امریکی معاشرہ۔ سوچ میں تبدیلی کی جانب گامزن

ہَک گَٹمین

(مضمون نگار امریکہ کی ورمونٹ یونیورسٹی میں انگریزی کے استاذ ہیں۔ تحریر کا ترجمہ جناب نذیر حق نے کیا ہے۔)


گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر دہشت گردی کے حملے، اس پر عالمی ردعمل، اور افغانستان پر (امریکی) بمباری کے بارے میں بہت سے تبصرے شائع ہو رہے ہیں۔ ان تبصروں میں سب سے زیادہ واضح اور تیز تبصرہ کسی کالم نگار نے نہیں کیا بلکہ ایک سیاسی شخصیت کیوبا کے صدر فیڈرل کاسترو نے کیا ہے۔ انہوں نے ۲۲ ستمبر کو (کیوبا کے دارالحکومت) ہوانا میں تقریر کرتے ہوئے جو ابتدائی جملے کہے ہیں وہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ بہت سے دوسرے لوگوں کے برعکس، جو فیشنی انقلاب پسند ہیں، کاسترو نے واضح اور فیصلہ کن انداز میں دہشت گردی کے جواز سے انکار کیا ہے:

’’اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج دہشت گردی ایک خطرناک اور اخلاقی طور پر ناقابلِ دفاع صورتحال ہے جس کا، اس کے منبع، اقتصادی اور سیاسی عناصر سے قطع نظر، جو اس کو روبہ عمل لانے کا موجب بنتے ہیں، مکمل انسداد کیا جانا بے حد ضروری ہے۔‘‘

مسٹر کاسترو نے دہشت گردوں کے حملہ کے امکانی نتائج کا بھی اندازہ لگایا ہے۔ ان کے الفاظ میں وزن ہے کیونکہ وہ سچے انقلابی ہیں:

’’اس دہشت گردی سے فائدہ کسے پہنچا ہے؟ انتہائی دائیں بازو والوں کو، نہایت پسماندہ فکر دائیں بازو کی قوتوں کو، ان لوگوں کو جو دنیا میں فروغ پذیر بغاوت کو کچلنا چاہتے ہیں، اور اس کرۂ ارض پر اگر کوئی ترقی پسند عنصر موجود ہے یا باقی بچ گیا ہے، اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی، ایک بڑی نا انصافی تھی، یہ بہت بڑا جرم تھا جس کا ارتکاب، جس کی منصوبہ بندی اور جسے روبہ عمل لانے والے سبھی انسانیت کے مجرم ہیں۔‘‘

وہ شخص جو گزشتہ چالیس سال سے امریکی بالادستی کی مزاحمت کر رہا ہے، بخوبی جانتا بوجھتا ہے کہ ایک منصفانہ دنیا کا قیام ہی دراصل انسانی ترقی و تعمیر کا منصوبہ ہے۔ ایک زیادہ منصفانہ اور جمہوری دنیا کا قیام اور آزادی کی جدوجہد کا طویل کام ڈرامائی انداز میں ٹی وی پر ویڈیو ٹیپ چلا کر تو مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ خوف و ہراس سے کوئی تعمیری کام تو نہیں ہو سکتا، اس سے تو عدمِ استحکام ہی پیدا ہوتا ہے، اور عدمِ استحکام خلا پیدا کرتا ہے۔ جو اکثر و بیشتر فاشزم پر مبنی ایجنڈا رکھنے والی قوتوں کو ہی، خواہ یہ فاشزم مذہبی بنیاد پرست قوتیں روبہ کار لائیں یا کثیر القومی سرمایہ دار قوتوں کے جلو میں آئے، آگے آنے اور خلا کو پر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

مسٹر کاسترو کی بقیہ تقریر افغانستان میں امریکہ کی فوجی مداخلت کی مخالفت اور سرزنش پر مشتمل ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غیر ترقی یافتہ غریب دنیا میں رہنے والے کروڑوں عوام اور قوموں کی معیشت پر ہی اس دہشت گردی کے نہایت خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے صدر جارج بش کی طرف سے بنیاد پرستانہ انداز میں نعرہ بازی پر بھی شدید نکتہ چینی کی ہے۔ (یہ صدر بش کی طرف سے ’’صلیبی جنگ کے آغاز‘‘ کی باتوں کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے قوم سے خطاب کے دوران کی تھیں)۔ آخر مسٹر کاسترو امریکی ایمپائر کی غارت گر اور تند خوانا سے تو واقف ہیں نا!

