پشاور میں بھری عدالت میں ایک مدعی نبوت کے قتل جیسے واقعات پر مذمتی بیانات اور شریعت وقانون کے حدود کی مکرر وضاحت سے بات کچھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ انفرادی واقعات نہیں ہیں اور نہ انھیں، آخری تجزیے میں، بعض ’’افراد “ کے رویے سمجھنا درست ہے، کیونکہ تشخیص ہی ناقص ہو تو تجویز کا ناقص ہونا ناگزیر ہے۔ یہ شناخت کے اس بحران کی علامات ہیں جس سے جنوبی ایشیائی اسلام پچھلے دو سو سال سے دوچار ہے۔ اس پورے عرصے میں مذہبی یا غیر مذہبی سیاسی شناخت کی تشکیل کا عمل ہمارے ہاں بنیادی طور پر مثبت اصولوں پر نہیں، بلکہ منفی اصولوں پر ہوا ہے جس میں بنیادی محنت کسی ’’دوسرے “ کو اپنی شناخت کے لیے خطرہ قرار دینے اور پھر اس کے خلاف تن من دھن کی بازی لگا دینے کا جذبہ پیدا کرنے پر کی گئی ہے۔
تحفظ شناخت کی اس سیاست کی ابتدا استعماری دور سے پہلے اہل تشیع کی تکفیر کی صورت میں ہو چکی تھی جس میں حضرت مجدد رحمہ اللہ جیسی بلند قامت شخصیت نمایاں تھی۔ استعماری دور میں شناخت کے تحفظ کا یہی اصول بریلوی علماء نے باقی تمام گروہوں اور خاص طور پر دیوبندی علماء کے خلاف استعمال کیا۔ نیچریوں، قادیانیوں اور منکرین حدیث وغیرہ کے ظہور نے تمام روایتی مذہبی گروہوں کے لیے شناخت کے تحفظ کے لیے کچھ مزید ’’اہداف “ کا اضافہ کر دیا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں سیاسی شناخت کے تحفظ کے لیے مسلم لیگ نے بھی بتدریج اسی طرز کو اختیار کیا اور مکمل کامیابی حاصل کی۔ اس کی تشکیل کردہ شناخت اپنے تمام تر لوازم کے ساتھ آج بھی پاکستان کی قومی ریاست کا اثاثہ ہے۔
استعماری دور میں مختلف مذہبی شناختوں کے لیے ایک دوسرے سے بھڑنا استعماری طاقت کی موجودگی کی وجہ سے ممکن نہیں تھا، لیکن حصول وطن کے بعد اس میں یہ رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ چنانچہ مختلف مراحل پر پہلے قادیانی، پھر انقلاب ایران کے پس منظر میں شیعہ، پھر سلمان رشدی کے واقعے کے تناظر میں مقامی مسیحی آبادی، پھر سیکولرزم کے نمائندے، اور آخرکار خود ریاست اور ریاستی ادارے اس کا نشانہ بنے۔ توہین مذہب کے الزام نے ایک مذہبی ہتھیار کی صورت اختیار کر لی ہے جس سے لگتا نہیں کہ کوئی طبقہ بچ پائے گا، یہاں تک کہ خود ناموس رسالت کے محافظ اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ blasphemy hunting کا ایک ہیجان ہے جو معاشرے میں برپا کر دیا گیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سلمان رشدی اور اس جیسے بدبختوں کا انتقام مذہبی جنونی خود اپنے ہی معاشرے سے لینا چاہ رہے ہیں۔ دشمنان اسلام کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی مہم کے جواب میں قرآن نے صبر وتقوی کی جو تعلیم دی تھی، نہ وہ ہماری توجہ کی حقدار رہی ہے اور نہ رسول اکرم کا یہ اسوہ یاد رہ گیا ہے کہ آداب مسجد سے ناواقف کوئی بدو مسجد میں پیشاب کے لیے بیٹھ جائے تو اسے ڈانٹ ڈپٹ تک نہ کی جائے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ معاشرے کی موجودہ کیفیت واقعی ایمانی جذبات کا مظہر ہے یا کوئی اجتماعی نفسیاتی عارضہ ہمیں لاحق ہو گیا ہے۔
پہلے وقتا فوقتا اور اب زیادہ تیز رفتاری سے رونما ہونے والے مختلف انفرادی واقعات کا بنیادی سیاق شناخت اور اس کے تحفظ کی یہی کشمکش ہے۔ ان کی کوئی اور تفہیم اس کے علاوہ ممکن نہیں۔ ان میں عملی اقدام کرنے والے افراد صرف ایک آلہ ہیں اور ان کی شخصی سوچ یا حالات کا دخل اس میں محض ضمنی اور ثانوی ہے۔ یہ سوچ ان کی اپنی وضع کردہ نہیں ہے، انھیں ان مختلف شناختی بیانیوں سے ملی ہے جو ماحول میں موجود ہیں۔ شناخت کے مسئلے کو اس کے تاریخی سیاق میں موضوع بنائے بغیر ان واقعات کی کوئی تفہیم اور اصلاح کی کوئی تجویز قطعا بے معنی ہے۔
مختلف مذہبی عنوانات کے تحت تشدد کا ظہور، جیسا کہ عرض کیا گیا، کوئی نئی پیدا ہونے والی بیماری نہیں، بلکہ استعماری دور میں جنم لینے والے شناخت کے بحران کا تسلسل اور بدلتے ہوئے حالات میں اس عدم تحفظ کے احساس کا اظہار ہے جو مختلف مذہبی شناختوں کے ہاں پایا جاتا ہے اور تخفیف کے بعض ظاہری اشاریوں کے برخلاف، معاشرے میں مذہب کے سکڑتے ہوئےاثر ورسوخ کے پیش نظر درحقیقت شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں دو عمل بیک وقت ہو رہے ہیں اور الگ الگ زاویوں سے اس عمل کو دیکھنے سے بظاہر دو متضاد تعبیرات کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ مذہبی شناختیں بالکل درست طور پر محسوس کرتی ہیں کہ وہ خطرے میں ہیں اور سیکولرائزیشن کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے رد عمل میں مذہبی بیانیوں میں خوف اور عدم تحفظ کا اظہار بلند آہنگ ہو جاتا ہے اور اس سے تشدد کا ذہنی رویہ پیدا ہوتا ہے جسے ، ظاہری شکل میں اور مرتبہ نتائج کے حوالے سے قبول نہ کرنے کے باوجود، مذہبی بیانیے کسی نہ کسی صورت میں جواز بھی مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جیسا کہ ہم سلمان تاثیر، مشال خان اور اس طرح کے دیگر واقعات میں مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ اب اس رد عمل کو اور اس کی شدت کو جب سیکولر حلقے دیکھتے ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ یہ تو معاشرے پر مذہبی طبقوں کی گرفت زیادہ مضبوط ہو رہی ہے اور معاشرہ مذہبی شدت پسندی کا یرغمال بنتا جا رہا ہے۔
اس ساری صورت حال میں ریاستی طاقت بھی ایک کھلاڑی بن جاتی ہے۔ وہ ایک طرف مذہبی شناختوں کے ساتھ معاملہ کر کے انھیں استعمال کرتی ہے، ان کے ذریعے سے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتی ہے، اور بقدر ضرورت انھیں اوپر چڑھا کر بوقت ضرورت انھیں اٹھا کر پٹخ بھی دیتی ہے، جیسا کہ ہم جہادی تنظیموں، سپاہ صحابہ اور تحریک لبیک وغیرہ کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ قطع تعلق کسی حال میں نہیں کرتی، بلکہ ایک دروازہ بند کر کے کوئی دوسرا دروازہ کھول لیتی ہے تاکہ مذہبی شناختوں میں عدم تحفظ یا لاوارثی کا احساس اتنا سنگین نہ ہو جائے کہ خود ریاست کے لیے خطرہ بن جائے۔ اس سارے عمل میں ریاست بتدریج ایک اور مقصد بھی حاصل کرتی جا رہی ہے، یعنی مذہبی اور مذہبی اظہارات پر مکمل ریاستی کنٹرول قائم کرنے کی طرف پیش قدمی۔ مذہبی شناختیں اپنے بھولے پن کی وجہ سے بعض چیزوں میں ریاست کو ’’دباو “ قبول کرتا ہوا دیکھ کر سمجھتی ہیں کہ وہ پیش قدمی کر رہی ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ مذہب کے دائرے میں ریاست کے دخل کو جواز دینے میں نہ صرف آلہ کار کا کردار ادا کر رہی ہیں، بلکہ خود دعوت دے کر ریاست کو مذہب میں دخیل بنا رہی ہیں۔ اس سارے کھیل کا آخری نتیجہ مذہب اور مذہبی ڈسکورس کے مکمل طور پر سیکولرائزڈ ہو جانے کی صورت میں نکلنا نوشتہ دیوار ہے، اور یہی وہ نکتہ ہے جس کا فہم عام جذباتی مذہبی ذہن تو کیا، مذہبی لیڈر شپ کو بھی حاصل ہونا قطعی طور پر مشکوک ہے۔
جنوبی ایشیائی اسلام کو اور خاص طور پر مذہبی گروہوں کو تاریخ اور نئے سیاسی ومعاشرتی حقائق کی ایک نئی اور معروضی تفہیم کی ضرورت ہے جس میں مختلف مذہبی شناختوں کی بقائے باہمی کو شعوری طور پر، نہ کہ صرف حالات کے جبر کے طور پر، قابل قبول بنایا جا سکے۔ یہ مذہب کے معاشرتی کردار کو باقی رکھنے اور اسے مکمل ریاستی کنٹرول سے بچانے کی واحد ممکن ضمانت ہے۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم