اس وقت دنیا میں ترقی کو جا نچنے کے لیے تین طریقے رائج ہیں۔ انہیں تین مکاتب فکر بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک مکتبہ فکر کے مطابق کوئی ملک اس وقت ترقی یافتہ ہو جاتا ہے جب اس کا GNP نمو پذیر رہے اور قومی ضروریات پوری کرتا رہے۔ والٹ روسلو Walt Roslow) (کی کتاب ’’معاشی نمو کے مراحل‘‘ (The Stages of Economic Growth) کی طرح مزید کئی کتب نے ترقی کے اس پہلو کو خاصا اجاگر کیا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی منصوبہ بندی میں ماہرین معاشیات کے حتمی کردار نے بھی غیر معاشی عوامل کو عملاً دیس نکالا دے دیا ہے۔
جدید دور میں شاید ہی کوئی ایسا ماہر معاشیات ہو جو دھڑلے سے مذکورہ بالا نظریے کی حمایت کرے کیونکہ اب ترقی کے گراف کے لیے ایچ ڈی آئی (Human Development Index) سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ملک جی این پی کی شرح کے اعتبار سے بہتر پوزیشن میں بھی ہو لیکن اس کی کارکردگی ایچ ڈی آئی میں انتہائی بری ہو تو ایسے ملک کو ترقی یافتہ یا خوش حال نہیں کہا جا سکتا۔ دنیا میں اس وقت ترقی کو عموماً ایسے جانچا جاتا ہے: ترقی = معاشی نشو ونما + سماجی تبدیلی۔ یعنی ترقی صرف معاشی نشوونما کے گرد نہیں گھومتی بلکہ اس کے متوازی سماجی تبدیلی بھی عمل میں آنی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ترقی اور جدت فیکٹریوں کی موجودگی کا نام نہیں ہے بلکہ فیکٹریوں پر ایک خاص نقطہ نظر کی موجودگی کا نام ہے۔ یہاں اس امر کا اعتراف ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ اس مکتبہ فکر کے ہاں بھی عملاً سماجی تبدیلی کی حیثیت ثانوی رہی ہے۔
تیسرا مکتبہ فکر اخلاقی قدرو ں پر بہت زیادہ زور دیتاہے۔ اس کے مطابق سماجی تبدیلی کو ممکنہ حد تک وسیع تاریخی سیاق وسباق میں دیکھا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی حلقے اس مکتبہ فکر سے خاصے متاثر ہیں۔
دنیا میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ترقی کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا اور اس کا بدل لبریشن (Liberation) کو قرار دیتا ہے۔ لبریشن کا مطلب ہے کہ آبادی کی اکثریت، مقتدر اقلیت سے چھٹکارا حاصل کر لے اور ’’تبدیلی کے عمل‘‘ پر اپنا کنٹرول قائم کرے۔ اس کے برعکس اگرچہ ترقی میں بھی تبدیلی کی بات ہوتی ہے جیسا کہ ابتدائی سطور میں ذکر ہوا، لیکن یہ تبدیلی اس قسم کی ہوتی ہے کہ زیادہ تر فوائد مقتدر اقلیت ہی سمیٹ لیتی ہے مثلاً پیداوار کا زیادہ ہونا اور وسیع پیمانے پر کھپ جانا، ہاؤسنگ اور میڈیکل کی بہتر سہولتیں وغیرہ۔ تیسری دنیا کے سماجی ماہرین، منصوبہ ساز اور سیاسی قائدین بھی ’’ترقی‘‘ کے رائج الوقت معیار اور مفہوم کی بابت تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کی اکثریت روایتی دانش (Conventional Wisdom) کے کھوکھلے پن کو بخوبی جانتی ہے اس لیے وہ غیر ملکی امداد، غیر ملکی سرمایہ کاری اور تکنیکی امداد میں مضمر منفیت کے پیش نظر ’’لبریشن‘‘ کی پزیرائی کے خواہاں ہیں۔
اس وقت اگرچہ بعض ممالک میں بین الاقوامی مالیاتی ایجنسیوں کے تعاون کی بدولت معاشی نشوونما ہوئی ہے لیکن سماجی سطح پر طبقاتی تعلقات میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ ’’دولت اور طاقت کی تقسیم‘‘ کا پرانا استحصالی نظام نہ صرف قائم ہے بلکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں جنوبی کوریا اور تائیوان کی مثال دی جا سکتی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین ایک اعتبار سے منفرد ہے کہ وہاں جاگیردارانہ سماجی نظام ختم کیا جا چکا ہے۔ حکمرانوں میں جب بھی (Elitism) ظاہر ہونے لگتی ہے تو اسے جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تکنیکی کام یابیوں کو ثقافتی تقاضوں کے تحت رکھا گیا ہے۔ چین میں ایسا اس لیے ہو سکا کہ اس کی اپروچ میں ’’لبریشن‘‘ جھلکتی ہے۔
لہٰذا لبریشنسٹس (Liberationists)کے مطابق ترقی یا کام یابی ’’فوائد کی کثرت‘‘ پر موقوف نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کسی معاشرے میں تبدیلی کا عمل کیسے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اگرچہ ظاہری فوائد بھی دیکھے جاتے ہیں لیکن ان کے حصول میں فیصلہ کن کردار اس امر سے متعین ہوتا ہے کہ کیا معاشرے میں عوامی سطح پر خود مختاری پائی جاتی ہے بجائے اس کے کہ Elitist عناصر چھائے ہوئے ہوں۔ کیا نقل کے بجائے سماجی تخلیقیت بھی تبدیلی کے عمل میں شامل رہی ہے؟ اور کیا تبدیلی کی قوتوں پر پورا کنٹرول رہا ہے یا محض ان سے ایڈجسٹ منٹ پر اکتفا کر لیا گیا ہے؟
اگر ہم بنظر غائر دنیا میں موجودہ رجحان کا جائزہ لیں تو نام نہاد ترقی پھیلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے جی این پی میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ تیسری دنیا کے غریب عوام کے ’’استحصال‘‘ کا مرہون منت ہے یعنی ترقی کے دوسرے سرے پر ’’لبریشن‘‘ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کنٹرول سے خود ان ممالک کے اندر بھی ’’لبریشن‘‘ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ان ممالک میں تبدیلی کا عمل بلاشبہ Elite oriented رہا ہے۔ اب اسے Mass oriented ہو جانا چاہیے۔ شاید ایسا ہونے سے ہی ان ممالک کی پالیسیاں، جو کہ دیگر ترقی پذیر ممالک کی بابت ہیں، استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک صاف ہوں گی۔
حیرت کی بات ہے کہ وطن عزیز میں بھی ترقی کی راہ پر گام زن ہونے کے لیے معاشی فیکٹر کو حرز جان بنا لیا گیا ہے۔ ایچ ڈی آئی اور لبریشن کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی۔ خواندگی کی شرح شرم ناک ہے اور شرح اموات پر کنٹرول بھی بہت سے ترقی پذیر ممالک کی نسبت کم ہے۔ خواتین سے کھیتوں میں ڈھور ڈنگروں کی طرح کام لیا جا رہا ہے۔ قومی ذمہ داریوں کو شیئر کرنے میں ان کا کردار تقریباً صفر ہے، بالخصوص اس تناظر میں کہ وہ ملکی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ ہیں۔ حالیہ الیکشن میں اگرچہ تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں مذکور امور کو سرفہرست رکھا ہے لیکن بدیہی طور پر ان کی دل چسپیاں کچھ اور ہی دکھائی دے رہی ہیں۔ ڈاکٹر حضرات اور پروفیسر صاحبان آئے دن واویلا کرتے رہتے ہیں کہ ڈی نیشنلائزیشن حقیقت میں لبریشن کی ضد ہے اور بورڈ آف گورنرز کا ’’لالی پاپ‘‘ استادوں کو استادی دکھانے والی بات ہے۔ لیکن ترقی کے دلدادہ لوگوں کا کان ایسا ہے کہ اس پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ملک کو ترقی اور خوش حالی کی راہ پر ڈالنے والے ہمارے قابل ماہرین اور پالیسی ساز اگر صرف Costa Rica جیسے ملک سے ہی اپنی کارکردگی کا موازنہ کریں تو بغلیں جھانکتے نظر آئیں گے۔ کوسٹاریکا میں خواتین کی شرح خواندگی ۱۹۶۰ء میں ۱۷ فی صد تھی جو کہ Mass oriented policies کی بدولت ۱۹۸۰ء میں ۶۵ فی صد تک پہنچ گئی۔ ان تعلیم یافتہ خواتین نے شیر خوار بچوں اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس طرح بالواسطہ صحت پر حکومتی اخراجات کم ہو گئے۔
ہماری رائے میں مسائل حل کرنے کا راستہ ڈی نیشنلائزیشن نہیں بلکہ Structural vulnerability کو ایڈریس کرنے میں ہے کہ اسی کی وجہ سے معاشی، سیاسی اور ثقافتی قوتوں پر کنٹرول حاصل نہیں ہوتا اور معاشرہ شتر بے مہار کی طرح ہو جاتا ہے۔ ایسے میں خارجی طاقتیں ’’مہار‘‘ بننے کی کوشش ہی نہیں کرتیں بلکہ کام یاب بھی ہو جاتی ہیں۔ ان کی کام یابی سے ’’لبریشن‘‘ کی قیمتی پر ترقی بھی اپنے بازو کھول دیتی ہے تاکہ پورے معاشرے کو کھلے بازوؤں میں سما کر بھینچ سکے۔
وطن عزیز میں نئی منتخب اسمبلی کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں پر منحصر ہوگا کہ وہ صرف نام نہاد ترقی کا انتخاب کرتے ہیں یا لبریشن کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ہر کس وناکس کو اندازہ ہے کہ اگر ہمارے قائدین نے صرف ترقی کے راستے کو ترجیح دی اور عوامی مفاد کو پس پشت ڈال کر لبریشن کو تج دیا تو مستقبل ان کی ’’مہذبانہ یاسیت‘‘ کا مضحکہ اڑائے گا۔ ماضی میں قوموں پراس سے بھی بھاری وقت آتے رہے ہیں لیکن کوئی قوم ہماری طرح ایسی ذہنی تکان کا شکار نہیں ہوئی۔ انیسویں صدی کے شکست خوردہ فرانس نے دنیا کے عظیم اذہان پیدا کیے تھے کیونکہ فرانس کی معاشرتی اور ثقافتی زندگی میں لبریشن اور ایگو بدرجہ اتم موجود تھے۔ اسی مخصوص فضا کے طفیل فرانس کو دوبارہ کھڑے ہونے کا موقع مل گیا لیکن اس وقت وطن عزیز میں استعماری فضا بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، موجود تو وہ پہلے سے ہے۔ عوام کی تعلیم وصحت پر دھڑلے سے ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور شرمندہ ہونے کے بجائے توجیہات پیش کی جا رہی ہیں حالانکہ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری ترقی غالباً وسائل اور اطوار کی ترقی ہے۔ زندگی کے مقاصد اور اعیان سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ کسی قوم کا مخصوص نظام تعلیم ہی ہوتا ہے جو مقاصد اور اعیان کی نگہبانی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں پروان چڑھاتا ہے۔ یہ نظام تعلیم استعماری فضا کی نہیں بلکہ لبریشن اور ایگو کی فضا کا تقاضا کرتا ہے تاکہ معاشرے میں ایسے اذہان جنم لے سکیں جن کے طفیل پورا معاشرہ ذہنی اور تہذیبی اعتبار سے ’’متمول‘‘ کہلا سکے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کے سامنے ایک بنیادی سوال موجود ہے کہ کیا ہم ذہنی اور تہذیبی اعتبار سے متمول ہونا چاہتے ہیں؟ اگر ہمارا جواب اثبات میں ہے تو ہمیں لازماً لبریشن کو بھی ترقی کے متوازی لے کر آگے بڑھنا ہوگا ورنہ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ کسی قوم کی فوج تو بیرکوں کے بجائے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہو اور پروفیسر حضرات کالجوں کے بجائے سڑکوں کو رونق بخش رہے ہوں۔ ذہنی اور تہذیبی دیوالیہ پن کی یہ ایسی واقعاتی شہادت ہے جس کی نظیر تلاش نہیں کی جا سکتی۔