مدرسہ ڈسکورسز کا فکری وتہذیبی جائزہ

محمد دین جوہر

آج کل مدرسہ ڈسکورسز کا پھر سے چرچا ہے، اور مختلف رد عمل سامنے آئے ہیں۔ کچھ حلقوں میں اسے سازش بھی قرار دیا گیا ہے جو مضحکہ خیز ہے، اور صورتحال کا سامنا کرنے سے انکار ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی خطیر فنڈنگ کو موضوع بنا کر بھی کچھ غیرمفید نتائج اخذ کیے گئے۔ فنڈنگ کی بنیاد پر ڈسکورسز کے منتطمین کی نیتوں اور ’خفیہ‘ عزائم پر اشاروں کنایوں سے بات کی گئی۔ چند مذہبی لوگوں نے ’اظہار خیال کی آزادی‘ اور ’فکری مکالمے کی ضرورت‘ کے حوالے سے اپنی کشادہ قلبی اور بے دماغی بھی ارزانی فرمائی۔ ان غیراہم یا کم اہم پہلوؤں پر گفتگو سے مدرسہ ڈسکورسز کے تعلیمی اور علمی منصوبے کا اصل کام اور اس کے مضمرات اور عواقب زیر بحث نہ لائے جا سکے۔ جیسا ظاہر ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز ایک منصوبہ اور واقعہ ہے، اور اس کے مقاصد اور طریقۂ کار مشتہر ہے۔ عصر حاضر کے ’واقعات‘ کی تفہیم ہم جس سطح پر اور جس اسلوب میں سامنے لاتے ہیں، اس سے یہ اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ ہم جدید افکار و نظریات کو سمجھنے اور ان سے تعرض کرنے کی کیا استعداد رکھتے ہیں۔ واقعات کو سازشی تناظر اور افکار کو اخلاقی اسالیب میں زیربحث لانا ہماری فطرت ثانیہ بن چکی ہے، اور یہ دو ایسے پٹ بن گئے ہیں جن سے بابِ علم اب مستقل بند ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز کو خود اس کے اپنے بیان کردہ مقاصد کے حوالے سے زیربحث لاتے ہوئے بنیادی سوالات اٹھائے جائیں اور بیان کردہ موقف کو رد و قبول کی بنیاد بنایا جائے۔ اس کا سرکاری (آفیشل) بیانیہ اپنی منہج، کلام اور خاموشی میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز پر ناقدین کی زیادہ تر گفتگو نہ صرف بے سود ہے بلکہ اس کے مقاصد کی تفہیم میں مانع ہے۔ ذیل میں ہم مدرسہ ڈسکورسز کے اپنے بیان کردہ منصوبے کی حدود میں رہتے ہوئے گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے، اور جہاں ضروری ہوا اس پر کسی کام کے تبصرے کو بھی زیر بحث لائیں گے۔

گزارش ہے کہ شکست خوردہ تہذیبوں کا ملبہ لوٹ کا مال ہوتا ہے جس پر صلائے عام مستقل ہوتی ہے۔ ایسے میں پوپ کی طرف سے رواداری کا کوئی مطالباتی بیان ہو، یا سابق فرانسیسی صدر سارکوزی کی طرح کوئی مغربی سیاست دان یا ریاستی عہدیدار قرآن مجید کی تدوین نو کی بات کرے، یا غالب تہذیب کے فنکار و مصور ہماری شخصیات و شعائر کو کارٹونوں میں کھپا دیں، یا مغرب کے اہل دانش اس تمسخر کو ہمارا علم بنا دیں اور ہمارے خانہ ساز اہل علم و دانش اسے ہماری تہذیبی اور مذہبی تقدیر کے طور پر پیش کریں، تو اس پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ حیرت تو ان پسماندہ ذرائع تفہیم، فکری افلاس، اخلاقی مکاری اور بے حمیتی پر ہوتی ہے جو ایسے مواقع پر ہم سامنے لاتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہر پہلو سے دنیا کے حالات مسلمانوں کے لیے بہت مشکل ہو چکے ہیں۔ ان حالات کے روبرو تہذیبی مزاحمت تو ایک فراموش شدہ آدرش ہے، لیکن محض بات کرنا اور جہاں بات ہو رہی ہے وہاں اپنی بات رکھنا بھی شدید مشکل ہو گیا ہے۔ اس صورت حال کے لیے صرف مغرب کو الزام دینا درست نہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ مذہبی تناظر میں علمی اور فکری گفتگو حالات میں کسی طرح کی تبدیلی کا باعث نہیں بنتی، اور خود فکری سرگرمی کے جواز کے خاتمے اور مایوسی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ یہ امر فراموش کر دیا جاتا ہے کہ افکارِ تازہ سے جہان تازہ کی نمود ہے، اور تہذیبی مزاحمت کا پہلا قدم علمی اور فکری ہے۔ افکار، امید کو روشن رکھنے اور امکانِ عمل کو تلاش کرنے اور باقی رکھنے کا واحد اولین ذریعہ ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز کا موضوع اور مقاصد

مدرسہ ڈسکورسز کے اغراض و مقاصد اور اس کے علمی و تعلیمی موضوعات اس کے خود بیان کردہ سرنامے کے تحت آتے ہیں، اور جو Contending Modernities ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدرسہ ڈسکورسز کا منصوبہ گزشتہ دو سو سالہ استعماری تاریخ کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ اس کا شجرۂ نسب یا اس کی genealogy براہ راست استشراقی ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کے تحت میں کی جانے والی علمی سرگرمی کے مقاصد مشتہر ہیں اور ان میں سے زیادہ تر علمی اور تہذیبی نتائج حاصل شدہ ہیں۔ لیکن ان نتائج میں مسئلہ یہ ہے کہ ہر بار ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے اور اس کسر کو پورا کرنے کے لیے خطیر وسائل سے ایسے منصوبے بار بار سامنے لائے جاتے ہیں۔ مسلمان بھی بیچارے بلک بلک کر تھک گئے ہیں، نہ کوئی ان کی سنتا ہے، نہ وہ کسی کی سنتے ہیں، اور سن لیں تو سمجھ کچھ نہیں آتی، اس لیے نالی سے دوائی پلانے کے مدرسہ ڈسکورسز جیسے منصوبوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ چونکہ دوا کی ضرورت پر طبیب ومریض اور ’اہلیان‘ سب کا اتفاق ہے، اس لیے اب ٹھوس نتائج کی امید باندھی جا سکتی ہے۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جدیدیت کے وہ پہلو جو سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر فائدہ مند، ضروری اور ’عملی‘ ہیں، وہ بلا چون و چرا فوراً اپنا لیے جاتے ہیں، اور ان کی جواز سازی میں پورا دین بھی کھپائے بیٹھے ہیں۔ جدیدیت کے جن پہلوؤں کو ’غارت گر‘ ایمان سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ اس کے پیدا کردہ نظری اور فلسفیانہ علوم ہیں۔ ان سے بچاؤ کے لیے دولے شاہ کی آہنی تراکیب سے ہم تمام دماغی مسائل بھی حل کیے بیٹھے ہیں۔ لیکن نوٹرے ڈیم والے زیرک و مہرباں ایسے ہیں کہ انہیں یہ سب ’راز‘ معلوم ہیں، اور وہ علم کے ساتھ ساتھ ضروری اسباب لے کر اب ادھر ہی اٹھ آئے ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز کے منصوبے کا بنیادی نقطہ یا حقیقی دُھرا بطور ورلڈ ویو جدیدیت کے تہذیبی اور علمی مطالبات ہیں۔ جدیدیت کا بنیادی ترین مطالبہ یہ ہے کہ اسے انسانی شعور، تاریخ اور نیچر میں واحد معرف (definer) کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ مذہب اسی نوع کے مطالبے کو اپنے واحد حاملِ حق ہونے کی صورت میں سامنے لاتا ہے، اور اس دعوے کا بنیادی دائرہ انسانی شعور ہے۔ جدیدیت اور مذہب/مذاہب کے مابین کشمکش کا منبع یہی ناقابل تطبیق و ناقابل تسویہ موقف ہے۔ لیکن اگر مذہب اپنے واحد حاملِ حق ہونے کے دعوے سے دستبردار ہو جائے تو جدیدیت سے توافق اور تسویہ ممکن ہے۔ اسلام کے برعکس دنیا کے باقی تمام مذاہب جدیدیت کے روبرو اپنے اساسی موقف سے دستبردار ہو کر اس کے سائبان میں پناہ لے چکے ہیں۔ یہ مقصد عیسائی اور یہودی جدیدیت وغیرہ کے ذریعے حاصل کیا گیا، اور ان مذہبی جدیدیتوں نے استعمار و استشراق کا بھی خوب خوب ہاتھ بٹایا۔ لیکن اسلامی جدیدیت ابھی مکمل نہیں ہو سکی اور یہ ایک جاری منصوبہ ہے، اور اس پر کام کبھی رکتا نہیں ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز اسی منصوبے کی تکمیل کو ایک قدم آگے بڑھاتا ہے۔

اسلام بطور ایک حریف جدیدیت (Contending Modernity)

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ورلڈ ویو اپنے سائبان تلے ایسی بڑی اور جامع تعبیرات کی گنجائش رکھتا ہے جو باہم متضاد، مخاصم اور متصادم ہوں جیسا کہ اسلامی ورلڈ ویو میں شیعہ سنی صورتحال ہے۔ جدیدیت ایک مکمل ورلڈ ویو ہے اور جو ایک تہذیب کا خالق بھی ہے۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری نظام اس ورلڈ ویو کے تحت میں پیدا ہونے والے باہم متضاد اور مخاصم مظاہر رہے ہیں۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری اپنے وجودی موقف میں ایک ہی ہیں، لیکن تہذیبی مظہر میں باہم متضاد و مخاصم ہیں۔ یعنی اشتراکیت اور سرمایہ داری باہم کل کی کل سے مخاصمت نہیں رکھتے، بلکہ کچھ اساسات پر اتفاق کے بعد تہذیبی مظاہر میں تضاد اور مخاصمت کو سامنے لاتے ہیں۔ عین اسی نکتے کو مدرسہ ڈسکورسز کے منصوبے اور اس کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نکتہ جو ہم پر منصوبہ بن کر مسلط ہوا ہے، Contending Modernities کا تصور ہے اور جو جناب ابراہیم موسیٰ کی زیر نگرانی بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ عیسائیت اور یہودیت کا جدیدیت سے اختلاف کل کا کل سے اختلاف تھا، اور مسیحی جدیدیت اور یہودی جدیدیت کی تشکیل کے بعد یہ کل کا کل سے اختلاف نہ رہا بلکہ جدیدیت کے سائبان تلے ان مذاہب کی حیثیت بھی حریف جدیدیتوں (Contending Modernities) کی ہو گئی۔ یہ مذاہب اپنے واحد حاملِ حق ہونے کے دعوے سے دستبردار ہونے اور جدیدیت کے بنیادی وجودی اور تہذیبی قضایا سے اتفاق کے بعد، اظہارِ اختلاف کو جدیدیت کی شرائط پر سامنے لاتے ہیں۔ ایک کلی ورلڈ ویو اگر ایک Contending Modernity پر فائز المرام ہو جائے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ کل یہ Consenting Modernity بن جائے گا، اور یہی جدیدیت کی فتح ہے۔ اسلام کے حوالے سے جدیدیت کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے، جو علم اور مغربی سیاست میں معلوم ہیں۔

اگر جناب ابراہیم موسیٰ کی دردمندانہ ’مساعی علمیہ‘ سے اسلام بھی ایک Contending Modernity کا شرف حاصل کر لے تو اسلام کو بھی عیسائیت اور یہودیت کی طرح جدیدیت کا pet (پالتو) بنایا جا سکتا ہے، اور اس کے حاملِ حق ہونے کے دعوے سے رستگاری کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈ بک اسلامی جدیدیت کے لیے جناب ابراہیم موسیٰ کی جن خدمات کا تذکرہ کرتی ہے، ان کا اول و آخر یہی مقصد ہے۔ استعماری جدیدیت کے سائبان تلے اسلامی جدیدیت کا سفر آقائے سرسید کی نگرانی اور رہنمائی میں شروع ہوا تھا اور مدرسہ ڈسکورسز ہماری شکستِ تہذیب کے سفر کا ایک اگلا پڑاؤ ہے۔ لیکن اس پڑاؤ سے منزل نظر آنا شروع ہو گئی ہے کیونکہ اب سائبان امریکی ہے اور علمی، ثقافتی اور تہذیبی وسائل بے پایاں ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کی کبریت احمر یہی اسلامی جدیدیت ہے، اور جس کے حصول کو جناب ابراہیم موسیٰ نے خانہ زاد پیادوں اور سواروں کی بڑی تعداد کے تعاون سے زیادہ منظم اور نتیجہ خیز بنا دیا ہے۔ اسلامی جدیدیت کی تشکیل کے بعد اس کو بھی مسیحی اور یہودی جدیدیتوں کے پہلو بہ پہلو، اور مغربی جدیدیت کے سائبان تلے، حریف (Contending) جدیدیتوں میں شمولیت کا شرف حاصل ہو جائے گا۔ جدیدیت اور اسلام میں جو حق و باطل کا تضاد و اختلاف ہے، اس کا خاتمہ ایک قابلِ حصول مقصد کے طور پر یقینی ہو جائے گا۔ اس کا سادہ مذہبی مطلب یہ ہے کہ نعوذ باللہ حصرِ حق صرف ہدایت میں نہیں ہے، بلکہ ابوجہل کو ابوالحکم ماننے کے دلائل بھی یکساں مذہبی سچائی رکھتے ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل سے وہ خواب شاید پورا ہو جائے جو مغربی جدیدیت نے دو صدیاں قبل دیکھا تھا، اور جس کے حصول میں ہمارے کئی جدید اساطین بھی بدل و جاں معاون رہے ہیں۔

ڈاکٹر فضل الرحمن کی آمدِ ثانی

مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈ بک کے مطابق جناب ابراہیم موسیٰ کے ساتھ کچھ دیگر احباب بھی ڈاکٹر فضل الرحمٰن سے براہ راست شاگردانہ تعلق رکھتے ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کے علمی ایجنڈے کو دیکھنے کے بعد یہ کہنا قرین انصاف ہے کہ اپنے استاد محترم کی طرح یہ پروفیسر صاحبان بھی عملاً مغربی جدیدیت کو اسلام کا واحد معرف (Sole Definer) بنانے کی تگ و دو میں زندگی کھپائے ہوئے ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز پاکستان میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی فاتحانہ آمدِ ثانی ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن کو اگر اسلامی جدیدیت کا “عالمِ اعظم” کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، کیونکہ وہ اسلامی جدیدیت کی تشکیل کے منصوبے کی سب سے بڑی علمی شخصیت ہیں۔ اسلامی جدیدیت کے علمبردار دیگر مفکرین کی حیثیت محض بےمغز کودکانِ جدیدیت کی ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز دراصل ڈاکٹر فضل الرحمٰن ہی کی پیش کردہ اسلامی جدیدیت کو مسلم معاشروں میں فروغ دینے اور واحد اسلامی معروف (norm) کے طور پر قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی پوری تعبیرِ دین اسلامی جدیدیت کا نہایت ریڈیکل منصوبہ ہے، اور مدرسہ ڈسکورسز جدید سیاسی، معاشی اور ادارہ جاتی وسائل سے مسلم معاشروں میں عین اسی اسلامی جدیدیت کی normalization کی عملی کاوش ہے۔ مغربی جدیدیت اپنے ’عملی پہلوؤں‘ میں ایک خودکار normalization کا طویل تاریخی پراسیث رہی ہے اور جو بےمثل عالمگیر کامیابی حاصل کر چکا ہے۔ عملی جدیدیت کے اس غیرمعمولی بہاؤ میں اسلامی جدیدیت کے فکری منصوبے کی کامیابی کے امکانات وقت کےساتھ قوی ہوتے جا رہے ہیں، اور مدرسہ ڈسکورسز کا اگر کوئی ’پیغام‘ ہے تو یہی ہے۔

اس میں یہ دیکھنا اہم ہے کہ جب ڈاکٹر فضل الرحمٰن اپنی زندگی میں اسلامی جدیدیت کا منصوبہ لے کر اس کے نفوذ و نفاذ کے لیے پاکستان تشریف لائے تھے تو مزاحمت کی نوعیت کیا تھی، اور اب کیا صورت حال ہے؟ اس سے کم از کم دو نتائج ضرور اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ روایت کو سربلند رکھنے اور مغربی جدیدیت کے زیر سایہ پیدا شدہ اسلامی جدیدیت کو چیلنج کرنے والی مذہبی قوتیں فی زمانہ قریب المرگ ہیں۔ گزشتہ صدیوں میں جدیدیت کے روبرو ہمارے علما نے جو جعلی علمی موقف اختیار کیے رکھے وہ اب گوالے کے ملاوٹی پانی کی طرح سیلاب کے ساتھ ہیں یا خس و خاشاک ہیں۔ فی الوقت ہمارے مذہبی علما کا اخلاقی دامن اور علمی ذہن دونوں خالی ہیں، اور انہیں آرام کا مشورہ دینا چاہیے اور دیندار نوجوانوں کو جانکاہ محنت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ اب مسلم ذہن اسلامی جدیدیت کو تقدیری سمجھ کر اس کے آگے سپرانداز ہو چکا ہے، اور ترکِ اسلام کے علمی اسالیب سے سمجھوتہ کر چکا ہے۔ روایتی مذہبی حلقوں کی طرف سے مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں جس طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا وہ نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ شرمناک ذہنی پسماندگی اور علمی فلاکت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اقبالؒ نے تو تہذیبی ’مے خانوں‘ کے بند ہونے کا نوحہ کیا تھا، اب ایسا لگتا ہے کہ ان ’مے خانوں‘ کی کوئی اینٹ بھی باقی نہیں رہی۔

روایت اور تاریخ

وٹگنسٹائن کے منشورِ فکر کے تتبع میں مدرسہ ڈسکورسز کی طرف سے روایت کو متفرق، سب رنگ اور مکسر ریشوں سے بنی رسی قرار دینا اس وقت آسان ہو جاتا ہے جب یہ گردن پہ لپٹ چکی ہو اور اس سے گلو خلاصی کے لیے استعماری سرجری ضروری ہو گئی ہو۔ اللہ کی رسی ہاتھ سے چھوٹ جائے تو روایت ایناکونڈا (Anaconda) بن جاتی ہے، اور مدرسہ ڈسکورسز جیسے منصوبے اس سے رستگاری کے لیے SOS کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز بنیادی طور پر تاریخ کی شرائط پر ہدایت میں قطع و برید کا منصوبہ ہے۔ ’تاریخ کی شرائط‘ سے مراد تاریخیت Historicism ہے، اور یہ نظریہ سماجی سائنسز کی بنیاد پر نہ صرف اصالتِ دین کا قطعی مختلف ادراک رکھتا ہے، بلکہ عصر حاضر میں اس کی معنویت و اطلاق کو بھی جڑبنیاد میں تبدیل کر دیتا ہے۔ تاریخیت کو علمی اصول مان لینے کے بعد دین کو ماننا محض تکلف ہے۔ یاد رہے کہ تاریخیت کا مطلب تاریخ میں ہرلحظہ ظاہر ہونے والی تبدیلی نہیں ہے یا مطالعہ تاریخ میں دلچسپی نہیں ہے جس کی طرف مدرسہ ڈسکورسز کے کچھ شرکا نے اشارہ کیا ہے، بلکہ یہ ایک علمی اور تعبیری اصول ہے، جس کو دیکھنا ضروری ہے۔ بہت مختصراً عرض ہے کہ تاریخ کے بارے میں بست (closed) و کشاد (open) کے دو بنیادی موقف ہیں۔ مذہبی آدمی عقیدے کی بنا پر ماورا کا ایسا دھیان رکھتا ہے کہ وہ بستِ تاریخ کو قبول نہیں کر سکتا۔ مغرب میں مذہب کی ہزیمت کے بعد عینیت پسندی کے نظریات اور جدیدیت کے مہا بیانیوں نے کشادِ تاریخ کے تصورات کو زندہ رکھنے کی کوشش کی، لیکن بیسیوں صدی کے آغاز تک وہ متزلزل ہو گئے اور اسی صدی کے اواخر تک مابعد جدیدیت کی طرف سے کشادِ تاریخ کے تصور کو باقی رکھنا ممکن نہ رہا۔ مذہب/ وحی کے انکار کے بعد تاریخ اور معاشرے کے بارے میں grand theories کشادِ تاریخ کو باقی رکھنے کی ناکام کوششیں رہی ہیں۔ ایسی تاریخ کا تصور جو کسی جانب کوئی روزن نہیں رکھتی، خود مختار عقل اور اس کے حامل انسان کی فطری تقدیر ہے۔ تاریخیت historicism کے تمام تصورات post-metaphysical history کے ادراک سے پیدا ہوئے ہیں، اور جو اصلاً بستِ تاریخ ہے۔ بستِ تاریخ کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ سے ماورا کوئی آئیڈیا، حقیقت یا ہستی ایسی نہیں ہے جو تاریخ اور اس میں محبوس انسان سے متعلق ہو یا اس پر اثر انداز ہو سکتی ہو۔ اگر بستِ تاریخ کو قبول کر لیا جائے، تو انسان اور دنیا کو دیکھنے کا انداز بدیہی طور پر بدل جاتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عینیت پسند نظریات اور جدیدیت کے مہا بیانیے بستِ تاریخ کے تسلط اور شعور کے انہدام کے روبرو مزاحمت کی غیرمعمولی داستان ہے جو مغربی انسان نے رقم کی ہے۔ مہا بیانیوں کا خاتمہ اصلاً بستِ تاریخ کی آمد کا اعلان ہے، یعنی post-metaphysical history کی آمد کا منظر ہے۔ بستِ تاریخ (history as closed entity) کا تصور غیر عقلی، ارادی اور وجودی ہے، اور فی زمانہ اسے ایک اصل الاصول کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب انسانی شعور کا حتمی انہدام اور عمل کا کلی غلبہ ہے۔ انسانی شعور کے انہدام کے ساتھ ہی عینیت پسندی کے نظریات اور مہابیانیے سب غیر اہم ہو جاتے ہیں، اور مابعد جدیدیت اسی صورت حال کو ظاہر کرتی ہے۔ بستِ تاریخ کا تصور مذہبی عقیدے سے براہ راست متصادم اور historicism کی بنیاد ہے۔ اسلامی جدیدیت، historicism (تاریخیت) کو قبول کیے بغیر ممکن نہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کے حاملین پر تاریخیت کے غلبے کی وجہ سے یہ بعید نہیں کہ چند سالوں تک “ابو الحکم کے اسلامی کارنامے” جیسے ماڈیولز (modules) بھی اسلامی جدیدیت کے بنیادی نصاب کے طور پر متعارف کرا دیے جائیں۔ العیاذ باللہ۔ یہ امر کہ ہیومن کنڈیشن یا احوالِ ہستی مستقل ہیں، اور تاریخ مسلسل بدل رہی ہے، دو مختلف چیزیں ہیں۔ انسانی معاشرے اور تاریخ میں تبدیلی کا انکار غیر انسانی ہے اور اس کے شعور پر مترتب اثرات سے انکار ہٹ دھرمی ہے۔ لیکن تاریخ کو انسانی ہستی کے اصل الاصول کے طور پر قبول یا تسلیم کرنا مذہبی عقیدے کی نفی ہے۔ اسلامی جدیدیت تاریخ کے بارے میں بنیادی ادراک کی تبدیلی کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ ہدایت راکب ایام ہے مرکب ایام نہیں۔ اگر تاریخ کو ہدایت کی تعبیر میں اصل الاصول کے طور پر تسلیم کر لیا جائے تو معاشرے سے مذہب کا خاتمہ ایک یقینی ہدف کے طور پر زیرعمل لایا جا سکتا ہے، اور جدیدیت کے انسانی زندگی کے واحد معرف بن جانے کے حقیقی امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ جناب ابراہیم موسیٰ اور دیگر متجددین تاریخ کی پیدا کردہ تبدیلیوں کو اصل الاصول قرار دے کر مذہب کے تعبیری مؤثرات میں مرکزی جگہ دے چکے ہیں، اگرچہ ہینڈبک میں اس کی سریں ابھی دھیمی ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز کا توشۂ سوالات اور کشکولِ جوابات

زیرِ جدیدیت انسانی تاریخ میں غیر معمولی علم کا ظہور اور غیر معمولی واقعاتی تبدیلیاں ایک بدیہی امر ہے۔ ان جدید مظاہر کی درست یا جائز تفہیم کی عدم فراہمی اور ہدایت سے ان کی نسبتوں میں فکری خلفشار کی وجہ سے ہمیں موجودہ صورتحال کا سامنا ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈ بک میں دیے گئے سوالات اسلامی جدیدیت کی تہہ میں پوری قوت سے کارفرما تاریخیت زدہ شعور کے عکاس ہیں۔ یہ شعور مکمل طور پر کولونائزڈ (مستعمَر) ہے اور جدیدیت کے پیدا کردہ افکار و احوال اور اس کی پیداکردہ دنیا پر سوال اٹھانے کی کوئی انسانی استعداد، فکری صلاحیت اور اخلاقی حمیت نہیں رکھتا۔ مدرسہ ڈسکورسز میں سرمائے اور طاقت کی حرکیات چونکہ فیصلہ کن عامل کے طور پر داخل ہے، اس لیے سوالوں کی لوکال (locale) کٹہرا ہے اور ان کی نوعیت تفتیشی ہے۔ سوالات صرف اسلام پر، دینی روایت پر اور مسلم معاشروں کے بچے کچے اداروں پر اٹھائے جا سکتے ہیں اور ان کے جوابات صرف جدیدیت کے تناظر اور اس کے پیدا کردہ فکری وسائل میں رہتے ہوئے دیے جا سکتے ہیں۔ یعنی “اسلام کا محاسبہ اور یورپ سے درگزر” کوئی شاعرانہ بات نہیں، جدید مغربی جامعات کا علمی طریقہ کار اور مدرسہ ڈسکورسز کی اساسی منہج ہے۔ اسلامی جدیدیت، استشراق کی دروں کاری ہے، اور اس کے سوالات کی نوعیت علمی سے زیادہ ہمیشہ تفتیشی رہی ہے۔ سوالات کی تفتیشی نوعیت ہی کی وجہ سے apologetica پیدا ہوتی ہے، جو محکوموں کے علمی ڈسکورس کا نام ہے۔ apologetica سیاسی غلبے کی صورت حال میں، اس غلبے کی شرائط پر محکوم معاشرے کے علم کی تشکیل نو ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز اصلاً انہیں معذرت خواہانہ علوم کو ہمارے اصل علوم کے طور پر پیش کرنے کے نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ اس کام کے لیے ڈاکٹر فضل الرحمٰن سے بہتر بھلا کون آدمی ہو سکتا ہے؟ وہ اس پورے منصوبے کے patron saint ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈبک میں سوالات کی تین فہرستیں دی گئی ہیں جن کو دیکھنا ضروری ہے۔ ان سوالات کی حیثیت ’امتحانی‘ تیاری کا منہج متعین کرنے جیسی ہے۔ ایک فہرست ’مرکزی‘ سوالات کی ہے، دوسری سائنسی سوالات کی ہے، اور بیچارے علم الکلام پر صرف ایک ہی سوال ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان سوالات کی اہمیت سے انکار نہیں، اور تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ وہی سوالات ہیں جو استعماری جدیدیت کی آمد کے بعد سے اسلامی روایت اور تہذیب پر مسلسل اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ ان سوالات کے اہم، بنیادی اور جواب طلب ہونے سے انکار ہٹ دھرمی ہو گی۔ لیکن ان سوالات کے تہذیبی سیاق و سباق کو منہا کرنا استشراقی تتبع میں مدرسہ ڈسکورسز کی بنیادی پالیسی ہے۔ ان سوالات کو دیکھ کر یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی حیثیت ٹانگے میں جتے گھوڑے کی آنکھوں پر چڑھے نیم کھوپوں جیسی ہے جو گھوڑے کے احاطۂ بصارت (field of vision) اور مقصدِ بصارت کو متعین کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گھوڑے کی بصارت کام نہیں کر رہی، اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی بصارت پورا کام کر رہی ہے۔ ان نیم کھوپوں کا مقصد یہ ہے کہ گھوڑے کی بصارت اس کے اپنے لیے نہیں بلکہ تانگے کے لیے کام کرے۔ مدرسہ ڈسکورسز کے شرکا کے تجرباتی مکشوفات پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ محدد بصارت کیسے کام کرتی ہے، اور نوٹرے ڈیم والوں کی بصیرت کس قدر گہری ہے۔ ڈسکورس کا مطلب حریت شعور میں کی گئی علمی سرگرمی نہیں ہوتا۔ ڈسکورس کا مطلب طاقت اور سرمائے کی تحدیدات اور اہداف پر کی گئی علمی سرگرمی ہے۔ ڈسکورس اصلاً ایسے ہی مبحث اور مکالمے کا نام ہے جو سیاسی طاقت کی فوری ضروریات کے تحت، اسی کے معاشی وسائل سے، اسی کے طے کردہ یک طرفہ تفتیشی سوالات پر، اسی کی زیر نگاہ واقع ہوتا ہے اور شام کو رپورٹ داخل کرانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ جناب ابراہیم موسیٰ نے جو رپورٹ داخل کرائی ہے، وہ بہت حوصلہ افزا ہے۔ لیکن کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جناب ابراہیم موسیٰ کے لیے رپورٹ داخل کرانا کیوں ضروری ہے؟ اس لیے کہ علم ’دفتری‘ کام بن جائے تو رپورٹ داخل کرانا ضروری ہوتا ہے۔ ’دفتر‘ جدید طاقت کی تشکیل ہی کا ایک نام ہے، اور ہر ’دفتری‘ چیز طاقت اور سرمائے کی حرکیات کا حصہ ہوتی ہے۔

مدرسہ ڈسکورسز کے سوالات جس تہذیبی interface پر اٹھائے گئے ہیں، اس پر دو امور پہلے سے طے شدہ ہیں۔ ایک یہ کہ سوالات کی نوعیت ایسی ہو جو مباحث یا ڈسکورسز میں ڈھلتے ہی طالب علم کی انفرادی، فکری اور تہذیبی صورت حال کی normalization کو ممکن بنا دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی تہذیب، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو متداول اور غالب فکری موقف رکھتی ہے، اس کو علمی طور پر نہ صرف مسلمانوں کے لیے قابل قبول بنا دیا جائے اور اسلام کی تعبیر میں بھی فیصلہ کن عامل کی حیثیت دے دی جائے، بلکہ مسلمان اسے واحد علم سمجھ کر اس کے فروغ کا کام بھی اپنے ذمہ لے لیں۔ دوم یہ کہ سوالات کی نوعیت ایسی ہو جس میں جدیدیت کی حیثیت normative ہو، اور وہ خود مرکزی تو خیر کیا، ضمنی سوالات کا موضوع بھی نہ ہو۔ چونکہ مقصود اسلامی جدیدیت کی تشکیل ہے، اس لیے جدیدیت کو علمی معروف اور حق کا معرف تسلیم کرنے کے بعد سوالات اسلام پر ہی اٹھائے جا سکتے ہیں۔ غلبے کا مطلب یہ ہے کہ جدیدیت، عمل میں مستحکم ہے لیکن غلبے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جدیدیت اپنے عملی استحکام کی طرح کوئی فکری استحکام بھی رکھتی ہے۔ جدیدیت اور اس کی پیدا کردہ تہذیب پر سوالات کو مدرسہ ڈسکورسز میں شامل نہ کرنا ایجنڈے کے تحت ہے۔ اس صورت حال کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے متجددین کے ہاتھوں میں اب کوئی کشکول بھی نہیں رہا تھا، اس لیے “مدرسہ ڈسکورسز”  کا درآمد شدہ کشکول بھی ان کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا ہے۔

جدیدیت اور اسلام: چند گزارشات

مدرسہ ڈسکورسز کے تہذیبی پس منظر کے حوالے سے ایک دو باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ گزارش ہے کہ ہمارے لیے اٹھارھویں صدی کایاکلپ کی صدی ہے جس میں زوال، تہذیبی خلفشار اور استعمار نے مسلم معاشروں کو اپنی گرفت میں لینا شروع کیا۔ یہ ایک طویل عمل تھا جس کے بیسیوں پہلوؤں کو دیکھنا ضروری ہے، لیکن اس میں تین پہلو زیادہ اہم ہیں:

(الف) مخاصمانہ بدلتے ہوئے حالات کے دباؤ میں دینی روایت اور ہدایت کی معنویت ازسر نو “سمجھنے” کا آغاز ہوا، اور اس میں داخلی اور خارجی دونوں طرح کے اہلِ علم شامل تھے۔ داخلی طور پر اس سرگرمی کے سب سے بڑے اور اولین نمائندے حضرت شاہ ولی اللہؒ ہیں۔ دین کو “سمجھنے” کی علمی سرگرمی کا فوری نتیجہ ہمارے ہاں حنفی وہابی کے شدید مناقشے کی صورت میں سامنے آیا، اور سنہ ۱۸۵۷۸ء کی جنگ آزادی کے بعد دین کو “سمجھنے” کا عمل مناقشے اور فرقہ واریت کا ایک مستقل سیلاب بن کر مسلم شعور اور معاشرے پر مسلط ہو گیا۔ انیسیویں صدی کے اوائل سے اہلِ استعمار بھی استشراق اور دیگر کئی عنوانات سے اس سرگرمی میں شریک ہو گئے۔ اس داخلی اور خارجی علمی سرگرمی کا بنیادی سوال یہ تھا کہ “اسلام کیا ہے؟” مسلم معاشرہ “سمجھنے” کے کام میں ایسا جتا کہ ہدایت کی بدیہی معلومیت اور اس کے دوٹوک مطالبات طاق نسیاں میں پڑے گرد ہو گئے۔ “سمجھنے” کے عمل نے دینی اور دنیوی طور پر ہمیں جہاں پہنچا دیا ہے اب تو ہمیں اس کی بھی کوئی “سمجھ” نہیں آتی۔ ہماری موجودہ صورت حال میں گزشتہ دو سو سالہ حاصلاتِ فہم کا براہ راست دخل ہے، اور یہ عجیب تر ہے کہ ہم شرمندہ ہونے کی بجائے ان پر فخر کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ “سمجھنے (understanding) ” کی سرگرمی میں فیصلہ کن عامل تاریخ ہوتی ہے، اور “سمجھنے” کے عمل میں ماورائے تاریخ کوئی عنصر باقی نہیں رہ سکتا۔ “سمجھنے” کی سرگرمی ایمانی محتویات کو historicize اور positivize کرنے اور انسانی شعور کی شرائطِ تاریخ پر تشکیل کا نام ہے۔ ہمارے ہاں “سمجھنے” کی سرگرمی زیادہ تر ایمانیات اور سیاسیات کے دو موضوعات پر مرتکز رہی ہے۔ داخلی اور خارجی طور پر “سمجھنے” کی اس سرگرمی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سوائے عبادات کے کسی بھی شعبے میں اسلام کی کوئی تہذیبی معنویت باقی نہیں رہی، اور یہ ایک ذاتی اور موضوعی (subjective) فہم کے طور پر یقیناً باقی ہے۔ انتشار کی اس صورت حال میں مدرسہ ڈسکورسز اسلام کی مغرب پسند کسری تفہیمات کو ایک تہذیبی معنویت دینے کا منصوبہ ہے۔

(ب) ہماری گزشتہ دو سو سالہ علمی تاریخ میں ایک سوال غیر حاضر ہے کہ جن داخلی اور خارجی تاریخی حالات میں “اسلام کیا ہے؟” کا سوال پیدا ہوا ہے، وہ کیا ہیں؟ داخلی حالات میں زوال کی “فہم” ضروری تھی، اور وہ “فہم” آج تک چند ایک تقدیری اور اخلاقی بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ زوال سے پیدا شدہ اختلالِ حواس میں ہم نے یہ بھی فرض کر لیا تھا کہ دین کا درست “فہم” کھو گیا ہے، اور اسی باعث دین سے وابستگی میں کمزوری در آئی ہے، اور دین سے کمزور وابستگی ہمارے زوال کا سبب ہے۔ “فہم دین” کے کارخانے ایسے چلے کہ اب ان کا خام مال ہی نایاب ہو گیا ہے۔ ہر چیز “فہم” کی چھاننی سے گزر کر دھول بن چکی۔ “فہم” کی گرم بازاری کے باوجود ہم یہ نہ “سمجھ” سکے کہ زوال کوئی مذہبی مسئلہ نہیں، بلکہ تہذیبی اور تاریخی مسئلہ ہے اور دنیا کی ہر تہذیب کو درپیش رہا ہے، اور اسے انہی شرائط پر دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

خارجی حالات میں اہم سوال یہ تھا کہ “جدیدیت اپنی فکر میں اور اپنے عمل میں کیا ہے؟”  “جدید علوم” کے زیرعنوان کسی حد تک اس موضوع پر گفتگو کی کوشش ہوئی ہے، لیکن وہ محض مضحکہ خیز ہے، اور یہ صورت حال آج تک چلی آتی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اکبر الہ آبادیؒ نے “جدیدیت بطور استعماری کلچر” کو اور اقبالؒ نے “مغرب بطور تہذیبی فکر” کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور دونوں اصلاً جدیدیت ہی کے سوال کو ایڈریس کر رہے ہیں۔ لیکن دونوں نے ثقہ علمی روایت کی عدم موجودگی میں شاعری کو بطور ٹول استعمال کیا۔ افسوس کہ اپنی روایت کو “سمجھنے” کے عمل میں جو علوم پیدا ہوئے، وہ اس قدر ردی اور جعلی تھے کہ ان میں مدرسہ ڈسکورسز کی طرح کوئی نیوٹرل علمی سوال جگہ ہی نہیں پا سکتا تھا، اور سوالات صرف اسلام پر اٹھائے جا سکتے تھے۔ سیاسی غلامی میں پیدا ہونے والے ہمارے داخلی علوم جدیدیت کے کسی بھی نظری اور عملی پہلو پر سوالات کی ذرہ بھر گنجائش بھی پیدا نہ کر سکے۔ حیرت ہے کہ تاریخی تجربے کی بدیہیات بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ مدرسہ ڈسکورسز ہمارے تہذیبی انتشار کی اس صورت حال میں مغرب کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانےکا نیا عنوان ہے۔ مضمون وہی پرانا ہے۔

(ج) جدید علوم تاریخ کو صرف سلسلۂ واقعات کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ اس کی ایک نظری اور تعبیری معنویت کو سامنے لاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں گزشتہ دو سو سال میں تاریخ کی تبدیلی کا ادراک بدیہی اور چند ایک پست اور زیادہ تر غیرمتعلق اخلاقی قضایا تک محدود ہے۔ تاریخ کا بدیہی اور پست اخلاقی ادراک ہمارے مذہبی متون کی تعبیر میں اصول اول کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز اس صورت حال کو منضبط کرنے اور مذہبی متون کو جدید تاریخی مؤثرات کے تابع کر دینے کا منصوبہ ہے تاکہ ہدایت کی خودمختار حیثیت کو عملاً ختم کیا جا سکے۔

جدیدیت اور اسلام: کچھ فراموش سوالات

گزارش ہے کہ جدیدیت اور اسلام کے حوالے سے مندرجہ ذیل سوالات کو زیربحث لانا ضروری ہے:

۱۔ کیا اسلام اور جدیدیت اپنے اساسی بیانات میں باہم متفق ہیں؟ اگر ’’ہاں‘‘ تو اس اتفاق کی تفصیل کیا ہے؟ اور اگر ’’نہیں‘‘ تو تضاد اور تخالف کی نوعیت کیا ہے؟

۲۔ شعورِ انسانی، حیاتِ انسانی اور کائنات کے آغاز و انجام کے انتہائی اساسی موقف میں جدیدیت اور اسلام بالکل متضاد اور باہم یک نگر (mutually exclusive) موقف رکھتے ہیں۔ اسلامی جدیدیت کی تشکیل میں ان کو نظر انداز کرنے کے مقاصد کیا ہیں؟

۳۔ تہذیبوں اور معاشروں میں تعامل اور لین دین تاریخی معمول رہا ہے۔ لیکن کوئی تہذیب اپنے اساسی تصورات دوسری تہذیب سے مستعار نہیں لیتی۔ موجودہ صورت حال میں جدیدیت ایک عالمگیر تہذیب بن چکی ہے، اور روایتی تہذیبیں اپنی بچی کچی فکر اور ہیئتوں کے ساتھ جدیدیت کی بنائی ہوئی دنیا میں بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ جدیدیت کی عالمگیریت کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اب کوئی تہذیب اپنے اساسی اصولوں پر بھی باقی نہیں رہ سکتی۔ اس کی بڑی مثال جدید چین ہے جس کے اساسی تہذیبی اصول بھی جدیدیت سے حاصل ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے اسلام کو اپنی اساسِ تہذیب کے طور پر باقی رکھنا ہے یا جدیدیت کو اپنی مکمل تہذیبی اساس کے طور پر اختیار کرنا ہے؟ مدرسہ ڈسکورسز کے زیراہتمام اسلامی جدیدیت کا منصوبہ اسلام کو تہذیبی اساس کے طور پر ختم کرنے کا منصوبہ ہے۔ کیا ہم اسلام سے رستگاری (emancipation) کا شعوری فیصلہ کر چکے ہیں؟

۴۔ اس بات کا امکان ہے کہ متجددین مغربی جدیدیت کے ہمارے بیان کو نادرست سمجھتے ہوں اور یہ الزام رکھتے ہوں کہ ہم جدیدیت کی طرف غلط موقف منسوب کرتے ہیں۔ لیکن رستگاری (emancipation) اور عقلِ خود مختار مغربی جدیدیت کے لاینفک اجزا ہیں۔ ان دو تصورات کو اسلامی جدیدیت میں کن اصولوں کے تحت شامل کیا گیا ہے اور وہ اصول کیا ہیں؟

۵۔ جدیدیت اور تحریک تنویر کی رستگاری (emancipation) ارادی ہے، اور یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ یہ رستگاری کس چیز سے ہے۔ ارادی ہونے سے ظاہر ہے کہ یہ اپنے موقف کے علمی دلائل نہیں رکھتی، اور تمام علمی تشکیلات اور استدلالات اس بنیادی مفروضے تک پہنچاتے نہیں ہیں، اس سے پھوٹتے ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کی اسلامی جدیدیت ان مبادیات کو problematize کرنے کے کیا فکری وسائل رکھتی ہے؟

۶۔ جدیدیت کی پوری نظری اور عملی تشکیل میں حق نامعلوم ہے، اور اعمال صالحہ غیرمطلوب ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کی اسلامی جدیدیت کا فکری شجرہ نسب کیا ہے؟

۷۔ مدرسہ ڈسکورسز کے شرکا استعمار اور استشراق پر بھی کوئی موقف رکھتے ہیں یا نہیں، اور اس کے منابع کیا ہیں؟

۸۔ جیسا کہ معلوم و معروف ہے، مسیحی اور یہودی مذاہب کی نئی تشکیلات جدیدیت کی شرائط پر سامنے لائی گئی ہیں، اور عین وہی مقاصد اسلامی جدیدیت کے ذریعے حاصل کرنا مقصود ہے۔ اسلامی جدیدیت کی تشکیل پر روانہ ہونے سے پہلے، کیا مدرسہ ڈسکورسز کے شرکا ان مذہبی جدیدیتوں کے نتائج مسلمانوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں؟

۹۔ اگر مدرسہ ڈسکورسز ایک علمی سرگرمی ہے اور سیاسی منصوبہ نہیں ہے تو سوالات صرف اسلام پر ہی کیوں اٹھائے جا رہے ہیں؟ اور جدیدیت کو ایک norm کے طور پر کیوں متعارف کرایا جا رہا ہے؟ جدیدیت کو ایک historical norm سے ترفع دے کر ایک ontological norm کا درجہ دینا علمی دیانت کے منافی ہے۔

سوالات کی یہ فہرست ظاہر ہے کہ غیر حتمی ہے، اور مدرسہ ڈسکورسز کی اسلامی جدیدیت کی علمی منہج اور تہذیبی مقصد پر علمی ضرورت کے تحت مزید جائز سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

“جدید“ علم الکلام اور جدید علوم

گزارش ہے کہ مذہب اور جدیدیت کے مابین مباحث میں علم الکلام کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے۔ کئی حلقوں میں جدید علم الکلام کی تشکیل کی ضرورت اور نئے کلامی منصوبوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ معتزلہ، اشاعرہ وغیرہ کے اکا دکا غیر سیاقی حوالے بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ متجددین اسلامی جدیدیت کی تشکیل، مذہب کو دی جانے والی رنگ برنگی تعبیری لگاموں اور مذہب کے محاصرے کے لیے نظری اور سائنسی علوم کی deployment کو بھی “جدید علم الکلام” قرار دیتے ہیں۔ اکثر مخلص اہل مذہب بھی اس شوق میں ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ایک نئے علم الکلام کی ضرورت ہے، اور ان کی طرف سے جو نئی تعبیرات سامنے آتی ہیں وہ مسائل کو سمجھنے میں نہ صرف یہ کہ معاون نہیں ہوتیں بلکہ خلجان ذہنی میں اضافہ کرتی ہیں۔ “جدید” علم الکلام کی بات کرتے ہوئے ہمیں اپنی مطلق علمی زبوں حالی کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اگر کسی ٹھیٹھ علمی معیار پر مذہب کا دفاع کیا جائے تو تعلیم یافتہ مذہبی آدمی کو بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ بات مذہب کے خلاف ہو رہی ہے یا مذہب کے حق میں؟ ایسی صورت حال میں مدرسہ ڈسکورسز نے چند ایک بنیادی باتوں کے ارادی اغماض سے، اور علم الکلام کی مجرد ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے نہایت چالاکی سے اس تصور کو appropriate کیا ہے تاکہ داخلی وسائل کو بھی مذہب اور روایت کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ “جدید” علم الکلام کی بحث میں مندرجہ ذیل پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:

(۱) کلاسیکل اور جدید علم الکلام کے تہذیبی پس منظر کو نظرانداز کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔ سیاسی طاقت کی حاضر و موجود صورتِ حال علمی سرگرمی پر لازماً اثرانداز ہوتی ہے۔ کلاسیکل علم الکلام دورِ عروج میں سامنے آنے والے ایک بڑے چیلنج کا جواب (response) تھا۔ دورِ زوال میں شکست خورہ معاشرہ جواب (response) کے امکانات سے خالی ہوتا ہے کیونکہ علم اور عمل کی صرف دو صورتیں، یعنی مداہنت یا مزاحمت ہی ممکن ہوتی ہیں۔ جدید علم الکلام دورِ زوال میں سامنے آنے والی مداہنت ہے، اور شکست کی علمی تشکیل ہے۔

(۲) جدید علم الکلام میں ’تاریخ‘ ایک تعبیری ترکیب ( hermeneutical device) ہے جس کا براہ راست مقصد مذہب اور روایت کو ادھیڑنا ہے، اور زمانی مؤثرات کے تابع کرنا ہے۔

(۳) کلاسیکل علم الکلام مذہب کی روایتی شناخت اور ساخت کو باقی رکھنے کی مستقل اور بھرپور کوشش تھی۔ کلاسیکل علم الکلام، یونانی فلسفیانہ علوم میں مذہب مخالف عناصر کا بہت گہرا تہذیبی شعور سامنے لایا تھا، مثلاً علم اور وحی کے مابین وحی کی اولیت و حاکمیت، عقل کے مواقف، شعور اور وجود کی فکری نسبتیں، عقیدے کو نظری بنانے کا رد اور اس کے جوابات (responses)، یونانی علوم کی تعبیری تزویرات کا رد، یونانی تہذیب اور اس کے فلسفیانہ علوم کو norm تسلیم کرنے سے انکار وغیرہ۔ جدید علم الکلام تہذیبی سطح پر علمی مکالمے کی بنیادی شرائط ہی سے ناواقف ہے، اور استعماری جدیدیت کے علمی معروفات کو مذہب پر لادتے چلے جانے کا نام ہے۔ مثلاً تاریخیت (historicism) ہی کو لیجیے۔ جدید علم الکلام اس پر کوئی سوال اٹھانے کی حمیت اور سکت نہیں رکھتا، بلکہ یہ اس کے معروفات کو تعبیری عجلت میں مذہب پر وارد کرنے کو ہی علمی سرگرمی خیال کرتا ہے۔

(۴) زوال تہذیبی ادراک کے دھندلانے اور اجتماعی عمل کے غیرنتیجہ خیز ہونے کی حالت ہے، یعنی زوال اجتماعی شعور اور اجتماعی عمل کی ایک خاص صورت حال کا نام ہے، اور جو ناگزیر طور پر شکست میں ظاہر ہوتی ہے۔ زوال بیک آن تاریخ کا سیاسی کھلونا بننے اور اپنے بنیادی متون کو تعبیری بازیچہ بنانے کی حالت ہے۔ ایسی تہذیبی فضا میں شعور ایک نابینا کی طرح غیر تہذیب سے عینیت کا راستہ ٹٹولتا ہے، اور اجتماعی عمل تطبیق کی ڈگمگاہٹ اختیار کرتا ہے۔ ہماری گزشتہ دو سو سالہ تاریخ کے یہ بنیادی مظاہر ہیں۔ جدید علم الکلام کی علمی منہج عینیت کی شرط پر تشکیل پائی ہے اور عملی منہج تطبیق کے اصول پر۔ مدرسہ ڈسکورسز اسی صورت حال کی formalization ہے۔ جدید علم الکلام کی کل رسومیات عینیت اور تطبیق ہے۔

(۵) ہمارے ہاں احیا اور نشاۃ الثانیہ وغیرہ کی تمام تر لغویات تہذیبی شکست کے عدم ادراک سے پیدا ہوئی ہیں۔ شکست کا تہذیبی ادراک مزاحمت پیدا کرتا ہے۔ دور زوال میں ہمارے ہاں تاریخ کا ادراک صرف “عروج کے کھو جانے” کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ “عروج چلا گیا”، ہم یہ نہیں کہتے کہ “شکست ہو گئی”۔ ہمارے ہاں “عروج کے خاتمے” کا معنی “تہذیبی شکست” نہیں ہے۔ اس کھوٹے ادراک سے ایک تہذیبی ناسٹیلجیا (nostalgia) پیدا ہوا جس نے ہمارے شعور و عمل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہم جلد ہی احیا و نشاۃ الثانیہ کی لغویات کے طومار میں ڈوب گئے۔ تہذیبی ناسٹیلجیا جمالیاتی تخیل کے اظہار کا جائز دائرہ ہے، لیکن یہ کسی علمی تشکیل کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ ہمارے متداول علوم کے جعلی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ وہ اس ناسٹیلجیا سے پیدا ہوئے ہیں، اور تاریخ کو دیکھنے کی آنکھوں سے ہی محروم ہیں۔ ہمارے اختلال کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہو سکتی کہ تہذیبی ناسٹیلجیا کے جمالیاتی مظاہر کو قابل مذمت سمجھتے ہیں، اور ان احوال میں پیداشدہ ہفواتِ علم پر فخر کرتے ہیں۔ شکست کا تہذیبی ادراک حمیتِ شعور اور مزاحمتِ عمل کو باقی رکھتا ہے۔ جدید علم الکلام اسی ناسٹیلجیا کا اظہار ہے اور علمی فریب کاری سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ شکست کا سامنا کرنے کا مذہبی اصول جہاد ہے، جسے علم اور عمل میں ایک ایسی تہذیبی مزاحمت کے طور پر سامنے لانے کی ضرورت ہے جس میں معاشرہ اور حکومت دونوں ایک ساتھ شریک ہوں۔

(۶) متجددین اور اسلامی جدیدیت کی منہجِ علم نے استشراق سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ دنیا کی کوئی علمی روایت داخلی تضادات سے خالی نہیں ہوتی، اور یہ کبھی اساسی نہیں ہوتے۔ یعنی جدلیات علم اور فکر میں جاری ہوتی ہے، ہدایت/اساسی ورلڈ ویو میں نہیں۔ تہذیب اور روایت کی داخلی جدلیات کا اصلی مقصود متفق علیہ ہدایت/ورلڈ ویو کو علم میں سامنے لانا ہوتا ہے۔ استشراق نے اسلامی تہذیب کی داخلی علمی اور نظری جدلیات کو ہدایت تک توسیع دینے کا کام کیا ہے، اور اسلامی جدیدیت نے اسی علمی اصول اور منہج کو اختیار کیا ہے۔ اسلامی جدیدیت نظری علم کی جدلیات کو ہدایت تک پھیلا کر اس میں نقب لگانے کا کام کرتی ہے، اور اس وقت بیسیوں اہل علم اسی کام میں جتے ہوئے ہیں۔ ”جدید علم الکلام“ استشراق کے بدترین چربے کے علاوہ کچھ نہیں۔

(۷) ہمارے نزدیک جدیدیت یا مغرب کی درست تفہیم ایک جائز اور ضروری تہذیبی مقصد ہے، اور اس میں جدیدیت یا مغرب کی ’حقیقت‘ اور ’واقعیت‘ دونوں شامل ہیں۔ یہ ایک علمی مقصد ہے جو عمل کے لیے یقینی مضمرات رکھتا ہے، اور شعور کی حریت کے بغیر ناقابل حصول ہے۔ اس علمی کوشش کے ذرائع و آلات (tools) معروف ہیں اور بآسانی دستیاب ہیں، اور جو فراہم نہیں ہیں انہیں تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں مغرب یا جدیدیت سے غلط باتیں منسوب کرنا حصولِ مقصد میں رکاوٹ اور نہایت قابل مذمت ہے۔ یہ اپروچ خود ہمارے لیے مہلک ہے، اور مغرب کے غلبے اور مذہب کے خاتمے کو ایک امر واقعہ بنا دیتی ہے۔

یہ واضح رہے کہ جدیدیت شعور میں ارادی ہے، اور عمل میں تقدیری ہے۔ اور جدیدیت کو دیکھنے کے مذہبی تناظر دو ہیں: ایمان اور عمل صالح۔ جدیدیت کے حق و باطل ہونے کا فیصلہ ایمانی تناظر سے مشروط ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جدیدیت اپنے کل اور جزو میں باطل ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایمانی تناظر میں جدیدیت کا اساسی ورلڈ ویو قطعی باطل ہے۔ اور جزو میں باطل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جدیدیت عمل کی ایک غیرمعمولی تقویم کی حامل ہے، لیکن وہ قطعی عمل صالح نہیں ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے احباب فوراً مغربی معاشرے میں خیر کے مظاہر کی ہچکیانہ دلیل لائیں گے۔ یہ محض التباس ہے کیونکہ وہ اس ’عمل خیر‘ کی وجودیات سے بےخبر ہیں۔ عصر حاضر میں عمل صالح کی بازیافت جدیدیت کے تقدیری پہلوؤں کی تنقیح کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے، اور اس پر گفتگو کا یہ محل نہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم نے علم و عمل کا جو توشہ عصر حاضر کے سامنے پیش کیا ہے، وہ محض شرمناک ہے۔ اقبالؒ نے شاید ایسے ہی کسی لمحے کی برافروختگی میں فرمایا ہو گا:

زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا

تیرا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی

نوٹ:  افسوس کہ بوجوہ مدرسہ ڈسکورسز کے کئی اہم پہلوؤں پر گفتگو نہ کر سکا۔ اس میں بہت اہم مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈ بک میں دیے گئے ’دیسی‘ اور ’غیردیسی‘ شرکا کے تاثرات کا تجزیہ ہے۔ دیانتدارانہ متنی تجزیہ اس میں آباد جہانِ معنی کو کھول سکتا ہے۔ یہ تاثرات علمی سرگرمی میں اکثر کارفرما dissonance of perceptions کو سمجھنے کا وقیع ذریعہ ہیں۔ پھر تاریخیت کو ایک تعبیری ترکیب (hermeneutical device) کے طور جس طرح مدرسہ ڈسکورسز میں سامنے لایا گیا ہے، اس کا تجزیہ وقت کی ضرورت ہے۔ ہمارے متجددین نہایت نادان اور ادرک کی ایک گانٹھ کے پنساری ہیں۔ اصل پنساری ڈاکٹر فضل الرحمٰن ہیں، اور وہ ہمارے متجددین کی مانند جعلساز نہیں ہیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے فکری منصوبے کے طور پر مدرسہ ڈسکورسز کا تجزیہ تفصیل سے ضروری ہے۔ مزید یہ کہ مدرسہ ڈسکورسز روایت کے جس تصور پر کھڑا ہے اس کا تجزیہ اپنی جگہ اہم ہے۔ مجھے امید ہے کہ اہل علم ان اہم علمی پہلوؤں کی طرف ضرور التفات فرمائیں گے۔و اللہ اعلم بالصواب


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(ستمبر ۲۰۱۹ء)

تلاش

Flag Counter