ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے المیے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے بلکہ اس سے پیدا شدہ صورتحال پربھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ اس المیے کی تہہ میں چھپے طوفان پر شایدبہت ہی کم لوگوں کی نگاہ ہو گی۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کوئی جذباتی کارروائی نہیں ہے بلکہ یہ لمبی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ اس منصوبہ بندی کی کڑیاں بہت دور تک جاتی ہیں۔ وثائقِ یہودیت (Protocols) پر گہری نظر رکھنے والوں کے لیے اس قضیے کو، اس کی تہہ میں چھپے طوفانوں کو سمجھنا سہل ہے۔
یہود کے منصوبہ میں سرفہرست عالمی سطح پر اقتدارِ اعلٰی کی منزل ہے جس کا پایۂ تخت ’القدس‘ ہو گا جو عظیم تر اسرائیل کا بھی پایۂ تخت ہو گا۔عظیم اسرائیل کا حصول ان کا خفیہ منصوبہ نہیں ہے۔ اس لیے پہلے ’القدس‘ کے ساتھ اسرائیلی مملکت کا قیام تھا جس میں وہ ۱۹۴۸ء میں برطانیہ کی سرپرستی سے کامیاب ہو گئے۔ نصف صدی کے بعد اب انہوں نے دوسرے مرحلے پر کام شروع کر دیا ہے۔ عظیم اسرائیل میں ارضِ فلسطین کے علاوہ ترکی، شام، عراق، اردن، کویت، بحرین، عرب امارات، سعودیہ کا بیشتر حصہ بشمول مدینہ منورہ، سوڈان، مصر وغیرہ شامل کرنے کی آرزو اور عملی کوشش ہے۔
اس آرزو کی تکمیل اکیلے اسرائیل کے بس میں نہیں ہے لہٰذا اس نے مداری کا رول امریکہ اور برطانیہ کے سپرد کر دیا ہے اور امریکہ و یورپ پر اپنے سونے کے زور پر حاوی ہونے کے بعد اور انہیں یہ یقین دلا کر کہ ہمارا تمہارا دشمن نمبر ایک اسلام اور مسلمان ہیں، اپنا ہم نوا بنا لیا ہے۔ یہودی مسلمان ممالک کو کمزور کر کے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے خود پسِ پردہ رہ کر وقتاً فوقتاً اپنی منصوبہ بندی کو آگے بڑھاتا رہتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے خود یہود کی زبانی:
’’وہ کون ہے اور کیا ہے جو نادیدہ قوت پر قابض ہو سکتا ہے؟ بالیقین یہی ہماری قوت ہے۔ صہیونیت کے کارندے ہمارے لیے پردے کا کام دیتے ہیں جس کے پیچھے رہ کر ہم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ منصوبۂ عمل ہمارا تیار کردہ ہوتا ہے مگر اس کے اسرار و رموز ہمیشہ عوام کی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں‘‘۔ (پروٹوکولز ۴ : ۲)
منصوبۂ عمل ایران عراق جنگ کا ہو، عراق کویت کا ہو، عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی یلغار کا ہو، یا افغانستان پر امریکی دہشت گردی کا ہو، اس کے حقیقی منصوبہ ساز مذکورہ اقتباس کی روشنی میں یہود ہیں، اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کی منصوبہ بندی کے خالق بھی وہی ہیں۔ مذکورہ اور موجودہ جنگوں کے منصوبہ کو ذیل کے اقتباس میں ملاحظہ فرمائیے:
’’جہاں تک ممکن ہو ہمیں غیر یہود کو ایسی جنگوں میں الجھانا ہے جس سے انہیں کسی علاقے پر قبضہ نصیب نہ ہو بلکہ جو جنگ کے نتیجے میں تباہی سے دوچار ہو کر بدحال ہوں‘‘۔ (پروٹوکولز ۲ : ۱)
