تمہید
عہدِ نبوی کی خواتین میں کئی ایسی خواتین ہیں، جن کی خصوصیات کی بنیاد پر آج بھی انہیں یاد کیا جاتا ہے، شجاعت و بہادری، فراست و سمجھ داری، ذہانت و ذکاوت، تعلیم و تعلم، اخلاق و کرادر؛ حتی کہ علاج و معالجہ میں بھی بعض خواتین نے وہ نمایاں کارکردگی دکھائی کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف و مدح کی، انہیں خواتین میں سے ایک ’’شفاء بنت عبداللہ عدویہ قرشیہ‘‘ ہیں، حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں:
کانت من عقلاء النساء، وفضلائہن، وکان رسول اللہ ﷺ یأتیہا، ویقیل عندہا فی بیتہا، وکانت قد اتخذت لہ فراشاً وإزاراً ینام فیہ۔1
’’وہ عاقل و فاضل خواتین میں سے تھیں، رسول اللہ ﷺ ان کے پاس آتے اور ان کے گھر میں قیلولہ فرماتے، انھوں نے آپﷺ کے لئے ایک بستر اور ایک ازار رکھا ہوا تھا، جس میں آپ آرام فرماتے تھے‘‘۔ان کا شمار قریش کے ان معدودے خواتین میں ہوتا تھا، جو لکھنا پڑھنا جانتی تھیں، جس کی وجہ سے یہ شہرت بھی رکھتی تھیں۔ احمد خلیل جمعہ لکھتے ہیں:
وکانت الشفاء رضی اللہ عنہا إحدی النساء والقرشیات ممن یعرفن الکتابۃ والقراءۃ- وکن قلیلات- ولہٰذا السبب فقد تربعت فی عالم الشہرۃ بین قومہا، وقادہا ہذا إلی معرفتہا لبعض الأسرار فی علم الطب والرقیۃ وما یتعلق بہما من المعارف عصر ذاک۔2
’’شفاء رضی اللہ عنہا ان عورتوں اور قریشیات میں سے تھیں، جنھیں لکھنا پڑھنا آتا تھا- اور یہ بہت کم تھیں- جس کی وجہ سے اپنی قوم میں انھیں شہرت حاصل تھی اور اسی سبب سے انھوں نے اپنے زمانہ کے علوم: رقیہ اور طب کے اسرار و رموز سے بھی واقفیت حاصل کی تھی‘‘۔
رقیہ اور جلدی امراض کی یہ اسپیشلسٹ اور ماہر سمجھی جاتی تھیں، جس کا نتیجہ تھا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ان سے درخواست کی کہ:
ألا تعلمین ہذہ رقیۃ النملۃ کما علمتیہا الکتابۃ؟3
’’کیا تم یہ نملہ (ایک قسم کی جلدی امراض یا اکزیما) کا رقیہ حفصہ کو اسی طرح نہیں سکھاؤ گی، جس طرح کتابت کی تعلیم انھیں دی ہے؟‘‘
تعلیم و تدریس اور علاج و معالجہ کی خدمات کی وجہ سے ہی رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں انھیں ایک گھر دے رکھا تھا، جہاں صحابہ کرام، بالخصوص عورتیں رضوان اللہ علیہم اجمعین حاضر ہو کر تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ علی بن نایف الشحود لکھتے ہیں:
وکان لہا دور بارز فی مجال التعلیم ومعالجۃ القروح والامراض؛ لذا خصص لہا رسول اللہ ﷺ داراً بالمدینۃ تقدیراً لدورہا الاجتماعی، وکانت تعیش فیہا ہی وابنہا سلیمان، وأصبحت تلک الدار مرکزاً علمیاً للنساء، تعلمت فیہا الکثیرات من نساء المؤمنین تعالیم الدین، بالاضافۃ إلی القراءۃ والکتابۃ والطب، وکان من بین المتعلمات السیدۃ حفصۃ زوج الرسول ﷺ۔4
