تجارتی اخلاقیات اور ہماری سماجی صورت حال

محمد عمار خان ناصر

مالکی فقیہ قاضی ابوبکر ابن العربی ؒنے ’’بیع البرنامج“ (یعنی سامان کا معائنہ کیے بغیر صرف فہرست دیکھ کر سامان خرید لینے) کی بحث میں  مالکی فقہاء کا موقف واضح کرتے ہوئے لکھا کہ یہ رفع حرج کے قاعدے کی رو سے جائز ہے، کیونکہ تاجروں کو سامان کھولنے اور پھر دوبارہ باندھنے میں بے حد مشقت ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ مغرب کے آخری کنارے سے ایک تاجر آتا ہے اور مشرق کے آخری کنارے سے آئے ہوئے ایک تاجر سے بازار میں ملتا ہے اور دونوں صرف فہرست دیکھ کر ایک دوسرے سے بندھا ہوا سامان خرید لیتے ہیں۔ اس کے بعد دونوں الگ ہو جاتے ہیں اور زندگی میں کبھی دوبارہ نہیں ملتے اور ایسی کوئی شکایت نہیں ملتی کہ ان تاجروں نے دھوکا کیا ہو۔ ابن العربی لکھتے ہیں ’’وھی امانة عظیمة وعادة کریمة“، یہ انتہائی عظیم امانت داری اور بہت ہی اعلیٰ عادت ہے۔ (عارضۃ الاحوذی)

یہ کسی دور میں مسلمانوں کی تجارتی  اخلاقیات ہوا کرتی تھی۔  موجودہ صورت حال کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک خبر کے مطابق   ایمازون کمپنی نے  گذشتہ ایک سال کے دوران میں آن لائن تجارت  کے لیے کھولے گئے تیرہ ہزار اکاونٹ بد دیانتی اور  فراڈ کی شکایات  کی بنیاد پر بند کر دیے ہیں ۔ یہ تجارت اور کاروبار میں ہماری اخلاقیات کی عمومی صورت حال ہے جس کا اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ ہم مذہبی ہیں یا غیر مذہبی، کسی ایک سیاسی جماعت  سے وابستہ ہیں یا دوسری سے، اور پڑھے لکھے ہیں یا گنوار۔ بنیادی انسانی اخلاقیات ہماری ترجیحات میں کہیں نہیں ہے۔


قرآن اور حدیث میں عام معاشرتی اخلاقیات کی تلقین عموما ’’مسلمانوں “ کے باہمی حقوق کے حوالے سے کی گئی ہے۔ اس سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ شاید غیر مسلموں کے ساتھ ایسا اخلاقی برتاو مطلوب نہیں ۔ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ ایک حدیث کے الفاظ ’’لا یسوم احدکم علی سوم اخیہ“ (تم میں سے کسی کا بھائی کسی چیز کا سودا کر رہا ہو تو دوسرے کو درمیان میں اپنی سودے بازی شروع نہیں کرنی چاہیے) سے بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس کی ممانعت مسلمانوں کے حوالے سے ہی کی گئی ہے۔ امام طحاوی اس کی غلطی واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس اسلوب میں ذکر تو (تغلیباً‌) مسلمانوں کا ہوتا ہے، لیکن اخلاقی لحاظ سے اس اصول کی پابندی سب کے لیے مطلوب ہوتی ہے۔ جیسے مثلاً‌ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی آمد ورفت کا راستہ ہے، لیکن وہی راستہ غیر مسلموں کے لیے بھی ہوتا ہے۔ (مختصر اختلاف العلماء ج ۴ ص ۶۱)

اصل یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں دینی واخلاقی تعلیمات کے مخاطب اصلاً‌ مسلمان ہوتے ہیں، اس لیے ایسی اخلاقی ہدایات میں اسلام اور ایمان کے رشتے کا ذکر ذمہ داری کے احساس کو بیدار کرنے اور حاسہ اخلاقی کو اپیل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلق میں اخلاقیات کی پابندی اور اعلی انسانی اوصاف کا اظہار مطلوب یا ضروری نہیں۔ اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ مسلمانوں اور اہل ایمان کے درمیان بھی ہے جو ایمان کے تعلق سے خاص امتیازی اہمیت رکھتا ہے، لیکن عمومی انسانی اخوت میں تمام بنی آدم شریک ہیں اور اس میں مذہب اور عقیدے کے اختلاف سے فرق پیدا نہیں ہوتا۔

قرآن مجید تمام انبیاء کا ذکر انھیں ان کی کافر اور منکر قوموں کا ’’بھائی “ قرار دے کر کرتا ہے، کیونکہ ان کی ساری دعوتی سرگرمی اور جوش واخلاص کے پیچھے یہی اخوت، ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ کام کر رہا ہوتا تھا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے تو اپنی خدمات اور صلاحیتیں مصر کے سرتاپا شرک میں ڈوبے ہوئے معاشرے کی مادی بہبود کے لیے وقف کر دیں تاکہ ملک کے وسائل کی اس طرح حفاظت اور بندوبست کیا جائے کہ خلق خدا بھوکی نہ رہے اور قحط سالی میں بھی اسے غلے کی نایابی کی وجہ سے مشکل پیش نہ آئے۔


معاشرے میں بنیادی اخلاقیات کی پابندی کا ماحول عام ہو، اس کے لیے اولین شرط سماجی انصاف اور ہر سطح پر قانون کی پاسداری ہے۔ طاقتور اگر قانون کے تابع نہیں تو معاشرے میں بنیادی اخلاقیات کی پابندی قدر نہیں بن سکتی۔ انسان بنیادی طور پر حیوان ہے اور ایک اخلاقی وجود بننے کے لیے اسے سخت ریاضت اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حیوانی جبلت کا ظہور اصلاً‌ چھینا جھپٹی میں ہوتا ہے۔ جو معاشرہ اسی جبلی سطح کی عکاسی پیش کرتا ہو، وہاں ایسے ہی انسان پیدا ہوں گے۔ بڑے پیمانے پر اخلاقیات کے پابند انسان ایسے معاشرے میں ہی بن سکتے ہیں جس میں self-esteem  کا احساس اخلاقیات کی پابندی سے وابستہ ہوجائے اور انسان جھوٹ، دھوکہ اور فراڈ کو خود اپنے لیے باعث توہین سمجھنے لگے۔ یہ ملاپ زیادہ تر انسانوں کے لیے ایک خاص ماحول میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ ماحول سے قطع نظر کرتے ہوئے، افراد سے انفرادی سطح پر یہ توقع کرنا کہ وہ خود سے اچھے انسان بن جائیں، بہت محدود سطح پر ہی درست ہے، سماج کی عمومی تربیت اس اصول پر نہیں ہو سکتی۔ پس اچھے انسان بنانے کی اولین شرط مقتدر طبقوں کا خود کو چھینا جھپٹی کی جبلت سے بلند کرنا ہے۔

شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنی کتاب ’’منصب امامت“ میں مغلیہ دور کے  اشرافیہ  کے طرز زندگی  پر تنقید کرتے ہوئے  لکھا ہے کہ حکمران طبقوں کی جانب سے آرام وآسائش اور خواہشات کی تسکین کو اہمیت دینے کے رجحان نے مملکت کی اخلاقی حالت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں ظلم واستحصال کے اضافے میں شدت آئی ہے۔ شاہ اسماعیلؒ فرماتے ہیں  کہ ایسا اس لیے ہے کہ اسراف کے لیے مسلسل دولت کے حصول کی ضرورت ہے اور دولت جمع کرنے کی نہ ختم ہونے والی ضرورت نے ناانصافی کے متعدد دروازے کھول دیے ہیں، جیسے غریبوں کا استحصال کرنا اور تاجروں اور صنعت کاروں کے مفادات کو بالکل خاطر میں نہ لانا۔ مزید برآں چونکہ سیاسی اشرافیہ کھیل کود اور آرام وآسائش میں مگن ہے، اس لیے سلطنت کا امن وامان اور انصاف کا نظام ناکارہ ہو گیا ہے۔ حکمران کے لحاظ اور نگرانی سے بے پروا رعایا ایک دوسرے کے ساتھ ظلم اور ناانصافی پر اتر آئے ہیں۔ اس طرح سے حکمرانوں کے اسراف وعیاشی نے پوری امت کی اخلاقی عمارت کو متزلزل کر دیا ہے۔

اسی طرح یہ تصور کہ ظاہراً‌ مذہبی ہونے کا عملی اخلاقیات کے ساتھ کوئی تعلق ہے، روزمرہ کے تجربے سے بالکل غلط ثابت ہو چکا ہے اور سیدنا عمر جیسے مذہبی عبقری باقاعدہ اپنے عمال کو یہ سمجھاتے تھے کہ کسی آدمی کے نماز روزے سے دھوکے میں نہ پڑیں اور جب تک اس کو معاملات میں نہ آزما لیں، اس پر اندھا اعتبار نہ کریں۔   حسن بصریؒ نے ایک روایت میں مرسلاً‌ نقل کیا ہے کہ

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا يَغُرَّنَّ صَلاةُ امْرِئٍ وَلا صِيَامُهُ، مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ صَلَّى، وَلَكِنْ لا دِينَ لِمَنْ لا أَمَانَةَ لَهُ ". (جامع معمر بن راشد، رقم ۸۰۰)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کسی آدمی کی نماز یا روزہ (اس کو یا لوگوں کو) دھوکے میں نہ ڈالے۔ جو چاہے روزے رکھے اور جو چاہے نماز پڑھے، لیکن جو امانت دار نہیں، اس کا کوئی دین نہیں۔“

سچ پوچھیں تو ہمارا جو ظاہری دین داری اور فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی مذہب کا تصور ہے، اس سے یہ خوش گمانی پیدا نہیں ہوتی کہ مذہبی آدمی بنیادی اخلاقیات کا اچھا نمونہ ہوگا۔ اس کے بالکل برعکس، یہ امکان زیادہ ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کی دین داری اور تعصب اسے بداخلاقی کا نفسیاتی جواز مہیا کریں گے۔

انسانی رویوں میں اتنے واضح فرق کی اہمیت اور انسانی نفسیات پر اس کے اثرات کو جھٹلانے کے لیے یہ ’’اعتقادی “ قضیہ قطعاً‌ ناکافی ہے کہ عمل جتنا بھی اچھا ہو، ایمان کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایک خاص سیاق میں اور کئی قیود کے ساتھ یہ بات علم الکلام میں درست ہو سکتی ہے، لیکن انسانی سطح پر اخلاقی رویوں کے تقابل کی بحث میں یہ مقدمہ پیش کر کے ہم خدا کے تصور کو بھی مجروح کر رہے ہیں اور ایمان کو بھی مزید مشکل بنا رہے ہیں، اور اس کا نفسیاتی محرک صرف یہ ہے کہ ہم اپنی اجتماعی بدعملی پر خود کو شرمندگی سے بچا سکیں۔ ہمیں ڈرنا چاہیے کہ جس نام کے ’’ایمان “ پر ہم خود کو ’’خیر امت“ باور کیے بیٹھے ہیں، اس کی اس ناقدری پر خدا نے یہ نعمت بھی دنیا کی طاقت ور اور انسانی اخلاقیات کے لحاظ سے ہم سے بہتر قوموں کو دے دینے کا فیصلہ کر لیا تو ہماری جگہ دنیا اور آخرت میں کہاں ہوگی؟

وان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم

دین اور معاشرہ

(ستمبر ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter