اس سوال کا ایک جواب تو ساحر لدھیانوی کی مشہور نظم سے ملتا ہے جس میں طوائف کلچر کے تناظر میں ثنا خوانان تقدیس مشرق سے کافی چبھتے ہوئے سوال پوچھے گئے ہیں۔ یہ تنقید ایک خاص پہلو سے معاشرت میں پائے جانے والے تضاد اور منافقت کی نشان دہی کرتی ہے۔ تقدیس کی جگہ آزادی کو قدر قرار دینے والا جدید لبرل بیانیہ اس سے آگے بڑھ کر اس مفروضے پر ہی سوال اٹھا دیتا ہے کہ مشرقی معاشرت واقعتاً عورت کو تکریم دیتی ہے۔ اس بیانیے کی رو سے مشرقی معاشرت اصلا عورت پر جبر اور استحصال کی عکاس ہے جس کو جواز دینے کے لیے عزت اور تکریم کے تصورات کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ تکریم کا اصل معیار انفرادی خود مختاری اور آزادی ہے جس کی عملی صورت مغربی معاشرت میں ہم دیکھتے ہیں۔ گویا اس نقطہ نظر کے مطابق یہ سوال کسی نئی وضاحت کا متقاضی ہی نہیں کہ عورت کو آج عدم تحفظ کی صورت حال سے کیوں واسطہ ہے۔ عورت کا جو مقام مشرقی معاشرت میں مانا گیا ہے، یہ اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے اور تہذیبی قدروں میں ایک پیراڈائم شفٹ کو قبول کیے بغیر اس صورت حال سے نہیں نکلا جا سکتا۔
سوال کا دوسرا جواب اس نقطہ نظر میں سامنے آتا ہے جو اس صورت حال کی بنیادی ذمہ داری صنفی اظہارات کو فروغ دینے اور اس بے حجابی کو آزادی کا ایک پیمانہ قرار دینے والے جدید تصور معاشرت پر عائد کرتا ہے۔ اس موقف کی رو سے عورت کی تکریم حیا اور ستر وحجاب کے تصورات کے ساتھ وابستہ ہے۔ جدید معاشرت ان قدروں کی پامالی کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے نوجوان نسل کو گمراہ کر رہی ہے جس کی بدولت عورت کو تلذذ اور جنسی لطف اندوزی کی نظر سے دیکھنے کی نفسیات غالب ہوتی جا رہی ہے۔ خواتین کو درپیش عدم تحفظ کی صورت حال اسی کا براہ راست نتیجہ ہے۔
کیا ان دونوں جوابات میں سے کوئی ایک کلی طور پر درست اور دوسرا کلی طور پر غلط ہے؟ یا دونوں میں جزوی صداقتیں موجود ہیں جن کو تسلیم کرنے سے صورت حال کی بہتر تفہیم سامنے لائی جا سکتی ہے؟
اہل دانش کی کافی بڑی تعداد کا رجحان اسی طرف معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ دیکھتے ہیں کہ روایتی مشرقی معاشرت میں عورت کی تکریم ایک قدر کے طور پر موجود ہوتے ہوئے عورت کی سماجی آزادی اور اختیار کے جو حدود طے کیے گئے ہیں، وہ متوازن نہیں ہیں اور جبر اور استحصال کی بہت سی صورتوں کو متضمن ہیں۔ ان اہل دانش کے تجزیے کی رو سے، دور جدید کی متعارف کردہ سماجی تبدیلیوں سے عورتوں کے لیے سماجی کردار کے مواقع اور آزادیاں بڑھی ہیں اور روایتی طور پر خواتین کا میل جول اپنے خاندان کے افراد تک محدود ہونے کا رواج متاثر ہوا ہے جسے ہماری مجموعی پدرسرانہ نفسیات قبول نہیں کر رہی۔ یوں گھر کے ماحول سے باہر متحرک ایسی خواتین کے لیے جنھیں عہدے یا منصب وغیرہ کا تحفظ حاصل نہ ہو، تکریم کا زاویہ نظر مفقود ہے جس کا نتیجہ عمومی عدم تحفظ کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
یہ موجودہ صورت حال کے تجزیے کے تین بنیادی زاویے ہیں اور تینوں کا استدلال کافی حد تک واضح ہے۔ ان تینوں تجزیوں میں ایک خاص طرز معاشرت کی وکالت بھی موجود ہے۔ چنانچہ پہلے نقطہ نظر کے مطابق خواتین کو اپنے اسی دائرہ کار تک محدود رہنا چاہیے جو روایتی معاشرت میں قرار دیا گیا ہے اور جس کو مذہبی تشریحات کی تائید بھی حاصل ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کی مجوزہ معاشرت وہی ہے جو مغربی انفرادیت پسندی کے معیارات پر پوری اترتی ہو۔ اور تیسرے نقطہ نظر میں مشرقی معاشروں کے لیے متوازن طرز معاشرت وہ ہے جس میں تکریم وتقدیس اور خاندانی تحفظ کی روایتی قدروں کے ساتھ ساتھ خواتین کے متحرک سماجی کردار کو بھی پوری اہمیت دی جائے اور گھر سے باہر کے ماحول میں بھی ان کے لیے تکریم واحترام کے رویے اور مکمل تحفظ کو نئی معاشرتی تشکیل کا حصہ بنایا جائے۔
یہ تینوں زاویے، ایک بڑے فکری اور تہذیبی اختلاف کے مظاہر ہیں جن کا تصفیہ یا محاکمہ یہاں مقصود نہیں۔ تاہم ہمارے نقطہ نظر سے ایک خاص پہلو پر جو موجودہ حالات میں بہت بنیادی اور اہم پہلو ہے، ان تینوں کے مابین مفید اور تعمیری مکالمے کی گنجائش بلکہ ضرورت موجود ہے۔ یہ پہلو خواتین کو درپیش عدم تحفظ کی صورت حال ہے جس کی اہمیت یا نزاکت سے کوئی بھی فریق انکار نہیں کر سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر ایسے معاشرے کی تشکیل ایک مسلمہ مقصد ہے جس میں خواتین محفوظ ہوں تو کیا مذکورہ مختلف الخیال طبقے اس کی ناگزیر ضروريات اور درکار اقدامات پر باہم اتفاق کر سکتے ہیں؟
ہمارے نزدیک اس بحث میں دونوں فریق کچھ اہم پہلووں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
مثلاً لبرل نقطہ نظر اس چیز کو عموماً پیش نظر نہیں رکھتا کہ عورت کو عدم تحفظ کی صورت حال کا سامنا اپنی خلقی اور حیاتیاتی خصوصیات کی وجہ سے ہوتا ہے اور آج سے نہیں، ہمیشہ سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں، عورت کا غیر محفوظ یا مردانہ جارحیت کا ہدف ہونا ایک فطری صورت حال ہے، انسانی معاشروں کی پیدا کردہ نہیں۔ انسانی معاشروں کی تگ ودو تو اس state of nature کو اپنی نوعی وسماجی ضروریات کے تحت بدلنے اور اخلاقی ضابطوں کے تحت لانے کی رہی ہے۔ جدیدیت کے علمی ڈسکورسز کے زیر اثر آج ہمارے لیے ماقبل جدید معاشروں پر مختلف قسم کے تاریخی اور اخلاقی حکم لگانا آسان ہے، لیکن اس سے یہ حقیقت بدل نہیں جاتی کہ تمدنی ارتقا کی مختلف سطحوں پر تمام انسانی معاشرے عورت کے، جارحیت یا objectification کا ہدف بننے کے امکانات کو محدود کرنے اور اسے کسی نہ کسی انداز میں تحفظ دینے کی سعی کرتے رہے ہیں۔ آج انفرادی آزادی کے مواقع پیدا ہو جانے کے تناظر میں عورت کو فراہم کیے گئے یہ تحفظات ہمیں جبر دکھائی دیتے ہیں ، لیکن ہم یہ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ "جبر" ایک دوسری قسم کے عدم تحفظ اور استحصال کے سدباب کے لیے روایتی معاشروں نے اجتماعی ضرورتوں کے تحت اختیار کیا تھا۔
روایتی معاشرت میں ایسی تبدیلیاں جن سے انفرادی آزادیوں کی بہت زیادہ گنجائش پیدا ہو جاتی ہے، بنیادی طور پر مغربی معاشروں کا تاریخی تجربہ ہے جس کے ساتھ وابستہ نتائج اور مسائل سے نمٹنے کے لیے نئے سماجی میکنزم بنانے کا موقع بھی اہل مغرب کو میسر رہا ہے۔ ان میں اہم ترین میکنزم جدید ریاست کا نظام ہے جس کی نئے خطوط پر تشکیل اس دور کے بالکل آغاز میں شروع ہو چکی تھی جسے اب ہم جدید دور کہتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روایتی معاشرت کے سٹرکچرز ٹوٹنے سے پہلے مغربی معاشرے ریاست کی صورت میں تنظیم معاشرت کا ایسا میکنزم وجود میں لا چکے تھے جس نے انارکی یا لاقانونیت کے لیے جگہ خالی نہیں چھوڑی، بلکہ نئے اسٹرکچرز کو کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مشرقی معاشروں کی صورت حال اس سے مختلف رہی ہے۔ یہاں ماڈرنائزیشن کا عمل اصلاً مغربی اثرات کے تحت شروع ہوا ہے اور اپنی ساخت میں مقامی معاشرت کے لیے اجنبی ہونے کی وجہ سے ابھی تک کسی ٹھکانے پر نہیں پہنچا۔ اس پر مزید پیچیدگی ان اقداری تبدیلیوں نے پیدا کر دی ہے جن کو ہم جدیدیت کا عمومی عنوان دیتے ہیں۔ خواتین کو ملنے والی آزادیوں اور مواقع کے ساتھ ایک طرف تہذیبی اضطراب اور دوسری طرف عدم تحفظ کے مسئلے کا پیدا ہو جانا اسی صورت حال کا ایک جزو ہے۔ یعنی مجموعی معاشرتی نفسیات اس تبدیلی کے ساتھ معاملہ کرنے کا کوئی مسلمہ اخلاقی فریم ورک نہیں رکھتی اور ریاست، اپنی ادھوری اور ناتمام تشکیل کی وجہ سے اس پراسیس کو مطلوبہ رخ دینے اور ضروری عملی اقدامات کی صلاحیت سے محروم ہے۔
روایتی مذہبی موقف اس بحث میں اس بات کی اہمیت کو عموماً نظرانداز کر دیتا ہے کہ مذہبی اخلاقیات اور قانون میں مرد وعورت کے حقوق وفرائض کے حوالے سے ’’عدل “ کا جو فریم ورک دیا گیا ہے، اس کا تصور کی سطح پر موجود ہونا کافی نہیں۔ اس کے رو بہ عمل ہونے کے لیے خاص معاشرتی حالات اور شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ ان میں سے اہم ترین شرط یہ ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق اور مسائل پر بات کرنے کی آزادی اور داد رسی کے ذرائع تک رسائی حاصل ہو۔ قرآن اور حدیث اور آثار صحابہ سے مثالیں اور شواہد بیان کرتے ہوئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اس ماحول میں اس بنیادی شرط کے پائے جانے کی وجہ سے ہی یہ ممکن تھا کہ شریعت کا بیان کردہ ’’عدل “ عملاً تحقق پذیر ہو۔ مثلاً
- جس عورت کا نکاح اس کا سرپرست زبردستی کر دیتا ہے، وہ سیدھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پہنچ جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کو نقل وحرکت اور گھر سے باہر نکلنے کی آزادی میسر ہے اور اس میں وہ گھر کے مردوں یا سرپرست کے رحم وکرم پر نہیں ہے۔
- جس عورت کو اپنے شوہر سے (مبینہ طور پر) یہ شکایت ہے کہ وہ جنسی آسودگی مہیا کرنے کا اہل نہیں، وہ بھری مجلس میں آپ کے پاس پہنچ جاتی ہے اور تقریباً برہنہ الفاظ میں اپنی شکایت بیان کر دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنسی امور پر گفتگو کوئی بے حیائی کی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے عورت کو شرم وحیا کا طعنہ دے کر خاموش کروا دیا جائے۔
- جس عورت کو اپنے شوہر کی شکل وصورت پسند نہیں، وہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر صاف صاف بتا سکتی ہے کہ مجھے شوہر سے اور کوئی شکایت نہیں، لیکن اس کی شکل وصورت کی وجہ سے میں اس کے ساتھ رہنے سے خود میں شکرگزاری کی کیفیت محسوس نہیں کرتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی حس جمال اہمیت اور احترام کی حق دار ہے اور ظاہری ومادی سہولیات کے ساتھ ساتھ اس کی نفسیاتی وجذباتی تسکین بھی رشتہ نکاح میں اہم ہے۔
پس خواتین کےساتھ عدل وانصاف کے حوالے سے اسلامی معاشرت کے امتیاز کو واضح کرنے کے لیے صرف اصولی تعلیمات کا حوالہ دینا کافی نہیں، اس کو یقینی بنانا زیادہ ضروری ہے کہ ان معاشرتی أصول واقدار کے مطابق خواتین کو عملاً بھی سماجی آزادیاں اور حقوق دستیاب ہوں۔