عصرِ حاضر میں اسلام کی تعبیر و تشریح

مولانا محمد عیسٰی منصوری

(زیرِنظر تحریر میں مولانا محمد عیسٰی منصوری نے دورِ حاضر میں دعوتِ اسلام کے بعض نہایت اہم پہلوؤں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس موضوع پر ہم دیگر اہلِ علم کی سنجیدہ فکری تحریروں کو بھی خوش آمدید کہیں گے۔ مدیر)


مغرب میں مسلمانوں کے مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اسلام کے پیش کرنے میں کیا حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں۔ ایک طبقہ اسلام کو محض نظامِ اقتدار بنا کر پیش کر رہا ہے جس کے نتیجے میں مقامی آبادی میں اسلام سے وحشت پیدا ہو رہی ہے۔ وہ سمجھ رہا ہے کہ مسلمان یہاں اقتدارِ اعلٰی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ صحیح طریقہ یہ تھا کہ اسلام کے نظامِ عقائد کو پیش کیا جاتا یعنی اسلام کے  نظریہ و فکر کو، جو آج کے نظریاتی دور اور اہلِ مغرب کی نفسیات کے عین مطابق ہوتا اور مغربی اقوام کو سنجیدگی اور کھلے دل سے اس پر غور کرنے کا موقع ملتا۔ چنانچہ مدیر ’’الرسالہ‘‘ جناب وحید الدین خان ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ہر انسانی گروہ کا ایک نظامِ عقائد ہوتا ہے اور اس کا نظامِ اقتدار۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان نظامِ اقتدار کے اعتبار سے دوسری قوموں سے پیچھے ہو گئے ہیں لیکن نظامِ عقائد (فکر و نظریہ) کے اعتبار سے آج بھی وہ تمام قوموں سے زیادہ طاقتور ہیں، مگر مسلمانوں کے قائدین ساری دنیا میں یہ کر رہے ہیں کہ وہ نظامِ اقتدار کے میدان میں دوسری قوموں سے ٹکرا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے حصے میں شکست و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں آ رہا ہے۔ اگر وہ اس بے فائدہ ٹکراؤ کو ختم کر دیں اور نظامِ عقائد کے میدان میں دوسری قوموں کو اپنا مخاطب بنائیں تو بہت جلد وہ دیکھیں گے کہ ان کی شکست کی تاریخ فتح کی تاریخ میں تبدیل ہو گئی ہے۔‘‘

۱۹۹۴ء میں امریکہ میں عالمی مذاہب کانفرنس ہوئی جو ہر سو سال بعد منعقد ہوتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دنیا کے ہر چھوٹے بڑے مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کا تعارف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والی ایک علمی شخصیت نے اس کانفرنس کا ایک نہایت قابلِ غور نکتہ تحریر کیا ہے۔ وہ یہ کہ کانفرنس میں دوسرے مذاہب پر گفتگو کے دوران لوگ سنجیدہ رہتے اور بغور سنتے، مگر جونہی اسلام کے تعارف کا موقع آجاتا وہ جارحانہ انداز اختیار کر لیتے۔ لوگوں کے اس رویہ کا سبب بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے نمائندے اپنے مذہب کو فرد کی تعمیر کی حیثیت سے پیش کرتے یعنی ان کا مذہب فرد کے اعمال و عقائد میں کیا تبدیلی چاہتا ہے- اس کے برعکس اسلام کا نمائندہ اپنی بات یہاں سے شروع کرتا کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے، وہ پورے اجتماعی نظام میں انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے۔ غرض وہ اسلام کو ایک کامل ریاستی نظام کی حیثیت سے پیش کرتا یعنی فرد کے بجائے ریاست کے حوالہ سے۔ یہ بدیہی بات ہے کہ جب سیاست و سسٹم کی بات آئے گی تو سامع پر فوری اثر یہ مرتب ہو گا کہ وہ سمجھے گا کہ مسلمان ہم پر سیاسی بالادستی و اقتدار کے خواہاں ہیں۔ اس طرح خودبخود اسلام کے متعلق ان کا انداز جارحانہ ہو جائے گا اور وہ ذہنی طور پر تناؤ (Tension) کی حالت میں آجائیں گے۔

