مصنف: مولانا محمد تہامی بشر علوی
ناشر: اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
صفحات: ۱٠٠
عالمِ شہود کے ساتھ ایک عالمِ غیب کا وجود اور ان کے باہمی تعلق کی نوعیت کا سوال انسانی شعور کے لیے ایک غیر فانی سوال کے طور پر ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی شعور کو جن گہرے اور پیچیدہ سوالات کا سامنا ہے، عالم شہود ان کا جواب فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہے، اور خود عالم شہود اور اس کے مختلف مظاہر کی تفہیم وتوجیہ کے لیے انسانی شعور کو مابعد الطبیعیاتی تصورات اور ان پر مبنی ایک نظام وجود کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اساطیری مذاہب میں متھالوجی، مبنی بر وحی مذاہب میں عالم غیب کی نقشہ کشی اور فلسفے کی روایت میں مابعد الطبیعی نظام ہائے فکر انسانی شعور کی اسی طلب کو پورا کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔
انسانی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ عالم شہود اور عالم غیب کے باہمی تعلق کی نوعیت کو اور خاص طور پر اس پہلو کو سمجھنے میں کہ عالم غیب سے متعلق انسان کے تصورات کو کس حد تک عالم شہود میں اس کے فکر وعمل پر اثر انداز ہونا چاہیے، یہ نکتہ بہت بنیادی رہا ہے کہ خود عالم شہود سے متعلق انسان کو عقل وتجربہ کے دائرے میں کس طرح کی معلومات اور اس میں تصرف وتسخیر کی کس نوعیت کی صلاحیت حاصل ہے۔ تاریخی طور پر، عقل وتجربہ کے دائرے میں عالم شہود سے متعلق علم اور اس کے نتیجے میں تصرف وتدبیر کا دائرہ وسیع تر ہوتے چلے جانے کا براہ راست اثر عالم غیب سے متعلق انسانی تصورات واحساسات پر مرتب ہوتا رہا ہے اور جدید سائنسی معلومات واکتشافات نے اسی تناظر میں فلسفیانہ فکر اور مذہبی اعتقاد، دونوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
دور جدید میں مسلمانوں کی دینی فکر میں سائنس اور مذہب کے باہمی تعلق کا سوال کئی حوالوں سے موضوع بحث ہے، لیکن وہ عمومی طور پر بعض جزوی حوالوں سے ہے اور اس میں زیربحث پہلو بھی عموما مسئلے کی ظاہری سطح سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی فکر میں سائنس کو عموما ٹیکنالوجی کے ہم معنی یا کائناتی مظاہر سے متعلق معلومات کی فراہمی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہوئے یہ پوزیشن اختیار کی جاتی ہے کہ موضوعات کا دائرہ الگ الگ ہونے کی وجہ سے مذہب اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں اور یہ کہ سائنسی تحقیق وتفتیش، اپنی نوعیت کے اعتبار سے مذہب کے لیے کوئی سوال کھڑا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ تاہم ایک خاص سطح پر یہ بات درست ہونے کے باوجود، جدید سائنسی تصور کائنات نے براہ راست نہ سہی، لیکن بالواسطہ مذہبی عقیدے، انداز فکر اور طرز احساس پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں اور بہت بنیادی نوعیت کے سوالات کو جنم دیا ہے۔مذہبی فکر میں اس صورتِ حال اور اس کے مضمرات کے گہرے ادراک کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔
برادرم مولانا محمد تہامی بشؔر علوی نے زیرِ نظر تحریر میں اس سوال کے بہت اہم پہلووں کے حوالے سے اپنے غور وفکر اور مطالعہ کے نتائج پیش کیے ہیں۔ ان کا اسلوب تحریر کافی compact ہے اور یہ فرض کر کے بات کو آگے بڑھاتا ہے کہ قاری بحث کے پسِ منظر اور اہم مباحث سے عمومی طورپر واقف ہے۔ گویا یہ تحریر ایک عام اور نئے قاری کے لیے بحث کی تسہیل وتفہیم کے لیے نہیں لکھی گئی، بلکہ اس کا مخاطب مذہب اور سائنس کے ڈسکورس سے علمی واقفیت رکھنے والے اہلِ دانش ہیں۔ مزید تخصیص کے ساتھ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ تحریر مذہبی علماء اور اساتذہ وطلبہ کو مسئلے کی وسیع تر جہات اور نہایت اہم اور نازک سوالات کی طرف متوجہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کے بہت سے تجزیاتی نکات سے اختلاف ممکن ہے اور مذہبی روایت کے بعض پہلووں کی تفصیل کے حوالے سے بھی تشنگی محسوس ہوتی ہے، لیکن اپنے بنیادی مقصد کے لحاظ سے اسے ایک کامیاب اور مفید کوشش قرار دینے میں مجھے کوئی تردد محسوس نہیں ہوتا۔
امید کرنی چاہیے کہ اس موضوع پر سنجیدہ غور وفکر اور بحث ومباحثہ کو درست خطوط پر آگے بڑھانے میں مولانا بشؔر علوی کی یہ کوشش مفید ثابت ہوگی اور مصنف کے علاوہ دیگر اہلِ دانش بھی بحث کے کئی دوسرے تشنہ پہلووں پر بھی اسی طرح توجہ مرکوز کر سکیں گے۔
کتاب بذریعہ ڈاک منگوانے کے لیے حافظ محمد طاہر سے رابطہ کیا جا سکتا ہے: