فرضیت جہاد کے نصوص کا صحیح محل / اختلاف اور نفسانیت

محمد عمار خان ناصر

فرضیت جہاد کے نصوص کا صحیح محل

قرآن مجید کے متعدد نصوص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے گروہ پر کفار ومشرکین کے خلاف قتال کو فرض قرار دیتے ہوئے انھیں اس ذمہ داری کی ادائیگی کا حکم دیا گیا اور اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کو قربان کرنے کی مسلسل اور پرزور تاکید کی گئی ہے۔ 

قرآن وسنت کے نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو اہل ایمان کو عہد نبوی کے معروضی حالات کے تناظر میں جہاد وقتال کا حکم دو طرح کے مقاصد کے تحت دیا گیا تھا: ایک اہل کفر کے فتنہ وفساد اور اہل ایمان پر ان کے ظلم وعدوان کا مقابلہ کرنے کے لیے اور دوسرے کفر وشرک کا خاتمہ اور باطل ادیان کے مقابلے میں اسلام کا غلبہ اور سربلندی قائم کرنے کے لیے۔ ان دونوں طرح کے احکام کی نوعیت، قانونی اساس اور دائرۂ اطلاق ایک دوسرے سے مختلف ہے جس کا قرآن کے طالب علموں کے سامنے واضح رہنا ضروری ہے۔

جہاں تک کفر وشرک کا خاتمہ کر کے اسلام کا غلبہ قائم کرنے کی ہدایات کا تعلق ہے تو قرآن مجید میں یہ ہدایات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مخصوص ذمہ داری کے تناظر میں وارد ہوئی ہیں جو آپ پر اہل عرب کی اصلاح کے حوالے سے عائد کی گئی تھی اور اس ضمن میں ملت ابراہیمی کی اصل تعلیمات کے احیا اور مشرکانہ بدعات کے خاتمے کو آپ کی جدوجہد کا ہدف قرار دیا گیا تھا۔ قرآن نے واضح کیا کہ آپ عام معنوں میں کوئی داعی، واعظ اور مبلغ نہیں، بلکہ خدا کے رسول اور اس کے آخری پیغمبر ہیں، چنانچہ خداکے قانون کے مطابق آپ کی جدوجہد کا کامیابی سے ہم کنار ہونا اور جزیرۂ عرب میں خدا کے دین کا غلبہ قائم ہونا ایک طے شدہ فیصلہ ہے جو اہل کفر کی خواہشات، کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم قائم ہو کر رہے گا۔ (التوبہ ۹:۳۳)

دین کا یہ غلبہ، ظاہر ہے کہ منکرین حق کے خلاف قائم کیا جانا تھااور اس کی عملی صورت یہ تھی کہ بیت اللہ کو مشرکین کے قبضہ وتصرف سے آزاد کرا کے دوبارہ توحید خالص کا مرکز بنا دیا جائے اور اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین سرزمین عرب میں غالب اور سربلند نہ رہے۔ اس ہدف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ’قتال‘ کاناگزیر ہونا تاریخ وسیرت سے واقف ہر شخص پر واضح ہے اور قرآن مجید میں کفار کے خلاف جہاد وقتال کے احکام اسی تناظر میں وارد ہوئے ہیں۔ 

