تعوذ اور قرآن مجید

مولانا سراج نعمانی

تعوذ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ اپنے دروسِ قرآن میں فرماتے ہیں:

’’تعوذ کا معنی ہے خدا کی پناہ حاصل کرنا، تاکہ انسان شیطان کی شر سے بچ سکے کیونکہ انسان تو عاجز اور محتاج ہے اور شیطان کے شر سے بچنے کے لیے سب سے پہلے خدا کی پناہ حاصل کرنا ضروری ہے۔‘‘

تلاوتِ قرآنِ مجید سے پہلے تعوذ پڑھنا مسنون ہے تاکہ انسان کی زبان ان ناپاکیوں سے پاک ہو جائے جو لسانی اور قولی طور پر اس سے سرزد ہوئی ہوں۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی قرآنِ مجید پڑھنے لگو تو اس سے پہلے تعوذ ضرور پڑھا کرو۔ ارشاد ربانی ہے:

فَاِذَا قَرَأْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ (النحل ۹۸)

’’پھر جب تو پڑھے قرآن تو پناہ مانگ اللہ کی شیطان مردود سے۔‘‘

کیونکہ شیطان ہر نیک کام سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے نہ صرف ہمیں اس کا حکم دیا گیا بلکہ ہم سے پہلے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی اللہ کی پناہ میں آنے کی دعائیں مانگیں اور استعاذہ کیا۔ مثلاً نوح علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے کے لیے دعا مانگی اور اللہ پاک نے اس دعا کو نامنظور کر دیا تو حضرت نوح علیہ السلام یہ فرمانے لگے:

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ (ہود ۴۷)

’’کہا اے میرے پروردگار! بے شک میں پناہ لیتا ہوں تیری، یہ کہ سوال کروں تجھ سے وہ، جس کا علم مجھے نہیں۔‘‘

یوسف علیہ السلام کو جب زلیخا نے ورغلانا چاہا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے استعاذہ حاصل کرتے ہوئے فرمایا تھا:

مَعَاذَ اللہِ اِنَّہٗ رَبِّیْ اَحْسَنَ مَثْوَایَ (یوسف ۲۳)

اور انہی یوسف علیہ السلام کو بنیامین کی جگہ دوسرے بھائی کو پیالے کی چوری کے سلسلے میں بھائیوں نے کچھ کہا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:

مَعَاذَ اللہِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہٗ (یوسف ۷۹)

’’پناہ ہے اللہ کی کہ لے لیں ہم سوائے اس شخص کے کہ پائی ہے ہم نے چیز اپنی اس کے پاس۔‘‘

موسٰی علیہ السلام سے بھی تعوذ کے کلمات قرآنِ مجید میں بیان کیے گئے ہیں جب بنی اسرائیل نے گائے کی قربانی کے حکم پر ٹال مٹول کی تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے ان کے اقوال و افعال پر فرمایا:

اَعُوْذُ بِاللہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجَاھِلِیْنَ (البقرہ ۶۷)

پناہ لیتا ہوں اللہ کی کہ ہو جاؤں میں نادانوں سے‘‘۔

پھر جب فرعون کے دربار میں دعوتِ حق فرما رہے تھے تو اس وقت یہ فرمایا:

وَقَالَ مُوْسٰی اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ (المؤمن ۲۷)

’’اور کہا موسٰیٗ نے بے شک میں نے پناہ پکڑی اپنے پروردگار کی تمہارے ہر متکبر سے جو ایمان نہیں لاتا یومِ حساب پر۔‘‘

وَاِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ (الدخان ۲۰)

’’اور بے شک میں نے پناہ پکڑی اپنے رب اور تمہارے رب کی اس سے کہ تم مجھے سنگسار کرو۔‘‘

حضرت مریم علیہا السلام کے پاس جب جبرئیل امین مردانہ شکل میں ظاہر ہوئے تو:

قَالَتْ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتُ تَقِیًّا (مریم ۱۸)

’’کہنے لگی تحقیق میں پناہ پکڑتی ہوں رحمٰن کی تجھ سے اگر ہے تو پرہیزگار۔‘‘

اور انہی مریم علیہا السلام کی پیدائش کے وقت زوجۂ عمران نے کہا تھا:

