فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثر و نفوذ

ڈاکٹر سید متین احمد شاہ

مغربی دنیا اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے احوال کے نئے مطالعات کے دور سے گزر ر ہی ہے۔ مغرب کی یہ فکری تحریک، جسے عرفِ عام میں استشراق (Orientalism) سے تعبیر کیا جاتا ہے، اپنا تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی سے پندرھویں صدی عیسوی تک کا پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں اسلام اور مغرب کا تعلق سیاسی اور حربی نوعیت کا ہے۔یہ عہد اسلام کے غلبے کا عہد ہے جس میں اسلام نے دنیا میں اپنی تہذیب کے جھنڈے گاڑے اور اسلامی علوم وافکار نے اس دور میں زندگیوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔

دوسرا مرحلہ یورپ کی نشاتِ ثانیہ کا ہے جس میں تاریخ اپنا نیا سفر شروع کرتی ہے۔اس دور کے ظہور میں اساسی کردار میراثِ مشرق کا مغربی زبانوں میں ترجمے کا ہے جس کا اثر مغربی مفکرین نے قبول کیا۔ اسی دور میں مشرقی ادب ،کے بعض فن پارے مغربی زبانوں میں ڈھلے جیسے ’’ألف ليلة وليلة‘‘ جس کا فرانسیسی ترجمہ سترھویں صدی کے آخر میں ہوا اور پھر اسے دیگر زبانوں میں منتقل کیا گیا۔اسی دور میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ مغرب میں کیا گیا اور اسلام اور اس کی تاریخ کے بارے میں اہلِ یورپ کی کتابیں اور قرآنِ کریم کے تراجم سامنے آنے لگے، یورپی اہلِ تحقیق نے علومِ شرقیہ کے مخطوطات کی کھوج لگائی اور انھیں منصۂ شہود پر لانا شروع کیا۔استشراقی مطالعات کی سلبیات سے قطعِ نظر اس بات کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں کہ آج بہت سے بنیادی علمی مصادر، جن کو پانے کی حسرت علامہ شبلی نعمانی جیسے محققین کی تحریروں میں ملتی ہے، کے ظہور میں ہم اس استشراقی تحریک کے انگریز، فرنچ، جرمن اور اٹلی کے اہلِ علم کے سپاس گزار ہیں جن کی محنت سے یہ مصادر ہم تک پہنچ سکے۔انیسویں صدی کے نصفِ ثانی میں ان استشراقی تحقیقات کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنسوں کا آغاز ہوا اور ان حضرات کے مشرقی اہلِ علم سے بھی روابط استوار ہوئے۔ اس طرح کی کانفرنسوں میں ہمیں عرب دنیا کے معروف شاعر استاد شوقی اپنا کلام اور عبداللہ باشا فکری اپنی تحقیقات پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

استشراق کا تیسرا مرحلہ وہ ہے جس میں اہلِ مغرب کے مطالعات کی تگ وتاز اسلام کے کلاسیکی مصادر ، قرآن اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کے مطالعے تک محدود نہیں رہتی ، بلکہ اس میں اسلامی دنیا میں احیا وتجدید کے رجحانات، اس کی شخصیات اور اصلاحی و تجدیدی تحریکوں اور ان کے سیاسی، عمرانی ، مذہبی اور دیگر اثرات کے مطالعے کی طرف توجہ زیادہ مبذول ہوئی ہے۔ اس دور میں اسلام کئی پہلوؤں سے مغرب کی یونی ورسٹیوں میں زیرِ مطالعہ بننے کا رجحان پروان چڑھا ہے۔ اس مرحلے میں واضح طور پر ’دینی‘ اور ’لادینی‘ کی تقسیم کے پیکار کے تحت مذاہب کے مطالعے کا رجحان بیدار ہوا ہے اور ان کے درمیان مشترکات کی تلاش کی سعی شروع ہوئی ہے، تہذیبوں کے تصادم کے نظریات وضع کیے گئے ہیں اور تاریخ کے خاتمے کے تصورات پیش کیے گئے ہیں۔ نائن الیون کے روایت شکن اور روایت ساز واقعے کی صراحی سے قطرے قطرہ نئے حوادث ٹپکے ہیں اور دینی تعبیرات ونظریات کی تسبیح کے نئے دانے شمار ہوئے ہیں۔

تحریک استشراق کے نتیجے میں علومِ شرقیہ کے مطالعے کا ایک چوتھا مرحلہ بھی شمار کیا جا سکتا ہے جس کے اثرات مسلم دنیا میں اس وقت نفوذ کر رہے ہیں اور وہ ہے Continental Philosophy کے تناظر میں خصوصاً نصوصِ شرعی کا مطالعہ؛ Continental Philosophy کی روایت کا آغاز مغربی فلسفے میں کانٹ(Kant) کے افکار سے ہوتا ہے (اگرچہ ہر علم وفن کی طرح اس کے جذور قدیم یونان میں بھی ملتے ہیں۔)۔ اس رجحانِ فکر نے مندرجہ ذیل فلسفیانہ رجحانات کو جنم دیا:

  • جرمن مثالیت پسندی(فختے، شیلنگ، ہیگل، شلائرماخر اور شوپنہاور وغیرہ۔)
  • مابعد الطبیعیات کا نقد(فیورباخ، مارکس، نیٹشے، فرائڈ اور برگساں)
  • جرمن مظہریت اور وجودیت(ہُسرل،شیلر، ہائڈیگر وغیرہ)
  • فرانسیسی مظہریت، ہیگلین ازم اور اینٹی ہیگلین ازم
  • تفسیریات (Hermeneutics) (ویلیم ڈیلتھے، ہانس جارج گڈیمر اور پاؤل ریکور)
  • مغربی مارکسیت اور فرینکفرٹ اسکول(ہیبرماس وغیرہ)
  • فرانسیسی ساختیات(لیوی سٹراس)، پسِ ساختیات(میشل فوکو، دریدا)، پس جدیدیت(لیوٹارڈ، بادریلا) اور نسائیت(کریسٹیوا)(1)

علومِ دینیہ اور نصوصِ سماوی کے مطالعات کے مستقل رجحانات مغربی دنیا میں اس Continental Philosophy کے وجود پذیر ہونے کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ اس میں اوپر ذکر کردہ رجحانات میں سے خاص طور پر آخری تین رجحانات کا سماوی نصوص کے فہم پر اثر اب نہ صرف مستقل تحریک کی شکل میں ڈھل چکے ہیں، بلکہ ان کا تنقیدی مطالعہ بھی علومِ اسلامیہ کے حامل اہلِ علم کے ذمے ایک فرضِ کفایہ بھی ہے جس کی طرف کوئی خاص توجہ ہمارے دینی حلقوں میں نظر نہیں آتی۔ دینی مدارس میں تو اس حوالے سے بیداری پیدا ہونے میں شاید وقت لگے گا، لیکن یونی ورسٹیوں میں علومِ اسلامیہ کے شعبہ جات میں بھی ان رجحانات کے سنجیدہ مطالعے اور پھر علومِ اسلامیہ سے ان کے تعلق اور ان کے تنقیدی مطالعے پر کوئی مطالعاتی مواد شاملِ درس ہوتا نظر نہیں آتا۔اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ استشراقی مطالعات کے تاریخی ارتقا کے اس رجحان میں شاید پہلی بار مغرب کی مضبوط ترین عقلی روایت نے حصہ ڈالا ہے۔اس سے پہلے مطالعاتِ علومِ دینی کے مناہج بالعموم مسلم روایت کے استوار کردہ مناہج کے زیادہ قریب تھے، لیکن تحلیلی فلسفے کے بعد مغرب میں پروان چڑھنے والےContinental Philosophy کے رجحان نے مطالعات کی اس نئی روش کو خالص عقلی اور فلسفیانہ پس منظر بخش دیا ہے اور ، جب کہ ہمارے یہاں علومِ اسلامیہ کا حامل اسکالر کی ان علوم میں کوئی خاص مضبوط بنیاد نہیں ہوتی۔

اس اعتبار سے یہ وقت کا ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کی طرف متوجہ ہونا ناگزیر ضروریات میں سے ہے۔ عرب دنیا اور ایران کے علمی حلقوں میں اس حوالے سے بیداری نسبتاً خوش آئند ہے جن کی تحقیقات وتصانیف سے اس سلسلے میں مدد لی جا سکتی ہے، لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ علومِ اسلامیہ کے طلبہ میں تدریس کے لیے فلسفہ(کانٹی نینٹل)، جدید لسانیات، خصوصاً Semantics اور Literary Theory کے ماہرین کے علم سے استفادہ کیا جائے۔اس کے ساتھ مسلم روایت کے علوم میں سے اصولِ فقہ، اصولِ تفسیر اور علمِ بلاغت کے ساتھ اعتنا ناگزیر ہوگا، تاکہ مسلم اور مغربی روایتوں کے ہرمینیاتی آلات کے مابہ الاشتراک اور مابہ الافتراق وجوہ کی بصیرت حاصل کی جا سکے۔

ہمارے ہاں اس طرف سب سے پہلے ایک بڑی شخصیت نے توجہ ضروری کی ہے، لیکن اس کا پس منظر دینیات کا نہیں، بلکہ ادب کا ہے۔ وہ شخصیت اردو ادب کے قدآور نقاد جناب حسن عسکری ہیں۔ الجزائر کے ایک معروف مصنف ومفکر محمد ارکون ہیں جن کی اکثر کتابیں فرانسیسی میں ہیں، تاہم عربی میں ان کا بڑا حصہ ترجمہ ہو چکا ہے۔ انھیں مسلم فکری مطالعات میں Deconstructionist شمار کیا جا سکتا ہے۔ محمد حسن عسکری نے انھیں 25 نومبر 1958ء میں خط لکھا کہ وہ جس طرزِ مطالعہ کو دینیات کے باب میں فروغ دینا چاہتے ہیں، وہ خطرناک ہے۔ اس حوالے سے جناب ڈاکٹر عزیز ابن الحسن ، ناصر بغدادی کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’چونکہ ساختیات بنیادی طور پر سیکولر تاویلات اور تصورات سے مشتق ہے، لہذا قرآنِ مجید اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے وہ اس نظریے کے مضرب رساں مضمرات سے کماحقہ واقف تھے۔ اس مضمون میں انھوں نے محمد ارکون جیسے اسلام کے مردِ آگاہ اور صاحبِ علم کو ان امکانی نقصانات سے باخبر کیا ہے جو قرآنِ مجید کی قراءت کو لسانیاتی، ساختیاتی، ثقافتی، بشریات اور دیگر علوم کے حوالے سے کی جانے (والی تعبیر) سے پہنچنے کا احتمال ہے۔ ‘‘(2)

یہ بات ذرا طوالت اختیار کی گئی، لیکن اس سے یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ استشراق کے جدید ترین رجحانات کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے اور اس پر بھی علمی مواد کی تیاری کی ضرورت ہے۔

اس تحریکِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کے اثرات کے بھرپور مطالعے کی ناگزیر علمی ضرورت کو ڈاکٹر محمد شہباز منج کی زیرِ تبصرہ کتاب ’’فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثرونفوذ‘‘ نے خوب صورتی کے ساتھ پورا کیا ہے۔کتاب کے جملہ مندرجات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ بالا مراحل میں زیادہ تر پہلے دو مراحل کے مطالعے اور ان کے اثرات سے متعلق ہے۔ کتاب کے مرکزی عناوین حسبِ ذیل ہیں:

  • مقدمہ
  • استشراق اور مستشرقین : تعارف اور تاریخ و اہداف
  • استشراقی فکرومطالعاتِ اسلام اور ان کی نوعیت
  • عالمِ اسلام میں استشراقی اثرونفوذ
  • استشراق، تجدد اور راسخ العقیدگی : چند تاثرات ومعروضات

ان میں سے ہر ایک عنوان ذیلی طور پر کئی عناوین میں منقسم ہے۔

مصنف نے تاریخِ استشراق پر گفت گو کرتے ہوئے اسے عمومی طور پر پیغمبرِ اسلام ﷺ سے دشمنی کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والے رحجان کے طور پر پیش کیا ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس سے نکلنے والے نتائج اور اثرات کو نمایاں کیا ہے؛ چناں چہ عہدِ رسالت ، قرونِ وسطیٰ اور عہدِ جدید ، تینوں ادوار میں اس دشمنی کے مختلف مظاہر کوعلمی انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ اس تحریک کے اغراض واہداف میں سے دینی، سیاسی، معاشی اور علمی اہداف کو واضح کیا گیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف استشراق، استعمار اور تنصیر وتبشیر کو ایک ہی تصویر کے مختلف رخ سمجھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ کتاب میں زیادہ تر استشراق کے مسلم معاشروں میں مختلف میدانوں پر مرتب ہونے والے سلبی اثرات کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے، تاہم مصنف کو’’مشرق سے ہو بے زار ، نہ مغرب سے حذر کر‘‘ کے مصداق اس بات کا اعتراف ہے کہ ’’کسی دوسرے کے علم وتہذیب کا اثرہر حال میں برا نہیں ہوتا، اس کی مذمت وتردید اور اس سے بچاؤ کی تدابیر پر زور تغلیباً ہوتا ہے، ورنہ اس میں کچھ خیر کے پہلو بھی ہوتے ہیں، اور ان پہلوؤں کا تعلق مذہب اور کلام سے بھی ہو سکتا ہے اور دنیا ومادیت سے بھی۔عقل مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی اپنے عقائد وایمانیات اور تصورِ زندگی کے بنیادی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ان پہلوؤں کو نہ صرف نظر انداز نہ کرے، بلکہ جہاں مفید پائے، کام میں لانے سے ہرگز نہ چوکے۔‘‘(3) چناں چہ وہ مسلمانوں کو ’’خُذْ مَا صَفَا وَ دَعْ مَا كَدَر‘‘ کا رویہ اپنے کی تلقین کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اس رجحان پر نقد کرتے ہیں، جو تہذیبِ مغرب کو ایک ایسا پیکج قرار دیتے ہیں جس میں اخذ وترک(Pick and Choose) ممکن نہیں۔وہ لکھتے ہیں:”راسخ العقیدہ اسلامیت کے اس حلقے سے راقم کو ہمیشہ شکایت رہی ہے جو" خذ ما صفا ودع ما كدر" کے رویے کو غیر اسلامی قرار دینے پر اپنی صلاحیتیں صرف کرتا اور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مغربی فکروتہذیب ایک پیکج ہے ؛ آپ اس کے معاملے میں اخذ وترک (Pick and Chose) کا رویہ نہیں اپنا سکتے۔ آپ یا سب کچھ قبول کر دیں یا ہر چیز رد کر دیں۔ “(4)

تاہم استشراقی تحریک کے ایجابی فوائد پر یہ گفت گو نہایت تشنہ رہ گئی ہے(جو محض چند صفحات پر مشتمل ہے۔) اور کتاب سے اس کے بارے میں تاثر بالعموم سلبی نوعیت ہی کا سامنے آتا ہے۔ یہاں اگر ان پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا جاتا کہ مستشرقین نے اپنی ان علمی سرگرمیوں میں خود مسلم تراث کی کئی کتابوں کو پہلی بار منظرِ عام پر لایا، مخطوطات کی اشاعت کی، تراجم میں حصہ لیا تو مناسب ہوتا۔(5)

