نظام مدارس: روایت اور معاصرت کا اطلاقی جائزہ

ڈاکٹر اکرام الحق یاسین

(1)

13؍ جون 2021ء بروز اتوار، دن 11 بجے تا 2 بجے زوار اکیڈمی کراچی کے زیر اہتمام”عصر حاضر اور ہمارے مدارس“ کے موضوع پرایک ویبینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں راقم نے ”نظام مدارس: روایت اور معاصرت کا اطلاقی جائزہ“ کے عنوان کے تحت درج ذیل گفتگو کی:

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین

مدارس دینیہ جس ماحول میں قائم کیے گئے تھے، اس کا بظاہر بنیادی مقصد دینی علوم کا تحفظ اور دعوتِ دین کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ انگریز کے ملک پر مکمل قبضہ کے بعد مدارس کے لیے وقف جائیدادیں تقریباً ضبط کرلی گئی تھیں اور سرکاری سرپرستی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔ لہٰذا عام مسلمانوں کی مدد سے ہر حال میں یہ دونوں مقاصد پورے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں نہ تو عمارت میسر آنے کا انتظار کیا گیا، نہ طلبہ کے داخلوں کے باقاعدہ اعلان کیے گئے نہ ہی اساتذہ کے تقرر کا اہتمام کیا گیا۔ اُس وقت کے علماء نے جو طے کیا اُس پر ”جہاں ہے جیسا ہے“ کے تحت عمل شروع ہوگیا۔ کسی نے درخت کے نیچے ایک استاذ ایک شاگرد کے ساتھ کام شروع کیا۔ یہ دار العلوم دیوبند کی ابتداء (30؍ مئی 1866ء/ 15؍ محرم الحرام 1283ھ) تھی۔کسی نے اپنے گھر سے ہی اس کی ابتدا کرلی، اور جس کو جو میسر آیا اس مقصد کے لیے، اسے استعمال کرنا شروع کردیا۔ کھانے وغیرہ کی ضروریات کے لیے گھر گھر جا کر مانگنے سے بھی اجتناب نہیں کیا گیا۔ للہیت اس قدر تھی کہ فاقے، مجبوریاں اور بیماریاں بھی اس راہ میں رکاوٹ نہیں بنے۔ نصاب ایسا اختیار کیا گیا کہ جس میں اُس وقت کے جدید علوم بھی شامل رکھے گئے اور مسلم روایت کے قدیم علوم بھی شامل کیے گئے۔ اس نصاب کی تعلیم مکمل کرکے سرکاری ملازمت حاصل کرنا نہ تو مقصد تھا اور نہ ہی اس کے کوئی خاص امکانات موجود تھے۔ ان مدارس کے ساتھ ساتھ علیگڑھ کی تحریک جو 1853ء سے ابھی تک جاری تھی، ایک نئے تعلیمی نظام کے طور پر متعارف ہوچکی تھی۔ دیوبند قائم ہونے کے تقریباً 28 سال بعد 1894ءمیں ندوہ کی علمی تحریک بھی شروع ہوئی۔ اس طرح کے جو نظامہائے تعلیم وجود میں آئے ان کے فضلاء کو ریاستی نظم ونسق میں زیادہ حصہ ملا۔ مدارس دینیہ تحفظ علوم دینیہ اور دعوت الی اللہ کا کام نہایت خوش اسلوبی اور خلوص کے ساتھ سرانجام دیتے رہے۔ یہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عوام کے لیے اقامت شعائر دینیہ اور مسائل دینیہ میں رہنمائی کا کام بھی بخوبی نبھایا۔

یہ کام مدارس اب تک کر رہے ہیں۔ پاکستان بنا تو 27؍ نومبر 1947ء کو اُس وقت کے دار الحکومت کراچی میں قائد اعظم کی سرپرستی میں آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس مسلسل چھ دن یعنی یکم دسمبر 1947ء تک جاری رہی، اور اس میں پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں اہم فیصلے کیے گئے۔ ان میں کچھ فیصلے تو فنی تعلیم اور خواتین کی تعلیم کے بارے میں تھے، مگر ایک اصولی اور مشترکہ فیصلہ یہ تھا کہ پورا نظام تعلیم ایسا بنایا جائے گا کہ اس کی اصل روح نظریہ پاکستان سے پھوٹتی ہو اور اس کی بنیادیں اسلام سے بنتی ہوں۔ اس کام کو آسان کرنے کے لیے ایک ادارۂ تحقیقات اسلامی اور ایک پاکستان اکیڈمی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اصولی فیصلہ کرنے کے بعد اسی کانفرنس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ مدارس دینیہ کو اسی نظام تعلیم کا حصہ بنادیا جائے۔ اس سے کچھ ہی عرصہ بعد، مارچ 1948ء میں، پاکستان کے پہلے نظریاتی ادارے ادارہ اسلامی تعمیر نو (Department of Islamic Reconstruction) کا مجلہ ”عرفات“ شائع ہوا تو اس میں ”پاکستان میں ایک مرکزی دار العلوم کا قیام“ کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا، جس میں نبی کریم ﷺ کے وقت سے لے کر موجودہ زمانے تک نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی ضروری تفصیلات بیان کی گئیں اور اس مقصد کو جاری رکھنے کے لیے ایک مرکزی دار العلوم کے قیام کی تجویز دی گئی تھی۔

اگر یہ نظام قائم ہوجاتا اور علوم دینیہ دیگر علوم کے ساتھ ساتھ کما حقہ اس نظام کا حصہ بن جاتے تو پاکستان واقعتاً اب ایک اسلامی ریاست بن چکا ہوتا، مگر وجوہات کچھ بھی ہوں، وسائل کی کمی ہو، رجال کار کی کمی ہو، ارادے کی کمزوری ہو، سیاسی حالات ہوں، نوزائیدہ ملک کی دفتر شاہی یا افسر شاہی ہو، تجزیہ جو بھی کرلیا جائے مگر نتیجہ ایک ہی ہے کہ یہ کام نہیں ہوسکا۔ قومی اسمبلی کے مباحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وقتاً فوقتاً علماء کی طرف سے ریاستی بجٹ میں مدارس کا حصہ رکھنے کی بات بھی ہوتی رہی اور حکومتوں کی طرف سے مدارس کو رقوم دینے کا ذکر بھی چلتا رہا، مگر نظام تعلیم کا سلسلہ مربوط نہ ہوسکا، نہ ہی مُلا اور مسٹر کی تفریق ختم ہوسکی۔ ملک میں ندوہ اور علیگڑھ کے نمائندہ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر تھے البتہ دیوبند، سہارنپور اور بریلی یا شیعہ مکتب فکر کے مرکز لکھنؤ کے مدارس خاصی تعداد میں موجود تھے مگر ان سب کا نظام روایتی تھا، معاصر نہیں تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دینی اور دنیوی یا روایتی اور عصری کی تفریق بڑھتی چلی گئی اور ہمارے دونوں نظامہائے تعلیم ایک طرف ملاّ اور ایک طرف مسٹر پیدا کرنے لگے۔ ان کے آپس میں ملنے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی۔ کچھ مدارس پر معاصرت کا تجربہ کیا گیا تو وہ بری طرح ناکام ہوا، نہ وہ مدرسے رہے اور نہ ان کے وہ نصاب رہے۔ جامعہ عباسیہ بہاولپور کو اسلامیہ یونیورسٹی میں بدلنا اس کی ایک مثال ہے جہاں اسلام کے نام کے علاوہ باقی ایک مکمل یونیورسٹی بن گئی۔

وقت کے ساتھ ساتھ مدارس دینیہ میں ایک طرف یہ تأثر پختہ ہوتا چلا گیا کہ یہ حکومتیں انگریزی نظام تعلیم کی وارث ہیں اور دوسری طرف نظام ریاست میں جو حصہ تحریک پاکستان سے لے کر علماء ومشائخ نے دستور بننے تک ڈالا تھا نظام کو جاری رکھنے میں، وہ حصہ بھی تقریبا ختم ہوگیا۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے اس وقت ہمارے مدارس دینیہ کے پاس خواہ اس کا مسلک کوئی بھی ہو، بڑی بڑی عمارتیں ہیں، داخلوں کے باقاعدہ اعلان ہوتے ہیں، صرف مقررہ معیار پر پورا اترنے والے طلبہ ہی داخلہ حاصل کرسکتے ہیں، اساتذہ کی تھوڑی یا بہت، ماہانہ تنخواہیں مقرر ہیں۔ حسب توفیق سہولیات مہیا کرنے کا اہتمام یا کم از کم دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اکثر مہتمم صاحبان کا معیار زندگی بہت بلند ہے۔ صدقات، زکوٰۃ، عطیات سب ایک بینک میں ہوتے ہیں اور مختلف مصارف کا مسئلہ کتاب الحیل سے حل ہوجاتاہے۔ مدارس کے باقاعدہ وفاق قائم ہیں۔ زمانے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ ان کی ڈگریوں کی اہمیت اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ ایسے میں بہت سے فضلائے مدارس دینیہ کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اچھے مناصب حاصل کرنے کا موقع بھی مل چکا ہے۔ ان میں محکمہ تعلیم زیادہ سرفراز ہے۔ حلال فوڈز، اسلامک بینکنگ، مضاربہ، مشارکہ اور دسیوں کاروبار ایسے ہیں جو مدارس دینیہ کی اسناد کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ ان کی کامیابی یا ناکامی، نیک نامی یا بد نامی ساتھ ساتھ ہی چل رہے ہیں۔

فی زمانہ حالات خلط ملط ہوچکے ہیں۔ مدارس اپنی روایت، اپنی سادگی، دعوت الی اللہ اور حتی کہ روز مرہ کے مسائل میں رہنمائی کا منصب بھی تقریباً کھوچکے ہیں، یا زیادہ بہتر یوں کہا جائے کہ یہ رہنمائی کافی حد تک غیر متعلق ہوچکی ہے۔ معاشرے میں بسنے والے لوگ ایک ہی ہیں، مگر قانون انہیں اور طرح سے مخاطب کرتا اور ان پر احکامات کا اطلاق کرتا ہے اور مدرسے کی تعلیم ان کو اس کے بالکل الٹ مخاطب کرتی اور ان پر احکامات کا اطلاق کرتی ہے۔ مدرسے کا نظام کافی حد تک جدید ہوچکا ہے، مگر نصاب اور اس کا طریقہ تعلیم قرونِ وسطیٰ کی زبان بولتا ہے۔ صَرف اور نحو کو لے لیا جائے تو ضرب زید عمرا سے باہر جانا سلف کی بے ادبی شمار ہوتا ہے اور زید عمرو بکر کے علاوہ کسی کا نام لینا تو حد سے پار ہونے کے مترادف ہے۔ علمِ بلاغت، معانی، بدیع وغیرہ آسمان کی بلندیوں پر ہیں اور جس زبان کی تحسین وتزئین انہوں نے سرانجام دینا تھی وہ زبان کہیں گلیوں اور محلوں میں بھٹکتی پھر رہی ہے۔ سائنسی علوم ویسے ہی تقویٰ کے خلاف شمار ہورہے ہیں، جبکہ منطق وفلسفہ روز مرہ کے محاورے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ فقہی احکام میں گھوڑوں اور خچروں کے تذکرے اور اطلاقی مثالیں ابھی تک نصاب کا حصہ ہیں۔ اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں کے احکام، ذمی اور مسلم کی بحث، جزیہ کے ابواب۔ یہ سب کچھ اپنے تقدس کے ساتھ اب تک ہمارے نصاب کا مرکزی مضمون ہے۔ عبادات کو دیکھیں، تو اسباب اور وسائل کی تبدیلی نے بہت سے نئے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ زکوٰۃ کو دیکھیں، تو اس میں نئے اموال جنم لے چکے ہیں۔ وکیلوں کا مشورہ، مصنف کا تصور اور خیال، ای میل کی تجارت، سٹاک ایکسچینج کے شیئرز، مالیات کے معاصر موضوع ہیں، مگر ہمارے نصاب میں ان کا کہیں اتہ پتہ نہیں ہے۔ ”الامامۃ والسیاسۃ“ کے ابواب مطلقاً بدل چکے ہیں۔ ان معروضات کو مثال بنا کر باقی پہلوؤں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ان مدارس کے فضلاء اوّل تو ریاستی نظام سے بالکل الگ تھلگ اپنے منبر ومحراب، مکتب ومدرسہ، جلسہ وجلوس، دھرنا اور مارچ میں مشغول رہتے ہیں اور ایسا موقع بھی آجاتا ہے کہ جہاد کا عَلم بلند کیے ہوئے سر دھڑ کی بازی لگاتے بھی نظر آتے ہیں۔ مگر چونکہ ان تمام چیزوں کا مضمون دور حاضر کی ضروریات اور نظام سے بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے، اس لیے یہ سب چیزیں یا تو صدا بصحرا ثابت ہوتی ہیں یا پھر زیادہ تکلیف دِہ بات یہ ہے کہ ریاستی اداروں کو مجبوراً علماء کے مسائل اور ان کے میدان ہائے تقدس کے مطابق ان کی درجہ بندی کر کے دینی پریشر بلڈنگ یا پریشر ریلیزنگ کے لیے انہیں استعمال کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ان کے پاس سکہ رائج الوقت یہی کچھ ہے۔

اب تھوڑی سی بات مسئلے کے حل کے بارے میں کر لیتے ہیں۔ ریاست کی طرف سے یہ کاوشیں کہ یکساں نصابِ تعلیم کے ذریعے مدارس دینیہ بھی مین سٹریم میں آجائیں اور سسٹم کا حصہ بن جائیں، بظاہر قابل عمل نظر نہیں آتیں، جس میں ایک مشکل مالیات کی ہے کہ شاید یہ نظام بدلنے سے چندے کی وہ مقدار حاصل نہ ہو جو دنیا وآخرت کی فلاح وبہبود کے عنوان سے حاصل ہوتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جو نظم ونسق چل رہا ہے اور پاکستان جس طرح قرضوں کے بوجھ تلے دب رہا ہے اس میں یہ بھی عین ممکن ہے کہ چندے کا سلسلہ بالکل ہی ختم ہوجائے اور قابل تعزیر جرم قرار پائے۔ وقف بل کی روشنی میں اگر مدارس کے تمام ذرائع اور وسائل حکومتی تحویل میں آجاتے ہیں تو حکومتی خزانے میں اتنے وسائل نہیں کہ مدارس کے روز مرہ اخراجات پورے کرسکیں۔ اس لیے یہ سلسلہ شاید شروع ہی نہ ہوسکے اور اگر شروع ہو بھی جائے تو چلنا محال نظر آتا ہے۔ دوسری مشکل یہ ہوگی کہ نصاب کا دینی حصہ نہ تو مضمون کے لحاظ سے دینی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوگا نہ اس کی تدریس اچھے طریقے سے ہوسکے گی اور اس وقت مدارس میں کم از کم جو روایتی نصوص، متن، اور شروح وغیرہ سمجھنے کی حد تک علم موجود ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ تیسری اہم اور سب سے بڑی مشکل یہ ہوگی کہ اگر دینی مدارس بھی گریجویٹ پیدا کرنا شروع کردیں گے جس طرح عصری تعلیمی ادارے کر رہے ہیں تو یہ ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہوگا۔ اس وقت تو مدارس کے فضلاء عذاب ثواب اور جنت جہنم کے فلسفے پر جیسا تیسا گزارہ کر رہے ہیں اور ان کے عوام بھی اپنے اپنے مسلک کو جنت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے ان کی مالی مدد کر رہے ہیں اور ان کو بڑے احترام کا مقام دیتے ہیں۔ لیکن مدارس کو مین سٹریم میں لانے سے یہ جن ایسا بے قابو ہوجائے گا کہ بے روزگاری کا ایک بہت بڑا طوفان آجائے گا اور پورا ملک بھی اگر گروی رکھ کر قرضے لیے گئے تو آبادی کا کھانا پینا بھی پورا نہ ہوسکے گا۔

مسائل کا حل یک دم نہیں ہوتا، دھیرے دھیرے آہستہ آہستہ ان کے حل کے لیے کچھ تجاویز درج ذیل ہیں:

1- مدارس فوری طور پر دعوت الی اللہ اور نجی دینی مسائل میں رہنمائی کا نظام عصر حاضر کے عرف کے مطابق بنائیں، ورنہ امام شامی کا یہ فتویٰ ”من لم يعرف أحوال زمانه فهو جاهل“ سب کی طرف متوجہ ہوگا۔ امام شاطبی کے مقاصد شریعت کے ایک مقصد کو لیتے ہوئے مدارس کے طلبہ وفضلاء کو دور جدید کے نظاموں اور اصطلاحات سے واقف کرنا بہت ضروری ہے۔ فضلائے مدارس کی اصطلاحات اور عام آدمی کی زبان میں بالکل ربط نہیں ہے، اس کے لیے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے دو اداروں شریعہ اکیڈمی اور دعوہ اکیڈمی کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ مختصر مدت کے کورسز جن میں پاکستان کا نظام عدل مفتی صاحبان کے لیے، جدید اسالیبِ دعوت خطباء اور واعظین کے لیے، پاکستان کے احکام معیشت وتجارت اسلامی معیشت کا شوق رکھنے والے مفتی صاحبان کے لیے اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے دیگر بہت سے کورسز مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ ہر کورس کے لیے فی الحال دو دو ہفتوں کا وقت کافی ہے۔ ہر شہر کے بڑے بڑے دینی مدارس اس کے لیے جگہ اور ممکنہ سہولیات مہیا کریں اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ اس میں سرپرستی کا کردار ادا کرے۔ ہر کورس میں پاکستان کے تمام مکاتب کے طلبہ وفضلاء ہوں جو ایک ہی مدرسے میں جمع ہو کر یہ کورس کریں۔ کسی کورس کا مرکز دیوبندی مدرسہ ہو، کسی کا بریلوی مدرسہ اور کسی کا اہل حدیث مدرسہ ہو۔

2- مدارس کے پورے نصاب کی اصطلاحات کو ایک الگ فہرست کی شکل دے کر اس کی اردو یا اردو میں مستعمل دیگر زبانوں کی اصطلاحات اس کے مترادف کے طور پر مرتب کی جائیں۔ فی الحال مختلف مضامین کی اصطلاحات کا کام مختلف مدارس کے طلبہ وفضلاء کے ذمے لگایا جائے اور انہیں جلد از جلد مرتب کرکے انٹرنیٹ پر اپلوڈ کردیا جائے اور بعد میں اس کو طباعت کے مراحل سے گزارا جائے۔

3- فقہ سے متعلق اس بات کا اہتمام کیا جائے مفتی صاحبان کو ایسے قوانین پر مشتمل کورسز کرائے جائیں جو اس وقت نافذ العمل ہیں اور بار کونسلز کے ساتھ رابطہ کرکے ان مضامین میں تخصص رکھنے والے وکلاء اور مفتی صاحبان کی مقامی مشاورتی کمیٹیاں بنائی جائیں، جس کا مقصد یہ ہو کہ قانون اور فقہی احکام دونوں کے اختلاف کی صورت میں عام آدمی کو نکاح اور طلاق کے نئے طریقے اور مناہج واسالیب سکھائے جائیں جس پر تطبیق کی قدیم اصطلاح صادق آسکے۔ یہی کام تجارت، محاصل اور مالی لین دین کے قوانین کے لیے بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات، جس کی اس سلسلے میں 100 سے زائد مطبوعات شائع ہوچکی ہیں اور ویب سائٹ پر اس کا سرچ انجن بھی موجود ہے اور پی ڈی ایف میں اس کی فائلیں مل جاتی ہیں، ان کا مطالعہ کرنے سے یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ تقریباً اسی نہج کا کام ہے۔

4- نصاب اور نظام تعلیم کی مشکل سے نکلنے کے لیے چونکہ ثواب، توکل دنیوی لحاظ سے علماء ہی کا تخصص بنتا ہے۔ اس لیے مہربانی فرما کر پہلی قومی تعلیمی کانفرنس 1947ء اور بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے نصاب کو مد نظر رکھتے ہوئے روایت اور معاصرت کو یکجا کرکے نصابی کتب تیار کروائی جائیں اور عام آگہی کے لیے مختصر کتابچے طبع کرائے جائیں۔ جب یہ ٹرینڈ بن جائے گا تو اس کو نصاب کا حصہ بنانا اور اس پر تحقیق کرنا مشکل نہیں ہوگا۔

5- فی الحال دور جدید کے اسلامی مصنفین کی کتابیں یا ابواب وفاقہائے مدارس کی نصابی کمیٹیوں کے ذریعے قدیم کتب وابواب کی جگہ مقرر کردی جائیں۔ وہبہ زحیلی وغیرہ کی کتابیں فقہ میں اور اسی طرح النحو الواضح وغیرہ اور اسے ملتی جلتی کتابیں صَرف ونحو میں شامل کی جاسکتی ہیں، یا کم از کم ایسا ہو کہ نصاب میں ان پر مشتمل جزوی تبدیلی لائی جائے۔ اس سلسلے میں مصر، شام اور دیگر عرب ممالک کے نصاب ہائے تعلیم سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری نہیں کہ خلوص اور للہیت پر کمپرومائز کریں، بلکہ اسی ماحول میں پڑھائیں جس میں قدیم نصاب پڑھایا جاتاتھا، اساتذہ نماز روزوں کی پابندی کریں اور کرائیں، مطالعہ اور تکرار کا وہی نظام ہو جو پہلے سے چل رہا ہے۔ فنون میں ضرب زید عمرا سے نکل کر جدید عربی عبارات، سیاسی، سماجی اور معاشرتی اصطلاحات پر مشتمل مثالوں کے ذریعے یہ فنون پڑھائے جائیں۔

علوم میں جدید فقہی اصطلاحات کا احاطہ کرنے کے لیے مدارس کو رجال کار کا سخت مسئلہ پیش آئے گا، یہ ایک حقیقت ہے۔ اس کے لیے یا تو ہمت کرکے ریاستی معاہدات کی روشنی میں سعودی عرب، مصر وغیرہ سے حسب ضرورت اساتذہ مبعوثین منگوالیے جائیں یا پھر مختلف اداروں میں پہلے سے موجود عرب اور دیگر اساتذہ کی خدمات لے کر شعبان اور رمضان میں تدریب المعلمین کے کورسز کرائے جائیں۔ مدارسِ دینیہ کے فضلاء اس قدر پختگی اور صلاحیت والے ہیں کہ انہیں دو ماہ کے عرصے تک جو پڑھادیا جائے اسے مزید ترقی دینے میں ان کی اپنی صلاحیتیں ان کی معاون ومددگار ہوں گی۔

6- طویل مدت کے لیے نصاب کو اس نہج پر لانا ضروری ہے کہ جو لوگ دعوتِ دین اور افتاء وارشاد کے میدان میں کام کرنا چاہیں وہ اصول شریعت کے ساتھ فروعِ جدیدہ اور عرفِ حاضر سے اچھی طرح واقف ہوں اور جو لوگ موجودہ ریاستی نظام تعلیم کے تخصصات میں جانا چاہیں ان کے لیے راستے کھلے ہوں۔ بنگلہ دیش کا نظامِ مدارس یہ کام شروع کرنے کے لیے بہت عمدہ لائحہ عمل مہیا کرتا ہے، اس سے استفادہ کرلیا جائے۔ اس میں ضروریات کے مطابق تبدیلی کی جاسکتی ہے۔

7- مدارس دینیہ کے نصاب میں اگر ہوسکے تو کسب معاش کے کچھ فنون کا ابتدائی تعارف بھی شامل کردیا جائے جو ملازمت سے ہٹ کر اپنا کام کرنے میں مددگار ہو، جیسے قدیم نصاب میں طب بہت اہتمام سے پڑھائی جاتی تھی۔


(2)

21؍ جون 2021ء بروز سوموار، 4بجے شام کو تنظیم اساتذہ پاکستان نے، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد، نیشنل ایسوسی ایشین فار ایجوکیشن (نافع) پاکستان اور حرا نیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تعاون سے”یکساں قومی نصاب: اہمیت، تقاضے اور خدشات“ کے عنوان سے ایک قومی مشاورتی سیمینار منعقد کیا۔ اس سیمینار میں راقم نے ” یکساں قومی نصاب اور ہمارے مدارس کا نظام“ کے موضوع پر درج ذیل گفتگو کی:


یکساں قومی نصاب اور ہمارے مدارس کا نظام

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی آلہ وصحبہ اجمعین

جناب پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد صاحب

پروفیسر ڈاکٹر اکرم چوہدری صاحب

پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب

برادر گرامی پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین لنگڑیال صاحب

صدر مجلس

یہ ایک ایسی علمی مجلس ہے جس میں میرے اساتذہ کرام اور میدان تعلیم وتعلم کے اساطین تشریف فرما ہیں۔ میرے لیے لب کشائی کا کوئی موقع نہیں بنتا۔ یہاں بیٹھ کر اپنے بڑوں کی باتیں سن لینا ہی بہت بڑا اعزاز ہوگا۔ تاہم چونکہ پروگرام میں نام شامل ہوگیا ہے اس لیے اپنے اساتذہ کو اُنہی کا دیا ہوا سبق سنانے کی کوشش کروں گا تاکہ اس میں اصلاح ہوسکے۔ خواتین وحضرات! ملک میں تیار ہونے والا یکساں تعلیمی نصاب اپنے اندر بہت سے قابل بحث نقاط اور بہت سے قابل تحقیق گوشے رکھتا ہے۔ مدارس دینیہ کے حوالے سے جو وژن اس نصاب میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ مدارس بھی مین سٹریم ایجوکیشن میں شامل ہو کر اپنے فضلا کو ملک اور معاشرے کے لیے مفید تر بناسکیں، انہیں ملازمتیں مل جائیں اور ترقی کرنے کے مواقع میسر ہوں۔ میرے خیال میں نصاب تعلیم اور نظام تعلیم مرتب کرتے وقت مقصدِ تعلیم کو پیش نظر رکھنا از حد ضروری ہے۔ مدارس کے نظام کی بنیادیں ہمیں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر [م :فروری 1707ء] کے زمانے میں ملتی ہیں جب ملا نظام الدین سہالوی رحمہ اللہ [م :مئی 1748ء] نے اُس وقت کے جدید اور روایتی علوم پر مشتمل یہ نصاب تیار کیا اور تقریباً 150 سال تک حکومتی سرپرستی میں اس نصاب کی تعلیم جاری رہی۔ 1857ء میں ہندوستان پر انگریز کے مکمل قبضے کے بعد جب نظام تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں اور دینی علوم کا حصہ نظام تعلیم میں بہت کم رہ گیا تو اس وقت کے علماء نے ملا نظام الدین سہالویؒ کے نظام کو ہی، جو درس نظامی کے عنوان سے مشہور تھا، الگ دینی مدارس قائم کرکے جاری رکھا اور حسب ضرورت اس میں کچھ تبدیلیاں کردیں۔ ان مدارس کا مقصد معاشی نہیں تھا، دعوتی اور دینی رہنمائی کا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ مدارس اسی دعوے کے ساتھ چل رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں مدارس منبر ومحراب، جلسہ وجلوس اور وعظ وارشاد کے ذریعے دعوتی کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں اور نکاح وطلاق، وراثت اور حلال وحرام کی حد تک دینی رہنمائی بھی فراہم کر رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم تبدیلی یہ آئی ہے کہ مدارس کی تنظیموں کی رضامندی سے اُنہیں سرکاری ملازمتوں اور معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بھی اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں۔ اب جب یکساں نظام تعلیم کی بات ہوتی ہے تو اس میں دوسرا یعنی معاشی پہلو نمایاں نظر آتا ہے اس میں دعوت وارشاد، وعظ ونصیحت کے پہلو کافی حد تک کمزور نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف وفاقی حکومت کا اوقاف بل بھی محل نزاع بنا ہوا ہے۔ اوقاف بل کا مدارس کے مالیاتی نظام کے ساتھ گہرا تعلق ہے، جس سے خطرہ یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ ایک تو مدارس کے نظام اور خصوصاً مالیات میں حکومت کا عمل دخل کلیدی حیثیت حاصل کرجائے گا اور مدارس کی اٹانومی بری طرح متأثر ہوگی اور دوسرے یہ کہ جب چندے جمع کرنے اور وقف وصول کرنے کی نسبت حکومت سے ہوجائے گی تو چندے بھی بند ہوجائیں گے اور زمینیں اور جائیدادیں وقف کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا جس کا لازمی نتیجہ مدارس کی بندش، یا انتہائی مشکلات کی صورت میں ہوگا۔ مدارس کے روایتی کردار کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ نئے یکساں نصاب میں جان نہیں ہے کہ اس سے یہ کردار ادا کرنے کی توقع کی جاسکے۔

مدارس کے ان خدشات پر تو انتظامی اور ملکی سطح پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ مدارس کے نصاب کے لحاظ سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو کردار مدارس صدیوں سے ادا کر رہے ہیں، وہ دور حاضر تک پہنچتے پہنچتے اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کو دیکھیں تو صَرف کی گردانوں کے رٹے لگانے اور نحو میں ضرب زيد عمرا کے تکرار سے نہ تو زبان آتی ہے اور نہ ہی موجودہ دور کے عرف کے ساتھ اس کا کوئی ربط قائم ہو پاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عرب دنیا میں بہت سی ایسی کتابیں تصنیف کی جاچکی ہیں جو جدید طریقوں سے عربی زبان بھی سکھاتی ہیں اور قواعد واملا بھی سکھا لیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دور جدید کی عملی مثالوں اور تعبیرات پر مشتمل ہیں جس سے انسان کو ایک زندہ زبان سیکھنے کا احساس ہوتا ہے۔ موقوف علیہ تک باقی تمام فنون کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ وعظ وارشاد کے لیے قرآن مجید اور سیرت وحدیث بنیادی ذرائع ہیں، مدارس کے نصاب میں قدیم روایتی اردو تراجم اور جلالین شریف اور بیضاوی پر اکتفا کیا جاتا ہے جن سے دور جدید میں قرآن مجید سے کم ہی کوئی اطلاقی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ سیرت تو ویسے بھی نصاب کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ جہاں تک شخصی اور خاندانی مسائل میں رہنمائی کا تعلق ہے تو ایک طرف جدید ایجادات نے نکاح وطلاق کے پورے سسٹم کو بدل کر رکھ دیا ہے اور دوسری طرف قوانین اور قرون وسطیٰ کے فقہی متون اور شروح میں زمین وآسمان کا فرق ہے، مگر ان دونوں کا مخاطب ایک ہی ہے۔ ایک ہی شخص جو شریعت پر چلنا اور جنت میں جانا چاہتا ہے اسے مفتی صاحب بتاتے ہیں کہ آپ کی طلاق ہوگئی اور فلاں فلاں صورتوں کے بغیر آپ کی ازدواجی حیثیت بحال ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے، قانون کہتا ہے کہ آپ کی طلاق نہیں ہوئی۔ ہم یہاں یہ بحث نہیں کر رہے ہیں کہ کون غلط ہے اور کون صحیح ہے، مگر دور جدید کے انسان کا یہ حق بنتا ہے کہ شریعت کی رہنمائی میں اسے بتایا جائے کہ وہ اپنے معاملات میں قانون اور شریعت کو کیسے جمع کرسکتا ہے۔ قوانین میں ترمیم ایک بالکل الگ فیلڈ ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس کے لیے ایک سے زائد مرتبہ یہ سفارش کرچکی ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں مگر چونکہ یہ قرآن وسنت کے احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے اور یہ طلاقِ بدعت شمار ہوتی ہے اس لیے ایسے بدعتی شخص کو تعزیری سزا ہونی چاہیے اور جو وکیل اور منشی اس کی مدد کرے انہیں بھی سزا میں شامل کرنا چاہیے۔ کونسل نے یہ سفارش کئی مرتبہ کی ہے۔ اگر قانون میں ترمیم نہیں ہوتی یا دیر سے ہوتی ہے تو عام آدمی کو مسائل بتاتے وقت اس پر تو تیار کیا جاسکتا ہے کہ بیک تین طلاقوں کے رواج کی حوصلہ شکنی کی جائے بلکہ ممکنہ حد تک قانون کے مطابق طلاق کے نوٹس جاری کریں جس میں یہ احتیاط شامل ہو کہ شرعی حدود کے دائرے کے اندر رہیں۔ کونسل کے کئی اجلاسوں میں ہلکی ہلکی آوازیں اس پر بھی اٹھیں کہ نکاح رجسٹریشن کی طرح طلاق رجسٹریشن کا بھی نظام جاری کیا جائے مگر معاشرتی مشکلات کو دیکھ کر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ نکاح نامے کا موجودہ فارمیٹ کئی مرتبہ کونسل میں زیر غور آچکا ہے۔ اس طرح کی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جن کی تعلیم وتدریس کی مدارس میں ضرورت ہے۔ عرب دنیا میں ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے بہت بڑا فقہی کام کردیا ہے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سا لٹریچر اس سلسلے میں میسر ہے۔

ہماری فقہی کتب میں ابھی تک غلاموں اور لونڈیوں کے احکام، گھوڑوں اور جانوروں کی زکوٰۃ اور غیر مسلموں سے جزیہ اور خراج لینے کے احکام پڑھائے جا رہے ہیں۔ چند ہی دن پہلے کی بات ہے، پی ایچ ڈی میں بلاسفیمی لا کے بارے میں ایک مقالہ مدرسے کے ایک فاضل نے لکھا،اس میں روایتی فقہی احکام کی بھرمار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بات دیکھ کر انتہائی پریشانی ہوئی کہ وہ صاحب لکھ رہے ہیں

ان أساء الذمي إلی الرسول ﷺ يفسد عھد ذمتہ

’’اگر کوئی ذمی رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے گا تو اس کا عہد ذمہ ختم ہوجائے گا۔‘‘

اب جب میں نے پوچھا کہ دور جدید کا ذمی کون ہے اور ذمی کی تعریف کیا ہے، تو کوئی جواب نہیں ملا۔ جب میں نے اس کی جگہ شہریت کی بات کی تو اچھے خاصے اساتذہ کی طرف سے یہ سوال آیا کہ شہریت کے لیے مصدر کیا ہوگا؟ مجھے حیرت تو بہت ہوئی، مگر میں نے معصومیت سے عرض کیا کہ مصدر دستور پاکستان ہوگا، وہ دستور جو مولانا شبیر احمد عثمانی، ڈاکٹر حمید اللہ،مولانا مناظر احسن گیلانی،مفتی محمد شفیع، مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا ظفر احمد انصاری نے اپنی علمی تحقیقات کے ذریعے بنوایا۔

میرے خیال میں ایک طرف اساتذہ کی ایسی مجالس کے ذریعے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دینی علوم کے تحفظ اور تعلیم کی شدید ضرورت ہے، اور دوسری طرف ایسا لٹریچر عام کرنے کی ضرورت ہے جو عام فہم زبان میں ہو اور دور جدید کے عرف کے مطابق دینی ضروریات پوری کرسکتا ہو۔ اس کے لیے شعبان اور رمضان کے شارٹس کورسز، مدارس کی درجہ وار تقسیم، نصاب میں مرحلہ وار تبدیلی اور تعلیمی نظام میں تدریس کے علاوہ تحقیق، علمی اجتماعات اور تبادلہ خیالات کو شامل کرکے اس کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔

وآخر دعوانا انِ الحمد للہ رب العالمین۔


(3)

عالی قدر جناب وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حکومت پاکستان نے، 25؍ جون 2021ء کو، مختلف علماء کرام کو خطوط لکھے تھے، جس کی ایک کاپی اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی ارسال کی تھی۔ اس پر جناب چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کی فرمائش پر جون 2021ء کے آخر میں راقم نے مدارس کے نظام اور نصاب کے بارے میں درج ذیل تجاویز تحریر کی تھیں۔

تجاویز بابت سماجی معاملات متعلقہ مدارس دینیہ

ان تجاویز کو عملی تدریج کے طور پر درج ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

أ) فوری اور جلد اقدامات:

1- وفاقہائے مدارس دینیہ اور سربراہان ادارہ جات سے نظام، نصاب اور ماحول کی اصلاح کے لیے تجاویز مانگی جائیں۔

2- مستقبل قریب میں وفاقہائے مدارس دینیہ ( جدید وقدیم)، اوقاف کی مساجد کے ممتاز خطباء، ملک کے دیگر ممتاز علماء ومشائخ، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین اور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پر مشتمل ایک مشاورتی اجلاس بلایا جائے، جس کا انتظام وزارت مذہبی امور کرے اور معاونت اسلامی نظریاتی کونسل کرے۔ اس میں صوبائی نمائندگی بھی ہو اور مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی بھی ہو۔

3- مدارس میں جو سالانہ اجتماعات ہوتے ہیں، وفاقہائے مدارس دینیہ کی مشاورت سے انہیں تربیتی اجتماعات میں بدلنے کا لائحہ عمل طے کرلیا جائے اور وفاقات اس پر عملدرآمد شروع کرائیں۔

4- وفاقوں کی مشاورت ہی سے مسالک اور مکاتب فکر کی تفریق کے بغیر مختلف مدارس کے آپس میں مطالعاتی دوروں کا سلسلہ شروع کردیا جائے، جہاں ان مدارس کے تعلیمی اور تربیتی لائحہ عمل کے بارے میں بریفنگ اور سوال وجواب کی بھرپور نشستیں ہوں۔

5- مدارس کے ہر تعلیمی مرحلے کی مناسبت سے حکومتی اور ریاستی اداروں کےمطالعاتی دورے بھی کروائے جائیں اور بریفنگ کا انتظام ہو۔ ان اداروں میں اسلامی نظریاتی کونسل، وزارت مذہبی امور، شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، دعوہ اکیڈمی، فیصل مسجد اسلامک سنٹر، منتخب سرکاری جامعات کے اسلامیات ڈیپارٹمنٹ، بادشاہی مسجد لاہور، علماء اکیڈمی لاہور، کراچی سمیت مختلف شہروں کے ایسے ادارے جو دینی اور معاصر تعلیم بیک وقت مہیا کر رہے ہوں، شامل کیے جائیں۔ وقت، دورانیہ اور ادارے کا انتخاب وفاقات خود کرلیں۔

6- مدارس میں وفاقات کی زیر سرپرستی ادبی مقابلے کروائے جائیں، جن میں سماجی موضوعات پر زیادہ توجہ دی جائے۔ اس میں مضمون نویسی، خطابت، شعری مقابلے اور معلومات عامہ کے مقابلے شامل ہوں۔

7- اسی طرز پر دیگر فوری اقدامات بھی سوچے جاسکتے ہیں، البتہ اصلاحات، پابندی اور رِٹ قائم کرنے کی تعبیرات سے اجتناب کرنا بہتر ہوگا۔ مفاسد کی روک تھام کے لیے فی الحال وفاقات کی قیادت کو متوجہ کرنے پر اکتفا کیا جائے۔

ب) وسط مدتی اقدامات

1- مدارس میں شعبان اور رمضان میں تعطیلات ہوتی ہیں۔ کچھ مدارس میں گرمی سردی کے حساب سے بھی تعطیلات ہوتی ہیں۔ ان دو مہینوں میں کئی مدارس دورہ تفسیر، صَرف اور نحو کا اہتمام کرتے ہیں۔ کچھ مدارس جدید عربی کے دورے بھی کراتے ہیں۔ کہیں کہیں مناظرے اور رَدّ فِرق باطلہ کے عنوان سے بھی دورے ہوتے ہیں۔ ان میں جو جو دورے فنون سے متعلق ہیں، ان کی بجائے جدید عربی اور اردو ادبیات کے دورے کروانا چاہئیں۔ جدید عربی میں عربی کا معلم، تالیف مولانا عبد الستار خان صاحب اور معلم الانشاء، تالیف شدہ علمائے ندوہ، ابتدائی درجات کے طلبہ وطالبات کے لیے، علی جارم کی النحو الواضح للمدارس الابتدائيۃ، متوسط درجات کے طلبہ وطالبات کے لیے اور النحو الواضح للمدارس الثانويۃ، عالیہ تک کے طلبہ وطالبات کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان کتابوں میں مثالیں اور تمارین جدید سماجی زبان پر مبنی ہیں اور تعبیر وانشاء پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف طلبہ اچھی زبان سیکھ سکتے ہیں بلکہ بالواسطہ طور پر ان کے سماجی دائرہ فکر میں بھی وسعت آسکتی ہے۔ مصری، شامی، سعودی اور لبنانی اساتذہ نے بہت سی کتابیں ایسی لکھ دی ہیں جن سے العربيۃ لغير الناطقين بھا کا ایک پورا تعلیمی ڈسپلن قائم ہوگیا ہے۔ ان میں اخلاقی تربیت بھی ہوتی ہے اور سماجی ہم آہنگی کا سامان بھی۔ ایسی کتابوں کی فہرست تیار کرنے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رفقائے کار مدد کرسکتے ہیں۔

یہ دورے کرانے والے اساتذہ کا مسئلہ درپیش آئے گا، ضرب زيد عمرا پر مبنی صَرف، نحو اور بلاغت کے فضلائے کرام شاید یہ کام نہ کرسکیں، اس کے لیے ایک حل تو یہ ہے کہ وفاقہائے مدارس اپنے تحت رجسٹرڈ کچھ مدارس کو خود منتخب کرکے جامعہ ازہر اور دیگر اسلامی ممالک سے بعثات دراسيۃ (Educational Delegations) کے تحت اساتذہ کا تقرر کرسکتے ہیں اور چھٹیوں کی مدت میں انہی اساتذہ سے یہ دورات بھی کروائے جاسکتے ہیں۔ مقامی طور پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اساتذہ اور فضلاء کی تعداد اب اس درجہ کو پہنچ چکی ہے کہ بڑی آسانی سے ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یونیورسٹی کے نظام تعلیم میں غیر عربوں کو عربی سکھانے کا ایک عمدہ انتظام ہے اور یہاں کے فضلاء اس سے بخوبی مانوس ہیں۔

2- جو دورے مناظرے اور ردّ فِرق باطلہ کے ہوتے ہیں، ان میں سے جو وفاقہائے مدارس ناگزیر سمجھیں انہیں جاری رکھیں اور اس کے علاوہ مستشرقین کی فکر، انداز تحقیق اور ان کی کتب کے مطالعہ اور رد پر مشتمل دورے کروائے جائیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ مناظرانہ ذوق کی تسکین بھی ہوجائے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جدید دور کے مسائل اور ہمارے روایتی افکار پر اٹھنے والے اعتراضات اور سوالات سے واقفیت بھی حاصل ہوجائے گی۔ جوں جوں سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا گھٹن سے پیدا ہونے والی قباحتیں دم توڑتی جائیں گی۔

3- چھٹیوں کے دورات کے علاوہ نصاب تعلیم میں کچھ ایسی تبدیلیاں کی جائیں جس سے مدارس کے تعلیمی مقاصد اور روایتی علوم کے فضلاء کے پیش نظر دینی خدمات کا تصور متأثر نہ ہو، نہ ہی ان کے خلوص، للہیت، فرشی نظام تعلیم اور اساتذہ کے ادب واحترام پر کوئی زد پڑے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں مقاصد سے متعلقہ معاشرے میں جو تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، ان سے واقفیت کا سامان بھی ہوجائے۔ اس سے علماء کی دینی خدمات معاشرے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس وقت شعائر دینیہ: نماز، روزہ، حج، عمرہ، زکوٰۃ، صدقات، وعظ وتبلیغ اور دعوت وارشاد وغیرہ کی خدمات علماء کے پیش نظر ہیں۔ اس کے علاوہ حلال وحرام اور عائلی مسائل میں علماء سے رجوع کیا جاتا ہے۔ نصاب میں یہ تبدیلی ایسی ہو کہ ان مقاصد کو آگے بڑھانے میں مدد دے۔ ابتدائی طور پر کسی بھی عرب ملک کے سکولوں میں پڑھائی جانے والی معاشرتی علوم (اجتماعيات) کی کتابیں لے لی جائیں، یہ سعودیہ کی بھی ہوسکتی ہیں، متحدہ عرب امارات کی بھی ہوسکتی ہیں اور مصر کی بھی۔ یہ کتابیں مدارس کے ابتدائی مراحل میں ہر درجے کی مناسبت سے پڑھائی جائیں۔ جو چیزیں ہمارے معاشرے سے غیر متعلقہ ہوں انہیں نصاب سے خارج کردیا جائے۔ مدارس کے اساتذہ ان کتابوں سے صیغے نکلوائیں، گردانیں کرائیں، یا تراکیب کروائیں، انہیں اس بات کا اختیار ہو۔ مقصد یہ ہو کہ ان کتابوں کا مضمون اور عربی طلبہ کو اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ اسی طرح عرب ممالک میں اسلامیات کی کتابیں بھی کمال کی ہیں اور ان کی تمارین عملی طور پر مرتب کی گئی ہیں، جن میں ابتدا ہی سے اخذ واستنباط کی مشق کرائی جاتی ہے، ان میں سے کچھ کتب منتخب کرکے شامل کرلی جائیں۔ ان سکولوں کی نصابی کتب کے ساتھ لازما کتاب المعلم بھی چھپتی ہے۔ یہ کتابیں ہفتے دو ہفتے کی ورکشاپ میں ادارے کے متعلقہ اساتذہ کو سمجھا دی جائیں اور پھر حسب ضرورت استعمال کے لیے مہیا بھی کر دی جائیں۔ انہی سکولوں میں میں اللغۃ العربيۃ کا مضمون بھی ہوتا ہے۔ وہ کتابیں بھی انتہائی عملی نقطہ نظر سے لکھی جاتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ ہماری صَرف میر، نحو میر، علم الصیغۃ، میزان منشعب وغیرہ کا کیا ہوگا؟ تو اس بارے میں ایک جامع سبجیکٹ نصاب میں شامل کیا جائے، جس میں ان تمام کتابوں کے مناہج، اسالیب، مصنفین اور دیگر ضروری صفات کا تعارف اور منتخب موضوعات کے خواندگی شامل ہو۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو ان کتابوں اور ان کی مماثل کتابوں کا مطالعہ کرنے میں آسانی ہوگی۔

4- بلاغہ کی عموما تین شاخیں: معانی، بیان اور بدیع پڑھائی جاتی ہیں، جن کی زبان اور مثالیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ علم البلاغۃ اور البلاغۃ الواضحۃ کے نام سے عرب اساتذہ نے تمارین پر مشتمل کتابیں لکھی ہیں۔ قدیم کتب کو نکال کر یہ کتب نصاب تعلیم میں شامل کر لی جائیں اور کسی مرحلے پر پر بلاغہ کی تاریخ اور اہم کتب کا تعارف شامل کردیا جائے۔ اس کے لیے نئی کتب تصنیف کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ مختلف کتب کے مقدمات اور متعلقہ ابواب کی فوٹو سٹیٹ یا انہی منتخبات پر مشتمل مطبوعہ کتاب کافی ہوجائے گی۔ استاذ کی تیاری اچھی ہو تو ان کی تقریر میں باقی ساری چیزوں کا احاطہ ہو جاتا ہے۔

5- فقہ کی ابتدائی کتب میں نور الايضاح یا اسی طرز پر لکھی ہوئی کوئی کتاب شامل ہو جائے اور اس کے بعد بتدریج عبدالفتاح ابوغدہ، عبد الکریم زیدان، یوسف قرضاوی، ڈاکٹر وہبہ زحیلی اور دیگر معاصر مصنفین کی کتب یا ان کے کچھ ابواب شامل ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ فقہ، فقہاء کا تعارف اور منتخب کتب کے تعارف پر مشتمل ایک مضمون بھی ہو۔ فقہی مسائل میں بہت تبدیلی آ چکی ہے حتیٰ کہ نکاح وطلاق اور عائلی مسائل اور قوانین میں بہت سی نئی چیزیں شامل ہوچکی ہیں۔ کچھ اہم فقہی ابواب سے متعلقہ قوانین جیسے مسلم عائلی قوانین، حدود قوانین، ثالثی سے متعلقہ قوانین اور جدید عائلی نظام کے بارے میں ابواب بھی ان میں شامل کیے جائیں۔

6- حدیث فہمی کے بارے میں بہت جدید چیزیں عربی میں آچکی ہیں۔ اصول حدیث، تاریخ حدیث، تدوین حدیث، انواع کتب حدیث اور معاجم حدیث پر مشتمل کچھ ابواب بھی نصاب میں شامل کر دیے جائیں۔

7- طلبہ اور طالبات کو خانقاہی نظام سے بہتر انداز میں متعارف کروایا جائے اور اپنے اپنے مکاتب فکر کے مشائخ سے تعلق قائم کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اہل مدارس مشائخ کے ساتھ مضبوط روابط رکھیں اور مشائخ کی میزبانی کو اپنے معمول کے لائحہ عمل میں شامل کریں، تاکہ وقتاً فوقتاً طلبہ کو بزرگان دین کی زیارت اور ان کے وعظ سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔

8- سیمینارز اور علمی مذاکروں کو نظام تعلیم کا حصہ بنایا جائے، جن میں بڑے درجہ کے طلبہ کو فقہی لحاظ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لئے مفتی صاحبان، متخصص وکلاء اور ریٹائرڈ جج صاحبان کو دعوت دی جائے اور زندہ مسائل کا انتخاب کیا جائے۔ تربیت کا ایک بہترین طریقہ رابطہ سازی بھی ہے۔ مدارس اور مختلف معاصر اداروں کے درمیان مفاہمتی یادداشتیں مرتب کی جائیں جن کی بنا پر یہ ادارے مشترکہ طور پر علمی سرگرمیاں کرسکیں۔ سماجی خرابیاں عموماً گھٹن کے ماحول سے پیدا ہوتی ہیں، رابطوں سے وسعت آئے گی اور سماجی مسائل میں لازماً کمی واقع ہوگی جس میں مدارس کا اپنا روایتی تربیتی نظام بہت اہم کردار ادا کرے گا۔

ج) طویل المدتی تجاویز

1- وزارت مذہبی امور کے دائرہ کار کو وسعت دے کر اسے ”وزارت مذہبی امور ودینی تعلیم“ بنا دیا جائے۔ بین المذاہب ہم آہنگی اسی عنوان کے تحت خود بخود شامل سمجھی جائے۔

2- وزارت کے کئی ڈویژن اور کئی خود مختار ڈائریکٹریٹ بنائے جائیں۔ وزارت کے دعوہ سیکشن کو دعوہ ڈویژن بنادیا جائے۔ اوقاف کی تمام مساجد اسی ڈویژن کے تحت ہوں۔ تمام ائمہ اور خطباء کے اچھے گریڈ مقرر کئے جائیں جو دیگر سرکاری ملازمین اور افسران کے گریڈوں سے کسی طور کم نہ ہوں۔ قومی تربیتی اداروں میں یہاں کے ملازمین اور افسران کے باقاعدہ تربیتی کورس میں ان کے کورسز بھی شامل کیے جائیں اور ان کے مطابق انہیں ترقیاں دی جائیں۔ یہی حضرات وزارت مذہبی امور کے مبلغین کے فرائض سرانجام دیں اور ٹی وی اور ریڈیو پر ان کے دروس ایک منظم طریقے سے ہوا کریں، جس سے دیگر علماء کے دروس متأثر نہ ہوں۔ اس سلسلے کو آہستہ آہستہ آگے بڑھایا جائے اور نئے سیکٹرز میں مساجد، امام بارگاہوں اور دیگر دینی اصلاحی مراکز کا قیام مذہبی امور کے تحت ہو۔ اگر مزید ضرورت پڑے تو قواعد وضوابط کے تحت پرائیویٹ طور پر بھی مساجد اور دینی مراکز قائم کرنے کی گنجائش ہو۔ وزارت میں ایک تحقیقات اسلامی ڈویژن ہو۔ اگر ممکن ہو تو ادارہ تحقیقات اسلامی کو پھر سے دستوری درجہ دے کر وزارت مذہبی امور کے ساتھ منسلک کیا جائے جس میں جدید دینی موضوعات پر تحقیق بھی ہو اور نصابی پالیسیاں اور نصابی مواد بھی مرتب کئے جائیں جس سے ٹیکسٹ بک بورڈ استفادہ کرسکے۔ اسی طریقے سے جن فقہی جزئیات اور قوانین یا عدالتی ضابطہ کار میں تفاوت پیدا ہوگیا ہے ان پر ایسی تحقیقات کی جائیں جس سے تمام متعلقہ ادارے مثلاً لا کالج، وکلاء، اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، پاکستان لا کمیشن اور ججز کے تربیتی ادارے فائدہ اٹھا سکیں۔

3- اسی ڈویژن کے تحت وزارت مذہبی امور کے موجودہ ریسرچ اینڈ ریفرنس سیکشن کو مزید وسیع کیا جائے اور اس کی ذمہ داریوں پر از سرنو غور کر کے اسے سہولیات اور اسباب مہیا کیے جائیں۔

4- مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کئی تبدیلیوں سے گزر چکا ہے۔ اسے وزارت مذہبی امور کے تحت Directorate of Religious Education بنادیا جائے، جس کے تحت حالیہ سرکاری دینی مدارس چل رہے ہوں۔ اوقاف کی مساجد میں قائم مدارس اس کے نصاب اور امتحانی ضوابط کی پابندی کریں۔ نئے سیکٹروں میں حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی مساجد کے مراکزِ تعلیم القرآن اسی سے منسلک ہوں اور پرائیویٹ دینی مدارس کو اس سے منسلک ہونے کی اجازت ہو۔ اسی ڈائریکٹریٹ کے تحت امتحانات کا نظام ہو خواہ اسے ”دینی تعلیمی بورڈ“ کا نام دے دیا جائے، جیسا کہ پہلے سے ٹیکینکل ایجوکیشن کے الگ بورڈ کام کر رہے ہیں۔ پرائیویٹ دینی مدارس کو اس بورڈ کے ساتھ الحاق پر مجبور نہ کیا جائے البتہ اس بورڈ کی سند کو روایتی تعلیم کی تمام سندات کے برابر کا درجہ دیا جائے اور یہ امتحان پاس کیے بغیر کسی سند کا معادلہ نہ ہو۔ بنگلہ دیش کا مدرسہ تعلیمی نظام اس سلسلے میں کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بورڈ کے تحت امتحان پاس کرنے والے طلبہ کو معادلہ (Equivalence) لینے کی ضرورت نہ ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ماحول میں مثبت انداز سے دینی نظام اور مزاج کی اصلاح کی جاسکتی ہے، انتظامی اور تادیبی اقدامات سے یہ مقصد حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ دینی مدارس کے منتظمین اور مدرسین کی عزت نفس کو قائم رکھ کر یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

وزارت میں ایک ڈویژن دینی مطبوعات کے نام سے ہو جس کا کام ریاستی سرپرستی میں دینی مطبوعات کو شائع کرنا بھی ہو اور پرائیویٹ سطح پر شائع ہونے والی مطبوعات کی نگرانی بھی۔ سنسربورڈ یا کسی اور ادارے کے پاس اگر یہ کام ہو تو وہ ادارے یا اس دائرہ کار میں جو کام آتا ہو اسے وزارت میں ضم کر دیا جائے۔

5- اوقاف کا ایک الگ نظام موجود ہے۔ لیکن دستور کا تقاضا یہ ہے کہ اوقاف مساجد اور دینی امور کے ساتھ وابستہ ہو۔ روز اوّل سے معمول بھی یہی رہا ہے۔ اس لئے ڈائریکٹریٹ آف اوقاف اور اسی طرح متروکہ وقف املاک سب کو ملا کر ایک اوقاف ڈویژن بنا دیا جائے، جس کا انتظام وانصرام وزارت مذہبی امور کرے اور مسلم وغیر مسلم دونوں دینی ضروریات پوری کرنے کے لیے وقف کا استعمال کریں۔ وزارت مذہبی امور کی دینی سرگرمیاں اس قدر ہوں کہ لوگوں کے دلوں میں مزید جائیدادیں وقف کرنے کا شوق پیدا ہو جائے۔ مدارس اور مساجد کی پرائیویٹ جائیدادوں اور اوقاف کو انتظامی عمل دخل سے الگ رکھا جائے، البتہ کسی مسجد یا مدرسے کی انتظامیہ خود اپنے وقف کو ڈویژن کے حوالے کرنا چاہے تو وہ کر سکے۔ کویت اور قطر میں برسہا برس کی ریسرچ کے بعد اوقاف کے نظام قائم کیے گئے ہیں اور وہاں نہ صرف مسلم وغیر مسلم سب کے لئے سہولیات مہیا کر رہے ہیں بلکہ مستحقین کی تعلیم، شادی بیاہ اور دیگر امور میں بھی مدد کر رہے ہیں اور جدید وسائل ابلاغ کے ذریعے انہوں نے سمعی اور بصری مراکز قائم کیے ہوئے ہیں۔ برادر مسلم ممالک ہونے کے ناطے نہ صرف ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے بلکہ باقاعدہ مشاورتی اور معاونتی ربط بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ وقف کنندگان کی تحریروں کا ریکارڈ محفوظ کرنا اور ان کی شرائطِ وقف کو باقاعدہ دستاویزی شکل دینا بھی وقف کی بنیادی ضروریات میں سے ہوں۔

6- ملک کے دینی نظام کو صحیح سمت پر قائم رکھنے کے لیے تجویز یہ ہے کہ پارلیمان کی قرارداد، یا باقاعدہ صدر مملکت کے حکم کے ذریعے، وزیر مذہبی امور کے لیے عالم دین ہونے کی شرط قائم کر دی جائے۔ عالم دین ایسا ہو جس نے دینی نصاب مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ میں پی ایچ ڈی کی ہو۔ اسی طریقے سے وزارت مذہبی امور کے تمام ڈویژنز اور ڈائریکٹریٹس کے سربراہ علوم دینیہ کے ماہر ہوں، اس کے لیے نہ صرف روایتی تعلیم کافی ہو بلکہ دینی تعلیم کی جدید ڈگریاں بھی شرط ہوں۔ ان مناصب کے لیے علوم دینیہ کے علاوہ کسی اور شعبے کا تخصص معتبر نہ ہو۔

اگرچہ طویل المدتی تجاویز کا مدارس دینیہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، لیکن دینی تعلیم کے حوالے سے سنجیدہ طبقات میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ حکومت یا ریاست کی طرف سےدینی تعلیم کی کوئی اونر شپ نہیں ہے۔ اس لیے مختلف مکاتب فکر کو جہاں سے چندہ ملتا ہے اور جو لوگ ان کا نظام چلانے میں معاونت فراہم کرتے ہیں ان کی مرضی اور فکر کی رعایت سے ہی ان کا نظام چلتا ہے۔ اگر ریاستی سطح پر اس طرح کا انتظام ہو اور اس میں فرقہ واریت کو نمائندگی دینے کی بجائے ریاست کی دینی پالیسی کا زیادہ لحاظ رکھا جائے، جس کی ایک عمدہ مثال افواج پاکستان کے دینی شعبہ کے افسران ہیں، تو ہم پرائیویٹ مدارس کے لیے ایک بہترین مثال بھی پیش کر سکتے ہیں، اہل خیر کو مزید جائیدادیں وقف کرنے کی ترغیب بھی دے سکتے ہیں اور ملک کی دینی ضروریات ریاستی انتظام کے تحت پورا کرنے میں خود کفیل بھی ہوسکتے ہیں۔ اس سے پرائیویٹ دینی مدارس کے لیے نئی جہتیں بھی سامنے آ سکتی ہیں اور ان میں ریاستی نظام کا حصہ بننے کا شوق بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ اس نظام کے تحت نہ صرف یہ کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت مبلغین، مدرسین اور مفتی صاحبان پیدا ہوسکتے ہیں بلکہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات جس مرحلے پر چاہیں دیگر تعلیمی اداروں میں جانے کی سہولت بھی ان کو میسر ہوسکتی ہے۔ اب تک جو فکر مندی سامنے آرہی ہے، خواہ محترم احمد جاوید صاحب کے خطابات کی روشنی میں ہو، یکساں نظام تعلیم کی صورت میں ہو، عالی قدر وزیر مذہبی امور کے مراسلے کی صورت میں ہو، پیغام پاکستان کی صورت میں ہو یا کووڈ اور فرقہ واریت کے بارے میں مشترکہ اعلامیوں کی صورت میں ہو، سب کی سب انتظامیات یعنی مینجمنٹ کی کوششیں نظر آتی ہیں۔ اونر شپ، Integration اور مدارس دینیہ یا دینی تعلیم کو بطور سرمایہ استعمال کرنے کے لئے ان کوششو میں کوئی خاص اقدام نظر نہیں آتا۔

تجاویز بابت اجتماعی ماحول متعلقہ مدارس دینیہ

1- درسگاہوں کو کمروں کی بجائے بڑے بڑے ہالوں کی شکل دے دی جائے۔ ہر کلاس کے درمیان مناسب فاصلہ ہو۔

2- دار الاقامہ میں طلبہ کے سامان اور رہائش کے لیے بھی کمروں کی دیواریں نکال کر ہال بنائے جائیں۔ دیواروں میں بڑی بڑی الماریاں کھلی ہوں، جن میں سامان رکھا جائے اور تالے کا بندوبست طلبہ خود کریں۔

3- بہت سینئر اساتذہ کے آرام کے کمرے تدریسی مقامات سے الگ ہوں اور طلبہ کی عمر کی ایک حد مقرر کردی جائے، اس سے کم عمر کے طلبہ خدمت پر مامور نہ ہوں۔

4- نوجوان طلبہ الگ کمروں میں نہ رہیں، ہال میں طلبہ کے گروپوں کے نگران بن کر وہیں آرام کیا کریں۔

5- طلبہ کو کلاس کے لحاظ سے نہیں بلکہ عمر کے لحاظ سے گروپوں میں تقسیم کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ کم عمر طلبہ کے نگران بڑی عمر کے اساتذہ ہوں۔ ان گروپوں کو صحابہ کرام اور ائمہ کے نام سے ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ ہوسکے تو مدرسے کے حجم کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ خدام مقرر کیے جائیں جن کی ڈیوٹی صرف رات کی ہو اور سونے کی اجازت نہ ہو۔ وہ اپنے مقررہ مقامات کے آس پاس گھومتے رہیں اور طلبہ کے سونے کے اوقات کی پابندی ملاحظہ کرکے اس کی رپورٹ اپنے مسؤولین کو دیتے رہیں۔

6- مدرسے کے مین گیٹ پر چوکیداری نظام کو مضبوط بنایا جائے، یا باری باری طلبہ کی ڈیوٹی لگائی جائے، البتہ عمارت کے اندر کے دروازے کھلے رہا کریں۔ اگر مدرسہ بہت بڑا ہو تو اسے بلاکوں میں تقسیم کرکے ہر بلاک کا گیٹ ہو اور اس میں یہی ترتیب جاری کی جائے۔

7- ایک ترتیب سی سی ٹی وی کیمروں کی بھی ہوسکتی ہے، مگر اس میں کئی نقصانات بھی ہیں۔ ہر مدرسے کی انتظامیہ اگر اس کے بغیر چارہ نہ دیکھے تو سونے اور تدریس کے کمروں میں کیمرے بھی نصب کیے جاسکتے ہیں، مگر راقم کا اس تجویز پر اصرار کم سے کم ہے۔

8- اسی کی روشنی میں کچھ مزید اقدامات کیے اور سوچے جاسکتے ہیں۔

9- انتظامی اقدامات کے علاوہ تربیت، یاددہانی اور نصیحت کے اپنے اثرات ہیں۔ ترغیب کی احادیث پر مشتمل تالیفات فنِ حدیث کا ایک نمایاں حصہ ہے۔ انتہائی مختصر اور جامع کتاب ”ریاض الصالحین“ جو ہر خاص وعام کی دسترس میں ہے۔ اس سے ذرا مفصل امام منذری کی ”الترغیب والترھیب“ ہے۔ آداب کی کتابوں میں ”الأدب المفرد“ امام بخاریؒ کی بہترین تالیف ہے۔ ”فضائل اعمال“ اور ”سنی فضائل اعمال“ کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس موضوع کی کسی کتاب کا انتخاب کرکے اس کی تربیتی احادیث کی تعلیم کو روز مرہ کے معمول کا حصہ بنالیا جائے۔

10- اسباق شروع ہونے سے پہلے ایک تمہیدی اجتماع یا اسمبلی ہو اور اس میں بزرگ اساتذہ کی گفتگو بھی مفید ہوسکتی ہے۔

11- دروس کے دوران زیادہ تر زور عموماً کتاب کی عبارت، مسائل اور مناظراتی پہلو سمجھانے پر ہوتا ہے۔ اساتذہ کرام سے درخواست کی جائے کہ وہ ہر درس میں تربیتی پہلو بھی لازماً شامل کریں۔

12- اخلاقی کمزوریوں کے علاج کا ایک پہلو تخویف اور سزا بھی ہے۔

13- جہاں اخلاقی کمزوری ثابت ہوجائے، وہاں اس کے حجم کے مطابق انتظامیہ خود ہی سزا کا بندوبست کرے جو نصیحت، ڈانٹ ڈپٹ، کلاس کے اوقات میں کلاس کے باہر بیٹھنے، کلاس بدلنے اور مدرسے سے اخراج تک، کچھ بھی ہوسکتی ہے۔

14- سد ذریعہ کے طور پر ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی إِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً وَّسَآءَ سَبِيلًا﴾ (الاسراء: 32) کو بطور اصول اپنایا جائے۔ اساتذہ اور طلبہ میں رویہ تو باپ بیٹے کا ہو مگر لاڈ پیار باپ بیٹے جیسا نہ ہو۔


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(اگست ۲۰۲۱ء)

تلاش

Flag Counter