنا بہ ذات خود جدیدیت کی علامت ہے‘‘ حیران کن ہے۔
حواشی
۱- محمد ظفر اقبال، ’’مادّی ترقی کا لازمہ واہمہ یا حقیقت؟‘‘ مشمولہ ماہنامہ الشریعہ، مئی۲۰۱۴ء، صفحات ۳۵-۴۶۔
۲- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، مشمولہ ماہنامہ الشریعہ، اگست۲۰۱۴ء، صفحات۳۷-۴۱۔
۳- ایضاً، صفحہ۳۷۔
۴- محمد ظفر اقبال، ’’مادّی ترقی کا لازمہ واہمہ یا حقیقت؟‘‘، صفحہ۳۵۔
۵- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۳۸۔
۶- ایضاً۔
7- Abdul Wahab Suri, "What is Living and What is Dead in Iqbal: A Critical Attempt to Understand Apparently Incommensurable Hermeneutical Circles Prevailing in Iqbal's Thought" in Revisioning Iqbal As a Poet and Muslim Political Thinker, [Gita Dharampal-Frick, Ali Usman Qasmi and Katia Rostetter, eds.], Pakistan: Oxford, 2011.
۸- محمد ظفر اقبال، ’’مادّی ترقی کا لازمہ واہمہ یا حقیقت؟‘‘، صفحہ۳۵۔
۹- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۳۸۔
۱۰- ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’’عالم اسلام اور مغرب کی کش مکش: نئے تناظر میں نئی تحریکوں کے کام میں تطبیق کی ضرورت‘‘، مشمولہ سرمایہ دارانہ نظام: ایک تنقیدی جائزہ، [مرتب: محمد احمد حافظ]،کراچی: الغزالی پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء، صفحہ۲۲۷۔
۱۱- یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اشتراکیت بھی سرمایہ داری ہی کی ایک شکل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اشتراکیت کی سرمایہ داری پر تنقید سرمائے کے انفرادی ارتکاز پر ہے اور اشتراکیت سرمایہ داری کی اجتماعی ادارتی صف بندی سے عبارت ہے۔ فی الاصل انفرادی سرمایہ داری [لبرل]اور اجتماعی سرمایہ داری [اشتراکیت] میں کوئی اقداری فرق اور تضاد نہیں۔آزادی [freedom]، مساوات[equality] اور الوہیت سرمایہ پر ایمان لبرل سرمایہ داری اور اشتراکی سرمایہ داری کی اساسی اقدار ہیں۔ لبرل سرمایہ داری جن امور کو فرد [individual] کے لیے روا رکھتی ہے اشتراکی سرمایہ داری ان ہی اقدار کو اجتماعیت [collectivity]کے لیے جائز قرار دیتی ہے۔
12- Jared Diamond, "China, Lurching Giant" in Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed, New York: Viking, 2005, pp. 358-377.
۱۳- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۳۹۔
14-Francis Robinson, "Secularization, Weber and Islam", in Islam and Muslim History in South Asia, Delhi: Oxford University Press, 2010, p. 122.
۱۵- محمد ظفر اقبال، ’’مادّی ترقی کا لازمہ واہمہ یا حقیقت؟‘‘، صفحہ۳۶۔
۱۶- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۳۹۔
۱۷- ایضاً۔
۱۸- راقم نے عالم اسلام میں گزشتہ دو سو سال سے جاری ’’سائنس زدگی ‘‘اور ’’سائنسی اعتزال ‘‘کے مظاہر اور امت مسلمہ میں زوال کے تجزیوں کے ضمن میں لکھی گئی تالیفات کا ایک تاریخی جائزہ بہ عنوان ’’علوم عقلیہ اور زوال امت‘‘ مرتب کیا ہے۔ یہ لوازمہ ابھی زیر تسوید ہے۔ ان شاء اللہ جلد اشاعت پذیر ہوگا۔
۱۹- محمد ظفر اقبال، ’’مادّی ترقی کا لازمہ واہمہ یا حقیقت؟‘‘، صفحہ۳۷۔
۲۰- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۳۹۔
۲۱- اس سلسلے میں رہ نمائی کے لیے دیکھیے:
Barry Lee [eds.], Philosophy of Language: The Key Thinkers, New York: Continuum International Group, 2011.
۲۲- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۴۱۔
۲۳-ایضاً۔