قرآن مجید میں جہاد وقتال کی ایک دوسری وجہ فتنہ وفساد اور ظلم وعدوان بیان کی گئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ زمان ومکان کے کسی مخصوص دائرے سے متعلق نہیں۔ چنانچہ اس ہدایت کو شریعت کی ایک ابدی ہدایت کی حیثیت حاصل ہے اور ان سے یہ اصول اخذ کرنا بالکل بجا ہے کہ کفار کے جو گروہ مسلمانوں پر کسی بھی نوعیت کے ظلم وستم اور جارحیت کا ارتکاب کریں اور بالخصوص عقیدہ ومذہب کے انتخاب واختیار کے معاملے میں ان کی آزادی ان سے چھیننے کی کوشش کریں، ان کے خلاف تلوار اٹھانا نہ صرف جائز ہے بلکہ قوت واستطاعت اور حالات کی موافقت اور جنگ کے اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی شرط کے ساتھ ایک اخلاقی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دعوت اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے دینی ودنیاوی مفادات کے تحفظ کے لیے اگر جہاد وقتال کی ضرورت پیش آجائے تو، متعلقہ شرائط وآداب کی پابندی اور عملی مصالح اور حکمتوں کی رعایت کے ساتھ، اس کے جواز میں بھی کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں اقدامی اور دفاعی جہاد میں فرق کی بحث، جو ہمارے ہاں ماضی قریب میں پیدا ہوئی، بالکل بے معنی ہے۔ اصل چیز جہاد کا مقصد اور اس کی اصولی وجہ جواز ہے۔ جائز اور مشروع مقصد کے لیے جیسے دفاعی جہاد ہو سکتا ہے، اسی طرح اقدامی بھی ہو سکتا ہے۔ دونوں میں فرق کی کوئی معقول اور قابل فہم بنیاد موجود نہیں۔

البتہ اس ضمن میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ نزول قرآن کے بعد کے زمانوں میں کفار کا کوئی گروہ اگر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عناد کی بنیاد پر انھیں ظلم وستم اور ایذا رسانی کا نشانہ بنائے تو حکم کی علت کی رو سے ان کے خلاف جہاد کرنا بھی یقیناًدرست ہوگا، تاہم ظاہر ہے کہ یہ ایک اجتہادی معاملہ ہوگا اور کسی مخصوص گروہ کے عزائم یا صورت حال کی نوعیت متعین کرنے کے حوالے سے رائے اور حکمت عملی کے اختلاف کی گنجایش بھی پوری طرح موجود رہے گی۔ چنانچہ ایسی کسی بھی صورت حال میں جہاد کے عملاً فرض ہونے کے حق میں قرآن وسنت کے ان نصوص سے استدلال نہیں کیا جا سکتاجن میں اصلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے زمانے میں مخصوص صورت حال کے تناظر میں آپ کے مخالف گروہوں کے خلاف جہاد کو فرض اور اس سے گریز کو کفر ونفاق کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک خاص اطلاقی صورت حال میں خدا کا فیصلہ تھا جس کے خلاف کسی دوسری راے کی گنجایش نہیں تھی، جبکہ اس سے ہٹ کر کسی بھی دوسری صورت حال میں جہاد کا یہ حکم اصولی طور پر تو یقیناًموثرہے، لیکن اس کو عملاً فرض قرار دینے کے لیے شرائط کے موجود اور موانع کے مفقود ہونے نیز عملی حالات کے سازگار ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہر حال میں ایک اجتہادی فیصلہ ہوگا جسے ’منصوص‘ قرار دے کر اس سے اختلاف کرنے والوں کو وعیدیں سنانا یا اسلام دشمن قوتوں کا آلہ کار اور قتل کا مستحق قرار دینا خدا کے دین کے معاملے میں ایک سنگین جسارت کا درجہ رکھتا ہے۔

ماضی قریب کے ممتاز حنفی عالم اور فقیہ مولانا مفتی عبد الشکور ترمذیؒ نے اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’کہاں پیغمبر اسلام کے قطعی حکم عام شرکت جہادکی خلاف ورزی اور تعمیل حکم سے بچنے کے لیے حیلہ جوئی اور گفتار سازی اور سب سے بڑھ کر ان کا چھپا ہوا کفر ونفاق اور ارشادات نبوت پر عدم یقین کی دلی کیفیت اور کہاں ایک امتی کی دعوت کے ساتھ عدم تعاون۔ دونوں کو برابر قرار دینا اور دونوں کی خلاف ورزی اور عدم تعمیل پر ایک ہی طرح کا نتیجہ مرتب کر دینا غلو فی الدین ہے اور داعی کی حیثیت کو امتی کی بجائے ایک نبی کی حیثیت میں پیش کرنے کے مترادف ہے۔
جہاد تبوک میں بلا استثناء تمام مسلمانوں کو شرکت کا حکم عام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ حکم قطعی اور نص رسول کے سامنے کسی تاویل واجتہاد کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رہی تھی اور اس حکم قطعی عام کی تعمیل سے بچنے کے لیے حیلہ وحوالہ سے کام لینا عدم یقین اور کفر ونفاق کی وجہ سے ہی تھا، اس لیے اگلی آیت وان جہنم لمحیطۃ بالکافرین میں صاف طو رپر اس طرح کی حیلہ جوئی کرنے والوں کو کافر اور جہنمی قرار دیا گیا ہے۔
برخلاف دوسرے کسی ایسے شخص کی طرف سے دعوت جہاد کے جس کی حیثیت محض امتی کی ہو، نہ وہ نبی ہے نہ وہ اس کا نائب وخلیفہ ہے۔ اس کے عدم تعاون کو آیت نفاق کا مصداق قرار دینا یقیناًتفسیر بالرائے اور اپنی خواہش کے مطابق قرآنی آیات کو ڈھالنا اور حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ شرائط جہاد کے پائے جانے میں اختلاف ہو جائے اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک شرائط نہ پائے جاتے ہوں، ان کے نزدیک اس دعوت جہاد پر لبیک کہناکیوں ضروری ہوگا؟ ایسی حالت میں قعود عن الجہاد کو منافقین کے قعود کے مثل کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور اس پر ’’راہ حق میں جہاد کرنے سے جی چرانا‘‘ کا حکم لگانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟‘‘  (’’مولانا ابو الکلام آزاد اور ان کی تفسیر علماء عصر کی نظر میں‘‘، مجلہ ’’الحقانیہ، ساہیوال، جولائی/اگست ۲۰۱۴ء، ص ۱۲۴، ۱۲۵)

اختلاف اور نفسانیت

انسانوں کے مابین اختلاف کا پیدا ہوجانا ایک طبعی امر ہے۔ اس کی وجہ کسی مادی مفاد کا ٹکراؤ بھی ہو سکتا ہے، رائے اور نقطہ نظر کا مختلف ہونا بھی اور شخصی اناؤں کا باہمی تصادم بھی۔ علمی وفکری اختلاف اگر دیانت داری سے ہو اور اس میں نفسانی آمیزشیں نہ ہوں تو اختلاف کا اظہار مخصوص آداب کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم انسان ایک کمزور شخصیت کا مالک ہے۔ عام طو رپر اس کے لیے ایسی صورت حال میں اپنی نفسانی کمزوریوں سے بالاتر ہو جانا اور اختلاف کو خالص نظری وعلمی رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ ایسی کیفیت میں رائے یا نقطہ نظر کے اختلاف کو نفسی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور یہیں سے اختلاف کے حدود وآداب پامال ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ 

علم نفسیات کی رو سے اگر انسان اپنی ذہنی کیفیات کا تجزیہ کرنا سیکھ لے اور مختلف رویوں سے پیدا ہونے والی ظاہری علامات پر نظر رکھے تو وہ خود اپنا نفسی علاج کر سکتا ہے۔ بالعموم انسانوں کے لیے غیر جانب داری سے خود اپنی ہی شخصیت کا تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور وہ خود کو سمجھنے اور اپنی اصلاح وعلاج کے لیے دوسرے ماہرین سے، جو ان کی شخصیت کا بہتر تجزیہ کر کے علاج تجویز کر سکیں، رجوع کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ یہیں سے ماہرین نفسیات اور دینی اصلاح کے دائرے میں صوفیاء کے کردار کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ بہرحال اختلاف رائے کے حوالے سے اپنی نفسیاتی کیفیت کا تجزیہ کرنے کے لیے کچھ عمومی علامات کو اگر سامنے رکھا جائے اور اپنے طرز عمل اور رویے پر نظر رکھتے ہوئے مسلسل تجزیہ کیا جاتا رہے تو خود آموزی کے اصول پر بھی کافی حد تک بہتری پیدا کرنا ممکن ہے۔

