دور حاضر میں وہ مذاہب جن میں خدا کے وجود کا اقرار کیا جاتا ہے، ان سب کیلیے ایک بڑا چیلنج جدید سائنس کو مانا جاتا ہے۔ یہ چیلنج بذات خود سائنس نہیں بلکہ سائنسی تعلیم کی وجہ سے منکر خدا ہونا ہے جسے الحاد یا Atheism کہا جاتا ہے۔ سائنسی علم کی اگر تعریف لکھی جائے تو ایسا علم جس میں تجربے اور مشاہدے کے بعد عقل کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا جائے، اس کو سائنس کہتے ہیں۔ اگر عقل کی بنیاد پر مبنی علم الحاد کی طرف لے جاتا ہے تو کیا مذہب ایک غیر عقلی اور گھڑی ہوئی چیز ہے؟ یہ سوال مذہب اور سائنس کے مابین جھگڑے کی بنیاد ہے جو آج بھی جاری ہے۔ اس کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے اس سوال کے دو اہم پہلو سمجھنا ضروری ہیں۔
۱۔ مذہب غیر ضروری ہے
’’کیا صحیح اس لیے صحیح ہے کیونکہ خدا نے اس کو صحیح کہا ہے، یا خدا نے اس کو صحیح کہا ہے کیونکہ وہ صحیح ہے؟‘‘ مشہور یونانی فلسفہ نگار افلاطون نے اپنے استاد سقراط کا یہ جملہ ایک جگہ نقل کیا جو اس نظریے کی بنیاد بنی۔ اس نظریے کو پروان چڑھانے میں از خود مذہب (عیسائیت) کا بہت کردار ہے۔ سوال اٹھایا گیا کہ خدائی قانون کی بجائے اگر صرف عقل کی بنیاد پر صحیح اور غلط کے درمیان افتراق کیا جائے، تو کیا تب بھی انسانی معاشرہ برقرار رہے گا یا نہیں؟ یہ سوال اٹھانے کی وجہ کیتھولک چرچ اور ان کے مذہب کے نام پر مظالم تھے۔ کسی بھی شخص نے اگر پوپ یا کتاب مقدس کے خلاف ثبوت تو دور کی بات، صرف بات ہی کر دی تو اس کو زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ اٹلی کے سائنسدان جیورڈانو برونو نے سولہویں صدی میں دریافت کیا کہ کائنات لا محدود ہے اور ہمارے نظام شمسی کے علاوہ بھی بہت سے نظام شمسی کائنات میں موجود ہیں۔ چرچ نے اس کو سات سال کی قید کے بعد زندہ جلا دیا۔ ایک دور میں چرچ کا دعوی تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور سورج سمیت پوری کائنات زمین کے گرد گھومتی ہے۔ مشہور سائنسدان گلیلیو نے تجربے کے بعد دعوی کیا کہ دراصل زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس اختلاف پر چرچ شاید گلیلیو کو بھی جلا دیتا، مگر وہ وقت کے مشہور ترین سائنسدانوں میں سے تھا تو اس کو نظر بند کر دیا گیا اور اسی حالت میں اس کی وفات ہوئی۔ اسی نظریہ نے بڑھ کر اٹھارہویں صدی میں ایک اور شکل اختیار کر لی۔ ’’جو مجھے درست لگتا ہے وہ درست ہے، اور جو غلط لگتا ہے وہ غلط ہے‘‘ یعنی جس بات کو عقل صحیح مانتی ہے وہ صحیح ہے ، اس میں خدا یا کسی اور کا کوئی دخل نہیں۔ فلسفہ نگار جان جاکس روسو کے اس نظریے نے لبرل ازم کی بنیاد رکھی جس میں مذہب کے مقابلے میں عقل کو سامنے لایا گیا۔ اسی صدی میں انقلاب فرانس میں مذہب کی اجارہ داری ختم ہوئی اور لبرل ازم کی حکمرانی شروع ہو گئی۔
۲۔ علم کا معتبر ذریعہ صرف عقل ہے
لبرل ازم نے جب فروغ پانا شروع کیا تو چونکہ یہ نظام عقل پر مبنی تھا، اس لیے ہر وہ علم جس کی بنیاد عقل نہیں ہے، اس کونا قابل اعتبار سمجھا جانے لگا۔ یہ بات طے ہو گئی کہ جس چیز کو تجربے اور مشاہدے سے ثابت نہیں کیا جا سکتا، وہ ہے ہی نہیں۔ چونکہ روح کو تجربے سے ثابت نہیں کر سکتے، اس کا انکار کر دیا گیا۔ پھر روح کے ذریعے سے حاصل ہونے والا علم ( وحی) کا انکار کیا گیا۔ چونکہ صحیح اور غلط میں افتراق اب عقل کا کام تھا، اس لیے خدائی قانون بھی ختم کر دیے گئے۔ جب خدائی قانون بھی ختم ہوگئے، خدائی علم بھی ختم ہوگیا، خدائی تخلیق بھی ختم ہوگئی، تو نظام میں خدا کا تصور کیسے باقی رہتا؟
ان دو پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جدید سائنس از خود الحاد کا راستہ نہیں بلکہ اس کو لبرل لوگوں نے ہائیجیک کر کے مذہب سے چھٹکارا پانے کیلیے استعمال کیا ہے۔ جدید سائنس کی بنیاد ہی ایسی باتوں پر رکھی گئی جن میں خدا کا تصور ہی نہ ہو۔ مثلاً کائنات کی شروعات کو بگ بینگ کا نام دیا جس کے مطابق ساری کائنات پہلے ایک جگہ اکٹھی تھی۔ پھر کسی وجہ سے یہ پھٹ کر پھیلنے لگی اور مسلسل پھیلتی چلی گئی اور اس میں زندگی اپنے آپ ہی پیدا ہو گئی۔ سائنس نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی مادہ اور توانائی تخلیق نہیں کی جا سکتی، بلکہ وہ صرف شکل بدلتی ہیں۔ لکڑی جلانے سے لکڑی ختم نہیں ہوتی بلکہ راکھ اور گرمائش میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مگر جدید سائنس اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ اگر کسی چیز کی تخلیق نہیں کی جا سکتی، تو بگ بینگ کے وقت جو کائنات کا مادہ موجود تھا، وہ کہاں سے آیا؟ سائنس یہ تو بتا دے گی کہ آگ جلانے سے گرمائش پیدا ہوتی ہے، مگر یہ نہیں بتا سکتی کہ گرمائش ہی کیوں پیدا ہوگی؟ کس نے یہ اصول طے کیا ہے کہ آگ جلنے سے گرمائش ہی ہو گی؟ کیونکہ اگر اس بات کا جواب تلاش کیا جائے تو سوائے اس جواب کے کہ کائنات اور کائنات کے اصولوں کو بنانے والی کوئی ذات موجود ہے، کوئی اور جواب نہ مل پائے گا۔