’’تعلیم اور امراض و زخموں کے علاج کے سلسلہ میں ان کی خدمت نمایاں تھی، ان کے اسی سوشل کردار کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ان کے لئے ایک گھر خاص کر رکھا تھا، جس میں یہ اور ان کے بیٹے سلیمان رہائش پذیر تھے، ان کا یہ گھر عورتوں کے لئے علمی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا، یہیں بہت ساری خواتین نے ان سے طب، کتابت، قراءت اور دین کی تعلیم حاصل کی، ان تعلیم حاصل کرنے والیوں میں رسول اللہﷺ کی بیوی سیدہ حفصہ بھی تھیں‘‘۔
پیدائش اور نام و نسب
آپؓ کے نام کے سلسلہ میں دو قول ہیں: ایک قول یہ ہے کہ آپ کا نام ’’الشفاء‘‘ ہے اور یہی مشہور ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نام ’’لیلیٰ‘‘ ہے اور الشفاء لقب ہے، کنیت ’’ام سلیمان‘‘ ہے۔ سلسلۂ نسب کچھ اس طرح ہے:
الشفاء (لیلیٰ) بنت عبد اللہ بن عبد شمس بن خلف ابن شداد بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب القرشیۃ العدویۃ۔
دادا پرداد کے ناموں میں بھی کچھ کچھ اختلاف ہے؛ چنانچہ ’’خلف‘‘ کی جگہ ’’خالد‘‘، ’’شداد ‘‘کی جگہ ’’صداد‘‘ اور ’’ضرار‘‘ بھی کہا گیا ہے، ان کی تاریخ پیدائش تو مذکور نہیں؛ البتہ اتنی بات ضرور لکھی گئی ہے کہ زمانہ ٔجاہلیت میں ہی پیدا ہوئی ہیں، ان کی والدہ کا نام: فاطمہ بنت أبی وہب بن عمرو بن عائذ بن عمران المخزومیۃ ہے۔5
ازواج و اولاد
ان کی شادی سب سے پہلے ابوحثمہ بن حذیفہ بن غانم بن عامر بن عبداللہ بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب سے ہوئی، جس سے ایک لڑکا ’’سلیمان‘‘ پیدا ہوا، اسی مناسبت سے آپ کو ’’ام سلیمان‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابوحثمہ نے فتح مکہ کے موقع سے اسلام قبول کیا تھا۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
قال ابن السکن: لہ صحبۃ، وہو من مسلمۃ الفتح۔6
’’ابن السکن کہتے ہیں: انھیں (نبی کریم ﷺ کی) صحبت حاصل تھی اور یہ فتح مکہ کے موقع سے اسلام لانے والوں میں سے ہیں‘‘۔
حضرت شفاءؓ کے بطن سے تولد ہونے والے ابوحثمہ کے بیٹے سلیمان کی پیدائش عہدِ نبوی میں ہوئی تھی، عہدِ عمر میں وہ جوان تھے، حضرت عمرؓ نے انھیں عورتوں کی امامت پر مامور کر رکھا تھا۔ ابن سعد لکھتے ہیں:
وُلد سلیمان بن أبی حثمۃ علی عہد النبی علیہ السلام، وکان رجلاً علی عہد عمر بن الخطاب، وأمرہ عمر أن یؤم النساء، وقد سمع من عمر۔7
ابن اثیر کے بقول انھیں شرف صحابیت حاصل نہیں ہو سکی، وہ لکھتے ہیں:
سلیمان بن أبی حثمۃ الانصاری، ذکر فی الصحابۃ، ولایصح۔8
’’سلیمان بن ابوحثمہ انصاری کو صحابہ میں ذکر کیا جاتا ہے؛ لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔‘‘
حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
ہاجر صغیراً مع أمہ الشفاء، وکان من فضلاء المسلمین، وصالحیہم، واستعملہ عمر علی السوق، وجمع علیہ و علی أبی بن کعب الناس لیصلیا بہم فی شہر رمضان، وہو معدود فی کبار التابعین۔9
’’انھوں نے اپنی ماں کے ساتھ بچپن میں ہی ہجرت کی، ان کا شمار نیک اور صالح مسلمانوں میں ہوتا تھا، حضرت عمرؓ نے ان کو بازار کا ذمہ دار مقرر کیا تھا، نیز ان کی اور ابی بن کعبؓ کی امامت پر لوگوں کو متفق کر دیا تھا؛ تاکہ وہ دونوں رمضان نماز پڑھائیں، وہ کبار تابعین میں شمار کئے جاتے ہیں‘‘۔
حضرت شفاء کی دوسری شادی ان کے پہلے شوہر کے بھائی مرزوق بن حذیفہ بن غانم بن عامر بن عبد اللہ بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب سے ہوئی تھی، ان سے بھی ایک لڑکا تھا۔ ابن سعد لکھتے ہیں:
وولدت أیضاً لمرزوق بن حذیفۃ بن غانم ابن عامر بن عبداللہ بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب أبا حکیم بن مرزوق، ووکان شریفاً۔10
’’مرزوق بن حذیفہ کا بھی ایک لڑکا ’’ابو حکیم‘‘ ان سے تولد ہوا، جو ایک شریف شخص تھا‘‘۔
ان کی اولاد میں ایک لڑکی کا بھی ذکر ملتا ہے؛ چنانچہ خود انہی سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں:
جئت یوماً حتی دخلت علی النبیﷺ، فسألتہ وشکوت إلیہ، فجعل یعتذر إلی وجعلت ألومہ، قالت: ثم حانت الصلاۃ الاولیٰ فدخلت بیت ابنتی، وہی عند شرحبیل بن حسنۃ، فوجدت زوجہا فی البیت، فجعلت ألومہ، وقلت: حضرت الصلاۃ وأنت ہاہنا؟ فقال: یاعمۃ! لاتلومینی، کان لی ثوبان استعار أحدہما النبیﷺ، فقلت: بأمی وأمی! أنا ألومہ وہذاشأنہ، فقال شرحبیل: إنما کان أحدہما درعاً فرقعناہ۔11
’’ایک دن میں نبی کریم ﷺ کے پاس آئی، ان سے شکایت بھی کی اور مانگا بھی، وہ مجھ سے معذرت کرنے لگے اور میں انھیں الٹا سیدھا کہنے لگی، وہ کہتی ہیں: پھر نماز کا وقت ہوگیا تو میں اپنی بیٹی کے گھر چلی گئی، جو شرحبیل بن حسنہ کے نکاح میں تھی، میں نے اس کے شوہر کو گھر میں پایا تو اسے ملامت کرنے لگی، میں نے کہا: نماز کا وقت ہوگیا ہے اور تم یہیں ہو؟ اس نے کہا: خالہ! ملامت نہ کریں، اصل میں میرے پاس دو کپڑے تھے، ایک کو رسول اللہ ﷺ نے عاریتاً لیا ہے، میں نے کہا: میرے ماں باپ قربان! ان کی حالت تو یہ ہے اور میں انھیں برا بھلا کہہ رہی تھی، شرحبیل نے کہا: ان میں سے ایک ’’درع‘‘ (کنیز کا چھوٹا کرتا) تھا تو ہم نے پیوند لگا دیا‘‘۔
تاہم مؤرخین اور اہل سیر نے یہ صراحت نہیں کی ہے کہ یہ کس شوہر کی بیٹی تھیں؟ البتہ اس روایت سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ یہ صحابیہ تھیں؛ کیوں کہ ان کے شوہر ’’شرحبیل بن حسنۃ‘‘ نہ صرف صحابی تھے؛ بل کہ’’ صاحب ہجرتین‘‘ بھی تھے12 اور جس وقت کا واقعہ ذکر کیا جا رہا ہے، اس وقت یہ شادی شدہ تھیں۔
اسلام و ہجرت
یہ مکہ کی ان خواتین میں سے ہیں، جو ہجرت سے پہلے ہی حلقہ بگوش اسلام ہو گئی تھیں اور جنھوں نے ابتدائی دور میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی، حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں:
أسلمت الشفاء قبل الہجرۃ، فہی من المہاجرات الأول۔13
’’شفاء نے ہجرت سے قبل اسلام قبول کیا تھا، بس وہ اولین ہجرت کرنے والوں میں سے ہیں۔‘‘
ابن سعد لکھتے ہیں:
أسلمت الشفاء قبل الہجرۃ قدیماً، وبایعت النبی ﷺ۔14
’’شفاء نے ہجرت سے پہلے ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا اور نبی کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی‘‘۔
اس تعلق سے محمود طعمہ حلبی لکھتے ہیں:
دخلت الشفاء فی دین الاسلام عن وعی وفہم، وکان إسلامہا قبل ہجرۃ النبیﷺ إلی المدینۃ، وکانت بین النساء اللواتی بایعن النبیﷺ وشملہن قول اللہ تعالیٰ {یا أیہا النبی اذا جاءک المؤمنات یبایعنک علی أن لا یشرکن باللہ شیئا ولا یسرقن ولا یزنین ولا یقتلن أولادہن ولا یأتین ببہتان یفترینہ بین أیدیہن وأرجلہن ولا یعصینک فی معروف فبایعہن واستغفر لہن اللہ إن اللہ غفور رحیم} [الممتحنۃ:۱۲]، وکانت مبایعۃ رسول اللہ ﷺ للنساء دون مصافحۃ؛ لانہ لایصافح النساء، فاذا مدت امرأۃ یدہا لتصافحہ امتنع عن المصافحۃ، وأخبرہا بذلک۔15
’’شفاء پورے شعور و عقل کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئیں، ہجرتِ مدینہ سے قبل انھوں نے اسلام قبول کیا تھا، وہ ان خواتین میں سے تھیں، جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اللہ تعالیٰ کے قول {اے پیغمبر! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ اللہ کے ساتھ نہ تو شرک کریں گی، نہ چوری کریں گی، نہ بدکاری کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی، نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے اللہ سے بخشش مانگو، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے} میں شمولیت اختیار کی تھی، رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے بغیر مصافحہ کے بیعت لی تھی کہ آپﷺ عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے، جب کوئی خاتون مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتی تو آپ رک جاتے اور اسے بتاتے (کہ عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے)‘‘۔
غزوات میں شرکت
عہدِ نبوی میں خواتین آپﷺ کی اجازت سے میدانِ جہاد میں جایا کرتی تھیں، جہاں ان کے ذمہ مجاہدین کو پانی پلانا، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا اور مریضوں کی دیکھ بھال کرنا جیسے امور ہوا کرتے تھے، صلاح عبد الغنی لکھتے ہیں:
ثبت أن النساء کن یخرجن باذن رسول اللہ ﷺ مع الجیش لخدمۃ الرجال، وتمریض الجرحی، والقیام بأعمال الاسعاف، فیقول الإمام الشیخ محمدعبدہ: إن تمریض المرضی ومداواۃ الجرحی کانت تقوم بہ النساء فی عصر النبی ﷺ، وعصر الخلفاء رضی اللہ عنہم، بخروج النساء مع الغزاۃ فی سبیل اللہ، وقد ترجم لہ البخاری بقولہ: باب غزوۃ النساء وقتالہن، وجاء فیہ عن الربیع بنت معوض قالت: کنا نغزو مع رسول اللہ ﷺ: نسقی القوم، ونخدمہم، ونرد القتلیٰ والجرحیٰ إلی المدینۃ…وماکان رسول اللہ ﷺ یقوم بغزوۃ إلا ومعہ نساء۔16
’’یہ بات ثابت شدہ ہے کہ عورتیں نبی کریم ﷺکی اجازت سے مردوں کی خدمت، زخمیوں کی تیمارداری اور ریلیف کے امور انجام دینے کے لئے لشکر کے ساتھ جاتی تھیں؛ چنانچہ شیخ محمد عبدہ لکھتے ہیں: عہدِ نبوی اور عہدِ خلفاء میں مریضوں کی دیکھ بھال اور زخمیوں کا علاج عورتیں کیا کرتی تھیں، جس کے لئے وہ اللہ کے راستے میں غازیوں کے ساتھ نکلتی تھیں، اس سلسلہ میں امام بخاری نے ایک باب: باب غزوۃ النساء وقتالہن کے نام سے قائم کیا ہے، اس میں حضرت ربیع بنت معوذ کی روایت نقل کی گئی ہے، وہ فرماتی ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قوم کی خدمت کرنے، ان کو پانی پلانے اور مقتولین و زخمیوں کو مدینہ منتقل کرنے کی غرض سے جہاد میں جایا کرتی تھیں…رسول اللہ ﷺ کے ہر غزوہ میں خواتین شریک رہیں‘‘۔
حضرت شفاء رضی اللہ عنہا بھی خواتین کی اسی جماعت سے تعلق رکھتی تھیں، جن کے بارے میں آتا ہے کہ وہ مردوں کے شانہ بہ شانہ میدان جہاد میں جایا کرتی تھیں،محمد سمیر نجیب لبدی لکھتے ہیں:
کانت تخرج مع رسول اللہ ﷺ فی غزواتہ، فتداوی الجرحی، وکان یأتیہا الصحابۃ فی بیتہا للتطبیب، وقد اشتہرت برقیۃ النملۃ۔17
’’وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں، صحابہ علم طب کے حصول کے لئے ان کے گھر آیا کرتے تھے، وہ رقیہ نملہ میں شہرت رکھتی تھیں‘‘۔
حضرت شفاء اور علم طب
حضرت شفاءؓ کا شمار عہدِ نبوی کی ان خواتین میں ہوتا ہے، جنھیں علم طب میں مہارت تھی، راجی عباس تکریتی لکھتے ہیں:
ومن النساء اللواتی زاولن مہنۃ الطب (الشفاء بنت عبداللہ) ورفیدۃ التی اشتہرت بالجراحۃ، وکانت تداوی الجرحی من المسلمین۔18
’’علم طب کو بطور پیشہ اختیار کرنے والی خواتین میں شفاء بنت عبداللہ اور رفیدہ ہیں جو جراحی میں مشہور تھیں اور یہ مسلمان زخمیوں کا علاج کرتی تھیں‘‘۔
ان کی شہرت جلدی امراض کے ماہر کے طور پر تھی۔ ڈاکٹر حنان ولید محمد سامرائی اور زینت ابراہیم خلیل لکھتے ہیں:
کانت طبیبۃ مشہورۃ بمداواۃ الأمراض الجلدیۃ فی العصر النبوی۔19
’’عصرِ نبوی میں جلدی امراض کے علاج کی یہ مشہور طبیبہ تھیں‘‘۔ڈاکٹر عبد اللہ عبدالرزاق نے انھیں جلدی ناسور کا اسپیشلسٹ قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
الشفاء بنت عبد اللہ القرشیۃ: الاخصائیۃ فی علاج القرحات الجلدیۃ(النملۃ)۔20
’’جلدی ناسور (نملہ) کے علاج کی اسپیشلسٹ شفاء بنت عبداللہ قریشی‘‘۔
علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ زمانہ جاہلیت میں رقیہ و منتر کے ذریعہ نملہ21 کا علاج کرتی تھیں، پھر جب اسلام لائیں تو انھوں نے اس سلسلہ میں باقاعدہ نبی کریم ﷺ سے اس کی اجازت لی، ابن قیم لکھتے ہیں:
وروی الخلال: أن الشفاء بنت عبداللہ کانت ترقی فی الجاہلیۃ من النملۃ، فلما ہاجرت إلی النبی ﷺ، وکانت قدبایعتہ بمکۃ، قالت: یارسول اللہ! إنی کنت أرقی فی الجاہلیۃ من النملۃ، وإنی أرید أن أعرضہا علیک، فعرضت علیہ، فقالت: بسم اللہ ضلت حتی تعود من أفواہہا، ولاتضر أحداً، اللہم اکشف البأس رب الناس، قال: ترقی بہا علی عود سبع مرات، وتقصد مکانا نظیفاً، وتدلکہ علی حجر بخل خمر حاذق، وتطلبہ علی النملۃ۔22
’’خلال نے روایت کیا ہے کہ: شفاء بنت عبداللہ زمانۂ جاہلیت میں نملہ بیماری کا علاج رقیہ سے کرتی تھیں، یہ مکہ میں ہی حضورﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر چکی تھیں؛ اس لئے جب ہجرت کر کے نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں تو ان سے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں جاہلیت میں نملہ کا علاج رقیہ سے کرتی تھی تو میں چاہتی ہوں وہ آپ کے روبرو پیش کروں، پھر میں نے پیش کیا، جو اس طرح تھا: بسم اللہ ضلت حتی تعود من أفواہہا، ولاتضر أحداً، اللہم اکشف البأس رب الناس، راوی کہتے ہیں کہ وہ ان کلمات کو لکڑی پرسات مرتبہ دم کرتی تھیں، پھر ایک صاف ستھری جگہ جا کر شراب کے سرکہ میں تر پتھر پر اس کو رگڑتی تھیں اور نملہ پر قابو پا لیتی تھیں‘‘۔
احمد خلیل جمعہ نے انھیں ماہر نفسیات (Psyciatry) بھی قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
وستکون رحلتنا مع واحدۃ من الصحابیات ممن برعن فی مجال الطب- وخصوصاً الطب النفسی، وہذہ الصحابیۃ اشتہرت بالاسترقائالشفاء بنت عبد اللہ بن عبد الشمس القرشیۃ العدویۃ۔23
’’ہمارا یہ علمی سفر طب کے میدان، خصوصیت کے ساتھ نفسیات میں مہارت رکھنے والی ایک صحابیہ کے (حالات کے) ساتھ طے ہوگا، جو شفاء بنت عبداللہ بن عبد شمس قریشی عدوی سے مشہور ہیں‘‘۔
وفات
یہ جلیل القدر صحابیہ میدان علم و طب میں خدمت انجام دیتے ہوئے حضور ﷺ کی وفات کے نو سال بعد بالآخر ۲۰ھ میں اِس جہانِ فانی کو خیرباد کہہ کر اُس جہانِ ابدی کی طرف کوچ کر گئیں، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ احمد خلیل جمعہ لکھتے ہیں:
وظلت الشفاء رضی اللہ عنہا تتابع حیاۃ العلم والعمل، والزہد والعبادۃ إلی أن لقیت ربہا فی خلافۃ سیدنا عمر -رضی اللہ عنہ- نحوسنۃ (۲۰ھ) رضی اللہ عنہا۔24
’’شفاء علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے حضرت عمرؓ کی خلافت۲۰ھ میں اپنے رب حقیقی کے پاس چلی گئیں، رضی اللہ عنہا‘‘۔
رضی اللہ عنہا و رحم علی ہذہ الصحابیۃ الجلیلۃ التی یقیل وینام عندہا النبی ﷺ۔
حوالہ جات
- القرطبی، النمری، ابوعمریوسف بن عبداللہ بن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ص: ۹۱۵، نمبرشمار: ۳۳۶۵، صححہ وخرج احادیثہ: عادل مرشد، ناشر: دارالاعلام، اردن، عمان، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۲ء
- جمعۃ، احمد خلیل، نساء من عصر النبوۃ، ص: ۱۵۹، ناشر: دارابن کثیر، دمشق، بیروت، الطبعۃ الثانۃ ۲۰۰۰ء
- السجستانی، سلیمان بن الأشعث، أبوداود، سنن أبی داود، باب ماجاء فی الرقی، حدیث نمبر: ۳۸۸۷،اعتناء بہ: أبوعبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان، ناشر: مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع، الریاض ۱۴۲۴ھ، الجوزیۃ، ابن القیم، محمد بن أبی بکر، أبوعبداللہ، زاد المعاد: ۴؍۱۸۴،تحقیق، تخریج، تعلیق: شعیب الأرنؤوط وعدبالقادر الأرنؤوط، ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ السادسۃ والعشرون ۱۹۹۲ء
