نبوت اور رسالت کے بعد شہادت کا رتبہ ایک بہت اونچا رتبہ ہے اور دنیا کی ناپائیدار زندگی کے انقطاع کے باوجود شہیدوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک عمدہ اور باعزت زندگی حاصل ہوتی ہے اور ان کی شان کے لائق ان کو پروردگار کے ہاں سے رزق نصیب ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون۔ (آل عمران ۱۶۹)
’’اور تم ہرگز نہ خیال کرنا ان لوگوں کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارے گئے کہ وہ مردہ ہیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس انہیں رزق دیا جاتا ہے‘‘۔
ساری مخلوق میں جو رتبہ، درجہ اور شان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے وہ اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اور خصوصیت سے ختمِ نبوت کا جو بلند مقام آپ کو مرحمت ہوا ہے وہ صرف آپ سے مختص ہے۔ بایں ہمہ آپ نے مقامِ شہادت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک موقع پر فرمایا کہ
’’میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں‘‘۔ (بخاری)
جس امر کے حاصل کرنے کے لیے آپ بار بار آرزو کریں، اس کے بہتر اور افضل ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟
حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
’’شہید کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں چھ خصوصیتیں ہیں:
- عین شہادت کے موقع پر اس کو مغفرت کی سند حاصل ہو جاتی ہے۔
- قبر کے عذاب سے اس کو پناہ مل جاتی ہے۔
- قیامت کے دن سخت گھبراہٹ کے موقع پر اس کو امن نصیب ہوگا۔
- اس کے سر پر وقار کا ایسا تاج رکھا جائے گا کہ اس تاج کے ایک موتی کے مقابلے میں دنیا و ما فیہا کے خزانے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
- اس کو بَہتر حوریں عنایت ہوں گی۔
- اور اس کو اپنی برادری کے ستر آدمیوں کی شفاعت کرنے کا حق دیا جائے گا۔‘‘
(ترمذی و قال صحیح)