دولت اسلامیہ (داعش) کے ترجمان جریدے ’دابق‘ کے ایک حالیہ شمارے میں جنگی قیدیوں کو غلام اور باندی بنانے کے حق میں لکھے جانے والے ایک مضمون میں یہ استدلال پیش کیا گیا ہے کہ جس چیز کا جواز اللہ کی شریعت سے ثابت ہے، اس کو انسان تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
اس طرز استدلال کے حوالے سے معاصر اہل علم کے ہاں مختلف زاویہ ہائے نگاہ دکھائی دیتے ہیں جن پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا:
جدید دور میں جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی ممانعت سے اتفاق کرنے والے مسلم فقہاءعموماً اس پابندی کا جواز “معاہدے” کے اصول پر ثابت کرتے ہیں۔ اس موقف کی رو سے غلامی اصلاً اخلاقی جواز رکھتی ہے اور چونکہ یہ جواز شریعت سے ثابت ہے، اس لیے ابدی ہے۔ البتہ غلام بنانا چونکہ واجب نہیں، بلکہ مباح ہے اور مباحات میں مصلحت یا دیگر اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر قدغن لگائی جا سکتی ہے، اس لیے موجودہ دور میں بین الاقوامی معاہدے کے تحت اس پابندی کو قبول کرنا بھی شرعی طور پر درست ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کسی وقت بین الاقوامی معاہدات کا موجودہ نظام موثر نہ رہے تو اصولی اور اخلاقی طور پر جائز ہونے کی وجہ سے دوبارہ غلام لونڈی بنانا درست ہوگا، چاہے اس کے متعلق بین الاقوامی اخلاقی عرف اسے ناجائز سمجھنے کا ہی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے موجودہ معاہدات کو ان کی اخلاقی بنیاد سے اتفاق کی وجہ سے، یعنی غلامی کو شرف انسانی کے منافی مان کر اس پر پابندی کو قبول نہیں کیا، بلکہ صرف معاہدے کی پابندی کے اصول پر تسلیم کیا ہے۔ جب معاہدات غیر موثر ہو جائیں گے تو مسلمان بھی پابند نہیں رہیں گے۔
اس اصول کی رو سے اگر موجودہ معاہداتی نظام قائم ہوتے ہوئے کوئی مسلمان گروہ معاہدات کا حصہ نہ ہو اور وہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانا چاہے تو اس پر کوئی اصولی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً داعش اور القاعدہ جیسے گروہ جو جدید بین الاقوامی قانون کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ انھوں نے معاہدات پر دستخط کیے ہیں، اگر وہ اس پابندی پر عمل نہ کریں تو شرعی طور پر ان پر کوئی اعتراض نہیں بنتا۔ اسی طرح عالم اسلام میں عمومی طور پر بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ موجودہ معاہداتی نظام میں غیر مشروط شمولیت کی موجودصورتحال پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اگر اس تناظر میں کوئی مسلمان حکومت غلامی پر پابندی کے معاہدے سے الگ ہونا چاہے تو مذکورہ موقف کی رو سے ایسا کرنا اس کے لیے اصولاً بالکل درست ہوگا۔
اس نقطہ نظر کی ترجمانی جناب ڈاکٹر مشتاق احمد نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں کی ہے۔ چنانچہ قیدیوں کو غلام بنانے سے متعلق داعش کے طرز عمل سے متعلق ایک استفسار کے جواب میں لکھتے ہیں کہ “جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے، اگر ایسا کرنا مسلمانوں کے مصلحت میں ہو اور اس سے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ معاہدے کی پابندی مسلمانوں کے اسی گروہ پر لازم ہوگی جو معاہدے میں شامل ہو۔ یہ پابندی دوطرفہ ہوگی۔ چنانچہ اگر دوسرا فریق اس معاہدے کی پابندی نہ کرتا ہوتو مسلمانوں پر بھی اس معاہدے کی پابندی لازم نہیں ہوگی۔ اسی طرح معاہدے کی خلاف ورزی مسلمانوں کے کسی گروہ کی جانب سے ہو تو ذمہ داری اسی گروہ پر ہوگی اور دوسرے مسلمانوں سے اس سلسلے میں نہیں پوچھا جاسکتا۔ البتہ اگر عالمی طور پر مسلمان ایک سیاسی وحدت بن جائیں اور پھر اس سیاسی وحدت کی جانب سے معاہدہ ہو تو اس کی پابندی سب مسلمانوں پر لازم ہوگی، سوائے ان کے جو اس سیاسی وحدت سے الگ مستقل حیثیت رکھتے ہوں۔ غلام بناچکنے کے بعد ان غلاموں کو وہ سارے حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت نے ان کو دیے ہیں۔”
اس ضمن میں ایک دوسرا موقف یہ ہے کہ قیدیوں کو غلام بنانے کا قانون کوئی مطلوب یا مستحب شرعی حکم نہیں، بلکہ اس کی حیثیت ایک آپشن کی ہے جس پر عمل کرنے کے لیے کسی خاص دور کے عالمی اور بین الاقوامی عرف کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ چنانچہ والد گرامی مولانا زاہد الراشدی لکھتے ہیں کہ “اسلام نے غلام اور لونڈی بنانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس دور کے عالمی عرف کے مطابق اسے جنگی قیدیوں کے لیے ایک آپشن کے طور پر برقرار رکھتے ہوئے اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے احکام وقوانین کا ایک پورا نظام فراہم کر دیا جیسا کہ آج کے عالمی عرف کے مطابق جنگی قیدیوں کے بارے میں جنیوا کنونشن کو عالم اسلام نے بھی قبول کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان وفلسطین سمیت جن مقامات پر جہاد کے عنوان سے جنگیں ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں، وہاں مجاہدین نے کسی قیدی کو غلام یا لونڈی کا درجہ نہیں دیا اور انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیے جانے والے مجاہدین نے بھی جنگی قیدیوں کے بارے میں عالمی عرف اور قوانین کا عملاً احترام کیا ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر کسی دور میں یہ عالمی عرف بھی تبدیل ہو گیا اور پہلے کی طرح کے حالات دوبارہ پیدا ہو گئے تو اسلام کا یہ آپشن بطور آپشن کے باقی رہے گا اور اس سلسلے میں قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے احکام دوبارہ نافذ العمل ہو جائیں گے۔” (ماہنامہ الشریعہ، اکتوبر ۲٠٠۶ء)
اس بحث میں ایک تیسرے نقطہ نظر کی ترجمانی سید قطب شہید اور بعض دیگر اہل فکر نے کی ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ غلامی اسلام کے مطلوب اور لازمی احکام کا حصہ نہیں تھی، بلکہ اسے عالمی سطح پر جنگوں کی عمومی صورت حال اور جنگی قیدیوں کے حوالے سے تمام قوموں کے مشترکہ طرز عمل کے تناظر میں بامر مجبوری قانونی جواز دینا پڑا تھا، تاہم اسلام نے اپنی اخلاقی تعلیمات کے ذریعے سے اس کے ناپسندیدہ ہونے کو واضح کیا اور مختلف اخلاقی اور قانونی اقدامات کر کے تاریخی طور پر اس عمل کا آغاز کر دیا جس کے نتیجے میں کئی صدیوں کے بعد عالمی سطح پر انسانی ضمیر کا اس عمل کے مکروہ ہونے اور قانونی طور پر ناجائز ہونے پر متفق ہو جانا ممکن ہوا۔ سید قطب کے الفاظ میں “وقتی طور پر اسلام نے اس کے وجود کو برداشت کیا بھی تو محض اس لیے کہ اس کے سامنے اس کے سوا اور کوئی متبادل راہ موجود نہ تھی، کیونکہ اس کے قطعی انسداد کے لیے صرف مسلمانوں کی رضامندی ہی کافی نہ تھی، بلکہ غیر مسلموں کی حمایت اور تعاون بھی ضروری تھا۔ اسلام اس وقت تک غلامی کا قطعی انسداد نہیں کر سکتا تھا جب تک باقی دنیا بھی جنگی قیدیوں کو غلام بنانے سے اجتناب کرنے کا قطعی فیصلہ نہ کر لیتی۔ بعد میں جب اقوام عالم اس سلسلے میں ایک قطعی اور مشترک حل پر رضامند ہو گئیں تو اسلام نے اس کا خیر مقدم کیا، کیونکہ یہ فیصلہ اس کے نظام زیست کے اس بنیادی اور اٹل اصول کا عین منطقی نتیجہ تھا کہ آزادی اور مساوات تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے۔” (سید قطب، “اسلام اور جدید ذہن کے شبہات” ، اردو ترجمہ : محمد سلیم کیانی، ص ۴۹، ۵۹)
اس استدلال کے بعض پہلووں پر یقینا سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، بہرحال اس طرز استدلال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب غلامی کا خاتمہ خود اسلام کا مطلوب تھا اور عالم انسانیت کا موجودہ اتفاق اسلام کی مقرر کردہ ترجیحات سے ہم آہنگ ہے تو پھر داعش وغیرہ کا یہ استدلال درست نہیں ہو سکتا کہ چونکہ اسلام نے غلامی کو جواز دیا ہے، اس لیے انسانوں کے پاس اس جواز کو ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
بعض حضرات کو اس استدلال کو درست کرنے میں تامل محسوس ہوتا ہے کہ غلامی کی تحدید اسلام کی ترجیحات میں سے تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات تاریخی طور پر درست نہیں، کیونکہ اسلامی شریعت میں جنگوں کی صورت میں قیدیوں کو غلام بنانے کی گنجائش برقرار رکھی گئی اور اسلامی تاریخ میں فتوحات کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر غلاموں کی تعداد میں اضافے کا عمل جاری رہا۔ البتہ بعد میں جب فتوحات کا سلسلہ محدود ہو گیا تو یقینا اس کے نتیجے میں غلاموں کی تعداد کم ہو گئی ہو، لیکن اسے اسلام یا اسلامی تہذیب کی “ترجیحات” کا نتیجہ نہیں کہا جا سکتا۔
ہماری رائے میں یہ تنقید درست نہیں ہے اور تاریخی صورت حال کی درست عکاسی نہیں کرتی۔ اسلامی شریعت میں غلام بنانے کے جواز کی صورتوں کی تحدید، غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرنے کی ترغیب، مختلف گناہوں کے کفارے کے طور پر غلاموں کو آزاد کرنے کی ہدایات، زکوٰة کے مصارف میں غلاموں کو آزاد کرنے کی ایک مستقل مد کے طور پر شمولیت اور حصول آزادی کے لیے مکاتبت وغیرہ جیسے قانونی طریقوں کی تشریع ایک معلوم ومعروف حقیقت ہے اور اس کی کوئی توجیہ اس کے علاوہ نہیں ہو سکتی کہ شریعت اس کی تحدید کرنا چاہتی ہے۔ یہ درست ہے کہ جنگوں کے نتیجے میں غلاموں کی تعداد میں اضافے کا راستہ مسدود نہیں کیا گیا جس کے اپنے تاریخی، عرفی اور قانونی اسباب تھے، لیکن یہ یک طرفہ عمل نہیں تھا، بلکہ اس کے بالکل متوازی غلاموں کی آزادی کا سماجی عمل بھی برابر جاری رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو تین صدیوں میں غلام باندیوں کا وجود، جو پہلے ہر ہر گھر کا حصہ ہوتا تھا، عام معاشرت میں بہت کم ہو کر عموماً شاہی خاندانوں، امراءاور اشرافیہ تک محدود ہوتا چلا گیا اور ایک مستقل معاشرتی طبقے کے طور پر ان کا وجود بتدریج ناپیدا ہوتا چلا گیا۔
اس تناظر میں خود قرآن مجید کی بعض ہدایات جو غلامی کے عمومی شیوع کے تناظر میں نازل ہوئی تھیں، بعد کے دور کے فقہاءکے لیے اشکال کا باعث بنیں۔ مثلا سورة النساءکی آیت ۲۵ میں اللہ تعالیٰ نے باندیوں سے نکاح کا آپشن اختیار کرنے کو ترجیحاً اس صورت کے ساتھ مخصوص کیا ہے جب آزاد عورت سے نکاح کے مالی وسائل آدمی کو میسر نہ ہوں اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ جس شخص کو گناہ میں مبتلا ہو جانے کا خدشہ ہو، وہی ایسا کرے، ورنہ صبر کرنا بہتر ہے۔ آیت میں اس ہدایت کی اخلاقی وجہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ باندیاں تربیت اور خاندانی حفاظت سے محروم ہونے کی وجہ سے کردار میں عفت جیسے وصف سے عموماً محروم ہوتی تھیں، جبکہ قرآن کی تلقین یہ ہے کہ انسان کو پاک دامن اور باکردار عورت سے ہی نکاح کرنا چاہیے۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے ممتاز متکلم اور فقیہ امام ابو منصور ماتریدی اپنی تفسیر ”تاویلات اھل السنة“ میں اس آیت کے تحت شافعی فقہاءکے موقف پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں جو باندی سے نکاح کو، آیت کے ظاہر کے مطابق، اس شرط سے مشروط کرتے ہیں کہ آزاد عورت سے نکاح کی مالی استطاعت انسان کو میسر نہ ہو۔ ماتریدی کہتے ہیں کہ نزول قرآن کے زمانے میں تو یہ پابندی برمحل ہو سکتی ہے جب باندیاں بکثرت اور عام دستیاب تھیں اور ان سے نکاح کے اخراجات بہت کم تھے، لیکن آج کے دور میں تو باندیاں بہت نادر ہو گئی ہیں اور جتنے خرچے میں آدمی ایک آزاد عورت سے بآسانی نکاح کر سکتا ہے، باندی کی فراہمی پر اس سے کہیں زیادہ خرچ اٹھ جاتا ہے۔
اسلامی معاشروں میں غلامی کے ادارے کے تدریجی خاتمے کے عمل کو سمجھنے کے لیے اوپر سے نیچے تک پوری تاریخ کا مطالعہ بھی اہم ہے، لیکن اگر نچلے دور کی صورت حال کو ہی دیکھ لیا جائے تو اسلامی معاشروں میں تاریخی عمل کا رخ بہت واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے جدید مغربی ڈسکورس کی ابتدا کے موقع پر پورے عالم اسلام میں کہیں بھی غلامی اس طرح معاشرے کا ناگزیر حصہ نہیں تھی کہ اس کے خاتمے کے لیے کوئی بڑی تحریک چلانی پڑی ہو یا حکومتوں کو غیر معمولی اقدامات کرنا پڑے ہوں۔ بیسویں صدی میں غلامی کے خاتمے کے بین الاقوامی معاہدات میں تمام مسلمان ممالک کسی تحفظ یا عملی الجھن کے بغیر آسانی سے شریک ہوتے گئے، کیونکہ کسی بیرونی دباو کے بغیر اپنے داخلی حرکیات کے تحت یہ معاشرے بہت پہلے سے اسی رخ پر سفر کرتے چلے آ رہے تھے۔ یوں دور جدید میں غلامی کے، غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہونے پر انسانی ضمیر کا عمومی اتفاق ہو چکا ہے جس کی پابندی فقہی وشرعی اصول کی رو سے بھی ضروری ہے اور اس کو تسلیم نہ کرنے کے لیے یہ استدلال کافی نہیں کہ مخصوص تاریخی حالات میں انسانی معاشروں کے عمومی رواج کے تناظر میں شریعت نے اس کو جائز قرار دیا تھا۔
یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدید بین الاقوامی عرف میں اگرچہ غلامی کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے، لیکن جس چیز کو شریعت میں اخلاقی طور پر جائز مانا گیا ہو، کیا اس کے متعلق انسانی سماج کے اخلاقی تصورات میں تبدیلی شریعت کے عطا کردہ اخلاقی جواز کو ختم کر سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں اس پہلو پر غور کرنا مناسب ہوگا کہ کیا شریعت نے غلامی کو اخلاقی جواز انسانی پرسپشنز سے ماورا ہو کر دیا یا اس بنیاد پر دیا کہ چونکہ انسان اسے اخلاقی طور پر جائز مان رہے ہیں، اس لیے یہ جائز ہے؟ دوسرے لفظوں میں، اگر شریعت میں غلامی کے اخلاقی جواز کی تنقیح مناط کی جائے تو کیا اس میں اس دور کے عالمی انسانی عرف اور انسانیت کے اجتماعی اخلاقی احساسات کا کوئی عمل دخل تھا یا نہیں؟ اگر تھا تو پھر کسی وقت اجتماعی اخلاقی شعور اسے غیر اخلاقی قرار دینے پر متفق ہو جائے تو اس اتفاق میں شریک ہونے کو حلال کو حرام کرنے کے زمرے میں شمار کرنا درست نہیں ہوگا بلکہ اس کی تکییف اس سے مختلف ہوگی۔
شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ نے انبیاءکی شریعتوں کے مختلف ہونے کا ایک بنیادی اصول یہ واضح کیا ہے کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو اس کی مالوف عادات اور اخلاقی تصورات سے بالکل ہٹے ہوئے احکام وقوانین کا پابند نہیں بناتا جنہیں قبول کرنا لوگوں کے لیے ذہنی طور پر ممکن نہ ہو۔ اس لیے ہر پیغمبر اپنی قوم کے رسوم ورواجات اور عادات ومالوفات کو ہی مادہ تشریع بناتے ہوئے ان میں صرف ضروری اصلاحات کرتا اور رسوم وقوانین کے پہلے سے موجود ڈھانچے کو ہی اپنی تائید اور مناسب اضافوں کے ساتھ بطور شریعت جاری کر دیتا ہے۔
جدید دور میں ساری دنیا کا نقشہ بدل دینے کے بعد مذہبی علمی روایت نے عمومی طور پر اس حقیقت واقعہ کو قبول کرتے ہوئے دینی تعبیرات اور فقہی احکام کو نئی صورت حال کے مطابق اور نئے ذہنی سانچے میں قابل قبول بنانے کا طریقہ اختیار کیا۔ تاہم بعض حلقوں کے لیے یہ ممکن نہ ہو سکا اور انھوں نے روح عصر کے خلاف لڑنے کا راستہ اختیار کر لیا۔ انھوں نے زبان حال سے یہ موقف اختیار کر لیا کہ یہ دنیا غلط بن گئی ہے، اس کو ٹھیک کر کے دوبارہ ویسی بنانے کی ضرورت ہے جس میں قدیم تعبیرات اور فقہی احکام قابل فہم اور قابل عمل بن سکیں۔ گویا فقہ اور قانون کا کام نہیں کہ صورت حال کے مطابق ہو، بلکہ صورت حال کی ذمہ داری ہے کہ فقہ اور قانون کے مطابق خود کو ڈھالے۔ یہ بات شریعت کے بیان کردہ مامورات اور واجبات کے دائرے میں تو اصولی طور پر درست ہے، لیکن مباحات اور اجتہادی امور کے دائرے میں اس کی پابندی تکلیف مالا یطاق کے زمرے میں آتی ہے جو اللہ تعالیٰ شرائع میں بھی نہیں دیتے، چہ جائیکہ اجتہادی دائرے میں اسے مقصود بنایا جائے ۔