(خواتین سے متعلق معاشرتی رویوں اور مختلف قانونی وسماجی مسائل کے حوالے سے سوشل میڈیا کے لیے وقتاً فوقتاً جو توضیحات قلم بند کی گئیں، ان کا ایک انتخاب یہاں پیش کیا رہا ہے۔)
عورت کی تکریم کا تصور اور سماجی رویے
ہمارے سماجی تناظر میں عورت کا وجود، شناخت اور حیثیت تسلیم کیے جانے یا نہ کیے جانے کی کشمکش کی تین تکونیں ہیں، یعنی گھر، گھر سے باہر عمومی معاشرہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی منڈی۔ گھر اور منڈی دو متوازی قوتیں ہیں جو معاشرے کو اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان دونوں کے درمیان معاشرہ اپنے رویے، اخلاقیات اور حدود وضوابط متعین کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔
گھر روایتی سماجی اخلاقیات کے دائرے میں عورت کو تحفظ وتکریم اور کفالت فراہم کرنے کا بندوبست ہے جس کے ساتھ پابندیوں اور قدغنوں کا ایک ایسا مجموعہ وابستہ ہے جو عورت کو بڑی حد تک ایک ملکیتی شے بنا دیتی ہیں اور بہت سی صورتوں میں غیر انسانی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔ تحفظ اور ملکیت کا یہ امتزاج جدید معاشی نظام سے وجود میں آنے والی معاشرت میں فٹ نہیں بیٹھتا اور دن بدن اپنی گرفت کھوتا جا رہا ہے۔
جدید معاشی نظام عورت کو ان قدغنوں سے آزادی کی ضمانت اور پابندیوں سے بغاوت کا حوصلہ اور وسائل دیتا ہے، تاہم ہمارے سیاق میں یہ نظام عورت کو اس بغاوت کا اور اپنی آزادی کو بروئے کار لانے کا سب سے قیمتی معاوضہ جس میدان میں دیتا ہے، وہ صنفی حسن اور صنفی تلذذ کا میدان ہے۔ اس نوعیت کی "آزادیاں" خریدنے کے لیے پوری منڈی اہلاً وسہلاً کا بورڈ آویزاں کیے ہوئے ہے۔
اس کشمکش میں عورت کے لیے انفرادی ملکیتی حیثیت سے آزادی حاصل کر کے بازار نمائش میں اجتماعی ملکیتی حیثیت قبول کرنے کا فیصلہ تو بہت آسان اور پرکشش ہے، لیکن ظاہر ہے، یہ ایک خاص طبقے کا ہی انتخاب ہو سکتا ہے۔ عورت بطور صنف اجتماعی طور پر یہ انتخاب کرنا بھی نہیں چاہتی اور بازار بھی اس کے مواقع فراہم نہیں کرتا۔
معاشرہ اس وقت انھی دو ملکیتی نظاموں کے درمیان کشمکش سے گزر رہا ہے۔ معاشرے کا آئیڈیل یہ ہے کہ عورت کو فرد کے طور پر بھی اور صنف کے طور پر بھی تقدس اور احترام کے ساتھ آزادی اور اختیار سے بہرہ مند کیا جائے تاکہ جو تحفظ وتکریم اس کو گھر دیتا ہے، وہ ملکیتی شے بننے سے مشروط نہ رہے اور جو آزادی اس کو جدید معاشی نظام دیتا ہے، اس کے اظہار کا میدان صرف بازار حسن نہ ہو، بلکہ وہ اسی تکریم اور تحفظ کے ساتھ تمام معاشرتی سرگرمیوں کا حصہ بن سکے جو اسے گھر میں دی جاتی ہے۔
گھر کے رشتوں کو جو احترام دیا جاتا ہے، اسی احترام کو صنف کے حوالے سے معاشرتی قدر بنانے پر محنت کی ضرورت ہے۔ رشتوں کا احترام ان خاص افراد تک محدود ہوتا ہے جن سے رشتہ ہوتا ہے۔ صنف کا احترام ہوگا تو وہ جو بھی ہوگی اور جہاں بھی ہوگی، قابل احترام ہوگی۔ اس تناظر میں "آزادی" کا مغربی فلسفہ اور جسم اور مرضی جیسے سلوگن ہمارے سیاق میں مددگار نہیں، بلکہ الٹا نتیجہ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کا پیغام اور تاثیر عورت کی تکریم نہیں جو ایک اخلاقی احساس ہے۔ ان کا پیغام ایک طرف انفرادیت کے نفسی احساس اور صنفین کے مابین بے گانگی اور منافرت کو فروغ دینا اور دوسری طرف نسوانی جسم کو جنس بازار بنانے میں سرمایہ دارانہ منڈی کو سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ اس کی خرید وفروخت کرنے والے کسی اخلاقی ججمنٹ کا موضوع نہ بنائے جا سکیں اور "آزادی" کی قدر کے تحت ان کو قانونی اور سماجی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
تکریم کو معاشرتی قدر بنانا انسانوں کے باہمی تعلق کو ایک اخلاقی اصول پر استوار کرنا اور سماج میں محاسبے کا ایک خودکار میکنزم تشکیل دینا ہے۔ آزادی کو نقطہ حوالہ بنانا اس کے برعکس صنفین میں ایک بے گانگی اور کشمکش پیدا کرنا ہے جس میں تحفظ کی بنیادی ضمانت ریاست کا ڈنڈا ہے۔ جہاں ریاست یہ تحفظ مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو، وہاں عدم تحفظ کے مظاہر پر صرف لعن طعن ہو سکتا ہے یا کچھ قوانین بنوا کر حصول طاقت کا نفسیاتی احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔ دونوں طریقے نتیجے میں غیر موثر رہتے ہیں اور صرف فرسٹریشن کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
آئیے، اپنے معاشرے کو، اپنی اقدار کو، اپنی ریاست کو اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنے وسائل کو خود اپنی نظر سے دیکھنا سیکھیں۔ مستعار اور اجنبی تصورات کے سحر میں گرفتار ہو کر خود کو تباہ نہ کریں۔
بیوی کی تادیب کے حوالے سے شوہر کا اختیار
بعض دفعہ شان نزول، کسی قرآنی ہدایت کا صحیح تناظر سمجھنے میں بہت مدد دیتی ہے۔ شوہر کو بیویوں کی تادیب کا اختیار دینے اور ایک آپشن کے طور پر ان کی پٹائی کی اجازت بھی اسی نوع کی چیز ہے۔ روایات میں بیان ہوا ہے کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کی سرکشی پر اسے تھپڑ مار دیا تو وہ اپنے والد کے ساتھ مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے شوہر سے قصاص لے سکتی ہے، یعنی بدلے میں اسے تھپڑ مار سکتی ہے۔ وہ یہ اجازت لے کر ابھی جا ہی رہی تھی کہ جبریل یہ آیت لے کر آ گئے اور آپ نے انھیں واپس بلا کر کہا کہ ہم نے کچھ اور ارادہ کیا تھا، لیکن اللہ کا ارادہ کچھ اور ہے اور اللہ ہی کا ارادہ بہتر ہے۔
اس پس منظر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کا اصل مقصد گھر کے نظم میں شوہر کی حیثیت کو واضح کرنا ہے۔ اس کا اصل اثر نفسیاتی ہے اور گھر کے ڈسپلن کو قائم رکھنے میں یہ شوہروں کے اختیار کو واضح کرتی ہے تاکہ سرکش بیویاں متنبہ رہیں۔ تاہم دین کو جو اصل رویہ مطلوب ہے، وہ وہی ہے جو اسوہ حسنہ سے واضح ہوتا ہے۔ آپ نے کبھی خود اپنی بیویوں یا خادموں کے خلاف یہ اختیار استعمال نہیں فرمایا، بلکہ بعض شوہروں کی طرف سے اختیار کے سوء استعمال کو دیکھتے ہوئے ایک موقع پر اس پر پابندی بھی لگا دی۔ لیکن اس کا الٹا نتیجہ نکلا اور شوہروں کے لیے انھیں سنبھالنا مشکل ہو گیا تو پھر دوبارہ اجازت دینی پڑی۔
اس تناظر میں ماضی قریب کے ممتاز تیونسی علامہ ابن عاشور نے واضح کیا ہے کہ شوہروں کو اپنی بیویوں کو مارنے کی جو اجازت دی گئی، وہ ان لوگوں کے عرف کے لحاظ سے ہے جو اس کو معیوب نہ سمجھتے ہوں اور ان کے ہاں اسے شوہر کا ایک معمول کا اختیار مانا جاتا ہو۔ مزید یہ کہ یہ چونکہ محض ایک اجازت ہے جو کئی شرائط کے ساتھ مشروط ہے، مثلاً ناجائز تعدی نہ کرنا، اور اس میں معاشرتی عرف کا بھی لحاظ ہے، اس لیے حکومت اس اختیار پر پابندی لگا سکتی اور اسے قابل تعزیر عمل قرار دے سکتی ہے۔
اس بحث کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بیوی کی طرف سے سرکشی کے رویے پر اس کی تادیب کا معاملہ یک طرفہ نہیں ہے، بلکہ اسلامی فقہ میں زوج ناشز یعنی سرکش شوہر کی تادیب کا بھی ایک پورا ضابطہ بیان ہوا ہے جو ہمارے ہاں کہیں زیر بحث نہیں آتا۔ جامعۃ الکویت کے کلیۃ الشریعہ کے أستاذ مسعود صبری نے اپنی ایک تحریر میں ان تعزیری وتادیبی اقدامات کی اچھی وضاحت کی گئی ہے جو سرکش شوہر کے خلاف کیے جا سکتے ہیں۔
ان فقہی احکام کا خلاصہ یہ ہے کہ
۱۔ اگر عورت، شوہر کی شکایت کرے تو قاضی ان کے ہمسایوں کو یہ ذمہ داری دے سکتا ہے کہ وہ ان کے احوال کی نگرانی کریں اور شوہر کو زیادتی سے روکیں۔ اگر ہمسایے ذمہ دار نہ ہوں تو قاضی شوہر کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی جگہ پر گھر لے کر بیوی کو رکھے جہاں ارد گرد کے لوگ ان پر نظر رکھ سکیں۔
۲۔ شوہر کے خلاف شکایت آنے پر قاضی اس کو بھی پہلے زبانی وعظ ونصیحت اور پھر سخت سرزنش کرنے اور آخر میں جسمانی سزا کا طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔
۳۔ اگر شوہر زیادتی سے باز نہ آئے اور بیوی تعزیر کی طالب ہو تو قاضی کو آخری چارے کے طور پر اس پر مناستب تعزیری سزا بھی نافذ کرنی چاہیے۔
۴۔ اگر شوہر، بیوی کے کسی بھی حق کی ادائیگی میں کوتاہی کر رہا ہو تو قاضی جبرا اس کو اس کا حق دلوائے گا۔
۵۔ اگر بیوی کو زیادتی سے محفوظ رکھنے کے لیے شوہر کو کچھ عرصے کے لیے بیوی سے الگ کر دینے کی ضرورت پیش آئے تو قاضی کو اس کا اختیار بھی حاصل ہے تاآنکہ شوہر اصلاح احوال کر لے۔
۶۔ اس کے علاوہ یہ بھی اس قانون کا حصہ ہے کہ شوہر کی طرف سے تشدد کے ارتکاب پر بیوی جسمانی طور پر مجروح ہو تو اس پر قصاص ودیت کا قانون جاری ہوگا۔
رشتہ نکاح میں زوجین کے باہمی حقوق واختیارات
سوالات
1۔ موجودہ زمانے میں شوہر کی طرح بیوی بھی کمائی کرتی ہے. دونوں مل کر گھر کے مالی معاملات دیکھتے ہیں۔ تو کیا بیوی پر یہ لازم ہے کہ وہ گھر کی ذمہ داریوں کے علاوہ بھی اپنی تمام تر کمائی شوہر کو دے یا اپنے خرچ کا حساب اس کو دے؟ کیونکہ وہ خدا کے بعد شوہر کے آگے جواب دہ ہے؟
2۔ اکثر یہ سنا ہے کہ بیوی نفل عبادت بھی شوہر کی مرضی سے کرنے کی پابند ہے، اس لئے اگر وہ اپنی تنخواہ یا اور مال میں کسی کی مدد کرتی ہے تو اسے شوہر سے اجازت لینی پڑے گی۔
3۔ مرد شریعت کی رو سے ہر بات کو عورت پر لازم کر دیتا ہے. کیا ان حقوق کی کوئی فہرست ہے جو شریعت نے مرد کو دیے ہیں تاکہ جہاں بات عورت کے کمپرومائزز کے باوجود نہ سنبھل سکے، وہاں یہ فہرست دکھائی جا سکے؟
4۔ کیا بیوی خاندانی رشتہ داریاں اور تعلقات بھی مرد کی مرضی کے تحت نبھائے گی مثلاً رحمی اور غیر رحمی رشتہ داری میں خوشی اور غمی میں شرکت یا پیشہ ورانہ تعلقات؟
جوابات
پہلے دونوں سوالوں کا جواب میرے نزدیک نفی میں ہے۔ اگر بیوی کماتی ہے تو گھر کی ذمہ داریوں میں شرکت کے حوالے سے باہمی مفاہمت سے جو بات طے ہو، بیوی اسی کی پابند ہے۔ ساری کمائی شوہر کو دے دینے کی پابند نہیں اور نہ اپنی کمائی میں اپنی صوابدید سے کوئی بھی تصرف کرنے میں وہ شوہر کو جواب دہ ہے۔ نفل عبادت میں بھی وہ وہاں شوہر کی اجازت کی پابند ہے جہاں عبادت سے گھر کی ذمہ داریوں یا شوہر کے حقوق پر کوئی زد پڑتی ہو۔ یہ کوئی مطلق اصول نہیں ہے۔
تیسرے سوال سے متعلق یہ کہنا ہے کہ حقوق کی ایسی کوئی متعین فہرست شریعت نے نہیں دی جو ہر ہر حالت میں کسی کمی بیشی کے بغیر حتمی قرار دی جا سکے۔ حقوق اور ذمہ داریوں میں عرف اور باہمی مفاہمت کا بہت دخل ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے "ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف" کا اصول بیان کیا ہے۔ کسی معاشرے میں جو طریقہ معروف اور مروج ہو اور زوجین میں اس پر باہمی مفاہمت ہو گئی ہو تو اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ تاہم معروف اور رواج چونکہ شریعت کا حکم نہیں، اس لیے اس پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے یعنی تنقید اور اصلاح کے عمل سے اس کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
البتہ شوہر کو بیوی پر جو حق حاصل نہیں، وہ شاید گنوائے جا سکتے ہیں۔ انھی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بیوی کی ملکیت میں اس کی رضامندی اور باہمی مفاہمت کے بغیر کوئی حق نہیں جتا سکتا۔ شریعت نے اس کو ایسا کوئی اختیار نہیں دیا۔ اگر دونوں مل کر گھر کا خرچ چلاتے ہیں تو آمدن میں تصرف کے لیے ایک حد تک دونوں کی باہمی رضامندی کا نکتہ شامل ہو جاتا ہے جیسے باہمی مفاہمت کے اصول کے تحت طے کیا جا سکتا ہے۔ اگر دونوں کی کل آمدن کو جمع کرنا گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے ضروری ہے تو مفاہمت سے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اصولاً یہ واضح رہنا چاہیے کہ شوہر کا بطور شوہر کے یہ شرعی حق نہیں ہے کہ بیوی اپنے ذاتی مال میں بھی اس کی اجازت یا صواب دید کی پابند ہو۔
چوتھے سوال سے متعلق بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ رشتہ داری کے حقوق اور سماجی تعلقات کے باب میں بھی عرف ہی کا اصول بنیاد ہے، لیکن یہ صرف عورت کے لیے نہیں ہے، شوہر بھی عرفی اخلاقیات کا پابند ہے۔ رشتہ داروں کی خوشی غمی میں شرکت کے حوالے سے جو بھی عرف ہو، شوہر اور بیوی کو اس کی پاسداری کرنی چاہیے۔ پیشہ ورانہ تعلقات مثلاً کولیگز کی خوشی غمی میں شرکت بھی عرفا ملازمت کا حصہ ہوتی ہے۔ اگر عورت کے ملازمت وغیرہ کرنے پر باہمی مفاہمت ہے تو یہ چیزیں بھی خود بخود اس کا حصہ ہیں۔
خواتین کی گواہی کا مسئلہ
اسلامی قانون میں خواتین کی گواہی کا مسئلہ ان دنوں پھر زیربحث ہے جس کا پس منظر بنک کے ذریعے سے مالیاتی لین دین میں خواتین کو درپیش مشکلات ہیں۔ قانون شہادت مجریہ 1984 کے مطابق مالی معاملات سے متعلق کسی دستاویز پر دو مردوں یا ایک مرد اور دو خواتین کے دستخط ہونے ضروری ہیں۔ اس تناظر میں بنک اپنے کام کو عملاً آسان بنانے کے لیے مالیاتی دستاویزات پر دو مردوں ہی کے دستخط قبول کرتے ہیں تاکہ تین یا چار افراد کا ڈیٹا جمع نہ کرنا پڑے اور فارم پر بھی دو ہی افراد کے دستخطوں کی جگہ رکھی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں خواتین کو، جو اب معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے شریک ہو رہی ہیں، مختلف قسم کی دقتوں کا سامنا ہے جس کی تفصیل ۳ اپریل کو ٹربیون میں شائع ہونے والے اس مضمون میں دی گئی ہے۔
https://tribune.com.pk/.../two-women-still-equal-one-man
یہ ایک نامناسب صورت حال ہے جس کا متعلقہ قانونی اداروں کو نوٹس لینا چاہیے۔ جہاں تک شرعی وفقہی پہلو کا تعلق ہے تو یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس پر دور جدید میں کافی بحث ہو چکی ہے اور بہت مضبوط علمی بنیادوں پر یہ تعبیر سامنے آ چکی ہے کہ قرآن کی متعلقہ آیت میں ’’قانون’’ کے بجائے ’’ارشاد’’ کی نوعیت کی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ قرض کے لین دین میں جھگڑے اور حق تلفی سے بچنے کی جتنی بھی ممکن ہو، پیش بندی کر لی جائے اور کہیں خواتین پر گواہی کی ذمہ داری ڈالنی پڑے تو اس میں ان کو سہارا بھی فراہم کیا جائے۔ اس میں عدالت کو کسی خاص ضابطے کا پابند نہیں ٹھہرایا گیا اور نہ خواتین کی گواہی کو مردوں سے کم معتبر قرار دینا مقصود ہے۔ ماضی کے اہل علم میں سے بھی علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم نے اس نکتے کو بہت وضاحت سے بیان کیا ہے۔
یہ ذہن میں رہے کہ مروجہ قانون شہادت بھی کلیتاً جمہور کی فقہی آرا پر مبنی نہیں ہے۔ مثلاً مالیاتی معاملات اور حدود وغیرہ کے علاوہ باقی تمام معاملات میں ایک مرد یا ایک عورت یا کسی بھی دوسرے ذریعہ ثبوت کو کافی قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی کلاسیکی فقہی موقف سے کافی حد تک مختلف بات ہے۔
(b) in all other matters, the Court may accept, or act on the testimony of one man or one woman or such other evidence as the circumstances of the case may warrant.
اس وجہ سے ہماری رائے میں فقہاء کے روایتی موقف کا احترام رکھتے ہوئے، کوئی وجہ نہیں کہ جہاں بہت سے دوسرے اجتہادی مسائل میں قانونی اسلامائزیشن میں غیر معروف یا غیر روایتی آرا کو اختیار کیا گیا ہے، اس مسئلے میں بھی خواتین کی گواہی اور دستخط کو یکساں قانونی حیثیت دیتے ہوئے انھیں درپیش دقتوں اور مشکلات کا ازالہ نہ کیا جائے۔