برصغیر ہند و پاکستان کے مسلمانوں کی صد سالہ سیاست (۵۳۸۱ء تا ۷۴۹۱ء) پر دو اشخاص مکمل طور پر چھائے ہوئے ہیں۔ ایک ہیں لارڈ تھامس میکالے (۰۰۸۱۔۹۵۸۱) اور دوسرے ہیں سر سید احمد خان (۷۱۸۱۔۸۹۸۱)۔ جب انگریز کانگریس کے ذریعے ہندوؤں پر غلبہ پانے میں ناکام رہ گئے تو اُن کی توجہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف مبذول ہو گئی۔ مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنے میں سر سید احمد خان نے انگریزوں کا ہاتھ خوب بٹایا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ہندوؤں کے اثر و رسوخ سے نکالنے کے لیے دو قومی نظریہ پیش کیا۔ سر سید احمد خان کے فلسفہ اور ان کی مسلسل جدوجہد نے ہندی مسلمانوں کو سیاسی آزادی تو دلوا دی مگر انہیں انگریزوں کا ذہنی غلام بنا دیا۔ اُنہوں نے یہ پروگرام ایسی مضبوط لائنوں پر استوار کیا کہ ہم آج تک فرنگیوں کی ذہنی غلامی سے نہ نکل پائے۔
لارڈ میکالے نے ہندوستان میں چار سال (۴۳۸۱ تا ۸۳۸۱) قیام کیا۔ اپنے اس قیام کے بعد جب وہ برطانیہ واپس پہنچا تو اُس نے ہاؤس آف لارڈز میں ۲ فروری ۵۳۸۱ء کو یہ تقریر کی:۔
’’میں نے ہندوستان کے شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک پالکی میں بیٹھ کر سفر کیا ہے۔ اس سفر کے دوران مجھے سارے ہندوستان میں نہ تو کوئی فقیر ملا اور نہ ہی کوئی چور۔ میں نے ہندوستان کے مال و دولت اور اس کے باشندوں کی بے پناہ قابلیت اور اعلیٰ اخلاق کا مشاہدہ کیا۔ میرے خیال میں ہم اس ملک کو کبھی بھی فتح نہ کر سکیں گے۔ اگر ہم نے اس ملک کو فتح کرنا ہے تو ہمیں اس کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑنا پڑے گا جو کہ اس کا روحانی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ چنانچہ میرا مشورہ یہ ہو گا کہ ہم ان کے قدیم نظام تعلیم اور تمدن کو کلی طور پر بدل دیں۔ یہاں تک کہ ہندوستانی یہ محسوس کرنے لگیں کہ غیر ملکیوں کی ثقافت اور اُن کی انگریزی زبان ہماری ثقافت اور زبان سے بہتر ہے۔ اس طرح وہ اپنا وقار، عزت نفس اور ثقافت کو کھو دیں گے۔ جب یہ ہو گا تو ہم اُن کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ڈھال لیں گے اور وہ حقیقتاً ایک غلام قوم بن جائے گی۔‘‘
فرنگیوں کے اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سر سید احمد خان نے ایک بے مثل کردار ادا کیا جس کا اندازہ آپ اُن کے ان خیالات سے لگا سکتے ہیں۔ مندرجہ بالا لارڈ میکالے کی تقریر کے فقط ۴۳ سال بعد سر سید احمد خان علی گڑھ کی سائنٹیفک سوسائٹی کے سیکرٹری کو لنڈن سے اپنے خط مورخہ ۵۱ اکتوبر ۹۶۸۱ء میں رقمطراز ہیں:۔
’’انگریزوں کی خوشامد کئے بغیر، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہندوستان کے باشندے خواہ ان کا تعلق اونچے درجے سے ہو یا نچلے درجے سے، سوداگر اور چھوٹے دوکاندار، پڑھے لکھے اور اَن پڑھ جب اُن کا موازنہ انگریزوں سے اُن کی تعلیم، اخلاق اور حق گوئی میں کریں تو انگریزوں کی قابلیت اور وجاہت کے مقابلے میں ہندوستانیوں کی حالت ایسے ہے جیسے ایک گندے جانور کی۔‘‘
یقین نہیں آتا کہ ہندوستانی قوم صرف ۴۳ سال میں گندگی کے جوہڑ میں گر جائے گی۔ ۵۳۸۱ء میں تو لارڈ میکالے ہندوستانیوں کو ایک نہایت اعلیٰ و ارفع قوم گردانتا ہے جبکہ ہمارے اپنے ممدوح سر سید احمد خان ۹۶۸۱ء میں ان پر ذلت اور خواری کا لیبل لگا رہے ہیں۔ سر سید احمد نے اگر کوئی سیاسی سبق دیا تھا تو وہ یہ تھا کہ مسلمان ہند اپنی زبان اور عمل سے انگریز حکمرانوں کو یہ یقین دلا دیں کہ وہ اُن کی وفادار رعیت ہیں۔ سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزوں کے اطاعت کا سبق دیا۔ اُنہوں نے ہندی مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وہ نوکریوں اور مراعات کے لیے انگریزوں سے التجا کریں، بطور حق نہ مانگیں، جیسے اُن کی زندگی کا مقصد بس ان قلیل مادی مراعات کے سوا اور کچھ بھی نہ ہو۔ سر سید کو انگریزوں اور انگریزی زبان سے اس قدر محبت تھی کہ وہ اپنے سب بچوں کے نام بھی انگریزوں کے ناموں پر رکھنا چاہتے تھے۔ اُن کو افسوس یہ تھا کہ وہ فقط اپنے ایک پوتے، سر راس مسعود، کو ہی انگریزی نام دے سکے۔
حکومت برطانیہ کے سرکاری ریکارڈ پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہندوستان میں انگریز حکمرانوں کی پالیسی ’’تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ پر مبنی تھی۔ وزیر ہند‘ چارلس ووڈ گورنر جنرل‘ لارڈ ایلگلن کو رقمطراز ہیں کہ ’’ہندوستان میں ہماری طاقت کا راز ایک حصے کو دوسرے حصے سے لڑانے میں ہے۔ چنانچہ ہمیں اس حکمت عملی پر قائم رہنا چاہئے۔ تمہیں اپنا پورا زور اس بات پر لگا دینا چاہئے کہ ہندوستانیوں میں کوئی مشترکہ عوامی جذبہ نہ ابھرنے پائے۔‘‘ وزیر ہند جارج ہیملٹن گورنر جنرل لارڈ کرزن کو اپنے 26 مارچ 1886ء مراسلہ میں یہ مشورہ دیتے ہیں ’’کہ تعلیمی درسی کتب اس طرح سے ترتیب دی جائیں کہ وہ دونوں قوموں میں اختلافات کو اجاگر کریں‘‘۔ یہی انگریز حکمرانوں کا تاریخ ہند کو مسخ کرنے کا طریق کار تھا جس میں انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو متحارب کیمپوں میں بانٹ دیا جن کے درمیان کوئی بھی شے مشترک نہ تھی۔ ان کی اسی تقسیم نے بعد میں دو قومی نظریہ کے لیے راستہ صاف کیا۔
یہودی نژاد وائسرائے ہند، لارڈ ریڈنگ وزیر ہند کو اپنے 21 ستمبر 1922ء کے مراسلہ میں رقمطراز ہیں کہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مکمل تفرقہ ڈالنے میں قریب قریب کامیاب ہو گئے ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے میں اُنہیں سر محمد شفیع کی بھرپور اعانت حاصل ہے، جو کہ ایک باوقار مسلمان ہیں۔ بے شک ہندو گماشتے بھی ایسی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ بالآخر برطانوی استعمار اپنی سازش میں پوری طرح کامیاب ہو گیا۔ ہندو مسلم اتحاد قصہ پارینہ بن گیا۔ ہندو مسلم فسادات جگہ جگہ پھوٹ پڑے اور فرقہ وارانہ کشیدگیاں نفرت کے قالب میں ڈھل گئیں۔ بے شک ایک استعماری حکومت ایک محکوم ملک کے اندرونی اتحاد کی خواہشمند نہیں ہو سکتی۔
مقام حیرت ہے کہ کس طرح دس کروڑ جنگجو‘ جہادی مسلمانوں پر مشتمل قوم‘ جس نے آٹھ سو سال تک ہندوستان پر بلا خوف اور بلا شرکت غیرے حکومت کی تھی یکدم ایک خوفزدہ اقلیت میں تبدیل ہو کے رہ گئی۔ بے شک مسلمان ہندوستان میں ایک اقلیت تھے مگر وہ ایک کمزور اقلیت نہ تھے اور ہندوستان کے مارشل شمالی صوبہ جات میں اکثریت میں تھے اور ان کی حیثیت ہندوستانی فوج اور پولیس میں ریڑھ کی ہڈی کی سی تھی۔ کتنی درد ناک بات ہے کہ آج تک ہم سر سید احمد خان کی دی ہوئی عقلی و مادہ پرستانہ تعلیمات کو نہیں بھولے۔ یہ اُنہی کی تعلیمات کا ہی اثر تھا کہ ہم نے اپنی تحریک آزادی کی جدوجہد کی زمام بھی فرنگی پرست اشرافیہ کے طبقے کے حوالے کر دی‘ جو آج تک ہم پر مسلط ہیں اور ہم قیادت کی شمع اصحاب علم و فہم کے حوالے نہیں کر پائے۔
محترم ڈاکٹر اسرار احمد کے بقول ہندوؤں کی عددی اکثریت کا خوف ہی مطالبہ پاکستان کی بنیادی وجہ تھی‘ جبکہ اسلام کے نعروں کی ضروری مگر ثانوی حیثیت تھی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا پاکستان کی بقا ہندوؤں کے خوف اور نفرت اور اسلام کے نعروں پر ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ آج کل نفاذ اسلام کے بلند بانگ نعرے بلند کرنے والے تقریباً سارے کے سارے علما قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ سوال یہ سر اٹھاتا ہے کہ اگر ہندو کا خوف ہی تخلیق پاکستان کی بنیادی وجہ تھا تو پھر مسلمانوں کی ایک کمزور اقلیت کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑنا کہاں کی عقل مندی تھی۔ اسلام کی ابدی حکمت نفرت پر نہیں‘ عالمگیر اخوت انسانی اور محبت کی فراوانی پر مبنی ہے۔
یہی مقصود فطرت ہے‘ یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری‘ محبت کی فراوانی
(بانگ درا)
افغانستان میں وسیع علاقوں پر اتنا لمبا عرصہ قائم رہنے والے قتل و غارت اور دنگا و فساد کے بعد جب ۲۰۰۲ء میں کابل میں لوی60ہ جرگہ منعقد ہوا تو افغان قائدین نے یہ سوال اٹھایا کہ ہمارے ہیرو کون ہیں؟ بے شک ایک زندہ قوم کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اُن کے ہیرو کون ہیں۔ جہاں تک ہمارا اپنا تعلق ہے ہم حقیقت کو پانے سے قاصر رہ جاتے ہیں کیونکہ ہمارا رویہ ظاہر پرستی اور گہرائی میں نہ جانے کا ہے۔ چنانچہ قومی سطح پر ہمیں اپنے ہیروز کا صحیح شعور نہیں ہوتا۔ سر سید احمد خان نے دو قومی نظریہ پر مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور پھر ان کے نئے ملک کو چلانے کے لیے علی گڑھ کے ذریعے ایک بیوروکریسی کا بھی بندوبست کر دیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بیوروکریٹ عموماً سر سید احمد کے مداح ہیں جبکہ اسلام کی طرف مائل عوام انہیں اچھا نہیں سمجھتے۔
قومی اصلاح کے لیے ہمارے ہم وطنوں کے اٹھائے ہوئے پرعزم اقدام بار بار زمینی حقائق کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکے ہیں۔موجودہ حالات میں ایک عام شہری کو شدید پریشانیوں کا سامنا ہے اور وہ بے بسی کے عالم میں کسی نجات دہندہ ، مہدی یامسیحا کے ظہور کا منتظر ہے۔ عسکری قیادت کی لائی ہوئی تبدیلیوں کا پراشتیاق استقبال کرنے کے بعد عوام ہر بار انقلاب کے ظہور سے ناامید ہو کر دل شکستگی اور نفسیاتی پژمردگی کاشکار ہورہے ہیں اور اب تو یہ خطرہ بھی لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں وہ پاکستان سے ہی مایوس نہ ہو جائیں۔
ملک کے اکابرین اور دانشور استحکام پاکستان کے لیے متنوع انواع کی تجویزات اور لائحہ عمل تشکیل کر رہے ہیں۔ آج کل ان میں ایک ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ شاید اس لیے کہ مسائل گمبھیر ہیں اور وقت بہت کم۔ بے شک ان کی یہ کوششیں قابل تحسین ہیں مگر ان سب میں ایک ہی کمی پائی جاتی ہے اور وہ ہے کہ ہمارے سب مصلحین کی توجہ فروعی مسائل اور زمینی مشکلات پر مرکوز رہتی ہے، جبکہ حقیقی مسائل پر کوئی توجہ صرف نہیں کی جاتی۔ شاید اس بنیادی غلطی کی وجہ سے قومی اصلاح کا کوئی لائحہ عمل متوقع نتائج برآمد کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ بقول حضرت سعدیؒ
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
ہماری قوم تعبیر کی دوبنیادی غلطیوں کی وجہ سے پریشان حال ہے اور اسے مسلسل کوشش کے باوجود قومی انحطاط کا کوئی حل نظر نہیں آرہا۔ پہلی تعبیر کی غلطی ہمارے ممدوح سر سید احمد خان سے ہوئی جب انہوں نے قوم رسول ہاشمی کی ترکیب کو اقوام مغرب پر قیاس کرکے اسے زوال سے نکالنے کا جو طریق کار مادہ پرستی ، ملازمتوں کے حصول اور انگریزوں کی رضا جوئی کی شکل میں پیش کیا وہ دور اندیشی اورتاریخ کے عمیق فہم پر مبنی نہ تھا۔
سرسید اور ان کے معاونین کی نیت پر شبہ نہیں کیاجاسکتا لیکن ان کی تحریک کامہلک نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانان ہند اپنے شاندار اور محترم ماضی سے آہستہ آہستہ دور ہوگئے ۔ سرسید احمد کی تعبیر کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے اسباب زوال کی بنیادی حقیقت ، وہن (یعنی دنیا کی محبت اور موت کا ڈر) کو نظر انداز کرکے قوم کی مادی منفعتوں کو مطلوب و مقصود بنالیا اور ان منفعتوں سے عارضی محرومی کو زوال کا حقیقی سبب جان لیا ۔ بے شک ایسے انداز فکر سے مستقل قومی فلا ح کی امید رکھنا خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ سرسید احمد اور ان کے رفقاء کی تربیت یافتہ نسل نے مسلمان ہند کی علمی ، فکری، روحانی اور تمدنی زندگی کی مقتدر روایات کو درخود اعتنا نہ سمجھا بلکہ مادی زندگی کی آسائشوں کو ملی زندگی کے اس قابل قدر تسلسل پر ترجیح دی۔ ان کے نزدیک بقول اکبر الہ آبادی زندگی کی معراج کلر کی کرنے ، ڈبل روٹی کھانے اور خوشی سے پھول جانے میں تھی۔
علی گڑھ نے حالی ، شبلی اورنذیر احمد جیسی نابغہ روزگار شخصیات تو کیا پیدا کرنی تھیں، وہ ان اکابرین کی قائم کردہ روایت کو آگے بڑھانے والے حضرات بھی وجود میں نہ لاسکا۔ ایک اجنبی زبان کے ذریعے تعلیم و تدریس کے فیصلے نے برصغیر کے باشندوں کو ذہنی مرعوبیت اور مغلوبیت کا شکار کرکے ان کی تربیت کے سلسلے میں بڑی حد تک منفی کردار ادا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کا ایک فعال حصہ اپنی شاندار تاریخی روایات سے بے تعلق اور متنفر ہوگیا۔ علی گڑھ تحریک کی ابتداء جس اصلاحی جوش وخروش اور ترقی کے ولولہ سے ہوئی تھی وہ آہستہ آہستہ ظاہری چمک دمک ، دنیوی کامیابی اور زمانہ سازی کے جذبے کے نیچے دبتا چلا گیا۔ علی گڑھ کی تربیت یافتہ نسل نے اسلام کو بھی انگریزی مصنفوں کی کتابوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے ایک ناقص فہمِ دین اور تصوف سے دشمنی ہی اُن کے حصے میں آئیں۔
قوم ابھی اس ضرب شدید سے سنبھلنے نہ پائی تھی کہ ہمارے دینی زعما نے تعبیر کی ایک دوسری دور رس غلطی کر دی۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہمارے آباؤاجداد اور سیاسی و دینی رہنماؤں پر مغربی ترقی و تسلط کا رعب اس قدر تھا کہ وہ اپنی سیاسی نجات کے لیے مغربی طریق کار کو اپنائے ہوئے تھے۔ وہ مغربی انداز فکر بالخصوص نظریہ آئیڈیالوجی سے بہت متاثر تھے‘ جس کے تحت افراد کی تھوڑی سی تعداد نے مختصر سے عرصے میں یورپ کے کئی ایک ملکوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ یہ مغربی ترقی و تسلط کا اثر تھا کہ ہمارے سیاسی‘ علمی اور دینی زعما نے مغربی فکر کو تقریباً کلی طور پر اپنا لیا‘ یہاں تک کہ تاویل کے ذریعے قرآن کے ابدی پیغام کو بھی مغربی فکر کے ہم آہنگ کرنے کی مسلسل کوششیں کی گئیں۔ ان کے مغرب کی طرف فکری جھکاؤ نے ان کو آئیڈیالوجی کی اساس پر غلبہ اسلام کے تصور سے روشناس کروایا۔ یہ اسی سیکولر فکری روایت کا اثر ہے کہ ہمارے دینی زعما اب بھی سسٹم یا نظام کی بات کر رہے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ایک مسلمان کے لیے اس کی باطنی اور ظاہری قوت کا راز تعلق باللہ میں ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر ان کے حکمرانوں کا اللہ کے ساتھ تعلق برحق تھا تو ہر قسم کے سیاسی نظاموں یا اداروں نے اچھے نتائج پیدا کئے اور جب کبھی یہ تعلق ماند پڑ گیا تو کوئی بھی ادارہ بشمول خلافت اچھے نتائج پیدا نہ کر سکا۔
مغرب کے سامراجی غلبہ کے تحت ہم نے زندگی کے ہر شعبہ میں مغربی انداز فکر کو اپنالیا ، جس کے تحت روحانی ترقی کو پس پشت ڈال کر ہم نے مادی ترقی کو ہی مطمح نظر بنالیا۔ اس نظریاتی تغیر (Ideological Shift) نے ہماری قومی زندگی پر بہت دور رس نتائج مرتب کئے۔ مثلًا یہ کہ غلبہ طاقت سے حاصل کیا جاسکتا ہے نہ کہ اخلاق سے۔ نتیجتاً ہماری قوم کی توجہ انسان سازی کے اسلامی طریق کار سے ہٹ کر مغربی نظریات، ابلاغیات (Mass Media) اور عوامی تحریکوں (Mass Movements) پر مرکوز ہوگئی او ر ہمارا مطمح نظر ووٹوں کا حصول جا ٹھہرا۔ شمع سے شمع جلانے کا قدیم فن ختم ہوگیا اور ہمارے دینی زعما اس سوئچ کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے، جس کے دبانے سے ساری کی ساری بتیاں یک لخت جل اٹھیں۔ اس دنیاوی کشمکش میں و ہ اپنے اندر کی بتی بھی جلانا بھول گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے دینی زعما کو باہر کی دنیا تو نہ ملی مگر ان کے اندر کی دنیا برباد ہوکر رہ گئی۔ ہم ظاہری دنیا میں اتنا گم ہوئے کہ اندرکے انسان کو بھول گئے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ پچھلی صدی کے دوران غلبہ اسلام کے نام پر اٹھنے والی کوئی جماعت کسی بھی مسلمان ملک میں کیوں کامیاب نہیں ہوئی۔
ہمارے اکابرین کی اس فکری روش کانتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے مسلمان نظریاتی ، معاشرتی اور روحانی بحران کا شکار ہوگئے، جس سے ہم آزادی کے چونسٹھ سالوں بعد بھی نکل نہ پائے۔ شاید ہمارے دینی اکابرین کو تاریخ کا ایک ازلی سبق یاد نہیں رہا کہ وہ قومیں جو موت سے نہیں ڈرتیں، اللہ انہیں حکمران بنا دیتا ہے اور وہ قومیں جو موت سے ڈرتی ہیں انہیں محکوم۔ دراصل توحید ہی انسانوں کو صحیح معنوں میں آزاد کرتی ہے اور وہن ان کو غلام بنا دیتا ہے۔ جب تک ہم پاکستانی اپنے دلوں کو اس ازلی حق سے آشنا نہ کرلیں گے ، ہم ذہنی غلامی، حلقہ بگوشی، محتاجی، اور اطاعت غیر کے گورکھ دہندوں میں مقید رہیں گے۔ تعبیر کی ان دوبنیادی غلطیوں کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ جب تک ہم تعبیر کی ان دو بنیادی غلطیوں کی بھول بھلیوں سے نہیں نکلیں گے قومی سلامتی اور دینی فضیلت کا راستہ ہماری نظروں سے اوجھل رہے گا۔
پاکستان ایک شدید انحطاط کے دور سے گزر رہا ہے۔ یہ پاکستان کے زیریں طبقات ہی ہیں جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں جبکہ بالائی طبقات عموماً اس کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے اس وطن عزیز میں سیاسی قوت کو مال و زر سمیٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دولت کو سیاسی قوت کے حصول کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور یہ دونوں یعنی سیاسی قوت اور دولت فلاح کی بجائے ظلم کا موجب بنتی ہیں۔ دولت مند اور با اثر افراد قانون شکنی کے باوجود قانون کے محافظ بنے رہتے ہیں۔
ہمارے پاکستانی ہم وطن گو اسلام ہی کو اپنے وطن کی اساس مانتے ہیں، مگر ہندوستان کی مسلم تاریخ سے تقریباً کلی طور پر بے بہرہ ہیں، بلکہ اس کے متعلق ناروا خیالات رکھتے ہیں، جبکہ چاہیے تو تھا یہ کہ وہ استحکام پاکستان کی بنیاد مسلم ہند کی تاریخ کے اعلیٰ شعور پر رکھتے۔ ایک طرف تو بقول علامہ اقبال ’’ شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا۔ ‘‘ (خطبہ الٰہ آباد) تو دوسری طرف مسلمان حکمران اتنے وسیع اور عریض ملک میں آٹھ سو سال پر محیط ایک ایسا کثیر النسل و عقیدہ معاشرہ (Plural Society) قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئے، جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی ۔مسلمانوں کی حکومت کے دو واضح اصول مذہبی آزادی اور معاشرتی انصاف تھے۔ ہندوستان میں اپنی کثیر التعداد رعایا کے ساتھ مسلمان حکمرانوں کا میل جول عدل و انصاف و رواداری اور مروت و شفقت پر مبنی تھا اور ہندو رعایا ان کی مداح اور قدر دان تھی بلکہ ان پر دل و جان سے فدا تھی ۔ اسلامی ریاست کی توسیع اور دفاع میں ہندو رعایا ہر وقت سینہ سپر رہتی اور مسلمان حکمرانوں سے انعام و اکرام پاتی۔ بقول پروفیسر تھامس آرنلڈ اسلام کی تبلیغ جو مسلمانوں کا اہم نصب العین تھا بزور شمشیر نہیں کی گئی تھی۔ تمدنی طور پر مسلمانوں نے ہندوستان کی تہذیب پر نمایاں اثرات مرتب کیے۔ بقول ڈاکٹر تارا چند ’’ یہ بلند مرتبہ لوگ تھے اور یقیناًان کے ساتھ کثیر تعداد میں کم شہرت یافتہ اہل دین تھے جو ہندوستان آئے اور جدوجہد کرتے رہے۔ ‘‘ ہندوستان کے مسلم دور میں ہندی مسلم معاشرہ نے ایک خوشنما شکل اختیار کرلی، جس کا دارومدار اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی پر تھا۔ اس معاشرہ کی تشکیل میں مسلم سول سوسائٹی، جس کے روح رواں مسلمان عالم، فقیہ، فلسفی، صوفی، عارف، شاعر اور ہنر مند تھے، سب نے ایک مرکزی کردار ادا کیا۔
ہندوستان کی جنگ آزادی (۷۵۸۱ء) مغل بادشاہ کے پرچم کے نیچے مسلمانوں اور ہندوؤں نے یکجا ہوکر لڑی تھی۔ ۰۲۹۱ء تک ہندو مسلم آپس میں شیر و شکر تھے۔ اس دور میں قائد اعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ مگر ۰۲۹۱ء کے بعد انگریز حکمرانوں نے انتشار، نفاق اور نفرت و حقارت کی خوب آبیاری کی اور ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔ سر سید احمد خان شروع میں ہندو مسلم اتحاد کے زبردست پرچارک تھے مگر پھر اچانک اُنہوں نے ہندوؤں کی عددی اکثریت کا ہوا کھڑا کر دیا اور مسلمانوں کو خود اعتمادی سے محروم بنانے اور خوف و ہراس کا شکار کرنے پر کمر بستہ ہو گئے۔ سر سید احمد خان کو اس شے کا احساس نہ تھا کہ قوت کا دارومدار تعداد پر نہیں بلکہ کردار اور روحانی طاقت پر ہوتا ہے۔ جنگ آزادی کے جانثاروں کو مطعون ٹھہرانے والے بھی ہمارے ممدوح سرسید احمد خان ہی تھے۔
دور حاضر میں ان دو قوموں کے درمیان محبت اور نفرت کے دریا ساتھ ساتھ بہہ رہے ہیں۔ کسی فرد کے مطمح نظر کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس دریا کے کنارے پر کھڑا ہے۔ دراصل دو قومی نظریہ کی ضرورت ہمیں اس وقت ہوتی ہے جبکہ مسلمان تکثیر میں کمزور عنصر بن کے رہ جائیں اور ان کو یہ خطرہ لاحق ہوجائے کہ وہ اپنے دین کا تحفظ نہ کرپائیں گے یا پھر ان کا دین ان کا تحفظ نہ کرسکے گا۔ پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد فقط دو فیصد ہے، اس لیے اب ہم کو دو قومی نظریہ کی ضرورت نہیں۔ دو قومی نظریہ کے تناظر میں دراصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ مسئلہ زبان و نسل کا نہیں ہے۔ در حقیقت دو قومی نظریہ کی اصل اساس قرآن کریم مہیا کرتا ہے۔ قرآنِ کریم کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی صورت میں دو نظریات حیات پیش کرتا ہے۔ کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے صالح درخت کی ہے، جس کی جڑیں تو زمین کی گہرائی میں ہوں مگر شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہوں اور ہمہ وقت پھل سے لدی ہوئی ہوں۔ اس کے برعکس کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بدذات درخت کی سی ہے، جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا گیا ہو (۴۱:۴۲ تا ۷۲)۔ کلمہ طیبہ (توحید، رسالت اور آخرت) پر ایمان رکھنے والے لوگ، قوم حقہ، کہلاتے ہیں، جبکہ کلمہ خبیثہ (شرک، بے حیائی اور فحاشی) کے پیروکار، قوم باطلہ، قرار دیے جاتے ہیں۔ ان دو جماعتوں کو قرآنِ حمید حزب اللہ (۵:۶۵؛ ۸۵:۲۲) اور حزب الشیطان (۸۵:۹۱) بھی کہتا ہے۔ دراصل دو قومی نظریہ انہی دو قوموں کے درمیان خط تقسیم ہے۔ یہ ایسا خط ہے، جو باپ کو بیٹے سے اور بھائی کو بھائی سے متصادم کرادیتا ہے۔ اس دو قومی نظریہ کے سامنے تو وطن، زبان، جغرافیہ اور تاریخ حتی کہ حسب و نسب بھی ملیا میٹ ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اس پیرائے میں ہمیں اپنے معاشرتی حالات کا بھی محاسبہ کرنا ہوگا کیونکہ قرآنِ کریم سرکشوں کو کبھی معاف نہیں کرتا، خواہ وہ انبیاء کے قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں (ھود :۶۴)۔
ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد وطن پرستی (Nationalism) پر ہے جسے علامہ اقبال مذہب کا کفن قرار دیتے ہیں۔ انسانی وحدت کا مغربی تصور مشترکہ زبان، نسل اور علاقہ پر مبنی ہے۔ جبکہ انسانی وحدت کا اسلامی تصور ایک مشترکہ مطمۂ نظر ہے۔ حضرت علامہ اقبال تا دم آخر دور حاضر کے تین فتنوں وطنی قومیت (Territorial Nationalism) دین و ریاست کی دوئی (Secularism) اور دہریانہ مادہ پرستی (Atheistic Materialism) کے خلاف برسر پیکار رہے۔ یہ تینوں فتنے ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ لادینیت ہی مادیت کی اساس ہے اور مادیت کا وطنی قومیت کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مادیت ہی سے غلبہ بالقوہ کا تصور ابھرتا ہے جو تشدد کو جنم دیتا ہے۔ یہ مادی انداز فکر ہی تھا جس کے باعث اللہ کی مخلوق پر پچھلی صدی میں دو خوفناک جنگیں مسلط کی گئیں۔ جب مادیت زیادہ قوت پکڑتی ہے تو وطن پرستی سے نسل پرستی اور قبیلہ پرستی کی طرف سفر کرتی ہے اور پھر اللہ کی زمین پر ہر طرف فساد برپا ہوجاتا ہے اور وہ عبادت گاہیں جن میں صبح و شام اللہ کا نام لیا جاتا ہے، تباہ و برباد ہوجاتی ہیں (البقرہ:۴۱۱)۔
جنگ و جدل سے مغلوب یورپ کے مقتدر دانشور اور مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی (Arnold Toynbee ) نے ۲۵۹۱ء میں اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ مغربی وطن پرستی کی روایت عالم اسلام کے لیے ایک مشتبہ نعمت ہے۔ ان کے خیال میں عالم اسلام کے لیے یہ بہتر ہوتا کہ وہ مختلف مملکتوں میں بٹ جانے کی بجائے اسلام کی اخوت پر ایک علاقائی ریاست (خلافت) کی ترویج کرتے تو ان کا یہ عمل عالمی اخوت انسانی کے قیام کی طرف ایک مثبت قدم ہوتا، جس کی جوہری اسلحہ کے اس دور میں اشد ضرورت ہے۔
اسی پیرائے میں علامہ اقبال کی فکری کاوش اور قائد اعظم کی سیاسی جدوجہد ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک خطہ ارضی حاصل کرنے تک محدود نہ تھی بلکہ ان کا مطمح نظر اس خطہ زمین کے لیے اسلام کے آفاقی نصب العین کی طرف پیش قدمی تھا۔ مگر پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس طویل عرصے میں اسلام کی آفاقی نصب العین کی طرف پیش رفت تو درکنار، ہم اسلام کا مرحلہ بھی طے نہ کرپائے۔ آج تو حالات اس ڈگر کو پہنچ گئے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ مسجدیں تک محفوظ نہیں رہیں اور اسلام وحدت سازی کے اعتبار سے بے اثر ہوتا جارہا ہے۔ اگر وحدت خیز قوت کی حیثیت سے اسلام پاکستان ہی میں بے اثر رہ گیا تو دنیا میں انسانی اخوت کی ایک عالم گیر تحریک برپا کرنے میں کیا کردار ادا کرسکے گا۔؟
سر سید احمد خان کا مذہبی فکر کمزور تھا جبکہ دنیاوی فکر کے وہ بادشاہ تھے۔ سر سید احمد خان رُوح اور فرشتوں پر یقین نہ رکھتے تھے اور وحی کے متعلق اُن کا علم ناقص تھا۔ سر سید احمد خان مسلمانوں کے لیے ایک کامیاب ریاست کے خواہاں تھے۔ اُن کا مطمح نظر ایک اسلامی ریاست کا قیام نہ تھا۔ قائداعظم بھی مسلمانوں کے لیے ایک کامیاب ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ قائداعظم کے لیے اسلام ایک بنیادی مسئلہ نہ تھا۔ قائداعظم پاکستان کے مسلمانوں کی ایک جدید، جمہوری اور فلاحی ریاست کے آرزومند تھے۔ ایک کٹر رجعت پسند، جہادی ریاست کا تصور ان کے ذہن میں نہ تھا۔ بہرحال قائداعظم ایک سیاست دان تھے اور انہوں نے موقعہ محل کے مطابق کئی باتیں کیں جو شاید ظاہراً متضاد نظر آئیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے اس موضوع پر تمام بیانات اور تقاریر کا تقابلی مطالعہ کر کے کوئی رائے قائم کی جائے۔ اس موقع پر قائداعظم کے قریبی ساتھی امیر محمد خان راجہ محمود آباد کا مضمون ’’چند یادیں‘‘ قابل غور ہے:۔
’’لمبی زندگی اور فکری پختگی سیاسی تحریکوں کے لیے بھی اتنی اہم ہے جتنی کہ انسانوں کے لیے۔ جس تیزی اور تندی کے ساتھ مسلم لیگ کو دس سال کے مختصر عرصہ میں پاکستان کے ہدف کی طرف بڑھنا پڑا اس میں تنظیم کی تطہیر نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ کو اپنی تیز رفت کامیابی کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ اس کی بینڈ گاڑی پر مختلف انواع کے لوگ سوار ہو گئے ان میں سے کچھ لوگ قدامت پسند تھے، جو لیگ کے ترقی پسند پروگرام میں رکاوٹ بنے۔ پھر اس میں جاگیردار اور سرمایہ دار بھی آ گھسے، جنہوں نے قدامت پسند لوگوں کے ہاتھ مضبوط کئے۔ لیگ کی تیز رفتار بینڈ گاڑی پر رجعت پسند لوگ بھی آن سوار ہوئے جن کی فکر ایام خلافت سے آگے نہ بڑھی تھی اور جن کے ذہن میں جدید ریاست کا کوئی تصور نہ تھا۔ ایک گروہ یونیورسٹی لیکچررز کا بھی تھا جو پاکستان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا خواہاں تھا۔ میں (راجہ محمودآباد) بھی اس گروہ سے متاثر تھا۔ میں نے اس سوچ کو اپنی تقاریر میں زور و شور کے ساتھ اجاگر کرنا شروع کر دیا۔ قائداعظم نے لیگ کے پلیٹ فارم سے ان خیالات کے ابلاغ کو پسند نہ فرمایا اور مجھے اس قسم کی تقاریر سے منع فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ مجھے ان خیالات کے اظہار میں قائداعظم کی تائید حاصل ہے۔ میں خیالات کے اس اختلاف کی وجہ سے قائداعظم سے دور ہوتا چلا گیا۔ مگر اب جب میں پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی غلطی کا شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے۔‘‘
پاکستان کے علماء اور دینی اکابرین چونسٹھ سال گزرنے کے بعد فیصلہ نہ کر پائے کہ اسلامی نظام ہے کیا؟ آج بھی اس موضوع پر کوئی محفل سجا لیں پھر دیکھیں ان کا آپس میں دست و گریباں ہو جانا۔ ہمارے علماء کو اس بات کا بھی کچھ شعور نہیں کہ فقہی نظام کی قانونی موشگافیاں اور ان کے پیدا کئے ہوئے مسائل یہودی طرز فکر کی نقل ہیں۔
ہماری خود پسندی، انائیت اور کج فہمی کا ماتم یہ ہے کہ ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ اگر پاکستان میں یہ دین حق قائم نہ ہوا تو کہیں بھی نہیں ہو گا۔ یہ بات بھی کہ پاکستان بنایا ہی اسلامی نظام کے قیام کے لیے تھا، تاریخی طور پر مصدق نہیں ہے۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘‘ مسلم لیگ کا پالیسی بیان نہ تھا بلکہ اس زمانے میں سیالکوٹ کے ایک غیر معروف شاعر، اصغر سودائی کی ایک طویل نظم کا ٹیپ کا مصرعہ تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے جب حضرت قائداعظم سے پوچھا گیا کہ آپ کے نئے ملک میں اسلام کا نقشہ کیا ہو گا؟ تو اس کے باوجود کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں، حریت، اخوت اور مساوات سے کماحقہ آشنا تھے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو آپ کو مسجد کے لیے جگہ لے دی ہے۔ اب قیام پاکستان کے بعد اس کا فیصلہ آپ خود کریں کہ مسجد کا طرز تعمیر کیا ہو گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قائداعظم نے پاکستان کو ہمیشہ مسلمانوں کی ریاست کہا نہ کہ اسلامی ریاست۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت بھی اسلامی ریاست کی نہیں، کامیاب ریاست کی خواہاں ہے۔ ویسے بھی ایک کامیاب ریاست بنائے بغیر اسلامی ریاست نہ بن پائے گی۔
اس مضمون کا مرکزی سوال یہ ہے کہ عالم اسلام میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں آخر کامیاب کیوں نہیں ہو رہیں؟ حالانکہ بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ہند و پاکستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے جدوجہد کے پہاڑ ضائع ہو گئے۔ اب جب کہ پاکستان میں مختلف رنگ کی اسلامی جماعتوں کے سالانہ اجتماعات میں تقریباً 40 لاکھ سرگرم کارکن جمع ہونے لگے ہیں تو وہی سوال پھر ابھر کے سامنے آتا ہے کہ اتنی بڑی اسلامی حرکت کے باوجود ہمارے اس وطن عزیز کے حالات سال بہ سال‘ ماہ بہ ماہ‘ دن بدن بدتر کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ ہماری تبلیغ آخر اتنی بے اثر کیوں ہے؟ ہمارا جہاد رائیگاں کیوں جا رہا ہے؟ آخر کیا کمی ہے جس کی وجہ سے ہمارا مقتدر اسلامی مشن کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہا؟ اللہ جل جلالہ اور رسول عالی مرتبت ﷺ کے نام پر معرض وجود میں آنے والی اس مملکت خداداد میں خاتم الرسل ﷺ کا دین قیم آخر رائج کیوں نہیں ہو پا رہا؟ گزشتہ چونسٹھ سالوں میں کئی ایک بار نفاذ اسلام کی پرجوش تحریکیں اٹھیں مگر سب کی سب یا تو زمینی حقائق کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں یا پھر دینی اکابرین کے ذاتی مفادات کی نذر ہو گئیں۔ دوسرے الفاظ میں نفاذ اسلام کے بلند بانگ نعرے تو لوگوں نے بارہا سنے مگر نتیجہ کچھ بھی نہ دیکھا۔ ان حالات میں پاکستان میں ایک تشویشناک روش دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اور وہ ہے لوگوں کی اسلام سے روز بروز بڑھتی ہوئی بیزاری۔ جب اسلام عوام کے مسائل حل نہ کر پائے گا تو لوگوں کا اس کے بلند بانگ نعروں سے بیزار ہونا ایک قدرتی رد عمل ہو گا۔ دوسری طرف بے مروت‘ رجعت پسند اور متشدد اسلامی تحریکیں لوگوں کو دین سے قریب لانے کی بجائے دور کر رہی ہیں۔ صدیوں پر محیط ناکامیوں کے بعد مسلمان اپنے دین اور اپنے آپ سے بد دل اور ناامید ہو رہے ہیں۔ اس لیے انہیں کوئی تبدیلی کا آسان راستہ بھی بتائے تو وہ یقین نہیں کرتے اور ان کی توجہ آسانیوں کی بجائے مشکلات پر مرکوز رہتی ہے۔
پاکستان کو معرض وجود میں آئے چونسٹھ سال بیت چکے ہیں۔ اس طویل عرصے میں اسلام کے آفاقی نصب العین کی طرف پیش رفت تو درکنار‘ ہم نفاذ اسلام کا مرحلہ بھی نہ طے کر پائے۔ چنانچہ ہم دنیا کو یہ بتانے کے بھی قابل نہیں کہ اسلام‘ اقتصادی اور معاشرتی مسائل‘ جو آج کے انسان کو درپیش ہیں اس طرح حل کرتا ہے۔ عملی مثال کے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی اسلام کے متعلق ہمارے بلند بانگ نعروں پر اعتبار نہیں کرتا۔ آج تو حالات اس ڈگر کو پہنچ گئے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ مسجدیں تک محفوظ نہیں رہیں اور اسلام وحدت سازی کے اعتبار سے بے اثر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر وحدت خیز قوت کی حیثیت سے اسلام پاکستان میں ہی بے اثر رہ گیا تو دنیا میں انسانی اخوت کی ایک عالمگیر تحریک برپا کرنے میں کیا کردار اداکر سکے گا۔ عمومی طور پر قومیت اور مادیت سے مغلوب مسلمان اسلام کی آفاقیت کو صحیح تناظر میں دیکھنے سے قاصر ہیں اور انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ صحیح مسلمان بس ایک روایتی مسلمان ہوتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس پس منظر میں انسان دوستی‘ احترام آدمیت اور ظلم کے خلاف جہاد کے اسلامی نظریات کا علم اب ان قوموں نے اٹھا لیا ہے جن کی وطنی قومیت اور دہریانہ مادہ پرستی نے دنیا میں ہر سو ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔
ہمارے لیے غور و فکرکا ایک نہایت ہی اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ چلیں انگریزی زبان میں تعلیم یافتہ طبقہ کی ناقص تعلیم و تربیت کے لیے تو ہم انگریزوں کو مطعون قرار دے سکتے ہیں لیکن اگر ہمارے مشائخ اور علماء کا کردار ہی قابل ستائش نہ ہو تو اس کے لیے کسے ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ اس سلسلے میں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان میں تقریباً آٹھ سو برس حکمران رہے۔ گو اس طویل دور میں ملک ہمہ وقت اسلام کی درخشاں ہستیوں سے فیض یاب رہا‘ مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی کسی اسلامی جماعت کی داغ بیل نہ ڈالی اور نہ ہی سرفرازی اسلام کے لیے کوئی تحریک چلائی گئی مگر ان علماء‘ فقہا ء اور صوفیاء نے اپنے اخلاق‘ تقویٰ اور بے غرض ایثار کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد وہ آج بھی مسلمانوں کے دلوں کو گرماتی ہیں۔ ہمارے اسلامی اکابرین اسلام کے چلتے پھرتے نمونے ہونے چاہئیں۔ جب ہمارے علماء اور مشائخ ہی طاغوت کا شکار ہو جائیں گے‘ تو ان کے منہ سے دین کی بات دین کو بدنام کرنے کے مترادف ہو گی۔ جب تک کسی تحریک کی داعی قیادت کے کردار اعلیٰ اور ارفع نہ ہوں گے اور ان کی زندگیاں تحریک کے اغراض و مقاصد سے مطابقت نہیں رکھیں گی‘ تو اس وقت تک اس تحریک کی کامیابی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کی اسلامی تحریکوں میں یہ روایت زور پکڑ گئی ہے کہ وہ بندکمروں میں بھی اپنی تعریف ہی کرتے ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کیونکہ وہ ظاہراً اسلامی کام ہی کر رہے ہیں اس لیے انہیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہے‘ جیسے انصاف کا ترازو اللہ کے ہاتھ میں نہیں‘ ان کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ زمینی حقائق تو یہ پتہ دے رہے ہیں کہ وہ اب تک رضوان اللہ کے حصول میں کامیاب نہیں ہوئے ورنہ جب اللہ کی خوشنودی حاصل ہو جائے تو کسی اور کی خوشنودی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
دراصل ہمارے علماء کی خود پرستانہ اور ذاتی مفادات کی طرف مائل تفسیریں اور فقہی ترجیحات موجودہ دور کے بڑے بت ہیں۔ دینی جماعتیں اور فرقے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول عالی مرتبت ﷺ سے زیادہ توجہ اپنے لیڈر یا امیر کو دیتے ہیں۔ ان کے اجتماعوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول عالی مقام ﷺ سے بڑھ کر ذکر ان کے اپنے حضرت یا مولانا کا ہوتا ہے۔ مختلف دینی جماعتوں اور تحریکوں کا یہ رویہ امت مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے۔ اور اصل میں یہی فساد کی جڑ ہے۔ ہر جماعت صرف اپنے آپ کو دین کا سچا محافظ خیال کرتی ہے اور ان جماعتوں کے کارکنوں کا خود ستائی و پارسائی کا مغرورانہ رویہ مسلم عوام کو اپنے دین سے دور کر رہا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ مولانا حضرات امت کو متحارب فرقوں میں بانٹ کر ان ہی میں تفرقہ ختم کرنے کے لیے روز بروز آپس میں ملتے بھی رہتے ہیں۔ شاید ہمارے ایسے ہی زعما کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے ان کو گمراہ کرنے کے لیے میری یہ کتاب ہی کافی ہے (سورۃ ال عمران:7 )۔ ان دینی زعما کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ وہ جو کہتے ہیں‘ وہ کرتے نہیں (سورۃ الصف: 2) اور عوام سے جھوٹے وعدے فرما کے اپنے آپ کو اور اپنے دین کو بدنام کرتے ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں وہ اہداف اور اسباب میں تمیز کرنے سے قاصر رہتے ہیں‘ مثلاً اس دور میں ان کی اولین توجہ ربا کے خاتمے پر مرکوز رہتی ہے حالانکہ ربا کا خاتمہ ان کئی طریقوں میں سے ایک ہے‘ جن کو ایک عدل و مساوات پر مبنی اسلامی معاشرہ کے قیام کے سلسلے میں بروئے کار لانا ہو گا۔
ہماری دینی جماعتوں نے پاکستان کو اس کے مقصود تک نہیں پہنچایا۔ اُن کا واحد کارنامہ قرارداد مقاصد ہے جس کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے۔ دنیا میں اسلام کے مروجہ تین ماڈل کسی بھی صحیح الفکر مسلمان کو قبول نہیں ہیں اور یہ ماڈل ہیں: (۱) طالبان کا ماڈل (۲) ایران کا ماڈل اور (۳) سعودی عرب کا ماڈل۔ ترکی اور ملیشیا کے ماڈلز سیکولر ہیں، اسلامی نہیں۔ بہرحال اگر ہم اسلام کو رائج نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے ملکوں میں کامیاب حکومتیں تو قائم کر لیں۔
اسلام کا مقصد ایک ایسا معاشرہ کی تشکیل ہے جس کے تحت انسان کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کا خوف نہ رہے اور اللہ کے سوا اسے کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی حاجت نہ ہو اور وہ جب حصول رزق کے لیے اپنے گھر سے نکلے تو اس کی اپنی اہلیت و قابلیت کے سوا کوئی اور رکاوٹ اس کے راستے میں حائل نہ ہو۔ اگر اس میں کوئی کمی من جانب اللہ ہو تو ریاست کا نظام احسان وہ کمی پوری کر دے۔ معاشرتی و معاشی نظام ایسا ہو کہ اسے تعلق باللہ کی نشو و نما کے لیے بھی فراغت مل جائے‘ جس کی برکت سے اس میں فقط اپنے حقوق کی بجائے‘ اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کا شعور اجاگر ہو جائے۔
اسلام زمین کے ساتھ انسان کے تعلق کو اتنا اجاگر نہیں کرتا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق ماند پڑ جائے اور وہ دنیا کا ہی ہو کے رہ جائے۔ اسلام رنگ و نسل و زبان اور وطنیت کی نفی کر کے توحید کی بناء پر ایک روحانی الذہن قوم کی تشکیل کا خواہاں ہے۔ اسلام زمین اور خون کے رشتوں کی بجائے انسانی وحدت کو ایک مشترکہ نصب العین‘ عالمگیر اخوت انسانی اور احترام آدمیت کے اصولوں پر استوار کرنا چاہتا ہے۔ حدیث نبویؐ شریف ہے: ’’الخلق عیال اللہ‘‘۔
اسلامی نظام کے اہداف اور ہماری روزمرہ کی زندگی کے درمیان خلیج بہت ہی وسیع ہے۔ نظریاتی دینداری کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم مسلم ہندوستان کی شاندار تاریخ سے کٹ کر بے راہ رو ہو گئے ہیں۔ بنیاد پرست علماء ایسے متن پرست، کٹر اور مجرد اسلام کی تعلیم دیتے ہیں، جس کا کوئی تاریخی پس منظر نہیں۔ نظریاتی نعرہ بازی ہمارے جذبات کو ابھار دیتی ہے، جن کو ہمارا عمومی اخلاق سنبھال نہیں سکتا اور ہمارے نعرے تعمیر کی بجائے تخریب کا باعث بن جاتے ہیں۔
اسلام مادہ پرستی کی بجائے انسانی زندگی کی بنیاد روحانیت‘ تعلق باللہ اور تقویٰ پر رکھتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان پھلے پھولے تو زمین پر مگر اس کی جڑیں آسمان پر ہوں۔ اسلام کا مرکزی سوال یہ ہے کہ انسان کو زمین کی محبت اور مادہ پرستی سے کیسے آزاد کیا جائے؟ آج کے دور کی بے لگام مادہ پرستی کی وجہ سے انسان کے تین بنیادی تعلقات مسخ ہو کے رہ گئے ہیں اور یہ ہیں بندے اور اللہ کے درمیان تعلق‘ انسان اور انسان کے درمیان تعلق اور انسان اور ماحولیات کے درمیان تعلق۔ عموماً ہم ان حیات بخش تعلقات میں اپنے پورے من و تن کے ساتھ داخل نہیں ہوتے بلکہ اپنی ذات کی ایک کسر کے ساتھ ہی یہ مقدس رشتے استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری اس مجہول کوشش کی وجہ سے ہمارا اللہ کے ساتھ رشتہ جزوی‘ انسان کے ساتھ رشتہ مطلبی اور ماحول کے ساتھ استحصالی ہو کے رہ جاتا ہے۔