موجودہ دور کے مسلمانوں میں اسلام کے حوالے سے اس طرزِ فکر کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ صدیوں میں عالمِ اسلام کے بڑے حصے پر مغرب کی سیاسی حکمرانی رہی ہے۔ اس کے ردعمل کے طور پر بیسیوں صدی کے دورِ غلامی میں نشوونما پانے والے متعدد اسلامی مفکرین کے ذہنوں پر اسلام کا سیاسی پہلو حاوی ہو گیا۔ اس فکر سے مغلوب ہو کر انہوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کرنی شروع کی، کیونکہ اسلام کو ایک ریاستی نظام کے طور پر پیش کرنے میں ان کی غلامی کی مجروح انا کو ایک طرح کی تسکین حاصل ہوتی تھی۔ حالات کے جبر نے ان کے فہمِ اسلام میں یہ انحراف پیدا کر دیا کہ ان کے نزدیک اسلام کا بنیادی ہدف و مقصد فرد کی تعمیر کی بجائے ریاست و اقتدار کا قیام ہے۔ جبکہ فی الواقع اسلام کی یہ تعبیر انتہائی مغالطہ انگیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا اصل نشانہ بھی فرد ہے نہ کہ اجتماع۔ اجتماعی تبدیلی اس کا بالواسطہ جز ہے نہ کہ براہِ راست۔ انسانی شخصیت کی تعمیر ہی اسلام کا اصل مقصد ہے جس طرح یہ دوسرے مذاہب کا مقصد بیان کیا جاتا ہے۔ اسلام کو سیاسی نظام کے انداز میں پیش کرنے کا فوری نقصان یہ ہوتا ہے کہ مخاطب شروع ہی سے تناؤ اور ٹینشن کی کیفیت میں آجاتا ہے اور وہ کھلے دل سے اسلام کی بات سننے اور اس پر غور کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتا۔ اس موضوع پر جناب خورشید احمد ندیم صاحب لکھتے ہیں:

’’دین کے ماخذوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا اصل منتہا ایک اسلامی ریاست کا قیام نہیں ہے، مگر مسلمان چونکہ اللہ تعالٰی کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند ہیں اس لیے جب یہ کہیں مل کر کوئی معاشرت یا ریاست قائم کریں گے تو ان کے اجتماعی نظام میں ایک ناگزیر تقاضے کے طور پر دین ہی کو غلبہ حاصل ہو گا۔ اس اعتبار سے یہ اجتماعیت کے متعلق ایک تقاضہ ہے نہ کہ دین کا نصب العین۔ اس کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھئے۔ اس امت پر شہادتِ حق کی جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کا تقاضہ ہے کہ اگر انہیں کہیں اقتدار ملے تو وہاں وہ اللہ کے دین کو غالب کریں۔ اب نصب العین اور تقاضے کے اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کی موجودہ صورتِ حال پر نظر ڈالیے تو جناب وحید الدین خان صاحب کی اس بات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ مسلمان اس وقت اس کیفیت میں نہیں کہ کوئی پولیٹیکل ایمپائر کھڑی کریں۔ البتہ وہ ایک ’’دعوہ ایمپائر‘‘ ضرور قائم کر سکتے ہیں۔ یعنی اس وقت مواصلات کی ترقی اور آزادیٔ ابلاغ کی اس فضا کو استعمال کرتے ہوئے وہ ایک عالمی دعوت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا مغرب کے ساتھ کسی مکالمہ میں شریک ہوتے وقت مسلمانوں کو اس پہلو سے بھی غور کرنا ہو گا کہ وہ داعی ہیں اور مغرب ان کا مدعو۔ اس لیے داعی اور مدعو کے مابین تعلق کی صحیح نوعیت ان کے پیشِ نظر رہنی چاہیے۔‘‘

نیز انسانی فطرت کا یہ پہلو بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ آدمی ہمیشہ نظریہ کی تصدیق خارج میں چاہتا ہے۔ جب آپ اسلام کو ایک سیاسی نظام کے طور پر پیش کریں گے تو قدرتی طور پر مخاطب اس کی تصدیق کے لیے مسلم ممالک (سعودی عرب، پاکستان، ایران، عراق) کی طرف دیکھے گا۔ جب وہاں کوئی بہتر سسٹم و نظام نہیں پائے گا تو شروع ہی سے اسلام کی صداقت کے متعلق شک و شبہ کا شکار ہو جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت مغرب میں ٹھنڈے دل سے اسلام پر غور کرنے اور اس کے سمجھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ افراد و جماعتیں ہیں جنہیں اسلام کی سیاسی تعبیر پر اصرار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر کا ذہن بیسویں صدی کے اوائل میں یورپ کی مسلم دنیا پر سیاسی بالادستی کے ردعمل کے طور پر پیدا ہوا۔ بیسویں صدی دنیا میں مختلف ازموں کے عروج و غلغلہ کا دور ہے، کمیونزم، سوشلزم، سیکولرازم، کیپٹل ازم وغیرہ۔ اس سے متاثر ہو کر بعض اسلامی مفکرین نے اسلام کو ایک ازم کے طور پر پیش کیا۔ اسی طرح اسلام کو بطور تحریک پیش کرنا بھی اسی کا حصہ ہے۔ اگرچہ تحریک عربی لفظ ہے مگر قرآن و حدیث، سیر و مغازی حتٰی کہ بیسویں صدی سے پہلے فقہ و ادب میں تحریک کا لفظ شاذ و نادر ہی استعمال ہوا ہے۔ اس کے لیے عام طور پر دعوت کا لفظ مستعمل تھا۔

اس کے برعکس اگر اسلام کو فطری انداز میں پیش کیا جائے تو اس کی تصدیق کے لیے مخاطب انسانی فطرت کی طرف رجوع کرے گا۔ اور یہاں وہ فورًا اس کی تصدیق پا لے گا کیونکہ اسلام کو وہ فطرتِ انسانی کے عین مطابق پائے گا۔ کیونکہ خالقِ کائنات نے اسلام کو فطرت کے عین مطابق اور حق کی بنیاد پر بنایا اس لیے فطری انداز میں پیش کیے جانے والے اسلام کی تصدیق مخاطب بلاتاخیر خود اپنی فطرت اور قلب کی سطح پر پا جاتا ہے، اسے اس کی تصدیق کے لیے کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ جبکہ غیر فطری (سیاسی) انداز میں پیش کیے جانے والے اسلام کی خارج میں تصدیق نہ پا کر مخاطب ابتدا ہی سے اسلام کی حقانیت کے متعلق شبہات کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ موجودہ صدی کے بعض اسلامی مفکرین و داعیوں نے اسلام کو ایک سیاسی نظام کے طور پر پیش کر کے نہ صرف دنیا کی اقوام کو اسلام سے دور کیا ہے بلکہ خود اسلام پر بھی بڑا ظلم کیا ہے۔

اس وقت یہ مسئلہ بہت اہم اور قابلِ غور ہے کہ مغرب میں اسلام کی دعوت کے لیے حکمتِ عملی کیا ہو؟ اسلام کے پیش کرنے کا فطری طریقہ یہی ہے کہ مسلمان یہاں اپنے عمل سے اسلام کو پیش کریں۔ اور معتدل انداز میں اسلام کے ان افادی پہلوؤں کو پیش کریں جو ساری دنیائے انسانیت کی بہبود و بھلائی کے لیے ہیں۔ یا علمی طور پر اسلام کے فطرتِ انسانی، جدید سائنس اور دیگر انسانی علوم کے عین مطابق ہونے کو پیش کیا جائے۔ دنیا کے مذاہب میں یہ خصوصیت صرف اسلام کو حاصل ہے کہ جدید سائنس اور دیگر انسانی علوم اپنی ترقی کے ہر ہر مرحلہ میں اس کی تصدیق کرتے جا رہے ہیں۔ وہ آج تک قرآن کی ایک بات کو بھی خلافِ واقعہ ثابت نہیں کر پائے۔ جبکہ دیگر مذاہب کی ڈھیروں باتیں سائنس اور جدید علمی تحقیقات سے ٹکراتی ہیں۔ چنانچہ وحید الدین خان صاحب لکھتے ہیں:

’’ان (مسلمانوں) کے پاس وہ سچائی ہے جو کسی دوسرے کے پاس نہیں۔ تجارتی اصطلاح میں انہیں مذہب کے میدان میں ایک قسم کی اجارہ داری (Monopoly) حاصل ہے۔ تمام اہلِ مذاہب میں وہ تنہا گروہ ہیں جن کے پاس بے آمیز مذہبی صداقت موجود ہے، جن کا مذہب پورے معنوں میں تاریخی مذہب ہے۔ جبکہ دوسرے تمام مذاہب غیر معتبر روایات کا مجموعہ ہیں۔ اسلام کے سوا کسی بھی دوسرے مذہب کو تاریخ کی بنیاد حاصل نہیں ہے۔‘‘

اس وقت مسلمانوں کو سیاسی نظام کے حوالے سے مغرب میں مخاصمت بڑھانے کے بجائے اسلام کے فکر و عقیدہ کو پیش کرتے ہوئے مغرب میں درپیش معاشرتی و اخلاقی بحران پر گفتگو کا آغاز کرنا چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسلام کی دعوت کا جذبہ رکھنے والے اپنے خول سے باہر نکلیں اور مغرب کے سنجیدہ دانشوروں اور مذہبی طبقہ سے ڈائیلاگ شروع کریں۔ مذہب، آخرت، تمدنی و معاشرتی مسائل، خاندانی نظامِ استحکام، نئی نسل کی بے راہ روی، انسانیت کی اپنے پیدا کرنے والے سے دوری، اور مذہبی گرفت کے کمزور پڑنے کے اسباب جیسے بے شمار عنوانات پر اسلام اور مغرب کے درمیان مکالمے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ اسلام دعوت کا مذہب ہے۔ وہ پوری انسانیت کی بہبود کے لیے مستقل نظریۂ فکر رکھتا ہے۔ ہر مسلمان کو اس موقع کی تلاش میں رہنا چاہیے جہاں بھی وہ اپنی بات پہنچا سکے۔ تھامس مین نے درست کہا ہے:

’’گفتگو فی نفسہٖ تہذیب ہے۔ لفظ چاہے کتنا ہی اختلافی ہو واسطہ کا ذریعہ بنتا ہے۔‘‘

اس موضوع پر خورشید ندیم صاحب لکھتے ہیں:

’’مغرب سے مکالمے میں جو بات بطور اصول ملحوظ رہنی چاہیے وہ نظریے و سیاست کا تفاوت ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کیا ہیں؟ مشرقِ وسطٰی میں امریکہ نے کیا طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے؟ مسلم اور غیر مسلم ممالک میں تجارت کن بنیادوں پر ہونی چاہیے؟ یہ سوالات عملی سیاست کا موضوع تو ہو سکتے ہیں لیکن کسی نظری بحث کا نہیں۔ اسلام میں ایک ریاست کا قیام کیا فی نفسہٖ مطلوب ہے؟ اسلام میں انسان کے معاشرتی مسائل کا حل کیا ہے؟ سرمایہ داری اور اسلام کی معاشی تعلیمات میں کہاں کہاں ہم آہنگی اور کہاں کہاں فرق ہے؟ یہ سب سوالات ایک نظری بحث کا موضوع ہونے چاہئیں۔ عملاً یہ ہوتا ہے کہ جب بھی اسلام اور مغرب کے درمیان کسی مکالمے کا آغاز ہوتا ہے تو روزمرہ کے سیاسی مسائل کچھ اس طرح غلبہ پا لیتے ہیں کہ نظری مسائل دب کر رہ جاتے ہیں۔ میڈیا کو چونکہ سیاسی مسائل سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اس لیے وہ اس سارے عمل کو اپنے طور پر متاثر کرتا ہے۔ اس طرح اسلام کا موقف پوری طرح واضح نہیں ہو پاتا۔ عرب مصنفین کی یونین کے سیکرٹری جنرل علی اکلارسان نے درست کہا ہے کہ ’’ہم اس صداقت کے دور میں زندہ ہیں جسے میڈیا سچ کہتا ہے نہ کہ حقیقی سچ‘‘۔ ہوتا یہ ہے کہ اہلِ دانش کی تمام مساعی لاحاصل رہتی ہیں کیونکہ میڈیا کی ساری دلچسپی سیاسی مفادات سے وابستہ ہے اور سیاسی مفادات کا حق و انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘‘

سب جانتے ہیں کہ عرصہ سے مغربی میڈیا پر صہیونیت کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔ وہ کمال عیاری سے اسلام کی تصویر مسخ کرنے کا کام خود اسلام کے داعیوں سے لے رہا ہے۔ مغرب میں دعوت و فکر کے بجائے خلافت و جہاد کو مقصد قرار دینا مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ یہاں پرجوش مسلم رہنماؤں کے بیانات سنیں تو ان میں عموماً دو باتیں پائیں گے:

  1. مسلم حکمرانوں پر غیظ و غضب، اور
  2. مغرب کے اسلام دشمن رول کو پیش کرنا۔

اس طرزعمل سے  مشتعل ہو کر مسلم نوجوان ردعمل کی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چونکہ مغربی میڈیا مسلمانوں کو مشتعل دکھانا چاہتا ہے اس لیے وہ ان مسلم رہنماؤں کو زیادہ سے زیادہ کوریج دیتا ہے۔ اس کے دو مقاصد ہیں:

  1. دنیا میں مغرب کے کھلے پن اور آزادیٔ رائے کا پروپیگنڈا کرنا۔
  2. ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں کی منفی تصویر پیش کرنا تاکہ مقامی لوگوں میں اسلام اور مسلمانوں سے تنفر بڑھتا رہے۔

مسلمانوں کے بعض پرجوش رہنما اپنے طرزعمل سے شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام اور مسلمانوں کی منفی اور انتہاپسندانہ تصویر پیش کرنے میں مغربی میڈیا کی معاونت کر رہے ہیں۔

موجودہ دور میں مغرب میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کی نظر میں ان کی منفی تصویر (Negative image) بن گئی ہے۔ اس صورتحال کو بدلنا اور مسلمانوں کی مثبت تصویر (Positive image) پیش کرنا وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور یہ کام مسلمانوں کو خود کرنا ہو گا۔ اور یہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مسلمان مغربی میڈیا کے اشتعال دلانے پر بھی مشتعل نہ ہوں۔

الغرض ہمیں مغرب سے مکالمہ کا ایجنڈا ترتیب دیتے وقت اس امر کا بطور خاص خیال رکھنا ہو گا کہ مکالمہ فکری و نظری مسائل پر ہو نہ کہ سیاسی و تہذیبی مسائل پر۔ بصورتِ دیگر جہاں اسلام کی بے شمار تعبیریں سامنے آئیں گی وہاں مسلمانوں اور اہلِ مغرب کے مختلف رویے اس کو پیچیدہ بنا دیں گے، اور باہمی مکالمے کی ساری تگ و دو بحث برائے بحث سے آگے ہی نہیں بڑھ سکے گی، بلکہ اندیشہ ہے کہ مزید منافرت و دوری کا ذریعہ بن جائے۔ اس لیے کہ سیاست و اقتدار وہ شے ہے جس کی بنیاد مفادات پر ہے، اور مفادات بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتے ہیں۔ اس لیے اگر مسلمانوں نے اسلام کو نظریۂ فکر کے بجائے نظامِ ریاست کے طور پر پیش کیا تو ایک طرف سیاسی مفادات اور دوسری طرف صہیونی میڈیا مغرب میں اسلام کے کیس کو تلپٹ کر کے رکھ دیں گے۔

دورِ نبوت سے لے کر عصرِ حاضر تک اسلام کے فکر و نظریہ اور قرآن کے آفاقی و انفسی دلائل کا کفر کے پاس ہمیشہ ایک ہی جواب رہا ہے، جسے قرآن نے ان معجز نما الفاظ میں بیان کیا ہے ’’لا تسمعوا لھٰذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون‘‘ کہ قرآن کو سنو ہی نہیں اور اگر کوئی سنائے تو مخالفانہ شور و شغب برپا کرو شاید اس طرح تم غالب ہو سکو۔ جس طرح دورِ نبوت میں اسلام کی روشنی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے پیغمبر اسلام کے ساحر، کاہن، شاعر و مجنون ہونے کا پروپیگنڈا کیا گیا، آج مغرب کی مہذب اقوام نے اسلام کے لیے نئی گالیاں ایجاد کر لی ہیں اور نئے بہتان اور اتہامات تراش لیے ہیں۔ انتہا پسند، بنیاد پرست، انسانی حقوق کے خلاف ہونے کا شور مچا کر مغرب کے ذرائع ابلاغ نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ مسلمان مغربی میڈیا کے اکسانے پر مشتعل نہ ہوں اور صبر و تحمل سے اسلام کے فکر و نظریہ کو پیش کریں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد حالات ان کے حق میں ہو جائیں گے کیونکہ مغرب میں مذہبی عصبیت بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے۔

گزشتہ کئی صدیوں سے مغرب کے ذہن و فکر کو تشکیل دینے والے بیشتر فلسفی و مفکر یہودی رہے ہیں۔ جیسے ہیگل، کارل مارکس، ڈارون وغیرہ۔ انہوں نے صدیوں کی تگ و دو کے بعد مغرب میں سیاسی، معاشی اور تعلیمی طور پر ایسا نظام قائم کر دیا ہے جس  میں ایک اقلیت (یہودی) بآسانی اکثریت پر اثرانداز ہو سکتی ہے اور ان پر کنٹرول کر سکتی ہے۔ یہودیوں کی خفیہ دستاویز (پروٹوکول) سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا پر ایک خاص نسل کے تسلط قائم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں دوسری کسی بھی اقلیت کے لیے بہترین مواقع موجود ہیں۔ مسلمان اگر سیاسی محاذ آرائی سے بچتے ہوئے اسلام کو فکری و عملی طور پر پیش کر سکیں تو اس وقت مغرب میں اسلام کے لیے حالات نہایت سازگار ہیں۔ مسلمان مغرب میں وہ حکمتِ عملی اختیار کریں جو حضرت جعفر طیارؓ نے حبشہ میں مسیحی بادشاہ نجاشی کے ملک میں اختیار کی تھی۔ حضرت جعفر طیارؓ کے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے متعلق عقیدہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا تھا ’’خدا کی قسم جو تم نے بیان کیا عیسٰی اس سے اس تنکے کے برابر زیادہ نہیں۔‘‘

دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ وقت نے خود مخالفِ اسلام مغربی پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ وہ اس طرح کہ صدیوں تک مغرب میں مسلمانوں کو ایک خونخوار وحشی کے روپ میں پیش کیا جاتا رہا کہ مسلمان بات بات میں مغلوب الغضب ہو جاتا ہے، فورًا تلوار اٹھا کر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ اب قدرت نے کروڑوں مسلمانوں کو مغرب میں پہنچا دیا اور یہاں کے عام آدمی کو روزمرہ کی زندگی میں اس ’’خونخوار‘‘ مسلمان سے سابقہ پڑنے لگا۔ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ کوئی مسلمان اس پر حملہ نہیں کرتا بلکہ وہ بہ نسبت گوروں اور کالوں کے زیادہ پرامن طور پر رہتا ہے، اس کا خاندانی نظام خوشگوار حد تک مستحکم ہے، تو وہ اسلام کے متعلق اپنے بڑوں کی غلط بیانی پر سوچنے لگتا ہے، اس طرح بالواسطہ طور پر اسلام کے متعلق بھی غور کرنے لگتا ہے۔ اس موقع پر اگر اسلام کی صحیح اور مثبت فکر پیش کی جائے تو اس کی کامیابی کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں۔

مغرب میں اسلام کو بطور نظریہ و فکر کے پیش کرنے کا یہی سب سے بہترین وقت ہے کہ مغرب میں ایک نظریاتی خلا پیدا ہو گیا ہے۔ سوویت یونین کا خاتمہ محض ایک فیڈریشن کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک نظریہ کی ناکامی کا اعلان تھا۔ کمیونزم ایک نظریہ تھا جس نے بنی آدم کے اجتماعی مسائل کا ایک حل تجویز کیا۔ ستر برس کے تجربہ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ انسان کے مسائل نہ صرف برقرار ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ اشتراکیت و سرمایہ داری کے اس تصادم میں سرمایہ داری کو ہر طور پر کامیابی ہوئی۔ اس وقت عالمی سطح پر سرمایہ داری کو کوئی نظری چیلنج درپیش نہیں۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے، کسی نظریہ کی بقا کے لیے اس کی ضد کا ہونا ضروری ہے۔ اس بنا پر ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سرمایہ داری کو اگر کسی نظری چیلنج کا سامنا ہوا تو اس کی اپنی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی، اس صورت میں اس کے داخلی تضادات سامنے آئیں گے، اور یہ نظریہ خود اپنے ہی وجود میں شکست و ریخت کے عمل سے گزرے گا جو بالآخر اس کی موت پر منتج ہو گا۔ ان کے نزدیک جو نظریہ سرمایہ داری کو چیلنج کر سکتا ہے وہ اسلام ہے، اس لیے کمیونزم کے بعد اسلام کو متوقع خطرہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

مغرب کی ایک اسلام دشمن طاقتور لابی، جو اسلام کے نظریہ کی طاقت سے خوفزدہ ہے، اس کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ اسلام کو تہذیبی و سیاسی طور پر مغرب کا حریف بنا کر پیش کیا جائے، تاکہ اسلام کے خلاف اس حد تک نفرت بڑھ جائے کہ اہلِ مغرب کھلے دل سے اسلام کے نظریہ و فکر پر غور نہ کر سکیں۔ بدقسمتی سے بعض نادان مسلم رہنما جنہوں نے مسلم ممالک میں بھی اسلام کو اپنے حکمرانوں سے ٹکراؤ کا عنوان بنا کر مسلم حکمرانوں کو غیر ضروری طور پر اسلامی تحریکوں کا دشمن بنا دیا ہے، وہ سیاسی طور پر ٹکرا کر مسلم ملکوں میں اسلامی دعوت کے مواقع برباد کر چکے ہیں، یہ لوگ عملاً یہاں مغرب میں بھی یہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے خلافت و جہاد کے نام پر ہنگامے کھڑے کر کے محاذ آرائی شروع کر رکھی ہے۔ غرض دونوں جگہ ان پرجوش مسلم رہنماؤں نے ایک بے فائدہ لڑائی چھیڑی ہوئی ہے۔ ان لڑائیوں نے اسلام کی دعوت و فکر پیش کرنے کے مواقع برباد کر کے رکھ دیے ہیں۔

دنیا کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے کرنے کا اہم ترین کام صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کی دعوت کو لے کر اٹھیں، علمی و عملی طور پر اس کے نظریہ و فکر کو پیش کریں، اس طرح وہ خدا کی رحمتوں کا سب سے زیادہ حصہ پانے کے حقدار ٹھہریں گے۔ یہی وہ کام ہے جس پر ان کی دنیا کی کامیابی اور آخرت کی نجات وابستہ ہے۔

اسلام اور عصر حاضر

(نومبر ۲۰۰۱ء)

نومبر ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۱۱

دنیا میں معاشی توازن قائم کرنے کا واحد راستہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ شریعت کی ضرورت و اہمیت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

عصرِ حاضر میں اسلام کی تعبیر و تشریح
مولانا محمد عیسٰی منصوری

فریاد نہیں ۔۔۔ دین کی دعوت
ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری

تفسیرِ کبیر اور اس کی خصوصیات
محمد عمار خان ناصر

امریکی اِکسپوژر کی نئی جہتیں
پروفیسر میاں انعام الرحمن

امریکی معاشرہ۔ سوچ میں تبدیلی کی جانب گامزن
ہَک گَٹمین

ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا المیہ ۔۔ اصل گیم
عبد الرشید ارشد

امتِ محمدیہ کا امتیاز
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ

شہید کا درجہ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

تلاش

Flag Counter