مسجدِ اقصی کی تولیت اور عمار خان ناصر صاحب کی تحریرات ۔ تفصیلی و تنقیدی جائزہ (۱)

مولانا سمیع اللہ سعدی

قبلہ اول، انبیائے کرام کا مولد و مدفن اور روئے زمین پر حرمین شریفین کے بعد افضل ترین بقعہ مسجدِ اقصی کے حوالے سے عمار خان ناصر کا ’’عجیب و غریب‘‘ موقف اور ماضی و حال کی پوری امتِ مسلمہ کے برعکس اختیار کردہ ’’نظریہ‘‘علمی حلقوں میں کافی عرصے سے زیرِ بحث ہے ۔امتِ مسلمہ کے بالغ نظرمحققین نے اس موقف اور نظریے کے مضمرات، نقصانات، پسِ منظر اور اس حوالے سے عمار خان ناصر کے’’ ماخذ و مراجع‘‘ کو بخوبی آشکارا کیا ہے۔ذیل کی تحریر میں ہم آنجناب کی اس موضوع پرشائع شدہ دو مرکزی تحریروں’’مسجدِ اقصی،یہوداور امتِ مسلمہ‘‘(ماہنامہ الشریعہ، ستمبر ، اکتوبر2003)اور ’’مسجدِ اقصی،یہوداور امتِ مسلمہ۔ تنقیدی آراء کا جائزہ‘‘ (ماہنامہ الشریعہ ، اپریل، مئی 2004) کا ایک منصفانہ جائزہ لیتے ہیں ،کیونکہ جناب عمار خان صا حب عموما’’ً شاکی‘‘ رہتے ہیں کہ میری تحریروں پر مفصل اور سنجیدہ تنقید کسی نے نہیں کی اور میرے اٹھائے گئے’’نکات ‘‘ اور ’’اعتراضات‘‘ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ۔(۱) لہٰذا مذکورہ تحریروں کا ابتدا سے لے انتہاء تک ایک مربوط جائزہ نکات ، استفسارات اور سوالات کی شکل میں لیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہمیں حق بات کہنے ،حق آشکارا ہونے کے بعد اسے ماننے اور اپنی غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا فرمائیں۔ آمین

1۔آنجناب نے سب سے پہلے مضمون کی تمہید میں مسئلے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

’’اور اس میں انبیائے بنی اسرائیل کی یاد گار کی حیثیت رکھنے والی تاریخی مسجدِ اقصی موجود ہے جس کی تولیت کا مسئلہ مسلمانوں اور یہود کے مابین متنازع فیہ ہے‘‘(براہین صفحہ233 )

ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں کہ تمہید میں اس تنازع کا پسِ منظر کیوں واضح نہیں کیا گیا کہ یہ تنازع کب سے ہے؟بعثتِ نبوی سے،حضرت عمرؓ کی فتحِ بیت المقدس کے وقت سے،صلاح الدین ایوبی کے دور سے یا کفریہ طاقتوں کا ایک مخصوص منصوبے کے تحت ارضِ مقدس میں یہودیوں کی آباد کاری کے وقت سے؟تنازع کا وقتِ ابتدا ء اگر آنجناب بیان کر دیتے ،تو مذکورہ تنازع کے کافی پہلو ؤ ں پر روشنی پڑ سکتی تھی۔ یہ تحریر پڑھتے وقت قاری یہ سمجھ لیتا ہے کہ شاید صدرِ اسلام سے آج تک یہ مسئلہ متنازع فیہ ہے ۔آنجنا ب سے سوال ہے کہ حضرت عمرؓ کی فتح سے لیکر اس تنازع کے پیدا ہونے سے پہلے تک کبھی یہودیوں نے اس جگہ کو واپس لینے ، اس پر احتجاج کرنے اور مسلم حکمرانوں سے اس کی تولیت لینے کا باقاعدہ مطالبہ کیا ہے؟آنجناب ضروریہ کہیں گے کہ یہود اس مطالبے کی پوزیشن میں نہیں تھے، تو سوال یہ کہ حضرت کعب احبار بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے اور ان کے بارے میں سب کو علم ہے کہ اپنے زمانے میں یہود کے کتنے بڑ ے عالم تھے ۔انہوں نے حضرت عمرؓ جیسے ’’عادل ‘‘اور ’’شرعی حکم‘‘ کے سامنے سر جھکا دینے والی شخصیت سے مسجدِ اقصی کی تولیت کا صراحۃً یا اشارۃً ذکر کیوں نہیں کیا؟ خود آپ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ صدیوں کے سکوت کے بعد یہودیوں کے ہاں اس کی (ہیکل سلیمانی) کی تعمیر کا مطالبہ شدت سے سامنے آیا ہے، تو آنجناب صدیوں کے سکوت کی کیا توجیہ کریں گے؟کہ اچانک اس مطالبے کے پیدا ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟کیا ہماری پوری اسلامی تاریخ میں مسجدِ اقصی کی تولیت کی بحث کبھی اٹھائی گئی؟اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے، تو یہ بات بخو بی واضح ہوتی ہے کہ یہ تنازع فطری اور واقعی نہیں ہے بلکہ مخصوص طاقتوں کی طرف سے پیدا کردہ مصنوعی اور امتِ مسلمہ کو یہود کے ہاتھوں زیر کرنے کا ’’جامع منصوبہ‘‘ ہے۔

2۔ اس ’’مبہم ‘‘اور ’’مغالطہ ‘‘ پر مبنی تمہید کے بعد آنجناب نے مسجدِ اقصی کی مختصر لیکن ’’نا مکمل تاریخ ‘‘ بیان کی ہے۔ یہ تاریخ مکمل طور پر تورات اور اسفارِ یہود سے نقل کی گئی ہے۔ جناب عمار صاحب سے بجا طور پر سوال ہے کہ آنجناب نے اس بارے میں غیر اسلامی ماخذ کو ترجیح کیوں دی؟کیا اسلامی ماخذ مسجدِ اقصی کی تاریخ کے بارے میں خاموش ہیں؟ مفسرین نے سورہ اسراء کے تحت،محدثین نے بخاری شریف کی حدیثِ ابی ذر(۲) اور نسائی شریف کی حدیثِ عبداللہ بن عمرو(۳) کی تشریح میں مسجدِ اقصی کی جو تاریخ بیان کی ہے ۔آنجناب نے اس سے پہلو تہی کیوں اختیار کی ؟ہماری تاریخ کی امہات الکتب میں مسجدِ اقصی کی تاریخ جا بجا بیان ہوئی ہے (۴)آنجناب نے اس کو نظر انداز کیوں کیا؟اس کے علاوہ صدرِ اسلام سے لیکر آج تک مسجدِ اقصی کی تاریخ ، فضائل اور احکام پر بیسیوں کتب لکھی گئی ہیں،اس وقت میرے سامنے شہاب اللہ بہادر کی مایہ ناز کتاب ’’معجم ما الف فی فضائلِ و تاریخِ المسجد الا قصی‘‘ہے ،اس میں فاضل مصنف نے تیسری صدی ہجری سے لیکر چودہویں صدی کے اختتام تک مسجدِ اقصی کے حوالے سے لکھی گئی مطبوعہ و مخطوطہ کتب کا تعارف کرایا ہے ۔ان سب معتبر ، مستند اور معتمد ماخذ کو چھوڑ کر محرف و منسوخ شدہ مصاحف پر اعتماد کیوں کیا گیا؟ خصوصاً دسویں صدی ہجری کے مشہور عالم مجیر الدین الحنبلی کی کتاب ’’الانس الجلیل بتاریخ القدس و الخلیل‘‘ اور باہویں صدی ہجری کے مورخ محمد بن محمد الخلیلی کی ضخیم کتاب ’’تاریخ القدس و الخلیل‘‘مسجدِ اقصی کی تاریخ کے حوالے سے مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کو پسِ پشت کیوں ڈال دیا؟صحفِ یہود سے تاریخ نقل کر کے قاری کے ذہن میں غیر محسوس طریقے سے کہیں یہ بات تو نہیں ڈالی جارہی ہے کہ مسجدِ اقصی پر ’’یہود کا تاریخی و مذہبی حق‘‘(واوین کے الفاظ مذکورہ مضمون سے لیے گئے ہیں)کچھ اس طرح سے پختہ ہے کہ اس کی تاریخ کے لئے بھی ہمیں صحفِ یہود کی طرف رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔آنجناب ضرور یہ کہیں گے کہ تاریخ میں سابقہ صحف پر اعتماد کرنے میں کیا حرج ہے؟ یقیناًکوئی حرج نہیں ہے لیکن اولاً تو جب ایک چیز اسلامی ماخذ میں بآسانی مل سکتی ہے تو اس میں ان مصاحف کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت اور ان کی وجہ ترجیح کیا ہے؟ ثانیاًان صحف کا موضوع مسجدِ اقصی کی تاریخ کا بیان نہیں ہے بلکہ مختلف قصوں اور واقعا ت کے ضمن میں متفرق مقامات پر مسجدِ اقصی کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے تو باقاعدہ اس موضوع پر لکھی گئی مفصل تصنیفات کو چھوڑ کر غیر متعلقہ مراجع سے استمداد کسی’’ علمی تحقیق‘‘ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ثالثاً ان میں تحریف صرف احکام میں نہیں ہوئی ہے بلکہ تاریخی حوادث و واقعات میں بھی اہلِ کتاب نے بہت کچھ اپنی طرف سے داخل کیا ہے، قرآن پاک میں انبیائے کرام کے قصوں کے ضمن میں مفسرین کی نقل کردہ اسرائیلی روایات اس کی شاہد ہیں،تو ان سب’’ موانع ‘‘کے ہوتے ہوئے آخر ان پر اعتماد کی وجہ کیا ہے؟

