تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کے عنوان سے پنجاب اسمبلی نے گذشتہ دنوں جو ایکٹ منظور کیا ہے، اس کی خبر اور اس کی بعض دفعات کے مندرجات کا تذکرہ پڑھنےسے میرا پہلا تاثر یہ بناتھا کہ یہ ایکٹ جہالت کا بد ترین نمونہ ہے، تاہم میں اس کے متن کو دیکھ کر اس پر کوئی تفصیلی بات کرنا چاہتا تھا۔ اب متن دستیاب ہوا ہے، تو اس کو پڑھ کرمیرا تاثر یہ ہے کہ یہ صرف جہالت نہیں، بلکہ تکبر، ظلم اور فریب کا بھی مرکب ہے۔ آیئے ذرا اس کا مطالعہ کر کےدیکھیے:
مذہبی حلقوں میں اس ایکٹ کے حوالے سے جس مسئلے پرنفیاً یا اثباتاً زیادہ بحث ہو رہی ہے، وہ ایکٹ کے سیکشن 3 کی شق ایف اور سیکشن 8 کی شقوں 5تا 11 میں بیان ہواہے۔جاہلوں یا فریب دینے والوں کی طرف سے باور کرایا جا رہا ہے کہ اس ایکٹ میں تو بس دینِ اسلام ،حضور نبی اکرمﷺ ،آپ کی ازواج مطہرات اور اولاد، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اہلِ بیت رضی اللہ عنہم،قرآن ، صحفِ سماویہ وغیرہ مقدسات کا احترام یقینی بنایا گیا ہے۔ اور یہ ایسا تاریخی اقدام ہے، جس پر پنجاب اسمبلی ، اس کے سپیکر جناب پرویز الہی ، اراکینِ اسمبلی اور وزیر اعظم پاکستان کو اسلام کے بہت بڑے محافظ ہونے کا سرٹیفیکیٹ ملنا چاہیے۔ (جی ہاں یہ مبالغہ نہیں ہے، اس پر حکمرانوں کے قصیدہ خواں متعدد علما اور اسلام کے بہت سے نادان دوستوں کے ایسے تاثرات ریکارڈ پر موجود ہیں۔)
اگرچہ ان شقوں کا متن بھی اپنی جگہ جہالت یا فریب سے مملو ہے (جیسا کہ اس کی وضاحت آگے آ رہی ہے)، لیکن ایک طبقے کے مذہبی سادہ لوح اس وجہ سے اس پر شادیانے بجا رہے ہیں کہ حضورﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین اور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابی کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ وغیرہ لکھا جایا کرے گا، اور دوسرے طبقے کے سادہ لوح اس پر نالاں ہیں کہ وہ بعض شخصیات کے ساتھ علیہ السلام نہیں لکھ سکیں گے۔ حالانکہ یہ دونوں انتہائی محدود اور فرقہ وارانہ سوچ سے بات کر رہے ہیں، فی الاصل مسئلہ اس سے زیادہ گہرا ہے، اور دونوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ محولہ شقوں میں جو قرار دیا گیا ہے کہ حضورﷺ کے نام کےشروع میں خاتم النبیین اور آخر میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہر صحابی کے نام کے بعد رضی اللہ عنہ اورہر نبی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھا جائے گا، اس سے بعض شیعہ دوست یہ سمجھے کہ اہلِ بیت کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام لکھنے سے ہمیں روکا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی سادہ لوحی اس لیے ہے کہ آپ کے موقف سے مترشح ہوتا ہے کہ ان شخصیات کے ساتھ علیہ السلام لکھنے کی اجازت دے دی جائے، تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ حالانکہ اس کی اجازت سے بھی اصل مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔
اصل مسئلہ کیا ہے؟اس ایکٹ کا سب سے قابلِ اعتراض بلکہ گھناؤنا پہلو ڈی جی پبلک ریلیشنزیا حکومت کے کسی بھی مجاز افسر کے کتابوں اور ان کے مواد سے متعلق آمرانہ اختیارات ہیں۔ ایکٹ کے اکثر سیکشن حکومتی افسران کے لا محدود اختیارات کے ذریعے کتابوں اور بالخصوص مذہبی کتب کی اشاعت و ترسیل کا گھلا گھونٹ رہے ہیں۔ کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ جس قوم میں کتاب کا پہلے ہی حال یہ ہے کہ پبلشر کسی کتاب کو چھاپنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچتا ہے کہ اس کا خرچ بھی پورا ہو گا یا نہیں، وہاں بیوروکریسی کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی کتاب کے کسی بھی لفظ پر اعتراض کر کے کتاب کی اشاعت یا اسے عوام تک پہنچانے کے اختیارات سلب کر سکتی ہے۔ یہ ایکٹ منظور ہو کر عمل میں آ جاتا ہے، تو کتابوں کا کلچر جو پہلے ہی آخری سانسیں لے رہا ہے اس کا جنازہ پڑھ لیجیے گا۔
سیکشن 7 کی شق 1 کی ذیلی شقوں(اے، بی اور سی) میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی جی پبلک ریلیشنز کو اختیار ہو گا کہ وہ کسی بھی بک ہاوس پر کسی بھی کتاب کو قابلِ اعتراض پا کر وہاں سے اٹھوا سکے گا۔ یہ تحقیق بھی اس کے اختیار میں ہوگی کہ کسی کتاب میں کوئی ایسا مواد تو نہیں پایا جاتا، جس میں ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی ہے! اس سیکشن کی شق 2 ڈی جی صاحب کو اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذکورہ اختیارات میں سے کوئی بھی اختیار کسی بھی مجاز افسر کے سپرد کر سکتے ہیں۔(یعنی ڈی جی صاحب کا با اختیار بنایا ہوا کوئی مجاز افسر بھی وہی کارروائی کر سکے گا ،جو ڈی جی صاحب کا اختیار ہے۔) اس ایکٹ کے سیکشن 4 کی شق 2 کے مطابق مجاز افسر پبلشر سے کتابوں سے متعلق جو تفصیل بھی پوچھنا چاہے، وہ دینے کا پابند ہوگا۔اسی سیکشن کی شق 3 کے مطابق ہر پبلشر پنجاب کے باہر سے آنے والی کتابوں سے متعلق مطلوبہ تفصیل مجاز افسر کو پندرہ دن کے اندر اندر دینے کا پابند ہوگا۔ ایکٹ کے سیکشن 5 کی رو سے جس دن کتاب چھپے اسی دن پبلشر کو اس کی چار کا پیاں اُن افسروں کو اُس جگہ مفت فراہم کرنی ہوں گی ، جن کے لیے جس مقام پر گورنمنٹ کی مرضی ہو۔ ایکٹ کے سیکشن 8 کی شق 1کے مطابق کوئی کتاب ڈی جی صاحب کی اجازت کے بغیر پرنٹ کی جا سکتی ہے اور نہ درآمد کی جا سکتی ہے۔اس سیکشن کی شق 2 کے مطابق کسی بھی کتاب کو چھاپنے کے لیے طے کردہ طریقے کے مطابق درخواست دینی ہوگی ،اور اس کی طے کردہ فیس جمع کرانی ہوگی۔
شق 3 کہتی ہے کہ ڈی جی صاحب ہر اس کتاب کی اشاعت روک سکتے ہیں، جس کو وہ قومی مفاد،کلچر اور مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی وغیرہ کے خلاف خیال کریں۔ایکٹ کے سیکشن 9کی شق 1 کے رو سے کوئی بک سیلر یا پبلشر کوئی کتاب مجاز افسر کی طے کردہ طریقے کے مطابق منظوری کے بغیر فروخت نہیں کر سکے گا۔اسی سیکشن کی شق 2 کے مطابق کوئی ایسی کتاب فروخت نہیں ہو سکے گی، جس میں زیرِ نظر ایکٹ کی کسی شق کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔سیکشن 10 کے مطابق پنجاب کی حدود میں شائع ہونی والی ہر کتاب کے لیے مجاز افسر کی طرف سے طے شدہ طریقے کے مطابق یونیک نمبر حاصل کرنا ہوگا۔ سیکشن 11قرار دیتا ہے کہ سیکشن3 (جو قابل اعتراض مواد پر پابندی عائد کرتا ہے، سوائے اس کی شق ایف کے) کی خلاف ورزی پر پانچ سال سزا اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکے گا۔یہ سیکشن وضاحت کرتا ہے کہ سیکشن3 کی شق ایف (جو مقدس شخصیات کے القاب وغیرہ سے بحث کرتی ہے)سے متعلق جرم پر پاکستان پینل کوڈ 1860ء کے مطابق سزا ہوگی۔سیکشن 12 کہتا ہے کہ اگر پبلشر سیکشن 5 کے مطابق کتابیں مجاز افسر تک پہنچانے میں ناکام رہا، تو اس کو اس سے متعلق ہر غلطی پرکم زکم دس ہزار جرمانہ بھرنا ہوگا، مزید برآں ان کاپیوں کی قیمت جو عدالت طے کرے گی ، اس کے مطابق رقم حکومت کے خزانے میں جمع کرانی ہوگی۔ سیکشن 13 کے مطابق قابلِ ادا رقم گورنمنٹ کے مخصوص اکاؤنٹ میں پندرہ دن کے اندر اندر جمع کرانی ہوگی ۔ اس میں کسی غلطی کی صورت میں یہ رقم لینڈ ریوینیو کے بقایاجات کے ساتھ قابلِ وصول ہو گی۔
بیوروکریسی کے ان اختیارات کی روشنی میں اب ذرا دوبارہ ان شقوں کی طرف آیے جو مذہبی حلقوں میں زیربحث ہیں، یعنی سیکشن 3 کی شق ایف اور سیکشن 8 کی شقیں 5تا 11۔ موخر الذکر شقوں کی رو سے حضورﷺ کے نام سے پہلے خاتم النبیین ، آخری نبی یا دی لاسٹ پرافٹ اور بعد میں عربی ٹیکسٹ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لکھنا ہوگا۔ کسی بھی نبی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا ہوگا۔ حضورﷺ کی بیویوں (جن کو مزے کی بات یہ ہے کہ ایکٹ کے متن میں ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین لکھا گیا ہے، جس سے معلوم ہو سکتا کہ اتنے اہم ایکٹ کے الفاظ کی درستی اور پروف ریڈنگ پر کتنی توجہ دی گئی ہے!)کے ناموں سے پہلے امہات المومنین اور بعد میں رضی اللہ عنہا لکھنا ہوگا۔ خلفاے راشدین کے ناموں سے پہلے خلیفۂ راشد یا امیر المومنین اور بعد میں رضی اللہ عنہ لکھنا ہوگا۔ حضورﷺ کے تین صاحبزادوں اور چار صاحبزادیوں کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہا یا رضی اللہ عنہ لکھنا ہوگا۔آپ ﷺ کےا ہلِ بیت اور نواسے نواسیوں کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ یا رضی اللہ عنہا لکھنا ہوگا۔ کسی بھی صحابی کے نام کے بعد رضی اللہ عنہ اور صحابیہ کے نام کے بعد رضی اللہ عنہا لکھنا ہوگا۔سیکشن 3کی شق ایف کی رو سے جو شخص اللہ تعالیٰ، حضورﷺ اور دیگر مذکورہ مقدس شخصیات قرآن، تورات ، زبور، انجیل،دینِ اسلام پر تنقید کرے گا یا ان کو ڈی فیم یا ڈس ریپیوٹ کرے گا، اسے پاکستان پینل کوڈ 1860ء یا کسی اور قانون کی رو سے سزا دی جا سکے گی۔
ناظرینِ کرام نوٹ فرما لیجیے کہ اس اوپر والے پیرے میں جو کچھ لکھا گیا ہے ، یہ وہ تمام کا تمام مواد ہے، جس کی بنا پر اس ایکٹ کا نام مبارک " پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ 2020ء" رکھا گیا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اسلام کی پوری تاریخ میں اسلام کی بنیاد کے تحفظ کی اس سے بہتر کوئی مثال موجود ہے یا نہیں ؟ شاہ کے کسی مصاحب کا ایک اخباری مضمون نظر سے گزرا، جس میں اس ایکٹ کی عبارات کی روشنی میں یہ ثابت فرمانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ حکومت یا وزیر اعظم کا ریاستِ مدینہ کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ یہ اگر کوئی شاہ کا مصاحب ہی سمجھتا ہوتا، تو پھر بھی بات نظر انداز کر دی جاتی ، مگر رونا یہ ہے کہ تمام شاہ صاحبان بھی دھڑلے سے فرما رہے ہیں کہ ہم نے گویا اسلام اور مولویوں پر وہ احسان کیا ہے کہ قیامت تک ان سے اتارا نہ جا سکے گا۔
اس ایکٹ اور اس کا کریڈٹ لینے کے اندازِ شاہانہ سے ہم کو یہ اندازہ تو خوب خوب ہو گیا ہے کہ ہمارے قابلِ احترام شاہوں کا تصورِ ریاستِ مدینہ کتنا واضح اور پختہ ہے! یعنی ان کے نزدیک بس مقدس شخصیات کے ناموں کے ساتھ کچھ القاب لگانے سے ریاستِ مدینہ قائم ہو جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں ان کے لیے انصاف ، دیانت داری اور میرٹ وغیرہ حسنات، جن پر دین کے سارے فلسفے کا مدار ہے، کو یقینی بنانے اور اس ضمن میں سخت قانون سازی کرنے سے زیادہ اہم اس اشو پر قانون سازی کرنا ہے ، جس کا شریعت نے کہیں کوئی حکم نہیں دیا کہ فلاں نام کے ساتھ کتاب میں ہر جگہ فلاں لقب لکھا جائے ۔
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے
حضورﷺ، صحابہ اور اہلِ بیت کا احترام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے ، اس سے ہر مسلمان واقف ہے، لیکن ان کے نام لکھتے ہوئے ہر جگہ مذکورہ القاب لگانا بھی ایمان کا حصہ ہے،یہ وحی پہلی دفعہ پنجاب اسمبلی پر نازل ہوئی ہے۔ ان کی وحی کے مطابق اسلامی تاریخ کی وہ تمام معتبر کتابیں گستاخانہ اور پابندی کے قابل ہیں، جن میں جگہ جگہ ان شخصیات کے نام ان القاب کے بغیر لیے گئے ہیں۔ اسلامی علمی تراث سے ذرا مس رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ان شخصیات کا پنجاب اسمبلی والوں سے ہزاروں گنا بڑھ کر احترام کرنے والے علما، محدثین ، مفسرین، وغیرہ حضرات میں سے کسی نے بھی اس التزام کو ضروری قرار نہیں دیا ،اور نہ خود اس کی پابندی کی۔اس ایکٹ کے ذمے داروں نے اگر کوئی مذہبی کتاب لکھی یا پڑھی ہی ہو تو ان کو معلوم ہو کہ یہ التزام تکلیف مالایطاق ہے۔ پھر معاملہ اگر تکلیف و تکلف تک ہی محدود ہو تو اس پر بھی صبر کیا جا سکتا تھا، لیکن معاملہ شریعت میں ایک ایسے التزام کو ضروری قرار دینے کا ہے، جس کے ضروری ہونے کی کوئی بھی شرعی بنیاد موجود نہیں!
ان جہلا یا فریبیوں کے مطابق مقدس شخصیات کا احترام القاب لگانے میں ہے، حالانکہ کوئی شخص یہ القاب لکھ کر بھی بدترین قسم کا گستاخ اور منکرِ ختمِ نبوت ہو سکتا ہے۔ مثلاً یہ خیال کہ خاتم النبیین لکھنے سے ختمِ نبوت کے منکروں کی حوصلہ شکنی ہوگی، نری جہالت یا دھوکا ہے۔قادیانی تو خود کہتے ہیں کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں،لیکن وہ خاتم النبیین لکھ کر بھی آپ ﷺ کی ختم نبوت کے منکر ہی رہتے ہیں، اس لیے کہ وہ فی ا لواقع خاتم النبیین کی تشریح ایسی کرتے ہیں کہ آپ کے آخری نبی ہونے کا انکار ہو جاتا ہے۔ اگر آپ ان کو روکنے خواہش مند ہیں، تو صرف اس لفظ سے کام نہیں چلے گا ، بلکہ اس سے پہلے یا بعد میں یہ وضاحت بھی کرنی پڑے گی کہ خاتم النبیین اُس مفہوم میں جس میں مسلمان استعمال کرتے ہیں، نہ کہ قادیانیوں کے مفہوم میں ، اور یہ وضاحت کسی کتاب میں ہر جگہ شامل کرنے سے اس کتاب کا جو تماشا بنے گا ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں!قادیانیوں کے بعد متشککین اور ملحدین کی طرف آیے ۔وہ دینِ اسلام اور مقدس شخصیات کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ،لیکن لکھنے میں اپنے مقصود کی حکمت کے تحت ہر جگہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، علیہ السلام اور رضی اللہ عنہ بھی لکھتے رہتے ہیں، بلکہ بہت دفعہ ان کے انداز ِ بیان اور عبارت سے مترشح ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ یہ القاب بہ طورِ طنز لکھ رہے ہیں۔ اب جناب آپ کے پاس کون سا پیمانہ ہے یہ جاننے کا کہ فلاں صاحب یہ تمام القاب لکھ کر بھی دین ِاسلام یا مذکورہ مقدس شخصیات کے گستاخ ہیں یا نہیں؟
مجاز افسر کو جو آمرانہ اختیارات دیے گئے ہیں ، ان کے نتائج پر ذرا غور فرمایے۔اس ایکٹ میں کہیں یہ تو نہیں لکھا کہ اہلِ بیت کے ساتھ آپ علیہ السلام نہیں لکھ سکتے ، لیکن اگر مجاز افسر ایکٹ کی عبارت کی تعبیر یہ کرےکہ چونکہ ایکٹ میں صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ اور نبیوں کے لیے علیہ السلام لکھنے کا کہا گیا ہے اور فلاں آدمی نے فلاں صحابی کے لیے علیہ السلام لکھا ہے، لہذا اس کی کتا ب قابلِ اعتراض ہے، اس پر پابندی لگائی جانی چاہیے، تو وہ اس پر پابندی لگانے کا مجاز ہو گا۔اور اگر افسر صاحب یہ تعبیر کریں کہ صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ کا تو کہا گیا ہے ، لیکن ان کے لیے علیہ السلام سے منع نہیں کیا گیا، تو وہ آپ کو کتاب چھاپنے اور فروخت کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ گویا آپ افسر صاحب کی ڈسپوزل پر ہیں، چاہے تو وہ آپ کو کتاب چھاپنے دے چاہے نہ چھاپنے دے۔ مزید برآں ملکی مفاد،کلچر ، اخلاقیات اور مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے متعلق مواد پر کتاب ضبط کرنے کے اختیار کو ہمارے کلچر میں کس کس حربے سے افسران ناجائز استعمال نہیں کریں گے، یہ روزِ روش کی طرح عیاں ہے! اس اصول پر آپ مذہب ہی کی نہیں ،کسی بھی موضوع پر کسی بھی کتاب پر اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ اس کے فلاں الفاظ یا فلاں سطور یا فلاں پیراگراف نظریۂ پاکستان یا قومی مفاد یا کلچر یا اخلاقیات یا مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف ہیں ،لہذا یہ پبلش نہیں ہو سکتی یا فروخت نہیں کی جا سکتی۔
آپ مزید فرما رہے ہیں کہ تورات ، زبور ، انجیل وغیرہ پر تنقید یا ان کو ڈی فیم یا ڈس ریپیوٹ کرنے پر سزا دی جائے گی ۔ اس اصول کی رو سے قرآن بھی کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ ثابت کرتا ہے کہ تورات و انجیل وغیرہ مذہبی کتب کو یہودو نصاریٰ نے بدل ڈالا ہے۔ وہ تمام علمی و تحقیقی کتابیں جو اس بارے میں علما نے لکھی ہیں، اور یونی ورسٹیوں کے تحقیقی مقالات ،جن میں ان کتب کی تاریخی حیثیت پر بحث وتنقید کر کے قرآن کی برتری ثابت کی گئی ہے، پابندی کی زد میں آ جاتے ہیں، ۔ وہ تمام تفاسیر بھی اس زد میں آتی ہیں جن میں آیاتِ قرآنی کی تفاسیر کے دوران میں ان کتب پر ناقدانہ بحثیں کی گئی ہیں۔ اس لیے کہ یہ سب چیزیں ان کتابوں کو ڈس ریپیوٹ کرتی ہیں۔ وہ تمام کتابیں جو مسلمانوں نے یہودیوں اور مسیحیوں اور اسلام کے مغربی ناقدین کے اسلام مخالف رویوں کے ناقدانہ جائزے پر لکھی ہیں، وہ سب مذہبی ہم آہنگی کے خلاف قرار دی جا سکیں گی۔ہر وہ کتاب جس میں کسی مسلم ناقد نے کسی مسلم گروہ یا شخص کے عقائد و نظریات پر گرفت کی ہے ، مسلکی ہم آہنگی کے خلاف قرار دی جا سکے گی۔ ہر وہ کتاب جس میں کسی ادارے کی کسی روش پر تنقید کی گئی ہو ملکی مفاد یا نظریۂ پاکستان کے خلاف قرار دی جا سکے گی۔ ہر وہ افسانہ یا ناول بھی جس میں افسر صاحب سمجھیں کہ ان کے تصورِ اخلاق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، پابندی کی زد میں آسکے گا۔
خلاصہ یہ کہ مجاز افسرصاحب جس کتاب کی اشاعت روکنا چاہیں گے، اس پر اعتراض کر کے اس کو روک سکیں گے۔ یہ صورت حال مرتے ہوئے کتاب کلچر اور بالخصوص مذہبی کتب کے کلچر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔
یہ ہے وہ ایکٹ جس کے ذریعے اسلام کی بنیاد کا وہ تحفظ فرمانا مقصود ہے، جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی۔ فریب بالائے فریب اور ظلم بالائے ظلم دیکھیے کہ میڈیا اور مولویوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ایکٹ تو صرف صلی اللہ علیہ وسلم ، رضی اللہ عنہ اور علیہ السلام لکھنے کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔ ابھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ایک نیوز پر یہ خبر چل رہی کہ پنجاب اسمبلی نے یہ ایکٹ پاس کیا ہے ،جس میں حضورﷺ کے لیے خاتم النبیین اور امہات المومنین اور دیگر صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ لکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اب اس کو سننے والا ہر آدمی سمجھے گا کہ یہ بڑا مبارک کام ہے۔ لیکن اس مبارک کام کے حسین نام کے نیچے جو گھناؤنا کاروبار ہے، اس کوچھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
یہاں ضمناً یہ بات بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ پھر کیا واقعی قابلِ اعتراض یا مقدسات کی توہین پر مبنی مواد کی حامل کسی کتاب پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ؟ تو اس کو یہ جان لینا چاہیے کہ ایسے معاملے سے ڈیل کرنے کے لیے پہلے ہی قوانین موجود ہیں(مثلاً تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295تا 298 وغیرہ)، اور مزے کی بات یہ ہے کہ خود اس ایکٹ میں ، جیسا کہ اوپر گزر،اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ توہین آمیز مواد پر پہلے سے موجود قوانین کے مطابق سزا دی جائے گی۔تو پھر اس ایکٹ کی ضرورت خود اسی ایکٹ کی وضاحت کے مطابق بھی ختم ہو جاتی ہے، اور یوں یہ ایک فضول ایکٹیوٹی قرار پاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں (بہ طورِ خاص اس حوالے سے کہ کیسے اس ایکٹ کو علما اور اہلِ علم کے درمیان کسی مباحثے اور اسلامی نظریاتی کونسل وغیرہ سے بھی رائے لیے بغیر جلدی میں منظور کیا گیا ہے )تو یہ شک پیدا ہونا بے جا نہیں کہ یہ مذہبی طبقے کو خوش کرنے کا ایک سٹنٹ ہے اور بس۔
ایکٹ کے مندرجات اور واضح نتائج کا خلاصہ میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیا ۔ آپ دیانت داری سے بتایے اس ایکٹ کو "تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ" کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے!حق یہ ہے کہ اس ایکٹ کا یہ نام اگر جہالت نہیں ہے ،تو دھوکا ضرور ہے۔ ان مذہبی حلقوں کی سادہ لوحی پر افسوس ہے، جو اس جہالت یا فریب کو اسلام کی خدمت سمجھ رہے ہیں ،اور ان شیعہ حضرات کی سادہ لوحی پر بھی جن کو اس میں صرف یہ مسئلہ نظر آتا ہے کہ آئمۂ اہلِ بیت یا بعض دیگر صحابہ کے لیے علیہ السلام نہیں لکھا جا سکے گا، حالانکہ حقیقتااس کی واضح اجازت مل جانے پر بھی یہ ایکٹ اسی طرح جہالت ، فریب، تکبر اور ظلم کا مرکب رہے گا ، جیسا کہ پہلے ہے۔
کتابوں اور بالخصوص مذہبی کتب سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کو اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔اور اگر یہ لاگو ہو جاتا ہے، تو اس کو کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے۔ یہ ایکٹ ہر مصنف اور بہ طور خاص مذہبی مصنفین اور پبلشرز کے اوپر بے لگام فرعون بٹھا دے گا، جن کے ہوتے کوئی مصنف کتاب لکھنے اور کوئی پبلشر اسے چھاپنےکی ہمت نہیں کرے گا۔ ان جاہلوں کا خیال ہے کہ کتابوں کا وطنِ عزیز میں بڑا کاروبار ہے!کوئی ان سے پوچھے آپ نے کتنی مذہبی کتابیں خرید کر پڑھی ہیں؟ یہاں تو کتب کا عالم یہ ہے کہ مصنفین اور پبلشرز پلے سے پیسے لگا کر اور گھاٹا کھا کر کتابوں سے اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کتابیں چھاپ رہے ہیں۔ کسی تحقیقی و علمی کتاب پر آج کل کتنا منافع کمایا جا سکتا ہے؟ اس کام سے متعلق ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے! کوئی کتاب چھاپ لیں تو سوچتے رہتے ہیں کہ اس کا آدھا خرچ تو چلیں پلے سے ڈال لیں گے، آدھا خرچ تو نکلے گا یا نہیں؟ اس صورتِ حال کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مصنف کتاب لکھنے اور پبلشرر چھاپنے سے بالکل ہاتھ کھینچ لیں گے۔
واضح رہے کہ مذہبی کتابیں ہی نہیں افسران صاحبان کو جو اختیارات دیے گیے ہیں ،اور جو الفاظ ایکٹ میں استعمال کیے گئے ہیں،ان کی رو سے شاعری، ڈرامہ ، ناول ، ادبی تنقید وغیرہ کسی بھی کتاب پر پابندی عائد کی جا سکے گی، بس اتنا چاہیے کہ مجاز افسر صاحب فرما دیں کہ اس میں ایکٹ کے کسی لفظ یا حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
یہ القاب کو لازمی کرنے کی حرکت کتنی مضحکہ خیز ہے (اس ضمن میں ہمارے ایک مضمون بعنوان "اللہ اور خدا" کا مطالعہ بھی بہت مفید ہوگا، جو ہم نے اسلام کے کچھ اسی قبیل کے نادان دوستوں کے اِس تصور اور اِس سے بحث کرتی ایک کتاب کی تردید میں لکھا تھا کہ اللہ کو خدا نہیں کہا جا سکتا۔) اس کے حوالے سے چند نکات پر غور کیجیے:
یہ القاب مسلمانوں نے بعد کے ادوار میں اپنی اپنی عقیدت اور محبت کے خاص انداز میں لگانا شروع کیے ، ابتدائی کتابوں میں بڑی روانی کے ساتھ مقدس شخصیات کے نام ان سب القاب کے بغیر عام لیے جاتے تھے، اور قدیم کتب میں اب بھی یہ نام ان القاب کے بغیر موجود ہیں۔ کبھی بھی کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ فلاں جگہ چونکہ یہ لقب نہیں لکھا ہوا، لہذا یہ گستاخی ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ القاب اصل میں ہم عجمیوں کا رواج ہیں ،ہم یہ اپنے مخصوص اندازِ عقیدت و محبت میں لگاتے ہیں اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اچھی بات ہے ، لیکن اس کو لازم کرنا شریعت میں ایک ایسے امر کو لازم کرنا ہے، جس کو لازم کرنے کی شریعت میں کوئی گنجایش نہیں۔ دوسرے لفظوں اپنی محبت میں ان القاب کو استعمال کرنا تو مستحسن ہے ، لیکن ان کو شرعا لاز م کہنا غلط بلکہ بدعت ہے۔( اس لیے کہ بدعت دین میں اسی چیز کولازم کرنے کو کہا جا تا ہے،جس کو لازم کرنے کی کوئی شرعی بنیاد موجود نہ ہو۔)
شعر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر حضورﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ ہر جگہ عربی ٹیکسٹ میں صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور شروع میں خاتم النبیین لکھا جائے تو شعر ایک عجیب و غریب شکل اختیار کر لیتا ہے، اس کا وزن بھی خراب ہو جاتا ہے اور جس سپیس میں وہ لکھا جاتا ہے، اس کو اس فونٹ میں لکھنے کی گنجایش ہی نہیں ہوتی۔ چلو آیندہ نسلوں کی زبان و بیان اور ذوقِ شعر وسخن کا آپ نے بیڑا غرق کرنا ہے تو کر لیں ، لیکن علامہ اقبال ، میاں محمد بخش اور دیگر مایہ ناز اردو اور پنجابی شاعروں کے کلام کا کیا کریں گے؟ مثلاً اقبال کا مصرعہ : کی محمد سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں۔۔۔، آپ کو کلیات ِ اقبال میں یوں لکھنا ہوگا: کی خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں۔ ۔۔اگر کلیاتِ اقبال کو یہ لکھے بغیر آپ چھپنے اور فروخت ہونے کی اجازت دیں گے ،تو اسی طرز پر کسی اور کتاب کو کیسے روک سکیں گے؟ یہ آپ کے لیے چیلنج ہوگا، جب تک ان سب مایہ ناز شعرا و مصنفین کی کتابوں کی اصلاح نہیں ہوگی ، ان کے حوالے دینے والوں اور ان کو اپنا رہنما اور موٹیویٹر سمجھنے والوں کی اصلاح آپ کیسے کر سکیں گے!
اور ہاں یاد آیا وہ ڈی فیم اور ڈس ریپیوٹ کرنے والی عبارت میں آپ نے اللہ کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ تو جناب آپ کو اقبال کے ایسے بہت سے اشعار بھی نظر آئیں گے ، جو بادی النظر میں اللہ کو ڈی فیم یا ڈس ریپیوٹ کرتے ہیں ۔مثلاً: ہم وفادار نہیں تو بھی تو دل دار نہیں۔۔۔ یااپنا گریباں چاک یا دامن ِ یزداں چاک ۔۔۔کارِ جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اشعار آپ کے سیکشن 3 کی شق ایف کی زد میں آتے ہیں،ان پر آپ کو پابندی لگانی ہوگی۔ (اور ہاں یہ بھی جان رکھیے کہ بعد والوں کے معاملے میں تو ابھی آپ کو تحقیق کرنی پڑے گی کہ ان کی کتب میں خدا کو ڈس ریپیوٹ یا ڈی فیم کیا گیا ہے یا نہیں ، اقبال کے اس قبیل کے اشعار سے متعلق آپ کو یہ سہولت میسر ہے کہ ہمارے کئی علما و مفسرین نے پہلے ہی تحقیق فرما رکھی ہے کہ یہ اشعار کفریہ ہیں اور خدا کی گستاخی پر مبنی ہیں۔)