حدیث و سنت اور جدید تشکیکی ذہن

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(ڈاکٹر محمد اکرم ورک کی کتاب ’’متون حدیث پر جدید ذہن کے اشکالات: ایک تحقیقی جائزہ‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا۔)


نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم کی اطاعت واتباع کو بھی دین کا تقاضا قرار دیا گیا ہے اور متعدد آیات قرآنی کے ذریعے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ صرف قاصد اور پیغام بر نہیں ہیں، بلکہ مطاع، اسوہ اور متبَع بھی ہیں اور جس طرح قرآن کریم کے احکامات وارشادات کی اطاعت لازم ہے، اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم کے ارشادات واعمال اوراحکام وہدایات کی اتباع اور پیروی بھی ضروری ہے، جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت ۳۲ میں فرمایا گیا ہے کہ:

قُلْ أَطِیْعُواْ اللّٰہَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکَافِرِیْنَ۔
’’آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر وہ پھر گئے تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘

اس کے ساتھ ہی قرآن کریم کے فہم اور آیات قرآنی میں اللہ تعالیٰ کی منشا ومراد کے تعین کے لیے بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی معیار اور اتھارٹی قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ سورۃ النساء کی آیت ۸۰ میں ارشاد ربانی ہے کہ:

مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ وَمَن تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظاً۔
’’جو رسول اللہ کی اطاعت کرتا ہے، پس تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جو پھر گیا، پس ہم نے آپ کو ان پر ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین واضح حیثیتیں ہیں:

۱۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام وارشادات کو نسل انسانی تک پہنچانے والے ہیں۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کے احکام وفرمودات کے شارح اور ان کی وضاحت کی اتھارٹی ہیں۔

۳۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی ایک مطاع اور اسوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اور ان کے وصال کے بعد بھی حضرات صحابہ کرام کا معمول یہ تھا کہ :

  • جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی بیان کرتے، صحابہ کرامؓ بلا تامل اس پر ایمان لے آتے اور اسے حکم خداوندی تسلیم کرتے تھے۔
  • جس وحی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کا حصہ قرار دیتے، وہ قرآن کریم میں شامل کر لی جاتی اور جسے قرآن کریم کا حصہ بتائے بغیر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے ارشاد یا حکم کے طور پر بیان فرماتے، وہ ’’حدیث قدسی‘‘ قرار پاتی۔
  • قرآن کریم کی کسی آیت یا جملے کے معنی ومفہوم کے بار ے میں کسی قسم کا اشکال پیدا ہوتا تو حضرات صحابہ کرامؓ اس کی وضاحت کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی رجوع کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت کے لیے جو بھی ارشاد فرما دیتے، وہی اس آیت کریمہ کی حتمی تشریح سمجھی جاتی تھی۔ اس کے بیسیوں شواہد حدیث وتاریخ کے ریکارڈ پر محفوظ وموجود ہیں۔
  • حتیٰ کہ کسی موقع پر خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل قرآن کریم کی کسی آیت کے ظاہری مفہوم سے متعارض محسوس ہوتا تو اس کی وضاحت بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی مانگی جاتی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت میں جو کچھ فرما دیتے، وہی قرآن کریم کی منشا سمجھی جاتی، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ ’من حوسب عذب‘، جس کا حساب لیا گیا، اسے عذاب دیا جائے گا، جبکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ جس کا ’’حساب یسیر‘‘ ہو، وہ خوش خوش اپنے گھر والوں کے پاس پلٹے گا۔ بظاہر یہ قرآن کریم کے ارشاد اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں تعارض بنتا ہے، لیکن اس تعارض کا سوال جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا اور جو بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرما دی، وہی قرآن کریم کا منشا قرار پائی۔

یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ کا یہی تعامل رہا کہ وہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سنت وحدیث کو بھی دین کی مستقل دلیل اور ماخذ سمجھتے تھے اور عقائد واحکام دونوں میں قرآن کریم کی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث سے بھی استدلال کرتے تھے، جیسا کہ امام بیہقی السنن الکبریٰ (ج ۱، ص ۱۱۴) میں حضرت میمون بن مہران کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ:

ان ابابکر رضی اللہ عنہ کان یقضی بکتاب اللہ، فان لم یجد قضی بسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فان لم یجد سال المسلمین، فان اخبروہ بقضاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضی بہ، فان اعیاہ ذالک دعا رؤوس المسلمین وعلماء ہم، فان اجتمع رایہم علی الامر قضی بہ۔
’’جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا معمول یہ تھا کہ کوئی مسئلہ پیش آتا تو قرآن کریم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ اگر قرآن کریم میں اس کا حل نہ پاتے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ان کے علم میں ہوتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر ان کے علم میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ نہ ہوتا تو صحابہ کرامؓ سے دریافت کرتے اور وہ انھیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ بتا دیتے تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر تمام تر کوشش کے باوجود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد نہ ملتا تو علماء کرام اور بڑے لوگوں کو جمع کر کے ان سے مشاورت کرتے اور جس بات پر ان کا اتفاق ہو جاتا، اس کے مطابق فیصلہ فرما دیتے۔‘‘

اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے تقدیر کے عقیدہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ تقدیر کا عقیدہ نہ رکھنے والوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور دلیل کے طور پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا حوالہ دیا جس میں آپ نے ایمان کی وضاحت کرتے ہوئے ’ان تؤمن بالقدر‘ کو اس میں شامل کیا ہے۔

اس سے واضح ہے کہ حضرات صحابہ کرام کے ہاں عقائد واحکام، دونوں معاملات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث مستقل دلیل سمجھی جاتی تھی اور قرآن کریم کی طرح حدیث وسنت سے بھی بطور ماخذ استدلال کیا جاتا تھا۔

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پورے دور میں ان کا اجماعی تعامل یہی رہا ہے، لیکن جب خوارج ومعتزلہ جیسے گروہوں کو اپنے خود ساختہ عقائد ونظریات کے لیے قرآن کریم کی تعبیر نو کی ضرورت پیش آئی تو اس کی راہ میں ’’حدیث وسنت‘‘ کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس کے انکار یا اسے کمزو اور غیر معتبر قرار دینے کے راستے تلاش کیے گئے۔ ظاہر بات ہے کہ سنت وحدیث اور تعامل صحابہ کرام کی موجودگی میں قرآن کریم کی کوئی نئی تعبیر وتشریح ممکن ہی نہیں ہے اور اسی وجہ سے خوارج ومعتزلہ بلکہ ان کے بعد اس راہ پرچلنے والے ہر گروہ کو ہر دور میں اس کی ضرررت پیش آتی رہی ہے کہ وہ حدیث وسنت اور تعامل صحابہ کرامؓکی اہمیت وضرورت سے انکار کریں اور ان کی حجیت کو مشکوک ومتنازعہ بتا کر قرآن کریم کی من مانی تعبیر وتشریح کی راہ نکالیں، جیسا کہ آج کے ’’متجددین‘‘ کا طریق واردات بھی یہی ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو خوارج کے ساتھ گفتگو کے لیے بھیجا تو اسی خدشے کے پیش نظر ان سے فرمایا تھا کہ:

اذہب الیہم فخاصمہم، ولا تحاجہم بالقرآن فانہ ذو وجوہ ولکن خاصمہم بالسنۃ .... قال لہ: یا امیر المومنین فانا اعلم بکتاب اللہ منہم، فی بیوتنا نزل، قال: صدقت ولکن القرآن حمال ذو وجوہ، تقول ویقولون، ولکن خاصمہم بالسنن، فانہم لن یجدوا عنہا محیصا (الاتقان فی علوم القرآن، ج ۱، ص ۴۱۰)
’’ان کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو، لیکن ان کے سامنے قرآن کریم سے استدلال نہ کرنا، اس لیے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ سنت کے حوالے سے گفتگو کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین، میں قرآن کریم کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ یہ تو ہمارے گھروں میں اترا ہے (یعنی قرآن کریم کے حوالے سے گفتگو میں بھی وہ مجھ پر غالب نہیں آ سکتے)۔ حضرت علی نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن قرآن کریم احتمالات کا حامل ہے۔ تم ایک مطلب بیان کرو گے تو وہ دوسرا مطلب نکال لیں گے۔ تم ان کے ساتھ سنن کی بنیاد پر بحث کرنا، کیونکہ ان سے بھاگنے کی راہ انھیں نہیں ملے سکے گی۔‘‘

حضرت علیؓ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ سنت رسول سے ہٹ کر اگر قرآن کریم سے براہ راست استدلال کرو گے تو الفاظ اور جملوں میں مختلف معانی کے احتمالات کی وجہ سے وہ اس سے کوئی بھی استدلال کر سکیں گے۔ اس کے برعکس سنت رسول کو بنیاد بناؤ گے تو وہ ان احتمالات سے اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے اور قرآن کریم کے ایک متعین مفہوم کا انھیں سامنا ہوگا۔

ظاہر بات ہے کہ کسی بھی کلام کے الفاظ، جملوں اور محاوروں میں مختلف معانی کا احتمال موجود ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے، اس لیے ان احتمالات میں سے کسی ایک معنی کی تعیین کے لیے کسی اتھارٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف معنوں اور احتمالات میں سے ایک کا تعین کر دے۔ قرآن کریم کے حوالے سے یہ اتھارٹی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، اس لیے حضرت علیؓ نے عبد اللہ بن عباسؓ سے فرمایا کہ تم سنت رسول کی بنیاد پر گفتگو کرنا تاکہ وہ قرآن کریم کے ظاہری احتمالات سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اس کی مثال موجودہ دور میں ایسے ہے جیسے ملک کے دستور کی کسی بھی دفعہ میں عام طور پر ایک سے زیادہ تعبیروں کی گنجائش ہوتی ہے اور آئینی ماہرین ان گنجائشوں کے حوالے سے دستوری دفعات کی مختلف تعبیرات پیش کرتے رہتے ہیں، لیکن اس کے لیے حتمی اتھارٹی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کو سمجھا جاتا ہے اور باقاعدہ اتھارٹی کی طرف سے کی جانے والی تعبیر ہی دستورکی حتمی تعبیر وتشریح قرار پاتی ہے۔

صحابہ کرام کے آخری دور اور اس کے بعد کے قریبی ادوار میں قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے معتزلہ، خوارج اور ان جیسے دیگر گروہوں نے امت کے اجماعی موقف سے الگ راستے اختیار کیے جنھیں ایک حد تک ظاہر پرستی اور عقل پرستی کی دو انتہائیں قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ اہل سنت کا موقف ان دو انتہاؤں کے درمیان اعتدال، توازن اور حقیقت پسندی پر مبنی چلا آ رہا ہے مگر مغرب کی ’’تحریک استشراق‘‘ نے مسلمانوں کے لیے جو علمی وفکری سوالات پیدا کیے، ان کی جڑ بھی بالآخر اسی طریق واردات میں جا کر پیوست ہو گئی جو معتزلہ اور خوارج نے اختیار کیا تھا کہ قرآن کریم کو سنت رسول، تعامل صحابہ کرامؓ اور امت کے جمہوری تسلسل سے الگ کر دیا جائے تاکہ اس کی من مانی تشریح آسان ہو جائے۔

’’استشراق‘‘ کی فکری اور علمی تحریک کے دو مراحل تاریخ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس کا آغاز تو تیرھویں صدی عیسوی میں اس وقت ہوا جب تاتاریوں نے ۱۲۵۸ھ میں بغداد کو پامال کرنے کے صرف دو سال بعد ۱۲۶۰ھ میں عین جالوت میں سلطان المظفرؒ کی سربراہی میں کمانڈر ظاہر بیبرس کے ہاتھوں خوف ناک شکست کھا کر ہمیشہ کے لیے پسپائی اختیار کر لی اور اس کے بعد صلیبی جنگوں میں بھی صلیبی قوتوں کو پے در پے شکستوں نے بد حواس کر دیا، حتیٰ کہ وہ ۱۲۹۱ھ میں سلطان الملک الاشرفؒ کے ہاتھوں عکہ کی آخری اور فیصلہ کن شکست سے دوچار ہوئے تو صلیبیوں کی مذہبی قیادت کو دو باتوں نے سخت پریشان کر دیا۔ ایک یہ کہ اگر تاتاریوں نے مسلمانوں کا مذہب قبول کر لیا تو مسلمانوں کی قوت کئی گنا بڑھ جائے گی اور دوسرا یہ کہ پوپ اربن ثانی کی شروع کردہ صلیبی جنگوں کے عبرت ناک خاتمہ کے بعد مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اب کون سی مسیحی قوت سامنے آ سکے گی؟

چنانچہ اس دور کے معروف مسیحی مبلغ ریمنڈس للس (Reymundus Lullus) نے، جس نے تیونس اور یگر علاقوں میں نصف صدی تک مسیحی دعوت کے لیے مشنری خدمات سرانجام دیں، ان خدشات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ:

’’اگر نسطوری عیسائیوں کو اپنی صف (کیتھولک) میں شریک کر لیا جائے اور تاتاریوں کو عیسائی بنا لیا جائے تو سارے سراسین (مسلمان) بآسانی تباہ کیے جا سکتے ہیں، لیکن خوف یہ بھی ہے کہ اگر ان تاتاریوں نے ترغیب یا تحریص کے باعث شریعت محمدیہ تسلیم کر لی تو پھر عالم عیسائیت کے لیے شدید خطرہ پیدا ہو جائے گا۔‘‘ (بحوالہ ’’اسلام، پیغمبر اسلام اور مستشرقین کا انداز فکر‘‘ از ڈاکٹر عبد القادر جیلانی، ص ۱۶۹)

یہ خوف بالآخر سامنے آ گیا اور تاتاریوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کر لیا بلکہ وہ اسلام کا بازوئے شمشیر زن بن گئے تو عسکری میدان جنگ سے مکمل مایوس ہو کر مسلمانوں کو مسیحیت کی دعوت دینے اور ان کے ساتھ علمی وفکری مباحثوں کا راستہ اختیار کیا گیا جس کے لیے ریمنڈس للس نے کلیسا کو دعوت دی کہ

’’علوم شرقیہ کے مطالعہ کو روحانی صلیبی جنگ کے طور پر استعمال کیا جائے۔‘‘

چنانچہ ریمنڈس للس نے تیونس کو اپنی روحانی صلیبی جنگ کا میدان بنایا، علوم شرقیہ کے مطالعہ کے مدارس قائم کیے، مسلم علما کے ساتھ مناظروں کا بازار گرم کیا اور نصف صدی کی مسلسل تگ ودو کے بعد تیونس میں ہی قتل ہو کر اس مشن کے لیے اپنی جان بھی دے دی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: Philip Schaff, "History of the Christian Church", vol. 5, p. 433-437)

اس کے ساتھ ایک اور مسیحی دانش ور بیکن کو بھی اسی فکر کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں مسیحیت کے عمومی علمی اور دینی ماحول کو تو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے لیکن علوم شرقیہ کے مطالعہ کی استشراقی تحریک کی بنیاد فراہم کر گئے اور ’’روحانی صلیبی جنگ‘‘ کے عنوان سے اس کا ہدف بھی انھوں نے طے کر دیا۔ البتہ سولھویں صدی عیسوی میں، جو بائبل کی تعبیر وتشریح میں پاپاے روم کی اتھارٹی بلکہ اجارہ داری کو مارٹن لوتھر کی طرف سے چیلنج کیے جانے کی صدی ہے اور پروٹسٹنٹ فرقے کا دور آغاز ہے، تحریک استشراق نے نئی کروٹ لی اور اسے یہ امکان دکھائی دینے لگا کہ اگر مسیحیت میں اصلاح علوم اور مذہبی ڈھانچے کی ری کنسٹرکشن کے ذریعے سے قدیم مذہبی روایات سے بغاوت ہو سکتی ہے تو مسلمانوں میں اس تجربے کو دہرانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور یہ بغاوت اگر کامیاب ہو گئی تو مسلمانوں کو ان کے علمی ماضی سے کاٹ کر نئے سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے اور عسکری میدان کی شکست کو فکری میدان کی فتح میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

تاریخی ترتیب کے لحاظ سے ہمیں نظر آتا ہے کہ مارٹن لوتھر کی وفات کے بعد اگلی نصف صدی کے اندر ہندوستان کے مغل بادشاہ اکبر نے ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے جو نیا دینی ڈھانچہ قوت کے زور پر متعارف کرانے کی ناکام کوشش کی، وہ اسی طرح کی ری کنسٹرکشن کا نمونہ تھا جسے مارٹن لوتھر اور ا س کے قائم کردہ پروٹسٹنٹ فرقہ نے یورپ میں کامیابی کے ساتھ عملی وجود دے دیا تھا، لیکن اسلام کی مضبوط علمی روایت کے سامنے اکبر باشاہ کی قوت اور اقتدار کا زور نہ چل سکا اور اکبر بادشاہ کے منظر سے ہٹتے ہی ’’دین الٰہی‘‘ کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔

یہ ایک الگ بحث طلب نکتہ ہے کہ جس مقصد میں مارٹن لوتھر کو یورپ میں کامیابی حاصل ہو گئی، اس میں اکبر بادشاہ کو ہندوستان میں کامیابی کیوں حاصل نہ ہو سکی، جبکہ مارٹن لوتھر ایک عام مذہبی راہ نما تھا اور اکبر بادشاہ ہندوستان کا سب سے باجبروت بادشاہ متصور ہوتا تھا، لیکن اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے، کیونکہ ہم تحریک استشراق کے اس نئے دور کی بات کر رہے ہیں جس میں یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ مسلمانوں کو اب مناظروں اور مباحثوں میں زیر کرنے کی کوشش میں وقت ضائع کرنے کی بجائے مسلمانوں کے اندر کوئی ایسی تحریک پیدا کر دی جائے جو ایک ہزار سے چلی آنے والی مذہبی اتھارٹی کو مشکوک بنا دے اور مسیحیت کی طرح اسلام میں بھی اصلاح علوم اور دین کی تشکیل نو کا ذہن پیداکر دیا جائے جس کا ایک مشاہداتی منظر ہم نے ہندوستان پر برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط واقتدار کے بعد اس ملک کے نئے نظام تعلیم کی بنیاد رکھنے والے برطانوی دانش ور لارڈ میکالے کے اس تاریخی مقولے کی صورت میں دیکھا کہ میں نے ایک ایسا نظام تعلیم ترتیب دیا ہے جس سے گزر کر مسلمان اگر مسیحی نہیں ہوگا تو مسلمان بھی نہیں رہے گا۔

تحریک استشراق کا ہدف یہی تھا اور اب بھی یہی ہے۔ بلاشبہ مستشرقین نے علوم اسلامیہ کے مطالعہ وتحقیق میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور علمی حوالے سے ان خدمات کا اعتراف نہ کرنا، نا انصافی اور بخل ہوگا، لیکن مقاصد کے اعتبار سے مستشرقین کی علمی خدمات اور لارڈ میکالے کے تعلیمی منصوبے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا، البتہ نتائج وثمرات کے معاملے میں اکبر بادشاہ کی طرح انھیں بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو پا رہے اور نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی فیصلہ کن اکثریت اپنی قومی مذہبی روایت اور علمی تسلسل کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہے جس طرح آج سے دو صدیاں پہلے تھی اور مسلمانوں کے اعتقادی اور علمی قلعے میں شگاف ڈالنے کی مغربی کوششوں کا نتیجہ خود مغرب کو اپنا سر پھوڑنے کے سوا اب بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔

البتہ اس ضمن میں مستشرقین کے اٹھائے ہوئے مختلف اعتراضات سے بعض مسلمان اہل دانش یقیناًمتاثر ہوئے ہیں اور انھوں نے اپنے خیال کے مطابق اسلام اور پیغمبر اسلام کو جدید مغربی ذہن کے اعتراضات سے بچانے کا آسان نسخہ یہ تجویز کیا ہے کہ ذخیرۂ حدیث میں ایسے اعتراضات کی بنیاد بننے والی احادیث کا ہی سرے سے انکار کر دیا جائے۔ گزشتہ دنوں بعض اصحاب قلم نے اخبارات میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے وقت ان کی عمر کی بحث چھیڑی اور کہا کہ ہمیں احادیث کی وہ تمام روایات مستردکر دینی چاہییں جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں آج کی دنیا، بالخصوص مغرب کے اعتراضات کا باعث بنتی ہیں اور چونکہ مغرب کم سنی کی شادی کو قابل اعتراض سمجھتا ہے، اس لیے بخاری شریف کی وہ روایت ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہونی چاہیے جس میں بتایا گیا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر چھے سال اور رخصتی کے وقت نو سال تھی۔ 

جہاں تک اس جذبے کا تعلق ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر مغرب کے اعتراضات کا محققانہ جواب دینا ضروری ہے، یہ انتہائی قابل قدر ہے۔ اسی طرح نکاح اور رخصتی کے وقت ام المومنین حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارے میں یہ بحث ایک عرصے سے جاری ہے اور بحث وتحقیق کی حد تک اس میں کوئی اشکال کی بات بھی نہیں ہے۔ ہر مورخ اور محقق کا حق ہے کہ روایات کی بنیاد پر اپنی تحقیق کے مطابق کوئی رائے قائم کرے اور اس کا اظہار بھی کرے۔ اس نوعیت کے سیکڑوں مسائل امت کے اہل علم میں مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں اور ان پر بحث وتمحیص کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ آئندہ بھی قیامت تک ان مباحث کا دروازہ کھلا ہے، البتہ بحث کا یہ پہلو کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں مغرب کے اعتراضات اور طعن وتشنیع کا جواب دینے کے لیے ہم اپنی ہی روایات اور علمی اثاثے کی اکھاڑ پچھاڑ میں لگ جائیں، بہرحال قابل توجہ ہے اور ہمارے خیال میں ایسے مسائل میں اپنے علمی ذخیرے کے درپے ہونے سے پہلے ہمیں اس بات کا جائزہ لے لینا چاہیے کہ مغرب کے اعتراضات کی فکری اساس کیا ہے اور اس طعن وتشنیع کی اپنی علمی حیثیت کیا ہے جس کی بنیاد پر اسلام کی تعلیمات یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو مورد طعن قرار دیا جا رہا ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مغرب کے اٹھائے ہوئے مطاعن واعتراضات کی علمی حیثیت کا تجزیہ کیا جائے اور ہر مغربی اعتراض کو درست تسلیم کرنے کی بجائے اس کی خامی کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے، مگر ہمارا المیہ ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ کے بعد مغربی فلسفہ وثقافت کا اس سطح پر ناقدانہ جائزہ لینے والا اور کوئی مفکر سامنے نہیں آیا اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خود اقبال کا نام لینے والے اس معاملے میں اقبال کی راہ پر چلنے کی بجائے مغربی فلسفہ وثقافت کی نام نہاد علمی برتری کے سامنے سر بسجود دکھائی دے رہے ہیں۔

بہرحال مستشرقین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی علمی وفکری جدوجہد کا ہدف مسلمانوں کے علمی ماضی بالخصوص حدیث نبوی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کو قرار دے رکھا ہے اور اس کے لیے مسلسل علمی، تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے، لیکن مسلم علما نے مغربی یورپ کی مسیحی مذہبی قیادت کی طرح سرنڈر کر دینے کی بجائے علمی اور تحقیقی میدان میں پوری جرات کے ساتھ اس کا سامنا کیا ہے اور تحقیق واستدلال کی قوت سے اس کا راستہ روکنے میں مجموعی طور پر وہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ حدیث وسنت کی حجیت واہمیت کے انکار کی وجہ ہمارے نزدیک وہی ہے جس کا ہم نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے اور اسی لیے مستشرقین کی طرف سے اس پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے، مگر مسلم علما کی کاوشیں انتہائی قابل قدر ہیں کہ انھوں نے مسلم امہ کی اکثریت کو حدیث وسنت کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہونے سے عالم اسباب میں بچا رکھا ہے اور چند محدود حلقوں کے علاوہ حدیث وسنت کے بارے میں امت مسلمہ اپنے قدیم موقف اور روایت پر بحمد اللہ تعالیٰ پوری دل جمعی کے ساتھ قائم ہے۔

حدیث وسنت کے بارے میں مستشرقین اور ان کے زیر اثر بعض مسلمان اہل دانش کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات اور شکوک وشبہات پر ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر محمد اکرم ورک نے بھی قلم اٹھایا ہے جو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک عرصہ سے ہمارے رفیق کار ہیں اور علمی، تحقیقی اور فکری سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ انھوں نے جس محنت، نکتہ رسی اور گہرائی کے ساتھ ان سوالات اور شکوک وشبہات کا تجزیہ کیا ہے اور ان کے جوابات دیے ہیں، اس پر وہ داد کے مستحق ہیں اور ان کی یہ علمی کاوش یقیناًبہت سے نوجوان اہل علم کے لیے راہ نمائی کا باعث بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبولیت سے نوازیں اور دونوں جہانوں میں ثمرات وبرکات سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

اسلام اور عصر حاضر

(فروری ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter