(۱۱ اگست ۲۰۲۲ء کو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علومِ اسلامی کے زیر اہتمام ’’یومِ آزادی‘‘ کے سلسلہ میں تقریب سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یومِ آزادی کے حوالے سے اس تقریب کے انعقاد اور اس میں شرکت کا موقع دینے پر صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی اور ان کے رفقاء کا شکرگزار ہوں۔ اس موقع پر جن طلبہ اور طالبات نے قیامِ پاکستان اور حصولِ آزادی کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ میرے لیے خوشی کا باعث بنے ہیں کہ ہماری نئی نسل اپنے ماضی کا احساس رکھتی ہے، حال سے با خبر ہے، اور مستقبل کے خطرات پر بھی اس کی نظر ہے جو میرے جیسے لوگوں کو حوصلہ دے رہی ہے کہ ہمارے مستقبل کی قیادت اپنی ذمہ داریوں کا شعور رکھتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے مزید برکات و ترقیات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
قیامِ پاکستان کو پون صدی گزر چکی ہے اور ایک نئے ملک کے طور پر اس کے وجود میں آنے کے محرکات میں عام طور پر جن عوامل کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں سے تین چار کا آج کی گفتگو میں تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انگریزوں نے اس ملک پر قبضہ کر لیا تھا اور فرنگی استعمار سے آزادی کے لیے سب لوگوں نے مل کر جدوجہد کی۔ جدوجہد کے اس دائرے میں دوسری ہم وطن قومیں بھی ہمارے ساتھ شریک تھیں ہندو، سکھ، مسیحی اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے اس جدوجہد میں حصہ لیا اور سب نے مل کر وطن کو بیرونی تسلط سے آزاد کرایا۔ جبکہ اگلے تین دائرے مسلمانوں سے متعلق ہیں۔
- ایک یہ کہ مسلمانوں کا تہذیبی تشخص برقرار رہے، مسلم تہذیب و ثقافت کی اپنی ایک شناخت اور تسلسل ہے جو اس سے قبل ہزار سالہ دور میں بھی خطرات کا شکار رہی ہے بالخصوص اکبر بادشاہ کے دور میں یہ خطرات حقیقت کا روپ دھارتے نظر آنے لگے تو مسلم راہنماؤں نے ان کا مقابلہ کیا۔ تہذیب و شناخت کے تحفظ کی یہ جدوجہد سرسید اور ان کے رفقاء نے کی۔ سرسید احمد خان مرحوم سے لے کر علامہ محمد اقبال مرحوم اور قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم تک اس قافلہ کی جدوجہد کا عنوان مسلمانوں کا تہذیبی تشخص و امتیاز قائم رکھنا تھا جس کے لیے انہوں نے تہذیبی روایات و اقدار کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی بقا کی جنگ بھی لڑی اور اس میں کامیاب رہے۔
- دوسرا دائرہ معاشی تحفظات کا تھا کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کی معاشی بالادستی کے ماحول سے نکالنا ضروری ہو گیا تھا جس کے لیے ان کی الگ ریاست کا قیام ناگزیر تھا تاکہ وہ معاشی آزادی اور خودمختاری سے ہمکنار ہو سکیں۔ اس کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی خودکفالت اور آزادی کے بغیر کسی قوم کی سیاسی آزادی اور تہذیبی شناخت کا باقی رہنا مشکل ہوتا ہے۔
- جبکہ تیسرا دائرہ مسلم معاشرہ میں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کا تھا جو بحیثیت مسلم قوم ہماری ملی ذمہ داری ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی پس منظر کا تقاضہ بھی تھا کہ برطانوی استعمار نے جب اس ملک پر تسلط قائم کیا تو اس وقت مغل اقتدار کے دور میں یہاں اسلامی احکام و قوانین تھے جنہیں منسوخ کر کے برطانوی قانونی نظام کو رائج کیا گیا تھا۔ چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد جب حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے اس کے خلاف جہاد کا فتوٰی دیا جس کی بنیاد پر آزادی کی جنگیں لڑی گئیں تو اس فتوٰی میں فرنگی کے سیاسی و عسکری تسلط کے ساتھ اسلامی قوانین کی منسوخی اور فرنگی قوانین کے نفاذ کو بھی بنیاد بنایا گیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے یہ محرکات مختلف طبقات کی طرف سے ذکر ہوتے رہتے ہیں اور یہ سب نہ صرف درست ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مربوط ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے بنیادی عوامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں پنجاب یونیورسٹی کے علمی ماحول میں تحقیق اور ریسرچ کی دنیا کے لوگوں کے درمیان کھڑا گفتگو کر رہا ہوں اس لیے یہ توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے یہ مقاصد ابھی تک ادھورے ہیں اور ہم ان میں سے کوئی ایک بھی مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکے۔
- قومی خودمختاری آج ہمارے لیے سوالیہ نشان بن چکی ہے، فرق صرف یہ رونما ہوا ہے کہ پہلے ہماری قسمت کے فیصلے لندن میں ہوتے تھے اب واشنگٹن میں ہوتے ہیں اور ہم اپنی بنیادی پالیسیاں طے کرنے میں آزاد نہیں ہیں۔
- معاشی صورتحال اس سے زیادہ سنگین ہے، ہم قرضوں اور سود در سود کی جکڑبندی کے ساتھ بین الاقوامی اداروں کے حصار بلکہ شکنجے میں ہیں اور اس جکڑبندی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تہذیبی ماحول میں مسلم تہذیب اور ہماری ثقافتی روایات و اقدار اب دوہری یلغار کی زد میں ہیں۔ ایک طرف ہندو ثقافت کا خطرہ بدستور موجود ہے جبکہ دوسری طرف مغربی ثقافت کی یلغار نے ہمارے عقیدہ و ایمان اور تہذیب و ثقافت کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
- قوانین و نظام کی تبدیلی کا دائرہ بھی اسی طرح تذبذب اور گومگو کا شکار ہے اور ہم دستوری طور پر قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کی ضمانت کے باوجود اس سمت کوئی پیشرفت نہیں کر پا رہے اور فرنگی قوانین و نظام کے جال نے ہمیں بدستور جکڑ رکھا ہے۔
ملک کے تمام جامعات اور بڑے علمی مراکز کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبہ اور ریسرچ سکالرز سے میری گزارش ہے کہ آزادی اور قیام پاکستان کے مذکورہ عوامل و مقاصد میں ہماری ناکامی اور کوتاہی تو سب کے سامنے ہے مگر اس کے اسباب کا جائزہ لینا اہل دانش کا کام ہے اور ملک کے علمی مراکز کی ذمہ داری ہے۔ میں نوجوان اہلِ دانش سے گزارش کروں گا کہ ان موضوعات کو اپنی ریسرچ کا موضوع بنائیں اور اگلی نسل کو بتائیں کہ ہم آزادی اور قیام پاکستان کے مقاصد اب تک کیوں حاصل نہیں کر پائے اور اپنی ان کوتاہیوں کی تلافی ہم کس طرح کر سکتے ہیں؟
اس کے ساتھ ہی میں اپنے پیشرو مقرر محترم ڈاکٹر محمد امین کی ایک بات کو دہراتے ہوئے اس کے ساتھ ایک گزارش کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے وقت بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ ہمیں الگ ملک مل جائے تو ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و قوانین کی عملداری قائم کریں گے، مگر ہم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جس پر آج اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہو رہا ہے اور ہم قومی سطح پر خلفشار اور افراتفری کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے اس ارشاد کی تائید کرتے ہوئے یہی بات دوسرے انداز سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ’’لئن شکرتم لازیدنکم‘‘ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو نعمتوں میں اضافہ کروں گا لیکن اگر ناشکری کی تو ’’ان عذابی لشدید‘‘ میرا عذاب بھی سخت ہو گا۔ اسی طرح ایک مقام پر قرآن کریم میں مذکور ہے کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ان کے حواریوں نے آسمان سے تیار کھانے نازل کیے جانے کا تقاضہ کیا اور حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تیار کھانے اتار دیتا ہوں لیکن اب اگر ناشکری کی تو ایسی سزا دوں گا جو کسی اور کو نہیں دی ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس نعمت کی ناشکری کرنے والوں کی شکلیں بدل دی گئیں۔ یہاں مفسرین کرامؒ نے لکھا ہے کہ عمومی نعمتوں کی ناشکری بھی سزا کا باعث ہوتی ہے مگر مانگی ہوئی نعمت کی ناشکری اس سے کہیں زیادہ سزا کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ پاکستان ہم نے اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لیا تھا جو بہت بڑی نعمت ہے بالخصوص ایسے ماحول میں جب پوری دنیا میں ریاست کا تعلق مذہب سے ختم ہو کر رہ گیا تھا حتٰی کہ خلافتِ عثمانیہ بھی ختم ہو گئی تھی۔ اس ماحول میں مذہب اور مذہبی احکام و ثقافت کے عنوان سے نئی ریاست کا وجود میں آنا نعمتِ عظمٰی سے کم نہیں تھا، مگر ہم پون صدی سے ناشکری اور ناقدری کے ماحول میں ہیں اور اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار اور اس میں کوتاہی کی تلافی کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
سیلاب کے متاثرین اور ہماری قومی ذمہ داری
بارشوں اور سیلاب سے متاثرین کی صورت حال انتہائی پریشان کن اور اضطراب انگیز ہے۔ یہ وقت بحث ومباحثہ کا نہیں، متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے جو کچھ بس میں ہو، کر گذرنے کا ہے۔ عربی ادب کی ایک کہاوت ہے کہ ایک شخص نہر میں ڈوب رہا تھا اور ایک شخص اس کو کنارے پر کھڑا ہو کر احتیاط نہ کرنے پر ملامت کر رہا تھا۔ ڈوبنے والے نے آواز دی، میرے بھائی، پہلے مجھے ڈوبنے سے بچاو، پھر جتنی چاہے ملامت کر لینا۔
آج ہمیں یہی صورت حال درپیش ہے۔ ملک بھر میں مساجد کے ائمہ وخطبا اور منتظمین کو سب سے زیادہ اس کام کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور باہمی رابطہ ومشاورت کے ساتھ کوئی علاقائی مرکز قائم کر کے منظم او رمربوط محنت کرنی چاہیے۔ سب احباب سے گذارش ہے کہ وہ اس کارخیر میں شریک ہوں اور باقی سب کاموں پر اسے ترجیح دیتے ہوئے سرگرم ہو جائیں تاکہ ہم اپنے متاثرہ اور بے یار و مددگار بھائیوں کی امداد اور بحالی میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈال سکیں۔