ستمبر ۲۰۲۲ء

تجارتی اخلاقیات اور ہماری سماجی صورت حال

― محمد عمار خان ناصر

مالکی فقیہ قاضی ابوبکر ابن العربی ؒنے ’’بیع البرنامج“ (یعنی سامان کا معائنہ کیے بغیر صرف فہرست دیکھ کر سامان خرید لینے) کی بحث میں مالکی فقہاء کا موقف واضح کرتے ہوئے لکھا کہ یہ رفع حرج کے قاعدے کی رو سے جائز ہے، کیونکہ تاجروں کو سامان کھولنے اور پھر دوبارہ باندھنے میں بے حد مشقت ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ مغرب کے آخری کنارے سے ایک تاجر آتا ہے اور مشرق کے آخری کنارے سے آئے ہوئے ایک تاجر سے بازار میں ملتا ہے اور دونوں صرف فہرست دیکھ کر ایک دوسرے سے بندھا ہوا سامان خرید لیتے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۲)

― ڈاکٹر محی الدین غازی

(353) وَلَمْ أَکُنْ کا ترجمہ: وَلَمْ أَکُنْ بِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیًّا۔(مریم: 4) ”لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا“۔ (محمد جوناگڑھی) ”اور اے میرے پروردگار میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا“۔ (فتح محمد جالندھری) درج بالا آیت میں لَمْ أَکُنْ کو عام طور سے ماضی کے معنی میں لیا گیا ہے۔ یعنی اس سے پہلے میں کبھی دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ اس کا حال کا ترجمہ کیا جاسکتا ہے اور وہ زیادہ مناسب ہے۔ یعنی مجھے یقین ہے کہ میری دعا رد نہیں کی جائے گی۔ لم أکن جس طرح ماضی کے لیے آتا ہے اسی طرح حال...

حکم عقلی، غزالی اور علم کلام

― مولانا مشرف بيگ اشرف

اشعری علم کلام کا مشہور متن "ام البراہین" کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے: اعلم أن الحكم العقلي ينحصر في ثلاثة أقسام: الوجوب والاستحالة والجواز. فالواجب ما لايتصور في العقل عدمه، والمستحيل مالايتصور في العقل وجوده، والجائز ما يتصور في العقل وجوده وعدمه. ترجمہ: "جان لو کہ حکم عقلی تین ہی طرح کا ہے: وجوب، عدم امکان اور جواز۔ پس واجب وہ ہے کہ عقل کے لیے اسے معدوم فرض کرنا ناممکن ہو، ناممکن وہ ہے کہ عقل کے لیے اسے موجود ماننا ممتنع ہو اور جائز وہ ہے کہ عقل اس کے وجود وعدم دونوں کا تصور کر سکتی ہو۔" یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب علم الکلام ایک شرعی علم...

آزادی کے مقاصد اور ہماری کوتاہیاں

― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یومِ آزادی کے حوالے سے اس تقریب کے انعقاد اور اس میں شرکت کا موقع دینے پر صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی اور ان کے رفقاء کا شکرگزار ہوں۔ اس موقع پر جن طلبہ اور طالبات نے قیامِ پاکستان اور حصولِ آزادی کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ میرے لیے خوشی کا باعث بنے ہیں کہ ہماری نئی نسل اپنے ماضی کا احساس رکھتی ہے، حال سے با خبر ہے، اور مستقبل کے خطرات پر بھی اس کی نظر ہے جو میرے جیسے لوگوں کو حوصلہ دے رہی ہے کہ ہمارے مستقبل کی قیادت اپنی ذمہ داریوں کا شعور رکھتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے مزید برکات و ترقیات سے نوازیں،...

رشدی ایسے کرداروں سے متعلق اہل اسلام کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟

― ڈاکٹر محمد شہباز منج

رشدی اور اس جیسے دیگر کرداروں سے متعلق اہل اسلام کے رویے پر بات کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رشدی اور اس کی بدنام ِ زمانہ کتاب پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے۔ رشدی ہندوستانی نژاد برطانوی امریکی ناول نگار اور ادیب ہے۔ قبل ازیں بھی اس کے بعض ناول شائع ہوئے تھے، لیکن اس کو زیادہ شہرت و پذیرائی " شیطانی آیات" کی اشاعت کے بعد ملی۔ ادبی ناقدین کے مطابق " سٹینیک ورسز" رشدی کے اپنے مخمصوں کی عکاس ہے ، جو خود اس کو برطانوی استعمار کا ایک شکار ظاہر کرتی ہے۔ یہ اصل میں معاصر انگلینڈ میں ہندوستانی تارکینِ وطن کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے۔ اس...

دعوت کی شریعت

― ڈاکٹر عرفان شہزاد

ہمارے محترم دوست، جناب ڈاکٹر محی الدین غازی نے جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب، “میزان” میں بیان کردہ "قانون دعوت" پر نقد کیا ہے جو بعنوان، "قانون دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟" ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ پاکستان کے شمارہ جولائی 2022 میں شائع ہوا ہے۔ زیر نظر تحریر کا مقصود غازی صاحب کے اس نقد کا تجزیہ کرنا ہے۔ غازی صاحب کے نقد کا خلاصہ یہ ہے کہ دعوت دین پوری امت کی ذمہ داری ہے جس پر تفقہ فی الدین یا کسی خاص نسل (ذریت ابراہیم) یا حکومت کی شرائط عائد کرنا، دعوت دین کی حصار بندی کرنا اور اسے عملاً معطل یا غیر مؤثر کرنے کے مترادف...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۹)

― ڈاکٹر شیر علی ترین

تقویۃ الایمان کی اشاعت کے ساتھ ساتھ دلی میں شاہ اسماعیل کی اصلاحی سرگرمیوں نے شہر کے اہل علم اشرافیہ کے درمیان بحث ومباحثہ اور استدلالات کی ایک گرما گرم فضا تشکیل دی تھی۔ خاص طور پر کتاب کی نسبتاً زیادہ متنازعہ عبارات پر بحث ومباحثہ اور تجزیے ہو رہے تھے۔ اس وقت ماحول میں اس قدر انتشار تھا کہ 1826 میں ایک مشہور عوامی مناظرے میں شاہ اسماعیل کا اپنا چچا زاد محمد موسٰی دہلوی (م 1864) ان کے خلاف صف آرا تھا۔ جوں جوں جامع مسجد میں شاہ اسماعیل کے خطبات مزید لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے گئے، اسی رفتار سے ان کے خیالات کو دبانے کے لیے مخالف تحریک بھی زور پکڑتی...

’’مولانا مودودیؒ کا تصور جہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘

― پیرزادہ عاشق حسین

مولانا مودودی کے حوالے سے مشرق و مغرب میں جن موضوعات کو زیادہ تر مشق سخن بنایا گیا ان میں " جہاد" اور " سیاسی اسلام" سر فہرست ہیں۔ مغرب سے تعلق رکھنے والے محققین نے کئی وجوہات کی بناء پر مولانا مودودی کو مکمل طور پر نہیں پڑھا کیونکہ آپ کی فکر سے متعلق چند بنیادی چیزیں ایسی ہیں کہ جن تک ان کی رسائی ممکن نہ تھی لہذا انہوں نے انتہائی علمی بد دیانتی سے کام لے کر اسلامی انتہا پسندی(Islamic Extremism)، اسلامی بنیاد پرستی(Islamic Fundamentalism) اور عسکریت پسندی کو مولانا مودودی اور ان کی فکر کے ساتھ نتھی کیا اور کہا گیا کہ مولانا مودودی ہی موجودہ زمانے میں دنیا سے کفر...

تلاش

Flag Counter