صدر کاسترو کی طرف سے دہشت گردی کو مسترد کرنا، اور اس امر کی تفہیم کہ دہشت گرد انقلاب کی حمایت نہیں کرتے بلکہ رجعت پسندی کے فروغ کا سبب بنتے ہیں، دنیا میں ہر جگہ ایسے مرد و خواتین کو پسند آئیں گے جو باہمی محبت اور مفاہمت چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس بنا پر ان کے خیالات کے مطابق امریکہ میں جو کچھ ہوا اس کے اثرات کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ امریکہ میں مقیم کسی بھی مبصر پر افغانستان میں امریکہ کی فوجی مداخلت کے علاوہ متعدد حقائق آشکارا ہوئے ہیں۔ یہ تسلیم کہ گیارہ ستمبر کے حادثات کے فوری اثرات خوف، عدمِ تحفظ اور فوجی جواب ہیں، لیکن جیسا کہ امریکہ کے عظیم ترین فلاسفر ریلف والڈو ایمرسن نے ۱۸۳۶ء میں لکھا تھا:

’’اگر کوئی ایسا زمانہ ہے جس میں پیدا ہونے کی کسی میں خواہش پیدا ہو تو کیا یہ انقلابات کا دور نہیں جب پرانے اور نئے ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے درمیان موازنہ ہو رہا ہے، جب تمام افراد کے صبر کا امتحان خوف اور امید لے رہے ہوتے ہیں، جب پرانوں کی تاریخی شان و شوکت کی جگہ نئے دور کے شاندار امکانات کو دی جا سکتی ہو؟‘‘

ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بڑے ہی حیران کن نتائج پیدا ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ بش انتظامیہ کے بعض بنیادی مفروضے حالیہ دنوں کے دوران بالکل الٹ پڑ گئے ہیں۔ میں نے اس اخبار کے لیے تین ماہ قبل ایک مضمون سپردِ قلم کیا تھا جس میں، میں نے خارجہ امور میں امریکہ کی تنہائی پر سخت افسوس کا اظہار کیا تھا۔ امریکہ نے کیوٹو معاہدے کو مسترد کر دیا تھا جو کیمیائی اور حیاتیاتی جنگی تزویرات کی تحدید اور چھوٹے ہتھیاروں کی اسمگلنگ پر بین الاقوامی کنٹرول کے بارے میں تھا۔ دہشت گردوں کے حملے کے بعد صدر بش، نائب صدر ڈک چینی اور وزیر دفاع رمزفیلڈ نے، جو سبھی تنہائی پسندی کا شکار ہیں، اپنی ساری توجہ ’’بین الاقوامی کولیشن‘‘ قائم کرنے پر مرکوز کر دی۔ وہ اس خطرے کا تدارک کرنا چاہتے تھے کہ امریکہ اپنی فوجی قوت دوسروں سے صلاح مشورہ کیے بغیر استعمال کرے گا۔ وہ مسلمانوں کو بھی یہ یقین دلانے لگے کہ امریکہ تو مذہبی تنوع کو پسند کرتا ہے۔ اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کو دیا جانے والا جواب خاص طور پر قابلِ غور ہے۔

چالیس سال سے زائد عرصے کے دوران میں ریپبلکن (پارٹی کے قائدین) اقوامِ متحدہ کو امریکہ کی خودمختاری پر تحدید قرار دیتے اور ادارے پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ وہ اس بین الاقوامی ادارے کے فنڈز روکتے رہے اور اسے فنڈز کی کمی کا شکار بناتے رہے، حالانکہ امریکہ کے ذمے، جو دنیا کی امیر ترین ریاست ہے، یہ فنڈ بجا طور پر واجب الادا تھے۔ امریکی حکام اقوامِ متحدہ کی ہر اس کوشش کا مذاق اڑاتے رہے جو وہ دنیا بھر میں کسی بھی خطے میں عوام کو خطرات سے بچانے کے لیے کرتی رہی ہے۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں کے دوران میں ریپبلکن صدر (جارج بش) نے اقوام متحدہ کو گویا گلے لگا رکھا ہے، وہ اسے ضروری قرار دے رہے ہیں تاکہ افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں قرارداد منظور کرا سکیں۔ اور وہ دنیا بھر کے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے کردار کی تصدیق و توثیق کرتے پھرتے ہیں۔ 

۔۔۔۔ لیکن اب بھی دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی یک طرفہ کے بجائے اجتماعیت میں تبدیل ہو رہی ہے۔ پہلے شمالی امریکہ اور یورپ کی سرحدوں سے آگے کسی اور دنیا کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے مگر اب وہ اس احساس کا اظہار کر رہے ہیں کہ ترقی پذیر دنیا ایک غیر  معمولی پیچیدہ دنیا ہے۔ مگر امریکہ کی برسراقتدار قوتیں ابھی پوری طرح اس بات پر تیار نہیں کہ موجودہ عالمی نظام پر نظرثانی ہونی چاہیے جس میں دولت مند قومیں عالمی معیشت پر چھائی ہوئی ہیں اور یہ بات دنیا بھر کے شہریوں کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ اس امر کا کوئی امکان بھی نہیں کہ واشنگٹن کی سیاست یا معیشت کاری دنیا میں دولت یا آمدنی کی غیر مساوی تقسیم کو تبدیل کرنے میں کوئی کردار ادا کرے گی، لیکن دولت کی منصفانہ تقسیم کے بغیر ترقی پذیر دنیا اپنے معاشرتی (ترقی کے) اہداف حاصل نہیں کر سکے گی۔ دولت کی تقسیم میں اہم اور واضح تبدیلی کے بغیر اربوں انسان غربت کی بھٹی میں جلتے رہیں گے، بیماریوں کے تنور میں جھلستے رہیں گے اور ان کی توقعات کبھی پوری نہیں ہوں گی۔ دہشت گردی کے اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، اس کی نرسری تو مایوسی اور غصہ ہی ہیں، جو ایک ایسی دنیا میں مقیم انسانوں میں جنم لیتے ہیں جہاں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں لیکن وہاں دولت وافر مقدار میں موجود ہو البتہ اس کی منصفانہ تقسیم ناپید ہو۔

دہشت گردی کا ایک اور نتیجہ امریکی عوام کی آگاہی میں تبدیلی بھی ہے۔ اگرچہ امریکی عوام بھی دنیا کے دوسرے عوام سے مختلف نہیں ہیں، جن کی ایک خاصی بڑی تعداد یا تو اس نوع کی خبروں کو نظرانداز کر دیتی ہے یا پھر اپنے سابقہ نظریات میں تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہوتی، لیکن اب امریکیوں کی ایک بڑی تعداد ۱۰ ستمبر کی نسبت آج دنیا کی صورتحال کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ رہی ہے۔ صرف یہی نہیں، وہ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ اکیسویں صدی میں زندگی زیادہ غیر محفوظ اور خطرات سے پُر ہو سکتی ہے۔ اس وقت بہت سے امریکیوں کے دل میں تین انواع کی بصیرت نے جنم لیا ہے:

  1. دنیا امریکہ کی سرحدوں کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو جاتی۔
  2. امریکی شہریوں کی ایک بڑی تعداد میں یہ احساس اور ادراک بھی پیدا ہوا ہے کہ دنیا میں بہت سی اقوام اور معاشرے ہیں جو آزاد ہیں، خودمختار ہیں، اور وہ امریکی امداد، ثقافت اور اثرورسوخ کے بغیر بھی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران میں امریکیوں کو کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ اقوام کا معاملہ بڑا پیچیدہ ہوتا ہے اور اقوام کے درمیان تعلقات بھی اسی طرح پیچیدہ اور تہ در تہ ہوتے ہیں۔ لیکن آج ان میں ان باتوں کا ادراک اور احساس پوری طرح بیدار ہو چکا ہے۔ صرف وہی لوگ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں جو امریکہ میں سالوں سے رہ رہے ہیں، یا وہ جو امریکہ یاترا پر اکثر و بیشتر آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ بے حد حیران کن امر ہے کہ امریکی فوج کے لیے یہ حکم نہیں ہے کہ وہ کسی بھی ملک پر چڑھ دوڑیں بلکہ اب یہ ہو رہا ہے کہ فوجی کارروائی سے قبل اس کے بین الاقوامی نتائج کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ امریکیوں کے بارے میں یہ تصور کہ وہ چرواہے ہیں، جیسا کہ پرانی فلموں میں دکھایا جاتا ہے، یا پھر وہ پولیس والے ہیں جیسا کہ کئی فلموں میں انہیں پیش کیا جا رہا ہے جو اپنا پستول نکال کر ہر مسئلے کو حل کر سکتے ہیں اور ہر سامنے آنے والے مخالف کو گولی کا نشانہ بناتے چلے جاتے ہیں، اب مدھم پڑتا جا رہا ہے۔ افغانستان پر فضائی بمباری کے جواز یا انصاف کے بارے میں کوئی کچھ بھی سوچے، لیکن یہ (اقدام) سوچا سمجھا ہے اور کسی ناراض گن مین کا فوری ردعمل نہیں کہ وہ ہر اس چیز کو گولی کا نشانہ بناتا چلا جائے جو اسے حرکت کرتی ہوئی نظر آئے۔
  3. مغربی دنیا میں عموماً اور امریکہ میں خصوصاً یہ آگاہی بڑھ رہی ہے کہ دنیا کی آبادی کے تیسرے حصے سے زیادہ افراد قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ دو ماہ قبل غالباً ۵ فیصد کے قریب امریکی یہ جانتے تھے کہ اسلام دنیا میں کتنی دور دور تک پھیل چکا ہے۔ مگر آج امریکیوں کی اکثریت اسلام کی وسعت کے بارے میں آگاہ ہو چکی ہے۔ اب بہت سے امریکی ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھنے لگے ہیں کہ عیسائیت کی طرح اسلام میں بھی کئی مکاتبِ فکر ہیں، کئی فرقے ہیں اور ان سب کی اندرونی روایات بھی ہیں۔ نیویارک میں دہشت گردوں کے حملوں کے بعد کے دنوں میں اگرچہ امریکہ کے گلی بازاروں میں مسلمانوں پر حملوں، ان سے گالی گلوچ کرنے اور تنگ کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ پہلے سے بہت زیادہ حد تک صبر و تحمل، برداشت، باہمی تصورات اور عقائد کے اختلاف کو قبول کرنے، خصوصاً اسلام کی مذہبی رسوم پر عمل اور اسلامی اقدار سے تعرض نہ کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اگر امریکہ کا کوئی مخصوص دعوٰی ہے جس پر امریکی عوام بھی فخر کرتے ہیں، تو وہ یہ ہے کہ امریکی شہری اختلافات کو برداشت کرنے اور معاشرتی گوناگونی کو قبول کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ اس امر کی تردید ناممکن ہے کہ امریکی معاشرہ اپنی امنگوں اور خواہشات کے مطابق عمل پیرا رہتا ہے، لیکن بسا اوقات، خصوصاً گزشتہ ہفتوں کے دوران میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی معاشرہ زیادہ تحمل و برداشت اور نوعِ انسانی کی گوناگونی کی تفہیم کا ثبوت دے رہا ہے۔

امریکی معاشرے کے ضمیر میں تبدیلی شاید سب سے زیادہ اہم بات ہے۔ پورے امریکہ میں مرد اور خواتین یہ سوال پوچھتے رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ کیسے ہوا؟ کیونکر ہوا؟ ایک سطح پر تو، جیسا کہ صدر فیڈرل کاسترو نے بھی ذکر کیا ہے، اس سوال کا جواب یہی ہے کہ کسی بھی اخلاقی نظم یا انقلابی حکمتِ عملی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایک اور سطح پر، امریکی معاشرے میں اس امر کا احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ دنیا کے بہت سے انسانوں اور لاتعداد معاشروں کو امریکی قوم سے بالکل صحیح شکایات اور گلے شکوے ہیں۔ آج امریکہ کے شہری انتہائی سنجیدگی کے ساتھ یہ سمجھ رہے ہیں، جو قبل ازیں کبھی محسوس نہیں کی گئی، کہ ان کی قوم کا عالمی نظم یا دنیا کے ڈھانچے میں نہایت بنیادی کردار ہے جو معاشروں کو غریب اور پس ماندہ معاشروں سے جدا کرتا ہے، اور امریکہ ایک بین الاقوامی پولیس مین ہونے کی حیثیت میں امیر اور غریب معاشروں کے درمیان اس فرق کو قائم رکھتا ہے۔

میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اقتصادی انصاف کے لیے جدوجہد میں گزارا ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ ان دنوں امریکہ میں ہر طرف امریکیوں کی ان پالیسیوں کی مذمت ہو رہی ہے جن کے باعث اس کرۂ ارض پر آباد نصف سے زائد انسانوں پر مسلسل ظلم و جبر ہو رہا ہے۔ اس مذمت میں امریکی نوجوان، بوڑھے، پڑھے لکھے اور مراعات یافتہ طبقہ کے لوگ اور عام مزدور، عام شہری تک بیک زبان شامل ہیں۔ امریکہ میں جہاں بھی چار افراد مل بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں تو وہ کھیلوں، فلموں یا موسم پر نہیں ہوتی بلکہ وہ امریکہ کی سیاسی پالیسیوں پر بحث کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ قبل ازیں ایسا نہیں تھا۔ یہ بات چیت واقعی بعض مرکزی اور بنیادی مسائل پر ہی ہوتی ہے۔ مثلاً امریکہ نے دنیا میں غربت کو قائم رکھنے کے لیے کتنا زیادہ کردار ادا کیا ہے؟ لوگ اس بات پر امریکہ کا محاسبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ دنیا میں جمہوری اور منتخب حکومتوں کے بجائے اپنی پسند کے چند افراد پر مشتمل حکومتوں کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور امریکہ مختلف خطوں اور ممالک میں عدمِ استحکام پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یہ باتیں امریکی عوام کو مسلسل پریشان رکھ رہی ہیں۔

امریکیوں کی بڑی تعداد ان باتوں کے بارے میں اظہار خیال کرتی نظر آتی ہے اور وہ امریکہ کی ان خامیوں کو خوب سمجھ رہے ہیں۔ مگر بش انتظامیہ کے بڑے، فوجی جرنیل اور مالیاتی اداروں میں بیٹھے ہوئے جغادریوں کو ان کا کوئی خیال نہیں ہے۔ جب تک برسراقتدار قوتیں، ان میں سیاسی اور معاشی دونوں شامل ہیں، ان باتوں کا ادراک نہیں کریں گی اور امریکی شہریوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے خدشات اور خطرات کا احساس نہیں کریں گی، ترقی پذیر دنیا اور امریکہ کے درمیان بنیادی اقتصادی تعلقات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو گی۔ لیکن اس امر کی امید کی جا سکتی ہے کہ سوچ میں تبدیلی ضرور آ رہی ہے اور یہ بڑی اچھی بات ہے۔ شاعر شیلے نے لکھا تھا ’’اگر موسمِ سرما آتا ہے تو کیا موسمِ بہار بہت دور ہو سکتا ہے؟‘‘ اگرچہ ان سب باتوں کا مثبت جواب یقینی ہرگز نہیں ہے لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’اگر عوام بدل جائیں تو کیا ان کی حکومت ان سے دور پیچھے رہ سکتی ہے؟‘‘

(بشکریہ روزنامہ پاکستان)


حالات و مشاہدات

(نومبر ۲۰۰۱ء)

نومبر ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۱۱

دنیا میں معاشی توازن قائم کرنے کا واحد راستہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ شریعت کی ضرورت و اہمیت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

عصرِ حاضر میں اسلام کی تعبیر و تشریح
مولانا محمد عیسٰی منصوری

فریاد نہیں ۔۔۔ دین کی دعوت
ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری

تفسیرِ کبیر اور اس کی خصوصیات
محمد عمار خان ناصر

امریکی اِکسپوژر کی نئی جہتیں
پروفیسر میاں انعام الرحمن

امریکی معاشرہ۔ سوچ میں تبدیلی کی جانب گامزن
ہَک گَٹمین

ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا المیہ ۔۔ اصل گیم
عبد الرشید ارشد

امتِ محمدیہ کا امتیاز
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ

شہید کا درجہ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

تلاش

Flag Counter