ترجمہ: عاصم رضا
نوٹ: ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے بارہ جون ، 2020ء کو اپنی ویب گاہ سے نوجوان ترک لکھاری اور صحافی(جرنلسٹ) مصطفیٰ اکیول کا ایک انگریزی مضمون شائع کیا ، جس کا عنوان How Islamist are ruining Islam? ہے ۔ زیرِ نظر ترجمہ اس سے پہلے جائزہ نامی ویب گاہ(Jaeza.pk) پر شائع ہو چکا ہے۔
’’جب مذہب ابدی حقائق کی ارفع اقلیم کو ترک کر دیتا ہے، اور نیچے اتر کے دنیاوی جھمیلوں میں دخل اندازی شروع کر دیتا ہے، تو وہ اپنی اوردنیا و مافیہا کی ہر شے کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے‘‘ (عثمانی سیاست دان ، مصطفیٰ فاضل پاشا ، 1867) ۔
دس اپریل ، 2018ء کو قومی قانون ساز مجلس (پارلیمنٹ) سے اپنے ہفتہ وار خطاب کے دوران ترکی کے طاقت ور صدر طیب اردگان اور ان کے وزیر تعلیم عصمت یلماز کے مابین ایک مختصر گفتگو ہوئی ،جس کے کچھ ٹکڑے نادانستگی میں ٹیلی ویژن پر نشر ہو گئے حالانکہ مائیکروفون کو بند رکھنے کا اہتمام تھا [1]۔
یہ ایک دلچسپ منظر تھا ۔ اپنے خطاب کے درمیان میں ، اردگان نے وزیر یلماز کو منصۂ سٹیج (پوڈیم ) پر بلایا ، اور’’الحادی الہیت (Deism) پر رپورٹ‘‘کے بارے میں دریافت کیا ، جس کا ذکر اُن کے کلیدی سیاسی اتحادی دولت باغچہ لی (Devlet Bahceli) نے کچھ گھنٹے قبل ہی اپنی ایک تقریر میں کیا تھا ۔ جب وزیر صاحب نے ، بصد احترام، اپنے صدر کو اس رپورٹ کےنتائج کی بابت آگاہی دینے کی کوشش کی ، تو اردگان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ، ’’نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا‘‘۔
مذکورہ رپورٹ کو چند ہفتے قبل ہی ترکی کی وزارتِ تعلیم کی ایک مقامی شاخ نے تیار کیا تھا، اور اس نے اردگان حکومت کو ’’ نوجوان نسل کے درمیان تیزی سے پھیلتی ہوئی الحادی الہیت‘‘کے حوالے سے متنبہ کیا تھا۔ سرکاری جانکاری (رپورٹ) کے مطابق حکومت کی زیرِ نگرانی چلنے والے مذہبی سکولوں کے اندر بھی الحادی الہٰیت کا کھوج ملا، یہاں تک کہ (دینی تعلیم دینے والے) امام خطیب (Imam Hatip) نامی مکاتیب کے اندر بھی، جہاں اردگان کے دورِ حکومت میں حکومتی ترغیبات اور سرکاری بھرتیوں کے طفیل داخلوں کی تعداد آسمان کو چھو چکی ہے، طلباء کی ایک کثیر تعداد اسلام پر ایمان کھو رہی تھی۔ رپورٹ کے نتیجے کے مطابق، ’’مکمل الحاد کو اختیار کرنے کی بجائے، (ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے) نوجوانوں کی کثیر تعداد الحادی الہیت کا انتخاب کر رہی ہے‘‘۔ اس سے مراد ہے کہ ایک نئی ’’پاک باز/نیکوکار نسل‘‘ کی آبیاری کے واسطے ،اردگان حکومت کی جان توڑ کاوشوں کے باوجود ترکی کے نوجوانوں کا ایک قابل ذکر حصہ اسلامی عقیدے سے دور ہٹتے ہوئےایک غیر معین و غیر واضح خدا (vaguely defined God) پر یقین کرنے کا انتخاب کر رہا ہے ۔
حالیہ برسوں کے اندر اس سماجی رجحان کا مشاہدہ بہت سے دوسرے ترکوں کو بھی ہوا ہے، اور اس وقت یہ معاملہ ترک قوم کے ہاں زبان زد عام بن چکا ہے۔ ’’ہماری نوجوان نسل الحادی الہٰیت کی جانب کیونکر مائل ہو رہی ہے؟‘‘ ، اس سوال کے حوالے سے (ترکی کے) پرنٹ میڈیا میں سینکڑوں مضامین لکھے جا چکے ہیں اور ٹیلی ویژن پر درجنوں مکالماتی نشستیں منعقد ہو چکی ہیں۔ اپریل 2018ء میں ڈائریکٹر مذہبی امور ،علی ایرباش (Ali Erbas ) نے پہلے پہل تو الحادی الہٰیاتی عقیدے کے فروغ کی بابت منظر عام پر آنے والی رپورٹوں کی مکمل تردید کی نیز اس امکان کو یکسر جھٹلایا کہ ’’ہماری قوم کا کوئی فرد (الحادی الہٰیت) ایسے گمراہ کن تصور میں دلچسپی لے سکتا ہے‘‘ [2]۔ تاہم پانچ ہی مہینوں کے بعد ایرباش کے محکمے نے الحادی الہٰیت(deism) کے خلاف ’’اعلانِ جنگ‘‘ کر دیا [3]۔
ترک قوم میں الحادی الہٰیت کی وبا: اب ہی کیوں؟
اس ’’الحادی الہٰیت کی وبا‘‘ ، جیسا کہ ترکی کے قدامت پرست مذہبی حلقے اس کو منسوب کرتے ہیں، کے پس پردہ قوت کیا ہے؟ [4] اردگان کے بعض حمایتی پنڈتوں نے اس سوال کا جواب اسی شے میں کھوجا ہے جو ان کے اندازِ جہاں بینی (worldview) کی بنیاد بن چکی ہے: مغربی سازش۔ مثال کے طور پر دنیائے صحافت (میڈیا) کے معروف مسلمان مبلغ نہاد ہاتی پوغلو (Nihat Hatipoglu) کے نزدیک، ’’سامراج ‘‘ نے جلیل القدر ترک قوم کو الحادی الہٰیت کا ٹیکہ لگایا، بالخصوص ایسے وقت میں ترکی کو کمزور کرنے کے واسطے جب وہ آخرکار دوبارہ سے شاہراہِ عظمت پر گامزن ہے نیز اپنی اسلامی بنیادوں کی جانب پلٹ رہا ہے۔ اعلیٰ سطح کے سرکاری مذہبی رہنما ،علی ایرباش کے نزدیک، نوجوان ترک نسل کے الحادی الہٰیت کی جانب مائل ہونے کے پیچھے حقیقی قوت، مغربی ’’مبلغین ‘‘ ہیں، جو مفروضہ طور پر اس جتن میں ہیں کہ نوجوانوں کو’’اسلام سے دور کرنے کی غرض سے‘‘ الحادی الہٰیت کی جانب متوجہ کیا جائے اور پھر بعد ازاں ان کو مسیحی بنا لیا جائے [5]۔
تاہم دوسرے ترکوں کے نزدیک الحادی الہٰیت سے متعلق تمام تر بحث ایک بہت بڑی سازش کی بجائے اعلیٰ درجے کی ستم ظریفی پر مبنی ہے: ترک قوم، جو اپنی ’’ننانوے فیصد مسلم آبادی‘‘ پر اکثر و بیشتر فخر کا اظہار کرتی ہے، اس کے اندر ایک ایسے وقت میں اسلام سے بے نظیر دوری وقوع پذیر ہو رہی ہے جب اسلام کے علمبردار یعنی اسلامیت پسند (اسلامسٹ)، بشمول صدر طیب اردگان اور برسراقتدار جسٹس و ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) میں اردگان کے وفادار حضرات، ماضی کے مقابلے میں سیاسی اعتبار سے نسبتاً بہت زیادہ طاقت ور ہیں۔
درحقیقت، کوئی اس طرح سے استدلال کر سکتا ہے کہ یہ ایک ستم ظریفی نہیں ہے بلکہ ایک قابل فہم سلسلہ علت و معلول ہے: اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) کے اقتدار میں ہونے کی بدولت ہی اسلام سے دوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چونکہ جسٹس و ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کا اقتدار، یقینی طور پر استبدادی، بدعنوان اور ظالم ثابت ہو چکا ہے، چنانچہ بعض ایسے لوگ جو اس پارٹی کی طاقت اور ایجنڈے سے خار کھاتے ہیں، وہ اسلام سے بھی دوری اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ترکی میں بہت سے لوگ یہی دلیل دے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک تمل قاراملّا اوغلو (Temel Karamollaoglue) صاحب ہیں جو حزبِ سعادت (Felicity Party) کے رہنما ہیں۔ جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی کی مانند اس پارٹی کی جڑیں بھی اسلام ازم (اسلامیت) میں پیوست ہیں، تاہم اس نے اردگان حکومت کے خلاف مرکزی سیکولر حزب اختلاف (اپوزیشن جماعت) کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا ہے۔ قاراملّا اوغلو (Karamollaoglue) نے جون 2019ء میں کہا، ’’مذہب کی نمائندگی کے دعویداروں کی بدولت ترکی میں خوف و آمریت کا راج ہے۔ اور اسی وجہ سے لوگ اسلام سے دور بھاگ رہے ہیں‘‘ [6]۔ (قاراملّا اوغلو صاحب کی چھوٹی سی پارٹی مذہبی قدامت پرستوں کی ایک ایسی اقلیت، جس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، نمائندگی کرتی ہے جو اردگان حکومت سے تنگ ہے۔ ایسے ترک رائے دہندگان (ووٹرز) کے سامنے دو نئی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں جن کے مرکزی رہنما جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کے سابقہ اہم رہنما ہیں جنھوں نے اپنی راہوں کو اردگان سے جدا کر لیا ہے: سابق وزیراعظم احمد داؤد اوغلو(Ahmet Davutogle) کی رہنمائی میں ’’فیوچر پارٹی‘‘، اور سابقہ ماہر معاشیات (czar) علی بابا جان (Ali Babacan) کی زیرِ قیادت میں ’’تحریک نجات‘‘ (Remedy Party))۔
امریکہ میں رہائش پذیر ترک ماہر سماجیات مجاہد بیلیجی (Muchait Bilici) ایک دوسرے نقاد ہیں جو ایک باعمل مسلمان ہیں اور الحادی الہٰیت کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان کو ’’ ترکی اسلام ازم(اسلامیت) میں مذہبیت کے بحران‘‘ کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں[7]۔ ان کے نزدیک، مصطفیٰ کمال کے سیکولر نظام کو آخرکار شکست سے دوچار کرنے کے بعد، ’’ترکی مذہبیت نے آزادی کے ساتھ سانس لینے کا آغاز کیا ہے‘‘۔ تاہم، اس کے نتیجے میں ’’ترکی مذہبیت کو آزمائش کی ایک بھٹی سے گزرنا پڑا ہے۔ یہ مذہبیت سیاسی اعتبار سے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے باوجود روحانی اعتبار سے ناکام ٹھہری ہے‘‘ ۔ مزید یہ کہ، الحادی الہٰیت کا ظہور اس ڈرامائی ناکامی کا ایک نتیجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
’’اس بات پر زور دینا چاہیے کہ اس عمل (پروسث) کا تعلق کمالی سیکولرازم (laïcité) یعنی جدید ترکی کےبانی سیاست دان مصطفیٰ کمال اتاترک کی ریاستی سیادت کے تحت کارفرما سیکولرائزیشن منصوبے کے ساتھ بہت ہی کم ہے۔ اس کے برخلاف، یہ ایک نامیاتی سیکولرائزیشن ہے جو کلیتاً پرامن ہے اور ریاستی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ سرکاری پولیسیوں کے باوجود رونما ہو رہا ہے۔ یہ ایک مقامی اور ترک روشن خیالی کا نتیجہ ہے نیز مابعد اسلامسٹ (اسلامیت پسند ) جذبے کا ثمر ہے۔ اپنے والدین کے مذہبی دعووں، جنھیں وہ ریاکارانہ یا منافقانہ سمجھتے ہیں، سے مایوس ہو کر نوجوان نسل انفرادی روحانیت اور روایت کے ایک خاموش انکار کا انتخاب کر رہی ہے‘‘۔
تہران : مشرق وسطیٰ میں سب سے کم مذہبی دارالحکومت
پچھلی دہائی میں جو کچھ ترکی میں ہوا ہے، وہ اس سے بدرجہا کم ہے جو پچھلی چار دہائیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران میں ہو چکا ہے۔ وہاں بھی معاشرے کے نسبتاً زیادہ بلند آہنگ اسلامی طبقے، جسے سیکولر حکومت کے تحت لگ بھگ ایک صدی تک دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا تھا، نے ایک انقلابی ولولے کے ساتھ دوبارہ سے اقتدار حاصل کر لیا۔ ایران میں 1979ء سے شروع ہونے والا اسلامی انقلاب زیادہ واضح، ایکاایکی اور خونی اوصاف سے متصف تھا۔ اس کے برعکس، ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کی حکومت میں زور پکڑنے والا انقلاب نسبتاً ملائم، بتدریج، جمہوری اور قدرے پرامن تھا۔ تاہم اس کے باوجود دونوں ملکوں کے حوالے سے یہ کہنا بجا ہے کہ اسلام ایک انتقامی جذبے کے تحت سیاسی قوت کی صورت میں سامنے آیا، لیکن اس سے صرف غیرمتوقع نتائج برآمد ہوئے۔
یہی وجہ ہے کیونکہ 1979ء کے ایرانی انقلاب کو اپنے اصل مقصد یعنی ایرانی معاشرے کی دوبارہ سے اسلام کی جانب واپسی (re-islamize) کی بجائے، کم از کم جزواً ہی سہی تاہم اس کے الٹ، یعنی ایران کی اسلام سے دوری، کے حوالے سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تہران جانے والے غیر ملکی روز مرہ زندگی میں اکثروبیشتر ان نتائج کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ نکولس پیلم (Nicholas Pelham) ایسے ہی ایک سیاح ہیں جو ’’دی اکانومسٹ‘‘ اخبار کے مشرق وسطیٰ میں نمائندے کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ ان کو سال 2019ء کے موسم گرما میں ایرانی انٹیلی جنس نے ہفتوں تک حراست میں رکھا اور پھر رہائی کے بعد ہی وہ درج ذیل مشاہدات کو رپورٹ کرنے کے قابل ہوئے :
’’ایران کی مذہبی شہرت کے باوجود تہران شاید مشرق وسطیٰ کا وہ دارالحکومت ہے جو سب سے کم مذہبی ہے۔ اخبار مذہبی رہنماؤں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں جو قسط وار ڈراموں (soap operas) میں معاشرے کے بڑوں کا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن میں نے ان کو اشتہاری بل بورڈوں کے علاوہ گلیوں محلوں میں کبھی نہیں دیکھا۔ بہت سے دوسرے مسلمان ملکوں کے برخلاف، تہران میں اذان کی صدا تقریباً سنائی ہی نہیں دیتی۔ نئی مساجد کی تعمیر کے واسطے ایک بھرپور مہم برپا ہے، تاہم جمعہ کے روز نماز جمعہ ادا کرنے کی بجائے لوگوں کی اکثریت آرٹ گیلریز کو جاتی ہے۔۔ شراب ممنوع ہے تاہم پیزا(Pizza)کے مقابلے میں گھر پہ شراب زیادہ جلدی پہنچائی جاتی ہے‘‘۔۔۔۔۔
’’ اپنے گھروں کی محفوظ چاردیواری کے اندر خواتین اکثر و بیشتر اپنے سر کو ڈھکنے والے حجابات کو اتار دیتی ہیں جب وہ انٹرنیٹ پر گفتگو (چیٹ) کرتی ہیں۔ تاریک سینما ہال، اخلاقی نظم و ضبط کا نفاذ کرنے والی پولیس کی نگاہ سے بچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ چائے خانوں (Cafe) میں خواتین بےاطمینانی کے سبب اپنے سکارفوں کو کھول دیتی ہیں۔ قدرے زیادہ شوخ و بیباک خواتین دس برس کی قید کا خطرہ مول لے کر گلیوں میں بے حجاب نکلتی ہیں ۔ ۔۔ ایران خود کو ایک ملائی حکومت قرار دیتا ہے، اس کے باوجود مذہبیت کو تلاش کرنا پریشان کن حد تک مشکل معلوم ہوتا ہے نیز حقیقی مذہبی پیروکار کسی اقلیت کی مانند حاشیے تک محدود دکھائی دیتے ہیں‘‘ [8]۔
عمل صالح سے ہمہ گیر دُوری، اسلام کی تشکیلِ نو (re-Islamization)کی بابت ایرانی انقلاب کے ولولے کی ناکامی کی صرف ایک جہت ہے۔ اسلام سےکھلم کھلا انحراف نسبتاً زیادہ سنگین جہت ہے یعنی ایک انتہائی ناگوار فعل جس سے روکنے کے واسطے اسلامی جمہوریہ ایران سزائے موت کے نفاذ کی خواہاں ہے۔ جیسا کہ میں نے کسی دوسری جگہ لکھا کہ ایران مسلم اکثریت کا حامل ملک ہے جو مرتدین کی تعداد کے اعتبار سے سرفہرست ہے[9]۔ ان سابقہ مسلمانوں کی اکثریت مسیحیت اختیار کرتی ہے جس کی بدولت ایرانی کلیسا، دنیا کا سب سے تیزی سے پھلنے پھولنے والا چرچ ہے[10]۔ ایک مطالعہ کے مطابق، 1960ء سے لیکر 2010ء تک کے درمیانی عرصے میں دائرہ اسلام سے نکل کر مسیحیت اختیار کرنے والوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے[11]۔ ایک حالیہ مطالعے کے مطابق یہ تعداد ڈھائی سے لے کر پانچ لاکھ لوگوں کے لگ بھگ ہے[12]۔ مذہب بدلنے والوں میں سے بعض خفیہ طریقے سے اپنے نئے عقیدے پر عمل کرتے ہیں؛ اور بعض اپنی جانوں کو بچانے کے واسطے بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں ۔
علاوہ ازیں ، کچھ ایرانی مرتدین مسیحیت اختیار نہیں کرتے، بلکہ اس کی بجائے کھلم کھلا ’’ ملحد‘‘ بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک اعظم کمگویان (Azam Kamguian) نامی خاتون ہے جو تاثینی حوالے سے سرگرم ہے اور بمشکل ہی ایرانی انقلاب کے ہاتھوں سے محفوظ رہی، بیرون ملک منتقل ہو گئی، اور کئی کتابیں بشمول ’’لادینیت، مذہب سے چھٹکارا اور انسانی مسرت‘‘ (Godlessness, Freedom from Religion & Human Happiness) تحریر کیں[13]۔ ایک دوسری کتاب میں، مذکورہ خاتون نے نہایت پرجوش انداز میں اس بارے میں لکھا کہ 1979ء کے بعد ایران میں ’’اسلام نے تین متواتر نسلوں کی زندگیوں، خوابوں، امیدوں اور امنگوں کو کیسے تباہ کر ڈالا‘‘ [14]۔ یقیناً، ان تمام عوامل کے پس پردہ قوت، اسلام بذات خود نہیں تھا بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران تھی۔ تاہم بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ مابعد انقلاب کے ایران میں ان دونوں کو باہم گڈمڈ کر دینا آسان ہے ۔
عرب دنیا میں لادینیت کی ایک موج
عرب دنیا سے متعلق بھی جان لیجیے۔ یقیناً یہ ایک بڑا اور متنوع منظرنامہ ہے، جو مختلف سیاسی تواریخ اور نظاموں (سسٹمز) کے علاوہ جدا جدا فرقوں، نسلوں یا قبائل کے حامل بائیس آزاد ممالک پر مشتمل ہے۔ تاہم، عرب دنیا میں لادینیت کی ایک نئی لہر کے آثار کا مشاہدہ ممکن ہے ۔
پرنسٹن اور مشی گن کی دانشگاہوں میں واقع عرب بیرومیٹر (Arab Barometer) نامی ایک تحقیقی نیٹ ورک نے حال ہی میں اس قسم کے چند آثار کو نشان زد کیا ہے۔ چھ عرب ممالک (الجیریا، مصر، تیونس، اردن، عراق اور لیبیا) میں ہونے والی رائے شماری میں اس تحقیقی نیٹ ورک کے محققین نے اس بات کو دریافت کیا کہ ’’عرب مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں کے حوالے سے بدظن ہو رہے ہیں‘‘[15]۔ چنانچہ پانچ برس کے عرصہ میں اسلامی جماعتوں پر اعتبار نہ کرنے والے عراقیوں کی تعداد اکیاون (51) سے بڑھ کر اٹھہتر (78) فیصد تک پہنچ گئی تھی، اور متذکرہ بالا ممالک میں ’’ اسلامی جماعتوں پر اعتبار‘‘ کا تناسب 2013ء میں پینتیس (35) فیصد تھا جو 2018ء میں گھٹ کر بیس (20) فیصد رہ گیا۔ مسجد میں جانے والوں کی تعداد میں بھی اوسطاً دس فیصد سے زیادہ کمی ہوئی، نیز 2013ء میں اپنے آپ کو ’’غیر مذہبی‘‘ کہنے والے عربوں کی تعداد آٹھ (8) فیصد تھی جو 2018ء میں تیرہ (13 فیصد) ہو گئی۔
ایسا کیونکر ہو رہا ہے؟ ایک جواب یہ ہے کہ حال ہی میں عرب دنیا کے اندر اسلام کے نام پر بہت زیادہ خطرناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں شام، عراق اور یمن میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی خانہ جنگیاں شامل ہیں، جہاں متحارب گروہوں نے اکثر و بیشتر انتہائی ظالمانہ انداز میں خدا کے نام پر جنگ میں حصہ لیا ہے۔ ان جنگوں سے متاثر ہونے والے لاکھوں مقامی اور دور بیٹھ کر ان حالات کا مشاہدہ کرنے والے، دونوں ہی مذہبی سیاست کے ہاتھوں شدید صدمے اور مایوسی کے تجربے سے گزرے ہیں، نیز چند ایک نے عمیق سوالات کو اٹھانا شروع کر دیا۔
سخت سوالات پوچھنے اور ان کے نتیجے میں مذہب سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں میں سے ایک، بغداد کا رہائشی باون (52) برس کا عمر رسیدہ ابو سمیع نامی شخص ہے، جس نے ایک ’’ڈھکے چھپے عراقی ملحد‘‘ کی حیثیت سے اپریل 2019ء میں امریکہ کے خبر رساں ادارے قومی نشریاتی کمپنی (NBC News) سے بات چیت کی[16]۔ رپورٹ کے مطابق، اس نے کہا کہ ’’ ہم سنتے تھے کہ اسلام امن کا دین ہے، تاہم داعش (ISIS) نے عفریتوں اور وحشیوں بلکہ ان سے بھی بدتر سلوک کیا‘‘ ۔ اور اسی نکتے کے سہارے ابوسمیع نے ایک بڑا موقف اختیار کیا،’’ کیا اسلام ایک امن پسند مذہب ہے؟ بالکل نہیں، اور میں ایسے مذہب کا حصہ بن کر نہیں رہنا چاہتا‘‘ ۔
ایک دوسرا عراقی شہری، اسلامسٹ (اسلامیت پسند) دانشور اور محقق، غالب الشابندر (Ghalib al-Shahbandar) بھی اس صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے اس بابت پریشانی کا شکار ہے۔ وہ تنبیہ کرتا ہے کہ ’’ اسلامی جماعتوں کی الٹی حرکتوں کی بدولت لادینیت کی ایک لہر عراق میں پھیل جائے گی‘‘[17]۔(نیز)’’ یہی وہ حرکتیں ہیں جس نے لوگوں کو اسلام و دیگر مذاہب کو ترک کرنے پہ مجبور کر دیا ہے‘‘ ۔
داعش اور اس کے ذیلی گروہوں کی بربریت کے علاوہ، بشار الاسد حکومت کے جبر کے نتیجے میں، کٹے پھٹے ہمسایہ ملک شام میں بھی ایسا ہی رجحان موجود ہے: ’’ شامی نوجوانوں کے ہاں ارتداد میں اضافہ‘‘[18]۔ تشدد اور انتشار کی اس صورتحال کے بیچوں بیچ، مصری لکھاری شام العلی (Sham al-Ali) لکھتا ہے کہ ’’ مذہب (اسلام) پر ہونے والی تنقید پہلے سے زیادہ زور پکڑ چکی ہے، اور بہت سے شامی نوجوان بالخصوص یورپ کے باسی، اپنے قدیم مذہبی طرزِ حیات کو ترک کر رہے ہیں‘‘ ۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ’’ اجتماعی سطح پر بھی عرب سوشل میڈیا مذہب مخالف نقادوں اور ان کے (مذہب دشمن) مواد سے لبالب ہے، جو اس بات کی پرجوش دعوت دیتا ہے کہ مذہبی اساطیر کی حیثیت کو ازسرنو طے کیا جائے ، یا پھر وہ مذہبیت کا خوب ٹھٹھا اڑاتا ہے‘‘[19]۔
سوڈان بھی اسلام ازم (اسلامیت)کے ایک ہولناک تجربے سے گزرا ہے۔ مسلم اکثریت کی حامل افریقی قوم نے 1989ء تا 2019ء کا عرصہ، فوجی صدر عمر البشیر کی آمرانہ حکومت کے تحت گزارا ہے۔ 2019ء کے اوئل میں ہونے والے عوامی احتجاجوں یا ’’ سوڈانی انقلاب‘‘ کے نتیجے میں البشیر کا اقتدار ختم ہوا، اور اس کی حیران کن بدعنوانی بھی آشکار ہوئی: سیکورٹی فورسز نے تین سو پچاس (350) ملین ڈالر (پینتس کروڑ ڈالر) کی نقدی صرف اس کی رہائش گاہ سے برآمد کی۔ یہ ایک عوامی سبق تھا کہ ’’ ایک شخص جس نے اپنے غربت زدہ ابتدائی حالات کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ عوامی جذبات کو بھڑکایا تھا‘‘ ، وہ صرف ’’ عوام کی نسلوں کی تباہی کے واسطے اپنے لالچ اور ہوس‘‘ کو چھپا رہا تھا[20]۔ اور عوام نے واقعی یہ سبق سیکھ لیا۔ قطر ی نژاد ایک ممتاز مسلم عالم، عبدالوہاب الآفندی کے بقول، مابعد انقلاب دور کے سوڈان میں ’’ اسلام ازم (اسلامیت) بدعنوانی، منافقت، ظلم اور بدعقیدگی کا نشان بن گیا۔ معروف معنوں میں سودان ہی وہ پہلا ملک ہے جو حقیقی معنوں میں اسلامسٹ (اسلامیت پسندوں کا)مخالف ہے‘‘[21]۔
تاہم حقیقی معنوں میں اسلام ازم (اسلامیت) کیا ہے؟
اس موقع پر یہ نشان دہی کر دینا شاید کارآمد ثابت ہو کہ ہم یہاں دو باہم منسلک مگرامتیازی رجحانات کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ ترکی، ایران، سودان اور کسی بھی دوسرے ملک میں اسلام ازم(اسلامیت) بیزاری، عین ممکن ہے کہ خود اسلام بیزاری کی جانب لے جائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بیزاری، لادینیت یا الحادی الہٰیت یا پھر مسیحیت کی جانب لے چلے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ مذکورہ امر کے سبب انسان نسبتاً کم سیاسی عقیدے کی آرزو کرنے لگ پڑے۔ مؤخر الذکر سبب یقیناً تمام ’’ مابعد اسلامسٹ‘‘ پس منظروں میں موجود ہے، اور ہو سکتا ہے کہ آخر میں مذکورہ رجحان (نسبتاً کم سیاسی عقیدے کی آرزو) مکمل ترکِ اسلام کے مقابلے میں زیادہ زور پکڑ لے ۔
تاہم اسلام ازم(اسلامیت) کو سنی یا شیعہ اسلام کے مرکزی دھارے سے جدا کرنا سہل نہیں ہے۔ اسلامسٹ(اسلامیت پسند) جماعتیں مثلاً مصر میں اخوان المسلمین، شاید مذہب کو سیاست سے مزید آلودہ کر رہی ہوں نیز دہشت گرد گروہ اس آلودگی میں اندھا دھند تشدد جیسے گمراہ کن عنصر کا اضافہ کر رہے ہیں۔ تاہم یہ سبھی لوگ (اسلامیت پسند جماعتیں اور دہشت گرد گروہ) اسلام کی فقہی روایت یعنی نفاذِ شریعت کے علمبردار بن رہے ہیں۔ وہ شریعت جس کی مرکزی تعبیرات ایسے احکامات پر مبنی ہیں جن کی قبولیت جدید زاویہ نگاہ کے لیے دشوار ہے۔ مثلاً مرتدین اور توہین رسالت کے مجرموں کے لیے سزائے موت، زانی کے لیے سزائے رجم، چوروں کے ہاتھ کاٹنا، کئی گناہوں پر سرعام کوڑے مارنا، خواتین پر لباس کے ضابطوں کی پابندی، عورتوں پر مردوں کی حاکمیت، غیرمسلموں پر مسلمانوں کی برتری، اور مجموعی طور پر ایک ایسے تنگ نظر (closed) معاشرے کا کلی تصور جو نہ صرف مذہب پر استوار ہے بلکہ مذہب اس پہ نگہبان (policed)ہے۔
شامی نژاد عوامی دانشور محمد شحرور (متوفی 2019ء) نے، جن کے اسلام سے متعلق اصلاح پسند تصورات کو عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر موضوع بحث بنایا گیا ہے، اس نکتے پر زور دیا ہے: کہ مسئلہ صرف اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) کی جانب سے نہیں ہے جو شاید نفاذ شریعت کے واسطے مخصوصی سیاسی لائحہ عمل کے حامل ہیں، بلکہ مرکزی دھارے کے ان روایتی اہل علم یعنی علماء کی جانب سے بھی ہے جو شریعت کی قدیم تعبیرات کے علمبردار ہیں۔ اپنی ایک تحریر میں مسلمانوں کو ’’ تنقیدی استدلال‘‘ (critical reasoning) کی دعوت دیتے ہوئے شحرور نے لکھا:
’’ ابتداء میں ہم سمجھے کہ اسلام ازم(اسلامیت) کو علماء کے ہاں موجود ٹھوس علمی روایت سے انحراف کی حیثیت سے بیان کیا جائے گا، اور ہمیں علماء سے توقع تھی کہ وہ اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) نیز سیاسی اسلام اور ساری دنیا کو مسلمان کرنے سے متعلق ان کے جارحانہ جذبات کی تردید کریں گے۔ ہمیں اس وقت بہت حیرت ہوئی جب ہم نے ذی وقار علماء کی جانب سے کسی قسم کے تردیدی بیان کی بجائے ایسی قانونی تشریحات سنیں جو بنیادی طور پر اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں)کے من گھڑت دعووں سے اغماض برتتی تھیں۔ ہم نے تب جانا کہ درحقیقت ارتداد، جہاد اور جنگ و جدل سے متعلق علماء کی تعبیرات اسلامسٹوں کی آرا سے زیادہ مختلف نہ تھیں‘‘ [22]۔
اس پس منظر میں، معاصر زمانے میں اسلام بیزاری صرف اسلامسٹوں (خواہ اخوان المسلمین جیسی سیاسی تحریکوں کی صورت میں متعین ہو، یا پھر انتہائی رخ پر دہشت گردوں کی صورت میں سامنے آئے)کی بدولت ہی نہیں ہے، بلکہ قدامت پسند سنی، سلفی، یا شیعی علماء کے کارن بھی ہے، جو حریت، مساوات، اور انسانی حقوق جیسے جدید تصورات کے مخالف مذہبی نقطہ ہائے نظر کے حامی ہیں۔
مثال کے طور پر سعودی عرب کی مثال لے لیجیے جس نے حال ہی میں اخوان المسلمین جیسے اسلامسٹوں کی غضب ناک طریقے سے مخالفت کی ہے، تاہم اپنے ہاں شریعت کی سخت ترین قسم کو نافذ بھی کر رکھا ہے۔ سعودی حکمران ’’لادینی افکار سے متعلق کسی بھی قسم کی تبلیغ، یا مذہب اسلام کے بنیادی ارکان پر سوال اٹھانے‘‘ کو دہشت گردی کے برابر جرم قرار دیتے ہیں[23]۔ تاہم جیسا کہ حاکم خطیب (Hakim Khatib) جیسے صحافی کے مشاہدے میں آیا، ’’ سعودی بادشاہت کے بہت سے شہری اسلام سے منہ موڑ رہے ہیں‘‘ اور ان میں سے بعض “Saudis without religion.” نامی ویب گاہ پر اپنے خیالات وضاحت سے لکھ رہے ہیں[24]۔ اس کی ایک وجہ ان پر نافذ کردہ اسلام کی سخت تعبیر کا جبر ہے اور دوسری وجہ اس امکان پر مبنی ہےکہ ایک متبادل دنیا کا ذائقہ چکھا جائے۔ بقول خطیب،
’’دیگر اشیاء کے علاوہ، غالباً جو شے سعودی باشندوں کو ان کے مذہب سے دور لے جا رہی ہے، وہ سعودی عرب میں نافذ کردہ سخت گیر اور غیر انسانی اسلامی قانون نیز معلومات اور بڑے پیمانے پر ترسیل معلومات تک آسان رسائی ہے‘‘ [25]۔
عقیدے سے دوری کے اصل تناسب کا اندازہ لگانا دشوار ہے کیونکہ اس حوالے سے کوئی (باقاعدہ) سروے نہیں ہے نیز بیشتر لوگ اس موضوع پر بات کرنے میں محتاط ہیں۔ تاہم یہ معاملہ نہ صرف سعودی عرب میں بلکہ دیگر ہمسایہ بادشاہتوں میں ایک نہایت سنجیدہ مسئلے کی صورت اختیار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جسے میڈیا بھی اٹھا رہا ہے کہ ’’ ہمارے خلیج فارس کے معاشروں کی نوجوان نسل میں لادینیت کو قبول کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے‘‘[26]۔
(لادینی فکر کی ترویج میں) انٹرنیٹ اور بالخصوص سوشل میڈیا ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے جیسا کہ اکثر و بیشتر اس جانب اشارہ کیا جاتا ہے، تاہم محض ایک برآمد شدہ ’’ملحدانہ خیال" کے علمبردار کی حیثیت سے نہیں جیسا کہ قدامت پسندوں کا عمومی ایقان ہے، بلکہ ایک آزاد مقام کی حیثیت سے، جہاں لوگ (مذہب سے متعلق) اپنے داخلی اضطراب کو بیان کر سکتے ہیں اور ان میں ایک دوسرے کو شریک کر سکتے ہیں، جیسا کہ عبداللہ حمید الدین نے 2019ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب (Tweeted Heresies: Saudi Islam in Transformation) میں اس بات کو اجاگر کیا[27]۔ نوجوان نسل کے ہاں عقیدے سے محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے، حمید الدین اپنے ذاتی تجربے کے ذریعے دکھاتے ہیں کہ ایسا صرف ان کے اٹھائے ہوئے سوالات کی بنا پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی ایک وجہ ’’ روایتی مذہبی علماء کی جانب سے دیے جانے والے گھڑے گھڑائے جوابات پر شک اور اضطراب‘‘ بھی ہے[28]۔
ایسی ہی کہانیاں مراکش سے سننے کو ملتی ہیں جہاں سیاست اور قوانین قدرے نرم ہیں لیکن روایتی اسلام اور جدید اقدار کے مابین کشمکش ہنوز برقرار ہے۔ اس کشمکش کی بدولت ترکِ اسلام کرنے والوں میں سے ایک سابقہ مسلمان محمد نامی شخص ہے جس نے ایک مغربی استاد کے ساتھ بات چیت کی۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس کے مسلمان ساتھیوں کی خود راستی (self-righteousness) اس کے لادین ہونے کی وجہ بنی:
’’اس کے ترکِ دین کا بنیادی محرک اہل اسلام کے ہاں اس حقیقت کا مشاہدہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو ’’ ایک حتمی صداقت کے واحد مالک‘‘ سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ’’ صرف اور صرف مسلمان ہی جنت میں داخلے کے مستحق ہیں‘‘ ۔ ’’ تو باقی دنیا کا کیا بنے گا؟‘‘ محمد نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ نیز یہ بھی کہ ’’ میرے ایک ہم جماعت کی ماں یہودی تھی۔ میں اس اچھی خاتون کے دوزخ میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘ ۔ بعینہ، وہ محمد رسول اللہ (ﷺ) کی ایسی احادیث سے تکدرمحسوس کرتا تھا جو ’’ عورتوں، غیرمسلموں، جنگوں وغیرہ کےحوالے سے ہرگز اخلاقیات پر مبنی محسوس نہ ہوتی تھیں‘‘[29]۔
دیگر مراکشی ملحدین اپنے ترکِ اسلام کی بابت ایسی ہی ملتی جلتی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ عبداللہ نامی ایک سابقہ مسلمان کے نزدیک، اسکے ترکِ دین کی کلیدی وجہ اس کے رابطے میں آنے والے مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے ہاں ہم جنس پرستوں (gays) سے نفرت تھی۔ اس کا سوال تھا کہ ’’ اگر خدا نے ہی ہم جنس پرستوں کو پیدا فرمایا ہے تو پھر وہ ان کے گناہوں کے سبب ان کو کیونکر پھٹکار سکتا ہے؟‘‘[30]۔ ایک دوسرے سابقہ مسلمان کے نزدیک،’’ صنفی امتیاز جیسے اخلاقی مسائل کی بدولت جنم لینے والا تذبذب‘‘ ہی اس کے ترکِ دین کی حتمی وجہ ثابت ہوا [31]۔
یہی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر شمالی افریقہ سے لیکر جنوب مشرقی ایشیاء تک اسلامسٹ (اسلامیت پسند) اور قدامت پسند علماء مسلمانوں کو فرد اور رائے کی آزادی یا صنفی امتیاز جیسی جدید اقدار کے خلاف متنبہ کر رہے ہیں۔ ملائیشیا میں ’’ لبرلزم اور تکثیریت‘‘ کے خلاف مساجد میں خطبے دیئے گئے، جب کہ اس کے سابق وزیراعظم نے ’’ انسانی حقوق پرستی‘‘ کی مذمت کی[32]۔ سعودی عرب میں، وزارت تعلیم کے تحت سرکاری سکولوں میں ایک پروگرام رواں دواں ہے جو ’’ لبرلزم‘‘ ، ’’سیکولرازم‘‘ ، اور ’’ مغربیت‘‘ کے خلاف ’’ مدافعت‘‘ (immunity) پیدا کرتا ہے[33]۔ اور ترکی میں، اردگان کے حامی دانشور ’’ لبرل جمہوریت بحران کا شکار ہے‘‘ کی دہائی دے رہے ہیں [34]۔
بحران کا شکار اسلام
محولہ بالا تمام تر واقعات، مشاہدات، رپورتاژ اور اعداو و شمار ایک وسیع تر داستان، کہ عظیم اسلامی تہذیب ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہے، کے محض چند اجزا ہیں۔ شاید یہ بات چند مغربی افراد کے کانوں کو ایک اونچی بڑھک سنائی دے، تاہم درحقیقت اس بحران کو بیشتر معاصر مسلمان بشمول اسلامسٹ اور قدامت پسند، جن پر محولہ بالا سطور میں تنقید ہوئی ہے، ایک منصفانہ بات تسلیم کریں گے۔ وہ لوگ مجھ سے صرف بحران کی نوعیت کے ضمن میں اختلاف کریں گے۔
بیشتر لوگوں بالخصوص اسلامسٹوں کے نزدیک، مذکورہ بحران دراصل سیاسی ہے کیونکہ (بیسویں صدی کے اوائل میں) سقوط خلافت کے زمانے سے اہل اسلام کے ہاں مضبوط ریاستوں یا رہنماؤں کا وجود نہیں ملتا۔ وہ رہنما جو ان کے داخلی مناقشات کو ختم کرنے، بیرونی دشمنوں (بالعموم مغرب اور اسرائیل) کو شکست دینے اور دنیاوی کامیابی کے حصول کی خاطر ان کو متحد اور متحرک کرنے کے قابل ہوں۔ مسلمان معاشرے، استعمار کے تنخواہ دار گماشتوں یا (مِلی و قومی) غداروں (ففتھ کالمز) کے ہاتھوں گنجلگ ’’غیر اسلامی‘‘ تصورات کی دلدل میں دھنس رہے ہیں، اور ہنوز ’’خوابِ خرگوش‘‘ میں مگن ہیں۔ اسلامسٹوں کی عمومی رائے کے مطابق، بیداری کی خاطر مسلمانوں کو ایک ہراول تحریک (جس سے ان کی مراد عموماً وہ خود ہوتے ہیں)، یا پھر ایک ’’نئے صلاح الدین ایوبی‘‘ (جس سے ان کی مراد عموماً اسلامسٹوں کا کرشماتی رہنما ہوتا ہے)، کی حاجت ہے جو اسلامی اتحاد کو ازسرنو بحال کرے گا اوروہی ہماری قدیمی شان و شوکت کو پھر سے زندہ کرے گا۔
قدامت پسند مذکورہ استدلال کے جوہر سے متفق ہوں گے لیکن وہ عام طور سے اس بات کا اضافہ کریں گے کہ حالیہ بحران کی بنیاد میں ایک اخلاقی بحران بھی ہے کہ ایک اعتبار سے ہم مسلمان راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ قدامت پسندوں کا استدلال ہے کہ ابتدائی زمانے کے مسلمانوں کے برخلاف، ہم جدید عہد کے مسلمانوں کو اخروی کی بجائے دنیاوی نفع اور مسرتوں کی لت لگ چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم رحمتِ خداوندی اور اپنے دین کی روحانی قوت کو کھو بیٹھے ہیں ۔
بالفاظِ دگر، اسلامسٹ اور قدامت پسند، دونوں کا استدلال ہے کہ ہمارے پاس موجود نظریہ، یعنی اسلامی روایت، تو کامل ہے اور ہم صرف اس پر عمل کرنے کے باب میں ناقص ہیں۔ اور (اس کامل روایت پر عمل پیرا ہونے کی) ہر ناکام کاوش کے بعد وہ لوگ بڑی آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ’’ لیکن یہ حقیقی اسلام نہیں ہے‘‘، اس امید کے ساتھ کہ اگلی کوشش کامیاب ٹھہرے گی۔ تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے ہاں بنیادی نظریے کے ساتھ ہی مسئلہ اور نقص ہے۔ اور خاص کر اس سطح پر کہ جہاں اسلامسٹ اور قدامت پسند دونوں ہی اسلامی روایت کو بے عیب سمجھتے ہیں: یعنی اقدار۔
میری مراد یہ ہے۔ چند صدیاں قبل، دنیا میں بمشکل ہی کوئی شخص اسلامی تہذیب کو اس کی اقدار کے پیش نظر تنقید کا نشانہ بنا سکتا تھا۔ کیونکہ دنیا کے دیگر حصوں بشمول یورپ کے پاس دینے کو کچھ بہتر نمونہ نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، جب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ تیس سالہ جنگ (1618ء تا 1648ء) کے دوران ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے تھے، تو کثیر المذہبی عثمانی سلطنت برداشت اور رواداری کا روشن مینار دکھائی دیتی تھی۔ بعینہ، جب پندرھویں صدی عیسوی میں کیتھولک سپین میں یہودیوں پر مقدمے چلائے جا رہے تھے، ان میں سے بیشتر امن اور آزادی کی تلاش میں اسلامی تہذیب کی جانب روانہ ہوئے۔
تاہم لبرل جدیدیت کے ظہور کے ساتھ دنیا ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو چکی ہے، لازمی طور پر بہتری کی جانب اور کم از کم اپنی اقدار کے ضمن میں۔ ’’انسانی حقوق‘‘ انسانیت کے ایک عظٰم الشان حصے کے ہاں تسلیم کردہ ایک ’’ عالمی‘‘ قدر بن چکی ہے (خواہ ان کے ناقابلِ احتساب حکمرانوں کے ہاں ایسا نہ ہو)۔ چنانچہ یہ امر ایک بدیہی صداقت بن چکا ہے کہ کسی شخص کو بھی مذہب پر ایمان لانے کی خاطر مجبور نہیں کرنا چاہیے، اور تمام افراد کو اپنی مرضی کے عین مطابق زندگی بسر کرنے کا اہل ہونا چاہیے تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ بعینہ، قانون کی نگاہ میں رنگ، نسل اور جنس کی تفریق کے بغیر برابری نے انصاف اور شعور کے ایک نئے معنی کو جنم دیا ہے۔
عصرِ جدید سے بہت پہلے ظاہر ہونے والے تمام تر روایتی مذاہب کو (عصر جدید کے ساتھ) مطابقت درکار تھی اور بیشتر نے ایسا کر لیا۔ پروٹسٹنٹ نے ’’ بدعتیوں‘‘ (heretics) اور ’’ جادوگرنیوں‘‘ کو آگ میں جلا کر یا کسی دوسرے مہلک ذریعے سے ہلاک کرنے کو ترک کر دیا۔ کیتھولک نے، جن کی تاریخ صلیبی جنگوں اور مذہبی تفتیش (Inquisition) جیسے سنگین واقعات پر مشتمل ہے، بیسویں صدی تک سیاسی سیکولرازم یا مذہبی آزادی جیسے جدید تصورات کی مزاحمت کی۔ تاہم 1960ء کی دوسری ویٹیکن کونسل اور اس کے ’’ عظمتِ انسان‘‘ (Dignitatis Humanae) نامی لبرل اعلامیے کے ذریعے کلیسا نے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا۔ یہودیت، جو کسی گروہ کے قانونی مقاطعے کے قابل کسی قسم کی سیاسی سیادت سے محروم تھی، مگر اس کے باوجود گتھی ہوئی معاشریت (communitarianism) کی حامل تھی، (اٹھارویں صدی کی تحریک برائے اصلاحِ مذہب یعنی) ’’ دانش‘‘ (Haskalah) یا یہودی روشن خیالی کے دور سے گزری جس نے یہودیوں کو جدید معاشرے میں جذب ہونے، حتی کہ کچھ معاشروں کی بنیاد رکھنے میں آسانی فراہم کی۔
تاہم اسلام کے ضمن میں ابھی تک ہم نے کوئی بڑا لبرل قدم نہیں اٹھایا۔ مسلم اکثریت کے حامل بیشتر ممالک میں مذہب کے مرکزی رہنماؤں کے ہاں ابھی تک ماقبل جدید دور کا اندازِ جہاں بینی اور اصولِ فقہ و قانون (jurisprudence) موجود ہے، جس کا جدید اقدار کے ساتھ تناؤ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ’’ اسلام امن کا مذہب ہے‘‘، یہ بات ناقابلِ یقین ہے جب اس کے ساتھ یہ بھی کہا جائے کہ ’’ مرتدینِ اسلام واجب القتل ہیں‘‘۔ بعینہ، اس بات پر اصرار کرنا بے معنی ہے کہ ’’ اسلام خواتین کو بہت عزت بخشتا ہے‘‘ جب کہ ہمارے پاس ایسے مستند متون موجود ہوں کہ بیوی کو مارنے کے مناسب انداز کون سے ہیں۔
مستقبل کا راستہ : اسلامی جدیدیت
چنانچہ، عظیم الشان اسلامی تہذیب کو درپیش یہ بہت بڑا بحران، دو گروہوں کی باہمی کشمکش سے پھوٹتا ہے۔ پہلے وہ مسلمان جو اس ماقبل جدید دور کے اندازِ جہاں بینی اور اصولِ فقہ و قانون کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں (اور زیادہ بڑا المیہ یہ کہ اس کو سبھی پر نافذ کرنا چاہتے ہیں)، اور دوسرے وہ مسلمان جنھوں نے جدید لبرل اقدار کو تسلیم کر لیا ہے۔ موخر الذکر میں سے بعض لوگ بالخصوص جو مغربی ممالک میں مقیم ہیں نیز اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) اور قدامت پسندوں دونوں کے دباؤ سے آزاد ہیں، عین ممکن ہے کہ اس مسئلے سے نظریں چرا پائیں، تاہم ان کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ روایتی تعلیمات کو قدرے باریک بینی کے ساتھ دیکھیں۔ نوٹرے ڈیم کی دانشگاہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ابراہیم موسی بیان کرتے ہیں کہ ’’معاصر عہد کے وہ مسلمان جو دینی تعلیمات سے آگاہ ہیں‘‘ ، کیسے شدید حیرت کا شکار ہو سکتے ہیں:
’’جب غور و خوض کرنے والے ایسے جدید مسلمان مساجد کے خطبات سنتے اور وہاں دی جانے والی تعلیمات کو دیکھتے ہیں یا علماء کے جاری کردہ فتاویٰ پڑھتے ہیں، وہ اکثرو بیشتر چکرا کر رہ جاتے اور غم و غصہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تاہم جو وہ سنتے ہیں، وہی سنیت (Sunnism) کا حقیقی موقف ہے‘‘[35]۔
ابراہیم موسیٰ بذات خود ’’اسلامی جدیدیت‘‘ یا ’’اسلامی ترقی پسندی‘‘ (Islamic Progressivism) کے ایک سوچنے سمجھنے والے حمایتی ہیں۔ ’’اسلامی جدیدیت‘‘ اسلام کے بنیادی ماخذوں یعنی قرآن مجید، اور سنت (فعلِ پیغمبرﷺ) کے ازسرنو مطالعہ کی ایک کاوش ہے جو بنیادی ماخذوں کو ان کے تاریخی پس منظر میں رکھتے ہوئے جدید تناظر میں ان کی غیر جامد/اجتہادی (non-literal) تعبیر نو سے عبارت ہے۔ مذکورہ رجحان نوجوان عثمانیوں (Young Ottomans) جیسے سیاسی مصلحین اور محمد عبدۂ جیسے مصری یا ہندوستانی سرسید احمد خان جیسے مذہبی مصلحین کی بدولت انیسویں صدی میں ظاہر ہوا، وہ مصلحین جنھوں نے بقول کرسٹوفر ڈی بیلاگ (Christopher de Bellaigue) ’’اسلامی روشن خیالی‘‘ (Islamic Enlightenment) کی دانشوارانہ بنیادیں استوار کیں[36]۔ بیسویں صدی میں سیکولر اور اسلامسٹ قوتوں کے مابین مسلسل تصادم کی بدولت اسلامی جدیدیت کا دائرہ سکڑ گیا (اور بعض اوقات اسلامی جدیدیت کو ان طاقتور فریقین نے اختیار کیا)، تاہم اس نقطہ نگاہ کو فضل الرحمن ملک جیسے دانشوروں نے مزید کھول کر بیان کیا، جنھوں نے تعبیرِ قرآن مجید کے واسطے ایک جدید علم التفسیر اور سنت رسول (ﷺ) کے ایک تنقیدی تجزیاتی مطالعہ کو پیش کیا[37]۔
اسلامی جدیدیت (تاریخی اعتبار سے) عیسائیت اور یہودیت سے مماثلت کی حامل ہےکہ اس نے بھی لبرل جدیدیت کو اختیار کرتے ہوئے یکساں رویہ اختیار کیا، یعنی حاصلاتِ عقل کی تحسین کرتے ہوئے اپنی مذہبی جڑوں سے وفاداری۔ ڈینیل فلپوٹ (Daniel Philpott) اپنی کتاب ’’اسلام میں مذہبی آزادی‘‘ (Religious Freedom in Islam) (مطبوعہ 2019) میں اس مماثلت کو بیان کرتے ہیں کہ ’’ عظمتِ انسان‘‘ (Dignitatis Humanae) کی جانب کیتھولک عیسائیت کا اختیار کردہ راستہ کیسے اسلام کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کہ وہ اپنے ہاں قرآن و سنت سے استناد حاصل کرنے والے ’’ تخمِ حریت و روشن خیالی‘‘ کی آبیاری کرے[38]۔
ایسے مسائل سے نبردآزما ایک مسلمان کی حیثیت سے میں بذات خود اس یقین کا حامل ہوں کہ مذکورہ یعنی اسلامی جدیدیت کا راستہ ہی امت مسلمہ کے مستقبل کے واسطے محفوظ ترین راستہ ہے۔ مذکورہ راستہ اسلام کی بنیادوں کے ساتھ وفادار رہنے کا راستہ ہے، نہ صرف معاصر انسانی شعور میں پیوست جدید اقدار کو قبول کرتے ہوئے بلکہ اپنے (مذہبی) عقائد کے ساتھ ان کو ہم آہنگ کرتے ہوئے۔ یہ اینگلو سیکسن معاشروں سے مماثل راستہ ہے، وہ معاشرے جہاں مذہب، حریت اور جدید ترقی، جانی دشمنوں کی بجائے اکثر و بیشتر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دکھائی دیتے ہیں[39]۔
تاہم اگر اسلامی جدیدیت کو حاشیے پر ہی رکھا جاتا ہے، تو امت مسلمہ ان دونوں انتہائوں کے مابین بٹی رہے گی: (ایک جانب) قدامت پسند اور اسلامسٹ (اسلامیت پسند) جو ماضی کے عہد کو محفوظ اور یہاں تک کہ ازسرنو تازہ کرنا چاہتے ہیں اور (دوسری جانب) جدید ذہن کے حامل مسلمان جو ’’ الحادی الہٰیت‘‘ (deism)، لادینیت اور مختلف انواع کے جنگی سیکولرازم کی جانب پہلے سے زیادہ مائل ہوں گے۔ یہ فرانس کے تجربے سے مشابہ ہے جہاں مذہب اور حریتِ فکر باہمی متصادم قوتوں کی حیثیت سے ابھرے جس نے معاشرے کو شدید سماجی جنگوں کی جانب دھکیل دیا۔
اس وقت تک اسلامی تہذیب میں (فرانس سے مشابہ) تھوڑے بہت واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ تاہم سخت ترین تصادم، چاہے خونی نہ بھی ہو، عین ممکن ہے کہ سماجی جنگوں کی شکل میں رونما ہو بالخصوص اگر قدامت پسند اور اسلامسٹ اپنے غیر لبرل، عدم برداشت پر مبنی اور نظریاتی بالادستی کے حامل طریقہ ہائے کار پر ڈٹے رہے۔ قدامت پسندوں کے ہاں روایت کے ساتھ غیر متبدل وابستگی اور اسلامسٹوں کے ہاں روایت کے نفاذ کی خاطر ہونے والی جارحانہ کوششوں نے پہلے ہی معاشروں کو مفلوج اور بہت سے لوگوں کو تباہ کر ڈالا ہے۔ عین ممکن ہے کہ مزید تباہی آئے تاوقتیکہ قدامت پسند اور اسلامسٹ اپنے نقطہ نگاہ کو نہیں بدلتے۔