بیسویں صدی کے آخری دو عشرے اس لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ اس دوران میں عالمی سیاست کے رجحانات میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ کمیونزم کی توسیع اور گرم پانیوں تک رسائی کے لیے سوویت یونین کی افغانستا ن میں مداخلت، سوویت یونین کی شکست وریخت، کشمیر کی تحریک آزادی میں شدت، اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے مغربی طاقتوں کی نام نہاد کوششیں، یوگوسلاویہ کا زوال اور بوسنیا کے مسلمانوں پر شرم ناک ظلم وستم۔ اگر ہم درج بالا امور کو ذہن میں رکھیں تو تبدیلی کی نہج اس طرح ترتیب پاتی ہے:
۱۔ سرد جنگ کا خاتمہ اور امریکہ کا یک قطبی طاقت کے طور پر ابھرنا،
۲۔ نئی مسلم ریاستوں کا ظہور،
۳۔ اسلامی تحریکوں کا اس زعم میں مبتلا ہونا کہ نئی ریاستیں ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا نتیجہ ہیں،
۴۔ ا س زعم کی وجہ سے کشمیر کی تحریک آزادی میں تشدد کا در آنا،
۵۔ اسی زعم کا ایک خاص پہلو افغانستان کی ’’مثالی‘‘ امارت اسلامیہ کی صورت میں سامنے آیا اور اسلام کی تعبیر وتشریح اور اظہار میں عصری تقاضوں کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ یہ سمجھا گیا کہ اگر اتنی بڑی ایمپائر کو صرف ’’مجاہدانہ‘‘ سرگرمیوں سے گرایا جا سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ زندگی کے باقی اموربھی پرانے طور طریقوں اور تشریحات سے انجام دیے جا سکتے ہیں۔
۶۔ اسلامی تحریکوں کا اپنی بساط سے بڑ ھ کو خود کو پیش کرنا۔ اس قسم کے دعوے کرنا کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہے، ہم نے سوویت یونین کو شکست دی ہے، کمیونزم کو شکست دی ہے، اب ہم مغربی دنیا سے بھی مقابلہ کرنے کو تیار ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کی شکست وریخت ہمارے ہی ہاتھوں ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
۷۔ مغرب کا اسلام کو ایک خطرے کے طور پر بھانپ لینا۔
اگر ہم ان نکات کو سامنے رکھیں تو مسلمانوں کی ’’سادگی‘‘ اس طرح ظاہر ہوگی کہ
۱۔ سوویت یونین کی شکست وریخت صرف ’’مجاہدانہ‘‘ سرگرمیوں کا نتیجہ نہیں تھی۔ اس جنگ کے دوران میں ایک بہت بڑا اور طاقت ور بلاک ان کی پشت پر تھا۔ اس بلاک کے اپنے مخصوص مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے مسلمان اور اسلامی نظریہ کو استعمال کیا گیا۔
۲۔ خیال رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیونزم کی توسیع بہت سرعت سے ہوئی جس سے شمالی امریکہ اور برطانیہ شدید خدشات کا شکار ہو گئے۔ اگر ہم دوسری جنگ عظیم کے وقت کی دنیا پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ تقریباً سارا یورپ سوائے برطانیہ کے، آمرانہ نظام کو اپنائے ہوئے تھا۔ جمہوریت صرف برطانیہ اور شمالی امریکہ تک محدود تھی۔ اس طرح جنگ سے پہلے بھی ان دو ملکوں کے لیے چیلنج موجود تھا جو جنگ کے بعد کمیونزم کی توسیع کی صورت میں موجود رہا۔ جنگ سے پہلے ان دونوں ملکوں نے جمہوریت کو بچائے رکھا۔ اب جنگ کے بعد جمہوریت کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کو بچانا بھی مقصود تھا۔ کمیونزم جس تیزی سے پھیل رہا تھا اور جتنا ڈسپلن اور تنظیم کمیونسٹوں میں موجود تھی، اس سے دونوں ممالک ہائی الرٹ ہو گئے اور نتیجے کے طور پر کمیونزم کی توڑ پھوڑ کے لیے زیادہ تیزی، ڈسپلن اور تنظیم سے کام کرنے لگے۔ اس سے ایک نکتہ سامنے آتا ہے کہ کمیونزم کا عروج اور پھیلاؤ اس کے زوال کا سبب بنا کیونکہ اسی بنا پر مقابل بلاک ہائی الرٹ ہو گیا اور Backlash effect (جوابی حملے) کے مصداق کمیونزم کی روک تھام کے لیے انتہائی اقدامات کیے گئے۔ مسلمان اور اسلامی نظریہ بھی انہی اقدامات کا ایک حصہ تھے۔
۳۔ اس Backlash effect کے اثر شمالی امریکہ اور برطانیہ تو اپنے مقاصد میں کام یاب ہو گئے۔ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کو بچا لیا گیا لیکن بزعم خویش مسلمان بھی اپنے مقاصد میں کام یاب ہو گئے۔ نئی مسلم ریاستوں کا ظہور ہوا۔ یورپ کے قلب میں ایک مسلم ریاست بن گئی۔ جہاد کے ثمرات کی وجہ سے ’’جہاد‘‘ کو مزید تقویت پہنچی۔ کشمیر، فلسطین وغیرہ میں اسلامی تحریکیں شدت اختیار کر گئیں۔ افغانستان کے نوے فی صد حصے پر اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ پاکستان کو موقع مل گیا کہ افغان سرحد سے بے فکر ہو کر کشمیر پر اپنی توجہ مبذول رکھ سکے تاکہ جہاد کا ایک اور ’’ثمر‘‘ سامنے آ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی پلاننگ کرے کہ معاشی قوت بننے کا نادر موقع آپہنچا ہے وغیرہ۔
۴۔ اپنے مقاصد میں کام یابی کے حوالے سے ہم ایک بنیادی بات بھول گئے کہ یہ کام یابی صرف ہماری قربانیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس میں ٹیکنالوجی اور سرمایہ غیروں کا تھا۔ اس طرح اپنی استعداد کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے ہم نے اپنا دائرہ کار وسیع کر لیا جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔
۵۔ سوویت یونین اور کمیونزم کی شکست وریخت کو اپنی کام یابی گردانتے ہوئے اسلامی تحریکوں نے اپنی پروجیکشن اور تشہیر شروع کر دی، اپنا دائرہ کار بھی بڑھا لیا حالانکہ پہلے ان کی پشت پر کوئی موجود تھا جو ان میں موجود ’’کمی‘‘ کو پورا کر رہا تھا۔ اب جبکہ وہ پشت پر موجود نہیں رہا، اسلامی تحریکیں خود کو اسی طرح طاقت ور اور فعال خیال کر رہی ہیں۔ اس طاقت اور فعالیت کے ساتھ جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
۶۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی تحریکوں کو موجودہ صورتِ حال کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ میرے خیال میں یہ وہی Backlash effect ہے جو شمالی امریکہ اور برطانیہ نے سوویت یونین کی روک تھام کے لیے اختیار کیا تھا۔ اسلامی تحریکوں کی پروجیکشن اور بڑھکیں اس Backlash effect کا سبب بنی ہیں۔ ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں کا پھیلاؤ اور احیا ہی ان کے زوال کا سبب بن رہا ہے۔ مغربی بلاک ہائی الرٹ ہو گیا ہے کیونکہ ہماری توسیع اور پلاننگ بغیر بنیاد کے تھی یعنی ہم نے دائرہ کار بڑھاتے ہوئے اپنی استعداد کا غلط اندازہ لگایا لیکن دائرہ کار مغربیوں کے Backlash effect کا سبب بن گیا۔ مغربی بلاک دائرہ کار کی وجہ سے ہماری طاقت اگر پچاس فی صد خیال کرتا ہے تو حقیقتاً ہماری طاقت دس فی صد ہے کیونکہ ہم نے مصنوعی انداز سے اپنا دائرہ کار پھیلا رکھا تھا حالانکہ اس کی استعداد نہیں تھی۔ اسی وجہ سے Backlash effect کے اثرات ہمارے لیے زیادہ شدید ثابت ہوں گے۔ اگر ہم سوویت یونین سے تقابلی جائزہ لیں تو شمالی امریکہ اور برطانیہ پچاس کی دہائی میں ہی ہائی الرٹ ہو چکے تھے۔ اس کی وجہ سینیٹر میکارتھی تھا۔ بہرحال سوویت یونین اتنا سخت جان ثابت ہوا کہ نہ صرف Backlash effect کے باوجود کئی عشرے سہار گیا بلکہ شمالی امریکہ اور برطانیہ کے لیے دردِ سر بنا رہا کیونکہ کمیونزم کا پھیلاؤ اور پروجیکشن اتنی مصنوعی نہیں تھی اور اس میں استعداد بھی موجود تھی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں میں اتنی استعداد موجود ہے کہ وہ مغربی بلاک کے اس Backlash effect کو عشروں تک سہار سکیں؟ معروضی اور تجزیاتی جائزہ جواب نفی میں دیتا ہے۔
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغربی بلاک کے توسیع پسندانہ عزائم کے مقابلے میں بھی Backlash effect ممکن ہے؟ میرا خیال ہے نہیں کیونکہ سوویت یونین کے خلاف شمالی امریکہ اور برطانیہ ایسا اظہار کر سکتے تھے کہ ٹیکنالوجی اور اسٹریٹجی کے اعتبار سے دونوں ممالک سوویت یونین سے برتر تھے۔ اسی طرح ان کا Backlash effect مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں کے حوالے سے بھی موثر ہے لیکن مسلمان اور اسلامی تحریکیں ایسا اظہار کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں کیونکہ Backlash effect کے موثر ہونے کے تقاضے بھی ہیں اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کی استعداد فی الحال ہم میں موجود نہیں۔