(بھارت کے ممتاز مسلم دانش ور جناب اسرار عالم نے یہ مضمون دو سال قبل اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے دورۂ جنوبی ایشیا کے پس منظر میں تحریر کیا تھا۔ ادارہ)
عالم اسلام کے بہتیرے حکمرانوں کی سالوسی‘ خاموشی یا مجبوری کے ساتھ حاشیہ برداری کے باوجود پوری امت اور بطور خاص عامۃ المسلمین میں بڑھتے ہوئے دینی رجحان‘ شعور‘ جاں سپاری اور مغرب سے نفرت نے یہودیوں کومزید برافروختہ اور انہیں مزید غیر انسانی طور پر کچلنے کی طرف مائل کر دیا ہے۔ یہودی قوت کی یہی حواس باختگی جو مختلف پردوں میں مختلف بہانوں یا تدبیروں سے اور مختلف ہاتھوں کے ذریعے سے تقریباً تمام ہی براعظموں میں مسلمانوں کے قتل عام‘ نسل کشی ‘ دربدری‘ عصمت دری‘ بائیکاٹ‘ اذیت دہی اور بے عزتی کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ یہودی ان ساری تدبیروں کے باوجود امت کے عزم میں لچک کے آثا ردور دور تک نہیں پا رہے ہیں۔
اپنے تمام حربوں‘ تدبیروں اور دھمکیوں کے باوجود وہ اس میں ناکام ہو گئے ہیں کہ کسی مسلم ملک کو جوہری طاقت ہرگز بننے نہ دیں گے۔ اس ناکامی نے انہیں یکایک ایک ایسے خطرے کے اندیشے میں مبتلا کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ بھی برآمد ہو سکتا ہے کہ بیسویں صدی میں کی گئی ان کی ساری کوششیں صفر ہو کر رہ جائیں۔ چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ایک خطرناک فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ وہی فیصلہ ہے جس کی تعمیل کے پہلے مرحلے کے لیے صدر امریکہ نے جنوبی ایشیا کا سفر کرنا ضروری سمجھا۔
لیکن جنوب ایشیا کا ہی سفر کیوں؟ اس کے دو اسباب نظر آتے ہیں:
۱۔ یہودیوں کا یہ احساس کہ ساری دنیا میں اسلامی بیداری کا مرکز فی الوقت جنوب ایشیا ہے۔
۲۔ جنوبی ایشیا کی ایک قوم کے ایک طبقے کا یہ باور کرا دینا کہ وہ قوم اور یہودی اینگلو سیکسن انتظام قدرتی حلیف ہیں اور امریکہ کا اس پر شرح صدر ہو جانا۔
ایک جانب امریکہ اور جاپان کے مابین اس پر اتفاق کے باوجود کہ دونوں اپنے اختلافات کو مزید ہوا نہیں دیں گے (مئی ۴‘ ۲۰۰۰ء) یہ بات یقینی ہو چکی ہے کہ اب ان دونوں کے اختلافات یعنی جنگ عظیم دوم کے بعد یہودی قوم کا قائم کردہ امریکہ‘ برطانیہ‘ سلامتی کونسل‘ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک انتظام کی روشنی میں جاپان امریکہ تعلقات Point of no return تک پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب ۱۹۸۹ء سے جاری ہلمٹ کول طوفان کو ہرچند کہ اس طرح روک دیا گیا ہے کہ خود ہلمٹ کول کو صدارت سے الگ کر دیا گیا اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے لیکن ان سب کے باوجود یورپ میں ان کا لایا گیا اتحاد کا طوفان اب بھی پوری شدت سے آگے بڑھ رہا ہے جس کا نتیجہ اہل یورپ کا کوسوو آپریشن میں ناٹو کا بے دلی سے ساتھ دینا اور کسی درجے میں امریکی‘ برطانوی فوجوں سے عدم تعاون کرنا ہے۔
باشندگان برصغیر کے لیے بالعموم اور باشندگان ہند کے لیے بالخصوص سن ۲۰۰۰عیسوی کی شروعات بظاہر نہایت روشن اور امید افزا اور بباطن سخت تاریک اور بدترین معلوم ہوتی ہیں۔ اگر صدر کلنٹن کے اس دورے کے مضمرات مخصوص رخ پر گئے اور اس کے عواقب اسی طرح سامنے آئے جو اس طرح کے قدرتی تحالف کا منطقی نتیجہ ہے تو یہ ایک ایسی ہول ناک صورت ہوگی جس کی نظیر اس خطے کی تین ہزار سالہ تاریخ میں کوئی دوسری نہیں ملے گی۔
صدر امریکہ کلنٹن کا دورہ ظاہر ہے طرفین کے اتفاق کا نتیجہ ہوگا یعنی اس بات پر اتفاق کا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محسوس کرنے لگے کہ ان کے مخصوص مقاصد کی تکمیل اس تحالف میں ممکن ہے۔ ا س صورت میں یہ بالکل جداگانہ بات ہے کہ دونوں کے مقاصد الگ الگ ہوں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کے مقاصد ایک ہی ہوں یا ایک ہی بات کے دو الگ الگ پہلو۔ ایسی صورت میں طرفین کا یہ تصوراتی اتفاق بلا روک ٹوک عملی اتفاق میں بدل جائے گا اور بہت اہم امور میں گہرائی تک جا سکتا ہے۔کلنٹن نے مارچ ۲۰۰۰ء میں بھارت کا دورہ کیا اور انہوں نے بھارتی جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت کے ساتھ بہت سے میدانوں میں متفقہ اقدامات کے لیے معاہدے اور مفاہمت کیے جن میں سب سے اہم بات امریکہ کی بعض شرائط کے ساتھ ہندوستان کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے آمادگی ہے۔
اس کے معاً بعد اپریل میں برطانوی وزیر خارجہ کک کا دورۂ ہند ہوا اور انہوں نے بھی انہیں شرائط کے ساتھ ہندوستان کی سلامتی کونسل کی رکنیت کے استحقاق کی حمایت کی۔ اپریل کے وسط میں بھارت کے صدر کا دورۂ فرانس اور اس کے معاً بعد فرانس کے دو وفود کی بھارت آمد ہوئی۔ اس میں سب سے ابھری ہوئی بات بعض شرائط کے ساتھ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے بھارتی استحقاق کی فرانس کے ذریعے حمایت ہے۔ بھارت جیسے ایشیائی ملک کا سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا اہل ایشیا کے لیے خوشی اور اطمینان کی بات ہے لیکن کل تک مغرب کا بھارت کو رکنیت سے محروم رکھنا اور آج حمایت کرنا تشویش کا باعث ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کہیں عالمی استعماری قوتیں بھارت کی موجودہ حکومت کے مخصوص رجحانات کا اپنے استعماری مقاصد کے لیے استحصال کرنا تو نہیں چاہتیں؟ اگر ایسا ہے تو لازماً اس کا نقصان صرف اور صرف بھارت کو ہوگا۔ تشویش کی دوسری بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ اتفاق اور تحالف ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت کی اندرونی صورت حال بعض پہلوؤں سے اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ شاید ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء میں بھی صورت حال اتنی سنگین نہیں تھی۔ بابری مسجد کا انہدام‘ ٹاڈا میں ہزاروں مسلمانوں کی گرفتاری اور مہینوں بلکہ سالوں دستور کی موجودگی میں بلا مقدمہ قید وبند اور اذیت‘ قانون اور حکومت کے بعض بے قابو حلقوں کا فاشسٹ عناصر کی کھلی حمایت اور ان کے لیے قانونی چھتری کی فراہمی‘ پورے ملک میں مسلمانوں کو برسرزمین خوف زدہ کرنا‘ مسلم معیشت کے خلاف درپردہ اور علانیہ عملی اقدامات‘ دستور کی ترمیم کی کارروائی کا آغاز‘ مذہبی تعمیرات بل کے ذریعے سے ہر طرح کے مذہبی‘ ثقافتی اور تہذیبی اداروں اور سرگرمیوں اور تشخصات کا خاتمہ کرنے کی کوشش‘ مخصوص علاقوں اور زمینوں سے مسلمانوں کی جبری بے دخلی‘ تمام دینی‘ ثقافتی اور تہذیبی سرگرمیوں کو غیر ذمہ دارانہ طور پر دہشت گردی قرار دینا‘ تمام دینی‘ ثقافتی اور تہذیبی مقامات کو دہشت گردی کے اڈے قرار دینا‘ مسلمانوں کا انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ سے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے دستوری چارہ جوئی کے حق کا صرف کاغذ پر باقی رہ جانا‘ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے معتد بہ حصہ کو فاشی جذبات سے بھر دیا جانا اور فوج کے بعض طبقات کا اس سے اچھوتا نہ رہ جانا‘ بیوروکریسی کے بہت بڑے طبقے کا انہیں سرگرمیوں میں متحرک ہو جانا ایک ایسی صورت حال کو جنم دے رہا ہے جس کے عواقب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اس مخصوص صورت حال میں مشہور ماہر حکمت عملی اور قومی سلامتی کونسل کے رکن کے سبرمینیم (K. Subrahmanyam) کا یہ اظہار خیال بہت معنی خیز ہے کہ
’’بین الاقوامی دہشت گردی‘ مذہبی انتہا پسندی اور منشیات کے لین دین کو قابو میں لانا اس اتفاق کا بنیادی جزو ہے (جو بھارت اور امریکہ کے مابین ہے)‘‘
ہرچند کہ یہ بات بے حد حیرانی کی ہے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے فکری گروہ آر ایس ایس کی ہندوستان کے تعلق سے عالمی پالیسی امریکہ کی عالمی پالیسی کے بالکل علی الرغم اور اس سے متصادم ہے۔ آر ایس ایس ایک نظریاتی گروہ ہے اور سبرا مینیم کی تلقین خالصتاً ابن الوقتی اور موقع پرستی کے اصول پر قائم ہے۔ ہر چند کہ سبرامینیم نے اپنے فلسفے کو عملیت (Pragmatism) کا لبادہ اوڑھایا ہے لیکن وہ اپنی اس عملیت کی پیش کش میں یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اگر ایک بار بھارت اس عملیت کا سہارا لے کر اپنی ریاستی اصولیت سے ہٹ جائے اور کچھ دنوں کے بعد اسے یہ اندازہ ہو کہ امریکہ بھارت اور اپنے مفادات کے توازن کے ساتھ تکمیل سے زیادہ صرف اپنے مفادات کی تکمیل چاہتا ہے اور اسے بھارتی مفادات سے کوئی خاص غرض نہیں تو پھر بھارت اس صورت حال سے اپنے کو کیونکر نکال پائے گا اور اس کی عملیت کیا ہوگی؟ اور یہ خطرہ اس صورت میں اور بھی عیاں ہوتا نظر آتا ہے کہ وہ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ صرف اس کا مسئلہ نہیں جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے:
’’امریکہ بھارت کے بازار میں دلچسپی رکھتا ہے ٹھیک اسی طرح جیسے ہر ملک کسی دوسرے ملک کے بازار میں دلچسپی رکھتا ہے۔ بھارت کو چاہییے کہ وہ امریکہ کے بازار میں بھارتی سوفٹ ویئر اور ہنر مندی کے امکانات کے دروازے وا کرے‘‘۔
بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ:
’’اس بنیادی مفروضے میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ دنیا میں اپنے سپر پاور کے مقام کو دوامی بنائے رکھنا‘ اپنے شہریوں کو سب سے زیادہ فی کس آمدنی دینا اور تمام بڑے تدبیری‘ معاشی‘ تکنیکی اور عالمی ماحولیاتی فیصلوں میں غالب فیصلہ کن حیثیت میں رہنا چاہتا ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھارت کے لیے اس غار میں داخل ہونا جتنا خوش نما اور آسان ہوگا‘ اختلاف کی صورت میں اس غار سے نکلنا اتنا ہی بھیانک اور مشکل۔ لیکن اب جبکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی حکومت نے اس سمت میں جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو سبرامینیم کے الفاظ میں بھارت اور امریکہ کے متفقہ مقاصد اس خطے میں اقلیتوں کے لیے بے حد تشویش ناک ثابت ہوں گے۔ حالات کے اس رخ پر چلے جانے کے بعد وزیر داخلہ ایڈوانی کا بیان مزید تشویش ناک مضمرات کا حامل سمجھا جاتا ہے کہ اب بھارت پر بیرونی خطرے اور اس کے اندرونی خطروں میں فرق باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ خطہ ایک ہزار سال کے اجتماعی امن کے بعد پھر قتل عام اور بڑے پیمانے پر عوامی بے دخلی (Mass exodus) کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کا تلخ تجربہ بھارت کی تاریخ نے بطور خاص دوسری صدی عیسوی اور نویں صدی عیسوی کے مابین کیا تھا۔ لیکن اس سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی اس خطے کے تعلق سے پالیسی میں اچانک تبدیلی اور ان کی جانب سے بھارت کے انتخاب کا اصل سبب کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ
۱۔ یہودی قوت یہ محسوس کر چکی ہے کہ اب اس کی اور عالم اسلام کی کشمکش ناگزیر ہو کر عالمی جنگ کی صورت اختیار کرنے جا رہی ہے۔
۲۔ یا یہ کہ وہ اب اس کا فیصلہ کر چکے ہیں کہ عالم اسلام کو کچل دینے میں مزید تاخیر ان کے عالمی منصوبے کو ہی درہم برہم کر کے رکھ دے گی لہذا ایسا اقدم ناگزیر ہوگیا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا قدم ایک عالمی جنگ پر منتج ہوگا۔
۳۔ یا یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کو ڈھانے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو اور پورے جزیرۃ العرب پر قبضہ کر لینے کو مزید ٹالنا خطرناک ہوگا لہذا اس آپریشن کے کرنے کا وقت گزرتا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا آپریشن ایک عالمی جنگ پر منتج ہوگا۔
۴۔ کیا وہ اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں جرمنی اور جاپان نہ صرف یہ کہ ان کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ ممکن ہے کہ مخالفانہ رول ادا کریں اور اس صورت میں سلامتی کونسل میں ان کی رکنیت ہول ناک نتائج پیدا کرے گی؟
۵۔ کیا وہ اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بعد انہوں نے جرمنی اور جاپان کی عزت نفس کو جس طرح پامال کیا ہے‘ اس کے سبب کسی بحرانی صورت میں ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
۶۔ کیا ا س کا سبب عالم اسلام سے ہونے والی عالمی جنگ کی مخصوص حکمت عملی ہے؟ یہ بات واضح ہے کہ ایسی آئندہ جنگ کی تین خصوصیات ہوں گی:
(i) ایک جانب سے اعلیٰ فنی جنگی مشینری کی حرکت (High-tech war machinary mobilisation) اور دوسری جانب سے ادنیٰ اور متوسط جنگی مشینری کی حرکت (Low and medium-tech war machinary mobilisation)
(ii) بے حد وحساب خام مال کی کھپت (High consumption of raw material)
(iii) غیر معمولی اور بے شمار انسانی جانوں کا تلف ہونا (War of over-kill)
ظاہر ہے اس صورت حال میں کئی باتیں قابل ذکر ہوں گی۔
(i) یہودیوں کا موت سے بے حد ڈرنا جبکہ ایک عام اندازے کے مطابق ایک ایسی عالمی جنگ کے چھڑنے کی صورت میں اب ۳۰ سے ۵۰ کروڑ لوگوں کے مرنے یا زخمی ہونے کا اندیشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ۵۰ کروڑ کے کلی زیاں میں اگر یہودیوں اور مسلمانوں کی اموات کا تناسب ۱۰۰:۱ بھی ہو جب بھی یہودیت ۵۰ لاکھ اموار کو برداشت نہیں کر سکے گی۔
(ii)اس صورت میں اس کے لیے جرمنی اور جاپان بے کار ہیں۔ وہ ان کے لیے اتنی جانوں کی قربانی دینے کی صلاحیت سے قاصر ہیں۔
(iii) یورپ کا کوئی ملک شاید کسی ایسی جنگ کے لیے تیار نہ ہو مثلاً روس اور مشرقی یورپ کے ممالک۔
(iv)جنگ عظیم اول اور دوم کے سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر وہ یہ قیاس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ بھارت ان کے لیے اتنی جانوں کی قربانی دے سکتا ہے۔ خود اس ملک کی اندرونی صورت حال میں ایک طبقے کے لیے یہ تاریخی حکمت عملی دور رس نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔
(v) انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ کسی ایسی جنگ میں خام مال اور اب اس Globalised دنیا میں Industrial Base بھی ناگزیر ہیں۔ جرمنی تو خر کسی حد تک ورنہ جاپان تو خام مال کے تناظر میں بالکل بے کار ہے۔ بھارت ہر دو اعتبار سے مالا مال ہے۔
(vi) جرمنی اور جاپان دونوں یہودیوں کے علاقہ دشمنی کی باہری سرحدوں پر واقع ہیں اور کسی ایسی جنگ میں ان کا تعاون موثر نہیں ہوگا۔ اس کے برخلاف یہودیوں کے نقطہ نظر سے بھارت باہری سرحدوں (Peripheral) پر ہونے کے بجائے عالم اسلام کے وسط میں واقع ہے جو ہر اعتبار سے Mobility اور Strike کے لیے موزوں ہے۔ یہودیوں اور امریکہ کو اس سے چنداں غرض نہیں کہ اس صورت میں بھارت کو کتنے نقصانات کا سامنا ہوگا اس لیے کہ صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھنا ان کی تاریخ رہی ہے۔
(vii) کسی ایسی متوقع جنگ میں بیلسٹک میزائلوں کا رول سب سے زیادہ ہوگا۔ ایسی صورت میں بین بر اعظمی بیلسٹک میزائل کا رول بہت کم نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ ان کے وار ہیڈز جوہری ہوں اور روایتی ہیڈز کے ساتھ بین بر اعظمی میزائلوں کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں‘ نہ مالی اعتبار سے اور نہ جنگی اعتبار سے۔ لہذا اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ درمیانے اور چھوٹے درجے کے بیلسٹک میزائل ہی زیادہ تر استعمال کیے جائیں۔ اس صورت میں واقعی علاقہ جنگ (Real war theatre) کا معاملہ یہودیوں کے لیے سنگین ہوگا خاص طور پر اس لیے کہ ان کے دماغوں میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی یاد ابھی محو نہیں ہوئی ہے چنانچہ اس تناظر میں بھی بھارت ان کے لیے نہایت موزوں علاقہ ہے جہاں وہ اپنے مفادات کی جنگ بھارتی سرزمین پرلڑنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر یہودیوں کو بھارت کی آمادگی بھی مل جائے تو یہ ہر صورت سے جرمنی اور جاپان کے مقابلے میں زیادہ مفید ہوگی۔
کیا مسٹر کلنٹن کا دورہ دراصل اس سلسلے کا آغاز ہے جس کا منطقی نتیجہ غزوہ ہند ہو سکتا ہے؟ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ ظہور دجال سے معاً قبل کسی نزدیکی عہد میں ہوگی۔ یہ جنگ بے حد خوں آشام ہوگی جس میں جان اور اسباب کا بے حد زیاں ہوگا۔ جس کی شروعات مقامی اہل ایمان پر غیر انسانی مظالم‘ ان کی بے بسی اور ان کی داد رسی کے حوالے سے ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ حالات کے وقوع پذیر ہونے کا وہ آخری سلسلہ جس کی آخری کڑی ظہور دجال اور پھر قتل دجال ہے‘ اس کا آغاز غزوہ ہند سے ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا سبب جنوب ایشیا میں مسلمانوں کا قتل عام اور ان کا کلی صفایا کر دینے کے اقدامات ہوں جس کے آثار بد قسمتی سے پوری طرح نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ کے اس فیصلے کے تناظر میں ان کے مقاصد کو اس طرح ملخص کیا جا سکتا ہے:
۱۔ جنوب ایشیا میں مسلمانوں کو نہتا کرنا
۲۔ یہودیوں کے نقطہ نظر سے جنوب ایشیا میں نام نہاد اسلامی لہر کو روکنے کے لیے اسلامی سرگرمیوں‘ تشخصات اور ثقافت کا خاتمہ کرنا۔ اس صورت میں اس ایجنڈے کی طرف پیش رفت جس کے تحت پورے جنوبی ایشیا کو اسلامی جذبات وعواطف سے پاک کرنا اور بھارت میں مسلمانوں کو بہرصورت de-islamise کرنا یا انہیں Liquidation کی حد تک Marginaliseکر دینا ناگزیر ہے۔ اگر حکمت عملی کی بنا یہی ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ اس کے سوا کوئی اور بات یہودیوں کو منظور ہوگی تو اس صورت حال میں یہ وہ انقلابی تبدیلی ہے جو لازماً تاریخی رخ اختیار کرے گی اور پھر صورت حال ہر ایک کے قابو سے باہر ہو جائے گی۔