اس پر مستزاد یہ تاریخ بھی نامکمل بیان کی گئی ہے(کیونکہ ان ’’محرف‘‘ صحف میں تاریخ اتنی ہی بیان ہوئی ہے)مسجدِ اقصی کی تاریخ حضرتِ داؤد و حضرتِ سلیمان علیہما السلام سے شروع کی ہے حا لانکہ تمام مصادر اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دو جلیل القدر پیغمبر مسجدِ اقصی کے مؤسس و بانی نہیں ہیں، بلکہ ان کی حیثیت محض تجدید کنندہ کی ہیں اور خود عمار صاحب نے بھی مضمون کے حاشیے میں اس کا ذکر کیا ہے،تو آنجناب سے سوال یہ کہ مسجدِ اقصی کی ابتدائی تاریخ اور اس کے اولین مؤسس کو زیر بحث کیوں نہیں لیا گیا؟جبکہ کسی چیز کی تاریخ کے بیان میں اس کی ابتدا اور بانی کا ذکر سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔کیا یہ وجہ تو نہیں کہ اصل بانی و مؤسس کے ذکر سے آنجناب کے ’’موقف ‘‘پر زد پڑسکتی تھی؟کہ جب مسجدِ اقصی کی تاریخ یہودکے زمانے سے پہلے شروع ہوتی ہے، تو انہیں اس پرمحض اپنا حق جتانے اور اسکی تولیت کا دعوی کرنے کا کیا حق ہے؟

3۔مسجدِ اقصی کی نامکمل تاریخ بیان کرنے کے بعد آنجناب نے ’’حقِ تولیت سے یہود کی معزولی‘‘کا عنوان باندھا ہے۔اس عنوان کے تحت آنجناب نے ایک عجیب ’’مقدمہ‘‘تراشا ہے اور اس تحریر کی پوری عمارت اس مقدمے پر کھڑی ہے۔اس مقدمے کا خلاصہ یہ نکاتِ ثلاثہ ہیں:

1 ۔کسی مذہب والوں کو ان کی مخصوص عبادت گاہ اور مرکزِ عبادت کی تولیت سے محروم کرنے کے لئے قرآن و حدیث کی واضح نص کی ضرورت ہے۔

2۔مشرکینِ مکہ کو مسجدِ حرام کی تولیت سے اس وقت تک محروم نہیں کیا گیاجب تک ۹ھ میں سورہ برات کی واضح آیتیں نہیں اتری تھیں۔

3۔مسجدِ اقصی سے یہود کی تولیت کی منسوخی کے بارے میں اس طرح کی کوئی واضح نص نہیں ہے ،جس طرح سے مسجدِ حرام کے بارے میں ہے،اس لئے اس بارے میں جتنے ’’استدلالات‘‘کئے جاتے ہیں وہ سارے کالعدم ہیں، کیونکہ وہ ’’صریح‘‘ نہیں ہیں۔

یہ مقدمہ درجہ ذیل وجوہ سے محض ’’خود ساختہ‘‘ ہے:

1۔مسجدِ اقصی کے بارے میں بحث کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی مذہب کی مرکزی عبادت گاہ کی اہلِ مذہب سے تولیت کی منسوخی کے کیا شرعی احکامات ہیں،بلکہ بحث کا اصل طرز یہ ہے کہ روئے زمین کے وہ چند مقدس مقامات جن کی اہمیت ،فضیلت،برکت اور عظمت صرف اس بنیاد پر نہیں ہیں کہ کسی مذہب والوں نے انہیں مرکزِ عبادت کے طور پر آباد کیا،بلکہ خود حق تعالی نے اپنے جلیل القدر پیغمبروں کے ذریعے ان جگہوں کو بابرکت اور افضل البقاع قرار دیا، ان کو ان مقامات کی تعمیر ،تاسیس ،تجدید اور انہیں مرکزِ عبادت بنانے کے باقاعدہ احکامات دیئے اور ان مقامات کی فضیلت وتقدس تمام ادیانِ سماویہ میں مسلم ہیں ، ایسے ’’مقامات‘‘کی تولیت ،انہیں آباد کرنے اور ان میں عبادتِ صحیحہ ادا کرنے کا حق بعثتِ نبوی کے بعد دنیا میں اب تک موجود تین ادیانِ سماویہ اسلام،یہودیت اور عیسائیت میں کس مذہب کے ماننے والوں کو حاصل ہے۔شرعی نصوص کے مطابق روئے زمین پر ایسے مقدس اور بابرکت مقامات صرف تین ہیں:مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہاللہ شدِرحال والی حدیث کے تحت لکھتے ہیں:

وفی ہذالحدیث فضیلۃ ہذہ المساجدومزیتہاعلی غیرہا لکو نہا مساجد الانبیاء و لان الا ول قبلۃالناس والیہ حجہم والثانی کان قبلۃ الا مم السالفہ والثالث اسس علی التقوی(۵)

اس کے علاوہ اسراء کے موقع پر مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی تک سفر،لا تشد الرحال والی حدیث(۶)دونوں مسجدوں کی تاسیس والی حدیثِ بخاری(۷)مساجدِ ثلاثہ میں نماز کا ثواب بیان کرنے والی حدیث(۸)اور فقہائے کرام کے ان مقامات میں نذر،اعتکاف اور ان سے عمرہ و حج کا احرام باندنے کے الگ احکامات کابیان(۹)ان مقامات کے مراتبِ فضیلت پر بحث(۱۰)اور اسلامی تاریخ کے جلیل القدر علماء کا مقاماتِ ثلاثہ کے فضائل، تعارف، تاریخ اور احکامات کو بیان کرنے کے لئے الگ تصنیفات(۱۱)اس بات کے واضح شواہدہیں کہ یہ تینوں مقامات مخصوص فضیلت اور ناقابلِ انفکاک تعلق کے حامل ہیں۔قرآن و حدیث کے ادنی طالبِ علم پر ان مقامات کے خاص فضائل اور ان کا تقدس مخفی نہیں ہیں۔ 

ان’’ مقاماتِ مقدسہ‘‘ کے بارے میں تمام ادیانِ سماویہ میں یہ ضابطہ چلا آرہا ہے کہ یہ ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملتے ہیں ۔اگرچہ کبھی کھبار اہلِ حق کے کمزور ہونے اور انہیں ان کے کئے کی سزا کے نتیجے میں ان پر اہلِ باطل کا غلبہ بھی رہا ہے،لیکن ان کا ’’شرعی ‘‘حکم یہی چلا آرہا ہے کہ اس کے حقدار صرف اور صر ف زمانے کے اہلِ حق ہوتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السالام چونکہ ابو الا انبیاء ہیں ،اس لئے ان کے بعد یہ مقدس مقامات ان کی اولاد اور ان کے سچے متبعین میں تقسیم کئے گئے ،چنانچہ مسجدِ حرام بنی اسماعیل اور مسجدِ اقصی بنی اسرائیل کے حوالے کی گئی ،لیکن ساتھ یہ شرط بھی لگا دی گئی کہ تمہارے پاس ان مقدس مقامات کی تولیت اور ذمہ داری دینِ حق پر قائم رہنے ، اللہ کی اطاعت پر کار بند رہنے اور شرک و کفر سے بچنے کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔چنانچہ انبیائے بنی اسرائیل کی زبانی بنی اسرائیل کو یہ اعلان سنایا گیاجسے آنجناب نے بھی نقل کیا ہے:

’’اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہو جاؤاور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمہارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو،بلکہ جاکر اور معبودوں کی عبادت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگوتو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے تمہیں دیا ہے ،کاٹ ڈالوں گااور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لئے مقدس کیا ہے،اپنی نظر سے دور کر دوں گااور اسرائیل سب قوموں میں ضرب المثل اور انگشت نما ہو گا‘‘(۱۲)

اس کی تائید قرآنِ پاک سے بھی ہوتی ہے ،چناچہ سورہ مائدہ میں اللہ نے بنی اسرائیل کو حضر تِ موسی علیہ السلام کی زبانی یہ اعلان سنایا:

یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (المائدہ ۵:۲۱)
’’اے میری قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو،ور نہ پلٹ کر نامراد ہو جاؤ گے۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے ولا ترتدوا کی جہاں اور تفسیریں کی ہیں وہاں ساتھ یہ بھی کی ہے کہ اس سے مراد اللہ کی نافرمانی اور سرکشی ہے،چنانچہ علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

لا ترجعو ا عن دینکم با لعصیان (۱۳)

امام قرطبی لکھتے ہیں:

لا ترجعوا عن طاعتی و ما امرتکم من قتال الجبارین (۱۴)

اس کے علاوہ سورہ اسراء کی ابتدائی آیات میں بیت المقدس سے بنی اسرائیل کی دو مرتبہ بے دخلی بھی اسی سنت اللہ کی تائید کر رہی ہے کہ یہ مقدس مقام کی تولیت اللہ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔

اسی طرح بنی اسماعیل کو بھی مسجدِ حرام کی تولیت اسی شرط کے ساتھ دی گئی تھی،چونکہ بنی اسماعیل میں قرآن کے علاوہ کوئی کتاب نہیں نازل ہوئی اس لئے اس کا اعلان قرآن پاک میں کیا گیا،چنانچہ سورہ الانفال میں اللہ فرماتے ہیں:

وَمَا لَہُمْ أَلاَّ یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَہُمْ یَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُواْ أَوْلِیَاءَ ہُ إِنْ أَوْلِیَآؤُہُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ (الانفال۸:۳۳)
’’اور بھلا ان میں کیا خوبی ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے جبکہ وہ لوگوں کو مسجدِ حرام سے روکتے ہیں، حالانکہ وہ اس کے متولی نہیں ہے ،متقی لوگوں کے سوا کسی قسم کے لوگ اس کے متولی نہیں ہو سکتے۔‘‘

سابقہ صحف اور قرآن پاک کی ان واضح نصوص سے یہ بات بخوبی ثابت ہورہی ہے کہ ان مقاماتِ مقدسہ کے بارے میں سنت اللہ یہی ہے کہ ان کی تولیت کے حقدار صرف اہلِ حق ہیں۔اب آنجناب بتائیں کہ نبی پاک ﷺ کی بعثت کے بعد روئے زمین پر اب امتِ مسلمہ کے علاوہ بھی کوئی حق گروہ ہے؟اس لئے اس سنت اللہ کے مطابق مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصی دونوں کی تولیت صرف اس امت کے ذمے ہے ،جبکہ مسجدِ نبوی میں تو ویسے آپ کا شاہی دربار سجا ہے۔آنجناب نے بحث کی پوری ترتیب کو ’’خلط‘‘کیا اور مسجدِ اقصی کو ایک خاص مذہب کا محض مرکزِ عبادت قرار دے کر پھر اسکی تولیت کی بحث کی ہے ،اسی خلطِ مبحث کا نتیجہ ہے کہ آنجناب کو مسجدِ اقصی امتِ مسلمہ کی تولیت میں دینے پر ’’تضادات‘‘نظر آئے،جس کا ذکر اپنے مقام پرآئے گا۔

اس سنت اللہ کے نتیجے میں اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جملہ وراثتوں کا حقدار اس امت کو ٹھہرایا ہے،چنانچہ سورہ آلِ عمران میں فرماتے ہیں:

إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ (آل عمران ۳:۶۸)
’’ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حقداروہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی،نیز یہ نبی ﷺاوروہ لوگ جو ان پر ایمان لائے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری تاریخ میں ان مقاماتِ مقدسہ کی تولیت کا سوال کبھی نہیں اٹھایا گیااور نہ ہی اس حوالے سے ’’شرعی دلائل‘‘اکٹھا کرنے کا اہتمام کیاگیا۔اسی طرح ان کی تولیت لینے کے لئے کسی ’’واضح نص‘‘کی ضرورت کبھی محسوس نھیں کی گئی،بلکہ ان مقدس مقامات پر سیاسی غلبہ ہوتے ہی ان مقامات کو تولیت میں لیا گیا،چنانچہ فتحِ مکہ کے موقع پر مسجدِ حرام کی تولیت مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئی اور مسجدِ اقصی کی تولیت آپﷺ کی بشارت کے نتیجے میں حضرت عمرؓ کے دور میں بیت المقدس کی فتح کی صورت میں امت نے سنبھالی۔آنجناب نے اس حوالے سے جو نکات اٹھائے ہیں ان کا ذکر اپنے مقام پر آئیگا۔

2۔اس خود ساختہ مقدمے کا دوسرا حصہ کہ مشرکین کو مسجدِ حرام کی تولیت سے اس وقت تک محروم نہیں کیا گیا،جب تک ۹ھ میں سورہ برات کی واضح آیتیں نہیں اتری تھیں،اسلامی تاریخ سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔اسلامی تاریخ کا ادنی طالبِ علم جانتا ہے کہ آپﷺ کا مکہ کو فتح کرنے کا مقصد ہی دراصل مشرکین سے بیت اللہ کو چھڑانا تھا۔آنجناب بتائیں کہ اس کے علاوہ فتحِ مکہ کا کیا مقصد تھا؟جب آپﷺوہاں ٹھہرے بھی نہیں،وہاں کے باشندوں سے انتقام بھی نہیں لیا،وہاں کے باشندوں کے اسلام پر مجبور بھی نھیں کیا،تو پھر محض اس شہر میں داخل ہو کر واپس نکلنے کا کیا مقصد تھا؟نیز اسلامی تاریخ میں فتحِ مکہ جو مقام و اہمیت حاصل ہے،وہ کس بنیاد پر؟اور صحابہ کرامؓ نے جس جوش و خروش اور جس جذبے کے ساتھ اس میں شرکت کی ،اس کی بنیادی وجہ کیا تھی؟سیرت نگاروں نے فتحِ مکہ کا مقصدِ اعظم ہی بیت العتیق کو مشرکین سے چھڑوانا لکھا ہے،چنانچہ ابن القیم زاد المعاد میں فتحِ مکہ کو الفتح الاعظم لکھ کر اس کا مقصد یوں بیان کیا ہے:

الذی اعز اللہ بہ دینہ و رسولہ و جندہ و حزبہ الا مین،و استنقذ بہ بلدہ وبیتہ الذی جعلہ ھدی للعالمین،من ایدی الکفار و المشرکین(۱۵) 
’’وہ فتح جس کے ذریعے اللہ نے اپنے دین ،اپنے رسول،اپنے لشکراور اپنی امانتدار جماعت کو عزت سے نوازا۔اور اس کے ذریعے اپنے شہر اور اپنے اس گھر کو مشرکین اور کفار سے چھڑایا ،جس کو پوری کائنات کے لئے ہدایت کا زریعہ بنایا ہے۔‘‘

آپ ﷺ کا مکہ فتح کر کے بیت اللہ میں داخل ہو نا،بتوں کو گرانا ،جاء الحق و زہق الباطل کی صدالگانا،وہاں نماز پڑھنا،حضرت بلالؓ کا چھت پر چڑھ کر اذان دینا،کیا یہ سارے کام بیت اللہ کی تولیت کو واپس لینے کے اعلانات نہیں تھے؟اگر جناب عمار صاحب کا خود ساختہ مقدمہ مان لیں تو سوال یہ ہے کہ زبانِ نبوت نے اس موقع پر ایسا کوئی جملہ ارشاد کیوں نہیں فرمایا کہ’’حقِ تولیت چونکہ ایک نازک معاملہ ہے اس لئے کسی واضح نص تک ہمیں انتظار کرنا چاہئے‘‘آپﷺ نے جب حضرت عثمان بن ابی طلحہؓ سے بیت اللہ کی چابیاں لے لیں تو حضرت علیؓ و دیگر صحابہ نے جب درخواست کی کہ یہ چابیاں ہمیں عطا فرمائیں، تو اس وقت آپﷺ نے یہ کیوں نہیں فرما یا کہ ’’حقِ تولیت چونکہ ایک نہایت نازک معاملہ ہے اس لئے کسی واضح نص کا انتظار کرنا چاہئے‘‘بلکہ آپ ﷺ نے چابیاں ان سے لیکر پھر اپنے اختیار سے ان کو واپس کر دیں،جو حافظ ابنِ حجر کے بقول صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے،(۱۶)کیا کسی مسلمان کو بیت اللہ کی چابیاں دینا مشرکین سے حقِ تولیت واپس لینے کی دلیل نہیں ہے۔

البتہ اتنی بات تھی کہ آپ ﷺ نے چونکہ عام معافی کا اعلان کیا تھا،اس لئے مشرکین کو بھی بیت اللہ میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ سورہ براۃ کی مذکورہ آیتوں کے نزول کے بعد ان کا داخلہ نہ صرف مسجدِ حرام میں بند کیا گیا ،بلکہ پورے حرم کو ان کے لئے ممنوع قرار دیا۔آنجناب نے ان مذکورہ آیتوں کو حقِ تولیت کی منسوخی کی دلیل بنا یا،جو کئی وجوہ سے مخدوش استدلال ہے۔

1۔آنجناب کی پیش کردہ آیتوں میں سے سورہ براۃ کی آیت ۲۸تو اپنے مفہوم کے ساتھ با لکل واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ اس کا مقصد مشرکین کا مکہ میں داخل ہونے کی ممانعت کا بیان ہے۔آنجناب کے استدلال کی بنیادی ’’غلطی‘‘ یہی ہے کہ آنجناب نے داخل ہونے اور نہ ہونے کی بحث کو تولیت کی بحث کے ساتھ ’’خلط‘‘ کردیا ،حالانکہ ان دونوں میں واضح فرق ہے،کیو نکہ کسی مقام میں کسی کے داخل ہونے کی اجازت سے اس مقام کی تولیت اس کے لئے کیسے لازم آگئی؟چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا (براۃ ۹:۲۸)
’’اے ایمان والو!مشرک لوگ تو سراپا ناپاکی ہیں،لہذاوہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔‘‘

علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:

المراد النھی عن الدخول الاانہ نھی عن القرب للمبالغۃ (۱۷)

یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے مسجدِ حرام اور بقیہ مساجد میں مشرکین اور اہلِ کتاب کے دخول کے جواز و عدمِ جواز پر بحث کی ہیں ۔اور اس بارے میں فقہاء کے مذاہب تفصیل سے بیان کئے ہیں(۱۸)لیکن تولیت کا مسئلہ قدماء میں سے کسی نے ذکر نہیں کیا۔آنجناب نے کس طرح اس سے تولیت کی منسوخی اخذ کی ہمیں معلوم نہیں ہو سکا؟حالانکہ خود آنجناب نے ’’اصول ‘‘ بنایا تھا کہ اس معاملے میں ’’صریح‘‘دلیل کی ضرورت ہے۔

2۔تولیت کی منسو خی کے لئے اس آیت کے علاوہ آنجناب نے مذکورہ سورہ کی آیت ۱۷ کو بھی دلیل بنایا ہے،اللہ تعالی فرماتے ہیں:

مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ أَن یَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ اللّّٰہ شَاہِدِیْنَ عَلَی أَنفُسِہِمْ بِالْکُفْرِ (براۃ ۹:۱۷)
’’مشرکین اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔‘‘

اس آیت کو منسوخی کا ’’اعلان ‘‘قرار دینا بھی بوجوہ درست نہیں ہے:

۱۔آنجناب کو علم ہوگا کہ تولیت کے لئے عربی میں’ ’عمر‘‘کا مادہ استعمال نہیں ہوتا بلکہ ’’ولی‘‘کا مادہ آتا ہے،آنجناب آباد کرنے سے تولیت کس ’’دلالت‘‘کی بنیاد پر لے رہے ہیں؟اگربالفرض دلالت کی کسی قسم سے تولیت بھی اس کے مفہوم میں آجائے تو صریح نہ ہونے کی بنیاد پر آنجناب کے اصول کی بنیاد پر ’’کالعدم‘‘ہے۔

۲۔مفسرین اس آیت کے تولیت وغیرہ کی کوئی بحث ہی نہیں کی ہے ،بلکہ اس کا مقصد یہ بیان کیا ہے ،کہ اس آیت میں اللہ تعالی مشرکین کے اس زعم پر رد کر رہے ہیں کہ وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر اور اس کے مہمانوں کی خدمت بجا لاتے ہیں ،تو اللہ نے ان آیات میں ان کا رد کیا کہ اصل قابلِ ٖفخر چیز ایمان ہے،نیز جب وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے تو ان کی ان خدمات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔چنانچہ علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

والغرض ابطال افتخار المشرکین بذلک لا قترانہ بما ینافیہ وھو الشرک (۱۹)

اسی بات کو تفسیر طبری میں بھی بیان کیا گیا ہے(۲۰)اگر ان آیات کا مقصد مشرکین سے بیت اللہ کی تولیت کی منسوخی کا اعلان ہے جیسا کہ آنجناب کا ’’گمان‘‘ ہے ،تو پھر اس چیز کو سر فہرست ہونا چاہیئے تھا ،کیونکہ یہ یقیناًًاس امت کی تاریخ میں ایک یاد گار اور سب سے بڑا اعلان تھا۔اور مسلمانوں کو بیت العتیق کی تولیت کے اعلان پر سب سے زیادہ خوشی منانی چاہیئے تھی ،حالانکہ اس طرح کی کوئی بات تواریخ میں منقول نہیں ہے۔

۳۔ ان آیات کے نزول کے بعد اسی سال حج کے موقع پر آپﷺ نے حضرت علیؓ کو مشرکین کے بھرے اجتماع میں کچھ اعلانات کے لئے بھیجا، اس میں بھی تولیت کا اعلان سرے سے غائب ہے ،چنانچہ روایت میں آتا ہے ،کہ حضرت علیؓ نے یہ اعلان کیا:

امرہ ان ینادی فی المشرکین الا یحج بعدالعام مشرک ولایطوف بالبیت عریان (۲۱)

اگر واقعی ان آیات سے مشرکین کا حقِ تولیت منسوخ ہوا تھا تو اس کو تو سر فہرست ہونا چاہیئے ،آنجناب نے یہاں بھی اسی ’’خلطِ مبحث ‘‘سے کام لیتے ہوئے اس اعلان کو حقِ تولیت کی منسوخی کا اعلان قرار دیا۔حالانکہ یہ بات بدیہی ہے کہ حج سے روکنا اور بیت اللہ میں داخل ہونے کی ممانعت اور بحث ہے ،جبکہ تولیت ایک الگ بحث ہے۔

خلاصہ یہ نکلا کہ آنجناب نے جو یہ مقدمہ ’’تراشا‘‘ ہے کہ مشرکین کو مسجدِ حرام کی تولیت سے ایک صریح نص کی بنیاد پر محروم کیا گیا ،سرے سے غلط ہے ،کیونکہ فتحِ مکہ کے موقع پر مشرکین سے تولیت لے لی گئی،اگرچہ ان کا مکمل داخلہ ۹ھ میں مذکورہ آیات کی بنیاد پر بند کیا گیا۔اور یہ تولیت اسی سنت اللہ کے نتیجے میں آپﷺ نے لی ،جس کا ذکر سابقہ صحف اور فرقانِ حمید میں بار بار ہوا تھااورپچھلے انبیاء کی تاریخ بھی اس پر شاہد تھی۔

3۔اس کے علاوہ اس عنوان کے تحت آنجناب نے ایک لمبی بحث کی ہے ،جس میں مشرکین و اہلِ کتاب کے مساجد اور مقاماتِ مقدسہ میں داخل ہونے کے جواز و عدمِ جواز کی بحث فقہاء کے مذاہب کی روشنی میں کی ہے۔کیا حقِ تولیت اور کسی مقام میں داخل ہونے کی اجازت کا مفہوم ایک ہے؟تعجب ہے کہ اس مقام پر آنجناب نے اس حوالے سے فقہاء کے مذاہب، انما المشرکون  والی آیت کے عموم و خصوص میں مفسرین کے اختلافات تو تفصیل سے بیان کئیے ،لیکن مسجدِ اقصی کی تولیت کے اثبات و نفی پر کوئی ایک دلیل نہیں دی۔زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت کی ہے کہ حنفیہ کے ہاں مسجدِ اقصی میں اہلِ کتاب کے داخل نہ ہونے کے حوالے سے کوئی نص نہیں ہے۔کیا اس سے اہلِ کتاب کی تولیت ثابت ہوگئی؟نیز جس جزیئے سے آنجناب نے حقِ تولیت کو اہلِ کتاب کیلئے ثابت ہونے کے بارے میں استدلال کیا ہے ،اسے لطیفہ ہی کہا جاسکتا ہے۔آنجناب کا’’کمال ‘‘ہے کہ یہود کے لئے حقِ تولیت کے اثبات کے لئے تو فقط’’جزئیات ‘‘سے استدلال کریں ،لیکن مسلم امت کے لئے اسے ثابت کرنے کے لئے دو ٹوک اور واضح نص کا مطالبہ کریں۔وہ بھی ایسی جزئیات جو کسی اور سیاق میں بیان ہوئی ہیں اور شاید ان کے واضعین کے حاشیہ و خیال میں بھی یہ بات نہ ہو کہ کوئی ’’ذہین و فطین‘‘ان جزئیات سے یہود کے لئے مسجدِ اقصی کی تولیت ثابت کرے گااور مزید یہ کہ ان واضعین کا موقف بھی یہ ہو کہ مسجدِ اقصی کی تولیت امتِ مسلمہ کا حق ہے ،کیونکہ مسجدِ اقصی پر یہود کے حقِ تولیت کی بقا امتِ مسلمہ میں آنجناب کے علاوہ کسی کا مسلک نہیں ہے۔ جس جزئی پر آنجناب نے استدلال کی عمارت کھڑی کی ہے ،اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ اگر کوئی ذمی مسجدِ اقصی کے لئے کوئی چیز وقف کرے تو اس کا یہ وقف درست ہو گا یا نہیں؟تو فقہاء نے لکھا ہے کہ چونکہ اہلِ کتاب کے ہاں بھی مسجدِ اقصی محترم ہے اس لئے وقف کے بنیادی اصول کے مطابق ان کا یہ وقف درست سمجھا جائیگا۔اب قارئین بتائیں کہ اس سے ان کی تولیت کیسے ثابت ہوتی ہے؟آنجناب نے اس سے یہ ’’نتائج ‘‘اخذ کئے ہیں :

۱۔ اس جزئیے سے ثابت ہو اکہ فقہاء مسجدِ اقصی کو اہلِ کتاب اور مسلمانوں کی مشترکہ عبادت گاہ مانتے ہیں(تعجب ہے کہ فقہاء جب اس کو اہل کتاب کی بھی عبادت گاہ مانتے ہیں تو اس کے لئے فقہاء نے اس جزئیے کے علاوہ پوری فقہ اسلامی میں اور کوئی حکم بیان نہیں کیا ہے!کہ اہلِ کتاب کو اپنی اس عبادت گاہ میں وقف کے علاوہ اور کون کونسے اختیارات حاصل ہیں؟)

۲۔اشتراک سے ثابت ہو کہ ان کا حقِ تولیت بھی باقی ہے ،کیونکہ تولیت کو مانے بغیر اشتراک کا تصور نہیں ہو سکتا(تعجب ہے کہ ایک وقف کے دو متولی کیسے ھونگے؟خصوصاًجبکہ ان کی ملتیں بھی مختلف ہوں۔ہر متولی جب اس کو اپنے دین کے مطابق استعمال کرنا چاہے گا تو اس کا حشر کیا ہو گا ؟آنجناب بتائیں؟اور اگر اس سے صرف اہلِ کتاب کی تولیت ثابت ہوتی ہے، تو عجیب تضاد ہے کہ اہلِ کتاب کا وقف درست ہونا توانکی تولیت کی دلیل ہے اور مسلمان کا وقف درست ہونا اس کی تولیت کی دلیل بالکل نہیں ہے؟یا للعجب)

قارئین اس سے جناب عمار صاحب کے استدلال کی’’ مضبو طی‘‘ کا اندازہ لگائیں۔

4 ۔اس طرح کی ’’لاحاصل ‘‘بحث کے بعدآنجناب نے عنوان باندھا ہے ’’مسلمانوں کے حقِ تو لیت کے شرعی دلائل کا جائزہ‘‘اس عنوان کے بعد آنجناب نے یہ عبارت رقم کی ہے:

’’ہم اوپر تفصیل کے ساتھ واضح کر چکے ہیں کہ مسجدِ اقصی کی تولیت کے منسوخ ہونے کا کوئی اشارہ تک قرآن و سنت اور کلاسیکل فقہی لٹریچر میں نہیں ملتا‘‘۔

جناب عما ر صاحب کا ’’کمال ‘‘ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کا امام بنا کر نماز پڑھوائی، آپ ﷺ کے لئے مخصوص مدت کے لئے قبلہ بنایا،آپﷺ نے مسجدِ اقصی کے لئے سفر کو باعثِ ثواب قرار دیا،اس میں ’’نماز‘‘پڑھنے کی ترغیب دی،مسجدِ اقصی کو ان بقعات میں شمار کیا جس میں دجال (یہود کا سربراہ)داخل نہیں ہو سکے گا(۲۲)(اور جناب عمار صاحب دجال کے متبعین کو یہ مقدس مقام دینے پر زور دے رہے ہیں)اور قربِ قیامت میں مومنین کے اس میں(یہود کے مرکزِ عبادت میں) محصورہونے کی پیشین گوئی فرمائی(۲۳)فقہاء نے اس میں (یہود کی عباد ت گاہ میں)اعتکاف کے احکامات بیان کئے(۲۴)مسجدِ اقصی اور حرمینِ شریفین میں افضلیت کی بحثیں کیں(۲۵)حضرت عمرؓ نے اس کو فتح کر کے اس میں نماز پڑھی حالانکہ آپ نے دیگر عبادتگاہوں میں ان کی درخواست کے باوجود نماز نہیں پڑھی ،وہاں مسجد بنوائی(۲۶)(یہود کے مرکزِ عبادت میں مسجد بنوانایاللعجب)اس فتح کے بعدصدیوں تک اس کی تولیت مسلمانوں کے پاس رہی،پھر جب عیسائیوں نے اس پر قبضہ کیا تو ’’یہود کے مرکزِ عبادت‘‘کے لئے امتِ مسلمہ نے جانیں دیں،اور یہود در پردہ عیسائیوں کی مدد کرتے رہے،ان سب کے باوجود آنجناب کا ’’دعوی ‘‘ہے کہ نصوص میں امتِ مسلمہ کی تولیت کا ’’اشارہ ‘‘تک نہیں ہے۔ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں کہ ان تمام مواقع پر اللہ ،نبی پاک ﷺ ،اورامتِ مسلمہ کے علماء و فقہاء نے یہ ضرورت کیوں محسوس نہیں کی کہ کہیں ان سے امت اس عبادت گاہ پر ’’قبضہ ‘‘نہ کر لے اور ’’استحقاق کی نفسیات سے مغلوب‘‘نہ ہو جائے ،اس لئے ساتھ اس کی بھی وضاحت کردی جائے کہ یہود کا حقِ تولیت منسوخ نہیں ہو ا،اس لئے ان کو بنیاد بنا کر اس عبادت گا پر قابض نہ ہو جاؤ۔کیا آنجناب یہود کے حقِ تولیت کے باقی رہنے اور منسوخ نہ ہونے پر کوئی واضح دلیل دے سکتے ہیں؟آنجناب کے استدلال کا ’’عالم‘‘تو یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے مسجدِ اقصی میں نماز پڑھنے سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہود کا حقِ تولیت باقی ہے اور استدلال اس بات سے کر رہے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک خاص جگہ صخرہ سے ہٹ کر پر نماز پڑھی(حالانکہ اس کی اصل وجہ کتبِ تاریخ میں منقول ہے)مسجدِ اقصی کی اصل بنیادوں کو تلاش نہیں کیا،معلوم ہوا کہ یہود کا حقِ تولیت باقی ہے۔تعجب ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر مختلف ارشادات فرمائے،حضرت کعب احبار سے استفسارات کئے، لیکن یہود کے حقِ تولیت کے بارے میں ایک جملہ بھی ارشاد نہیں فرمایا اور ایک خاص جگہ پر نماز پڑھ کے امت پر چھوڑ دیا کہ خود ’’استنباط‘‘کرلو کہ یہود کا حق باقی ہے (اگرچہ حقِ تولیت کے لئے’’ صریح دلیل ‘‘کی ضرورت ہیے یا للعجب)

اپنے ’’دلائل‘‘ کا تو یہ عالم ہے لیکن واضح نصوص کو رد کر کے کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس اشارہ تک نہیں۔کیا علمی دنیا میں ’’غیر جانبدارانہ تحقیق‘‘اسی کا نام ہے؟صاف واضح ہے کہ آنجناب یہودیوں کا ’’تاریخی و مذہبی حق ‘‘تسلیم کر کے اس کے لئے ’’مواد ‘‘اکٹھا کر رہے ہیں۔

آنجناب کے تعقبات و اعتراضات کا اجمالی جواب

آنجناب نے اپنے ’’زعم ‘‘کے مطابق مسجدِ اقصی کی تولیت کے ’’دلائل ‘‘پر اعتراضات وارد کئے کہ ان دلائل سے یہود کا حقِ تولیت کو منسوخ کرنا درست نہیں ہے،ان تمام تعقبات کی بنیاد دو باتوں پر ہے:

۱۔آنجناب نے جو خود ساختہ مقدمہ اپنے مضمون کی ابتدا میں ’’تراشا‘‘تھا کہ کسی مذہب کی عبادت گاہ کی تولیت لینے کے لئے کسی واضح نص کی ضرورت ہے،اس بنیاد پر آنجناب نے تقریباً تمام دلائل کو اجمالاًرد کردیا کہ ان میں سے کوئی بھی صریح نہیں ہے،۔ اس مقدمے کی حقیقت ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ اس کی جملہ شقیں آنجناب کی ’’ایجاد‘‘ ہیں۔نیز مسجدِ اقصیٰ پر یہ تعریف ہی صادق نہیں آتی کہ وہ محض کسی خاص مذہب کا’’ مرکزِعبادت‘‘ ہے ،بلکہ یہ تودنیا کے ان مقدس مقامات میں سے ہیں ،جن کی تولیت کے بارے میں تمام ادیان کے بارے میں یہ ضابطہ چلا آرہا ہے کہ وہ ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملتے ہیں۔

۲۔آنجناب کے ان تمام اعتراضات میں ایک بنیادی ’’غلطی‘‘یہ ہے کہ آنجناب نے ان تمام واقعات اور نصوص کو یہود کے حقِ تولیت کی منسو خی کے ’’دلائل ‘‘قرار دیا اور انہیں باقاعدہ ’’دلائل ‘‘اور’’اعلانات‘‘ فرض کر کے ان پر اعتراضات کی ایک لمبی فہرست تیار کرلی ، حالانکہ یہ واقعات و نصوص سرے سے دلائل کے ’’زمرے ‘‘میں ہی نہیں آتے، بلکہ یہ تو امتِ مسلمہ کو اس مقدس مقام کی تولیت ملنے کے’’ مظاہر‘‘اس حق کے ’’نتائج‘‘اور اس کے ’’ثمرات‘‘ہیں ۔حقِ تولیت کی دلیل تودنیا کے ان چند مقدس مقامات کے بارے میں وہ ’’سنت اللہ ‘‘اور تمام ادیانِ سماویہ میں مسلم ’’اللہ تعالی کا وہ قانون ‘‘ ہے جس کی وضاحت ہم بار بار کر چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری علمی تاریخ میں مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصی کی تولیت کے بارے میں ’’دلائل ‘‘بیان کرنے کا یہ طرز نظر نہیں آتا۔کتبِ تفسیر، کتبِ حدیث ،اور کتبِ فقہ کے اس پورے ذخیرے میں ان مقاماتِ مقدسہ کے دلائل تو کجا یہ مسئلہ ہی بیان نہیں ہوا ،حالانکہ ان کتب میں ہر چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ با لتفصیل بیان ہوا ہے ۔آنجناب نے چونکہ مسجدِ حرام کی تولیت کو بھی ’’صریح دلیل ‘‘کا نتیجہ قرار دیا ہے ،ہم آنجناب سے ایک سوال کرتے ہیں کہ وہ مسجدِ حرام کی تولیت کے ’’دلائل‘‘ اور اس ’’مسئلے‘‘ کی نشاندہی تفسیرِ ،حدیث و شروحِ حدیث اور فقہ اسلامی کے چاروں مکاتب کی کتبِ فقہ میں سے کسی ایک قدیم کتاب میں کردے ،تو ہم آنجناب کے ممنون ہو ں گے۔تعجب کی بات ہے کہ سورہ براۃ کی جن آیتوں کو آنجناب نے مسجدِ حرام کی تولیت کی ’’دلیل ‘‘بنایا اس کے تحت بھی مفسرین نے اس مسئلے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

واقعہ اسراء اور سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات

اسلامی تاریخ میں اسراء و معراج کا واقعہ مختلف وجوہات کی بنا پر ایک ممتاز واقعہ ہے،اس تاریخی واقعے کو اللہ تعالی نے سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں بیان کیا۔یہ واقعہ بے شمار حکم و مصالح اور اسرار و رموز پر مشتمل ہے ۔یہ یادگار معجزہ اور اس کو بیان کرنے کے لئے مذکورہ سورت کی ابتدائی آیات درجہ ذیل وجوہ سے اس بات کا سب سے بڑا مظہر ہے کہ حرمین کے بعد دنیا کے مقدس ترین مقام مسجدِ اقصی کی تولیت ؔ خیر الامم کے پاس ہے۔پہلے ان کا ذکر کرتے ہیں ،پھر آنجناب کے ’’اعتراضات ‘‘پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

۱۔اس واقعے میں آپ ﷺ کو مسجدِ اقصی کا سفر کرانااور وہاں انبیاء کی امامت کا تاج آپﷺ کے سر پر رکھنا اس بات کامظہر ہے کہ اس گھر میں جہاں یہ نبی امام ہے ،وہاں ان کو ماننے والی امت بھی باقی ملتوں کی امام اور اس مقدس گھر کی تولیت کی ذمہ دار ہے ۔

۲۔مسجدِ اقصی کو اللہ تعا لی اپنی خاص نشانیوں میں شمار کیا ،اس سے اس مقام کی اہمیت، فضیلت،تقدس اور آفاقیت خود بخود آشکارا ہوتی ہے اس سے آنجناب کے اس ’’مفروضے ‘‘کی تردید ہو تی ہے کہ مسجدِ اقصی کی حیثیت صرف ایک مذہب کے مرکزِ عبادت کی ہے۔ جب یہ ایک آفاقی مقدس مقام ہے تو اس کی تولیت ’’سنت اللہ‘‘کے مطابق ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملے گی۔

۳۔اس وا قعے کے ذکر کے بعد اللہ تعا لی نے اس مقدس مقام سے یہود کی اپنے معاصی اور سرکشی کی بدولت دو بار جلا وطنی کا ذکر کیا ،جس سے ان مقدس مقامات کے بارے میں اللہ نے اپنے اس خاص سنت کی طرف اشارہ کیا اور اس موقع پرمفسرین کے نزدیک اپنے خاص سنت کو ذکر کرنے کے دوبڑے مقصد ہیں:

۱۔ مشرکینِ مکہ کو تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ مسجدِ حرام بھی اللہ کے انہی مقدس مقامات میں سے ہے ،اس لئے اگر تم اپنے کفر و شرک سے باز نہ آئے ،تو تم اللہ کی اٹل سنت کے مطابق اس گھر کی تولیت اور خدمت سے محروم کر دیے جاؤ گے۔

۲۔مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے کہ اگر تم نے اللہ کی نافرمانی اختیار کر لی تو تم کو بھی اللہ مسجدِ اقصی کی تولیت سے بطورِ سزا اسی طرح محروم کر دے گا ،جیسا کہ یہود کو اپنی نافرمانی کے نتیجے میں اللہ نے محروم کردیا۔(۲۸)

۴۔اس کے بعد اللہ تعا لی نے اپنے اس ضابطے کو’’صراحۃً‘‘ بیان کیا چنانچہ ان واقعات کے ذکر کے بعد فرمایا:

عَسَی رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا (الاسراء۱۷:۸)
’’عین ممکن ہے کہ (اب ) تمہارا رب تم پر رحم کرے ،لیکن اگر تم پھر وہی کام کرو گے تو ہم پھر وہی کام کریں گے۔‘‘

ّاس آیت کی تفسیر مفسرین نے یہ کی ہے کہ اس میں اللہ کی ’’رحمت ‘‘سے مراد آپﷺ کی بعثت ہے اور ان عدتم سے مراد پچھلے انبیاء کی طرح آپﷺ کی تکذیب اور آپﷺ کو اسی طرح ستانا ہے جیسا کہ اس مغضوبِ علیہم قوم نے اس سے پہلے حضرتِ موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کو ستایا تھا۔اور عدنا سے مراد تیسری مرتبہ اس گھر کی تولیت اور اس ارض مقدسہ سے اخراج ہے۔گویا خلاصہ یہ نکلا کہ اللہ فرماتے ہیں کہ دو بار جلا وطنی کے بعد اللہ تمہیں ایک موقع اور دیں گے اور آپﷺ کو مبعوث کریں گے ،پھر اگر تم نے اسی خاتم الانبیاء کو اسی طرح ستا یااور ان کی تکذیب کی جیسا کہ اس سے پہلے تم دو جلیل القدر پیغمبروں کے ساتھ کرچکے ہو تو ہم اپنے اصول کے مطابق تمہیں دو بارہ اس گھر کی تولیت سے محروم کر دیں گے۔

امام رازی ؒ ان آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

ای فعلِ ما لا ینبغی وھو التکذیب لمحمد ﷺو کتمانِ ما ورد فی التوراۃ فعاد اللہ علیہم التعذیب علی ایدی العرب(۲۹)

امام طبری ؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے اس کی تفسیر یوں نقل کی ہے:

فعادوا فسلط اللہ علیہم المومنین(۳۰)

مفسر ابن ابی حاتم ؒ نے امام ضحاک سے اس کی تفسیر یوں نقل کی ہے:

کانت الرحمۃ التی وعدہم بعث محمدﷺ(۳۱)

اس آیت کی یہی تفسیر حافظ ابنِ کثیر ؒ نے تفسیر ابنِ کثیر میں (۳۲)علامہ آلوسی ؒ نے روح المعانی میں (۳۳)امام قرطبی ؒ نے تفسیرقرطبی میں (۳۴)امام بغوی نے معالم التنزیل میں (۳۵)امام اہل سنت امام ماتریدی ؒ نے تاویلات اہل السنۃ میں (۳۶) اور دیگر تقریبا تمام متقدمین و متاخرین نے بیان کی ہے۔

آنجناب نے اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے اللہ تعالی یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ’’یہودی رہتے ہوئے‘‘تم کو یہ گھر دو بارہ اللہ کی رحمت سے مل سکتا ہے ،آنجناب کی یہ تفسیر ’تحریف ‘‘کہلانے کی زیادہ مستحق ہے۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ اس کی تائید خلف و سلف میں سے کسی ایک مفسر سے دکھا دیں ۔نیز آیت کی یہ تفسیر کرنے سے تو خود اس کاا وپر والی آیت کے ساتھ کھلا تعارض لازم آتا ہے کہ عام ’’معاصی ‘‘پر تو اللہ نے انہیں اس گھر کی تولیت سے محروم کر دیا ،لیکن اللہ کے آخری پیغمبر کی تکذیب کے باجود وہ اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں اور انہیں یہ گھر مل سکتا ہے۔اپنے ذہنی ’’مقدمات ‘‘سے کتاب اللہ کی من مانی تفسیر کے نتیجے میں اس طرح کے ’’تضادات‘‘اور ’’عجائبات‘‘اچھنبے کی بات نہیں ہے۔صرف جنا ب عمار صاحب ہی نہیں بلکہ تمام متجددین،اپنی عقل کی بنیاد پر شریعت کے متفقہ مسائل پر از سرِ نو ’’تحقیق‘‘ کرنے والے اور سلف کے فہمِ دین کی تغلیط کرنے والوں کی تحریرات ’’ایسی شاہکار ‘‘ہوتی ہیں ۔

آنجناب کے ’’اعتراضات‘‘

آنجناب کے خود ساختہ مقدمہ کے اعتبار سے حقِ تولیت کی منسوخی کے لئے چونکہ ’’صریح دلیل‘‘کی ضرورت ہے اور یہ چونکہ صریح نہیں ہے ،اس لئے آنجناب نے اس کو رد کر دیا ۔دوسراآنجناب نے کہا ہے کہ اس واقعے سے امتِ مسلمہ کی تولیت کی حکمت سلف میں کسی نے بیان نہیں کی ،تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولا شرعی احکام کی حکمتوں کے بیان کے لئے سلف کی پابندی کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ،بشرطیکہ وہ دوسرے نصوص کے معارض نہ ہو اور یہ حکمت چونکہ معارض نہیں ہے ،اس لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے،ثانیاًمسجدِ اقصی کی تولیت کی بحث چونکہ آج کی ’’پیداوار‘‘ہے ،اس لئے زمانہ حال کے اکابر نے شرعی نصوص کے اس پہلو کو بھی اجا گر کیا،اس کی مثال یہ ہے کہ آج کے علماء قرآن کی بہت ساری آیتوں کو ختمِ نبوت کی دلیل بناتے ہیں،حالانکہ سلف میں کسی نے ان کو اس مسئلے کے لئے دلیل کے طور پر ذکر نہیں کیا ،اس کی وجہ یہی تھی کہ چونکہ یہ مسئلہ یوں اٹھا نہیں تھا، اس لئے ان آیتوں کے اس پہلو کی طرف کسی کاذہن نہیں گیا۔اس کے علاوہ چونکہ آنجناب کے نزدیک یہ حقِ تولیت کی منسوخی کی ’’باقاعدہ دلیل‘‘ہے اس لئے آنجناب نے یہ نکات اٹھائے:

۱۔مسجدِ حرام کی تولیت سے پہلے اس کی تولیت کیوں منسوخ کی حالانکہ وہ بہرحال اس سے افضل اور اہم ہے ۔(حالا نکہ ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ تولیت کی منسوخی کے’’ اعلانات ‘ نہیں ہیں ،بلکہ تولیت کی منسوخی تو ’’سنت اللہ ‘‘کے نتیجے میں ہوگئی،یہ تو فقط اس کے مظاہر ہیں)

۲۔مسجدِ حرام کی تولیت کو ’’۹ھ‘‘میں ’’صراحۃ‘‘ بیان کیا اس کو اشارۃ کیوں بیان کیا۔(اس پر ہم تفصیل سے بحث کر چکے ہیں )

۳۔اگر اسراء کے موقع پر ہی اس کی تولیت منسوخ ھوگئی تو تحویلِ قبلہ کے مقاصد میں سے بڑا مقصد تالیفِ یہود کیونکر حاصل ہو سکتا ہے جبکہ ان کو اس پر تولیت کاحق ہی نہیں ہے۔(اس پر بحث آگے کرتے ہیں )

تحویلِ قبلہ کا واقعہ 

مسجدِ اقصی پر امتِ مسلمہ کی تولیت کے مظاہر میں سے دوسرا بڑا مظہر تحویلِ قبلہ کا واقعہ ہے ۔نبی پاک ﷺ کی جو صفات پچھلی کتابوں میں بیان ہوئی تھیں ،ان میں ایک صفت ’’نبی القبلتین‘‘کا بھی ذکر تھا۔چنانچہ اس پیشین گوئی کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعا لی نے سولہ سترہ مہینے امتِ مسلمہ کا قبلہ بیت المقدس کو بنایا(۳۷)اور خاص طور پر یہ حکم مدینہ منورہ میں اس لئے آیا تاکہ یہود کی تالیف قلب کا مقصد بھی حاصل ہو اور انہیں اسلام کے قریب لایا جائے۔تحویلِ قبلہ سے ان کے اسلام کے قریب آنے کی دو وجہیں تھیں:

۱۔چونکہ ان کی کتابوں میں آپﷺ کی ایک صفت نبی القبلتین کا بیان ہوا تھا ،اس لئے جب آپﷺ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑہیں گے، تو انہیں اپنی صحف کی پیش گوئی سچی نظر آئیگی اور یوں یہود آپﷺ کو وہ نبی ماننے پر آمادہ ہو سکتے تھے ،جن کی خوشخبری ان کی الہامی کتب میں بار بار بیان ہوئی تھی۔

۲۔عمومی طور پر یہود کا گمان تھا کہ ’’نبی مبشر‘‘ان میں سے ہوگا ،لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ نبی تو بنی اسماعیل میں سے آیا تو انہیں مختلف وجوہ کی بنا پر آپﷺ کو ماننے میں تامل ہوا اور وہ آپﷺ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے،تو اس موقع پر تحویلِ قبلہ کا حکم آیا تا کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہو کہ یہ پیغمبر اگرچہ بنی اسماعیل میں سے ہے ،لیکن پچھلے انبیاء کے تبرکات اور مقدس مقامات کا احترام بھی ان کے مشن کا مقصد ہے۔گویا یہ نبی ایک اعتبار سے سابقہ انبیاء کے مشن کی تکمیل ہی کے لئے آیا ہے۔اس طرح سے ان کاوہ بغض کافی حد تک کم ہو سکتا تھا،جس کا وہ ہر موقع پر اظہار کرتے تھے اور وہ مشرکین کی بجائے مسلمانوں کے قریب ہو سکتے تھے اور یہی اس حکم کے مقاصد میں سے ایک مقصد تھا۔اب اس حکم کی مختلف حیثیتیں ہو گئیں۔

۱۔آپﷺ کو نبی القبلتین کا تاج پہناناکہ دنیا کے دو مقدس گھر جو پہلے انبیاء میں تقسیم ہوئے تھے ،اب یہ آخری نبیﷺان دونوں گھروں کے وارث اور والی ہیں۔اور ظاہر یہ ایک ایسی خصوصیت ہے ،جو گزشتہ تمام انبیاء میں سے کسی کو نہیں ملی تھی۔ا ور اس کے ضمن میں اس امت کی فضیلت اور اس کا خیر الامم ہونا بالکل واضح ہے۔کہ دنیا کے دو مقدس گھر اس امت کیلئے اللہ نے قبلہ بنا یااور انہیں ان دونوں کا ذمہ دار بنایا، حالانکہ اس سے پہلے یہ خصوصیت کسی امت کو نہیں ملی تھی۔چنانچہ اس واقعے کے نتیجے میں اس امت کا خیر الامم کے منصب پر فائز ہونا اللہ تعالی نے ’’صراحۃً‘‘بیان کیا:

وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا

وسطاً کاایک مطلب مفسرین نے جہاں معتدل اور افراط وتفریط سے پاک بیان کیا ہے ،وہاں اس کا مطلب ’’خیر‘‘یعنی بہترین بھی اس کا مطلب بیان کیا ہے ،امام رازی و علامہ زمخشری ؒ نے اس دوسرے مطلب کو مختلف وجوہ کی بنا پر راجح قرار دیا ،کیونکہ خیر کے اندر اعتدال والا معنی خود بخود آگیا۔(۳۸)

۲۔اس واقعے سے یہود کو اسلام کے قریب کرنا تھا ،مذکورہ واقعے سے تالیفِ یہود کا مقصد کیونکر حاصل ہو ا ،اس کو ہم پیچھے ذ کر کر چکے ہیں ۔

۳۔کمزور ایمان والے مسلمانوں اور منافقین کا امتحان لینا مقصد تھا کہ وہ پختہ مسلمانوں کی طرح اس حکم کی اتباع کرتے ہیں یا وہ اس پر گوناگوں اعتراضات و شبہات کرتے ہیں ،کیونکہ یہ واقعہ اسلام میں نسخ کے ابتدائی واقعات میں سے ہے۔الا لنعلم من یتبع الرسول سے اس حکمت کی طرف بھی اشارہ ہے۔

آنجناب کے ’’اعتراضات‘‘

۱۔ آنجناب نے اس پر ایک تو وہی ’’صراحت ‘‘والا ’’پرانا ‘‘اعتراض کیا ، لیکن ظاہر ہے کہ جب اس واقعے کے نتیجے میں اللہ تعا لی نے اس امت کو خیر امت کا لقب دیا،تو اس حکمت کی طرف ایک اعتبار سے ’’صریح‘‘اشارہ ہوگیا ۔ذوق والوں پر اس کی’’ صراحت‘‘ مخفی نہیں ہے۔

۲۔آنجناب نے ایک ’’عجیب ‘‘اعتراض یہ بھی کیا ہے کہ اگر اس واقعے سے مسجدِ اقصی کی تولیت امتِ مسلمہ کے پاس آگئی تو ان کی تالیف کا مقصد کیونکر حاصل ہوگا،کیونکہ اس سے تو آنجناب کے بقول انہیں اشتعال میں آنا چاہئے ،کہ ان کا قبلہ ان سے چھین لیا گیا۔گویا آنجناب کے نزدیک اس واقعے سے تولیت کی منسوخی اور یہود کی تالیفِ قلب دونوں اخذ کرنا ایک قسم کا تعارض ہے۔لیکن آنجناب کو یہ تضاد دو وجہ سے پیش آرہا ہے:

۱۔آنجناب تحویلِ قبلہ کے اس واقعے کو تولیت کا ’’باقاعدہ اعلان‘‘بنا رہے ہیں ،حالانکہ ہم کئی با ر کہہ چکے ہیں کہ یہ باقاعدہ اعلانات اور دلائل نہیں ہیں ،بلکہ یہ تو حقِ تولیت کے مظاہر ہیں ۔حقِ تولیت کی اصل دلیل تو اللہ کا وہ ضابطہ اور خاص ’’سنت‘‘ہے،جو ان مقاماتِ مقدسہ کے بارے میں تمام ادیانِ سماویہ میں مسلم ہے ۔نیز یہ سنت ’’قولی اعلانات‘‘ کی بجائے عام طور پر ’’فعلی ‘‘شکل میں ظاہر ہوتی ہے ،(اگرچہ کتبِ سماویہ میں اس ضابطے کا اعلان بھی مختلف مواقع پر کیا گیا،جیسے ہم ماقبل میں تورات اور قرآن پاک کے حوالے سے دونوں مقدس مقامات کے بارے میں اس سنت کا ذکر کر چکے ہیں )یعنی کہ ان مقدس مقامات پر اللہ تعا لی اہلِ حق کو غلبہ دے دیتے ہیں ۔چنانچہ مسجدِ حرام پر اللہ تعالی نے اس امت کو فتحِ مکہ کی شکل میں تولیت عطا کی ،حا لانکہ آنجناب کا ’’مفروضہ اعلان ‘‘توایک سال بعد ۹ھ میں کیا گیا۔جبکہ مسجدِ اقصی پر تولیت کی آپﷺ نے باقاعدہ خوشخبری دی اور یہ خوشخبری حضرتِ عمرؓ کے ہاتھوں پوری ہوئی اور ان کے دور میں اس مقدس مقام کی تولیت بھی اس امت کے پاس آگئی۔

۲۔آنجناب نے یہاں اس حکم کی مختلف گروہوں کے اعتبار سے مختلف حیثیتوں کے ’’خلط ‘‘کر دیا ،اس لئے آنجناب کو تضاد نظر آیا۔گویا حیثیت کی قید کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آنجناب کو تعارض نظر آیا۔اس حکم کی حیثیت یہودیوں کے اعتبار سے تالیفِ قلب تھی ،منافقین اور کمزور ایمان والوں کے اعتبار سے ابتلاء و آزمائش کی تھی اور پختہ اور حقیقی ایمان کے حامل آپﷺ کے سچے متبعین کے اعتبار سے انہیں اس مقدس گھر کا ذمہ دار بنا کر انہیں خیر امت کے منصب پر فائز کرنا تھا (اگرچہ اس کا ظہور کئی سال بعد حضرتِ عمر کے دور میں ہوا)اس کی مثال بالکل یوں ہے کہ قرآن پاک کی حیثیت مومنین کے اعتبار سے ذریعہ رحمت ہے اور کفار کے اعتبار سے ذریعہ ضلالت ہے ، جیسا کہ خودقرآن پاک نے اپنی یہ مختلف حیثیات بیان کی ہیں (۳۹)تو آنجناب اس ’’تعارض ‘‘ کے بارے میں کیا کہیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ تضاد چودہ سو سالہ تاریخ میں صرف آنجناب کو نظر آیا ،سلف سے اعراض کر کے ،صرف عقل اور محض عقل کو بنیاد بنا کر شرعی نصوص کی تفسیر کرنے سے ایسے تضادات پیش آجایا کرتے ہیں ۔

۳۔آنجناب نے یہود کے حقِ تولیت کے باقی رہنے میں اس سے بھی ’’استدلال‘‘کیا ہے کہ اللہ تعالی نے خود قرآن پاک میں ’’قبلتہم‘‘ کا لفظ کہہ کر گویا یہود کے اس مقدس مقام پر تولیت کی ’’توثیق ‘‘کر دی کیونکہ آنجناب کے بقول تنسیخِ تولیت کے مبحث میں یہ نسبت موزوں معلوم نہیں ہوتی ۔اس’’شاہکار استنباط ‘‘پر ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ آنجناب صرف اس سوال کا جواب دیں کہ اگر مسجدِ اقصی کو یہود کا صرف قبلہ ’’کہنا‘‘(وہ بھی ان کے زعم کے مطابق) ان کے حقِ تولیت کے باقی رہنے کی ’’دلیل ‘‘ہے، تو مسلمانوں کے لئے تو اللہ تعا لی نے اس مقام کو باقا عدہ شرعی حکم کے تحت قبلہ ڈیڑھ سال تک ’’بنایا‘‘کیایہ مسلمانوں کے حقِ تولیت کے لئے موئید نہیں ہے؟تعجب ہے کہ ایک فریق کے لئے صرف قبلہ ’’کہنے ‘‘سے تو حقِ تولیت ثابت ہوتی ہو اور دوسرے فریق کے لئے اسے باقا عدہ قبلہ ’’بنانے ‘‘سے ان کے حقِ تولیت کا اشارہ تک نہ بنتا ہو۔چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں:

’’ہم فی الواقع نہیں سمجھ سکے کہ اس پسِ منظر کے ساتھ مسجدِ اقصی کو عارضی طور پر مسلمانوں کا قبلہ مقررکرنے کے اس حکم کودلالت کی کونسی قسم کے تحت مستقل تولیت کا پروانہ قرار دیا جاسکتا ہے‘‘

ہم بھی ’’بجوابِ آن غزل ‘‘کہتے ہیں :

’’ہم فی الواقع نہیں سمجھ سکے کہ اس پسِ منظر کے ساتھ مسجدِ اقصی کو صرف یہود کا قبلہ کہنے سے دلالت کی کونسی قسم کے تحت اس مغضوبِ علیہم قوم کو اللہ کا یہ مقدس و مطہر گھر مستقل طور پر دینے کا پروانہ قرار دیا جا سکتا ہے‘‘


حواشی:

۱۔ملاحظہ ہو آنجناب کا مضمون :مسجدِ اقصی کی بحث اور حافظ محمد زبیر کے اعتراضات(ماہنامہ الشریعہ مارچ ۲۰۰۷)

۲۔بخاری شریف ،۴؍۱۴۶رقم الحدیث ۳۳۶۶ ۔مراد وہ حدیث ہے ،جس میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا عرصہ بیان ہوا ہے۔

۳۔سنن نسائی ،باب فضل المسجد الاقصی رقم الحدیث ۶۹۲ ۔ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے ،جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیرِِ بیت المقدس کا ذکر ہے۔

۴۔الکامل فی التاریخ ۱؍۱۷۳

۵۔فتح الباری ،۳؍۶۵

۶۔بخاری شریف ،۲؍۶۰ رقم الحدیث ۱۱۸۹

۷۔بخاری ،رقم الحدیث ۳۳۶۶

۸۔سنن ابن ماجہ،الصلاۃ فی المسجد الجامع رقم الحدیث ۱۴۱۳

۹۔بدائع الصنائع ،باب الا عتکاف ؍۱۱۳ ، باب مکان الاحرام ۲؍۱۶۴

۱۰۔فتح الباری ۳؍۶۵

۱۱۔ملاحظہ ہو ،معجم ما الف فی فضائل و تاریخ المسجد الا قصی 

۱۲۔براہین ص۲۴۰

۱۳۔روح المعانی ،۶؍۱۰۶

۱۴۔تفسیر القرطبی ،۷؍۳۹۷

۱۵۔زاد المعاد ،۳؍۴۹۴

۱۶۔الا صابہ ،۴؍۲۲۰

۱۷۔روح المعانی ،۱۰؍۷۶

۱۸۔تفسیر القرطبی ،۱۰ ؍۱۵۴

۱۹۔روح المعانی ،۱۰؍۶۴

۲۰۔تفسیر طبری ،۱۴؍۱۶۸

۲۱۔ابن کثیر ،۷؍۱۷۳

۲۲۔مسند احمد ۳۳؍۳۴۹

۲۳۔ایضاً

۲۴۔بدائع ،۲؍۱۶۴

۲۵۔فتح الباری۳؍۶۵

۲۶۔البدایہ و النہایہ ،۹؍۶۵۵

۲۸۔معارف القران ،۵؍۴۵۱

۲۹۔تفسیرِ کبیر ،۲۰؍۱۶۱

۳۰۔تفسیر طبری ،۱۴؍۵۰۶

۳۱۔تفسیرِ ابنِ ابی حاتم ،۴؍۲۲۱

۳۲۔تفسیر ابن کثیر ،۸؍۴۴۰

۳۳۔روح المعانی ،۱۵؍۲۱

۳۴۔تفسیر قرطبی ،۱۳؍۲۳

۳۵۔معالم التنزیل ،۵؍۸۰

۳۶۔تاویلات اہلِ السنہ ،۷؍۸

۳۷۔روح المعانی ،۲؍ ۱۰

۳۸۔تفسیرِ کبیر،۴؍ ۱۰۸

۳۹۔البقرہ آیت ۲۶

آراء و افکار

(ستمبر ۲۰۱۴ء)

تلاش

Flag Counter