راقم کے مشاہدہ وتجربہ کی روشنی میں اگر کوئی شخص اختلاف کی کیفیت میں اپنے اندر درج ذیل علامات میں سے کوئی علامت محسوس کرے تو اسے یقین کر لینا چاہیے کہ اس کا اختلاف بظاہر کتنے ہی علمی، اصولی اور مذہبی نکتے پر مبنی ہو، درحقیقت اس میں نفسانیت کی آمیزش ہو چکی ہے اور شخصی یا گروہی انا بھی اس میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے متحرک ہو چکی ہے:

۱۔ آپ کو اپنی ناپسندیدگی کا رخ مخالف رائے سے زیادہ حامل رائے کی طرف محسوس ہو اور آپ رائے کی غلطی اس پر یا دوسرے لوگوں پر واضح کرنے سے زیادہ اس کی شخصیت کو مجروح کرنے میں دلچسپی اور لذت محسوس کریں۔

۲۔ آپ مخالف رائے کو خود اس کے اپنے نقطہ نظر اور پیش کردہ استدلال کے مطابق غیر جانب داری سے پیش نہ کر سکتے ہوں اور اسے اپنے زاویہ نظر سے منفی اور تنقیدی رنگ میں ہی بیان کرنے میں اطمینان محسوس کریں۔

۳۔ آپ کی نظر محض مخالف کی خامیوں اور کمزوریوں پر ہی ٹکتی ہو، جبکہ اس کے ہاں پائی جانے والی خوبیوں کا اعتراف کرنے میں آپ کو انقباض محسوس ہو۔

۴۔ بحث کے دوران میں آپ کو مخالف کی کسی بات میں وزن محسوس ہو، لیکن آپ ہمدردی سے اس پر غور کرنے کے بجائے اپنے ذہن میں پہلے سے قائم منفی تاثر کی بنیاد پر اسے جھٹک دیں۔

۵۔ آپ اختلاف میں دوہرے معیار سے کام لیں۔ ایک بات جسے آپ غلط سمجھتے ہیں، اگر آپ کے پسندیدہ اصحاب فکر نے کہی ہو تو آپ حسن ظن یا تاویل وغیرہ سے کام لیں، لیکن وہی بات اپنے کسی مخالف کی زبان سے سننے یا تحریر میں پڑھنے پر آپ کی ’’دینی غیرت‘‘ جاگ اٹھے۔ 

۶۔ آپٖ مخالف پر تنقید کرتے ہوئے اختلاف کے درجے کو ملحوظ نہ رکھیں اور کم تر درجے کے اختلاف کو بھی سنگین اور ناقابل برداشت ظاہر کیے بغیر آپ کا اطمینان نہ ہوتا ہو۔ (مولانا تھانویؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ استاد یا والد کو بچے کی غلطی پر تادیب کا حق ہے، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا سزا، غلطی کے تناسب سے دی جا رہی ہے؟ اگر غلطی ہلکی تھی، لیکن غصے سے مغلوب ہو کر سزا سخت دے دی گئی تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عمل اصلاح اور تادیب کے جذبے سے نہیں، بلکہ اپنے غصے کی تسکین کے لیے کیا گیا ہے)۔

۷۔ کسی شخص کے خیالات اور افکار سے آپ کو پہلے بھی اختلاف ہو، لیکن کسی خاص واقعے کے بعد جس میں آپ کو اس شخص سے یا اس کی وجہ سے ذاتی طور پر کوئی دکھ پہنچے، اختلاف کے حوالے سے آپ کے احساسات اور اختلاف کے اظہار میں شدت اور جارحیت پیدا ہو جائے۔ (اس حوالے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ معروف ہے کہ انھوں نے میدان جنگ میں ایک کافر کو زیر کر لیا، لیکن جب کافر نے ان کے چہرے پر تھوک دیا تو سیدنا علی نے یہ کہہ کر اسے چھوڑ دیا کہ اب اگر میں اسے قتل کرتا تو مجھے ڈر تھا کہ اس میں میرا ذاتی انتقام کا جذبہ بھی شامل ہوگا)۔

۸۔ آپ کو کسی سے اختلاف رائے ہو اور آپ اس کی اصلاح کے خواہش مند ہوں، لیکن کسی مرحلے پر آپ ہمدردانہ اصلاح کے بجائے اسے بحث میں زیر کرنے یا لوگوں کی نظر میں اسے نیچا دکھانے یا دوسروں کو اس سے متنفر کرنے کی کوشش کریں جس میں آپ کو کامیابی نہ ہو اور اس کے بعد آپ کے محسوسات اور اظہار اختلاف کے طریقے میں سختی اور تندی در آئے۔

۹۔ آپ اپنے دل میں مخالف کے لیے اصلاح کی حقیقی اور مخلصانہ خواہش رکھتے ہیں، اس کو جانچنے کا ایک سادہ پیمانہ یہ ہے کہ کیا آپ اس کے حق میں دعا اور استغفار کرتے ہیں؟ نیز مخالف کی کوئی ایسی بات سامنے آنے پر جو آپ کی نظر میں قابل اعتراض ہو، آپ کو دکھ محسوس ہوتا ہے اور یہ خواہش پید اہوتی ہے کہ کاش اس نے یہ بات نہ کہی ہوتی یا آپ کو اس بات پر خوشی محسوس ہوتی ہے کہ بہت اچھا، اس پر تنقید کرنے کے لیے ایک اور نکتہ مل گیا؟ (میرے ذاتی مشاہدے کی بات ہے کہ ایک معروف عالم اور مناظر کو میں نے ایک صاحب علم کے متعلق، جن کے بارے میں ان صاحب کی رائے اچھی نہیں تھی، یہ بتایا کہ فلاں مسئلے میں ان کی رائے یہ ہے۔ مناظر صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق وہ رائے الحاد کے درجے کو پہنچی ہوئی تھی، لیکن انھوں نے یہ اطلاع ملنے پر کسی افسوس یا دکھ کا اظہار نہیں کیا، بلکہ جوش مسرت سے جیسے ان کی باچھیں کھل گئیں۔ زبان حال سے وہ گویا یہ کہہ رہے تھے کہ بہت خوب، اب اس کو ایسا رگیدوں گا کہ کیا یاد کرے گا!)

نفسانیت ایسی چیز ہے کہ اس کے شر سے ہر حال میں نہ صرف پناہ مانگنی چاہیے بلکہ ہمہ وقت نفس کے شرور پر نظر بھی رکھنی چاہیے۔ یہ بظاہر بڑے اعلیٰ درجے کے دینی کاموں میں بھی شامل ہو کر انھیں خالص دنیوی اور نفسانی سرگرمیاں بنا دیتی ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اہل مدارس کے متعلق لکھا تھا کہ ان کے لیے اپنے اخلاص اور للہیت کو جانچنے کا ایک سادہ سا نسخہ یہ ہے کہ اگر آپ کے قائم کردہ دینی ادارے کے قریب ہی کوئی دوسرا دینی ادارہ بننے لگے تو آپ اپنے محسوسات کا جائزہ لیں۔ اگر آپ کو اس بات پر خوشی محسوس ہو کہ دین کے کام کے لیے ایک اور ذریعہ وجود میں آ رہا ہے جس سے خلق خدا کو فائدہ ہوگا تو آپ کا کام اخلاص پر مبنی ہے۔ اور اگر آپ کو رقابت اور اپنے حلقہ اثر کے متاثر ہونے کے جذبات محسوس ہوں تو یقیناًآپ کا محرک خدمت دین اور رضائے الٰہی کا حصول نہیں ہو سکتا۔ 

اللہم انا نعوذ بک من شرور انفسنا ومن سیآت اعمالنا۔

مشاہدات و تاثرات

(ستمبر ۲۰۱۴ء)

تلاش

Flag Counter