- الشحود، علی بن نایف،مشاہیرالنساء المسلمات، ص: ۱۸۸-۱۸۹، Doc
- دیکھئے: العسقلانی، ابن حجر، احمدبن علی الحافظ، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۱۳؍۵۱۷، نمبرشمار: ۱۱۵۱۱، تحقیق: دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، مرکز ہجرللبحوش والدراسات العربیۃ الإسلامیۃ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۸ئ، السعید، مسعود، عبداللہ عبدالرزاق، الدکتور،الطب ورائداتہ المسلمات، ص:۸۰، ناشر: مکتبۃ المنار، الزرقائ، الاردن، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۸۵ء
- العسقلانی، ابن حجر، احمدبن علی الحافظ،الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۱۲؍ ۱۴۷، نمبرشمار: ۹۷۷۶، تحقیق: دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، مرکز ہجرللبحوش والدراسات العربیۃ الإسلامیۃ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۸ئ، الجزری، ابن الأثیر، علی بن محمد أبوالحسن،اسدالغابۃفی معرفۃ الصحابۃ: ۶؍۶۶، نمبرشمار: ۵۸۰۱، تحقیق وتعلیق: الشیخ علی محمد معوض والشیخ عادل احمد عبدالموجود، نادر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان
- الزہری، محمدبن سعد،الطبقات الکبری: ۷؍ ۳۰، نمبرشمار: ۱۴۳۶، تحقیق: دکتورعلی محمدعمر،ناشرمکتبۃ الخانجی، قاہرہ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۱ء
- الجزری، ابن أثیر، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ: ۲؍۵۴۷، نمبرشمار: ۲۲۲۹، تحقیق وتعلیق: الشیخ علی محمد معوض والشیخ عادل احمد عبدالموجود، ناشر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان
- القرطبی، النمری، ابوعمریوسف بن عبداللہ بن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ص: ۲۹۴- ۲۹۵، نمبرشمار: ۹۵۵، صححہ وخرج احادیثہ: عادل مرشد، ناشر: دارالاعلام، اردن، عمان، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۲ء
- الزہری، محمدبن سعد، الطبقات الکبری: ۱۰؍۲۵۴، نمبر شمار: ۵۰۴۳، تحقیق: دکتورعلی محمدعمر،ناشرمکتبۃ الخانجی، قاہرہ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۱ء
- النیسابوری، الحاکم، محمد بن عبداللہ، ابوعبداللہ، المستدرک علی الصحیحین: ۴؍ ۶۴، نمبرشمار: ۶۸۹۲، دراسہ وتحقیق: مصطفی عبدالقادر عطا، ناشر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۲ء
- حبشہ کی دوسری ہجرت میں یہ شریک تھے، دیکھئے:الزہری، محمدبن سعد، الطبقات الکبری: ۲؍۱۱۹، نمبرشمار: ۴۰۶، تحقیق: دکتورعلی محمدعمر،ناشرمکتبۃ الخانجی، قاہرہ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۱ء
- القرطبی، النمری، ابوعمریوسف بن عبداللہ بن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ص: ۹۱۵، نمبرشمار: ۳۳۶۵، صححہ وخرج احادیثہ: عادل مرشد، ناشر: دارالاعلام، اردن، عمان، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۲ئ، العسقلانی، ابن حجر، احمدبن علی الحافظ،الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۱۳؍۵۱۷، نمبرشمار: ۱۱۵۱۱، تحقیق: دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، مرکز ہجرللبحوش والدراسات العربیۃ الإسلامیۃ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۸ء
- الزہری، محمدبن سعد،الطبقات الکبری: ۱۰؍ ۲۵۴، نمبرشمار: ۵۰۴۳، تحقیق: دکتورعلی محمدعمر،ناشرمکتبۃ الخانجی، قاہرہ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۱ء
- حلبی، محمد طعمۃ، المائۃ الأوائل من صحابیات رسول اللہ، ص: ۳۹۶، ناشر: دارالمعرفۃ بیروت، لبنان، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۶ء
- صلاح، عبدالغنی، محمد، الحقوق العامۃ للمرأۃ، ص: ۱۳۲-۱۳۳، ناشر: مکتبۃ الدارالعربیۃ للکتاب، مدینۃ نصر، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۹۸ء
- اللبدی، محمد سمیرنجیب، الدکتور، معانی الأسمائ، ص: ۱۰۵، ناشر: دارالفلاح للنشر والتوزیع ، الأردن، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۹۸ء
- التکریتی، راجی عباس، الحکیم، الاسناد الطبی فی الجیوش العربیۃ الإسلامیۃ، ص: ۵۳، ناشر: وزارۃ الثقافۃ والاعلام، الجمہوریۃ العراقیۃ(مکتبۃ المہتدین الإسلامیۃ) ۱۹۸۴ء
- مجلۃ التطویر العلمی للدراسات والبحوث، المجلد الثالث، العدد: ۱۱(۲۰۲۲)، السامرائی، حنان ولید محمد، وزینۃ إبراہیم خلیل، المرأۃ وتاریخ تطور مہنۃ الطب من العصر الجاہلی وحتی العصر الحدیث، ص: ۵۰-۲۸۳، جامعۃ سامرائ، العراق
- السعید، عبداللہ عبدالرزاق مسعود، الدکتور،الطب ورائداتہ المسلمات، ص:۸۰، ناشر: مکتبۃ المنار، الأردن، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۸۵ء
- نملہ بیماری کے تعلق سے ابن قیم لکھتے ہیں: النملۃ: قروح تخرج فی الجنین، وہوداء معروف، وسمی نملۃ؛ لأن صاحبہ یحس فی مکانہ کأن نملۃ تدب علیہ وتعضہ۔ (زاد المعاد: ۴؍۱۸۴)، شوکت شطی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مرض جلدی من نوع الاکزیماEczema۔(تاریخ العلوم الطبیۃ، ص: ۱۷۴-۱۷۵)
- الجوزیۃ، ابن القیم، محمد بن أبی بکر، أبوعبداللہ،زاد المعاد: ۴؍۱۸۴-۱۸۵،تحقیق، تخریج، تعلیق: شعیب الأرنؤوط وعبدالقادر الأرنؤوط، ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ السادسۃ والعشرون ۱۹۹۲ء ، الشطی، دکتور احمدشوکت، تاریخ العلوم الطبیۃ لطلاب السنۃ التحضیریۃ فی الکلیات الطبیۃ ، ص:۱۷۴-۱۷۵، ناشر: وزارۃ التعلیم العالی الجمہوریۃ العربیۃ السوریۃ ۲۰۱۵-۲۰۱۶ء
- جمعۃ، أحمد خلیل،نساء من عصر النبوۃ، ص: ۱۵۸-۱۵۹، ناشر: دارابن کثیر، دمشق، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۰ء
- جمعۃ، أحمد خلیل، نساء من عصر النبوۃ، ص: ۱۶۳، ناشر: دارابن کثیر، دمشق، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۰ئ، کحالۃ، عمر رضا، الدکتور، أعلام النساء فی عالمی العرب والإسلام: ۲؍۳۰۱، ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ الخامسۃ ۱۹۸۴ء