مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے مضمون ’’عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح‘‘ نے فکر وخیال کو مہمیز لگا دی۔ مدت سے جاری سست رفتار غور وفکر نے جلد ہی نتائج کو آئینہ خیال میں مشکل کر دیا۔ اس موضوع پر اپنے ناقص مطالعہ وفکر کے نتائج حسب ارشاد پیش خدمت ہیں جن میں کوئی بھی صحیح اضافہ وترمیم دل وجان سے قابل قبول ہوگا۔
جہاں تک مولانا منصوری کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ دعوت دین میں عقائد کی دعوت کو مقدم کیا جائے تو مجھے اس سے اتفاق ہے۔ یہی انبیاء کا نہج ہے۔ ا س میں مسلم مبلغین ومفکرین سے جو کوتاہی ہوئی یا ہو رہی ہے، ظاہر ہے۔ اسلام دلوں پر حکمرانی کرنے آیا ہے نہ کہ محض جسموں پر۔ البتہ دوسرے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سیرت میں دعوتِ دین کا کچھ مختلف انداز بھی سامنے آتا ہے ۔
مولانا منصوری کی یہ بات کہ اہل مغرب جو موجودہ اندازِ دعوت دین کی وجہ سے جس میں سیاسی پہلو غالب ہو، پہلے مرحلے پر ہی ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور انداز دعوت کے بدل جانے سے زیادہ کھلے اور ٹھنڈے دل سے اسلام کی دعوت کو سن سکیں گے، اس سے مجھے مکمل اتفاق نہیں۔ انفرادی سطح پر جزوی طور پر یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر اجتماعی سطح پر ہرگز نہیں۔
قرآن مجید جو ابدی حقائق کی کتاب اور دعوتِ دین کا اصل ماخذ ومعلم ہے، ہمیں بتاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے پاس تشریف لے گئے تو آپ کے کندھوں پر دہری ذمہ داری تھی:
۱۔ بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلانے کی جدوجہد
۲۔ فرعون اور اس کی قوم کو دعوتِ دین۔
فرعون کے دربار میں موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو اپنا اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا تعارف بطور رسول خدا کرانے کے بعد جو پہلی بات فرمائی، وہ بنی اسرائیل کی رہائی کی بات تھی اور دوسری بات دعوت تھی۔
فَاْتِیَاہُ فَقُوْلاَ اِنَّا رَسُوْلاَ رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ وَلاَ تُعَذِّبْہُمْ قَدْ جِءْنَاکَ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ وَالسَّلاَمُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْہُدیٰ (طٰہٰ)
’’اس (فرعون) کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم آپ کے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دیجیے اور انہیں عذاب نہ کیجیے۔ ہم آپ کے پاس آپ کے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں اور جو ہدایت کی بات مانے، اس پر سلامتی ہو۔‘‘
اس کے بعد ہی موسیٰ علیہ السلام فرعون کو مفصل دعوت دیتے ہیں۔اس دعوت اور فرعون کے رد عمل کو ملاحظہ فرمائیے:
’’فرعون نے کہا کہ تمام جہانوں کا مالک کیا؟
(موسیٰ علیہ السلام نے) کہا کہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، سب کا مالک بشرطیکہ تم لوگوں کو یقین ہو۔
(فرعون نے اپنے ہالی موالی سے) کہا کہ کیا تم سنتے نہیں؟
موسیٰ بولے، تمہارا اور تمبارے باپ دادا کا مالک۔
فرعون نے کہا، یہ پیغمبر جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، باؤلا ہے۔
موسیٰ نے کہا، مشرق اور مغرب اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، سب کا مالک بشرطیکہ تم سمجھو۔
فرعون نے کہا، اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تمہیں مقید کر دوں گا۔
موسیٰ نے کہا، خواہ میں آپ کے پاس روشن چیز (یعنی معجزہ) لاؤں؟
فرعون نے کہا، اگر سچے ہو تو اسے لاؤ۔
پس انہوں نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ اسی وقت صریح اژدہا بن گئی اور اپنا ہاتھ نکالا تو اسی دم سفید براق نظر آنے لگا۔
فرعون نے اپنے گرد کے سرداروں سے کہا، یہ کامل الفن جادوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ تم کو اپنے جادو کے زور سے تمہارے ملک سے نکال دے۔ تو تمہاری کیا رائے ہے؟ (الشعراء)‘‘
اس ساری گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کا معاملہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا نہیں رکھا بلکہ اصل دعوت پر بھی مقدم فرمایا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعوت توحید کو نہایت وضاحت اور سادگی سے پیش کیا جس سے کوئی اور پہلو نکالنا ممکن نہیں تھا مگر فرعون نے ان پر حکومت واقتدار کے حصول کی تہمت لگا دی تاکہ قوم فرعون بدک کر موسیٰ علیہ السلام کی دعوت سے کان لپیٹ لے اور ذہنی تناؤ کی کیفیت میں آجائے۔
موسیٰ علیہ السلام کی خواہش اور دعوت اس لیے تھی کہ
ھَلْ لَّکَ اِلیٰ اَنْ تَزَکیّٰ وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشیٰ (النازعات)
’’کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے اور میں تجھے تیرے پروردگار کا رستہ بتاؤ ں کہ تجھ کو خوف پیدا ہو؟
مگر فرعون کی حکمرانی کی چھٹی حس اس میں اپنے لیے خطرے کی بو محسوس کرنے لگی اور اس کا خدشہ کچھ غلط بھی نہ تھا۔ قرآن پاک ہی ہمیں بتاتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم جب اپنی نافرمانی کے ہاتھوں غرق ہو گئے تو بنی اسرائیل ہی وارث قرار پائے:
فَاَخْرَجْنَاھُمْ مِّنْ جَنَّاتٍ وَّعُیُوْنٍ وَّکُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ کَذَالِکَ وَاَوْرَثْنَاھَا بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ (الشعراء)
’’تو ہم نے ان کو باغوں اور چشموں سے نکال دیا اور خزانوں اور باعزت مکانات سے ۔ (ان کے ساتھ ہم نے) اس طرح (کیا) اور ان چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو کر دیا۔‘‘
اہل مغرب اس وقت صرف ہماری دعوت کے مخاطب ہی نہیں، تنقید کے مورد بھی ہیں۔ وہ بالواسطہ اور بلا واسطہ اہل اسلام کے عظیم اور ناقابل تلافی نقصانات کے ذمہ دار ہیں۔ ہم دعوت دین کے وقت بھی اپنی قوم کو موسیٰ علیہ السلام کے اسوہ کی روشنی میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مظلوم کی حمایت اگر سیاست کا جزو ہے تو اسے دعوت دین سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
اہل مغرب اس وقت معنوی طور پر تقریباً پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ہم خواہ کتنی ہی سادگی سے دعوت دیں، اہل مغرب کو اسلام کے روپ میں اپنے اقتدار کے لیے ایک خطرہ لازماً محسوس ہوگا۔ وہ اسی ذہنی تناؤ کا شکار ہوں گا جس کا شکار فرعون ہوا تھا کیونکہ اہل سیاست کی ذہنیت ایک ہی ہوتی ہے۔
دوسری مثال تاریخ رسالت سے ہمیں ملتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے قیصر روم کو دعوتی خط لکھا تو اس نے یہ تبصرہ کیا:
’’اگر یہ نبی سچا ہے تو ایک دن میرا پایہ تخت اس کے قدموں کے نیچے ہوگا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کا خط ایک دعوتی خط تھا مگر اس حکمران کو بھی اس میں اپنے اقتدار کے لیے خطرہ محسوس ہوا اور یہ خدشہ بھی بے جانہ تھا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ اسلام خود کو دوسری حکومتوں کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرتا ہے مگر دوسری حکومتیں اس کو بہرحال اپنے لیے خطرہ گردانتی ہیں۔
مولانا منصوری نے اہل مغرب کے جس ذہنی تناؤ کا ذکر فرمایا ہے، وہ غالباً دعوت دینے والوں کے غلط انداز دعوت کی بنا پر ہوگا مگر صحیح انداز دعوت کے باوجود اس سے مکمل طور پر نجات ممکن ہوگی۔ ہاں صرف اس صورت میں اس ذہنی تناؤ کے رد عمل سے بچنا ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اسلام کو محض انفرادی سطح تک ہی متعارف کرائیں اور اس کے نظام اجتماعی کی ہوا بھی نہ لگنے دیں مگر یہ اسلام کے ساتھ نادان دوستی ہوگی جس سے اس کا حقیقی چہرہ مسخ ہو جائے گا۔
آخر میں ایک یورپی نو مسلم محمد اسد کی کتاب Road to Makkah سے ایک اقتباس نقل کرتا ہوں جو معاملہ کی بہترین وضاحت پیش کرتا ہے:
’’جب اہل مغر ب کسی دوسرے مذہب یا تہذیب مثلاً ہندو مت یا بدھ مت کے بار ے میں بات کرتے ہیں تو وہ ان مذاہب اور اپنے تہذیبی نظریات کے بنیادی اختلافات سے ہمیشہ آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے یا ان مذاہب اور تہذیبوں کے نظریات کی تعریف بھی کر دیتے ہیں لیکن یہ بات ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتی کہ وہ ان کو اپنی تہذیب کے نعم البدل کے طور پر اپنا لیں کیونکہ وہ پہلے ہی سے اس کے ناممکن ہونے کا یقین کیے ہوتے ہیں۔ وہ ان اجنبی تہذیبوں کی حوصلہ افزائی متانت اور اکثر ہم دردی سے کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ اسلام کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ان کے لیے ہندو مت اور بدھ مت کے فلسفوں جیسا اجنبی نہیں تو مغربی متانت ایک جذباتی قسم کے تعصب میں بدل جاتی ہے۔ بعض اوقات اس پر میں حیران ہوتا ہوں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی اقدار مغرب کے روحانی اور معاشرتی اقدار سے اس قدر قریب ہیں کہ انہوں نے اسلام کو مغربی نظریات کے نعم البدل کے طور پر ایک پوشیدہ چیلنج بنا دیا ہے۔‘‘
(Road to Makkah, page 4-5)