وَاِنِّیْ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ (مریم ۳۶)

’’اور بے شک میں نے پناہ دی تیری اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے۔‘‘

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قرآن مجید میں مختلف مقامات پر استعاذہ کرنے کی تعلیم دی گئی۔ ایک جگہ فرمایا:

وَقُل رَّبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ o وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَن یَّحْضُرُوْنَ (المؤمنون ۹۷ و ۹۸)

’’اور کہہ دیجیئے اے میرے پروردگار! میں تیری پناہ مانگتا ہوں شیطان کے وسوسوں سے۔ اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ (شیطان) حاضر ہوں میرے پاس۔‘‘

دوسری جگہ کفار اور منکرین کے برتاؤ کے جواب میں یہ تعلیم دی:

اِنْ فِیْ صُدُوْرِھِمْ اِلَّا کِبْرٌ مَّا ھُمْ بِبَالِغِیْہِ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ (مومن ۵۶)

’’نہیں ہے ان کے سینوں میں مگر تکبر (لیکن) وہ اس تک نہیں پہنچ سکتے پس آپ اللہ کی پناہ مانگیئے۔‘‘

اسی طرح شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے یہ تعلیم دی:

وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ (الاعراف ۲۰۰)

’’اور اگر آپ کو کسی وقت شیطانی وسوسہ ابھارے اور آمادہ کرے تو آپ اللہ سے پناہ طلب کر لیا کیجئے۔‘‘

اسی طرح جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شیطانی علوم کے ذریعے سحر کیا گیا تو فرمایا:

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (الفلق ۱)

’’کہہ دیجئے میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے پروردگار کی۔‘‘

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ (الناس ۱)

’’کہہ دیجئے میں پناہ مانگتا ہوں لوگوں کے پروردگار کی۔‘‘

معلوم ہوا کہ قرآن مجید آزادی و سرفرازی کا پیغام لایا۔ انسانوں کو غیر خدا کی محکومیت اور غلامی سے نکال کر ایک خدا کی پناہ حاصل کرنے کی تلقین کی ؎

یہ ایک سجدہ جسے توں گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

لیکن ہم نے خدا کی پناہ حاصل کرنے کی بجائے زندہ، مردہ، یا بے جان وڈیروں کی پناہ حاصل کرنے میں فخر سمجھا اور ان کفار کے راستے پر چل نکلے جن کا ذکر قرآن مجید نے اس طرح فرمایا ہے:

وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًا (الجن ۶)

’’اور یہ کہ کئی مرد انسانوں میں سے پناہ پکڑتے تھے جنات کی، تو زیادہ ہوا ان کا تکبر۔‘‘

کیا اب بھی خداوند کریم کے دروازے سے ہٹ کر کوئی چوکھٹ ایسی ہے جو اتنی ضمانت اور پناہ دے سکے۔ جب نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو پھر ہماری نگاہیں مشرق و مغرب کی طرف کیوں متوجہ ہو کر پتھرا رہی ہیں؟ یا ہمیں پناہ دینے والا معاذ اللہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نظر آگیا ہے؟

؏   کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

قرآن / علوم القرآن

(جولائی ۱۹۹۰ء)

جولائی ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۷

شریعت بل اور تحریک نفاذ شریعت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی اجتماعیت اور آبادی کا محور
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

خبرِ واحد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

تعوذ اور قرآن مجید
مولانا سراج نعمانی

’’شریعت بل‘‘ پر مختلف حلقوں کے اعتراضات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عیسائی اور یہودی نظریۂ الہام
محمد اسلم رانا

نسخ و تحریف پر مولانا کیرانویؒ اور ڈاکٹر فنڈر کا مناظرہ
محمد عمار خان ناصر

’’جمہوریت‘‘ — ماہنامہ الفجر کا فکر انگیز اداریہ
ادارہ

ہمارے دینی مدارس — مقاصد، جدوجہد اور نتائج
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قرآنِ کریم اور سود
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

برص ۔ انسانی حسن کو زائل کرنے والا مرض
حکیم محمد عمران مغل

عمل کا معجزہ حق ہے سکوت و ضبط باطل ہے
سرور میواتی

تعلیم کے دو طریقے
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کیلئے چند تجاویز
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

تلاش

Flag Counter