قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات

محمد عمار خان ناصر

اسلام میں جذبہ عبودیت کے اظہار کے لیے جو مخصوص طریقے اور مراسم مقرر کیے گئے ہیں، ان میں جانوروں کی قربانی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے دور جدید میں پائے جانے والی ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ قربانی صدقہ اور انفاق کی ایک صورت ہے اور جانور قربان کرنے کے بجائے اگر اس رقم کو اہل احتیاج کی عمومی ضروریات پر صرف کیا جائے تو یہ رقم کا بہتر مصرف ہے۔

تاہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی، صدقہ وانفاق کی ذیلی صورت نہیں، بلکہ ایک مستقل اور بذات خود مطلوب رسم عبادت ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر کے جس جذبہ اطاعت کا اظہار کیا تھا، قربانی اسی کی یادگار اور اس جذبے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ قربانی کے گوشت سے فقرا اور محتاجوں کی امداد، اس کا ایک ضمنی اور اضافی پہلو ہے، ورنہ پہلی شریعتوں میں قربانی کی ایک بڑی قسم ”سوختنی قربانی“ ہوتی تھی جس میں جانور کو ذبح کر کے گوشت کو جلا دیا جاتا تھا اور اسے کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس امت پر اللہ نے خاص عنایت کرتے ہوئے قربانی کا گوشت بھی کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ اس عمل میں اصل چیز جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے، جبکہ محتاجوں کی مدد اور اعانت ایک زائد پہلو ہے۔ اس وجہ سے ان مخصوص دنوں میں تقرب الٰہی کے لیے جانور ہی ذبح کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ یہ رقم بطور صدقہ فقرا پر صرف کرنے سے شریعت کا منشا پورا نہیں ہوگا۔

قربانی سے متعلق دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ شریعت میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی ، فقہی طور پر کیا درجہ رکھتی ہے؟ کیا اس کا درجہ، وجوب کا ہے اور کیا یہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو ایک مخصوص مالی نصاب کا مالک ہو؟ اس ضمن میں امت کے اہل علم کے مواقف مختلف ہیں۔ جمہور صحابہ وتابعین اور جمہور فقہائے امت کی رائے یہ ہے کہ قربانی ایک مسنون اور مستحب عمل ہے، یعنی واجب نہیں ہے۔ یہ قول صحابہ میں سے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عقبة بن عمرو، ابو مسعود انصاری، شعبی اور بلال رضی اللہ عنہم سے جبکہ تابعین میں سے علقمہ، عطا اور سعید بن المسیب وغیرہ سے منقول ہے (جصاص، احکام القرآن، ۳/۲۴۸۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۳۴، تا ۸۱۵۶) اور ان میں سے ابو مسعود، عقبہ بن عمرو، اور علقمہ اس امر کی باقاعدہ تصریح کرتے ہیں کہ ان کے قربانی نہ کرنے کا باعث یہ ہے کہ لوگ کہیں اس کو واجب نہ سمجھ لیں۔

اس کے برعکس امام ابوحنیفہ اور ان کی اتباع میں جمہور فقہائے احناف نے استطاعت ہونے کی صورت میں ہر بالغ مسلمان مرد وعورت پر قربانی کو واجب قرار دیا ہے۔ امام قرطبی نے اس ضمن میں مجتہدین کے اختلاف کو یوں بیان کیا ہے کہ

إن الضحية ليست بواجبة ولكنها سنّة ومعروف. وقال عكرمة: كان ٱبن عباس يبعثني يوم الأضحى بدرهمين أشتري له لحماً، ويقول: من لقيتَ فقل هذه أضحية ٱبن عباس. قال أبو عمر: ومحمل هذا وما روي عن أبي بكر وعمر أنهما لا يضحيان عند أهل العلم؛ لئلا يعتقد في المواظبة عليها أنها واجبة فرض، وكانوا أئمة يقتدي بهم من بعدهم ممن ينظر في دينه إليهم؛ لأنهم الواسطة بين النبي صلى الله عليه وسلم وبين أمته، فساغ لهم من الاجتهاد في ذلك ما لا يسوغ اليوم لغيرهم. وقد حكى الطحاوي في مختصره: وقال أبو حنيفة: الأضحية واجبة على المقيمين الواجدين من أهل الأمصار، ولا تجب على المسافر. قال: ويجب على الرجل من الأضحية على ولده الصغير مثل الذي يجب عليه عن نفسه. وخالفه أبو يوسف ومحمد فقالا: ليست بواجبة ولكنها سنة غير مرخص لمن وجد السبيل إليها في تركها. قال: وبه نأخذ. قال أبو عمر: وهذا قول مالك؛ قال: لا ينبغي لأحد تركها مسافراً كان أو مقيماً، فإن تركها فبئس ما صنع إلا أن يكون له عذر إلا الحاج بمنىً. وقال الإمام الشافعي: هي سنة على جميع الناس وعلى الحاج بمنىً وليست بواجبة. (تفسیر القرطبی، تفسیر سورۃ الصافات، آیت ۱۰۴)

