’’گلستان سعدی‘‘

ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

تصحیح وتوضیح: دکتر غلام حسین یوسفی

شرکت سہامی انتشارات خوارزمی

چاپ سوم: مہر ماہ ۱۳۷۳ھ ش ۔ تہران

بچہ کار آیدت ز گل طبقے

از گلستان من ببر ورقے

اردو داں طبقہ کے لیے شیخ سعدی کی ’گلستاں‘ محتاج تعارف نہیں ۔ شیخ سعدی (م ۶۹۰ھ)نے یہ کتاب ۶۵۶ھ میں تصنیف کی اور خود ان کی حیات ہی میں اس کا شہرہ ہر طرف پھیل گیا۔ یہ کتاب خواص وعوام میں یکساں مقبول رہی ہے۔ صدیاں گزر گئیں کہ ’بوستان‘ کی طرح شیخ کی ’گلستاں‘ مختلف مسلم ممالک بشمول ہندوستان کے نصاب درس میں اب تک داخل ہے۔ اس کتاب پر کثرت سے شرحیں لکھی گئیں اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔

ایران وہندوستان میں گلستاں کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے جو مختلف خصوصیات کے حامل ہیں۔ پیش نظر ایڈیشن تحقیق، تصحیح اور توضیح کے جدید اصولوں کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین یوسفی تمام محبان سعدی کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پوری جان کاہی سے عالمی ادب کے اس شہ پارہ کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔ سطور ذیل میں اس جدید ایڈیشن کا ایک تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

باریک خط سے متوسط سائز کے آٹھ سو پندرہ صفحوں پر پھیلا ہوا یہ محقق نسخہ تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: متن کتاب، توضیحات مربوط بہ متن گلستاں، اور شرح نسخہ بدلہا، جس میں متن گلستان ص ۴۹ سے ۱۹۱ تک ہے۔

متن گلستاں سے پہلے ’’استاد سخن‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل بحث ہے جو گلستاں کے ایک تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ یہ بحث بہت ہی کارآمد ہے۔ اس میں گلستاں کے امتیازات نمایاں کرنے کے علاوہ گلستاں کے مطالعہ کے وقت ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’’استاد سخن‘‘ میں محقق نے پہلے گلستاں کی اس نمایاں ترین خصوصیت پر روشنی ڈالی ہے کہ یہ زندگی کے بیش بہا تجربات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے گہرے اور عمیق مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا مصنف ایک مرد جہاں دیدہ، پختہ کار اور سوجھ بوجھ کا حامل ہے، جو زندگی کے بے شمار نشیب وفراز سے گزرا ہے، جس نے شہر شعر وعشق شیراز اور اس زمانے کے متمدن شہروں کا قریب سے مطالعہ کیا ہے، جسے علماء ومشائخ اور ملوک وامرا سے لے کر عوام الناس تک کے ہر طبقہ سے قریبی اور طویل صحبت واختلاط کے مواقع حاصل رہے ہیں۔ اس دنیا میں اور لوگوں کو بھی یہی خصوصیات حاصل رہی ہیں لیکن شیخ سعدی جیسی چشم بینا، ذہن روشن، نگاہ باریک بیں، اہلیت مردم شناسی اور قوت ادراک واستفادہ بہت کم لوگوں کو میسر ہوا ہے۔ فاضل محقق نے گلستاں کی اس خصوصیت کو مزید واضح کرنے کے لیے اندرون کتاب سے بعض مثالیں پیش کی ہیں اور قدرے تفصیل سے اس خصوصیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔

گلستاں کی خصوصیات اور امتیازات پر ایک طویل گفتگو کے بعد محقق نے گلستاں پر کیے جانے والے بعض اعتراضات کا جائزہ لیا ہے۔ ایک عام اعتراض یہ ہے کہ اس کتاب کی ترتیب میں شیخ کے پیش نظر کوئی مرکزی فکر (System) نہیں جو گلستاں کے مختلف ابواب کے لیے جامع عنوان کی حیثیت رکھتی ہو، بلکہ یہ کتاب ایک کشکول کی طرح معلوم ہوتی ہے جس میں شیخ نے اپنی سیاحت کے تیس سالہ متفرق ومتنوع تجربات قلم بند کیے ہیں۔ ڈاکٹر یوسفی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اجتماعی اور سیاسی اخلاقیات کے سلسلے میں شیخ نے بوستاں میں منظم اصول پیش کیے ہیں اور گلستاں میں آقای دکتر زریں کوب کے الفاظ میں انسان اور انسانی دنیا کی تصویر کشی ان تمام محاسن ومعایب اور مطابقات وتناقضات کے ساتھ کی گئی ہے جو خود انسان اور انسانی دنیا میں موجود ہیں۔ اس میں انسانی زندگی کو اس طرح پیش کیا گیا ہے جس طرح یہ بذات خود ہے نہ کہ جس طرح اسے ہونا چاہیے اور خود دنیا، انسان کی طرح تناقض وشگفتگی کے مختلف مظاہر سے خالی نہیں۔

لوگوں نے عام طور سے گلستاں کی ان حکایتوں کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھا ہے جن میں شیخ سعدی خود جزو داستان کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ فاضل محقق کے خیال میں ان تمام داستانوں میں شیخ کی موجودگی واقعہ کے مطابق نہیں ہے اور بڑی حد تک اس میں افسانہ کا رنگ شامل ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان قصوں کو اس بات کی دلیل میں نہیں پیش کیا جا سکتا کہ ان تمام واقعات میں شیخ سعدی کی اسی طرح شرکت رہی ہے جس طرح انہوں نے بیان کی ہے اور نہ گلستاں کی حکایات یہ ثبوت فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں کہ شیخ نے ان جگہوں کا سفر بھی کیا ہے جہاں وہ کہانی کا کوئی نہ کوئی کردار پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شیخ نے یہ طرز اس لیے اختیار کیا ہے کہ اس سے قصص وحکایات کی اثر اندازی بڑھ جاتی ہے۔ فاضل محقق کے اس موقف سے علامہ شبلی نعمانی کے اس دعویٰ کی تائید ہوتی ہے کہ ’بوستاں‘ میں شیخ کے سفرہندوستان کا قصہ محض رنگ آمیزی داستاں ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر یوسفی لکھتے ہیں کہ شیخ سعدی کی مقبولیت اور فارسی زبان میں ان کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے چار سو سے زیادہ اشعار اور جملے فارسی زبان میں مثل کا مقام پیدا کیے ہوئے ہیں اور عام اجتماعی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ صدیاں گزر گئیں اور سعدی کی گلستاں اب تک اسی طرح مقبول ہے۔ نثر فارسی پر سعدی کا ایک عظیم احسان یہ ہے کہ انہوں نے اسے تکلف وتصنع کے چنگل سے نجات دے کر فطری طرز اور معتدل اسلوب عطا کیا۔ مصحح نے کتنی سچی بات کہی ہے کہ اگر گلستاں میں سے عمدہ قطعات منتخب کر کے بطور مثال پیش کیے جائیں تو شاید کتاب کا اکثر حصہ نقل کرنا پڑے۔ گلستاں میں قرآنی آیات، احادیث اور عربی اشعار وامثال اس طرح برمحل اور سیاق کلام کے ساتھ مربوط ہیں کہ ان سے کوئی ثقالت نہیں پیدا ہوتی بلکہ اس سے سخن کی اثر انگیزی اور سلاست میں اور اضافہ ہو گیا ہے اور زبان مزید شیریں وپر معنی ہو گئی ہے۔

فاضل محقق نے گلستاں کی معجزانہ سہل نگاری، ماہرانہ منظر کشی اور دقیق تصویر کشی کی خصوصیات پر جدا جدا مفصل گفتگو کی ہے۔

اس قیمتی بحث وگفتگو کے بعد گلستاں کا پورا متن ہے جو ضروری باریک بینی، مکمل تصحیح اور سترہ مخطوطہ نسخوں اور معتبر مطبوعہ نسخوں، شرحوں اور ترجموں سے استفادہ کے بعد پیش کیا گیا ہے۔ نسخوں کے اختلافات آخر کتاب میں صفحہ اور سطر کے حوالے سے بیان کیے گئے ہیں۔ موجودہ متن لارڈ گرینوی کے مخطوطہ نسخہ پر مبنی ہے۔ یہ نسخہ عبد الصمد بن محمد بن محمد بن خلیفہ بن عبد السلام بیضاوی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور کتابت کی تاریخ ماہ صفر ۷۲۰ھ ہے۔ متن میں قوسین کے درمیان دوسرے نسخوں کے ان ضروری اضافوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن سے جملوں کی وضاحت یا کوئی مزید فائدہ حاصل ہو سکتا تھا۔

پورا متن بہت واضح ہے۔ ہر حکایت الگ الگ ہے۔ اشعار نمایاں طریقہ سے لکھے گئے ہیں۔ یہ متن ہندوستانی نسخوں کی طرح بین السطور حواشی اور تشریحی نوٹ سے پاک ہے۔ فاضل محقق نے متن کے بعد توضیحات کے عنوان سے شرح پیش کی ہے اور اس کے بعد نسخوں کے اختلافات دکھائے ہیں۔ متن کے اندر نہ کوئی تشریحی نوٹ ہے اور نہ کوئی توضیحی کلمہ۔ عربی عبارتوں پر پوری حرکات دی ہیں اور ساتھ ہی مختلف فارسی الفاظ کے تلفظ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

مکمل متن کے بعد توضیحات ہیں جن میں عربی عبارتوں کی تشریح کے ساتھ بہت سے فارسی کلمات اور تعبیرات کی مکمل تحقیق پیش کی گئی ہے۔ اشخاص اور مقامات کی تشریح کے علاوہ جگہ جگہ قیمتی اور مفصل بحثیں ہیں۔ متقدمین کے اشعار اور جملے بطور تائید پیش کیے گئے ہیں اور کہیں کہیں شیخ سعدی کے مآخذ متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان توضیحات میں سراج الدین علی خان آرزو کی خیابان گلستاں، دہلی ۱۲۶۷ھ اور محمد حسین برہان تبریزی کی ’’برہان قاطع‘‘ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی ’’برہان قاطع‘‘ ہے جس پر مرزا غالب سخت ناراض تھے اور جس کی تردید میں ’’قاطع برہان‘‘ تحریر کی گئی اور پھر سرزمین ہند میں اچھی خاصی معرکہ آرائی شروع ہو گئی۔ ذیل میں توضیحات کے بعض نمونے دیے جا رہے ہیں:

’’ذکر جمیل سعدی کہ در افواہ عام افتادہ است وصیت سخنش کہ در بسیط (زمین) منتشر گشتہ وقصب الجیب حدیثش کہ ہمچوں شکر می خورند‘‘ (ص ۱۵)میں ’’قصب الجیب‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کلمہ کے ضبط اور مفہوم میں طویل بحثیں کی گئی ہیں۔ پھر تفصیل سے ان بحثوں کو نقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع پر دو فاضل ایرانیوں نے ’’قصب الجیب‘‘ کے عنوان سے مستقل مضامین بھی لکھے ہیں جن کا حوالہ فاضل محقق نے یہاں دیا ہے۔

’’حکمت محض است اگر لطف جہاں آفریں خاص کند بندہ ای مصلحت عام را‘‘ (ص ۵۵) میں لفظ ’’اگر‘‘ کے مفہوم پر طویل گفتگو کی ہے۔ بعض لوگوں نے گلستاں اور بوستاں میں اس طرح سے ’’اگر‘‘ کے استعمال پر مستقل بحثیں لکھی ہیں۔ ان بحثوں میں ایک رائے یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ اس طرح کے مواقع پر ’’اگر‘‘ ایجاب وتاکید کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

’’خورشید در سیاہی شد یونس اندر دہان ماہی شد‘‘ (ص ۶۱) میں دوسرے مصرعہ کی تشریح میں شارحین کے اختلاف پر روشنی ڈالی ہے۔ اس موضوع پر بھی ایک صاحب نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔

’’با بداں یار گشت ہمسر لوط خاندان نبوتش گم شد‘‘ (ص ۶۲) ہندوستانی نسخوں میں پہلا مصرعہ اس طرح ہے: ’’پسر نوح با بداں بنشست‘‘ دونوں نسخوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ فاضل محقق نے پہلی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے کہا ہے: ’’اما علاوہ برآں کہ متن چاپ حاضر مطابق ضبط نسخہ ہائی معتبر ست، مضمون مصراع دوم با سرگزشت ہمسر لوط بیشتر تناسب دارد‘‘ یہ بات واضح نہیں ہے کہ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ دوسرے مصرعہ کا مفہوم لوط علیہ السلام کے اہل خانہ کی سرگزشت سے زیادہ مطابق ہے۔

’’سرہنگ زادہ ای بر در سرای اغلیمش دیدم کہ عقل وکیاستے‘‘ (ص ۶۳) میں اغلیمش کی تعیین کی کوشش کی ہے جس کا عہد سعدی کے ہوش سنبھالنے سے پہلے کا ہے۔ اس پر اعتراض پیدا کر کے یہ جواب دیا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ سعدی نے اغلیمش کی زندگی ہی میں اس قصر کی زیارت کی ہو۔

گلستاں کے اندر بعض تاریخی گرفتیں کی گئی ہیں۔ میرے خیال میں گلستاں جیسی کتابوں پر مورخانہ نگاہ ڈالنا بد ذوقی ہے۔ ذیل میں ایک مثال دی جا رہی ہے جس میں ناقدین نے سعدی کی تاریخی فرو گزاشت پر گفتگو کی ہے:

’’ہارون الرشید را چوں ملک مصر مسلم شد گفت: بخلاف آں طاغی کہ بہ غرور ملک مصر دعوی خدائی کرد نبخشم ایں ملک را مگر بہ خسیس ترین کسے از بندگان سیاہے داشت خصیب نام، ملک مصر بہ وی ارزانی داشت‘‘ (ص ۸۴) ابن بطوطہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ خصیب ایک سیاہ غلام تھا لیکن مورخین کے نزدیک خصیب ایرانی نژاد ہے نہ کہ حبشی۔ فاضل محقق نے شیخ سعدی اور ابن بطوطہ دونوں کی غلطی کی نشان دہی کی ہے۔

’’چندانکہ مرا شیخ اجل ابو الفرج ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ بہ ترک سماع فرمودے‘‘ (ص ۹۴) گلستاں کے تمام شارحین نے اس پر بحث کی ہے کہ ابن جوزی سے کون ابن جوزی مراد ہیں۔ عام رجحان یہ ہے کہ اس سے مراد ابن جزی دوم متوفی ۶۵۶ھ ہیں نہ کہ امام ابن جوزی جن کا سال وفات ۵۹۷ھ ہے۔ فاضل محقق نے آقای محمد محیط طباطبائی کے حوالہ سے یہ تحقیق پیش کی ہے کہ اس سے مراد شیرازی الاصل شیخ الناصح ابو الفرج عبد الرحمن بن نجم الدین عبد الوہاب بن شیخ ابو الفرج الجوزی ہیں۔

یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ توضیحات مذہبی تعصب سے پاک ہیں۔ اس میں ضرورت کے موقعوں پر ائمہ اسلام کی رایوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’الفقر فخری‘‘ (ص ۱۶۳) کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’در سفینۃ البحار، طبع نجف، ۲/۳۷۸، جزء حدیث نبوی ذکر شدہ، ومولف اللولو المرصوع (ص ۵۵) بہ نقل از ابن تیمیہ آں را از احادیث موضوع شمردہ است‘‘ (ص ۴۹۷، ۴۹۸)

صحابہ کرامؓ کی حرمت بھی ملحوظ ہے مثلاً ذو الفقار علی (ص ۵۳) کی تشریح کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے: ’’علی بن ابی طالب (ع) امام اول شیعیان وخلیفہ چہارم از خلفاے راشدین کہ دورہ خلافتش از ۳۵ تا ۴۰ بودہ است‘‘۔ یہاں فاضل محقق نے خلفائے ثلاثہ کے لیے راشدین کا لفظ استعمال کیا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ ص کے بارے میں لکھا ہے: ’’کنیہ یکے از اصحاب پیغمبر (ص) کہ بہ سال ۵۷، ۵۸ یا ۵۹ھ در گزشت ..... ابو ہریرہ ہمیشہ در خدمت پیغمبر بود، ونیز چوں حافظہ ای قوی داشت حدیث ہاے بسیار ازو روایت کردہ اند‘‘ (ص ۳۵۵)

اس کے بعد نسخوں کے اختلافات ’’شرح نسخہ بدلہا‘‘ کے عنوان سے پیش کیے ہیں۔ محقق نے گلستاں کی تصحیح میں سترہ مخطوطہ نسخوں سے استفادہ کیا ہے۔ مقدمہ میں ہر نسخہ کی تفصیل بیان کی ہے۔ اس کے علاوہ مطبوعہ نسخوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ان مطبوعہ نسخوں میں سے ایک کلکتہ سے شائع شدہ سنہ ۱۸۲۵ء کا نسخہ ہے جو مطبوعہ نسخوں میں سب سے قدیم ہے۔ جس نسخہ پر متن میں اعتماد کیا گیا ہے، وہ ہمارے یہاں ہندوستان کے مطبوعہ نسخوں سے قدرے مختلف ہے۔ فاضل محقق نے نسخوں کے سارے اختلافات مفصل بیان کیے ہیں۔ ذیل میں بعض ایسی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جہاں ہندوستانی نسخوں سے اختلاف ہے:

’’گلے خوشبوی در حمام روزے  ۔رسید از دوست مخدومی بدستم‘‘(ص ۵۱)

ہندوستانی اور بعض دوسرے نسخوں میں ’’مخدومی‘‘ کے بجائے ’’محبوبے‘‘ ہے۔

’’کمال ہمشیں در من اثر کرد‘‘ (ص ۵۱)

ہندوستانی نسخوں میں ’’جمال ہمنشیں‘‘ ہے۔

’’سرچشمہ شاید گرفتن بہ بیل‘‘ (ص ۶۱)

ہمارے یہاں کے نسخوں میں بیل کے بجائے ’’میل‘‘ ہے۔

اس کے بعد لغات وتراکیب کی فہرست ہے جس میں حروف تہجی کے لحاظ سے ان سارے الفاظ وتراکیب کو جمع کیا ہے جن کی تشریح توضیحات میں پیش کی ہے۔

آخر میں قرآن کریم کی آیات، احادیث شریفہ، عربی اشعار اور جملوں کے آغاز، آغاز اشعار فارسی، امثال وحکم، اعلام اور مراجع کے الگ الگ انڈکس دیے گئے ہیں۔

آخر میں اپنے اس تاثر کا اعادہ کرتا ہوں کہ یہ گلستاں کا جدید ترین اور مکمل ترین ایڈیشن ہے اور مطالعہ سعدی کے میدان میں ایک بیش بہا اضافہ۔


تعارف و تبصرہ

(نومبر و دسمبر ۲۰۰۲ء)

تلاش

Flag Counter