یہاں اس بات کو پیشِ نظررکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مختلف علوم وفنون میں اپنے نشو وارتقا کے مراحل سے گزرنے کے بعد تقسیم در تقسیم اور اس کے نتیجے میں مستقل بالذات Science بنے کا عمل جاری رہتا ہے، تحریکِ استشراق کو بھی اس کلیے سے شاید استثنا دینا ممکن نہ ہو؛ چناں چہ یہ درست ہے کہ استشراق، استعمار اور تنصیر میں ایک گونہ توافق اور اہداف میں یکسانی رہی ہے، لیکن استشراق اب ایک خالص علمی تحریک کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔اسے اپنے دیگر مقاصد سے کلیتاً جدا کرنا اگر ممکن نہ بھی ہو، تب بھی اس طرح کے ’اہداف‘ کے بارے میں اس بات کی تنقیح کی ضرورت ہے کہ آیا وہ دانستہ حاصل کیے جاتے ہیں یا خود بخود ایک عمل کے نتیجے میں منطقی اور علمی طور پر حاصل ہوتے ہیں۔

استشراقی کام نے جن دینی مباحث کو جنم دیا، مصنف نے ان میں سے وحی الہی، معجزات وخوارق، قرآن اور اس کی حیثیت ، حدیث اور اس کا مقام، سیرتِ طیبہ، معاد، جہاد، تعدد ازواج، اسلامی قانون وعقوبات وغیرہ کے حوالے سے ان فکر کے پیدا کردہ مباحث اور ان کے نتائج پر گفت گو کی ہے۔ ان امور کے حوالے سے مستشرقین کے دعواے غیر جانب داری پر نقد کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:’’مستشرقین کے ہاں اسلام کے حوالے سے تعصب اور عدمِ معروضیت کا رویہ پایا جاتا ہے۔ چناں چہ وہ اپنے اسلامی مطالعات میں موضوعی اندازِ فکر ونظر کے حامل رہے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص کے لیے اسلام کی غیر حقیقی اور مسخ شدہ تصویر پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ اسلام کو لوگوں کے سامنے اس انداز سے پیش کیا جائے کہ وہ ان کو کوئی غیر معمولی اور خاص وقعت کی چیز محسوس نہ ہو، بلکہ اس کے برعکس انسانی ترقی وتمدن کی راہ میں مزاحم دکھائی دے۔‘‘(6)

مذکورہ بالا موضوعات پر استشراقی فکر پر گفت گو کرتے ہوئے اس فکر کے سلبی امور ہی سامنے آتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم سماج پر ان بحثوں کا اثر زیادہ تر منفی ہی رہا ہے اور تشکیک واضطراب کا باعث بنا ہے۔

عالمِ اسلام پر اس کے اثرات پر بحث کرتے ہوئے دو طبقوں پر گفت گو کی گئی ہے: اہلِ اقتدار اور اہلِ علم۔اہلِ اقتدار میں سے ترکی کے ضیاء گوک الپ ، مصطفیٰ کمال اور بعض دیگر افراد پر گفت گو کی گئی ہے۔ اہلِ علم میں سے چودہ افراد کی فکر زیرِ بحث لائی گئی ہے۔ ان میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن، ڈاکٹر طٰہٰ حسین، محمد عبدُہُ، رشید رضا، قاسم امین، علی عبدالرزاق، طنطاوی جوہری، سرسید، مولوی چراغ علی، ممتاز علی ، سید امیر علی، محمد علی لاہوری، غلام احمد پرویز اور مرزا غلام احمد قادیانی شامل ہیں۔ ان اہلِ علم کے افکار کو ان کی بنیادی کتابوں سے اخذ کر کے بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے جس سے ان کے تجدد پسندانہ افکار واضح ہوتے ہیں۔

کتاب کے منہج کے بارے میں مصنف کہتے ہیں:" اس کتاب کے مطالعے میں یہ بات پیشِ نگاہ رہنی چاہیے کہ یہاں مستشرقین کے افکار ونظریات کا تجزیہ یا اسلامی عقائد وتصورات سے متعلق ان کے اعتراضات کے جوابات دینے کی کوشش نہیں کی گئی، نہ ہی مختلف حوالوں سے ان سے متاثر و مرعوب مسلم اہلِ فکروقلم کے افکار و نظریات کا تفصیلی نقد وتجزیہ پیش کیا گیا ہے۔اس کے لیے الگ بحث و تحقیق کا منصوبہ پیشِ نظر ہے۔ "(7)

مصنف نے کتاب میں اسی منہج کو پیشِ نظر رکھا ہے اور اپنی طرف سے نقد و تبصرہ سے گریز کیا ہے، تاہم بعض مقامات پر ان کی اپنی راے بھی شامل ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ص 163 پر حاشیہ نمبر 178 میں وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے محرکات پر نقد کرتے ہیں۔ (8) اسی طرح ص 263 ، حاشیہ 182 میں سید امیر علی کی فکر پر نقد کرتے ہوئے کچھ تفصیل سے کلام کیا ہے۔ (9)

بعض مقامات پر مصنف دوسرے اہلِ علم کا نقدو تبصرہ بھی باحوالہ نقل کرتے ہیں، مثال کے طور پر ایک جگہ مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ اور ڈاکٹر محمد البہی کے تبصرے اور نقد کو شامل کتاب کیا ہے۔(10)

ایک مستقل عنوان ”استشراق، تجدد اور راسخ العقیدگی: چند تاثرات و معروضات“ کے الفاظ کے ساتھ ہے جس میں مصنف اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔

کتاب کے صفحہ 286 پر مرزا غلام احمد قادیانی کے افکار پر گفت گو کی گئی ہے۔ مرزا صاحب باتفاقِ اہل سنت اسلام سے خارج ہیں، اس لیے انھیں عالمِ اسلام کے دیگر اہلِ تجدد کے ساتھ شمار کرنا کچھ محل نظر معلوم ہوتا ہے۔ یہی حال محمد علی لاہوری کا ہے جو مرزا کو مجدد مانتے ہیں۔کتاب کے ص 272 پر محمد علی لاہوری کے افکار پر بحث کی گئی ہے۔ محمد علی لاہوری قادیانیوں کے لاہوری گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جن کی اہلِ سنت بالعموم تکفیر کے قائل ہیں۔(11)

مصنف جہاں عالمِ اسلام میں تجدد کے پھیلنے پر گفت گو کرتے ہیں، وہاں اس کے اسباب میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کے طرزِ عمل کو بھی ایک بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں:

” اگر راسخ العقیدہ اسلامیت ان سائنسی و سماجی وغیرہ جدید امور کو بھی خواہ مخواہ اسلام کے لیے خطرہ نہ سجھ لیا کرے، جن کا اسلام سے اس حوالے سے کوئی تعلق نہیں تو سچ یہ ہے کہ تجدد کامیاب تو کیا ہو، پیدا ہی نہ ہو۔ تجدد کے پیدا ہونے کی وجہ اسلامی راسخ العقیدگی میں جدیدیت کی نفی ہے۔راقم الحروف اس تناظر میں دوستوں سے عرض کیا کرتا ہے کہ مستشرقین اور ان کے افکار کا تو ہے ہی، تجدد کے وجود میں مولویوں کے تشدد کا حصہ بھی کچھ کم نہیں۔ اسلام بلاشبہ ایک متحجر دین نہیں ہے۔وہ ان چیزوں کو جو اس کے بنیادی تصورات و نظریات سے نہیں ٹکراتیں، کھلے دل سے قبول کرلیتا ہے۔ لہٰذا چھوٹی چھوٹی چیزوں کو خواہ مخواہ خطرہ بنا کر راسخ العقیدہ تجدد کو راہ دیتے ہیں۔ “(12)

اسی طرح اہلِ تجدد کی ہر بات کو رد کرنے کے بجائے مصنف اس بات کے قائل ہیں کہ عقائد کے سوا بعض دیگر میادین میں ان کی آرا سے استفادہ کرنے میں حرج نہیں۔ ان کی ہر بات کو رد کرنے کے پیچھے پڑ جانا صحیح رویہ نہیں ہے۔یہی تبصرہ ان کا مغربی تہذیب کے حوالے سے بھی ہے۔(13)

زیرِ تبصرہ کتاب اردو میں اپنے موضوع پر بہت عمدہ اضافہ ہے۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی نظر اپنے موضوع پر بہت وسیع ہے۔ معلومات کو بہت سلیقے سے اخذ کر کے ایک منطقی ترتیب میں پرویا گیا ہے۔

کتاب میں مصادر ومراجع کی فہرست کے ساتھ ایک جامع اشاریہ بھی دیا گیا ہے جس سے کتاب سے استفادہ بہت آسان ہو جاتا ہے۔

حواشی

  1. Simon Critchley, Continental Philosophy: A Very Short Introduction (Oxford: Oxford University Press, 2001), 13.
  2. عزیز ابن الحسن، ’’ساختیاتی مباحث اور حسن عسکری‘‘ مشمولہ سہ ماہی جی(لاہور)، جولائی – اکتوبر 2012ء، ص 111، بحوالہ، ناصر بغدادی، ’’ساختیات اور عسکری صاحب‘‘،مشمولہ بادبان، شمارہ 1 ص 125، 126۔
  3. محمد شہباز منج، فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثرونفوذ(لاہور: القمر پبلی کیشنز، 2016ء)، 310۔
  4. منج، نفسِ مصدر، 310، 311۔
  5. استشراق پر لکھنے والے مسلم مصنفین میں ایک معروف مصنف محمد خلیفہ حسن ہیں۔ ان کی عربی زبان میں ایک کتاب ، زیرِ تبصرہ کتاب کے موضوع سے ملتی جلتی ہے: آثار الفكر الاستشراقي في المجتمعات الإسلامية (مسلم معاشروں میں استشراقی فکر کے اثرات)۔ اس کتاب میں انھوں نے جہاں تحریکِ استشراق کے مسلم معاشروں پر سیاسی، معاشی ، دینی، علمی اور دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے، وہیں تحریکِ استشراق کے ایجابی پہلوؤں پر بھی مستقل فصل قائم کی ہے۔اس سے موضوع کا دوسرا رخ بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔(دیکھیے: محمد خلیفہ حسن، آثار الفكر الاستشراقي في المجتمعات الإسلامية(ہرم:عين للدراسات والبحوث الإنسانية و الاجتماعية، 1997ء )، 129 تحت عنوان:الفصل السابع-الآثار الفكرية الإيجابية للاستشراق۔
  6. منج، مصدرِ سابق، 105۔
  7. منج، مصدرِ سابق، 28۔
  8. منج، مصدرِ سابق، 163، 164۔
  9. منج، مصدرِ سابق، 263۔
  10. دیکھیے: منج، مصدرِ سابق، 167 و مابعد۔
  11. لاہوری گروپ کی تکفیر کے حوالے سے دیکھیے: مولانا سرفراز خان صفدر، مودودی صاحب کا ایک غلط فتوی اور ان کے چند دیگر باطل نظریات(گوجرانوالہ: مکتبہ صفدریہ، 2004ء)۔
  12. منج، مصدرِ سابق، 305۔
  13. ایضا، 308 و مابعد۔


عالم اسلام اور مغرب

(اپریل ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter