’’خلطِ مبحث‘‘ کی مصنوعی افزائش

ڈاکٹر اختر حسین عزمی

علم و دانش کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ افراد و اقوام کے مسائل اور تنازعات باہمی مشاورت سے طے کیے جائیں۔ لیکن اگر کسی قوم کے طے شدہ معاملات کو ہی متنازع بنانے پر زور صرف ہونے لگے تو وہ قوم ایک دائرے کے اندر ہی سفر کرتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ ایک طبقہ قومی رہنمائوں کی مشاورت سے طے کردہ معاملات پر بھی مسلسل چاند ماری کرتا رہتا ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش ماہنامہ الشریعہ کے مارچ 2020ء کے شمارے میں ڈاکٹر عرفان شہزاد کے مضمون ’’قومی اور مذہبی اظہاریوں کا خلطِ مبحث‘‘ کی صورت میں نظرآتی ہے جس میں انہوں نے پاکستانی قوم کے ایک طے شدہ ریاستی اظہار یئے کو خلطِ مبحث کا شکار کرنے اور اسے متنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔

اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کیا ایک دینی و علمی جریدہ اپنے علمی معیار کی اس قدرقربانی دینے کا متحمل ہوسکتا ہے کہ دینی اقدار و روایات اور قریب ترین تاریخ سے نابلد قلمکاروں کے طفلانہ خیالات کی ترویج کے لیے نو نو صفحے وقف کر دے۔ یقینا ہم جیسے قدامت پسند ان کی روشن خیالی سے محروم رہتے اگر ان کے یہ خیالات کسی اور اخبار میں شائع ہوئے ہوتے اور ان کے خیالات پر تبصرہ کرنے کی کوئی سنجیدہ ضرورت تک محسوس نہ کرتے لیکن ایک دینی و علمی پس منظر کے حامل جریدے میں چھپنے والے ان کے خیالات نے ہمیں خامہ فرسائی پر مجبور کیا ہے۔

مضمون نگار کی پریشانی یہ ہے کہ ’’قومی ریاستوں کی تشکیل کے اس دور میں‘‘ پاکستان کی مقتدرہ اور عوام نے ویسی ہی قومی ریاست کیوں نہیں بنائی جیسے یورپ اور اس کے زیر اثر دیگر ریاستیں پائی جاتی ہیں۔ گویا ہمارے لیے معیار نہ تو دو قومی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر سات آٹھ سال تک تحریک پاکستان چلتی رہی۔ نہ قائدین تحریک پاکستان کے بیانات کی کوئی حیثیت ہے اور نہ قربانی دینے والے لاکھوں مسلمانوں کی امنگوں کا لحاظ رکھنے کی کوئی ضرورت ہے۔خلافتِ راشدہ، اُموی، عباسی اور عثمانی خلافت سے رہنمائی لینے کی اس جدید دور میں ضرورت ہی ختم ہو گئی ہے   ؎

مانگے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پہ پھیلا دیے سائے ہم نے

جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کی غلطی کا رونا آج صاحبِ مضمون رو رہے ہیں، یہ رونا تو کانگریسی رہنما اور اس وقت کے سیکولر دانشور بہت رو چکے تھے۔ لیکن اس کے علی الرغم دو قومی نظریے، یعنی ہندو اور مسلمان الگ الگ قومیں ہیں، کی بنیاد پر ملک تقسیم ہو چکا۔ جسے انگریز حکمرانوںاور کانگریسی قیادت نے طوعاً و کرہاً تسلیم کرلیا۔ اب اگرکوئی اس سے اختلاف کرنا چاہتا ہے تو کم از کم تاریخی حقائق کو تو مسخ نہ کرے۔

مضمون نگار کے مطابق اس دور میں چونکہ قومی ریاستوں کا وجود ایک حقیقت ہے، لہٰذا قرآنی تعلیمات کے برعکس قومیت کے اس تصور پر تمام مسلمانانِ پاکستان کا ایمان لانا ضروری ہے جو اربابِ سیکولر ازم نے دنیا کو عطا فرمایا ہے۔مضمون کا پہلا پیرا ملاحظہ ہو:

 ’’قومی ریاستوں کی تشکیل کے دور میں پاکستان ایک قومی مذہبی ریاست کی صورت میں منصہ شہود پر نمودار ہوا۔ قومی ریاستوں کی تشکیل میں جغرافیہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے… پاکستان کی ریاست بھی اسی اصول پر عمل میں آئی لیکن سیاسی عمل کے دوران میں مذہبیت یا اسلامیت کا عنصر بھی اس میں شامل ہوگیا جو قومی شناخت کے اظہاریوں پر غلبہ پاتا چلا گیا‘‘۔ (ص31)

یہ بات درست کہ دور حاضر میں قومی ریاستوں کی تشکیل میں جغرافیہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لیکن کیا صاحبِ مضمون اپنی یہ بات ثابت کرسکتے ہیں کہ: ’’پاکستانی ریاست کی تشکیل بھی اسی اصول (جغرافیے) کی بنیاد پر عمل میں آئی‘‘ یہاں تو ساری تحریک ہی جغرافیے کی نفی کرکے دو قومی نظریے یعنی مذہب کی بنیاد پر چلائی گئی۔ مسلمان اکثریت کے حامل صوبوں پر مشتمل دو یونٹس میں ایک مسلمان ریاست کے قیام کے لیے آواز اٹھائی گئی۔ رہے باقی علاقوں کے مسلمان جنہوں نے پاکستان کو نظریاتی و عملی طور پر قبول کیا تو وہ مشرقی پنجاب، بہار یو پی، سی پی اور دیگر دور دراز علاقوں سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ اسی طرح اپنی مذہبی سوچ کے زیر اثر لاکھوں ہندو اور سکھ مغربی پنجاب، سرحد و سندھ سے ہندوستان سدھار گئے۔ اب صاحب مضمون کا یہ کہنا کہ: ’’سیاسی عمل کے دوران میں مذہبیت یا اسلامیت کا عنصر بھی شامل ہوگیا جو قومی شناخت کے اظہاریوں پر غلبہ پاتا چلا گیا‘‘۔ تقاضا کرتا ہے کہ صاحب مضمون ’’سیاسی عمل‘‘ کے ان تاریخی مراحل کا زمانی ترتیب سے کچھ ذکر کرتے کہ یہ کب اور کس دن سے ہوا۔ اگر ایسا قیام پاکستان کے بعد ہوا ہے تو مضمون نگار کی بات قابل توجہ ہوتی لیکن ’’مذہبیت اور اسلامیت کا یہ عنصر‘‘ تو سیاسی عمل کے دوران نہیں، روزِ اوّل سے شامل تھا۔ یعنی1940کی قرارداد لاہور اور مزید پیچھے جائیں تو علامہ اقبال کے خطبہ 1930ء کی صورتمیں۔

’’قومی شناخت کے اظہاریے‘‘ پر جس ’’مذہبیت کے غلبے‘‘ کا مضمون نگار کو شکوہ ہے، وہ مولویوں اور دینی جماعتوں نے داخل نہیں کیا، اس دور کے جدید تعلیم یافتہ مسلمان لیڈروں نے اسے اختیار کیا۔ اور یقینا اقبال اور قائداعظم سیکولر قومی ریاست کے تصور اور تقاضوں کو مضمون نگار سے زیادہ جانتے تھے جنہوں نے ’’قومی ریاست کی تشکیل کے دور میں‘‘ حصول ریاست کی جدوجہد کو مذہب کے تصور سے جوڑا۔ اسلامیان ہند نے بحیثیت مجموعی اس تصور کو قبول کیا۔ بقول قائداعظم:

 ’’ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور فن تعمیر، احساسِ اقدار، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط، رسم و رواج، کیلنڈر، تاریخ و روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ بین الاقوامی قانون کی ہر دفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔‘‘ (مسٹر جناح کی تقریریں اور تحریریں۔ مرتبہ جمیل الدین احمد، ص181)

مضمون نگار کا یہ کہنا کہ: ’’یہ ریاست کسی مسلمان حکمران نے فتح نہیں کی تھی اور یہ ملک جمہوری اور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا۔‘‘ درست بات ہے۔ لیکن بار بار اس بات کی تکرار کہ ’’جغرافیہ کی بنیاد پر ایک قومی ریاست کا مطالبہ کیا تھا‘‘ تحریک پاکستان کے بارے میں اتنا بڑا دعویٰ ہے جس کے ثبوت کے لیے مضمون نگار کوئی ایک شہادت تو پیش فرماتے اور پھر بڑے دھڑلّے سے ان کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان کی تشکیل میں تمام قومیتوں اور مذاہب کے پیروکاروں نے ووٹ ڈالا (ص31) اتنے بڑے دعوے کا کوئی ثبوت پیش کرتے تو ہم جیسے کم فہموں کی رہنمائی کا بھی سامان ہو جاتا۔

صاحبِ مضمون ایک طرف بانیٔ پاکستان کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کو ’’ریاست کے کثیر القومی تشخص کی دو ٹوک بنیاد‘‘ قرار دیتے ہیں اور اسی سانس میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’تحریک پاکستان کے دوران میں ’’مسلم کارڈ‘‘ کا استعمال اس دو شناختی قومیت کے لیے وجہ جواز بنا۔‘‘ اب اس ’’مسلم کارڈ‘‘ کو نیک نیتی کے ساتھ استعمال کیا گیا یا بدنیتی کے ساتھ اور اس کا رڈ کو قائداعظم نے استعمال کیا کہ نہیں، اس کی وضاحت تو مضمون نگار کے ذمہ قرض ہے تو پھر ان کی اس تقریر کو بھی کیوں سنجیدگی سے لیا جائے۔ اس سوال کا جواب بھی ان کے ذمہ ہے کہ دوشناختی قومیت کے لیے مسلم کارڈ کا استعمال وجہ جواز بنا یا کہ تحریک پاکستان کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ پر تھی۔ بظاہر ان کے جملے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا استحصال Explotationکیا تھا۔ اب مسلم کارڈ کا یہ استعمال اگر غلط تھا تو اس کے ذمہ دار قائداعظم اور تحریک پاکستان کے قائدین ہیں جن کے سینکڑوں بیانات پاکستان کے اسلامی ریاست بننے کے بیانیے پر مشتمل ہیں۔ گویا قائداعظم اتنا بے اصول لیڈر تھا کہ جونہی انہیں اپنی منزل قریب نظر آئی تو انہوں نے گیارہ اگست 1947ء کو اپنے بیانات سے یوٹرن لے لیا۔اس لیے کہ جس قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کو وہ اپنے موقف کے لیے آڑ بنا رہے ہیں وہ تو خود مضمون نگار کے مطابق بے اصول سیاستدان قرار پاتے ہیں۔ جنہوں نے ’’مسلم کارڈ‘‘ کو مسلمانوں کے جذباتی استحصال کے لیے استعمال کیا۔

اگر قائداعظم کی یہ تقریر مخلصانہ اور ذمہ دارانہ ہے تو ان کے صرف اتنا کہنے سے کہ ’’ہر مذہب والا مسجد و مندر جاسکتا ہے اور اس کے مذہب اور ذات یا نسل سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں‘‘ سیکولر قومی ریاست کا مفہوم کیسے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اگر تو اقلیتوں کو مذہبی آزادی اور عقائد و عبادت کا حق پہلی مرتبہ سیکولرازم نے ہی دیا ہوتا تو مضمون نگار کا اس تقریر سے سیکولر قومی ریاست مراد لینا درست قرار پاتا۔ لیکن اگر مضمون نگار تسلیم کرتے ہیں کہ اقلیتوں کو ایک اسلامی ریاست میں نہ صرف جینے اور معاش کرنے کے حقوق حاصل ہیں بلکہ انہیں اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق عقائد و عبادات کرنے کا حق بھی حاصل ہے تو قائداعظم کی تقریر ان کے سابقہ بیانات سے ہم آہنگ قرار پاتی ہے۔ اب اگر عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں، اموی و عباسی خلافت میں، خلافت اندلس اور خلافت عثمانیہ میں، غیر مسلم اقلیتوں کو مذہبی حقوق دینے کی روایت رہی ہے تو قائداعظم نے ایک مسلمان حکمران اور رہنما ہونے کی حیثیت سے اسی بات کا اعادہ کیا ہے، اس میں سیکولر ریاست کا تصور کہاں سے آگیا۔ ہماری بات کی تائیدگیارہ اگست والی تقریر کے ساڑھے چار مہینے بعد بطور گورنر جنرل قائداعظم کے اس ارشاد سے ہوتی ہے:

’’میرے لیے وہ گروہ ناقابل فہم ہے جو خوامخواہ شرارت برپا کرنا چاہتا ہے اور یہ پراپیگنڈہ کرتا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنے گا۔ ‘‘ (روزنامہ پاکستان ٹائمز 27جنوری 1948ء)

مضمون نگار کو اعتراض ہے کہ قرار داد مقاصد 1949ء، اور 1973ء کے آئین کی اسلامی شقوں کی بنیاد پر ’’ریاست ایک مسجد کی طرح مسلم اکثریت کے زور پر ان کے مذہب کے نام پر رجسٹرڈ کروائی گئی۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا صرف پاکستان میں ہوا ہے۔ کیا روس اور دیگر سوشلسٹ ریاستیں سوشلزم کے نام پر رجسٹرڈ نہیں ہیں جہاں نہ صرف سوشلزم کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں بلکہ مسلمانوں کو اتنا بھی مذہبی حق حاصل نہ تھا کہ وہ نماز اور تعلیم قرآن حاصل کرسکیں۔ کیا اسرائیل کی ریاست یہودی نسل پرستوں کے نام رجسٹرڈ نہیں ہے۔ کیا امریکہ و یورپ کی ریاستیں سیکولر جمہوریت کے نام پر رجسٹرڈ نہیں جہاں جمہوریت کو الہامی مذہب کی حیثیت حاصل ہے۔ کیا ہمارے ہاں بھی سیکولرازم کو حکم اور معیار مان کر اسلامی تعلیمات کے پر کاٹنا ضروری قرار پا چکا ہے۔ کیا اکثریت کی بنیاد پر ریاست اپنے نام رجسٹرڈ کروانا صرف سوشلسٹ اور سیکولر قوموں کا ہی حق ہے۔ مسلمانوں کا حق نہیں ہے۔

 صاحب مضمون کے مطابق ’’قومی ریاستوں کے دور میں اسلام کے نام پر مذہبیت کی یہ پیوند کاری گھمبیر نتائج کی وجہ بنی‘‘۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ صاحب مضمون کے نزدیک ’’قومی ریاست‘‘ کے تصور کو جتنی تقدیس حاصل ہے، اتنی اسلامی تعلیمات کو نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کے اجتماعی قوانین و احکام، حدود تعزیرات، معیشت و معاشرت سے متعلق قرآنی تعلیمات محض تلاوت کے لیے ہیں۔ کیا قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد اسلام کے اجتماعی احکام کے نفاذ کی ضرورت اب نہیں رہی؟ گویا قومی ریاست اب منزّ ل من اللہ دین الٰہی قرار پا چکی ہے اور اس کے اندر اسلامی تعلیمات کے نفاذ پر اصرار فساد فی الارض ہے۔

مضمون نگار کی قادیانیوں سے محبت کی بلّی بھی بار بار تھیلے سے نکلنے کو بے تاب دکھائی دیتی ہے، جب وہ کہتے ہیں کہ ’’غیر مسلم اقلیت کو وہی حقوق ملے جنہیں مسلم اکثریت نے دینا قبول کیا (ص 32) ’’دینی شعائر پر بھی مسلم ملکیت کا دعویٰ قائم ہوگیا۔‘‘ (ص32)

ہمارے ہاں کے لبرلز جمہوریت اور اکثریت کا بڑا راگ الاپتے ہیں۔ لیکن اگر یہی جمہوریت اور اکثریت اسمبلی میں متفقہ طور پر قرار داد مقاصد(1949ء) پاس کرتی ہے، 1973ء کے آئین کی اسلامی شقیں طے کرتی ہے۔ 1974ئمیں اجتماعی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم پاس کرتی ہے تو وہ اسے اکثریت کی دھونس باور کرواتے ہیں۔ مضمون نگار کے ذہنی خلجان کو مزید پڑھیے اور سر دُھنیے۔ فرماتے ہیں:

’’ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست یہ باور کرے کہ قومی ریاستوں کے دور میں مذہبی ریاست کا تصور ایک بے جوڑ اضافہ ہے۔ یہ ملک یہاں بسنے والی تمام قوموں نے مل کر بنایا تھا۔ اکثریت کو محض عددی برتری کے زعم میں اس کو اپنے نام رجسٹرڈ کرانے کا حق نہیں‘‘۔ (ص37)

(1)    پھر وہی قومی ریاست کو وحی الٰہی جیسی تقدیس دینے کی تکرار۔

(2)    چونکہ یہ ملک تمام قوموں نے مل کر بنایا تھا، اس لیے ان کی اجازت سے ہی چلایا جاسکتا ہے۔ چاہے ان کی تعداد دو فی صد بھی نہ ہو۔ ویسے مضمون نگار یہ بھی بتا دیتے کہ ہندو، سکھ، عیسائی اقوام نے کس کس مقام پر تحریک پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی تو ہمارے بھی علم میں اضافہ ہو جاتا۔

(3)    اکثریت (مسلمانوں) کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی اکثریت کے ملک میں بھی اپنی مرضی کا تصورِ مملکت جاری کرسکیں۔ یا للعجب۔

کیا مضمون نگار یہی مطالبہ امریکہ و یورپ سے بھی کریں گے کہ وہ ’’اکثریت کی محض عددی برتری کے زُعم میں بنائے گئے ہم جنسی جیسے غیر انسانی ہی نہیں غیر حیوانی عمل کو تحفظ دینے والے قوانین کو منسوخ کرے۔ اسقاط حمل جیسے قاتلانہ ایجنڈے، اور بے نکاحی پارٹنر شپ جیسی بے ہودگی کے قانونی جواز کو ختم کرے۔ سود جیسے انسانیت کش نظام کے کاروباری جواز کو ختم کرے۔تضاد بیانی ملاحظہ ہو کہ دوسری طرف خود قومی ریاستوں کی سرحدوں میں رد و بدل کے لیے جمہورکی رائے کے فیصلہ کن ہونے کا فتویٰ بھی صادر فرماتے ہیں۔ (ص38)گویا جمہوریت اور اکثریت سے انہیں کِد اس وقت ہی ہوتی ہے جب اکثریت کا پلڑا اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی طرف جھکتا ہے۔

ہماری معلومات کے مطابق مضمون نگار کا تعلق جس مکتب فکر سے ہے وہ اپنی جمہوریت پسندی کا علمبردار ہے۔ لیکن مضمون نگار کی اکثریت کے حوالے سے تضاد بیانی سے واضح ہے کہ ان کا طریقہ واردات وہی ہے جو آج عالمی ایجنڈے کا نمایاں حصہ ہے۔ یعنی جس محاذ پر جمہوریت کے ذریعے اسلامی قوتوں کو کمزور کیا جاسکتا ہو، وہاں جمہوریت کا راگ الاپا جائے اور جہاں جمہوریت کے ذریعے اسلام پسند فیصلہ کن پوزیشن میں آجائیں یا اسلام کے حق میں کوئی اجتماعی فیصلہ کروالیں تو اس اکثریت کو مشکوک، متنازعہ اور دھونس باور کروا دیا جائے۔ نوے کی دھائی میں الجزائر میں اسلامک فرنٹ ستر فی صد سے زاید ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوا تو فرانس کی پشت پناہی سے فوج کے ذریعے انہیں کچل دیا گیا، 2013ء میں مصر میں اسلام پسند صدر مملکت مرسی کو فوج کے ذریعے فارغ کرکے محبوس کر دیا گیا اور امریکہ نے جمہوری صدر کے باغی جرنیل کی مذمت تک نہیں کی۔ فلسطین میں حماس پارٹی کی منتخب حکومت کے گرد معاشی و سیاسی شکنجہ کس دیا گیااور کوئی یورپی ملک نہیں بولا۔ ترکی کے منتخب اسلام پسند صدرطیب اردگان کے خلاف امریکہ نے فوجی بغاوت کروائی۔ ایسی صورت میں کسی بھی فوجی جرنیل کی بغاوت کی اہل مغرب مذمت تک نہیں کرتے۔ یہی فریضہ جدت پسندی کے فریب میں مبتلا ہمارے ہاں کے مضمون نگار انجام دے رہے ہیں:

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں ہے

مضمون نگار کو یہ غم بھی ہلکان کیے جارہا ہے کہ: ’’علماء و فقہاء نے ہندو دھرم کے مذہبی رسوم و رواج سے مسلم کمیونٹی کو بچنے کی تلقین کی۔‘‘ (ص33) گویا انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ بہتر ہوتا کہ مضمون نگار ان بیسیوں احادیث کا محل بھی متعین فرما دیتے جس میں دیگر اقوام کی مشابہت سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ صاحب مضمون نو مسلموں کے اسلامی نام رکھنے کو بھی  علماء کی اختراع قرار دیتے ہیں (ص33-34) البتہ آگے چل کر خود ہی لکھتے ہیں کہ: ’’رسول اللہؐ قبول اسلام کرنے والوں کے نام اس صورت میں تبدیل کرتے تھے جب نام میں شرک یا کسی برائی کا پہلُو پایا جاتا ہو۔‘‘ آج ہمارے علماء فقہا نے بھی تو ہندوستان میں یہی کچھ کیا ہے، اس سے زاید تو کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ اب اگر کوئی نو مسلم خود صحابہ و صحابیات کے نام پر نام رکھنا چاہتا ہے تو کیا اسے اس سے روک دیا جائے۔ مضمون نگار کا یہ کہناکہ: ’’یہ کہیں نہیں ملتا کہ مسلمانوں کی ظاہری شناخت کے لیے ان کے حلیے اور لباس میں کوئی امتیاز برتا گیا ہو۔‘‘ جبکہ ہمارے علم کے مطابق حضرت عمر مسلم اور غیر مسلم کے لباس کے معاملے میں سختی سے امتیاز برتتے تھے۔ آخر مضمون نگار مسلمانوں کو غیر مسلموں جیسا بن کر رہنے پر دیکھنے کے متمنی کیوں ہیں؟

صاحب مضمون بڑے تحسین آمیز انداز میں فرماتے ہیں: ’’برصغیر میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرنے کے باوجود وطن کی حفاظت میں ہندو راجپوتوں کے ساتھ مل کر وسط ایشیائی مسلم حمہ آوروں کے خلاف لڑا کرتے تھے۔‘‘ اب اس بات پر ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں فکر مند ہونا چاہیے یا کہ ان غیر تربیت یافتہ مسلمانوں کے فعل کو اپنے موقف کے ثبوت اور جواز کے لیے دلیل پکڑنا چاہیے۔ آخر مضمون نگار مسلمانوں کو کس ایمانی و اخلاقی پستی تک پہنچانا چاہتے ہیں۔


آراء و افکار

(ستمبر ۲۰۲۰ء)

تلاش

Flag Counter