علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۶)
اہل سنت اور اہل تشیع کی علمی روایت کا ایک تقابلی مطالعہ

مولانا سمیع اللہ سعدی

2۔ اساتذہ و تلامذہ کے بعد کتبِ رجال کا ایک اہم ترین مقصد راوی کا حدیثی مقام یعنی اس کے بارے میں ائمہ محدثین کی کی گئی جرح و تعدیل ذکر کرنا ہے، شیوخ و تلامذہ سے راوی کا زمانہ، طبقہ متعین ہوتا ہے اور جرح و تعدیل سے اس کی روایت کی حیثیت معلوم ہوتی ہے، اس سلسلے میں اہل سنت و اہل تشیع کے رجالی تراث کا ایک تقابلی مطالعہ پیشِ خدمت ہے:

اہل سنت کتب ِ رجال اور جرح و تعدیل

اہل سنت کتب ِ رجال میں ہر راوی کے تذکرے میں خصوصیت کے ساتھ جرح و تعدیل کا ذکر ہوتا ہے، جرح و تعدیل کے یہ اقوال حفاظ محدثین اور جرح و تعدیل کے مستند ائمہ سے سند کے ساتھ نقل کیے گئے ہیں، خواہ اقوالِ جرح ہوں، یا اقوال ِ تعدیل، ذیل میں اس حوالے سے چند تراجم کتب ِ رجال سے نقل کیے جاتے ہیں:

  • ابن ابی حاتم رازی اپنی کتاب الجرح و التعدیل میں ایوب بن جابر یمامی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
ايوب بن جابر اليمامي وهو أخو محمد بن جابر الحنفي روى عن حماد بن أبي سليمان وأبي إسحاق وعبد الله بن عصم روى عنه أبو داود الطيالسي وخالد بن مرداس والحسين بن محمد المروزي ويوسف بن عدي، يعد في اليماميين سمعت أبي وأبا زرعة يقولان ذلك
حدثنا عبد الرحمن أنا عبد الله بن أحمد بن حنبل فيما كتب إلي قال قال أبي: أيوب بن جابر يشبه حديثه حديث أهل الصدق
حدثنا عبد الرحمن نا محمد بن إبراهيم عن عمرو بن علي ان ايوب ابن جابر صالح قد روى عنه.حدثنا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري قال قلت ليحيى بن معين: أيوب بن جابر كيف كان حديثه؟ قال هو ضعيف، قلت هو كان أمثل أو أخوه -محمد؟ قال [ولا واحد منها.
حدثنا عبد الرحمن نا أحمد بن عصام قال كان علي بن المديني يضعف حديث أيوب بن جابر.سمعت أبي يقول: أيوب بن جابر ضعيف الحديث
قال وسئل أبو زرعة عن أيوب بن جابر فقالواهي الحديث ضعيف وهو أشبه من اخيه1

اس ترجمہ میں ابن ابی حاتم رازی نے امام احمد بن حنبل سے سند کے ساتھ ایسا قول نقل کیا، جو اس کی تعدیل کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جبکہ امام یحیی بن معین، علی ابن مدینی، اپنے والد امام ابو حاتم رازی اور امام ابو زرعہ سے اس راوی کی تضعیف نقل کی ہے، یہ سب اقوال مصنف نے ان ائمہ سے سند متصل کے ساتھ نقل کیے ہیں ۔

  • امام بخاری رحمہ اللہ الضعفاء الصغیر میں ابان ابی عیاش کے ترجمہ میں رقم طراز ہیں:
أبان بن أبي عياش: وهو أبان بن فيروز أبو إسماعيل البصري، عن أنس، كان شعبة سيئ الرأي فيه، حدثنا محمد، ثنا يحيى بن معين، عن عفان عن أبي عوانة، قال: لما مات الحسن اشتهيت كلامه، فجمعته من أصحاب الحسن، فأتيت أبان بن أبي عياش، فقرأه علي عن الحسن، ما أستحل أن أروي عنه شيئا2

اس ترجمہ میں امام بخاری رحمہ اللہ نے امام شعبہ اور امام ابو عوانہ سے اس راوی کی تضعیف نقل کی ہے۔

  • حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تہذیب التہذیب میں اسماعیل بن ابا ن الوراق کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
إسماعيل" بن أبان الوراق الأزدي أبو إسحاق ويقال أبو إبراهيم الكوفي. روى عن عبد الرحمن بن سليمان بن الغسيل وإسرائيل ومسعر وعبد الحميد بن بهرام وأبي الأحوص وعيسى بن يونس وعبد الله بن إدريس وابن المبارك وخلق. وعنه البخاري وروى له أبو داود1 والترمذي بواسطة وأحمد بن حنبل ويحيى بن معين وأبو خيثمة وعثمان بن أبي شيبة والقاسم بن زكريا بن دينار والدارمي وأبو زرعة وأبو حاتم والذهبي ويعقوب بن شيبة وجماعة من آخرهم إسماعيل سمويه وأبو إسماعيل الترمذي. قال أحمد بن حنبل وأحمد بن منصور الرمادي وأبو داود ومطين: "ثقة" وقال البخاري: "صدوق" وقال النسائي: "ليس به بأس" وقال ابن معين: إسماعيل بن أبان الوراق ثقة وإسماعيل بن أبان الغنوي كذاب" وقال الجوزجاني: "إسماعيل الوراق كان مائلا عن الحق ولم يكن يكذب في الحديث" قال ابن عدي: "يعني ما عليه الكوفيون من التشيع وأما الصدق فهو صدوق في الرواية" قال محمد بن عبد الله الحضرمي مات سنة "216". قلت: وقال البزار: "وإنما كان عيبه شدة تشيعه لا على أنه عير عليه في السماع" وقال الدارقطني: "ثقة مأمون" وقال في سؤالات الحاكم عنه: "أثنى عليه أحمد وليس هو عندي بالقوي" وقال ابن شاهين في الثقات: "قال عثمان بن أبي شيبة إسماعيل بن أبان الوراق ثقة صحيح الحديث" قيل له فإن إسماعيل بن أبان عندنا غير محمود فقال: "كان ها هنا إسماعيل آخر يقال له بن أبان غير الوراق وكان كذابا" وقال أبو أحمد الحاكم: "ثقة" وذكره ابن حبان في الثقات وقال ابن المديني: "لا بأس به وأما الغنوي فكتبت عنه وتركته" وضعفه جدا وقال جعفر بن محمد بن شاكر الصائغ ثنا إسماعيل بن أبان الوراق أبو إسحاق الكوفي: "وكان ثقة"3

اس ترجمہ میں حافظ ابن حجر نے ایک راوی سے متعلق درجہ ذیل 16 کبار ائمہ و حفاظ کے اقوال نقل کئے ہیں:

امام احمد بن حنبل، امام احمد بن منصور رمادی، امام ابو داود، امام محمد بن عبد اللہ حضرمی مطین، امام بخاری، امام نسائی، امام یحیی ابن معین، امام جوزجانی، امام ابن عدی، امام بزار، امام دار قطنی، امام ابن شاہین، امام عثمان ابن ابی شیبہ، امام ابو احمد الحاکم، امام ابن حبا ن، امام ابن المدینی،

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل سنت کتب میں راوی کے حدیثی مقام سے متعلق کتنا تفصیلی مواد موجود ہے ۔

اہل تشیع کتبِ رجال اور جرح و تعدیل

اہل تشیع کے اولین مصادر ِ رجال، رواۃ کے بارے میں ائمہ محدثین یا ائمہ (معصومین ) کی توثیق و تضعیف کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں، قلیل رواۃ کے بارے میں ایک آدھ قول توثیق یا تضعیف کا مل جاتا ہے، ہر راوی کی تعدیل یا تجریح اور وہ بھی متعدد ائمہ و اہل علم سے، جیسا کہ اہل سنت کے مصادر ِ رجال کا عام طرز ہے، اہل تشیع کی اولین کتب اس وصف سے خالی ہیں، شیعہ محققین کو بھی اس بات کا ادراک ہے، ذیل میں اولا شیعہ محققین کی اس بابت رائے نقل کی جاتی ہے، اس کے بعد بطورِ نمونہ ان کتب سے چند تراجم نقل کئے جائیں گے:

عراق کے معروف شیعہ مجتہد و محقق، جن کی بعض کتب نجف کے حوزہ علمیہ میں درسا پڑھائی جاتی ہیں، شیخ محیی الدین موسوی غریفی اپنی ضخیم کتاب "قواعد الحدیث" میں رجال کے اولین مصادرِ ستہ (رجال نجاشی، فہرست طوسی، رجال طوسی، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، رجال ابن الغضائری اور رجال البرقی ) کے بارے میں لکھتے ہیں:

"ولیس فی تلک الاصول الرجالیہ الستۃ کتاب شامل لجمیع رواۃ احادیثنابحیث یکشف عن حالھم توثیقا و تضعیفا و مدحا و جرحا"4

یعنی ان چھ کتب رجالیہ میں کوئی ایسی کتب نہیں ہے، جو ہماری احادیث کے جمیع رواۃ کے احوال باعتبار ِ توثیق، تضعیف اور جرح و مدح کے واضح کرتے ہوں ۔

اس کے بعد شیخ غریفی نے اصولِ ستہ میں سے ہر ایک کے بارے میں مزید اپنی تحقیقی رائے دی ہے، چنانچہ رجال ِ کشی کے بارے میں رقم طراز ہیں:

"فالشیخ الکشی اقتصر فی کتاب رجالہ علی الرواۃ الذین ورد فیھم احادیث مدحا او ذما و اہمل الباقین جمیعا، وبتعبیر آخرانہ اقتصر علی ذکر الروایات فی حق الرواۃ علی ان کتابہ قد رماہ النجاشی بکثرۃ الاغلاط"5

یعنی شیخ کشی نے اپنی کتاب میں صرف ان رواۃ کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے، جن کے بارے میں کوئی مدح یا ذم کی حدیث منقول ہے اور باقی سب کو چھوڑ دیا ہے، دوسرے لفظوں میں شیخ کشی نے صرف رواۃ کے حق میں منقول روایات ذکر کی ہیں، نیز شیخ نجاشی نے اس کتاب کے بارے میں کثرت ِ اغلاط کا دعوی کیا ہے ۔

شیخ طوسی کی رجال ِ طوسی کے بارے میں شیخ غریفی لکھتے ہیں:

"لم یلتزم بالتصریح بالتوثیق فی کل مورد یقتضیہ فکان غرضہ استقصاء الرواۃ فحسب، وان صرح بتوثیق کثیرمنھم بالعرض، وعلیہ فلا یکون ترکہ لتوثیق راو دالا علی عدم وثاقتہ عندہ ولذا اہمل النص علی توثیق کثیر من وجوہ الرواۃ وثاقتھم"6

یعنی شیخ طوسی نے ہر راوی سے متعلق توثیق کی صراحت نہیں کی ہے، ان کا مقصد صرف رواۃ کا احاطہ تھا، اگرچہ شیخ طوسی نے بہت سے رواۃ کی توثیق بالتبع ذکر کی ہے، لہذا کسی راوی کی توثیق کا ترک کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ راوی ان کے نزدیک ثقہ نہیں ہے، اسی وجہ سے انہوں نے کئی اہم رواۃ کی توثیق ذکر نہیں کی ہے ۔

یہاں اس بات کا اعادہ مناسب ہوگا کہ شیخ طوسی کی کتاب ِ رجال اولین مصادر رجال میں سے عدد رجال کے اعتبار سے سب سے زیادہ ضخیم کتاب ہے، اس کتاب میں تقریبا ساڑھے چھ ہزار رواۃ کا ذکر ہے، اب ان چھ ہزار رواۃ میں سے کتنے رواۃ کی توثیق و تضعیف شیخ طوسی نے ذکر کی ہے، تو معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ اس حوالے سے اپنی کتاب "دروس تمیدیۃ فی تاریخ علم الرجال " میں رقم طراز ہیں:

"ان الطوسی لم یتعہد بتقویم من یورد اسماءھم من الرجال الرواۃ، الا انہ وثق 157 رجلا وضعف 72 رجلا ووصف 50 منھم بالمجاہیل و الباقی سکت عنھم، فلم یصفھم لا بالسلب و الا با لایجاب"7

یعنی شیخ طوسی نے اس کتاب میں رواۃ کی حدیثی درجہ بندی نہیں کی ہے، سوائے اس کے کہ 157 افراد کی توثیق، 72 افراد کی تضعیف کی ہے ، جبکہ 50 افراد کو مجاہیل میں شمار کیا ہے، باقی سے سکوت اختیار کیا ہے، ان کی نہ سلبی اور نہ ایجابی کوئی صفت بیان کی ہے ۔

ساڑھے چھ ہزار رواۃ میں سے صرف 280 رواۃ کے بارے میں جرح و تعدیل کا ذکر کرنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیعہ اولین مصادر رجال اس حوالے سے کتنی تہی دامن ہیں ۔

شیخ غریفی اس کے بعد فہرست طوسی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"ولم یجر الشیخ الطوسی فی فہرستہ علی ما وعد فی المقدمۃ من الاشارۃ الی ما قیل فیھم من التعدیل و التجریح حیث اہمل توثیق کثیر من وجوہ الرواۃ"8

شیخ طوسی نے مقدمے میں جو وعدہ کیا تھا کہ رواۃ کے بارے میں منقول جرح و تعدیل کا ذکر کیا جائے گا، اس بات پر شیخ قائم نہ رہ سکے، چنانچہ بہت سے نامی گرامی رواۃ کی توثیق ذکر نہیں کی ۔

اب شیخ نے کتنے رواۃ کی تقویم ذکر کی ہے، تو محقق حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:

وثق الطوسی ھھنا 92 شخصا فقط ممن ذکرھم و ضعف 21 فقط منھم9

یعنی شیخ طوسی نے فہرست میں صرف 92 اشخاص کی توثیق اور 21 افراد کی تضعیف ذکر کی ہے ۔جبکہ حیدر حب اللہ کے بقول 912 اشخاص و رواۃ کا ذکر ہے، تو ان میں سے صرف 123 افراد کی توثیق یا تضعیف ذکر کی ہے، اس سے ان کتب رجالیہ میں رواۃ کی جرح و تعدیل پر مشتمل مواد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

شیخ غریفی رجال نجاشی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"وقد جرح و ضعف کثیر امن اولئک الرواۃ المولفین کما لم یوثق کثیر منھم"10

یعنی شیخ نجاشی نے کثیر مولفین رواۃ کی تضعیف کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بہت سے رواۃ کی توثیق بھی ترک کی ہے ۔

اگر قارئین کو شیخ غریفی کا رجال طوسی کے بارے میں "صرح بتوثیق کثیر منھم بالعرض " والا تبصرہ یاد ہے، کہ شیخ غریفی سارھے چھ ہزار میں سے 157 افراد کی توثیق کو کثیر من الرواۃ کہہ رہے تھے ، تو اس "وضعف کثیرا من اولئک الرواۃ" کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے رواۃ کی تضعیف کی ہوگی؟

شیخ حیدر حب اللہ نے بھی رجال نجاشی کے بارے میں اس جیسا تبصرہ کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

"لم یکن غرض النجاشی کما بینا حیت تالیفہ لکتابہ تقویم رواۃ الحدیث والرجال الذین یذکرھم فیہ الا انہ مع ذلک قیم جمعا ممن ذکرھم علی انحاء"11

یعنی نجاشی کا مقصد اس کتاب کی تالیف سے شیخ نجاشی کا مقصد رواۃ و رجال کی درجہ بندی کرنا نہیں تھا، اس کے باوجود شیخ نجاشی نے کئی طریقوں سے متعدد رواۃ کی تقویم ذکر کی ہے ۔

آخر میں شیخ غریفی رجال برقی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"والبرقی لم یذکر فی کتابہ جرحا و لا تعدیلا للرواۃ و انما عد طبقاتھم بدون استیفاء"12

یعنی شیخ برقی نے اپنی کتاب میں رواۃ کی جرح و تعدیل زکر نہیں کی ہے، آپ نے بغیر احاطہ کئے رواۃ کے طبقات کا ذکر کیا ہے ۔

ان مصادر ِ رجالیہ میں سے صرف کتاب الضعفاء المعروف رجال ابن الغضائری وہ واحد کتاب ہے، جس کا مقصد ضعیف رواۃ کا ذکر ہے، لیکن اس کتاب کے بارے میں شیعہ اہل علم کے متعدد اختلافی ابحاث منقول ہیں، جیسے کہ اس کا ا صل مصنف کون ہیں ؟ کتاب کی استنادی حیثیت کیا ہے ؟ اس کتاب کی تضعیفات کا کیا مقام ہے؟اس کتاب کے بارے میں بعض مستند رواۃ کی تضعیف کی کیا تاویلات ہیں، یہ سب مباحث شیخ حیدر حب اللہ نے اپنی کتاب دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ (ص 132 تا ص142 ) بیان کئے ہیں، ان سب اختلافی مباحث کے باوجود یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کتاب میں کل 225 کے قریب رواۃ کا ذکر ہے ۔

ان چھ کتب رجال کے ساتھ اس دور کی دو اور کتب بھی قابلِ ذکر ہیں، ایک معروف شیعہ عالم و مورخ ابن شہر آشوب مازندرانی کی "معالم العلماء فی فہرسۃکتب الشیعۃ واسماء المصنفین قدیما و حدیثا " ہے، جبکہ دوسری کتاب چھٹی صدی ہجری کے شیعہ عالم شیخ منتجب الدین رازی کی "فہرسۃ منتجب الدین " ہے، یہ دو کتب بھی شیعہ علم رجال کی اولین مصادر میں شمار کی جاتی ہیں، اگرچہ انہیں اصول اربعہ یا اصول خمسہ میں نہیں گنا جاتا، لیکن اصولِ رجالیہ کے زمانے کی کتب ہونے کی بنا پر ان کی بھی خاصی اہمیت ہے، یہ دونوں کتب بھی جرح و تعدیل کے اعتبار سے دیگر اصولِ رجالیہ کی طرح تہی دامن ہیں، چنانچہ شیخ حیدر حب اللہ معالم العلماء کے بارے میں لکھتے ہیں:

"نص المازندرانی علی وثاقۃ 44 شخصا و علی ضعف خمسۃ اشخاص آخرین"13

یعنی مازندرانی سے صرف 44 اشخاص کی توثیق اور صرف 5 اشخاص کی تضعیف بیان کی ہے، حالانکہ شیخ حیدر حب اللہ کے بقول اس میں کل 1021 اشخاص کے تراجم بیان ہوئے ہیں، یوں ہزار اشخاص میں سے صرف پچاس رواۃ کے بارے میں توثیق یا تضعیف ملتی ہے ۔ جبکہ فہرسۃ منتجب الدین میں دیگر کتب کی بنسبت اشخاص کی تعریف، توثیق زیادہ ملتی ہے، اگرچہ یہ کتاب بھی اصلا فہرسۃ الطوسی کی طرح شیعہ مصنفین کی ببلوگرافی ہے، اسی وجہ سے شیخ حیدر حب اللہ اس کی توثیق و تضعیف کو اہمیت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وفائدۃ الکتاب فی مجال التراجم اکثر منھا فی مجال التوثیق و التضعیف"14

لیکن اس کتاب میں ساڑھے پانچ سو کے قریب مصنفین کاذکر ہے، اگر ہم اس کا نصف بھی توثیق پر مشتمل مان لیں، تو پونے تین سو کے قریب رواۃ کی توثیق ثابت ہوتی ہے، جو ظاہر ہے شیعہ رواۃ کی کل تعداد کے اعتبار سے نہایت قلیل تعدادہے، اس کتاب سے چند تراجم نقل کئے جاتے ہیں، تاکہ اس کتاب کی توثیق کا انداز واضح ہوسکے:

"السيد الاشرف بن الحسين بن محمد الجعفري.ثقة، فاضل
السيد مصباح الدين أبو ليلى احمد بن محمد بن احمد الحسينى عدل ثقة
الشيخ وجيه الدين أبو طاهر احمد بن (محمد بن احمد بن) ابى المعالى.فاضل، فقيه، ثقة15"

ان تین تراجم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان تراجم میں راوی کے ساتھ صرف ثقہ یا فاضل کا لفظ ہے، اہل سنت کتب کی طرح(جن سے تراجم ما قبل میں ہم نقل کر چکے ہیں) متعدد ائمہ جرح و تعدیل سے سند متصل کے ساتھ راوی کی توثیق یا تضعیف کے بارے میں تفصیلی اقوال بالکل نہیں ہیں ۔

یوں اہل تشیع کے اولین مصادر رجال ، جن میں خصوصیت کے ساتھ رجال کے مصادر خمسہ (رجال نجاشی، فہرست طوسی، رجال طوسی، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، رجال ابن الغضائری )بھی شامل ہیں، جو شیعہ علم رجال کا منبع شمار ہوتی ہیں، ان کتب میں رواۃ کی توثیق یا تضعیف کا مواد نہ ہونے کے برابر ہیں، جن کا اقرار خود شیعہ محققین کو بھی ہے، کما مر

حواشی

  1.  الجرح و التعدیل، ابن ابی حاتم رازی، ج2، ص 242، رقم الترجمہ:862
  2.  الضعفاء الصغیر، امام بخاری ص29، رقم الترجمہ:33
  3.  تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ج2، ص269، رقم الترجمہ:506
  4.  قواعد الحدیث، الغریفی، ج1، ص191
  5.  ایضا:ج1، ص192
  6.  ایضا:ج1، ص 196
  7.  دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، حیدر حب اللہ، ص 144
  8.  قواعد الحدیث، ج1، ص 194
  9.  دروس تمہیدیۃ ص 158
  10.  قواعد الحدیث، ج1، ص 192
  11.  دروس تمہیدیہ:ص 125
  12.  قواعد الحدیث:ج1، ص 196
  13.  ایضا:ص167
  14.  دروس تمہیدیۃ، ص 165
  15.  فہرست شیخ منتجب الدین، منتجب الدین رازی، ص36

(جاری)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(جنوری ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter