(۱)
محترم جناب مولانا محمد عمار صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاجِ گرامی
کل ہی الشریعۃ کا ڈاکٹر محمود احمد غازی نمبر اور آپ کا رسالہ مسئلہ توہین رسالت موصول ہوئے۔ توقع نہیں تھی کہ اتنے مختصر وقت میں اتنی ضخامت کا نمبر تیار ہوسکے گا۔ غازی صاحب رحمہ اللہ پر خصوصی نمبر شائع کرنے میں شرفِ سبقت غالباً آپ ہی کو حاصل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس کاوش کو مقبول اور نافع بنائیں۔ آمین۔ الحمد للہ ڈاکٹر کی حیات وخدمات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑگئی ہے۔ میری نظر میں غازی صاحب جیسی شخصیات کے کردار کا پہلو نمایاں کرنا ان کی علمی خدمات سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ایک تو اس لیے کہ کسی کے علمی کام پر کوئی بھی کسی بھی وقت کام کرسکتا ہے ، جبکہ کسی کے کردار وعمل پر چند لوگ ہی روشنی ڈال سکتے ہوتے ہیں۔ دوسرے اس لیے کہ آج کے دور میں میرے جیسے بے عمل لوگ جن پر کچھ لفظ جاننے کی تہمت لگی ہوئی ہو، ان کو اس طرح کے نمونوں کی غالباً زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
توہین رسالت کے مسئلے آپ کی تحریر جب ای میل کے ذریعے موصول ہوئی تھی، اس وقت اس کا سرسری مطالعہ کیا تھا، اب مطبوعہ کتابچے میں غالباً اس پر کافی اضافات ہیں۔ آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، اس پر لکھنے کی بہر حال ضرورت تھی، اس لیے کہ بہت سے ایسے پہلوؤں کو اجماعی اور ناقابل بحث بناکر پیش کیا جارہاہے جو نہ صرف مختلف فیہ ہیں بلکہ فقہ حنفی کے بھی معروف نقطہ نظر سے مختلف ہے۔ اس حقیقت کو وہ لوگ بھی نظر انداز کررہے ہیں جن کے دن رات در مختار اور شامی کے ساتھ گذرتے ہیں۔ ایک ہی نقطہ نظر کو اس شد و مد کے ساتھ بیان کیا جارہاہے کہ بادی النظر میں یہ محسوس ہوتاہے کہ فقہ حنفی نے اس مسئلے میں اس ایمانی حمیت کا ثبوت نہیں دیا جو ضروری تھی، جبکہ مجموعی طور پر حنفی نقطہ نظر بھی دلیل کے اعتبار سے کمزور نہیں ہے۔ اس لیے اس موضوع پر مفصل کام کی ضرورت کا عرصے سے احساس ہو رہا تھا۔ آپ کی اس تحریر سے کافی حد تک یہ ضرورت پوری ہوگئی ہے۔ بعض جگہ اندازِ استدلال یا کسی خاص دلیل سے اختلاف تو ہوسکتاہے، لیکن مجموعی طور پر آپ کے نتائجِ بحث درست معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نے علامہ ابن تیمیہ یا جمہور کے دلائل کے حوالے سے اس پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کے زیادہ تر مستدلات فعلی یا تقریری احادیث ہیں، قولی اور تشریع عام کی حیثیت رکھنے والی حدیثیں نہیں ہیں۔ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل، تقریر حجت ہے، لیکن ان سے استدلال کے انداز میں ہمیشہ فقہا نے فرق کیاہے۔ میرے خیال یہ نکتہ اگر زیادہ تفصیل سے آجاتا تو شاید مناسب ہوتا۔
تعزیر اور سیاست کے پہلو پر بات کرتے ہوئے آپ نے عموماً قاضی کے اختیارات کا تذکرہ کیا ہے۔ بظاہر جرم کی نوعیت اور مجرم وجرم کے حالات کا بہتر فیصلہ قاضی ہی کرسکتاہے، لیکن مجھے یاد پڑتا ہے کہ علامہ شامی نے ’’تنبیہ الولاۃ والحکام‘‘ میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس میں فیصلہ کرنے کا اصل اختیار قاضی کی بجائے امام کو حاصل ہے۔ اس سے اس معاملے میں عدلیہ کے علاوہ دیگر ریاستی اداروں کے کردار کی نشان دہی ہوتی ہے۔
اللہ کرے، آپ کی اس کاوش سے یہ بحث علمی انداز سے آگے بڑھے اور کوئی ایشو کھڑا ہونے کی بجائے اہل علم دلائل کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کریں اور اس سے مسئلہ منقح ہونے اور موجودہ حالات میں درست لائحہ عمل طے کرنے میں مدد ملے۔
(مولانا مفتی) محمد زاہد
جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد
(۲)
محترم مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
دلیل جب تک عقل و نظر کی میزان میں نہ تولی جائے، اس وقت تک اس کی قیمت صاحب دلیل کے ہاں تو مسلم ہو سکتی ہے،علم و تحقیق کی دنیا میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔ الحمد للہ الشریعہ ایک اچھا پلیٹ فارم ہے جو کسی تعصب کے بغیر ہر صاحب دلیل کو میزان فراہم کرتا ہے کہ وہ دوسرے نقطۂ نظر اور اس کی دلیل وتنقید کی روشنی میں اپنی دلیل کی قیمت کو جانچ سکے ۔اللہ آپ کو حق و صداقت کی دعوت پر استقامت نصیب فرمائے۔
الشریعہ کے ۲۰۱۰ء کے جنوری،فروری اور مارچ کے شماروں میں’ اسلامی بنکاری :غلط سوال کا غلط جواب ‘کے عنوان سے جناب زاہد صدیق مغل صاحب نے اپنی کچھ معروضات پیش کی تھیں جس کے بعد مئی،جون اور اگست کے شماروں میں مفتی محمد زاہد صاحب نے ’بلاسود بنکاری کا تنقیدی جائزہ(منہج بحث اور زاویہ نگاہ کا مسئلہ ) ‘کے عنوان سے اپنی معروضات پیش کیں جو کہ اصل میں زاہد صدیق صاحب کے اعتراضات کا جواب ہی تھا۔ مغل صاحب نے دوبارہ قلم اٹھایا اور’ اسلامی بنکاری :زاویہ نگاہ کی بحث‘کے عنوان سے مفتی زاہد صاحب کے مضمون پر جون،اگست اور ستمبر کے شماروں میں تفصیلی نقد لکھا۔ امید تھی کہ مفتی صاحب اس پر مزید لکھیں گے کیونکہ مغل صاحب کے مضمون میں کچھ باتیں ایسی تھیں جن کے بارے میں میرا جیسا طالب علم بھی سر سری نگاہ ڈال کر سمجھ جاتا ہے کہ ان میں یا تو واضح طور پر خلطِ مبحث سے کام لیا گیا ہے یا غیر متعلقہ مباحث پر قرطاس وروشنائی کو صرف کیا گیا ہے یا کم از یہ ان باتوں پر مزید لکھا جائے گا۔ لیکن مفتی صاحب کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا جو کہ کسی مصلحت کی بنا پرہی ہوگا،کیونکہ الشریعہ میں چھپنے والے بعض خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات بنکاری سے ذاتیات پر اترتی جا رہی ہے اور یہی بات قرین قیاس لگتی ہے۔
اٹھائے گئے ایشوز پر تفصیلی طور پرتو بلا سود بنکاری سے وابستہ کار ہی لکھ سکتے ہیں، لیکن کم علمی کے باوجود دو تین باتوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے یہ عریضہ لکھ رہا ہوں۔
پروفیسر زاہد صدیق مغل صاحب نے اپنے مضمون’ اسلامی بنکاری :زاویۃ نگاہ کی بحث‘ اگست کے شمارہ میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بلا سود بنکاری کے مجوزین کا مفروضہ (کہ یہ عوام کی ناگزیر ضروت ہے) ہی محل نظر ہے اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی سالانہ رپوٹ کی مدد سے ایک ٹیبل بنا کر یہ تخمینہ پیش کیا ہے کہ آبادی کے تناسب سے 13.7% لوگ اس نظام سے وابستہ ہیں اور پھر مختلف کمپنیوں پراجیکٹس اور ایسے اکاؤنٹ جو بوجہ ضرورت کھلوائے جاتے ہیں، ان کو نکال کر8%تک تسلیم کیا ہے اور اس کو قلیل کہتے ہوئے طنز کے انداز میں لکھتے ہیں کہ ’’سوال یہ ہے کہ کیا آبادی کے اسقدر قلیل افراد کے عمل کو’عوام کی نا گزیر ضرورت‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا پاکستان کی نوے فی صد سے زیادہ وہ اکثریت جو بنکوں،اسٹاک ایکسچینج اور بیمہ کمپنیوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتی زندگی کی نعمت سے محروم ہو چکی ہے؟آخر آبادی کا یہ اکثریتی حصہ بنکوں کے بغیر اپنا معاش کیسے چلا رہی ہے؟آخر اسلامی بنکاروں کو آبادی کی اس قدر ’محدود اقلیت‘کے مسائل(جن کی نوعیت بھی ذیل میں آرہی ہے)حل کرنے کی اتنی فکر کیوں لاحق ہو چلی ہے؟سارے اجتہادات و توجہ کا محورو مرکزیہی محدود اقلیت کیوں ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں کہ ’’یہ عجیب منطق ہے کہ دس فیصد عوام کو بنکاری سے بچانے کے بجائے اسلامی کا لیبل چسپاں کر کے نوے فیصد کو اس میں شامل ہونے کے لیے اداراتی صف بندی فراہم کر دی جائے،فیاللعجب‘‘
اول تو مفتی زاہد صاحب کے مضمون میں کم ازکم مجھے یہ بات کہیں نہیں ملی کہ اسلامی بنکاری اس لیے جائز ہے کہ بنکاری ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔ مغل صاحب نے خود ایک نظریۂ ضرورت ایجاد کرکے اس کی تردید شروع کردی ہے۔ مفتی صاحب نے پہلی قسط میں بڑی وضاحت سے غیر سودی بنکاری کا پس منظر بیان کیا ہے، اسے دوبارہ ملاحظہ فرمانے کی ضرورت ہے ۔ مفتی صاحب کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ غیر سودی بینکاری سودی بنکاری کے خلاف علما کی جد وجہد کا ایک فیز ہے اور ان علما کو اس پر اس لیے غور کرنا پڑا کہ دین دار عبادت گذار لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو سود کی وعیدیں سنانے کے باوجود اسے چھوڑ نہیں رہے تھے ۔ اب ان کی خاطر سود کو تو حلال نہیں کہا جاسکتا تھا، البتہ چند مباح عقود کی طرف ان کی راہ نمائی کی جاسکتی تھی ۔
اس بات سے قطع نظر بھی کرلیا جائے تو کیاجناب مغل صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ کیا پاکستان جیسے غریب ملک میں ہر آدمی خود کفیل ہے یا ایک آدمی کئی کئی افراد کا بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی لیبر فورس55.77ملین ہے جس کو آبادی پر تقسیم کیا جائے تو ہر ایک صاحب روزگار ایک نہیں بلکہ اوسطاً تقریباً 3.5آدمیوں کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ ان میں کتنے بچے ہیں جو اپنی ماں باپ کی انگلی کے سہارے پل رہے ہوتے ہیں، کتنی بیوائیں ہیں جو اپنے بھائیوں کے سہارے جی رہی ہوتی ہیں،اور کتنے بوڑھے ماں باپ ہیں جو اپنی اولاد کے رحم و کرم پر زندگی کے دن پورے کر رہے ہوتے ہیں ۔ تو کیامغل صاحب کے اعدادو شمار کے مطابق 10% تعداد خود بخود35% نہیں بن جاتی؟ اس کو قلیل کہیں گے یا کثیر؟ حاصل یہ کہ بنکوں میں افراد کے کھاتوں کی تعداد کو ان کے زیرِ کفالت افراد کے ساتھ ضرب دے کر پھر کل آبادی میں سے اس کا تناسب نکالنا چاہیے۔ پھر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دن بدن عام آدمی کا بھی بنک کی طرف رجحان بڑھ رہاہے۔ میرا اپنا تعلق دیہاتی پس منظر سے ہے ، مجھے معلوم ہے کہ عام دیہاتی جو بنک کے قریب سے گذرتا ہوا بھی ڈرتاتھا، اب وہ بھی اکاؤنٹ کھلوانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آنے والے وقت میں یہ تناسب بڑھے گا۔ اس لیے مغل صاحب کے استدلال کو اسی طرح لے بھی لیا جائے جس طرح وہ اسے پیش کررہے ہیں، تب بھی اس استدلال کی عمر اتنی زیادہ نہیں ہوگی۔
مغل صاحب نے ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ پر کافی صفحات لکھے ہیں، حالانکہ مفتی صاحب نے کہیں اس اصول کو بنیاد ہی نہیں بنایا۔ پھر بھی مان لیا جائے کہ مجوزین کا استدلال اس مقدمے پر مبنی ہے تو یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ یہ اصول کہاں سے اخذ کرلیا کہ اس اصول کے اطلاق کے لیے کم از کم اتنے فیصد آبادی کا اس کے دائرے میں آنا ضروری ہے۔ اگر مغل صاحب کے بقول 8% کا تناسب ہی لے لیا جائے تو یہ بھی کروڑوں کی تعداد بنتی ہے ، کیا اتنے لوگوں کی ضرورت کے بارے میں شرعی دائرے میں سوچنا گناہ ہے؟ آج سنگین بیماریوں کے علاج کی بعض صورتیں فقہا کے زیرِ غور ہیں، بعض میں جواز وعدمِ جواز میں اختلاف بھی پایا جاتاہے۔سوال یہ ہے کہ ان بیماریوں میں مبتلا افراد کا تناسب کتنا ہے؟ کیا جب تک ان بیماریوں میں مبتلا افراد کا تناسب مغل صاحب کے معیار تک نہیں پہنچتا، تب تک ایسے کسی مسئلے پر غور اور بحث کو روک دینا چاہیے؟ حاصل یہ کہ اول تو یہاں الضرورات تبیح المحظورات کا کم ازکم مفتی زاہد صاحب کے استدلال میں کوئی حوالہ نہیں، اور اگر ہو بھی تو ضرورت کا تحقق ایک آدمی کے حق میں بھی ہے اوراس پر یہ اصول لاگو ہوگا۔
مفتی صاحب نے جناب مغل صاحب کو کل اور جز کا فلسفہ ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ہما را اتعلیمی نظام باطل کا ایجنڈا پورا کر رہا ہے اور اس کی بنیادیں ہی غلط ہیں، لیکن اگر کوئی اس نظام تعلیم کا حصہ ہے تو ہم اس پر کوئی فتویٰ نہیں لگا سکتے جس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ کل اور جز کی بحث کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے جواب میں اگست کے شمارے میں اس مثال کو ’منطقی تضاد پر مبنی الزامی‘ کہتے ہوئے جناب مغل صاحب نے کچھ سوال اٹھائے ہیں جن میں بنیادی باتیں دو ہیں۔ پہلی ’’یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر ایک غلط عمل کسی دوسرے غلط عمل کی دلیل کس طرح بن سکتا ہے؟ (منطق میں اسے Fallacy of two wrongs make a rightکہتے ہیں)۔ پہلی بات یہ کہ راقم الحروف کے کسی جدید تعلیمی درسگاہ کا حصہ ہونے سے یہ کہاں ثابت ہواکہ وہ نظام تعلیم درست ہے؟‘‘ میں مغل صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب مفتی صاحب خود اس کو غلط نہیں سمجھتے جیسا ان کے مضمون سے واضح بھی ہے کہ وہ اس کو غلط کہنے میں تردد کا اظہار کر رہے ہیں تو ان پر الزامی دلیل کیسے قائم کی جا سکتی ہے کہ’ ’زاہد صدیق کے غلط ہوجانے سے غلط نظام درست ہے‘‘۔ دوسری ’’کیا دعویٰ کرنے والے کے قول و فعل کے تضاد سے اس کے دعوے کی منطقی تردید لازم آتی ہے؟ (منطق میں اسے Fallacy of look who is talkingکہتے ہیں)۔ سگریٹ کو برا کہنے والا اگر خود اس کے کش لگائے تو اس سے سگریٹ کے نقصانات غلط ثابت نہیں ہو جاتے۔‘‘ یعنی مغل صاحب خود اس نظام تعلیم کو برا سمجھتے ہیں جیسا کہ انہوں نے فرمایا: ’’راقم الحروف موجودہ نظام تعلیم کو سرمایہ دارانہ شخصیت کی تعمیر و تشکیل کا نظام سمجھتا ہے اور اپنے طلبہ کو بھی حد الامکان اس کی بنیادی حقیقت اور موجودہ تعلیمی نظام(خصوصا علم معاشیات) کے تضادات سے آگاہی دینے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ مغل صاحب اپنی غلطی کو عملی غلطی سے تعبیر کرتے ہیں اور اسلامی بنکاروں کا فکر وعمل دونوں ہی غلط بتاتے ہیں: ’’راقم کا مؤقف یہ ہے کہ مجوزین اسلامی بنکاری کی فکر اور عمل دونوں ہی غلط ہیں۔راقم کے غلط عمل کی بنیاد پرمجوزین اپنی غلط فکر کو درست ثابت نہیں کر سکتے‘‘۔ میں اپنی کوئی رائے قائم نہیں کرنا چاہتا بلکہ جناب مغل صاحب سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب آپ جیسا دین و دنیا کا عالم جس کے قول و فعل میں تضاد ہے کہ وہ ایک نظام کے ناقد ہوتے ہوئے بھی اس کے منافع سمیٹ رہاہے توعوام کا کیا حال ہوگا جو بحیثیت امت 90%تو نماز چھوڑے ہوئے ہیں اور بنکوں کے سود کو سود ماننے پر بھی تیار نہیں ہیں اگر۔ مانتے بھی ہیں تو ضرورت کے درجہ میں چھوڑ بھی نہیں سکتے تو آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس صورت حال میں امام غزالی کا فلسفہ زہدو قناعت کہاں تک اثر کرے یگاجو بظاہر اس فلسفہ کے علمبرداروں کی زندگی میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ پھر جس نظام سے منافع سمیٹے جا رہے ہوں، اس پر نقد کرتے ہوئے آواز کلاس روم کی چار دیواری سے بھی بلند نہ ہو اور جس نظام سے مفاد وابستہ نہ ہو، اس پر نقد کرتے ہوئے کئی کئی اوراق سیاہ کر دیے جائیں۔ ہم جناب مغل صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ موجودہ نظام تعلیم پر جس کا وہ خود حصہ ہیں، کھل کر لکھیں اور اس کی شرعی صورتحال بھی واضح کریں اور پوری شد ومد کے ساتھ بتائیں کہ اس نظام کا کسی بھی طرح حصہ بننا ناجائز ہے۔ جس طرح انہوں نے خود اپنے عمل کی غلطی کو تسلیم کیا ہے، اسی طرح دوسروں کو بھی اس غلطی سے آگاہ فرمائیں، کیونکہ تعلیمی اداروں میں بہت سے اساتذہ اس نظام کو غلط سمجھتے ہوئے ہی اس کا آلہ کار بنے ہوئے ہوں گے، تاکہ ان پر واضح ہو جائے۔ یہ بھی بتائیں کہ کسی کام کو غلط سمجھ کر کرنے والے میں اور غلط کو صحیح سمجھ کر کرنے والے میں بڑا مجرم کون ہے، جب کہ غلط کو صحیح سمجھنے والے کی خطا بھی اجتہادی نوعیت کی ہوکیونکہ اگر بلا سود بنکاری کے مجوزین کی خطا کو جناب مغل صاحب اجتہادی نہ مانیں تو ان کو نیت پر بھی شک کرنے کا کوئی اختیارنہیں ہے۔
جناب مغل بہت شد ومد کے ساتھ یہ فرمارہے ہیں کہ بینک اتنی بڑی برائی ہے کہ اس کو پوری دنیا کے علما اور مسلمان ماہرین مل کر کبھی اسلام کے مطابق نہیں بناسکتے، اس لیے ہمیں توقع ہے کہ جناب مغل صاحب کا خود کسی بھی بنک سے کوئی رابطہ نہیں ہوگا اور وہ یونیورسٹی سے تنخواہ بھی بنک کی بجائے دستی وصول کر کے اسے گھر میں ہی رکھتے ہوں گے ، اس لیے کہ کسی نظریۂ ضرورت کے عنوان سے وہ ’’ فِٹ اِن‘‘ ہونے کے قائل نہیں ہیں، بلکہ مغل صاحب نے تو موجودہ کرنسی کو بھی جعلی رسید ہونے کی بنا پر برائی قرار دیا ہے تو میرے جیسا طالب علم یہ پوچھنا چاہے گا کہ وہ بازار میں کون سا سکہ لے کر جاتے ہیں؟ میرے خیال میں تو انہیں یہ پیش کش قبول کرلینی چاہیے کہ وہ ایک ماڈرن یونیورسٹی میں تعلیم دینے کی بجائے کسی دور افتاد گاؤں کے مکتب میں خدمات انجام دیں، اس لیے کہ آج بھی بعض دیہاتوں میں اناج کے ذریعے خرید وفروخت ہوتی ہے اور مولوی صاحب کا حق الخدمت بھی اناج کی شکل میں ہوتاہے۔ اسی کے عوض وہ گاؤں کی’ ہٹی‘ سے اشیا ضرورت خریدتاہے۔کیا مغل صاحب کے نقطۂ نظر سے یہ زیادہ آئیڈیل صورتِ حال نہیں ہے؟ ہمارا مقصد خدانخواستہ کوئی طنز و تعریض کرنا نہیں ہے ، بات یہ ہے جناب پروفیسر صاحب اپنے سے اختلاف رکھنے والوں پر جس انداز کی تنقید کرتے ہیں، اس سے ایک سیدھے سادے قاری کے ذہن میں یہ سوالات خود بخود پیدا ہوتے ہیں۔
اسلامی بنکاری کے بارے میں کسی کو مانعین کے نقطۂ نظر سے اتفاق ہو توبھی جواز کو اہلِ علم کی ایک علمی رائے تو تسلیم کرنا پڑے گا، اس لیے بہر حال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ اس قسم کے مسئلے کو اسلامی قحبہ خانوں والی مثال پر قیاس کرنا کس حد تک درست ہے؟ ایسی اخلاقیات سے گری ہوئی مثالوں سے کسی جاہل کو چپ تو کروایا جا سکتا ہے، لیکن جب اس طرح کی مثال علمی حلقوں میں اپنا نقطۂ نظر ثابت کرنے کے لیے دی جائے تو یہ خود ہی اپنا مدعا کمزور کرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔ اس پر اگر مد مقابل عافیت کی راہ اختیار کرتے ہوئے چپ کر جائے تو یہ بھی ایک مصلحت مفتی صاحب کی طرف سے خاموشی کی سمجھی جا سکتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مفتی صاحب نے اپنے مضمون میں جو اہم علمی نکات اٹھائے تھے، ان میں سے اکثر پر پروفیسر مغل صاحب نے کچھ فرمانے کی بجائے انہیں تو وعدۂ فردا پر ٹال دیاہے اور غیر متعلقہ مباحث سے صفحات بھر دیے ہیں۔ مثلاً مفتی صاحب نے اس بات کی نشان دہی کی کہ مغل صاحب کے مضمون میں حدیث کی کسی کتاب کا جو اکلوتا حوالہ دیا گیا ہے یعنی موطا امام مالک کی ایک روایت، اس کا ترجمہ ہی انہوں نے غلط کیاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پروفیسرصاحب کے مضمون پر یہ بہت سنجیدہ اعتراض تھا ، لیکن مغل صاحب نے نہ تو یہ ثابت کیا ہے کہ ان کا کیا ہوا ترجمہ ٹھیک ہے اور نہ ہی انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا ہے۔ اس کی بجائے وہ ایک ثانوی بحث میں الجھ گئے کہ انہوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کے اس اثر کا تفصیلی حوالہ کیوں نہیں دیا۔ اسی طرح مغل صاحب کا بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ بینک( اسلامی بینکوں سمیت) قرض کی جعلی رسیدوں کا کاروبار کرتے ہیں جو کہ ناجائز ہے ، نیز اگر رسید جعلی نہ بھی ہو تب بھی ان کے ساتھ لین دین کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ دین کے ساتھ تعامل ناجائز ہے۔اس پر مفتی صاحب نے تفصیل سے اس غلط فہمی کے اسباب بیان کرتے ہوئے یہ سوال کیا ہے اسلامی بینکوں کے حوالے سے بالتعیین کسی ایسے معاملے کی نشان دہی کی جائے جو جعلی رسید کے زمرے میں آتاہو یا اس میں دَین کا ایسا لین دین پایا جاتاہو جسے فقہانے ناجائز قرار دیاہے۔
پھر مغل صاحب نے کرنسی کو رسید نہ کہنے والوں کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیاہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ مغل صاحب کے پردادا شیخ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے اسی جیسے بلکہ اس سے تلخ لہجے میں رسید کہنے والوں پر رد کیاہے ، مثلاً انہوں نے رسید قرار دینے والی رائے ( جیسا کہ مغل صاحب بھی نہ صرف رسید بلکہ جعلی رسید قرار دیتے ہیں)کو گمان فاسد اور نہایت بد تر شک اور ایسی رائے رکھنے والوں کو سفیہ اور واہم قرار دیاہے۔ مجھے امید ہے کہ پروفیسر صاحب نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے رسالہ کفل الفقیہ الفاہم اور کاسر السفیہ الواہم کا مطالعہ ضرور کیا ہوگا۔ جناب مغل صاحب نے اپنی تلخ نوائی کا ایک مضمون میں جواز یہ پیش کیا ہے کہ جب غلط بات شد ومد سے کی جارہی ہو تو ایسا ہوہی جاتاہے۔ حضرت فاضل بریلوی کی رائے بھی مغل صاحب کے نقطۂ نظر سے نہ صرف غلط بلکہ انتہائی غلط ہے جبکہ اعلیٰ حضرت اسے بہت شد ومد سے پیش کررہے ہیں اور آج بھی فتاویٰ رضویہ کے ضمن میں اس کی عام اشاعت بھی ہورہی ہے۔ ہم انتظار کریں گے کہ جناب پروفیسر مغل صاحب حضرت فاضل بریلوی کی رد میں اپنے اسی لہجے میں کچھ تحریر فرمائیں گے۔
ہمارے نزدیک اسلامی بینکاری کے مانعین اور مجوزین دونوں طرف کے علما اور ان کی آرا قابلِ احترام ہیں، لیکن محترم پروفیسر مغل صاحب سے یہ درخواست ضرور کریں گے کہ وہ اپنے طریقۂ تنقیدپر ضرور نظر ثانی فرمائیں۔
محمد وقاص (بی ایس، اصول دین)
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد
(۳)
محترمی ومکرمی مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام وعلیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ
مارچ۲۰۱۱ء کے شمارے میں آنجناب اور حافظ محمد یونس قاسمی صاحب کی گفتگو پڑھنے کو ملی۔ اسی موضوع پر طالب علمانہ باتیں حاضر خدمت ہیں۔ یہ کوئی ایسی معروضات بھی نہیں جو قبل ازیں آنجناب کے علم وسیع میں نہ ہو ں، لیکن درد دل ہے جو بنا اظہارتھمتا نہیں۔ چند گذاشات حاضر خدمت ہیں:
۱)مرزا کادیانی نے بھی حق تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی اور شیعہ بھی حق تعالیٰ کی شان گستاخی کرتے ہیں اور عقیدہ بدا کے قائل ہیں۔
۲)مرزا کادیانی نے نبوت کا دعوی کیا تو اہل تشیع بھی اپنے بارہ ائمہ میں صفات نبوت کو تسلیم کرتے ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ کی حجۃاللہ البالغہ تو الشریعہ اکادمی کے علما کے لیے سالانہ کورس میں بھی شامل ہے۔ یہی شاہ ولی اللہ ؒ محدث دہلوی اپنی دوسری تصنیف التفہیمات الالہیہ میں شیعہ کے ختم نبوت کے منکر ہونے کا اعلان فرماتے ہیں اور یہ اعلان آنجناب کے لیے بھی قابل حجت ہونا تو چاہیے ۔
۳)کادیانی حضرات اہل بیتؓ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں تو شیعہ بھی اس فعل شنیع میں کادیانیوں کے ہمراہ ہیں بلکہ شیعہ تو کادیانیوں سے قبل ہی اس فعل کے مرتکب تھے او رشیعہ نے صرف ازواج مطہراتؓ ہی کی گستاخی نہیں کی بلکہ سیدنا علیؓ (آثار حیدری)، سیدہ فاطمہؓ (جلاء العیون)، سیدنا حسنین کریمینؓ (اصول کافی، جلاء العیون) کی بھی گستاخی کی ہے۔
۴)کادیانی قرآن مجید کے بجائے ’’تذکرہ‘‘ نامی کتاب کومانتے ہیں تو شیعہ بھی قرآن کریم کے انکاری ہیں۔
۵)کادیانی اگر صحابہؓ کے گستاخ ہیں تو شیعہ بدرجہ اتم اس فعل بد کے مرتکب ہیں بلکہ شیعہ کی پہچان ہی ا س فعل بد سے ہوتی ہے ۔
۶)کادیانی اگر تابعین، تبع تابعین، فقہا، محدثین، اولیاء کرام کے گستاخ ہیں تو شیعہ بھی تابعین،تبع تابعین، فقہا، محدثین، اولیاے امت وجملہ اہل اسلام کے گستاخ ہیں۔
آنجناب کے بقول ’’معاشرتی روابط ومعاملات کا ایک مستقل دائرہ ہے‘‘ اور شیعہ کو مذہبی تحریکات میں اپنے شامل کرنا ’’دراصل سیکولر حلقوں کے اس اعتراض یا الزام کا عملی جواب ہے کہ پاکستان کے اسلامی تشخص، ملک میں اسلام اور شریعت کی حکمرانی کے بارے میں مذہبی مکاتب فکر پوری طرح متفق ہیں اور پاکستان میں نفاذ اسلام فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں، بلکہ متفقہ مسئلہ ہے۔‘‘ آپ کی ان آرا پربصد ادب عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر آپ شیعہ کو کافر سمجھتے ہوئے بھی معاشرتی روابط ومعاملات کے مستقل دائرہ میں رکھ کر دینی تحریکات واجتماعات میں انھیں شامل کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں تو پھر جماعت احمدیہ کو بھی اسی دائرہ میں رکھ کر دینی تحریکات واجتماعات میں شامل فر ما لیں تاکہ آپ کی آواز میں قوت بھی پیدا ہوجائے اور سیکولر طبقہ میں یہ تاثر بھی قائم ہو جائے کہ مذہبی مکاتب فکر پوری طرح متفق ہیں۔ اس طرح آپ کی رائے کے مطابق اسلام، کفر، نفاق کی بحث کے باوجود معاشرتی اور اجتماعی روایات کو الگ الگ دائرے میں رکھا جا سکے گا اور معترضین کا منہ بھی بند ہو جائے گا کہ تمام تر اعتقادی اور فقہی اختلافات کے باوجود پاکستان میں آباد تمام مذہبی مکاتب فکر ایک ہیں۔ بالفرض آپ چناب نگر (ربوہ) والوں کو شامل اتحاد نہ کر سکیں تو لاہوری فرقہ والوں کو تو ضرور شامل اتحاد فرما لیں۔ اگر یہ بھی نہ کرسکیں تو بس اتنا فر ما دیں کہ جو لوگ قرآن کریم کا صریح انکار کریں، جو بارہ افراد میں خصائص نبوت تسلیم کریں،جو سیدنا ابو بکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا معاویہؓ، سیدہ عائشہؓ اور سیدہ حفصہؓ پر ہر نماز کے بعد لعنت کرنے کو دعا کے لیے باعث قبولیت جانیں، ان کے ساتھ اتحاد کیوں؟
احقر آپ سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے معذرت خواہ ہے اگر اس تحریر کے کسی حرف سے آنجناب کی دل آزاری ہوئی ہو۔ سپاہ صحابہ والے مسلک اہل سنت والجماعت سے وابستہ جملہ جماعتوں کی دل سے عزت واحترام کرتے ہیں، لیکن جواب میں انہیں خون کے آنسو رلایا جاتا ہے۔ غیر کی جانب سے آئے ہوئے پتھر کو بھی انسان خوشی سے برداشت کرلیتا ہے لیکن جب اپنوں کی جانب سے ایک سخت جملہ یا سخت اور بے جا تنقید سامنے آئے تو کوہ استقامت انسانوں کے بھی آنسو نکل آتے ہیں۔ کوئی مبلغ صاحب جو ش مبلغی میں صحابہ کو سب وشتم کرنے والے کو مسلمان ہونے کا سرٹیفیکٹ عنایت کرتے نظر آتے ہیں تو کوئی صاحب انہیں موساد کا ایجنٹ گردانتے نظر آتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اگر کوئی زخم پر مرہم نہیں لگا سکتا تو کیا ضروری ہے کہ وہ مرہم کی جگہ نمک لگائے؟ اگر کوئی آنسو نہیں پونچھ سکتا تو کیا ضروری ہے کہ وہ مزید رلائے؟ اگر کوئی دلاسہ نہیں دے سکتا تو کیا ضروری ہے کہ وہ تنقید کے طمانچے مارے؟ اگر کوئی ساتھ نہیں دے سکتا تو کیا ضروری ہے کہ وہ احساس تنہائی دلائے؟
مولانائے محترم!آخر سپاہ صحابہؓ والوں کے ساتھ آپ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیا دفاع صحابہ آپ کے نزدیک جرم ہے؟ میں اور کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں! بس انھی بے ترتیب حروف اور لفظوں پر اجازت چاہوں گا۔ اللہ جل شانہ کی باگاہ میں خلوص قلب سے دعا گو ہوں کہ حق تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور آپ کاسایہ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے، آمین یا رب العالمین۔
عبد المنان معاویہ
maviya_114@yahoo.com
(۴)
برادرم عبد المنان معاویہ صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے بہت اچھا کیا جو اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر دیا۔ اس میں نہ کوئی حجاب کی بات ہے اور نہ کسی قسم کی معذرت کی ضرورت ہے۔ ہم ’الشریعہ‘ کے فورم پر اسی رجحان کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جذبات وتاثرات کو سینے میں گھٹے نہیں رہنا چاہیے، بلکہ ان کا اظہار ہونا چاہیے اور ان پر ایک جائز حد تک کھلا مباحثہ بھی ہونا چاہیے۔ اس سے مسائل کی بہت سی تہیں کھلتی ہیں اور اصل حقائق تک رسائی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
اہل تشیع کے بارے میں میری سابقہ سب گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے خلاف تمام تر فتاویٰ کے باوجود دینی تحریکات میں ان کے ساتھ ہمارے اکابر کا ربط ومعاونت کا تعلق رہا ہے جو ایک ملی ضرورت سمجھا جاتا ہے اور میری رائے میں آئندہ بھی اس ربط ومعاونت کا تسلسل باقی رہنا چاہیے، کیونکہ وہ اجتماعی مصالح بدستور موجود ہیں جن کی وجہ سے ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ قادیانیوں کو ان پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ ہم ان کے بارے میں بھی معاشرتی سطح پر اپنے روایتی موقف سے ہٹ کر ایک اجتماعی فیصلہ کر چکے ہیں۔ پاکستان بننے سے قبل قادیانیوں کے بارے میں ہمارا موقف یہ نہیں تھا کہ انھیں ایک غیر مسلم اقلیت کے طو رپر اسلامی ریاست میں رہنے کا حق دیا جائے، بلکہ ہمارا روایتی موقف شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کے معروف رسالہ ’’الشہاب‘‘ کی صورت میں واضح تھا کہ مرتد کی سزا قتل ہے اور قادیانی بھی مجموعی طور پر اسی زمرے میں شمار ہوتے ہیں، مگر علامہ محمد اقبال کی تجویز یہ تھی کہ قادیانیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت کے طو رپر اسلامی ریاست میں بطور شہری رہنے کا حق دیا جائے اور قتل مرتد کی بات نہ چھیڑی جائے۔
قیام پاکستان کے بعد تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے متفقہ طور پر علامہ محمد اقبالؒ کی اس تجویز کو قبو ل کرتے ہوئے قادیانیوں کو ملک میں غیر مسلم اقلیت کا درجہ دے کر بطور اقلیت ان کی جان ومال اور دیگر حقوق ومفادات کے تحفظ کا اعلان کیا تھا، مگر قادیانیوں نے یہ حیثیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اب قادیانیوں کے ساتھ معاشرتی تعلقات میں پیش رفت کی راہ میں خود قادیانی رکاوٹ ہیں۔ اگر وہ غیر مسلم اقلیت کا درجہ قبول کر کے ملت اسلامیہ کے اجتماعی فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں تو ہم انھیں ایسے تمام معاملات میں شریک کرنے کے پابند ہوں گے جن میں ملک کی دوسری غیر مسلم اقلیتوں کو شریک کیا جاتا ہے اور وہ بھی دوسری اقلیتوں کی طرح قومی معاشرے کا حصہ تصور ہوں گے، جبکہ اہل تشیع کے بارے میں ملت اسلامیہ نے اس قسم کا کوئی اجتماعی فیصلہ نہیں کیا اور اگر یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے تو اس کا آغاز حرمین شریفین سے کیا جانا چاہیے، اس لیے کہ یہ بات دنیا کے کسی بھی منصف مزاج شخص کو ہضم نہیں ہوگی کہ حرمین شریفین میں تو اہل تشیع نماز، روزہ، حج، عمرہ اور دیگر عبادات میں مسلمانوں کے ساتھ بلا روک ٹوک شریک ہوں اور پاکستان میں انھیں غیر مسلم قرار دے کر معاشرے سے الگ کر دیا جائے۔ اس لیے اگر کچھ دوستوں کو اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس کے لیے کام کا اصل میدان یہ ہے کہ حرمین شریفین میں اہل تشیع کو اہل اسلام سے الگ کرایا جائے اور پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کو اس مقصد کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ اہل تشیع کے بارے میں بھی اسی طرح کا اجتماعی فیصلہ کریں جیسا فیصلہ وہ قادیانیوں کے بارے میں کر چکے ہیں۔
جہاں تک سپاہ صحابہ کی قیادت، ناموس صحابہ کے شہدا اور سپاہ کے کارکنوں کا تعلق ہے، ہم نے ان کے خلوص وجذبات، شہادتوں اور قربانیوں کا ہمیشہ اعتراف کیا ہے اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی، تعاون بھی کیا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہر مرحلہ پر ان کے طریق کار سے مسلسل اختلاف بھی کیا ہے۔ میں اس موقع پر والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کے ان دوخطوط کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں انھوں نے سپاہ صحابہ کے قائدین اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کے طریق کار سے اختلاف کیا تھا اور اصلاح احوال کی طرف توجہ دلائی تھی۔ یہ خطوط ان کی زندگی میں شائع ہو کر تقسیم ہوئے تھے اور ان کی یاد میں شائع ہونے والی ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت میں بھی شامل ہیں۔ انھوں نے جہاں سپاہ صحابہ کی قربانیوں کو ان الفاظ میں سراہا ہے کہ:
’’سپاہ صحابہ کے حضرات نے ایران کی طاغوتی طاقت کے بل بوتے پر اور شہ پر چلنے اور ناچنے والی رافضیت کا پاکستان میں جو دروازہ بند کیا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ دینی لحاظ سے فرض کفایہ بھی ہے۔‘‘
وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور جذبات میں آ کر بہت کچھ ’’کہہ‘‘ اور ’’کر‘‘ جاتے ہیں۔ شدت اور سختی سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے اور نہ طاقت وقوت سے کسی فرد یا نظریہ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ .... اس لیے گزارش ہے کہ نوجوانوں کو قولاً اور فعلاً شدت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ روکیں۔ رافضیوں کے کفر میں تو شک ہی نہیں، مگر در ودیوار پر ’’کافر کافر‘‘ لکھنے اور ’’نعرہ بازی‘‘ سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوگا۔ عیاں را چہ بیاں‘‘
سپاہ صحابہ کی قیادت اور کارکنوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں ہمارے جذبات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں۔ ہم ناموس صحابہ کرام کے تحفظ کی جدوجہد کو بھی دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور ایسی ہر جدوجہد میں بحمد اللہ تعالیٰ مختلف مراحل میں شریک کار رہے ہیں، لیکن ہر جدوجہد کے کچھ اصولی اور اخلاقی تقاضے ہوتے ہیں اور حالات زمانہ کے حوالے سے کچھ ناگزیر ضرورتیں، حکمتیں اور مصلحتیں ہوتی ہیں جن سے صرف نظر کرنا درست نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم سپاہ صحابہ کے حضرات کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنی جدوجہد کے لیے جو موقف اور طریق کار چاہیں، طے کریں اور آزادی کے ساتھ اس پر عمل کریں، لیکن ملک کی اجتماعی دینی قیادت اور دوسری جماعتوں کی قیادتوں کو اپنے موقف اور طریق کار کا پابند کرنا انھیں یرغمال بنانے کی کوشش کے مترادف ہے جس سے بہرحال گریز کیا جانا چاہیے۔ شکریہ!
ابو عمار زاہد الراشدی
(۵)
برادر محترم محمد عمار خان صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہنامہ’الشریعہ‘ ایک ایسا پرچہ ہے جس کا انتظار رہتا ہے اور اس انتظار کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں سلگتے ہوئے دینی واجتماعی مسائل پر ’’سود وزیاں‘‘ سے بالاتر رہتے ہوئے بحث کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جسے بہت سے حلقے مصلحت، رخصت، خوف یا استدلال کی صلاحیت میں کمی کے باعث ہاتھ لگانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو حفظ وایمان میں رکھے۔ سچی بات ہے کہ آپ کی یہ ادا اگر ایک طرف سچائی کی تلاش میں قدم بڑھانے کی جسارت ہے تو دوسری جانب برملا آگ کے شعلوں کو پکڑنے کی جرات بھی ہے۔ ہرچند کہ یہ حوصلہ ایک جنس نایاب ہے، مگر اسے پانے کے لیے اعتدال اور ہوش مندی کے دامن کو پکڑنے کے لیے دو چیزوں کی اشد ضرورت ہے: دعا اور رد عمل سے بچنے کی کوشش۔ ٹوٹی پھوٹی دعا ہم کرتے ہیں اور رد عمل سے بچاؤ کی کوشش آپ کیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا۔
مارچ کے شمارے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کی تینوں تحریریں اعتدال، ایمان اور حق نصیحت پر دال ہیں۔ اب اگر کوئی نشہ ایمان میں آگے بڑھ کر یہ کہے کہ ’’مولانا بات سمجھے ہی نہیں‘‘ تو اس کے بارے میں یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ بھائی! ذرا اپنے ایمان کی خبر لو۔ یہ نشہ ایمان نہیں، نشہ عصبیت ہے۔
پروفیسر محمد مشتاق احمد صاحب (اسلام آباد) سے، حقیقت یہ ہے کہ ہم آپ ہی کے پرچے سے متعارف ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں تحقیق وجستجو کی شاہراہ پر کامیابی عطا فرمائے۔ بڑے مشکل پہلووں پر بڑی خوب صورتی سے حق تحریر ادا کرتے آئے ہیں اور تازہ مضمون مختصر ہونے کے باوجود غور وفکر پر ابھارتا ہے۔ تاہم میاں انعام الرحمن صاحب کہ جن سے بڑی توقعات ہیں، وہ ماضی کی قیمتی تحریروں کے برعکس اس مرتبہ اپنے طنزیہ اسلوب پر انحصار کے سبب ذرا دب سے گئے ہیں۔ بڑے اہم موضوع پر انھوں نے محنت سے چیزوں کو اخذ کیا ہے اور سلیقے سے پیش بھی کیا ہے، لیکن کم وبیش ہر دوسرے پیراگراف سے پہلے طنز کے تیر کچھ اس شدت سے برسائے ہیں کہ اس سے پرچہ، نفس مضمون اور خود برادرم انعام صاحب متاثر ہوئے ہیں۔ چلیے، کوئی بات نہیں۔ نوجوان ہیں، ایک بار کر لیا، آئندہ اپنے جذبات یا غصے کو طنز میں ضائع کرنے کے بجائے استدلال میں ڈھال دیں گے۔ بہرحال یہ بات دوبارہ عرض کروں گاکہ اس مضمون کے لیے انعام صاحب نے محنت بھی بے پناہ کی ہے اور زاویہ نظر بھی راست راوی سے مرصع ہے جس نے ان کی سلامتی طبع سے متعارف کرایا ہے۔ ان کا یہ جذبہ بہرصورت قیمتی چیز ہے۔
اسی طرح معاصر عزیز ’محدث‘ جسے ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب مرتب کر تے ہیں، دینی چیلنجوں پر تازہ بہ تازہ رہنمائی دینے میں اولیت پاتا ہے۔ آپ کے ہاں اگر متن کے ساتھ مجرد استدلال سے روشنی تلاش کرنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے تو ’محدث‘ میں کم وبیش قرآن وحدیث کے متن پر کلی انحصار کر کے رہنمائی کا زاویہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ دونوں لہریں بہ یک وقت دینی فہم اور معاصر چیلنج کا جواب دینے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ اس میں خوشی کا مقام یہ ہے کہ دونوں کے مدیر ہم عمر اور نوجوان ہیں۔ ان شاء اللہ مستقبل میں بہتر علمی روایت کو پروان چڑھانے میں مدد فراہم کریں گے۔
(پروفیسر) سلیم منصور خالد
گوجرانوالہ
(۶)
ڈاکٹر محمود احمد غازی کی یاد میں، الشریعہ کی خصوصی اشاعت پر ادارہ، لکھنے والے اور قارئین مبارکباد کے مستحق ہیں۔ خاص طور جناب محمد عمار خان ناصر کی محنت اور یکسوئی قابل داد ہے۔ اس اشاعت کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات کو سامنے لانے کی نہایت کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ دینی علوم پر مہارت کے بعد جدید علوم پر یکساں عبور حاصل کر کے ڈاکٹر صاحب نے اک عالم کو متاثر کیا۔ ان کے رشحاتِ زبان سے مستفید ہونے کے مواقع ان کے خطابات کی صورت میں مہیا ہیں۔ الشریعہ کی خصوصی اشاعت میں ان کا اچھا آئینہ مرتب ہوا ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت سے بخوبی واقف نہیں تھا، اس لیے اشاعت کا بغور مطالعہ کیا۔ یقینی طور پر مجھے اشاعت کی افادیت کو ماننا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب کے دیانت دارانہ طرز عمل کا تذکرہ جس انداز سے ہوا، وہ میرے لیے اور بھی طمانیت کا باعث ہوا۔ دیانت داری ایک بنیادی صفت ہے۔ یہ اہل مذہب ہی نہیں بلکہ مذہب بیزار لوگوں کے ہاں بھی تسلیم شدہ قدر ہے، مگر ہمارے معاشرے میں بہت پیچھے چلی گئی ہے بلکہ نایاب ہو گئی ہے۔ خاص طور پر اونچے مناصب پر فائز ہونے والوں میں تو اس کا گمان بھی مشکل ہے۔ اس پہلو سے ڈاکٹر صاحب کے جس پختہ طرز عمل کا ہر جاننے والے نے ذکر کیا ہے، وہ ان کے کردار کا ایسا جوہر ہے جسے مزید عام کرنے کی واقعی ضرورت ہے۔
ان کے محاضرات کے مطالعے کا کم و بیش ہر پہلو سامنے آیا ہے۔ اس پہلو سے سب سے زیادہ سلیقہ مندانہ پیش کش جناب محمد رشید صاحب کی ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب پر خود سے تو کوئی لمبی چوڑی بحث نہیں کی، مگر ڈاکٹر صاحب کے خطبات سے اقتباسات منتخب کر کیان کو جس ترتیب سے پیش کیا ہے، وہ بڑی خوبصورت اور متاثر کرنے والی ہے۔
اشاعت پر مفصل تبصرے کی اپنی جگہ افادیت ہے، لیکن سردست میں اشاعت میں پائی جانے والی چند الجھنوں کی جانب توجہ دلانے پر اکتفا کروں گا۔ یہ کوشش بھی کروں گا کہ اصل صورت حال کو سامنے لاؤں۔ اس میں مجھے کس قدر کامیابی ہوئی ہے، اس کے بارے میں فیصلہ قارئین کے ہاتھ میں ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مقام پیدائش کے بارے میں خاصا اختلاف ہے۔ ادارہ نے اشاعت کے صفحہ نمبر ۱۱ پر جو سوانحی خاکہ درج کیا ہے، اس میں مقام کا ذکر نہیں کیا۔ سبوح سید نمائندہ جیو نیوز نے ڈاکٹر صاحب کا مقام پیدائش کراچی تحریر کیا۔ (ملاحظہ ہو ص: ۲۵۱)۔ پیغامات اور تاثرات کے حصے میں شریف فاروق اور طاہر فاروق کی جو تحریر شامل کی گئی ہے، اس میں لکھا گیا ہے کہ ’’انہوں نے پاکستان کے ہائی کمیشن نئی دہلی میں آنکھ کھولی۔‘‘ (ص: ۲۶۷) ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی صاحب نے کاندھلہ، مظفر نگر (ہندوستان) کو ان کا جائے پیدائش لکھا ہے۔ انہوں نے تاریخ پیدائش بھی ۱۳ ستمبر درج کی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے سید منصور آغا کی اطلاع (جدید خبر، اردو روزنامہ نئی دہلی کی اشاعت ۲۸ ستمبر ۲۰۱۰ء) پر انحصار کیا ہے۔ اس صورت حال کی صراحت تو مرحوم کے لواحقین کر سکتے ہیں۔ مقام پیدائش کے بارے میں ابہام کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب سرکاری ملازم تھے۔ انہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا۔ پاکستانی ہائی کمیشن دہلی میں کام شروع کیا۔ ۱۹۵۴ء میں پاکستان آئے۔ قیام پاکستان کے سات سال بعد پاکستان آمد کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو ڈاکٹر صاحب کی پیدائش کو کراچی سے جوڑنا ممکن ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان نے ڈاکٹر صاحب کی تاریخ وفات اپنے مضمون میں ۲۴؍ اکتوبر لکھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کمپوزر کی غلطی ہو۔ مضمون کے سیاق سباق سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے بطور جج تقرری کے بارے میں، لکھنے والوں میں کافی الجھاؤ ہے۔ سوانحی خاکے میں شریعت اپیلیٹ بنچ میں ججی کا زمانہ ۱۹۸۸ء تا ۱۹۹۹ء لکھا گیا ہے۔ اس کے بر عکس مولانا محمد صدیق اراکانی (ماہنامہ حق نوائے احتشام کراچی ) کے حوالے سے صفحہ نمبر ۵۸۸ پر لکھا گیا ہے کہ ’’۲۶؍ مارچ ۲۰۱۰ء کو غازی صاحب وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے اور آخر دم تک اس خدمت میں مصروف رہے۔‘‘ اگر شریعت اپیلیٹ بنچ والی بات درست ہو تو وفاقی شرعی عدالت والی بات بے معنی ہو جاتی ہے۔ شریعت اپیلیٹ بنچ، سپریم کورٹ کا بنچ ہے۔ سپریم کورٹ کا جج، بعد میں وفاقی عدالت میں کیسے آ سکتا ہے؟ ہفت روزہ ضرب مومن کے حوالے سے کہا گیا کہ ’’نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں انہیں وفاقی شرعی عدالت کا جج اپائنٹ کیا۔‘‘ اسی طرح سود سے متعلق فیصلے میں ڈاکٹر صاحب کے کردار کے بارے میں کافی الجھاؤ ہے۔ خصوصی نمبر کے صفحہ نمبر ۵۷ پر مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اس مشہور فیصلے کا بڑا حصہ ڈاکٹر صاحب ہی کا تحریر کردہ ہے‘‘۔ ڈاکٹر سید عزیز الرحمن انچارج ریجنل دعوہ سنٹر کراچی نے لکھا کہ ’’سود کے خلاف سپریم کورٹ کے مشہور اور تاریخ ساز فیصلے میں بھی ڈاکٹر صانب بحیثیت جج شریعت اپیلیٹ بنچ شریک رہے اور اس فیصلے کا بڑا حصہ ڈاکٹر صاحب ہی کا تحریر کردہ تھا۔ اس بنچ میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی بھی شامل تھے۔‘‘ (صفحہ نمبر ۱۹۲، ۱۹۳)۔ اسی طرح کے ابہامات کئی اور مقامات پر بھی موجود ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن خان کے حوالے سے اشاعت خاص کے صفحہ نمبر ۵۶۸ پر درج ہے کہ ’’میں نے سود کیس چھ ماہ سننے کے بعد جو جج منٹ لکھی، اگر غازی مرحوم کی معاونت نہ ہوتی تو میرے لیے وہ لکھنا ممکن نہ تھا۔‘‘
قانونی جرائد سے صحیح صورت حال کی جستجو سے یہ واضح ہوا کہ جناب محمود احمد غازی کا ۵؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو شریعت ایپلیٹ بنچ میں تقرر کیا گیا۔ یہ نواز شریف کا دورِحکومت تھا۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کیس کا فیصلہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۹۱ء کو کیا تھا۔ اس وقت وفاقی شرعی عدالت کے چیئر مین جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن تھے۔ ان کے ساتھ شریک فیصلہ ججوں میں ڈاکٹر فدا محمد خان اور جسٹس عبیداللہ خان تھے۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ میں مختلف اپیلیں دائر کی گئیں۔ ان اپیلوں پر ابھی سماعت نہیں ہوئی تھی کہ وفاق کی جانب سے واپسی اپیل کی درخواست دائر کر دی گئی۔ وفاق کی جانب سے واپسی کی درخواست مسترد ہوئی۔اس کی رپورٹ PLD 2000 SC 770 میں موجود ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف ایک اپیل ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی جانب سے تھی۔ وفاق واپسی اپیل کی درخواست اور ہاؤس بلڈنگ کی جانب سے اپیل کی سماعت میں جناب محمود غازی دیگر ججوں کے ساتھ شریک ہوئے۔ ہاؤس بلڈنگ کے علاوہ باقی اپیلوں کی سماعت ایک ہی تاریخوں پر ہوئی۔ یہ سماعت فروری ۱۹۹۹ء سے شروع ہوئی اور ۶ جولائی ۱۹۹۹ء تک جاری رہی۔ باقی اپیلوں کے فیصلے کی رپورٹ پی ایل ڈی میں مطبوعہ رپورٹ میں مقدمے کا عنوان محمد اسلم خاکی بنام محمد ہاشم ہے۔ کیس کا فیصلہ ۲۳؍دسمبر ۱۹۹۹ء کو سنایا گیا۔ اس کی رپورٹ PLD 2000 SC 225 پرموجود ہے۔ ہاؤس بلڈنگ والی اپیل کا فیصلہ مولانا محمد تقی عثمانی نے تحریر کیا۔ اس فیصلے میں زیادہ تر دیگر اپیلوں کے فیصلے پر انحصار کیا گیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے، غازی صاحب کا نام ہاؤس بلڈنگ والی اپیل کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل ہے۔ البتہ ایک بات کو میں نہیں سمجھ سکا کہ دیگر اپیلوں کی سماعت اس اپیل کے ساتھ ہی ہوئی، مگر ان کی سماعت کرنے والے بنچ میں جناب غازی صاحب کا نام شامل نہیں۔
بہر حال واضح ہے کہ ان میں سے کسی کیس میں جناب ڈاکٹر محمود غازی نے الگ سے کوئی فیصلہ نہیں لکھا۔ اس طرح یہ کہنا کہ سود کے متعلق فیصلے کا بڑا حصہ ڈاکٹر محمود غازی کا لکھا ہوا ہے، غلط معلوم ہوتا ہے۔ سود سے متعلق شریعت اپیلٹ بنچ کا فیصلہ جناب جسٹس خلیل الرحمن نے لکھا۔ بنچ کے دیگر ارکان میں سے منیر اے شیخ نے فیصلے پر دستخط کیے، البتہ جسٹس وجیہ الدین احمد اور جسٹس محمد تقی عثمانی نے علیحدہ سے تائیدی فیصلے لکھے۔ جسٹس خلیل الرحمن خان نے خصوصی اشاعت میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر غازی نے فیصلہ لکھنے میں ان کی معاونت کی۔ بہر حال اس معاونت کا جسٹس خلیل الرحمن خان نے اپنے فیصلے میں کہیں ذکر نہیں کیا۔ سال ۲۰۰۰ء میں سپریم کورٹ کے ججوں کی پی ایل ڈی اور پی ایل جے میں ڈاکٹر غازی صاحب کا نام درج نہیں۔ اس کی بدیہی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر غازی پرویز مشرف کی سکیورٹی کونسل میں شامل ہو گئے تھے۔ بہر حال ڈاکٹر غازی ۵؍اکتوبر ۱۹۹۸ء سے سال ۱۹۹۹ء کے اواخر تک سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں رہے۔ اس طرح ۱۹۸۸ء تا ۱۹۹۹ء تک ان کے شریعت اپیلٹ بنچ میں رہنے کی بات درست نہیں۔
میں نے اپنی تئیں جستجو کر کے صحیح صورت حال متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوئی صاحب مزید صراحت کریں تو میرے اور قائین کے لیے مفید ہو گی۔
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