تمہید
۱۹۵۲ء میں جامع مسجد نور المعروف چھپڑ والی مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس کی ابتدائی تعمیر میں بہت سے لوگوں نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لیا۔ ہر طبقہ اور ہر برادری کے لوگ شریک تھے۔ ہم ان سب کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انھیں اپنے شایان شان اجر عطا فرمائے، آمین یا الٰہ العالمین۔ لیکن اس کے ساتھ ہر ذی شعور اور حالات سے باخبر آدمی یہ بھی جانتا ہے کہ جامع مسجد نور کی تاسیس کا مرکزی کردار ولی کامل، مفسر قرآن،محدث کبیر حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی نور اللہ مرقدہ فاضل دیوبند تھے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کے دو معروف اخبار وجرائد میں کچھ مضامین ایسے طبع ہوئے جن میں اس بات کی نفی کی گئی۔ ان مضامین کی بہت سی بے سروپا باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے بنیادی طو رپر صرف دو باتوں کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ان مضمون نگار حضرات کے مضامین کا خلاصہ یہ تھا کہ:
(۱) مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی ؒ جامع مسجد نور کے بانی نہیں تھے۔
(۲) وہ تو اس جگہ کافی دیر کے بعد تشریف لائے تھے۔
اس موضوع پر گو تاریخی دستاویزات کے حوالے سے تفصیلی کلام بھی کیا جا سکتا ہے، تاہم سردست میں اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے صاحب معاملہ، مفسر قرآنؒ کے بیانات وتحریرات کے چند اقتباسات نقل کر رہا ہوں۔ ان اقتباسات میں کچھ سابقے اور لاحقے بھی ساتھ ہی شامل رہنے دیے ہیں تاکہ ان کے ضمن میں مفسر قرآنؒ کی یاد بھی تازہ ہو جائے۔
احب الصالحین ولست منہم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
جامع مسجد نور کا پس منظر
پاکستان کے معروف صحافی عبد السلام ملک نے ۱۹۷۶ء میں مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی سے ایک طویل انٹرویو لیا تھا جو ہفت روزہ چٹان لاہور میں بعنوان ’’حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ سے عبدالسلام ملک کا انٹرویو‘‘ کے عنوان سے طبع ہوا تھا۔ اس میں جامع مسجد نور کی تاسیس وتعمیر کے بارے میں انھوں نے مفسر قرآنؒ سے کچھ یوں پوچھا:
’’میں نے بات کاٹنے کی گستاخی کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ تفصیل تو بعد میں بھی معلوم ہو جائے گی۔ دراصل میں آپ کی مسجد اور مدرسہ کی تعمیری وسعت دیکھ کر بڑا متاثر ہوا ہوں کہ اس دور پرآشوب میں بھی ایسا ممکن ہے! لہٰذا ازراہ نوازش مسجد او رمدرسہ کی تعمیر کی ابتدا سے بات شروع کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ میرے اس خلجان کے اظہار پر وہ کچھ زیرلب مسکرائے اور فرمایا:
’’مسلک دیوبند سے تعلق رکھنے والے حضرات نے محسوس کیا (اور غالباً یہ ۱۹۵۰ء کی بات ہے) [یہ ملک صاحب کا تجزیہ ہے۔ اصل تاریخ ۱۹۵۲ء ہے۔ فیاض] کہ اس علاقہ میں چونکہ ان کی کوئی مسجد نہیں، لہٰذا اردگرد کی ہم مسلک آبادی کے لیے ایک مسجد اگر تعمیر ہو جائے تو ان کے لیے یاد اللہ اور ادائیگی فرض نماز وجمعہ میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے چند صاحب دل اور صاحب ایمان لوگوں نے باہم مل کر اس کا بیڑا اٹھایا۔ سب سے پہلا مسئلہ زمین کے حصول کا تھا۔ شہروں میںآبادی کے سیلاب کے پیش نظر یہ ایک پہلی لیکن بہت بڑی دقت تھی۔ چپہ چپہ زمین استعمال میں آ چکی تھی۔ جس جگہ اب موجودہ مسجد دیکھ رہے ہیں، یہاں گئے وقتوں کا ایک پرانا جوہڑ تھا جس کا متعفن پانی مچھروں او رمکھیوں کی ایک مستقل پرورش گاہ تھا۔ ہم نے اسی کے حصول کے لیے متعلقہ ڈی سی گوجرانوالہ سے رابطہ قائم کیا۔ وہ ایک نیک دل انسان تھے۔ انھوں نے فوراً اجازت دے دی۔ اب اس جوہڑ کی بھرتی کا مسئلہ تھا۔ یقین کریں اسے عام شہر کی سطح زمین تک بھرنے میں ایک لاکھ روپیہ صرف ہوا۔ جب یہ بھر چکا تو محکمہ آباد کاری بھی آن موجود ہوا، چنانچہ اس کی پیمائش کے بعد محکمہ نے جو قیمت مقرر کی، اس کی ادائیگی کا اہتمام بھی اللہ پاک نے ہی کر دیا۔ پھر مسجد کی بتدریج تعمیر شروع ہوئی جو کسی خاص یا قابل ذکر دقت کے بغیر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔‘‘ (ہفت روزہ چٹان، ۱۲؍ جولائی ۱۹۷۶ء)
جامع مسجد نور کی بنیاد اور اپیل
۱۹۷۵ء میں جامع مسجد نور میں ہزاروں لوگوں کے مجمع سے جمعہ کا خطاب فرماتے ہوئے مفسر قرآنؒ نے فرمایا:
’’تاہم مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس مسجد کی بنیاد اللہ کے فضل سے میں نے اپنے ہاتھوں سے رکھی۔ میں ان تین چار آدمیوں میں سے ایک ہوں جنھوں نے اللہ کا نام لے کر اس کام کابیڑا اٹھایا۔ اس کے بعد میں نے ہر موقع پر لوگوں سے درخواست کی ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں اپنی حلال اور طیب کمائی لگاؤ، حرام اور سودی مال سے اس خانہ خدا کی تعمیر نہ کرنا۔ کیوں بھائی! میں کہتا رہا ہوں یا نہیں؟ (بالکل کہتے رہے ہیں)۔‘‘ (خطبات سواتی ج ۳ ص ۳۰۸، تحریک جامع مسجد نور ص ۴۷)
جامع مسجد نور میں درس قرآن وحدیث کا آغاز
مفسر قرآن ۱۹۹۳ء میں اپنے قلم سے تحریر فرماتے ہیں:
’’احقر نے ۱۹۵۲ء ماہ جولائی میں جامع مسجد نور میں بعد نماز صبح درس قرآن کریم شروع کیا۔ کچھ عرصہ بعد طریق یہ طے کیا کہ ہفتہ، اتوار، سوموار، منگل، ہفتہ میں چار دن قرآن کریم کا درس اور بدھ، جمعرات دو دن حدیث شریف کا درس شروع کیا۔‘‘ (پیش لفظ ’’دروس الحدیث‘‘ ج ۱ ص ۹)
جامع مسجد نور میں خطابت کا آغاز
مفسر قرآن ۱۹۹۴ء میں تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی ؒ حافظ القرآن والحدیث، شیخ التفسیر وشیخ الحدیث۔ مولانا کا نام پہلے طلباء سے سنتے رہتے تھے۔ پہلی دفعہ ۱۹۶۰ء میں اتفاق سے صدر ایوب مرحوم کا زمانہ تھا۔ احقر چونکہ ۱۹۵۲ء سے جامع مسجد نور میں اس کی ابتدا سے خطابت کے فرائض انجام دے رہا تھا اور ساتھ ہی مدرسہ نصرۃ العلوم کے اہتمام کی ذمہ داری بھی احقر ہی کے سپرد تھی، ایسا اتفاق ہوا کہ احقر کے جمعے کی تقریر پر تین مہینے کی زبان بندی کے احکامات جاری ہوئے گوجرانوالہ کی انتظامیہ کی طرف سے۔ احباب کے مشورے کے بعد یہ طے پایا کہ اس دوران احقر اگر یہاں ہی گوجرانوالہ میں رہا تو ممکن ہے کہ تقریر وغیرہ کے سلسلہ میں احباب کے لیے مزید پریشانی کا باعث نہ ہو۔ تو مناسب سمجھا کہ احقر یہ تین مہینے گوجرانوالہ سے باہر ہی کہیں گزار دے۔ پھر یہ خیال ہوا کہ خانپور کٹورہ، ضلع رحیم یار خان بہاول پور چلا جائے، چونکہ شعبان اور رمضان کے دو مہینوں میں مولانا درخواستی کے پاس تفسیر وترجمہ میں شرکت کر لی جائے۔‘‘ (الاکابر، ص ۳۲۶)
مدرسہ نصرۃ العلوم کا بالکل ابتدائی تعارفی پمفلٹ
مفسر قرآن نے مدرسہ کا بالکل ابتدائی تعارف پمفلٹ ۱۹۵۲ء میں تحریر فرمایا جس کا عنوان تھا ’’ہمارا تعلیمی وتبلیغی لائحہ عمل‘‘۔ یہ پمفلٹ سارے شہر بلکہ ملک کے طول وعرض میں تقسیم ہوا تھا۔ اس کے صفحہ ۱۹ پر تحریر فرماتے ہیں:
’’تعلیمی وتبلیغی کوششیں اس وقت جتنی بھی ہو رہی ہیں، وہ وقت کے لحاظ سے بہت محدود ہیں۔ ان تمام خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلہ کی بالکل ابتدائی کوشش یہ ہے کہ ہم نے محض اللہ تعالیٰ کے توکل واعتماد پر ایک مدرسہ (مدرسہ نصرۃ العلوم) کی بنیاد شہر گوجرانوالہ محلہ فاروق گنج (گورونانک پورہ) جامع مسجد نور متصل گھنٹہ گھر کے ساتھ رکھی ہے۔ تعلیم وتعلم سے اتصال رکھنے والے حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کام کافی مشکل ہے۔ اس دشوار کام کو چلانے کے لیے بڑی محنت وسعی کی ضرورت ہے۔ مدرسہ کی عمارت، درس گاہیں، طلباء کی رہائش کے لیے کمروں کا انتظام، کتب خانہ اور دارالمطالعہ اور اساتذہ کا بندوبست، یہ تمام سلسلہ ایک شخص کے بس کا کام نہیں۔ تمام مسلمانوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم ہر اس مسلمان سے توقع رکھتے ہیں جو تعلیم وتبلیغ کی اہمیت اور علم کی نشر واشاعت کی ضرورت سے باخبر ہے کہ اس کار خیر میں حصہ لے کر اجر وثواب حاصل کرے اور آئندہ نسلوں سے دعاے خیر کی توقع رکھے اور اپنی اخروی نجات کا سامان پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا، انسانیت کی فلاح، مسلم قوم کا بقا اسی میں ہے۔‘‘ (مقالات سواتی، ص ۴۳۴)
جامع مسجد نور کے ابتدائی دور کے چند واقعات
(۱) ’’مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کی تعبیر کے ابتدائی دور ۱۹۵۲ء میں ایک دفعہ احقر لاہور حضرت [امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ] کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دہلی دروازہ سے شیرانوالہ گیٹ کی طرف جا رہا تھا کہ راستہ میں مرحوم مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی بھی آ گئے۔ میں نے کہا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ حضرت لاہوریؒ کی خدمت میں جانا ہے۔ میں نے کہا، یہ تو بہت اچھا ہوا۔ میں نے حضرت کو گوجرانوالہ جانے کی دعوت دینی ہے۔ آپ بھی تائید کریں گے تو بہت اچھا ہوگا۔ جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدعا عرض کیا تو حضرت نے فرمایا کہ اس وقت نہیں جاؤں گا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ حضرت سے قاضی صاحب مرحوم جب الگ ہوئے تو مجھ سے فرمایا کہ آپ نے کوئی جماعت بنانی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت، دین کی خدمت اور علماء دیوبند کے مسلک کی تائید مطلوب ہے۔ [ان دنوں میں گوجرانوالہ میں ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی جماعت کے بارے میں سوچ رہے تھے جس میں جدید تعلیم یافتہ اور قدیم تعلیم یافتہ حضرات، دونوں برابر تعداد میں شریک ہوں۔] بہرحال اس وقت حضرت نے گوجرانوالہ آنے سے انکار کر دیا، لیکن کچھ عرصہ بعد حضرت گوجرانوالہ تشریف لائے اور خود بخود مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور تشریف لائے۔ ظہر کی نماز کے بعد درس دیا۔ اس وقت حضرت نے سلوک وتصوف اور اصلاح نفس پر وعظ فرمایا اور اپنی ہستی کو مٹانے کے لیے یہ مصرعہ بار بار دہرا رہے تھے:
ساقی مجھے خاکِ بے جان کر دے
پھر جامع مسجد نور کے محراب والے حصے میں بڑی دیر تک دعا فرماتے رہے۔ انھی دنوں کی بات ہے جب کہ حضرت بقید حیات تھے، ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت لاہوریؒ جامع مسجد نور میں تشریف لائے اور مسجد کے شمالی حصہ میں مدرسہ کے باورچی خانہ کے مقام پر [ابھی تک باورچی خانہ کی عمارت نہ بنی تھی] نیچے ریت بچھی ہوئی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں عصا مبارک ہے اور کھدر کا لباس زیب تن ہے۔ میں نے لکڑی کے بنے ہوئے کھڑاؤں آپ کے پاؤں مبارک کے نیچے رکھ دیے۔ آپ نے انھیں پہن لیا اور باورچی خانہ کے حصہ میں پہنچ کر پھر واپس تشریف لے گئے۔‘‘ (الاکابر، ص ۲۷۹)
(۲) ’’نصرۃ العلوم کا ابتدائی دور تھا۔ میں نے دو دفعہ خواب میں حضرت حاجی امداد اللہ (مہاجر مکیؒ ) کو دیکھا۔ ایک دفعہ اس طرح کہ آپ گھوڑے پر سوار ہیں اور آپ کے ہاتھ میں نیزا پکڑا ہوا ہے۔ سر مبارک پر پگڑی باندھی ہوئی ہے۔ گلے پر، سر پر لمبے لمبے بال ہیں جو تقریباً کان سے نیچے اتر رہے ہیں اور سر کے بال بھی سفید ہیں، لیکن آپ کی داڑھی مبارک بالکل نہیں۔ آپ کوسج (کھودے) معلوم ہوتے ہیں۔ (واللہ اعلم)‘‘
(۳) ’’دوسری دفعہ حضرت حاجی امداد اللہؒ کو اس طرح خواب میں دیکھا کہ آپ اسی طرح کمیت گھوڑے پر سوار ہیں اور ہاتھ میں نیزا پکڑا ہوا ہے۔ سر مبارک پر دھاری دار لنگی، کلے پر باندھی ہوئی ہے۔ سر کے بال اسی طرح لمبے لمبے ہیں، البتہ داڑھی مبارک چار انگل سے زیادہ ہے، لیکن داڑھی مہندی سے رنگی ہوئی ہے۔ (واللہ اعلم)‘‘ (ماہنامہ نصرۃ العلوم کی خصوصی اشاعت بیاد مفسر قرآن، ص ۱۷۹)
شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کے نام خط
اپنے استاد، پیر ومرشد شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے نام اپنے ایک دستی بھیجے گئے خط میں مدرسہ کی تاسیس کی تاریخ بیان فرماتے ہیں:
’’بخدمت اقدس سیدی ومرشدی حضرت (مولانا سید حسین احمد) مدنی
اطال اللہ حیاتکم وافاض علینا من برکاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت والا، امید ہے کہ بخیر وعافیت ہوں گے۔ چند گزارشات عرض کرنے کی گستاخی کر رہا ہوں۔ اگرچہ آپ کے قیمتی وقت کا خیال کرتے ہوئے یہ مناسب نہ تھا، لیکن مجبوری۔ عرض ہے کہ حضور والا نے بوقت بیعت تسبیحات ستہ اور پاس انفاس کی تلقین فرمائی تھی۔ تسبیحات ستہ تو اکثر ادا کرتا رہتا ہوں، لیکن پاس انفاس کا سلسلہ پابندی سے نہیں جاری رکھ سکا۔ دیگر عرض ہے کہ دماغ میں اکثر خیالات فاسدہ کا ہجوم رہتا ہے، ان کے رفع کرنے کے لیے کچھ ارشاد فرمائیں۔ طبیعت کی بے چینی اور پریشانی اور کچھ قرض ہو گیا ہے، اس سے نجات پانے کے لیے دعا فرمائیں۔
نیز گزارش ہے کہ یہاں گوجرانوالہ میں عرصہ پانچ سال سے [۱۳۷۲ھ بمطابق ۱۹۵۲ء۔ فیاض] ہم لوگوں نے ایک مدرسہ بنام ’’مدرسہ نصرۃ العلوم‘‘ جاری کیا ہے جس میں حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب اور مولانا سرفراز خان صاحب اور تین اور مدرس تعلیم دیتے ہیں اور ۴۰ کے قریب بیرونی طلباء ہیں اور سوا سو کے قریب مقامی بچے جو ناظرہ قرآن کریم اور حفظ وتجوید قرآن کریم میں مصروف ہیں جن کے لیے ایک حافظ وقاری اور ایک ناظرہ پڑھانے والے ہیں۔ ۸ طالب علم اس وقت دورۂ حدیث شریف پڑھ رہے ہیں۔
حضرت والا سے عرض ہے کہ مدرسہ کی کامیابی کے لیے خصوصی دعا فرمائیں۔ میر غلام حسین صاحب حالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ امید ہے کہ اس گستاخی پر معاف فرمائیں گے۔
والسلام
یوم عاشوراء، ۱۰ محرم الحرام ۱۳۷۶ھ
احقر عبد الحمید سواتی ہزاروی
خادم مدرسہ نصرۃ العلوم وخطیب مسجد نور
متصل گھنٹہ گھر شہر، گوجرانوالہ (مغربی پاکستان)‘‘
اس خط کا جواب حضرت مدنی نے دیا تھا۔ ان کے خط کا اصل عکس ماہنامہ نصرۃ العلوم کی خصوصی اشاعت ’’مفسر قرآن نمبر‘‘ کے صفحہ ۸۴۴ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ آمین