روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں 7 مئی کو شائع ہونے والی ایک دلچسپ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے سرکاری اجتماعات میں مذہبی دعا مانگنے کو درست تسلیم کیا ہے اور عیسائی طریقے پر دعا مانگنے کے خلاف ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نیویارک ریاست کے ٹاؤن ’’گویس‘‘ کی ٹاؤن کونسل کے اجلاسوں میں عیسائی طریقے کے مطابق دعا مانگے جانے کے خلاف دو خواتین نے عدالت میں دعویٰ دائر کیا تو وفاقی اپیل کورٹ نے ان کے حق میں یہ لکھ کر فیصلہ صادر کر دیا کہ ٹاؤن کونسل کے اجلاس میں عیسائی عقیدے کے مطابق دعا مانگنے کا طریقہ در اصل اس کے مذہبی نقطہ نظر کی توثیق کرتا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے 9 میں سے 5 ججوں نے اکثریتی فیصلہ صادر کر کے اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے ٹاؤن کونسل کے اجلاسوں میں عیسائی طریقے کے مطابق دعا مانگنے کو درست عمل قرار دے دیا ہے۔ البتہ چار ججوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا ہے۔ مزید دلچسپی کی بات یہ ہے کہ عیسائی طریقے پر دعا مانگنے کی اجازت دینے والے پانچوں جج عیسائی ہیں، جبکہ اختلاف کرنے والے چاروں جج یہودی ہیں۔ مگر اکثریتی فیصلہ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ نافذ ہوگیا ہے جس سے ریاستی اسمبلیوں کی طرح ٹاؤن کونسلوں کو بھی یہ حق مل گیا ہے کہ وہ کسی ایک مذہب کے مطابق دعا کے ساتھ اپنے اجلاس کا آغاز کر سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے 9 ججوں نے اس فیصلہ میں یہ بات متفقہ طور پر لکھی ہے کہ ’’سرکاری اداروں کو مذہب سے آزاد علاقے قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘ مگر اکثریتی فیصلہ صادر کرنے والے ججوں کا اس کے ساتھ یہ بھی کہنا ہے کہ:
’’رسمی دعا مانگنے کی روایت امریکہ کے قیام کے وقت سے جاری ہے جو اس امر کا اعتراف ہے کہ امریکی اپنے وجود کو حکومت کی اتھارٹی سے کہیں زیادہ بلند اپنے نظریات کے تابع سمجھتے ہیں‘‘۔
یہ رپورٹ پڑھ کر مجھے چند سال قبل واشنگٹن ڈی سی کے نواح میں واقع ایک دینی مرکز ’’دارالہدیٰ‘‘ کی لائبریری میں ہونے والی ایک گفتگو یاد آگئی جس میں چند امریکی دوستوں نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ امریکی معاشرہ میں مذہب کی طرف واپسی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور ہم اس کے بارے میں یہ سوچ رہے ہیں کہ مذہب معاشرے میں دوبارہ اثر و نفوذ کے بعد کہیں سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں دخل اندازی تو شروع نہیں کر دے گا؟ انہوں نے اس کے بارے میں میرا نقطہ نظر دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ اگر تو وہ فی الواقع مذہب ہے تو ضرور کرے گا۔ اس لیے کہ مذہب صرف فرد کی راہ نمائی نہیں کرتا بلکہ سوسائٹی کا راہ نما بھی ہوتا ہے۔ اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ نسل انسانی کی راہ نمائی کے لیے نازل ہونے والی آسمانی تعلیمات میں فرد، خاندان اور سوسائٹی تینوں کے لیے راہ نمائی کا سامان موجود ہے، اور تینوں اس راہ نمائی کے محتاج ہیں۔
اب سے تین سو سال قبل یورپی معاشرے میں مذہب کے نام پر ہونے والے مظالم اور بادشاہت اور جاگیرداری کے جبر کو مذہب کے نام پر فراہم کیے جانے والے جواز کے رد عمل میں مذہب کی حکمرانی سے بغاوت کی جو تحریک شروع ہوئی تھی اور جس نے انقلاب فرانس کے بعد ایک باقاعدہ فلسفہ و نظام کی شکل اختیار کر لی تھی، اس کی بنیاد مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی پر تھی جس نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں لے لیا۔ حتیٰ کہ وہ دنیا کا رائج الوقت سکہ بن گیا۔ لیکن چونکہ مذہب انسانی فطرت کا حصہ ہے اور انسان زندگی کے بیشتر معاملات میں آسمانی تعلیمات کی راہ نمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس لیے مذہب کے معاشرتی کردار سے انحراف کی یہ روایت کم و بیش دو صدیوں تک انسانی معاشرے پر حکمرانی کے بعد اب واپسی کے راستے تلاش کر رہی ہے۔ اور امریکی سپریم کورٹ تک کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ سرکاری اداروں کو مذہب سے آزاد علاقے قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ہمارے خیال میں یہ بحث اب ایک اور دلچسپ مرحلہ میں داخل ہوتی نظر آرہی ہے۔ اب تک یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ریاستی اداروں اور حکومتی اداروں میں سرے سے مذہب کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ سرکاری اور حکومتی اداروں کو معاشرے میں موجود مذاہب میں سے کسی ایک کی طرفداری نہیں کرنی چاہیے اور مذہبی تنازعات میں فریق کا کردار ادا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ چنانچہ امریکی سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے نکات میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے کہ مطلقاً مذہبی دعا منع نہیں ہے۔ لیکن کسی ایک مذہب کے مطابق دعا مانگنے سے اختلاف کیا گیا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے 5 ججوں نے اس اختلاف کو بھی تسلیم نہیں کیا اور کہا ہے کہ کسی ایک مذہب کے طریقے پر دعا مانگنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح یہ بات اس رخ پر مزید آگے بڑھ گئی ہے کہ ریاستی اداروں کو سوسائٹی میں موجود مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کو ترجیح دینے کا حق بھی حاصل ہوگیا ہے۔
ہم ایک عرصہ سے مغربی معاشروں میں مذہبی رجحانات کی واپسی کے عمل کو دیکھ رہے ہیں اور اس میں مسلسل پیش رفت کا مشاہدہ کرتے ہوئے زیر لب یہ بھی گنگناتے جا رہے ہیں کہ:
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
البتہ اس کشمکش کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاں مغربی معاشروں کے رجحانات کا رخ مذہبی اقدار و روایات کی طرف واپس مڑ رہا ہے اور مغرب ’’وجدانیات‘‘ کے نام سے آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہے، وہاں ہمارے مسلم معاشروں کے بہت سے دانش ور ابھی تک سوسائٹی کی اجتماعیت کو مذہبی رجحانات سے ’’نجات‘‘ دلانے کی تگ و دو میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اور جس ’’پتھر‘‘ کو بھاری سمجھ کر صرف چومنے کے بعد مغرب واپسی کے موڈ میں ہے، ہمارے ان دانش وروں نے اسی پتھر کو اٹھا لینے کے عزم کے ساتھ اس کی طرف دوڑ لگا رکھی ہے۔