مطالعہ سنن ابی داود (۵)

سوالات: ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات: ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: احناف مسجد میں نماز ِ جنازہ کے قائل نہیں ہیں حالانکہ مسجد میں نماز جنازہ کی روایت آتی ہے۔ (کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد، حدیث نمبر ۳۱۸۹)

عمارناصر: احناف کے ہاں تعامل سے بھی حکم اخذ کیا جاتاہے۔ عمومی عمل یہی رہا ہے کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر ادا کی جائے۔ عہد نبوی کا جو واقعہ ہے، اس کی مختلف تو جیہات کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً‌ یہ کہ وہ کوئی خاص کیفیت تھی، باہر بارش ہورہی تھی یا کوئی اور وجہ تھی تو اس سے آپ عمومی ضابطہ اخذ نہیں کر سکتے۔

مطیع سید: ایک صحابی نے نذر مانی کہ بیت اللہ کی فتح پر میں بیت المقدس میں جاکر نماز پڑھوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہیں پڑھ لو۔ (کتاب الایمان والنذور، باب من نذر ان یصلی فی بیت المقدس، حدیث نمبر ۳۳۰۵) کیاہم نذرکی ظاہر ی صورت کو چھوڑ سکتے ہیں؟

عمارناصر: جی، بعض صورتوں میں چھوڑ سکتے ہیں۔ یہ دیکھتےہوئے کہ مقصد کسی مقدس اور عبادت والے مقام پر نماز پڑھنا ہے، آپ نے اس شخص سے کہا کہ اس کے لیے اتنا سفر کرنے کے بجائے یہیں مدینہ میں نماز پڑھ لے۔

مطیع سید: ایک دوست نے کہا کہ مجھ سے ایک گناہ سر زد ہو گیا تو میں نے نیت کی کہ میں تین روزے رکھوں گا، لیکن اب تین روزے بہت مشکل لگ رہے ہیں۔ تو کیا اس کی کوئی اور صورت ہو سکتی ہے؟

عمارناصر:نہیں، مشکل لگنا تو کوئی وجہ نہیں۔ اگر باقاعدہ روزوں کی ہی نیت کی تھی تو پھر رکھنے پڑیں گے۔ زیادہ مشکل لگ رہا ہے تو سردیوں میں رکھ لیں۔

مطیع سید: کان سے نکالے گئے سونے کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں خیر نہیں۔ (کتاب البیوع، باب فی استخراج المعادن، حدیث نمبر ۳۳۲۸) یہ بات نبی ﷺ نے کس مفہوم میں ارشاد فرمائی؟

عمارناصر: اس کا بھی یقیناً‌ کوئی خاص سیاق ہے، ورنہ کان سے سونا نکالنے یا نکالے ہوئے سونے کو استعمال کرنے کی ممانعت تو نہیں۔ شارحین کہتے ہیں کہ شاید کان سے سونا نکالنے کا جو طریقہ یا اس کی جو شرائط وغیرہ اس وقت مروج تھیں، ان میں کوئی خرابی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھی یا پھر کوئی اور وجہ ہوگی جس کی وجہ سے آپ نے یہ تبصرہ فرمایا۔ واللہ اعلم

مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیم بن حزام سے فرمایا کہ جو چیز تمھارے پاس موجود نہ ہو، وہ کسی کو نہ بیچو۔ (کتاب البیوع، ابواب الاجارۃ، باب فی الرجل یبیع ما لیس عندہ، حدیث نمبر ۳۵۰۵) کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ چیز ہماری ملکیت میں نہیں ہوتی، لیکن گاہک آتا ہے تو ہم کسی سے چیز لے کر اس کو دے دیتے ہیں۔ تو کیا یہ غلط ہے؟

عمارناصر: نہیں، یہ ٹھیک ہے۔ روایت میں دراصل احتیاط اور سد ذریعہ کے طور پر اس سے منع کیا گیا ہے۔ اصل میں چیز ابھی ملکیت میں نہ ہو تو اس کی فروخت سے بسااوقات تنازع پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، خاص طور پر پرانے دور کی منڈی کو اگر ذہن میں رکھیں۔ آپ نے چیز کا سودا کر لیا ہے، لیکن اب وہ بازار میں آپ کو مل نہیں رہی تو اس میں ایک تو وعدہ خلافی ہو جاتی ہے اور دوسرا یہ جھگڑ ے کا سبب بن سکتا ہے۔

مطیع سید: جس نے قرآن کے بارے میں اپنی کوئی رائے دی، وہ اگر ٹھیک بھی ہوئی تو اس نے غلطی کی۔ (کتاب العلم، باب الکلام فی کتاب اللہ بغیر علم، حدیث نمبر ۳۶۵۲) کیا یہ صرف احتیا ط کے پہلو سے ہے؟

عمارناصر: اپنی طرف سے رائے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بات ایسے ہی ذہن میں آگئی اور وہ بیان کر دی گئی۔ اس میں غیر ذمہ داری کا ایک رویہ جھلک رہا ہے۔ بات تکے سے ٹھیک ہو گئی، لیکن بات کہنے والا اہل نہیں تھا یا اس نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا یا اس کی کوئی سند اس کے پا س نہیں تھی تو یہ انداز قابل مذمت ہے، چاہے تکا ٹھیک لگ گیا ہو۔

مطیع سید: گھوڑے کے گوشت کو احناف مکروہ قرار دیتے ہیں جبکہ حدیث میں تو اس کی اجازت آئی ہے۔ (کتاب الاطعمۃ، باب فی اکل لحوم الخیل، حدیث نمبر ۳۷۸۸) احناف کی کیا دلیل ہے؟ کیا وہ بھی کسی روایت کی بنیاد پر کر اہت کا حکم لگاتے ہیں؟

عمارناصر: یہ امام ابوحنیفہ کی رائے ہے، امام ابویوسف اور امام محمد اس سے اتفاق نہیں کرتے اور انھی احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کراہت اس پہلو سے کہتے ہیں کہ گھوڑا اصل میں گوشت کھانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ سواری کے لیے ہے۔ آپ اس کو گوشت کھانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیں گے تو دوسرا پہلو متاثر ہوگا۔

مطیع سید: تو اس بات کو کیا گدھے پر بھی قیاس کر سکتے ہیں؟

عمارناصر: نہیں، امام ابوحنیفہ اس پر قیاس تو نہیں کرتے۔ البتہ یہ استدلال وہ کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں گھوڑے، گدھے اور خچر کا ذکر سواری کے جانور کے طور پر ہوا ہے۔ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً (النحل، آیت ۸) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں کا اصل مقصد تخلیق سواری ہے۔

مطیع سید: حضرت جویریہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی بات کی اور ان کے رضامندی ظاہر کرنے پر یہ نکاح ہو گیا۔ (کتاب العتق، باب فی بیع المکاتب اذا فسخت الکتابۃ، حدیث نمبر ۳۹۳۱) یعنی حضرت جویریہ نے خود اپنے نکاح کا معاملہ طے کیا۔ کیا اس روایت سے احناف دلیل لیتے ہیں کہ عورت خود نکاح کر سکتی ہے؟

عمارناصر: یہ واقعہ بھی دلیل بن سکتا ہے، لیکن اس خاص واقعہ کے علاوہ احناف کی ایک توعقلی دلیل ہے کہ لڑکی اگر بالغ ہے تو وہ اپنا فیصلہ کر سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ قرآن مجید نے بھی نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی ہے جس سے لگتا ہے کہ عورت اس معاملے میں خود اختیار رکھتی ہے۔ تو دو دلائل ہیں۔ ایک نقلی دلیل ہے کہ قرآن کی آیات میں نسبتِ نکاح عورت کی طرف کی گئی ہے اور دوسری عقلی دلیل ہے کہ اگر وہ بالغ ہے تو اس نے خود اپنا فیصلہ کرنا ہے۔

مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ ایک غلام کا اگر ایک حصہ آزاد کیا جائے تو اس کو مکمل طور پر آزاد کرنا ضروری ہے (کتاب العتق، باب فی من اعتق نصیبا لہ من مملوک، حدیث نمبر ۳۹۳۳) جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جتنا حصہ آزاد کیا گیا، بس اتنا ہی آزاد ہے، باقی حصے آزاد نہیں ہوں گے۔ (کتاب العتق، باب فی من روی انہ لا یستسعی، حدیث نمبر ۳۹۴۰)

عمارناصر: حدیث کے دیگر طرق میں ا س کی وضاحت موجود ہے۔ اگر ایک غلام کئی افراد کے درمیان مشترک ہے اور ان میں سے ایک مالک اپنا حصہ آزاد کر دے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آزاد کرنے والے کے مال میں گنجائش ہو تو وہ ذمہ دار ہے کہ باقی مالکوں کو ان کے حصے کی قیمت ادا کر کے پورے غلام کو آزاد کر دے۔ لیکن اگر اس کے مال میں گنجائش نہ ہو تو پھر اس کے حصے کا غلام آزاد ہو جائے گا اور باقی مالکوں کی ملکیت باقی رہے گی۔ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ اگر آزاد کرنے والے کے مال میں گنجائش نہ ہو تو پھر غلام کو موقع دیا جائے گا کہ وہ کہیں سے رقم جمع کر کے اپنے باقی مالکوں کو ادا کر دے اور مکمل آزادی حاصل کر لے۔

مطیع سید: ایک صحابی وفات پا گئے۔ انہوں نے ایک غلام مدبر کیا ہوا تھا، یعنی اس سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی وفات پر وہ آزاد ہو جائے گا۔ آپ ﷺنے اس صحابی کی وفات کے بعد اس غلام کو فروخت فرما دیا۔ (کتاب العتق، باب فی بیع المدبر، حدیث نمبر ۳۹۵۵) ایسا کیوں کیا گیا؟

عمارناصر: اس کی وجہ روایت میں نقل ہوئی ہے کہ مرنے والے کے ذمے قرض تھا، اور غلام کے علاوہ ادائیگی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ایسی صورت میں قرض داروں کا حق مقدم ہے۔ مرنے والے کی وصیت کو منسوخ کر کے پہلے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا۔

مطیع سید: احناف کاموقف یہ ہے کہ مدبر کیے ہوئے غلام کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔

عمارناصر: احناف کا یہ موقف غالباً‌ عام حالات میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس غلام کو مالک نے کہہ دیا ہو کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو جا ؤ گے تو اس کو بنیادی طورپر آزادی کا پروانہ دے دیا گیا ہے۔ ایسے غلام کو مالک اب فروخت نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر ایسی کوئی خاص صورت حال ہو جیسی اس واقعے میں بیان ہوئی ہے اور مرنے والے کے پاس مدبر کے علاوہ کوئی مال نہ ہو اور ادھر قرض خواہ کھڑے ہوں تو میرے خیال میں احناف شاید اس صورت میں اسے فروخت کرنے پر پابندی نہیں لگاتے۔ اس کی احناف کی فقہی کتب سے تحقیق کر لینی چاہیے۔

مطیع سید: ولد الزنا شرّالثلاثة۔ (کتاب العتق، باب فی عتق ولد الزنا، حدیث نمبر ۳۹۶۳) ولد الزنا اپنے والدین سے بھی بدتر ہے۔ اس میں اس بچے کا کیا قصور ہے؟

عمارناصر: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے یہ روایت پیش کی گئی تو انہوں نے اس کی توجیہ یہ کی کہ ولد الزنا شر الثلاثة اذا عمل بعمل ابویه۔ یعنی اگر وہ بھی کردار کے لحاظ سے انھی جیسا ہو اور اسی راہ پر چل رہا ہو تو پھر وہ ان دونوں سے بد تر ہے۔

مطیع سید: قرآن حکیم کے حروف کے حوالےسے بہت سی روایات آتی ہیں۔ کچھ صحابی کہتے ہیں کہ ہم ایک لفظ کو زبر سے پڑھتے تھے، کچھ کہتے ہیں کہ زیر سے پڑھتے تھے، جیسے ھیتَ لک اور ھیتُ لک۔ ایک روایت میں قولوا حطة نغفر لکم کی جگہ قولوا حطة تغفر لکم آیا ہے۔ (کتاب الحروف والقراءات، حدیث نمبر ۴۰۰۶) کئی جگہ حرکات میں اور کئی مقامات پر صیغوں میں تبدیلی آتی ہے۔ جب قرآن مجید کو مصحف میں اکٹھا کیا گیا تو اس میں یہ کیسے طے کیا گیا کہ دونوں میں سے یہ حرکت اور یہ صیغہ لیا جائے گا؟

عمارناصر: اس بنیاد پر تو مصحف کو جمع کیا ہی نہیں گیا کہ کسی لفظ کو پڑھا کیسے جائے گا۔ مصحف کو جمع کرنے کی وجہ اور اس کا اصول تو کچھ اور تھا۔ اصل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے لوگوں کو قرآن سکھایا اور اس کے ساتھ ان کو اجازت دی کہ بہت سے الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے۔ مثلًا یہ کہ بعینہ ان لفظوں کے علاوہ ملتے جلتے اور ہم معنی لفظ بھی پڑھے جا سکتے تھے جن سے مفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسی طرح لہجوں کا اختلاف تھا، اس میں بھی وسعت رکھی گئی۔ بعض مقامات پر ایک لفظ کو غائب یا حاضر کے مختلف صیغوں میں پڑھا جائے تو مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کی بھی اجازت دی گئی۔ بعض جگہوں پر لفظوں کی کمی بیشی بھی نظر آتی ہے۔ ایک قراءت میں ایک لفظ موجود ہے، دوسری میں نہیں ہے۔ مشہور مثال ہے: وما خلق الذکر والانثی جو بعض قراءتوں میں یوں ہے: والذکر والانثی۔ بعض جگہ الفاظ کی تقدیم وتاخیر ہے۔ جیسے معروف قراءت میں ہے: اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح جبکہ ایک قراءت میں ہے : اذا جاء فتح اللّٰہ والنصر۔ اس طرح کے مختلف طریقوں سے قرآن کو پڑھنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر یہ پابندی عائد کر دی جاتی کہ قرآن کو بالکل اسی طریقے پر پڑھا جائے جو سکھایا گیا ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی نہ ہوتو بہت بڑی مشکل پیدا ہو جاتی۔ خاص طور پر عام لوگ جو زیادہ تر امی تھے اور پڑھے لکھے نہیں تھے، اس معاملے میں بہت حساس ہو جاتے اور غلطی کے خوف سے قرآن کی تلاوت کی طرف راغب ہونے کے بجائے اس سے گریز کرنے لگتے۔ ان سب مصلحتوں سے قراءت میں مختلف نوعیت کے اختلاف کی اجازت دے دی گئی۔ اجازت کی نوعیت بھی ایک طرح کی نہیں تھی۔ بعض جگہ آپ ﷺ خود ایک سے زیادہ طریقوں سے پڑھنا سکھا دیتے تھے۔ بعض جگہوں پر ایسے معلوم ہو تا ہے کہ صحابہ نے وسعت کو دیکھتے ہوئے اجتہادا ً‌بھی کچھ قراءتیں اختیار کرلیں۔ اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ گویا اس معاملے میں خاصی لچک تھی۔

حضرت عثمان کے دور میں جب بعض علاقوں میں ایسے اختلافات سے جھگڑے پیدا ہونا شروع ہو گئے اور لوگوں نے ایک دوسرے کی تکفیر شروع کر دی تو اس کی کو شش کی گئی کہ ان اختلافات کو بڑھنے سے روکا جائے اور جتنا ممکن ہو، ان کو محدود کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک غلط فہمی عام طور پر پائی جاتی ہے اور علوم القرآن کے ماہرین یہ مفروضہ نقل کر دیتے ہیں کہ حضرت عثمان نے جو نسخے مرتب کروائے تھے، ان میں قراء ت کے ہر طرح کے اختلاف کو متن میں سمو دینے کی کوشش کی گئی، حالانکہ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور عقلاً‌ بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ جہاں اعراب کا اختلاف ہے یا ایک لفظ کے صیغے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن وہ لکھا ایک ہی طرح سے جاتا ہے، ایسے اختلافات کو کیسے متن میں واضح کیا جا سکتا تھا۔ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اگر کچھ لوگوں کی قراءت میں بعض منسوخ آیات شامل تھیں تو انھیں مصحف میں شامل نہ کر کے ان کی تلاوت واشاعت کا راستہ روک دیا گیا۔ اسی طرح الفاظ کی کمی بیشی یا تقدیم وتاخیر پر جو اختلافات مبنی تھے، وہ بھی مصحف کے مدون کرنے جانے سے خارج ہو گئے۔ لیکن کسی لفظ کو پڑھنے کے جو مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، ان کو ختم کرنا یا محدود کرنا مصحف عثمانی کے ذریعے سے ممکن نہیں تھا اور نہ یہ اس کا مقصد تھا۔

کسی لفظ کی قراءت جن جن طریقوں سے ہو سکتی ہے، وہ زبانی ہی نقل ہو رہے تھے اور مصحف کی تدوین کے بعد بھی نقل ہوتے رہے۔ قرآن بنیادی طور پر زبانی نقل ہواہے اور اس کی قراءتیں بھی زبانی ہی نقل ہوئی ہیں۔ چنانچہ جن قراء توں کو حضرت عثمان نے متن میں شامل نہیں کیا تھا، ان کی تلاوت بھی کلیتاً‌ فوری طور پر موقوف نہیں ہو گئی۔ لوگ ان کے مطابق بھی پڑھتے رہے اور لوگوں کو سکھاتے بھی رہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت تو معروف ہے جو ایک زمانے تک کوفہ میں رائج رہی اور ان کے شاگردوں کے حلقے میں اس کو مصحف عثمانی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ بعد میں پھر جب ان قراءتوں کو کتابوں میں مدون کیاگیا تو عمومی طور پر اس چیز کو ایک معیار کے طور پر قبول کر لیا گیا کہ مصحف عثمانی کا متن جن قراءتوں کی گنجائش اپنے اندر نہیں رکھتا، انھیں متفق علیہ اور معیاری قراءت شمار نہ کیا جائے، بلکہ شاذ قراءت کے زمرے میں رکھا جائے۔

مطیع سید: پھرکس دور میں یہ چیزیں کیسے طے ہوگئیں؟

عمارناصر: جیسے ہی علم قراءت مدون ہونا شروع ہوا تو رفتہ رفتہ قراءتوں کی زمرہ بندی ہونا شروع ہوگئی۔ کچھ قراءتوں کو مستند قرار دے دیا گیا اور اس کے لیے یہ معیار بنا یا گیا کہ وہ مصحف کے مطابق ہو، عربی قواعد کے مطابق ہو، اور اس کی سند موجود ہو۔ اس کے مطابق قراءتوں کی چھانٹی کرکے کچھ کو مستند قرار دے دیا گیا اور کچھ شاذ قرار پائیں۔ اس عمل کو مکمل ہوتے ہوئے تقریباً‌ دو تین سو سال لگے ہیں اور اس میں بھی اہم اختلافات موجود رہے ہیں۔

مطیع سید: کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایسے الفاظ بولے ہیں کہ ان میں قراءت کے اختلاف کی گنجائش پیدا ہو جائے؟

عمارناصر: علم القراءت میں اس پر کافی بحث ہے۔ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ جتنے مختلف طریقے ہیں، یہ سارے اللہ کی طرف سے اتارے گئے تھےاور رسول اللہ ﷺ نے خود ان کی تعلیم دی تھی۔ لیکن بعض کہتے ہیں کہ لوگوں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ بعض حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے جیسے سہولت ہو، قراءت کر لیا کریں۔ بہرحال علمائے قراء ت نے جو معیار وضع کیا کہ کوئی بھی قراءت تبھی مستند شمار ہو گی جب اس کی سند موجود ہو تو اس کی بنیادپر آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو بھی مختلف قراءتیں علمائے قراءت کے ہاں متداول ہیں، ان کی سند اگر صحابی تک پہنچتی ہے تو قرین قیاس ہے کہ صحابی نے وہ نبی ﷺ سے سیکھی ہوگی۔

مطیع سید : سونے کی انگو ٹھی کی ممانعت اور چاندی کی اجازت توسمجھ میں آتی ہے، یہ لوہے کی انگوٹھی کی ممانعت کس پہلو سے ہے؟ (کتاب الخاتم، باب ما جاء فی خاتم الحدید، حدیث نمبر ۴۲۲۳)

عمارناصر: اس کی وجہ حدیث میں ہی یہ بتائی گئی ہے کہ لوہا جہنمیوں کا زیور ہے۔ مطلب یہ کہ اہل جہنم کو لوہے کے طوقوں اور زنجیروں میں جکڑا جائے گا، اس مشابہت کی بنیاد پر لوہے کی انگوٹھی نہ پہنی چاہیے۔ یہ ممانعت اسی ایک روایت میں آئی ہے اور اس کی سند میں بھی کچھ ضعف ہے۔ بہرحال زیادہ تر فقہاء اس کی روشنی میں اس کو حرام قرار دیتے ہیں، لیکن بعض فقہاء کے نزدیک اس کی ممانعت نہیں ہے۔ وہ ایک دوسری حدیث سے اخذ کرتے ہیں کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔

مطیع سید: مجدد کے بارے میں روایات آتی ہیں (کتاب الملاحم، باب ما یذکر فی قرن المائۃ، حدیث نمبر ۴۲۹۱) تو ہمیں اس کا کیسے اندازہ ہو گا کہ کوئی شخص مجدد ہے؟ کیا وہ خودبتاتا ہے یا اس کے کام سے ہمیں معلوم ہوگا یا امت اس کے مجدد ہونے کا فیصلہ کر تی ہے؟

عمارناصر: لوگ اس کو ایسے سمجھتے ہیں جیسے یہ کوئی منصب ہے جس پر کسی کو فائز کیاجاتا ہے۔ اصل میں یہ امت میں دین کو زندہ رکھنے کا ایک انتظام ہے، کوئی منصب نہیں ہے جس پر کوئی فائز ہو۔ اور یہ کام اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت مختلف لوگوں سے لیتے ہیں۔ کسی سے جزواً‌ اور کسی سے زیادہ وسیع پیمانے پر لیتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کو بتایا جائے کہ تم مجدد ہو اور وہ اس کا اعلا ن کرے۔ اگر اس کا کام دین کے اس وقت کے تقاضے کو پورا کر رہا ہے تو اسی سے اندازہ ہو جائے گا۔ فرض کریں کسی کو نہ پتہ چلے، تب بھی کام تو اس نے کر دیا اور جو مقصد تھا، وہ پورا ہوگیا۔ دین کے احیا ء اور تجدید کی جو ضرورت تھی، وہ اس نے پوری کر دی اور اللہ کے ہاں اجر کا حقدار بن گیا۔

مطیع سید: روایت کے الفاظ سے تو بظاہر کوئی ایک شخص سمجھ میں آتا ہے۔

عمارناصر: نہیں، حدیث کے الفاظ ہیں: من یجدد لھا دینھا۔ فصیح عربی میں من واحد کے لیے خاص نہیں، جماعت کے لیے بھی بالکل عام ہے۔

مطیع سید: آج کل جو زلزلے وغیرہ آتے ہیں، کیا ان کو عذاب کہہ سکتے ہیں یا آزمائش کہیں گے؟

عمارناصر: اس میں کئی پہلو ہوتے ہیں۔ تنبیہ بھی ہے، عذاب بھی ہے اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کے لیے آخرت کی سزا سے کفارے کی بھی صورت ہے۔

مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح اور دجال کے خروج کے واقعات چھ ماہ کے اندر اندر رونما ہو جائیں گے۔ (کتاب الملاحم، باب فی تواتر الملاحم، حدیث نمبر ۴۲۹۵) ایسا ہوا تو نہیں۔

عمارناصر: یہ مشکل روایت ہے۔ قسطنطنیہ کی فتح تو کب کی واقع ہو چکی ہے، لیکن دجال کاخروج نہیں ہوا۔

مطیع سید: کیا اس روایت کے الفاظ میں کچھ فر ق آگیا ہے یا سند وغیرہ کا مسئلہ ہے؟

عمارناصر: میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ پیشین گوئیاں بہت الجھی ہوئی ہیں، ان میں راویوں کے قیاسات بہت مل گئے ہیں۔ ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا کافی مشکل ہے۔ اس خاص روایت کی سند میں بھی کچھ مسائل ہیں۔

مطیع سید: یہ بھی آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت کو بیک وقت آپس میں اور دشمن سے لڑنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ (کتاب الملاحم، باب ارتفاع الفتنۃ فی الملاحم، حدیث نمبر ۴۳۰۱) مجھے لگتا ہے کہ کئی موقعوں پر تاریخ میں ایسے ہوا ہے۔

عمارناصر: اس پیشین گوئی کو اگر محدود تناظر میں لیا جائے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک خاص عر صے کی بات ہو رہی ہے جس سے زیادہ تر پیشین گوئیوں کا تعلق ہے تو پھر یہ قابل فہم ہے۔ اس خاص دور سے متعلق اپنی امت کے لیے آپ نے کئی دعائیں بھی فرمائیں جن میں سے ایک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ بیک وقت دو آزمائشوں میں نہ پڑیں کہ آپس میں بھی لڑ رہے ہوں اور دشمن بھی حملہ آور ہو جائے۔

مطیع سید: ایک حدیث میں بصرہ کا ذکر آیا ہے۔ (کتاب الملاحم، باب فی ذکر البصرۃ، حدیث نمبر ۴۳۰۶) یہ شہر تو غالباً‌ نبی ﷺ کےبعد حضرت عمر نے آباد کیا تھا تو روایت میں اس کا نام کیسے آ گیا؟

عمارناصر: روایت میں بھی پیشین گوئی کے طور پر ہی ذکر ہے کہ میری امت کے لوگ اس نام کا ایک شہر بسائیں گے یا اس شہر میں اتریں گے۔ تو پیشین گوئی میں تو آنے والے وقت کے کسی واقعے کا ذکر ہو سکتا ہے۔

مطیع سید: بنو مخزوم کی ایک عورت تھی جس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نبیﷺ نے کاٹ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں سے امانتاً‌ چیزیں لیتی تھی اور پھر لے کر مکر جاتی تھی۔ (کتاب الحدود، باب فی القطع فی العور اذا جحدت، حدیث نمبر ۴۳۹۵) لیکن احناف کہتے ہیں کہ یہ عمل چوری کے زمرے میں نہیں آتا۔

عمارناصر: اجتہادی مسائل میں روایات کی تاویل وتوجیہ کی کافی گنجائش ہوتی ہے، مثلاً‌ اس روایت سے متعلق احناف کہتے ہیں کہ امانتاً‌ چیزیں لے کر مکر جانے کا ذکر اس عورت کے تعارف کے طور پر کیا گیا ہے، نہ کہ اس کے ہاتھ کاٹنے کی وجہ کے طور پر۔ ہاتھ اس لیے کاٹا گیا کہ اس نے عام مفہوم میں باقاعدہ چوری کی تھی۔ بہرحال جمہور محدثین اس روایت کو ظاہر پر لیتے ہیں جو مجھے تو صحیح لگتا ہے۔ احناف کی نظر بعض دفعہ قاعدے قیاس پر زیادہ مرکوز ہو جاتی ہے جس سے حکم کی روح مجروح ہو جاتی ہے۔

مطیع سید: ایک موقع پر آپﷺ نے قتل کے ایک معاملے میں فرمایا کہ اگر مدعی قصاص معاف نہیں کر ےگا تو وہ قاتل و مقتول دونوں کا گناہ اپنے سر لے کر جہنم میں چلا جا ئے گا۔ (کتاب الدیات، باب الامام یامر بالعفو فی الدم، حدیث نمبر ۴۴۹۸) حالانکہ قصاص معاف کرنا یا نہ کرنا تو آدمی کا اختیار ہو تا ہے۔

عمارناصر: اس واقعے کی تفصیل صحیح مسلم وغیرہ میں آئی ہے۔ صورت یہ تھی کہ دو آدمی جنگل میں لکڑیاں کاٹنے کے لیے گئے اور کسی بات پر توتکار ہوئی جس پر ایک نے دوسرے کے سر پر کلہاڑا دے مارا اور وہ مر گیا۔ مقتول کا بھائی قاتل کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے جان بوجھ کراس کو قتل کیا ہے، جبکہ قاتل کا کہنا تھاکہ مجھ سے حالت اشتعال میں یہ گناہ سرزد ہواہے، میرا قتل کرنے کا قصد نہیں تھا۔ قرائن بظاہر ایسے تھے کہ اس کی بات ٹھیک لگ رہی تھی، لیکن مدعی قصاص لینے پر مصر تھا اور ظاہر ہے، اس کے بھی جذبات تھے۔ جذبات میں مدعی انتقام کے لیے بہت پرجوش ہو جاتا ہے۔ تو اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکیمانہ انداز اختیار فرمایا کہ مدعی سے کہا کہ اچھا بھائی، یہ تمھارے حوالے ہے، تم اس سے قصاص لے لو۔ جب وہ اس کو لے کر جانے لگا تو ساتھ ہی یہ تبصرہ کر دیا کہ اگر قاتل کی بات ٹھیک ہے کہ اس نے قصداً‌ قتل نہیں کیا تو پھر قصاص لینے والا دونوں مقتولوں کے گناہ کا بوجھ اٹھائے گا۔ یہ گویا مدعی کو متنبہ کرنے کے لیے تھا کہ ایسے معاملے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ تو یہ بات سمجھانے کا ایک اسلوب تھا جو موثر ثابت ہوا اور مدعی نے یہ بات سن کر قاتل کو چھوڑ دیا۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ تبع لعین تھا یا نہیں اور میں نہیں جانتا کہ عزیر نبی تھے یا نہیں۔ (کتاب السنۃ، باب فی التخییر بین الانبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، حدیث نمبر ۴۶۷۴) اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت عزیر کا ذکر تو قرآن مجید میں بھی ہے۔

عمارناصر: تبع کے بارے میں سیرت ابن ہشام میں کافی تفصیل موجود ہے۔ یہ زمانہ جاہلیت میں یمن میں قوم سبا کے بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا۔ قرآن میں ذکر ہے کہ اس قوم پر ان کے اعمال کی وجہ سے ہلاکت آئی۔ تبع کئی بادشاہوں کا لقب تھا۔ ان میں سے ایک کے متعلق آتا ہے کہ اس نے یہودیت قبول کر لی تھی اور اس کے زیر اثر یمن میں یہودی مذہب عام ہو گیا تھا۔ اس روایت میں غالباً‌ اسی کا ذکر ہے کہ اس کے دین اور عقیدے کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں۔ شارحین کہتے ہیں کہ بعض دیگر احادیث میں ہے کہ تبع نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس لیے اس کو برا مت کہا کرو۔ اگر یہ روایات صحیح ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ لاعلمی کی بات آپﷺ نے اس وقت فرمائی ہوگی جب آپ کو اس کے بارے میں ابھی وحی سے معلومات نہیں ملی تھیں۔ حضرت عزیر کا قرآن میں ذکر تو ہے، لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے ایک برگزیدہ بندے تھے، تاہم ان کے نبی ہونے کی کوئی واضح اور قطعی دلیل قرآن میں نہیں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس حوالے سے کوئی حتمی بات وحی میں نہیں بتائی گئی تھی۔

مطیع سید: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مخاطب کر کے ناقصات عقل و دین کے الفاظ ارشاد فرمائے۔ (کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، حدیث نمبر ۴۶۷۹)

عمارناصر: اس کی وضاحت حدیث میں ہی موجود ہے۔ عقل کے لحاظ سے ان کو اس پہلو سے کم تر کہا گیا کہ بیشتر دنیوی امور میں ان کو تجربہ اور ممارست نہیں ہوتی اور ان معاملات میں تنہا عورتوں پر ویسے ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی جیسے مردوں پر ڈالی جا سکتی ہے۔ مثلاً‌ مالی لین دین کے معاملات میں گواہ بننا اور معاملے کی تفصیلات وغیرہ کو ٹھیک طریقے سے یاد رکھنا۔ دین کے لحاظ سے ان کے ساتھ ایسی خلقی کمزوریاں لگی ہوئی ہیں کہ فرائض دین کی ادائیگی میں بھی انھیں مردوں کے مقابلے میں کچھ رعایتیں دینی پڑتی ہیں اور بہت سی دینی ذمہ داریوں کا ان کو مردوں کی طرح مکلف بھی نہیں ٹھہرایا گیا۔

