مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ
مولانا محمد اسلم شیخوپوری سے میرا پہلا تعارف ۔جو غائبانہ تھا اور آخر وقت تک بنیادی طور پر غائبانہ ہی رہا۔ ۹۰ء کی دہائی میں اپنے زمانہ طالب علمی کے اواخر میں ہوا جب ’’ندائے منبر ومحراب‘‘ کے عنوان سے ان کا سلسلہ خطبات منظر عام پر آنا شروع ہوا۔ مجھے تقریر وخطابت سے اور خاص طور پر اس کے مروجہ اسالیب سے طبعی طور پر کبھی مناسبت نہیں رہی، تاہم مولانا شیخوپوری کے سنجیدہ اور بامقصد انداز گفتگو کا ایک اچھا تاثر ذہن پر پڑنا یاد ہے۔ شاید اس زمانے میں اس سلسلے کی کچھ جلدیں بھی نظر سے گزری ہوں۔
۹۰ء کی دہائی میں ہی والد گرامی کے ساتھ پہلی مرتبہ کراچی جانا ہوا تو جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی کے دورے کے موقع پر مولانا شیخوپوری کی زیارت بھی ہوئی جو ان دنوں وہاں استاذ حدیث تھے اور غالباً صحیح مسلم کی تدریس کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا ’’مکتبہ حلیمیہ‘‘ کے نام سے کتابوں کی اشاعت کا بھی ایک چھوٹا سا نظم تھا اور وہ اپنی بعض مطبوعات وقتاً فوقتاً والد گرامی کی خدمت میں بھیجتے رہتے تھے۔ چند سال قبل والد گرامی ہی کی معیت میں کراچی کے ایک سفر میں ہم جامعۃ الرشید میں ٹھہرے اور مفتی ابو لبابہ شاہ منصور، مولانا سید عدنان کاکاخیل اور دیگر حضرات کی پرتکلف میزبانی کا لطف اٹھاتے رہے۔ حسن اتفاق سے ان دونوں مولانا شیخوپوری جامعۃ الرشید میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے تھے اور جامعہ ہی کے رہائشی کوارٹر میں مقیم تھے۔ ہمارے فاضل دوست مولانا احسان الحق تبسم بھی کئی سال سے یہیں تعلیم وتدریس میں مصروف ہیں۔ ایک موقع پر ان کی رہائش گاہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں مولانا شیخوپوری سے بھی مختصر سلام دعا ہوئی جو (پیدائشی معذوری کے باعث) اس وقت وہیل چیئر پر مسجد کی طرف جا رہے تھے۔
ان دو مختصر ملاقاتوں کے علاوہ مولانا کے ساتھ کبھی تفصیلی ملاقات یا تبادلہ خیالات کا موقع میسر نہیں آیا، تاہم غائبانہ تعارف اور سلام وپیغام کا تعلق قائم تھا اور ایک آدھ دفعہ فون پر بھی ان سے بات ہوئی۔ دو تین سال قبل وہ خطبہ جمعہ کے لیے گوجرانوالہ میں کسی جگہ تشریف لائے تو ایک طالب علم کے ذریعے سے سلام بھیجا اور میرے مرتب کردہ خطبہ حجۃ الوداع کے متن کا نسخہ طلب فرمایا جو والد گرامی کے توضیحی محاضرات کے ساتھ الشریعہ اکادمی کی طرف سے شائع ہوا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ طبقہ علماء کی عام روایت کے برخلاف استحقاقاً نہیں بلکہ قیمتاً طلب فرمایا۔
مولانا کے مزاج اور طرز فکر میں ایک خاص بات یہ تھی کہ اکابر دیوبند کے منہج فکر سے پختہ وابستگی کے باوجود ان کے ہاں ’’مسلکیت‘‘ کا وہ سطحی انداز دکھائی نہیں دیتا تھا جس کا تناسب دیوبندی مکتب فکر میں اب خاصا بڑھتا جا رہا ہے، بلکہ طبقاتی ہمدردیاں حاصل کرنے کا سستا ترین نسخہ بنتا جا رہا ہے۔ مولانا شیخوپوری نے اپنی محنت کے لیے درس وتدریس اور عوامی اصلاح کا اور گزشتہ کئی سالوں سے درس قرآن اور مستقل اخباری کالم تحریر کرنے کا میدان منتخب کیا اور بڑے اعتدال اور توازن کے ساتھ دین کا پیغام مثبت انداز میں لوگوں تک پہنچاتے رہے۔
مولانا کے متوازن انداز فکر کا اندازہ دو مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ چند سال قبل انھوں نے ’’درس صحیح مسلم‘‘ کے نام سے جناب مولانا محمد تقی عثمانی کی معروف عربی تصنیف ’’تکملہ فتح الملہم‘‘ کے مباحث کی اردو تلخیص مرتب کی۔ ہمارے ہاں مدارس میں درس حدیث عام طور پر فقہی معرکہ آرائیوں کا عنوان ہوتا ہے اور احناف ہوں یا اہل حدیث، اساتذہ کی تقاریر وتحقیقات کا مطمح نظر ہر حال میں احادیث کی رو سے اپنے فقہی مسلک کی ترجیح ثابت کرنا ہوتا ہے۔ مولانا تقی عثمانی کے ہاں یہ اسلوب نہیں ہے۔ مولانا کی درسی تقاریر کا مجموعہ ’’درس ترمذی‘‘ اس پہلو سے حدیث کے طلبہ کے لیے بہت مفید ہے اور خود میں نے زمانہ طالب علمی میں اس سے بے حد استفادہ کیا ہے۔ مولانا عثمانی کے ہاں وسعت ظرفی کے اس رجحان پر ’’ٹھیٹھ مسلکی‘‘ طبقوں میں زیادہ اطمینان نہیں پایا جاتا اور میں نے بعض حضرات کو یہ تک کہتے ہوئے سنا ہے کہ مولانا تقی عثمانی ’’مسلک کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ خیر، مولانا محمد اسلم شیخوپوری نے ’’درس صحیح مسلم‘‘ کے عنوان سے مولانا عثمانی کی تحقیقات کا ایک بڑا عمدہ اور جامع خلاصہ مرتب کیا تو اس کے مقدمے میں بڑی وضاحت سے لکھا کہ:
’’تکملہ کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا خالص علمی اور تحقیقی انداز ہے جس میں مسلکی تعصب اور مناظرانہ حجت بازی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ الشیخ عثمانی مدظلہم نے کتاب کے مقدمہ میں اپنے والد ماجد مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کے حوالہ سے ایک جملہ لکھا ہے جو حقیقت میںآب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ انھوں نے طلباء کی ایک جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’تم اگر فقہی مذہب کے اعتبار سے حنفی بن جاؤ تو کوئی حرج نہیں، لیکن احادیث نبویہ کو حنفی بنانے کی کبھی کوشش نہ کرنا۔‘‘
حضرت مولف نے اپنے والد ماجد نور اللہ مرقدہ کی اس زریں نصیحت کو تکملہ کے ہر ہر باب میں ملحوظ رکھا ہے اور جہاں کہیں دلائل کے اعتبار سے کسی دوسرے امام کا مسلک قوی نظر آیا ہے توبلا چون وچرا اس کا اظہار کر دیا ہے اور اپنی حنفیت کو اظہار حق میں آڑے نہیں آنے دیا اور ایسا ایک دوجگہ نہیں، متعدد مسائل میں کیا ہے۔‘‘ (ص ۲۶)
مولانا کے علمی وتحقیقی مزاج اور فکری وسعت نظر کی دوسری مثال خود راقم الحروف کے خیالات ورجحانات سے تعلق رکھتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ’’حدود وتعزیرات۔چند اہم مباحث‘‘ کے عنوان سے میری تصنیف منظر عام پر آئی تو میں نے بہت سے دوسرے اہل علم کے علاوہ مولانا شیخوپوری کو بھی اس کا ایک نسخہ بھجوایا۔ اس کتاب میں درج میرے بعض نتائج فکر کے حوالے سے بہت سے حضرات کے شدید رد عمل سے ’الشریعہ‘ کے قارئین بخوبی واقف ہیں۔ تاہم اس پوری فضا میں مولانا شیخوپوری کا تبصرہ حیرت انگیز طور پر بالکل مختلف تھا۔ انھوں نے کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد میرے نام ایک خط تحریر کیا جو ’الشریعہ‘ کے نومبر/دسمبر ۲۰۰۸ء کے شمارے میں چھپ چکا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر اپنی تعریف کے پہلو سے نہیں، بلکہ مولانا مرحوم کے انداز نظر کی وسعت اور توازن کو واضح کرنے کے لیے اسے دوبارہ نقل کر دیا جائے۔ مولانا نے لکھا:
’’برادرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب زید مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی وقیع اور قابل قدر علمی کاوش ’’حدود وتعزیرات‘‘ کے عنوان سے وصول ہوئی۔ اس کتاب کا ہر عنوان اور ہر صفحہ گواہی دیتا ہے کہ آپ نے اخذ واستنباط، محنت اور جستجو کا حق ادا کیا ہے۔ بڑا نازک موضوع تھا جس پر آپ نے قلم اٹھایا مگر مشکل مقامات سے جس طرح آپ دامن بچا کر نکلے ہیں، اس نے صغر سنی کے باوصف علمی حلقوں میں آپ کا قد بہت اونچا کر دیا ہے۔ ’’شاب شیخ‘‘ کی ترکیب بجا طو رپر آپ پر صادق آتی ہے۔ مخدوم ومحترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم خوش نصیب ہیں کہ انھیں آپ جیسا ذہین وفطین اور مطالعہ کا شوقین فرزند عطا ہوا۔
یقیناًآپ کی تحقیق کے بعض نتائج سے اختلاف کیا جائے گا اور اختلاف کرنا بھی چاہیے کہ اختلاف رحمت ہے اور خوب سے خوب تر کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اختلاف، اختلاف ہی رہے، ضد او رخلاف میں تبدیل نہ ہو جائے۔ امید ہے کہ آپ بھی دلائل کی بنیاد پر کیے جانے والے اختلاف کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں گے اور اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کریں گے۔
دعا ہے کہ باری تعالیٰ شرور وفتن سے آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے علم، قلم، زبان اور ذہنی صلاحیتوں سے امت مرحومہ کو بیش از بیش فائدہ پہنچے۔‘‘
مولانا نے میری تعریف میں جو الفاظ درج کیے ہیں، ان کی اہمیت میری نظر میں ثانوی ہے اور بدیہی طور پر وہ حقیقت واقعہ سے زیادہ مولانا کے حسن ظن اور علمی قدر افزائی کے جذبے کی غمازی کرتے ہیں، لیکن اس سے علمی وتحقیقی مباحث کے ضمن میں ان کا جو زاویہ نظر سامنے آتا ہے، وہ ان کے طبقے کے علما میں یقینی طو رپر ایک جنس نایاب ہے۔
مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ کا قتل اس سلسلہ کشت وخوں کی ایک تازہ کڑی ہے جو ہمارے ہاں مذہب، نسل اور قومیت کے نام پر ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ کراچی میں یہ تمام عوامل یکجا ہیں، اس لیے یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ مولانا کے قاتلوں کے نزدیک ان کا جرم سنی ہونا تھا یا دیوبندی یا پنجابی یا اعتدال پسند یا کچھ اور۔ پس منظر جو بھی ہو، نتیجہ بہرحال ایک ہی ہے کہ معاشرہ ایک جید، صاحب کردار، متوازن خیالات ورجحانات کے حامل اور نہایت موثر اور مثبت انداز میں دین کی دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دینے والے ایک عالم دین سے محروم ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہم لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔
مختلف کلامی تعبیرات کی حقیقت اور ان سے استفادہ کی گنجائش
ابو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب الجاحظ (۱۶۳--۲۵۵ھ) دوسری/تیسری صدی ہجری کا ایک باکمال ادیب اور متکلم ہے۔ اس کا شمار معتزلہ کے ائمہ اور کبار میں ہوتا ہے، تاہم اس کی تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف نصوص کی اتباع اور عقل وقیاس کی رعایت کے مابین توازن کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے، بلکہ مختلف ذہنی وفکری سطحوں کی دینی ضروریات کے لحاظ سے اپنے اپنے دائرے میں معتزلہ اور متکلمین کے الگ الگ مناہج کی افادیت کا بھی معترف ہے، چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ: لولا مکان المتکلمین لھلکت العوام من جمیع الامم ولولا مکان المعتزلۃ لھلکت العوام من جمیع النحل (کتاب الحیوان، ص ۷۵۲ وص ۷۹۳، طبع دار الکتاب العربی بیروت، ۲۰۰۸ء)۔ ’’اگر متکلمین نہ ہوتے تو تمام امتوں (یعنی مذاہب) سے تعلق رکھنے والے عوام (یعنی ان کا عقیدۂ وایمان) برباد ہو جاتا اور اگر معتزلہ نہ ہوتے تو (دائرۂ اسلام میں داخل) تمام مذہبی گروہ (یعنی ان کا عقیدۂ وایمان) تباہ ہو جاتا۔‘‘ جاحظ کی مراد یہ ہے کہ متکلمین کے ہاں نصوص سے قریب تر رہنے کے جس منہج کو ترجیح دی گئی ہے، اس میں عوام الناس کی ذہنی سطح کی زیادہ رعایت پائی جاتی ہے اور انھیں دین وایمان سے وابستہ رکھنے کے لیے یہی طریقہ مفید اور موثر ہے، لیکن ایک مختلف ذہنی سطح پر دینی حقائق پر غور وفکر سے مسلمانوں کے جو کلامی فرقے وجود میں آئے ہیں، ان کی تشفی متکلمین کے طریقے سے نہیں ہو سکتی اور ان کے لیے معتزلہ کا طریقہ ہی راہ نجات کا درجہ رکھتا ہے۔
کلامی نوعیت کے بیشتر اختلافات اور نزاعات کی اصل حقیقت یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم دینی وعلمی مصالح کے تناظر میں بوقت ضرورت ایسی تعبیرات سے بھی استفادہ کرتے رہے ہیں جنھیں عام طو رپر ’اہل السنۃ‘ کے منہج سے ہٹا ہوا قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طو رپر قرآن مجید کے ’معجز‘ ہونے کا مطلب اہل سنت کے متکلمین کے نزدیک یہ ہے کہ یہ کلام اپنے اندر داخلی طور پر ایسے کمالات واوصاف رکھتا ہے کہ اس کی نظیر پیش کرنا کسی فرد بشر کے بس میں نہیں۔ اس کے برعکس معتزلہ کا مسلک یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن کے اعجاز کا تعلق داخلی اوصاف سے نہیں، بلکہ اس بات سے ہے کہ اگر کوئی انسان اس کی مثل کلام بنانے کی کوشش کرتا ہے تو فی نفسہ ممکن ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اسے ایسا کرنے سے عاجز کر دیتے ہیں۔ امام رازی نے قرآن کی مختصر سورتوں میں اعجاز کا پہلو واضح کرتے ہوئے اسی تعبیر کی مدد لی ہے۔ ابن کثیرؒ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
وہذہ الطریقۃ وان لم تکن مرضیۃ لان القرآن فی نفسہ معجز لا یستطیع البشر معارضتہ کما قررنا الا انہا تصلح علی سبیل التنزل والمجادلۃ والمنافحۃ عن الحق (تفسیر ابن کثیر، البقرہ، آیت ۲۳، ۲۴)
’’اگرچہ یہ طریقہ پسندیدہ نہیں ہے، کیونکہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ قرآن فی نفسہ معجز ہے اور انسانوں کے لیے اس کی نظیر پیش کرنا ممکن نہیں، تاہم برسبیل تنزل اور حق کا دفاع کرتے ہوئے اس طریقہ استدلال کو اختیار کرنا درست ہے۔‘‘ اسی طرح مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے دروس ترمذی میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ صفات باری تعالیٰ کے بارے میں سلف کا مسلک امرار علی الظاہر اور عدم تاویل تھا (بلکہ ایک خاص دور میں اسے راہ راست اور گمراہی کے مابین امتیاز کی حیثیت حاصل رہی ہے)، تاہم متاخرین نے تاویل کے طریقے کو عوام کی ذہنی سطح کے زیادہ قریب پاتے ہوئے مصلحت کی خاطر اسی مسلک کو اختیار کر لیا۔
مختلف ذہنی سطحوں اور ہر زمانہ کے خاص ذہنی معیارات کے لحاظ سے دینی حقائق ومسائل میں تعبیرات کا یہ تنوع اور اختلاف ہر دور کی دینی ضرورت رہا ہے اور رہے گا، اس لیے دینی علوم کے طلبہ اور اساتذہ کو ذمہ داری کے ساتھ یہ بات گہرائی میں جا کر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان کے ماحول میں ان کے ذہن وفکر کے لیے نامانوس جو دینی تعبیرات پیش کی جا رہی ہیں، ان میں سے کون سی فی الواقع کفر اور الحاد وزندقہ کے دائرے میں آتی ہیں اور کون سی ایسی ہیں جن کا اصل محرک دینی حقائق کو کسی خاص فکری وذہنی سطح کے لیے مانوس بنانا ہے اور جن سے ایک خاص دائرے میں استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
قربانی کے ایام
عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے ایام کے ضمن میں جمہور فقہا کی رائے یہ ہے کہ یہ تین دنوں (یعنی دس، گیارہ اور بارہ ذی الحجہ ) میں ہی کی جا سکتی ہے، جبکہ چوتھے دن کی قربانی معتبر نہیں۔ امام مالک نے اس کی تائید میں سیدنا علی اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے اقوال نقل کیے ہیں (موطا، ۱۰۳۵، ۱۰۳۶) اور عام طور پر اس بحث میں انھی سے استدلال کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں امام ابن ابی شیبہ کی ’المصنف‘ کے مطالعہ کے دوران میں کتاب الحج میں ایک روایت نظر سے گزری جس میں یہی رائے زیادہ صریح الفاظ میں سیدنا عمر سے نقل کی گئی ہے۔ چونکہ ان کا یہ قول قربانی کے ابواب کے بجائے کتاب الحج میں ایک دوسرے مسئلے کے تحت ضمناً نقل ہوا ہے، اس لیے غالباً اہل علم کی اس طرف توجہ نہیں ہو سکی اور متداول علمی مآخذ میں مجھے اس بحث میں سیدنا عمر کے اس قول کا کوئی حوالہ دکھائی نہیں دیا۔ (البتہ برادرم مولانا عبد الجبار سلفی نے بتایا ہے کہ جناب علامہ خالد محمود نے اپنے کسی پرانے مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے۔) یقیناًیہ ایک مسئلہ اجتہادی ہے اور کوئی واضح اور صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے اس میں فقہا کے مابین اختلاف بھی واقع ہوا ہے، تاہم سیدنا عمر کا یہ قول ہمارے خیال میں ترجیحی دلائل میں ایک اہم دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
ماعز بن مالک یا مالک بن ماعز ثقفی کا بیان ہے کہ میرے والد اپنی اور اپنی اہلیہ اور بیٹی کی طرف سے قربانی کرنے کے لیے دو جانور ساتھ لے کر گئے جو ذی المجاز میں ان سے گم ہو گئے۔ جب یوم النحر آیا تو انھوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی۔ سیدنا عمر نے فرمایا کہ :
تربص الیوم وغدا وبعد غد فانما النحر فی ہذہ الثلاثۃ الایام (مصنف ابن ابی شیبہ، ۱۴۶۵۶)
’’آج کا دن اور کل اور پرسوں کا دن انتظار کرو، کیونکہ قربانی انھی تین دنوں میں کی جاتی ہے۔ ‘‘