اس مختصر اقتباس میں ایران عراق جنگ، روس چیچنیا جنگ، عراق کویت جنگ، اور اب آخر میں امریکہ اور افغانستان جنگ کا جائزہ لے کر یہود کی منصوبہ بندی کی صداقت کو پرکھ لیجئے۔ بات سمجھنے میں کچھ بھی تو مشکل نہیں ہے۔ اسرائیل کو مذہبی ایران اور مضبوط ایٹمی قوت کے قریب عراق سے خطرہ تھا۔ ایٹمی پلانٹ خود تباہ کر دیا اور پھر ایران عراق کے سینگ پھنسا دیے کہ ان کا اسلحہ، ان کے وسائل، ان کی افرادی قوت جو اسرائیل کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے، بھسم ہو جائے، اور عرب عجم کا تعصب ہوا پکڑے۔ اسرائیل اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب ہوا اور مسلمان کی بصیرت بازی ہار گئی جس پر مذکورہ ہر محاذ گواہی دے رہا ہے۔
جب طویل جنگ کے باوجود عربوں کی مالی مدد کے سبب عراق کو مضبوط دیکھا تو اسے کمزور بلکہ برباد کرنے اور عظیم اسرائیل کے منصوبے کو ایک قدم آگے بڑھانے کی خاطر پہلے عراق کو کویت پر حملے کے لیے اکسایا، اور پھر کویت کے ساتھ سعودی عرب پر بھی عراقی دہشت کے سائے دکھا کر سعودی عرب کی سرزمین پر باقاعدہ چھاؤنی بنا کر مستقل ڈیرے ڈال دیے۔ کویت اور سعودیہ کے ’’محسن‘‘ نے عربوں سے اپنا برسوں کا بجٹ وصول کیا، پرانا اسلحہ منہ مانگے داموں عراق پر گرایا، نیا اسلحہ عربوں کے خرچ پر انہی کی سرزمین پر ٹیسٹ کر لیا، اور جنگ کے نام پر ہنگامے میں عربوں کے خرچ پر جدید اسلحہ اسرائیل پہنچایا، عربوں کے سیال سونے پر قبضہ جمانے کے ساتھ عظیم اسرائیل کی تکمیل کے لیے مدینہ سے قریب تر پہنچ گئے۔
عظیم اسرائیل کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہوتے دیکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام اور اس کی فوج ہے کہ یہ عربوں سے بڑھ کر ان کے خیرخواہ ہیں۔ لہٰذا پاکستان کو کمزور کرنا اس کو بے بس بنانا اسرائیل کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ یہ کام بھارت سے ہو سکتا ہے یا امریکہ کے ذریعے سے، مگر انتہائی قرینے سے۔ پاکستان دشمنی دیکھئے:
’’عالمی یہودی تحریک کو اپنے لیے پاکستان کے خطرے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور پاکستان اس کا پہلا ہدف ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست یہودیوں کی بقا کے لیے سخت خطرہ ہے اور یہ کہ سارا پاکستان عربوں سے محبت اور یہودیوں سے نفرت کرتا ہے۔ اس طرح عربوں سے ان کی محبت ہمارے لیے عربوں کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ لہٰذا عالمی یہودی تنظیم کو پاکستان کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ بھارت پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے جس کی ہندو آبادی مسلمانوں کی ازلی دشمن ہے جس پر تاریخ گواہ ہے۔ بھارت کے ہندو کی اس مسلم دشمنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں بھارت کو استعمال کر کے پاکستان کے خلاف کام کا آغاز کرنا چاہیے۔ ہمیں اس دشمنی کی خلیج کو وسیع سے وسیع تر کرتے رہنا چاہیے تاکہ یہودیوں کے یہ دشمن ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہو جائیں۔‘‘ (اسرائیل وزیراعظم بن گویان کی تقریر، بحوالہ جیوش کرانیکل، ۹ اگست ۱۹۶۷ء)
’’پاکستان کی فوج اپنے پیغمبر کے لیے بے پناہ محبت رکھتی ہے اور یہی وہ رشتہ ہے جو عربوں کے ساتھ ان کے تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔ یہی محبت، وسعت طلب عالمی صہیونیت اور مضبوط اسرائیل کے لیے شدید خطرہ ہے، لہٰذا یہودیوں کے لیے یہ انتہائی اہم مشن ہے کہ ہر صورت اور ہر حال میں پاکستانی فوج کے دلوں سے ان کے پیغمبر کی محبت کو کھرچ دے۔‘‘ (امریکی ملٹری ایکسپرٹ پروفیسر ہرنز کی رپورٹ)
سعودیہ اور کویت میں قدم جما لینے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بے بس کرنا ضروری تھا اور یہ بے بسی مکمل صرف اس صورت میں ممکن تھی کہ اس کے شمال میں اسلامی ریاست افغانستان کو بے بس کر دیا جائے اور وہاں لا دینی حکومت قائم ہو جو امریکہ اور بھارت یا بالفاظ دیگر یہود کے اشارۂ ابرو پر کام کرے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان سینڈوچ بنا رہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مشکل لمحات کے دوست چین کو پاکستان سے بدظن کر کے پیچھے ہٹا کر پاکستان کو تنہا کر دیا جائے۔
یہ بہت بڑا کام تھا اور اس کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی کا تقاضا یہ تھا کہ کوئی بڑا کام کیا جائے جس سے امریکہ کی دہشت اور وحشت کو مسلمان حکمرانوں کے سامنے لا کھڑا کیا جائے۔ چنانچہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر جو امریکی وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا اور پینٹاگون پر جو امریکی عظمت اور عالمی غنڈہ گردی کی علامت ہے، کاری ضرب لگا کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا رخ پاکستان اور افغانستان کی طرف پھیرنا ضروری سمجھا گیا۔
’’ہماری شناخت ’قوت‘ اور ’اعتماد بناؤ‘ میں ہے۔ سیاسی فتح کا راز قوت میں مضمر ہے بشرطیکہ اسے سیاستدانوں کی بنیادی مطلوبہ ضرورت اور صلاحیت کے پردے میں چھپا کر استعمال کیا گیا ہو۔ تشدد راہنما اصول ہونا چاہیے۔ اور ان حکمرانوں کے لیے، جو حکمرانی کو کسی نئی قوت کے گماشتوں کے ہاتھ میں نہ دینا چاہتے ہوں، ان کے لیے یہ مکر میں لپٹا ہوا ’اعتماد بناؤ‘ اصول ہے۔ یہ برائی ہی ہمیں ’’مطلوبہ خیر‘‘ تک لے جانے کا آخری ذریعہ ہے۔‘‘ (پروٹوکولز ۱ : ۲۳)
ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے المناک تشدد کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر ایک بار پھر مذکورہ اقتباس پڑھیے بلکہ ان الفاظ پر ذرا رکیے کہ ’’یہ برائی ہمیں مطلوبہ خیر تک لے جانے کا آخری ذریعہ ہے‘‘ اور سوچیے کہ ٹریڈ سنٹر کی تباہی والی برائی عظیم تر اسرائیل کی منزل تک لے جانے کا آخری ذریعہ ہے، اس ذریعہ تک رسائی کے لیے ان کا مؤثر ہتھیار میڈیا ہے۔
اب آئیے اقتباس میں ’’قوت اور اعتماد بناؤ‘‘ پر توجہ دیں۔ امریکہ میں یہود کی قوت اور یہود پر اعتماد کس کی نظر سے اوجھل ہے؟ امریکہ کے آج تک ۱۷ صدور یہودی خفیہ تنظیم فری میسنز کے باضابطہ رکن رہے۔ آج صدارتی الیکشن یہود کی مدد کے بغیر جیتنا ناممکن ہے۔ کوئی بش کی طرح جیت لے تو صدر رہنا مشکل۔ بش جن حالات سے دوچار رہے وہ ہر کسی کے سامنے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے لیے اس المیے سے ’’خیر‘‘ نکالنے کا کام میڈیا کے ذمے تھا جو اس نے بڑی خوبی سے نبھایا کہ امریکی حکومت کی طرح مغربی میڈیا بھی یہود کا زرخرید غلام ہے۔ ادھر اغوا شدہ جہاد ’’قوت اور اعتماد بناؤ‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے، امریکی ایجنسیوں کی کارکردگی کا مذاق اڑاتے، پینٹاگون اور ٹریڈ سنٹر ٹاور سے ٹکرائے، ادھر میڈیا نے اس کا رشتہ اسامہ بن لادن اور طالبان سے جوڑنا شروع کر دیا۔ یوں گوبلز کی اولاد غصے میں پاگل بش اور اس کی حکومت کو اتنا آگے دھکیلنے میں کامیاب ہو گئی کہ بش آخری صلیبی جنگ لڑنے نکل کھڑے ہوئے۔
میڈیا کے ضمن میں یہود کا نقطۂ نظر ملاحظہ فرمائیے:
’’چند مستثنیات کو چھوڑ کر پہلے ہی عالمی سطح پر پریس ہمارے مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے۔‘‘ (پروٹوکولز ۷ : ۵)
’’پریس کا کردار یہ ہے کہ وہ ہماری ناگزیر ترجیحات کو مؤثر انداز میں پھیلائے، عوامی شکایات کو اجاگر کر کے عوام میں بے چینی پھیلائے۔‘‘ (پروٹوکولز ۲ : ۵)
ان اقتباسات کی روشنی میں آپ ۱۱ ستمبر اور اس کے بعد آج تک امریکہ کے اندر اور باہر پریس کا کردار دیکھ کر خود فیصلہ کر لیں کہ میڈیا کس طرح یہود کی ’’ناگزیر ترجیحات‘‘ کی تکمیل کے لیے مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔ معمولی غوروفکر سے یہ اندازہ کرنا بھی کچھ مشکل نہیں کہ پاکستانی میڈیا بھی یہود کے عالمی میڈیا کی سُر سے سُر ملا کر حقِ نمک ادا کر رہا ہے۔
مذکورہ تفصیل سے جو بات سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ عظیم تر اسرائیل کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے یہود کی منصوبہ بندی ایک تدریج کے ساتھ بڑے مؤثر انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ پہلے روس کے سپر پاور ہونے کے خناس کو افغانستان میں پھنسا کر رسوا کیا۔ اب دنیا میں امریکہ سپر پاور ہونے کا دعوے دار ہے۔ اسے بڑے سلیقے سے افغانستان میں لا کر عسکری اور معاشرتی میدان میں بانجھ کرنے کا فیصلہ کیا کہ اندرونی طور پر اسے کمزور کر کے عالمی اقتدار کے راستے کا یہ روڑا ہٹا دیا جائے۔ برطانیہ ہو یا فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک پہلے ہی یہود کے باج گزار ہیں۔
امریکہ، روس اور دیگر یورپی ممالک کے بعد لے دے کے اسلام یہود کے مدِ مقابل رہ جاتا ہے۔ اسلامی بلاک کو امریکہ اور یورپی بلاک کے ذریعے سے نیست و نابود کر دیا جائے تو یہود کے لیے میدان خالی ہو گا۔ اسلامی بلاک میں صرف پاکستان ہے جو ایٹمی قوت بھی ہے لہٰذا اس کو دوست بن کر ڈالروں کا زہر پلا کر ختم کیا جائے۔ دوستی کی انتہا یہ کہ روزنامہ خبریں ۱۷ اکتوبر کے مطابق اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے کرتا دھرتا امریکی مہمانوں کو اپنے ایٹمی مقامات تک لے گئے۔ بقول اخبار انہیں ایٹمی اسلحہ کا اسٹور بھی دکھایا جس پر وفد نے اسٹوریج کے لیے تجاویز دینے کا وعدہ کیا کہ موجودہ سکیورٹی نظام ان کے نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے۔
خالق اپنی مخلوق کی خوبیوں اور خامیوں سے پوری طرح باخبر ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی مخلوق کو حکم دے، نصیحت کرے کہ فلاں سے دوستی کرو اور فلاں سے بچتے رہو، فلاں دوست ہے اور فلاں دشمن ہے تو حقیقی نصیحت یہی ہے۔ مسلمان کے خالق نے اپنی کتاب میں بار بار تاکید فرمائی کہ یہود و نصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔ مگر ہم ہیں کہ بش کو عقلِ کل سمجھ کر اس کی دوستی پر نازاں ہیں اور اس بے یقین کی بات پر یقین کر کے اپنی فضا، اپنے اڈے اس کے سپرد کر دیے جو دس روز کا کہہ کر خیمے میں اونٹ کی طرح داخل ہوا اور اب دس سالہ قیام کی نویدِ مسرت سنا رہا ہے۔
افغان مجاہدین اور اسامہ بن لادن نے گزرے کل افغانستان (میں روس) کے خلاف پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑی تھی کہ بھارت کا یار اور (امریکی U2 جاسوس پروازوں کے سبب) پاکستان کا دشمن روس افغانستان کے راستے بلوچستان کو تاراج کر کے خلیج کے گرم پانیوں پر ڈیرا ڈالنے پر مصر تھا تاکہ روس بھارت کے درمیان پاکستان کا وجود ہر لمحہ خطرہ میں رہے، پاکستان لمحہ بہ لمحہ روس اور بھارت سے آزادی کی بھیک مانگتا پھرے۔ ہماری بدنصیبی کہ ہم نے افغان مجاہدین اور اسامہ بن لادن کی قربانیوں کو فراموش ہی نہیں کیا، نمک حرامی پر بھی اتر آئے۔ گزرے کل کی طرح آج پھر وہی افغانستان اور وہی اسامہ بن لادن کفر کے دوسرے روپ عالمی دہشت گرد کے خلاف بے یارومددگار، بے ساز و سامان، محض اپنے رب کی رحمت کے سہارے سینہ سپر ہیں۔ جس دہشت گرد کی ایک ٹیلی فون کال پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تین جنگیں لڑنے کے دعوے دار فوجی صدر کا پتہ پانی ہو گیا، اس کے مقابل اللہ کے سپاہی ملا محمد عمر مجاہد اور اسامہ بن لادن ڈٹ گئے۔ فرق صرف ایک سجدہ کا ہے جو شاید صدر مشرف بھی کرتے ہوں گے اور ملا محمد عمر، طالبان اور اسامہ بن کرتے ہیں۔ اور یہ سجدہ
؎ ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
کاش ملا محمد عمر، اسامہ بن لادن اور طالبان کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قیادت نے بھی ویسا ہی ایک سجدہ کر لیا ہوتا اور مسلّمہ عالمی دہشت گرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے کہ مسلمان جسدِ واحد ہیں، افغانستان کی طرف اٹھنے والی آنکھ پھوڑ دی جائے گی اور ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میدانِ حرب میں آمنے سامنے تھے کہ حضرت امیر معاویہؓ کو کافر دشمن نے حضرت علیؓ کے مقابلے میں مدد اور تعاون کی پیشکش کی۔ حضرت امیر معاویہؓ کا جواب تھا کہ ہمارا معاملہ دو بھائیوں کا ہے، اگر تم نے ایسی جرأت کی تو علیؓ کی طرف سے تمہارے خلاف لڑنے والا پہلا شخص معاویہؓ ہو گا۔ آج یہ بات مشرف صاحب کے کہنے کی تھی، شمالی اتحاد کے کہنے کی تھی، ایران و عرب کے کہنے کی تھی، مگر
بت صنم خانے میں کہتے ہیں مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزلِ دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
افغانستان کو برباد کر کے اپنی پسند کی حکومت بنوانے والے اور ان کے دوسرے ہم نوا حکمران بصیرت سے عاری یہ بھول گئے کہ یہود و نصارٰی کا ٹارگٹ اسلام اور مسلمان ہیں۔ یہود و نصارٰی مسلم حکمرانوں سے زیادہ چالاک، عیار و مکار اور عقل مند ہیں۔ جسے آج وہ عالمی دہشت گرد کہہ کر ان سے معاونت لے رہے ہیں وہ اسلام کا فلسفۂ جہاد ہے جسے مٹانے کا عزم لے کر بش امریکہ سے نکلا ہے۔ بش کا ٹارگٹ اسامہ یا ملا محمد عمر نہیں ہے، اس کا ہدف اسلام، مسلمان اور مسلمان کا جہاد ہے جس پر کاری ضرب لگا کر وہ گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ اور کس قدر بدنصیبی کی بات ہے اس نیک مقصد میں مسلمان کہلوانے والے حکمران اس کے معاون و مددگار ہیں۔
بہ مشیتِ اللہ تعالٰی افغان مجاہدین اور اسامہ بن لادن سرخرو ہوں گے۔ فتح و نصرت ان کا مقدر ہو گی کہ ان کی سپر پاور جبار و قہار و عزیز بھی ہے سریع الحساب بھی، اور ان کے ہتھیار کلمہ طیبہ کے مقابلے میں آج تک کسی فیکٹری میں بہتر ہتھیار نہیں بنا۔ دنیا میں ان کا انعام سکینت ہے جو کسی مسلمان حکمران کا مقدر نہیں اور محشر میں دیدارِ باری تعالٰی انہیں نصیب ہو گا۔ دنیا میں کفر کے ساتھی محشر میں ان کے ساتھی ہوں گے اگر توبہ کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