مطیع سید: ایک چیز محسوس ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آنے والے جو گمراہ فرقے تھے، آپﷺنے عموماً‌ ان کا نام نہیں لیا۔ لیکن ایک روایت میں قدریہ کا نام لے کر فرمایا کہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ (کتاب السنۃ، باب فی القدر، حدیث نمبر ۴۶۹۱)

عمارناصر: مجھے بھی اس روایت کے بارے میں تردد ہے کہ یہ شاید بعد میں کسی نے وضع کی ہے۔

مطیع سید: ان کے متعلق یہ بھی ہے کہ یہ دجال کا گروہ ہو گا، ان کی عیاد ت نہ کرو اور ان کا جنازہ نہ پڑھو۔ (کتاب السنۃ، باب فی القدر، حدیث نمبر ۴۶۹۲) سوال یہ پیداہوتا ہے کہ یہ دجال کا گروہ ہوگا تو ان کی نماز جنازہ کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا، تو یہ کس بات سے منع کیاگیا ہے؟

عمارناصر: مراد یہ ہے کہ ان کا تعلق دجال ہی کے سلسلے سے ہوگا۔ یعنی دجال کے ظہور سے پہلے یہ اسی زمرے کے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوں گے۔

مطیع سید: انصارکا ایک بچہ جنازے کے لیے لایا گیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہے کہ اس بچے کے لیے خوشخبری ہے کہ نہ اس نے کوئی گناہ کیا اور نہ وہ گناہ کو جانتا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ عائشہ ایسا نہیں ہے۔ اللہ نے جنت اور جہنم کو بنایا اور ان کے لیے لوگ بھی پیدا کیے جبکہ وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے۔ (کتاب السنۃ، باب فی ذراری المشرکین، حدیث نمبر ۴۷۱۳) یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔

عمارناصر: اس سوال سے متعلق حدیثوں میں اختلاف ہے۔ بعض میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جو مشرکین ہوئے، ان کی اولاد کا بھی وہی حکم ہے جو خود ان مشرکین کا ہے۔ اگر یہ اصول ہے تو اس میں اشکالات بہت زیادہ ہیں، لیکن یہ روایت اسی کے مطابق ہے۔ بعض دوسری روایات میں ہے کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ کچھ اور روایات میں یہ آیا ہے کہ ایسے نابالغ بچوں کو قیامت کے دن آزمایا جائے گا کہ وہ ایمان لاتے ہیں یا نہیں اور اس آزمائش کے مطابق ان کے انجام کافیصلہ کیا جائے گا۔ اب کیا حقیقت حال ہے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

مطیع سید: ایک ہیجڑا ازواج مطہرات کے پاس اور عام مسلمانوں کے گھروں میں آتا جاتاتھا۔ اس کی کسی بات کی وجہ سے آپ ﷺنے اسے علاقہ بدر کر دیا۔ کسی نے کہا کہ اس کو قتل کیوں نہ کر دیا جائے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ نہیں، وہ نماز پڑھتا ہے۔ (کتاب الادب، باب فی الحکم فی المخنثین، حدیث نمبر ۴۹۲۸) کیا وہ اگر نماز نہ پڑھتا ہوتا تو اسے قتل کر دیا جاتا؟

عمارناصر: نہیں، آپﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جب وہ مسلمان ہے تو اسے کیوں قتل کیا جائے؟ یہ کسی قانون کا بیان نہیں، بلکہ سوال کرنے والے کے سوال میں جو عجلت اور ناسمجھی ہے، اس پر متنبہ کرنے کا ایک انداز ہے۔

مطیع سید: آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نبوت کے مختلف حصوں میں سے اب صرف سچا خواب باقی رہ گیا ہے۔ (کتاب الادب، باب ما جاء فی الرویا، حدیث نمبر ۵۰۱۷) پھر یہ کشف، الہام، القا وغیر کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے جس کا ذکر صوفیہ کرتے ہیں؟

عمارناصر: بعض اہل علم مثلاً‌ غامدی صاحب اس کو بہت اطلاق پر رکھتے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ اب ختم نبوت کے بعد غیب سے کسی خبر یا اشارے کا امکان بس اچھے خواب کی صورت میں ہی باقی رہ گیا ہے۔ صوفیہ جو باقی چیزیں بیان کرتے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بظاہر الفاظ اس کی تائید کرتے ہیں، لیکن اصل میں حدیث کا جو اسلوب ہے، اس پر اگر آپ غور کریں تو اس سے ایسا کوئی کلی ضابطہ اخذ نہیں ہوتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے مبشرات کا ذکر کیا اور اس کی مثال کے طورپر ایک چیز یعنی خواب کا ذکر کر دیا۔ تو اس سے اسی نوعیت کی جو کچھ دوسری چیزیں ہیں، ان کی نفی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ وہ بھی اس کے تحت آجاتی ہیں۔ اگر یہ مفہوم مراد لیا جائے تو یہ حدیث کے الفاظ کے خلاف نہیں ہوگا۔

مثلاً‌ حدیث جبریل میں آپ ﷺ نے واضح کیا کہ احسان کیا ہے؟ تو احسان تو ایک عمومی چیزہے، کسی عمل کے کرنے کے ایک رویے کا نام ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ آپ اللہ کی عبادت اس کیفیت میں کریں کہ گویا اس کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ ایک پہلو ہے جو مثال کے طورپر آپ نے بیان کردیا۔ یہ مراد نہیں کہ احسان کا تعلق اسی خاص معاملے اور اسی خاص صورت سے ہے۔ اسی اسلوب کو اگر اس روایت پر منطبق کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ نوعیت کے لحاظ سے نبوت کے اجزا میں سے مبشرات ہی رہ گئی ہیں۔ مبشرات وہ ہوتی ہیں جن میں انسان کو غیب کی کوئی خبر دے دی جائے۔ اس کی ایک شکل رویا صالحہ ہے اور باقی صورتیں بھی اسی نوعیت کی ہیں۔ اس کے علاوہ نبوت کے دوسرے بنیادی خصائص مثلاً‌ منصب یا معجزات وغیرہ دیا جانا، وہ ختم کر دیے گئے ہیں۔

مطیع سید: آپﷺنے کسی کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونے سے منع فرمایا، (کتاب الادب، باب فی قیام الرجل للرجل، حدیث نمبر ۵۲۳۰) لیکن ایک موقع پر حضرت سعد بن معا ذ کے متعلق فرمایا کہ اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔

عمارناصر: آپﷺ نے اصل میں اپنے لیے اس پروٹوکول سے منع فرمایا۔ آپﷺ اپنے لیے اس کو پسند نہیں فرماتے تھے، لیکن دوسروں کے متعلق منع نہیں کیا۔ حضرت سعد والا واقعہ ویسے اس مسئلے سے متعلق نہیں ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زخمی تھے اور انہیں سواری پر لایاگیا تو آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اٹھ کر ان کو سہارا دو اور اترنے میں ان کی مدد کرو۔

مطیع سید: جس نے بیری کا درخت کاٹا، اللہ اس کے سر کو دوزخ میں ڈال دے۔ (کتاب الادب، باب فی قطع السدر، حدیث نمبر ۵۲۳۹)

عمارناصر: عرب کے ریگزار میں بیری کے درخت سایے کا کام دیتے ہیں۔ تو کوئی آدمی بلا ضرورت فائدہ عامہ کی چیز کو کاٹ دے، اس پر وعید کی گئی ہے۔

مطیع سید: گھروں میں سانپ وغیرہ پائے جاتے ہوں تو ان کے بارے میں آپﷺ نے حکم فرمایا کہ ان کو تین دفعہ ڈراو اور پھر اس کے بعد بھی دکھائی دیں تو انھیں مار دو۔ (کتاب الادب، باب فی قتل الحیات، حدیث نمبر ۵۲۵۶) یہ شاید ان کے جنات ہونے کی وجہ سے فرمایا؟

عمارناصر: جی، اسی وجہ سے فرمایا۔ مراد یہ ہے کہ گھروں میں جو چھوٹے سانپ وغیرہ ہوتے ہیں، ان کو مارنے سے پہلے ان کو وارننگ دے دو۔ ممکن ہے، وہ جنات ہوں۔ اگر وارننگ کے بعد بھی گھر میں دکھائی دیں تو پھر ان کو مار سکتے ہو۔

مطیع سید: تو کیا جو گھروں سے باہر سانپ رہتے ہیں، ان کے جنات ہونے کا امکان نہیں ہوتا؟

عمارناصر: امکان تو ان کے متعلق بھی ہے، لیکن ماحول سے تھوڑا سا فرق پڑ جاتا ہے۔ اصل میں تو سانپ کے بارے میں آپ کو تجربے سے پتہ ہوتا ہے کہ یہ موذی چیز ہے تو خطرہ محسوس ہونے پر اس کو آپ مار سکتے ہیں۔ جو گھروں میں رہ رہے ہیں اور گھر کے ماحول کا حصہ ہیں، ان کے بارے میں بھی یہی حکم ہے، بس ایک گونہ احتیاط بتائی گئی ہے کہ ان سے آپ کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو مارنے سے پہلے ان کو وارننگ دے دیں۔

مطیع سید: مباہلہ جس طرح نبی ﷺ کےدور میں تھا، کیا آج بھی اسی طرح کیا جا سکتا ہے؟

عمارناصر: محدثین ذکر تو کرتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں تھا اور آپ کے بعد آپ کی امت بھی ضرورت پڑنے پر مباہلہ کا طریقہ اختیار کر سکتی ہے، لیکن ہماری تاریخ میں صحابہ کے ہاں یا بعد کے دور میں اس کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کو اللہ تعالیٰ نے جو خاص آیات ِبینات دی ہوتی ہیں، اس کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ علامہ انور شاہؒ نے فیض الباری میں نقل کیا ہے کہ جب مرزا قادیانی کے دور میں یہ مباہلوں وغیرہ کا سلسلہ شروع ہو ا تو شیخ الہند مولانا محمود حسن اس پر سخت ناراض ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی اور آپ نے اس ہدایت پر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی تھی اور آپ ﷺ اگر ان کے خلاف دعا کر تے تو وہ اللہ کی طرف سے قبول ہو جانی تھی، لیکن اللہ کا عام قاعدہ یہ نہیں ہے۔ عام قاعدہ تو حق وباطل کے التباس اور آزمائش کاہے۔ شیخ الہند نے کہا کہ خدانخواستہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی آزمائش کے لیے اس مباہلے میں مرزا غلام احمد کو کامیاب کردیتےتو اس سے جن لوگوں کا ایمان جاتا، اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی؟ مولانا مودودی کے بعض مکاتیب میں بھی اسی طرح کی رائے ملتی ہے۔

مطیع سید: میرے ذہن میں بھی یہ الجھن تھی کہ اس طرح تو مباہلہ ہمارے ہاتھ میں حق و باطل میں فرق کا ایک یقینی پیمانہ بن جاتا ہے اور آزمائش کی ساری خدائی سکیم بے معنی ہو جاتی ہے۔

عمارناصر: جی بالکل، اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بنایا ہی نہیں۔

(مکمل)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(مئی ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter