صغر سنی کی شادی پر عدالتی فیصلے کا جائزہ

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

گزشتہ شمارے میں امریکی ریاستوں میں کم عمری کی شادی کی کم سے کم عمر پر گفتگو مکمل ہو گئی تھی. آج یورپی دنیا کا مختصر جائزہ لینا پیش نظر ہے۔ ممکن ہے، قارئین کو اس طوالت میں اکتاہٹ محسوس ہو، تاہم اس کا مقصد مسئلے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے۔ یوں یہ معلوم ہو سکے گا کہ دنیا بھر میں اس معمولی حیثیت کے اور غیر اہم مسئلے کو پاکستان اور مسلم دنیا میں ”انتہائی اہم“ مسئلہ بنانے کا سبب آخر ہے کیا؟

تمام یورپ میں شادی کی قانونی عمر 18 سال ہے، سوائے اسکاٹ لینڈ کے، جہاں زوجین کے لیے 16 سال عمر ہے۔ پھر بتا دوں کہ قانونی عمر وہ ہوتی ہے جس پر فرد آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے شادی کر سکتا ہے۔ اسے والدین، معاشرے یا ریاست کی رضامندی کی ضرورت نہیں رہتی۔ قانونی عمر سے کم شادی کی عمر (وہی صغرسنی)مختلف یورپی ممالک میں مختلف ہے جہاں عدالت، والدین اور سماجی کارکن کی مرضی سے شادی ممکن ہوتی ہے۔ 48 یورپی ممالک میں سے 24 ممالک میں عدالتی رضا مندی پر شادی کی کم از کم عمر 16 سال ہے۔ والدین کی رضامندی سے مشروط ایسے ممالک کی تعداد 6 ہے۔ اینڈورا (Andorra) میں عدالتی رضامندی پر شادی کی عمر 14 سال ہے۔ لیتھوانیا میں یوں 15 سالہ عمر میں شادی ممکن ہے۔ ترکی میں یہ عمر 17 سال ہے۔ لیکٹنسٹائن (Liechtenstein)، بلجیم، فن لینڈ، فرانس، یونان، آئس لینڈ، لکسمبرگ اور سلوونیا میں شادی کی کم از کم کوئی عمر نہیں ہے۔ ان ممالک میں کہیں والدین کی رضامندی پر عدالتی منظوری درکار ہوتی ہے۔کہیں عدالتی منظوری ہی اصل ہوتی ہے اور والدین کو محض سنا جاتا ہے۔ کہیں والدین کے ساتھ سماجی کارکن کا کردار بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود مذکورہ آٹھ ممالک میں شادی کی کم از کم عمر کی کوئی زیریں حد نہیں ہے۔

ادھر اپنے ملک میں بعض حلقوں کا ایک ہی واویلا رہتا ہے کہ کم از کم عمر 18 سال کی جائے۔ والدین، غربت، معاشرتی مسائل اور والدین کا کوئی خاص ذاتی مسئلہ ان لوگوں کے نزدیک مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ بہت پہلے ایک دن میں گھومتے گھومتے اینٹوں کی بھٹی پر جا نکلا۔ مرد و زن غربت کا بدنما اشتہار بنے کام میں جتے ہوئے تھے۔ دیکھا بارہ پندرہ سالہ لڑکا لڑکی کام کے ساتھ ساتھ باہم اٹھکیلیاں بھی کر رہے ہیں۔ ایسے لگا کہ ان کی لگاوٹ معاشرتی قدروں کو پامال کر رہی ہے۔ان کے بزرگوں سے استفسار کیا تو معلوم ہوا۔ "جی، دونوں میاں بیوی ہیں۔" فقیہانہ جستجو "کیوں" کی طرف لے گئی، پتا چلا پورا خاندان برادری اس بیگار پر لگا ہوا ہے۔ ان دونوں خالہ زادوں کی لگاوٹ جب معاشرتی اقدار کی بیرونی سرحد کے قریب جا پہنچی تو بزرگوں نے یوں فیصلہ کیا: ”جب ان دونوں نے ابھی چوری چھپے اور بعد میں یہی کچھ کرنا ہے تو کیوں نہ ان کی شادی کر دی جائے، تو صاحب جی ہم نے ان کی شادی کر دی۔“ کچھ دیر تک تو میں سٹپٹا کر رہ گیا۔ ہمت کر کے گفتگو کو انٹرویو کی شکل دے ڈالی۔

”پولیس یا کسی اور نے آپ کو پکڑا نہیں؟“

جواب ملا:

”جی وہ! وہ جی ہم نے ان کی شادی دھوم دھام (یہی الفاظ تھے) سے کی تو ادھر ادھر سے بہت لوگ آئے۔ بڑے داروغہ جی تو نہیں آئے، پر تھانہ محرر خود تشریف لائے تھے۔ پھر صاحب جی! ایک ہفتے بعد ایک ویگن میں فیشنی عورتیں اور چند مرد اچانک آ دھمکے پہلے ہماری تصویریں بنائیں۔ پھر دولہا دلہن سے کچھ باتیں پوچھیں جب وہ اپنی مرضی کے سب کام کر چکے تو ہمیں دھمکانے لگے کہ یہ شادی غیر قانونی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اشارے سے ہمیں کہا تم لوگ جاؤ اپنا کام کرو۔ ہم بے سوچے سمجھے کام میں جُت گئے۔ رات کو چاچا تاج ولی کہنے لگے، او نیک بختو! سمجھا کرو، شادی تو غیر قانونی ہو گئی، دوپہر کا مرغن کھانا سب ویگن والوں نے ٹھیکہ دار کے ڈیرے پر مزے لے کر کھایا۔ جب وہ رخصت ہونے لگے تو میں ہاتھ جوڑے، دھوتی سنبھالے ان کی ایک بڑی دھانسو قسم کی لیڈر عورت کے آگے جا کھڑا ہو گیا۔ نخوت سے بولی:  بابا ، جلدی بولو، ہمیں دیر ہو رہی ہے، کیا بات ہے؟ میں غریب کیا کہتا، یہ ضرور کہا میم جی! ہم ٹھیکہ دار کے زر خرید غلام ہیں۔ جب تک ہمارا قرضہ نہیں اترتا، ہم، ہمارے بچے، عورتیں، بوڑھے، بیمار سب ان کے غلام ہیں۔ میم جی ہم نے ریڈیو پر سنا تھا کہ بچوں سے مشقت کرانا بھی جرم ہے۔ میم جی، ہم نے سوچا شاید آپ نے ٹھیکہ دار سے اس بارے میں کچھ پوچھا ہو۔ آپ نے پولیس سے کوئی بات کی ہو تو ہمیں بتا دیں، وہ کیا جواب دیتی، منہ بنائے دفع ہو گئی۔ اب جاؤ تم سب اپنا اپنا کام کرو۔ یہ کہہ کر چاچا کروٹ بدل کر سو گیا۔“

تھوڑا حساب کیا تو اندازہ ہوا کہ صغرسنی کی شادی کی مخالف این جی او اور اس پر واویلا کرنے والے اداروں کو سال بھر کام سے روک کر ان کے مالی وسائل چائلڈ لیبر کے خاتمے پر لگائے جائیں، ان ”فیشنی عورتوں“ کے سیمینار بند کر کے وسائل اینٹوں کی صنعت میں غلامانہ زندگی بسر کرنے والوں کے قرض اتارنے میں لگا دیئے جائیں تو ہزاروں خاندان ٹھیکہ داروں سے نجات حاصل کر کے آزاد زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ یورپ، امریکہ اور تمام مغربی دنیا جب صغر سنی کی شادی پر وہی نقطہ نظر رکھتی ہے جو ہمارے  علما کا ہے تو پاکستان میں اس کے خلاف واویلا کرنے والوں کا مقصد کیا ہے؟ یہ ”فیشنی عورتیں“ اور ان کے ساتھی چاہتے کیا ہیں؟ مسئلہ کیا ہے؟ یہ سمجھ لیا جائے تو کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔ ان لوگوں کی تاریں ہلانے والوں نے اور غیر ملکی کرنسیوں میں وسائل فراہم کرنے والوں نے فی الحقیقت ہمارے علما اور دینی طبقے کو ایسے کام میں لگا رکھا ہے جس کا سرا کبھی کسی کو نہیں ملے گا۔ کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ یہ کام عشروں سے ہو رہا ہے۔ صغرسنی کی شادی پر علما کے شرعی دلائل پر الجھن کی شکار ایک نسل تیار ہو کر معاشرتی ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہے تو ان لوگوں کے سیمینار بابت صغر سنی انہی دلائل پر ویسے ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ اب ان کا ہدف اگلی نسل ہوتا ہے۔ دلائل کا جواب اور جواب الجواب علما کرام کی طرف سے اب بھی اسی مواد پر مشتمل ہوتا ہے جو نصف صدی سے ہمارے دینی طبقے کا اثاثہ ہے۔ یوں الجھن کی شکار ایک اور نسل تیار ہو کر معاشرے میں ضم ہو چکی ہوتی ہے۔ مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔

جہاں تک میں سمجھا ہوں اور شاید درست ہی سمجھا ہوں گا کہ اس مشق کا مقصد یہ ہے کہ ایک عام شخص اور نوعمر لڑکے لڑکی کے ذہن میں صغر سنی کی شادی کے حوالے سے سیرت طیبہؐ کا جو عمومی نقش ہے، اس پر خراشیں ڈال کر نبی اکرم ؐ کی ذات والا صفات کے بارے میں شکوک و شبہات کو عام کیا جائے۔ میری پیشگی معذرت قبول ہو، اس کام میں مال پیسہ بنانے والے تو کچھ کما رہے ہیں لیکن ہمارے علما نادانستگی میں وہی کچھ کر رہے ہیں جو مدمقابل لوگوں کے غیر ملکی آقائے ولی نعمت چاہتے ہیں۔ یہ لوگ عورت کی صحت، ہجوم آبادی، غربت اور پرورش اطفال جیسے رنگین لبادوں میں دلائل کا رُخ صغر سنی کی شادی کی طرف کرتے ہیں تو سامعین اور قارئین بڑی حد تک ان کے ہمنوا بن چکے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے ذہن میں سیرت طیبہ جھلملانا شروع ہو جاتی ہے۔جواب میں علما کی طرف سے ان لوگوں جیسے عقلی دلائل نہیں آتے۔ علما اور دینی طبقے کی دلیل وہی ایک نکاتی رہتی ہے کہ اسوۃ حسنہ ہمارا چراغِ راہ ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن کچے ذہن، خام فکر اور جاہلیت جدیدہ کی تعلیم سے آراستہ یہ نسل  ان مذکورہ سیمیناروں کی اسیر ہو چکی ہوتی ہے ؎

مسمریزم کے عمل میں دہر اب مشغول ہے
مشرق و مغرب میں اِک عامل ہے اک معمول ہے

مخصوص اسکولوں میں تعلیم پانے والے یہ شاہیں بچے چند ہی سالوں میں زاغ و شپرک (کوے چیلیں) بن کر شام کو KFC اور میکڈونلڈ نوچ رہے ہوتے ہیں۔ چند سالوں میں ہنس کی چال چلتے چلتے یہ کوے جب کالج یونیورسٹی میں پہنچتے ہیں تو آراستہ و پیراستہ ہالوں اور ریستورانوں میں مرغن پکوانوں کے ساتھ اب نئے شکاری سیمیناروں کے پھول گجرے لیے ان کا استقبال کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ذہن میں وہ کچھ انڈیلتے ہیں کہ ؎

جسم و جاں کیسے کہ عقلوں میں تغیر ہو چلا
تھا جو مکروہ اب پسندیدہ ہے اور مقبول ہے

دین اور سیرت طیبہ پر اس مخلوق کا علم بمنزلہ صفر ہوتا ہے۔ ایسے عالم میں ایک طرف سے اس کچے ذہن پر بذریعہ سیمینار عورت کی صحت، غربت، ہجوم آبادی، پرورش اطفال، بے روزگاری کے دلائل کی گولہ باری ہو رہی ہو اور دوسری طرف سے، اللہ معاف کرے، نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر، رخصتی کس عمر میں ہوئی۔ جی ایک روایت میں …… جی ایک اور روایت میں جس کی سند متصل ہے …… اور ساتھ رسولؐ اللہ کی عمر، پھر دونوں کی عمروں کا موازنہ، صاحب ! یہ کچھ کسے سمجھ آئے گا؟ محترم علمائے کرام! یہ دلائل اسی ذہن میں قرار پکڑ سکتے ہیں جو ان مصطلحات، اس محاورے، اس روزمرہ سے آشنا بلکہ ان کا رمز آشنا ہو۔ آپ کو پھر یاد دلائے دیتا ہوں کہ حضرت موسیٰ ؑنے سنپولیوں کا مقابلہ اژدہے سے کیا تھا، سانپ سنپولیوں کے مقابلہ میں ایک بڑا اژدھا۔

 کم سنی کی شادی کے مخالف عدالتی ذہن کو عہدِ حاضر کی اس کی اپنی زبان میں جواب دیا جانا چاہیے۔ جسمانی اعتبار سے دو عاقل بالغ افراد کو مغربی دنیا اتنی آزادی دیتی ہے کہ اسکولوں میں لڑکے لڑکیاں کچھ بھی کریں آزاد ہیں، استاد مداخلت کرے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سزاوار! ارے بھئی ہم ملا بھی تو یہی کچھ کہتے ہیں بلکہ ہمارا کہا ہوا زیادہ وزن رکھتا ہے۔ تمہارے ہاں لڑکا اپنا کام مکمل کرنے کے بعد مطلقاً آزاد۔  آثار و باقیات سمیٹے تو لڑکی اور اس کے والدین، بھلا کیوں؟ ہم ملا کہتے ہیں اس حیوانی تعلق کو انسانی عہدو پیمان میں ڈبو کر لڑکے کو ذمہ دار بناؤ،جس کا طریقہ نکاح ہے، بولو جواب دو ! عورت کو ہم حقوق د ے ر ہے ہیں یا تم؟۔ کیا فرمایا، کم سن بچی کی شادی معمر مرد سے؟ ارے امریکہ یورپ میں ہر سال ایسی ہزاروں شادیاں ہوتی ہیں اور انسانی حقوق کے نام پر ہوتی ہیں اور ابتدائے آفرینش سے ہو رہی ہیں۔ محترم علمائے کرام میری عاجزانہ رائے میں اس انسانی مسئلے کے لیے وہی دلائل وضع کیا کریں جو مخالفین کی اپنی دنیا کے ہیں۔ سیرت طیبہ میں سے دلائل کی دنیا الگ ہے جو کچے ذہنوں میں جگہ نہیں پکڑ سکتے۔ امید ہے، علمائے کرام ان معروضات پر غور کریں گے۔ ورنہ یہ عمل محرم راز خالق کائنات کی سیرت پر خراشیں ڈالنے کا موجب بنے گا۔ محرم راز خالق کائناتؐ کا دفاع اس طریقے سے تو نہیں ہو سکتا۔

کوشش کی جائے گی کہ آئندہ کبھی اس  مسئلے کے دوسرے پہلو پر بھی  گفتگو کی جائے۔

آراء و افکار

(مئی ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter