تعارف و تبصرہ

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

’’اظہارِ دین‘‘

مصنف: مولانا وحید الدین خاں  

ناشر: 1 نظام الدین ویسٹ نئی دہلی گڈورڈ بکس 110013

صفحات : 719

مولانا وحید الدین خان ہمارے دور کے ایک صاحب طرز ادیب ، انشاء پرداز اور صاحب اسلوب مفکر و مصنف اورداعئ دین ہیں۔ مولانا کی سب سے بڑی خصوصیت مغرب کا وسیع مطالعہ ہے جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ بدقسمتی سے مولانامسلمانوں کے در میان بعض سیاسی اسباب سے ایک متنازعہ شخص بنے رہے ہیں تاہم ان کے قلم کی تازگی، طبع کی جولانی اور عصری اسلوب میں مضامین تازہ کی آمدمیں کوئی کلام نہیں ۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ ان کے حلقہ میں یہ احساس بڑھاہے کہ مولانا کی متفرق ومنتشر تحریروں کومتعینہ موضوعات کے تحت یک جا کردیا جائے اور حتی الامکان نزاعی بحثوں کو نہ چھیڑا جا ئے ۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں پہلے کتاب معرفت آئی اوراب اسی سلسلہ کی دوسری کڑی اظہار دین کے نام سے شائع کی گئی ہے ۔ ان دونوں کتابوں کومیری معلومات کے مطابق مولانا کے معاون خاص مولانا محمد ذکوان ندوی نے جمع کیاہے۔ اظہارِدین دراصل عصری اسلوب میں اسلام کا علمی وفکری مطالعہ ہے۔ یہ کتاب تین ابواب میں منقسم ہے ۔پہلا باب خد ا کی طرف: جدید سائنس کی روشنی میں خدا کے وجود کا اثبات ہے۔ دوسرا باب اسلام اور عصرحاضر ہے۔ اس میں مصنف نے فکرمغرب کی وضاحت کی ہے ساتھ ہی قرآن کا تصورِتاریخ کیا ہے اس سے بھی بحث کی ہے۔ تیسرا باب اسلام اکیسویں صدی میں مختلف عنوانات کے تحت داعیان دین کے لیے لائحہ عمل اور طریقۂ کار کی رہنمائی ہے ۔ خود مولانا کے اپنے الفاظ میں یہ کتاب’’ اسلامی تعلیمات کی عقلی تببین Rational Interpretationکے پہلو سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ اسلام کی اصل آئڈیا لوجی کو اس طرح واضح کیاجائے کہ وہ آج کے ذہن کے لیے قابل فہم Understandable بن سکے۔‘‘(آغازکلام)۔

سائنس اورالحاد ،جدید الحادایک تجزیہ، دورشرک اور دور الحاد ، دورسائنس اور مذہب، حیاتیاتی ارتقا کا نظریہ، گاڈ پارٹیکل، مذہب اور سائنس ، اسلام اور جدید مغربی تہذیب مغربی کلچر، ماڈرن ایج اور اسلام، انسانی تاریخ کی تعبیر ، قرآن کا تصورِ تاریخ، فکری مستوی کے مطابق خطاب، عصری تقاضے چند قابلِ غورپہلو،تخلیق انسانی کا مقصد ، خلافت کا تصور، قیامت کے دروازے پر، تاریخ انسانی کا خاتمہ اور زندگی کا مقصدوغیرہ اس کتاب کے بڑے اہم مباحث ہیں ۔ ایک بحث میں مصنف نے بتایاہے کہ تاریخ انسانی میں دوعظیم فکری انقلابات آئیں گے جن میں پہلا انقلاب صحابہ کرام سے تعلق رکھتاہے جبکہ دوسرے انقلاب کو مصنف اخوان رسول کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ۔اس تقسیم کی بازگشت مولانا کی نئی تحریروں میں باربار ہورہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس حدیث سے اس سلسلہ میں استدلال کیاجارہاہے وہ سادہ معنوں میں صحابہ کے بعد آنے والے سبھی لوگوں کو اخوان کے لفظ سے تعبیر کرتی ہے۔جس میں تابعین وتبع تابعین بھی آجاتے ہیں۔ اس میں کسی خاص گروہ کو کوئی خاص رول دینے کی بات کہیں نہیں کہی گئی ہے۔پھر اسلامی تاریخ کو دودوروں اصحابِ رسول اور اخوان رسول میں کیونکر تقسیم کیاجاسکتاہے؟

مولاناوحیدالدین خاں کے نزدیک جدیدتہذیب کے تین پہلوہیں۔ ۱۔جدیدسائنسی دریافتیں:یہ ان کے نزدیک اسلام سے مطابقت رکھتی ہیں۔۲۔جدیدکلچر:جس میں بعض چیز یں اسلام سے مطابقت رکھتی ہیں مثلا آزادی اظہاررائے اوربعض اس سے مغایرہیں مثال کے طورپرعریانیت وفحاشی ۳۔جدیدفلسفیانہ افکار :مثلا ڈاورن کا فلسفہ ارتقاء ۔مولانااس تیسرے پہلویعنی فلسفیانہ افکارکوکلیۃً مستردکرتے ہیں۔ارتقاء کا نظریہ ان کے نزدیک مغالطوں پرمبنی ہے اورقطعی طورپرغیرسائنسی نظریہ ہے ۔ جدیدکلچرکی غیراسلامی چیز وں کومصنف مسترد کرتے ہیں لیکن نمبرایک یعنی سائنسی دریافتوں کووہ قبول کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو صفحہ 288تا292)۔

یہ بھی واضح رہے کہ سائنس سے مرادمولاناکی نظریاتی سائنس ہے جس کووہ کہتے ہیں کہ: ’’نظریاتی سائنس کامل طورپر معرفت کی سائنس ہے ‘‘جس میں آج کوئی کام نہیں ہورہاہے ۔بیسویں صدی میں اس سائنس میں قابل ذکرپیش رفت ڈاکٹر عبدالسلام 1926-1996 اور سرجمیس جینز 1877- 1946نے کی تھی ۔ ڈاکٹر عبدا لسلام سے پہلے فزکس اورطبیعات کی دنیامیں سائنس دانوں نے یہ مان لیاتھاکہ چارطاقتیں ہیں جوکائنات کوکنٹرول کرتی ہیں ۔ یوں گویا خداکی ضرورت ان سائنس دانوں کی نظرمیں نہیں رہ گئی تھی ۔ مگر ڈاکٹر عبدالسلام نے ’’خالص ریاضیاتی بنیادپر یہ ثابت کیاکہ کائنات کوکنٹرول کرنے والی طاقتیں چارنہیں تین ہیں اسی تحقیق پر ان کونوبل پرائزدیاگیا‘‘۔اوراس کے بعد نظریاتی سائنس میں سب سے بڑاکارنامہ برطانوی سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ 1942) کا ہے جس نے اپنیsingle string theory کے ذریعہ گو یا توحید کوپوری طرح ثابت کردیاہے ۔اس نے بتایاہے کہ ایک ہی قوت ہے جوپوری کائنات کوکنٹرول کرتی ہے ۔ ( صفحہ : 102 )سائنس کی دوسری قسم عملی یا ٹیکنیکل سائنس ہے جس کوانطباقی applied scienceبھی کہتے ہیں اورجوآج دنیامیں ساری ٹیکنالوجی کی ترقیوں کی بنیاد،جدیدمشینی تہذیب کی جنم داتااورسارے شروفسادکی جڑہے۔ ماننزم یا وحدت الوجود(ادویت واد)اورآواگون ( Cycle of life )پر بھی مولانانے مختصرطورپر کلام کیاہے۔ اس کے علاوہ موجودہ مغرب دور میں مقبول تصور انسانی پر وری پر بھی گفتگو کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نظریہ ہیومن ازم کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دنیامیں انسان ہی سب کچھ ہے انسان کے اوپر کوئی اورطاقت موجودنہیں ۔ہیومن ازم کے نظریہ کواس طرح بیان کیاجاتاہے سیٹ کی منتقلی خداسے انسان کی طرف (Transfe of seat from God to man)۔ان نظریات کوانہوں نے مؤثراورطاقت وردلائل سے ردکیاہے۔ (دیکھیں صفحہ 184-185 )

اس کتاب میں مختلف عنوانات کے تحت جدید فکر ، جدیدسائنس اورجدید مادی افکارپر مولانانے روشنی ڈالی ہے۔اورخذماصفااوردع ماکدرکے اصول پرعمل کرتے ہوئے مفیدچیزوں کولے لیاہے اور مضر چیزوں کو مسترد کیا ہے ۔اس لیے اسلامی علوم کے طلبہ ،علماء کرام اورداعیان دین کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفیدثابت ہوگا ۔ اس کتاب سے وہ جدیدتہذیب اور مغربی فکرسے اچھی طرح واقف ہوجائیں گے اوراس کے مفید ومضر دونوں پہلوؤں سے ان کوآگاہی حاصل ہوگی ۔مولانانے لکھاہے کہ جدیدالحادکے پیچھے یوں توبہت سے اذہان کام کررہے ہیں لیکن بنیادی طورپر چارمفکرین کواس میں خاص اہمیت حاصل ہے۔وہ چارہیں : آئزاک نیوٹن ، چارلس ڈارون ، سگمند فرائڈ اورکارل مارکس،مولانانے ان چاروں اوران کے نظریات کے بارے میں مختصر اور جامع طورپر جوکچھ لکھ دیاہے وہ بصیرت افروز ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتاہے (ملاحظہ ہوصفحہ 95-99)۔ان کے بارے میں مولانامزیدلکھتے ہیں:

’’وہ چیز جس کوجدیدفکرmodern thoughtکہاجاتاہے اس کے چارنظریاتی ستون ہیں ۔یہ چارنظریاتی ستون خالص علمی اعتبارسے ابھی تک غیرثابت شدہ ہیں لیکن یہی چارنظریات دنیاکے ذہن پر چھائے ہوئے ہیں دنیاکی بیشترآبادی کے لیے یہ چارنظریات گویاسیکولرعقیدہ Secular belief کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔۔ان میں سے ایک نظریاتی ستون وہ ہے جس کونظریہ ارتقاء evolution theory کہاجاتاہے جس کے تحت موجودہ زمانہ میں تمام حیاتیاتی مظاہرکی توجیہ کی جاتی ہے ۔۔۔دوسرانظریاتی ستون وہ ہے جس کواصول تعلیل principle of causationکہاجاتاہے اورجس کے تحت تمام طبیعی واقعات کی توجیہ کی جاتی ہے۔۔۔۔تیسرانظریاتی ستون وہ ہے جس میں انسانی شخصیت کی توجیہ خواہش کی بنیادپر کی جاتی ہے یعنی مبنی برخواہش فکرdesire-based thinking۔اس نظریہ کے مطابق انسان کے اندرجوخواہش ہے، وہ اس کی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے ۔۔۔چوتھانظریاتی ستون وہ ہے جوکارل مارکس کے افکارپر مبنی ہے۔ اس کے نظریاتی ستون کومیں اپنے الفاظ میں مبنی برنظام فکر system- based thinkingکہوں گا‘‘(صفحہ 608باختصار)

مولانانے لکھاہے :یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پوری تاریخ میں بے خبری کے اندھیروں میں بھٹکتارہاہے۔ انسان کی اس بے خبری کوتین عنوان کے تحت بیان کیاجاسکتاہے : 

۱۔آئیڈیل ازم Idealism

۲۔بہیویرازمBehaviourism

۳۔یوٹلٹیرین ازم(افادیت) Utili tarionism مؤخرالذکرکوآسان لفظوں میں کھاؤپیواورخوش رہوکہا جاسکتاہے جس کی ترجمانی بابرنے یوں کی تھی کہ :بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ۔اس کے بعدانہوں نے جامع ومرکز انداز میں ان تینوں چیزوں کوانسانی تاریخ کے تناظرمیں جائزہ لیاہے ۔

عقل ووحی کے بارے میں مولانانے ایک بڑی خوبصورت بات کہی ہے: ’’عقل reasonاوروحی revelationکوایک دوسرے کا حریف بتانابلاشبہ ایک غلطی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ وحی ایک مستقل ذریعۂ علم ہے جبکہ عقل بذات خود کوئی ذریعۂ علم نہیں ۔خودوحی کی صحت پر جب کوئی شخص یقین کرلیتاہے تووہ بھی یہی کرتاہے کہ اپنی خدادادعقل کواستعمال کرکے اس پر غورکرتاہے اوریقین کے درجہ میں پہنچ کروہ وحی کی صداقت کودریافت کرتاہے ۔اس اعتبارسے یہ کہنا در ست ہوگاکہ عقل وحی کی مددگارہے نہ کہ وحی کی مدمقابل ‘‘(صفحہ 115)

کتاب میں بعض ان خیالات کا اظہاربھی کیاگیاہے جس میں اہل علم کی دورائیں ہوسکتی ہیں۔ مولاناکے اپنے مخصوص تصوردین اوراصلاح ملت یااحیاء دین اوردعوتِ دین کی جھلکیاں بھی جابجااس میں نظرآتی ہیں، مثلاً مولانا کا کہنا ہے کہ اسلامی حکومت کی اصل ضرورت قرآن کی حفاظت کے لیے تھی اوراس زمانہ میں اس کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے وغیرہ، ان خیالات پر اہل علم کواپنی رائے ظاہرکرنی چاہیے۔

مولانا وحید الدین خاں صاحب کے بارے بہت سے لوگ الزام دیتے ہیں کہ وہ ہمیشہ مغرب کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں، مگرعلی الاطلاق ایسانہیں ہے جیساکہ اس کتاب کے متعددمباحث سے معلوم ہوتاہے اورجس کی طرف اوپر مختصراًاشارہ کیا گیا ہے ۔

راقم نے اس کتاب کو بے حد مفید پایا۔ تاہم ایک کمی جو واضح طورپر محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ اس پوری کتا ب میں کہیں بھی مرتب کتاب جناب مولانا محمد ذکوان ندوی کا نام نہیں ہے ۔کسی علمی وتحقیقی کتاب کے لیے یہ ایک نقص کی بات ہے۔ مرتب ومدون کا نام نہ دینا سراسر جدید اصولِ تصنیف کے خلاف ہے۔مولانا کو بڑی شکایت یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان کا اعتراف نہیں کیا، لیکن خود ان کے ہاں اعتراف تو کجا، چھوٹوں کی حوصلہ افزائی تک نہیں ہوتی۔یا د رہے کہ بین الاقوامی معیار کے جو ناشرین ہیں وہ بھی اکنالجمنٹ کا زبردست اہتمام کرتے ہیں ۔گڈورڈ جیسے بڑے ادارے میں اس چیز کا عدم اہتمام حیرت انگیز ہے۔

تعارف و تبصرہ

(ستمبر ۲۰۱۴ء)

تلاش

Flag Counter