یعنی ایک قول یہ ہے کہ قربانی واجب نہیں، بلکہ سنت ہے۔ چنانچہ ابن عباس عید کے دن عکرمہ سے کہتے تھے کہ دو درہم کا گوشت خرید کر لاو اور جو لوگ ملیں، ان سے کہو کہ یہ ابن عباس کی قربانی ہے۔ اسی طرح ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی قربانی نہیں کرتے تھے جس کا محمل اہل علم کے نزدیک یہی ہے کہ ان حضرات کے پابندی سے قربانی کرنے سے کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ واجب ہے۔دوسرا قول امام ابوحنیفہ کا ہے جو اسے واجب کہتے ہیں، جبکہ امام ابو یوسف اور محمد کے نزدیک اس کا درجہ واجب سے کسی قدر کم یعنی سنت موکدہ ہے جسے ترک کرنا درست نہیں۔ یہی امام مالک کا قول ہے۔امام شافعی قربانی کو صرف سنت قرار دیتے ہیں، واجب نہیں سمجھتے۔

قربانی کے حوالے سے جمہور اہل علم اور احناف کے مابین اختلاف کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آیا قربانی ہر شخص پر انفرادی طور پر واجب ہے یا ایک گھرانے میں ایک قربانی کا اہتمام بھی اس مقصد سے کافی ہے؟ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھرانے کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کو کافی قرار دیا۔ چنانچہ مخنف بن سلیم روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر اپنے خطبہ عرفہ میں فرمایا:

علی کل اھل بیت فی کل عام اضحیة وعتیرة (ترمذی، ۱۴۳۸)

”ہر گھر کے رہنے والوں پر ہر سال ایک جانور کی قربانی اور ایک عتیرہ لازم ہے۔“

صحابہ اور تابعین کے ہاں بھی اسی تصور کے شواہد ملتے ہیں۔ حذیفہ بن اسید فرماتے ہیں کہ میں تو سنت کو جانتا ہوں، لیکن میرے گھر والوں نے مجھے مشقت میں ڈال دیا ہے۔ پہلے ہر گھر والے مجموعی طور پر ایک یا دو بکریوں کی قربانی کو کافی سمجھا کرتے تھے، لیکن اب (اگر ہم ہر فردکی طرف سے الگ قربانی نہ کریں تو) ہمارے پڑوسی ہمیں کنجوس ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ (ابن ماجہ، ۳۱۳۹) سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ ہمارے علم میں قربانی کا تصور یہی تھا کہ ایک گھر کی طرف سے ایک قربانی کافی ہوتی ہے، یہاں تک کہ اہل عراق نے ہر شخص کی طرف سے علیحدہ قربانی کو ضروری قرار دیا۔ (مصنف عبد الرزاق، ۸۱۵۴)

اس حوالے سے تیسرا اہم فقہی اختلاف یہ ہے کہ آیا قربانی کے جانور کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کرنا بہتر ہے یا اس رقم کو فقرا اور ضرورت مندوں پر صدقہ کر دینا۔ امام قرطبی نے اس ضمن میں فقہاء کے اختلاف کو یوں واضح کیا ہے۔

واختلفوا أيهما أفضل: الأضحية أو الصدقة بثمنها. فقال مالك وأصحابه: الضحية أفضل إلا بمنىً؛ لأنه ليس موضع الأضحية؛ حكاه أبو عمر. وقال ابن المنذر: روينا عن بلال أنه قال: ما أبالي ألا أضحي إلا بديك ولأن أضعه في يتيم قد تَرِب فيه ـ هكذا قال المحدث ـ أحب إليّ من أن أضحي به. وهذا قول الشعبي إن الصدقة أفضل. وبه قال مالك وأبو ثور. وفيه قول ثانٍ: إن الضحية أفضل؛ هذا قول ربيعة وأبي الزناد. وبه قال أصحاب الرأي. زاد أبو عمر وأحمد بن حنبل قالوا: الضحية أفضل من الصدقة؛ لأن الضحية سنة مؤكدة كصلاة العيد. ومعلوم أن صلاة العيد أفضل من سائر النوافل. وكذلك صلوات السنن أفضل من التطوّع كله. (تفسیر القرطبی، تفسیر سورۃ الصافات، آیت ۱۰۴)

یعنی قربانی کرنے یا قیمت کا صدقہ کرنے کی افضلیت کے متعلق امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد کا موقف یہ ہے کہ قربانی کرنا رقم کا صدقہ کرنے سے افضل ہے، کیونکہ قربانی کرنا عید کی نماز طرح سنت موکدہ ہے جبکہ صدقہ کرنا نفل عبادت ہے، اور معلوم ہے کہ عید کی نماز، باقی نوافل کے مقابلے میں افضل ہے۔

یہ قول سیدنا بلال، امام شعبی، امام مالک اور امام ابو ثور سے بھی منقول ہے کہ انھوں نے صدقہ کرنے کو افضل قرار دیا۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ

ما ابالی لو ضحیت بدیک ولان اتصدق بثمنھا علی یتیم او مغبر احب الی من ان اضحی بھا (مصنف عبد الرزاق، ۸۱۵۶)

”مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں ایک مرغ کی ہی قربانی کروں۔ قربانی کے جانور کی قیمت کو کسی یتیم یا پراگندہ حال مسکین پر صدقہ کرنا مجھے قربانی کرنے سے زیادہ پسند ہے۔“

قربانی سے متعلق فقہی اختلاف کا ایک اور اہم پہلو فقہ حنفی کے دائرے میں ہے۔ حنفی فقہاء نے عموماً‌ قربانی کے وجوب کا موقف اختیار کیا ہے اور اس کا مدار نصاب زکوٰۃ کو قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس قربانی کے دنوں میں زکوٰۃ کے نصاب کے بقدر رقم یا سونا چاندی وغیرہ موجود ہو، اس پر قربانی واجب ہے۔ نصاب زکوٰۃ میں حنفی اہل فتویٰ عموماً‌ چاندی کی قیمت کا اعتبار کرتے ہیں جس کی رو سے بہت معمولی رقم کا مالک ہونے پر بھی آدمی پر قربانی واجب ہو جاتی ہے۔ یہ پیچیدگی اہل افتاء کے مابین کافی عرصے سے زیربحث ہے اور ۲۹ جولائی ۲۰۲۰ء کو دار العلوم کے دار الإفتاء کی طرف سے جاری کیے گئے ایک فتوے میں اس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ

’’اگر کوئی تنگدست شخص چاندی کے نصاب کے بقدر کرنسی یا مال تجارت کا مالک ہونے کے باوجود قربانی کی وسعت نہ رکھتا ہو اور اس کے اثاثوں کی مالیت نصاب ذہب کو بھی نہ پہنچتی ہو اور قربانی کا جانور خریدنے یا بڑے جانور میں حصہ لینے کی صورت میں اسے ناقابل برداشت حرج پیش آنے کا شدید اندیشہ ہو اور وہ اس بنا پر قربانی نہ کرے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ معذور سمجھا جائے گا۔“

اس فتوے کی رو سے قربانی کے وجوب کے لیے چاندی کے بجائے سونے کے نصاب کا اعتبار کیا جا سکتا ہے اور مالی وسعت نہ رکھنے والے اگر تنگ دستی کی وجہ سے قربانی نہ کرنا چاہیں تو وہ اس میں معذور شمار ہوں گے۔ ہماری رائے میں اس رائے پر بھی مزید غور کی ضرورت ہے اور قربانی کو نصاب زکوٰۃ سے متعلق کرنے کے بجائے احادیث کے متبادر مفہوم کی روشنی میں قربانی کے ایام میں مالی گنجائش اور وسعت سے متعلق قرار دینا چاہیے۔

اہل علم کے مذکورہ اقوال اور آرا کے پس منظر میں شرعی وفقہی دلائل کو مجموعی طور پر پیش نظر رکھتے ہوئے حسب ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

  1. ذی الحجہ کے مخصوص دنوں میں تقرب الٰہی کے لیے جانور ذبح کرنا ایک شرعی شعار کا درجہ رکھتا ہے۔ اسلام کی ایک بڑی عبادت اور شعائر اسلام میں سے ایک شعار ہونے کی حیثیت سے قربانی کے عمل کو اجتماعی طور پر زندہ رکھنا ضروری ہے اور ہر شہر اور علاقے میں لوگوں کو قربانی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
  2. اس عبادت کو انفرادی حیثیت میں صاحب استطاعت لوگوں پر واجب قرار دینے کے بجائے اسے واجب علی الکفایہ کہنا زیادہ درست ہوگا اور اگر ہر علاقے میں صاحب استطاعت گھرانے اس کا اہتمام کریں جس سے بطور ایک شعار کے قربانی کو زندہ رکھنے کا مقصد پورا ہو جائے تو شریعت کی منشا یقیناً‌ پوری ہو جائے گی۔
  3. قربانی کا تعلق کسی مخصوص مالی نصاب سے نہیں ہے کہ جس کے پاس بھی خاص مقدار میں سونا یا چاندی پڑا ہو، اس کو قربانی دینی چاہیے۔ اس کا تعلق استطاعت سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے دنوں میں اگر کسی کے پاس معمول کی ضروریات سے زائد اتنی رقم موجود ہو کہ وہ قربانی کا جانور خرید سکے تو اس کو قربانی کرنی چاہیے۔
  4. قربانی اور عمومی صدقہ وخیرات دونوں نیک اور مطلوب اعمال ہیں، اس لیے معاشرے کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آدمی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ ان دنوں میں قربانی کی رسم کی ادائیگی کو ترجیح دے یا صدقہ وخیرات کرنے کو۔ اگر اپنی مالی حیثیت کے لحاظ سے آدمی دونوں کا تحمل کر سکتا ہو تو یہ بہت بہتر ہے، لیکن اگر ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ماحول کی ضروریات کے لحاظ سے جانور قربان کرنے یا اتنی رقم ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم۔

دین و حکمت

(جون ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter